ہفتہ، 1 اکتوبر، 2016

تنقید کی میعاد زیادہ نہیں ہوتی


محمد علم اللہ 
مشاورت کی تاریخ پر لکھی جا رہی کتاب میں ایک جگہ استادمحترم ڈاکٹر ظفر الاسلام خان سے بحث جاری تھی ، میرا کہنا تھا ۔ 
" میں تاریخ لکھ رہا ہوں اور اگر ہمارے بزرگوں نے ایسی کوئی غلطی کی ہے تو لوگوں کو پتہ چلنا چاہئے ، تاکہ آنے والی نسلیں اس کا اعادہ نہ کریں "۔ 
استاد محترم نے کہا " ٹھیک ہے آپ لکھئے پھر دیکھتے ہیں" ۔
میں نے اپنے مخصوص انداز میں مع حوالہ و دلیل تحریر مکمل کیا ،اور درست بات تو یہ ہے کہ سب کو اکھاڑ پکھاڑ کر رکھ دیا ۔
استاد محتر م نے باریکی سے تحریر کا مطالعہ کیا ، دوسرے روز مجھے بلا کر کافی دیر تک سمجھاتے رہے ، اور کہا "آپ ا س کو دوسرے انداز میں بھی لکھ سکتے تھے " ۔
اور پھر آگے انتہائی ناصحانہ انداز میں کہا جو مجھے آج اچانک پھر یاد آ گیا ۔
" تنقید کی مدت زیادہ دنوں باقی نہیں رہتی ، زیادہ سے زیادہ آپ جس پر تنقید کر رہے ہوتے ہیں ان کے دشمنان خوش ہوتے ہیں یا ایک مخصوص حلقہ اس سے دلچسپی لیتا ہے ، پھر لوگ بھول جاتے ہیں کہ آپ نے کچھ لکھا بھی تھا ، مثال کے طور پر آپ عامر عثمانی کی تجلی کو دیکھئے ، ان کا لہجہ کیسا کانٹے دار تھا ، متعدد لوگ اس کو دلچسپی سے پڑھتے ، لیکن اس کا حلقہ محدود تھا ، آج عامر عثمانی کو کتنے لوگ جانتے ہیں ؟۔ جبکہ اسی عہد میں لکھنے والے سینکڑوں نام ایسے ہیں جنھیں آفاقی حثیت حاصل ہے "۔
ظاہر ہے مزید بحث کی میرے پاس گنجائش نہیں تھی ، کتاب چھپی ، اشاعت سے قبل جن بزرگوں کے پاس نظر ثانی کے لئے کتاب گئی ، سب نے اس کو سراہا ،آج ایک اور بزرگ نے فون پر گفتگو کی ، مبارکباد دیا اور کافی دیر تک میری اور کتاب کی تعریف کرتے رہے ۔میں سمجھتا ہوں اس میں میرا کچھ بھی کمال نہیں تھا ، بس اللہ کو ایک کام لینا تھا سو مجھ حقیر کے ذریعہ لیا ،تاہم کتاب میں کچھ بھی اچھائی ہے تو اس کا سارا کریڈٹ استاد محترم کو ہی جاتا ہے جنھوں نے اس قدر دلچسپی سے میری رہنمائی فرمائی ، اللہ ان کا سایہ تادیر قائم رکھے ۔