میری ڈائری سے
محمد علم اللہ
آج کل بعض واعظ اور اہل مذہب اس امر پر بڑا زور دیتے ہیں کہ ہم بد ترین زمانے میں پیدا ہوئے ہیں ، انگریزی تعلیم اور مغربی اثرات نے ہماری خوبیوں کو نیست و نابود کر دیا ہے اور آج سے پہلے اسلامی حکومت کے دوران میں ہر طرف نیکیوں کا دور دورہ تھا ۔ تاریخ سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس خوشگوار نظریے میں صداقت کا عنصر کس قدر ہے ۔ لیکن یہ دلچسپ نفسیاتی حقیقت ہے کہ راہبانہ طبیعتیں ہمیشہ دنیا کو دار الشیا طین سمجھتی رہی ہیں۔ داتا گنج بخش اس زمانے کی نسبت جب دنیا کے سب سے بڑے "بُت شکن" نے ابھی ابھی اپنا کام پورا کیا تھا لکھتے ہیں : ( ترجمہ)
آج کل بعض واعظ اور اہل مذہب اس امر پر بڑا زور دیتے ہیں کہ ہم بد ترین زمانے میں پیدا ہوئے ہیں ، انگریزی تعلیم اور مغربی اثرات نے ہماری خوبیوں کو نیست و نابود کر دیا ہے اور آج سے پہلے اسلامی حکومت کے دوران میں ہر طرف نیکیوں کا دور دورہ تھا ۔ تاریخ سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس خوشگوار نظریے میں صداقت کا عنصر کس قدر ہے ۔ لیکن یہ دلچسپ نفسیاتی حقیقت ہے کہ راہبانہ طبیعتیں ہمیشہ دنیا کو دار الشیا طین سمجھتی رہی ہیں۔ داتا گنج بخش اس زمانے کی نسبت جب دنیا کے سب سے بڑے "بُت شکن" نے ابھی ابھی اپنا کام پورا کیا تھا لکھتے ہیں : ( ترجمہ)
" خدا وند بزرگ و برتر نے ہمیں اس زمانے میں پیدا کیا ہے جب لوگوں نے حرص و لالچ کا نام شریعت اور تکبر و جاہ و ریاست کی طلب کا نام عزت اور علم ، ریائے خلق کا نام خوف الٰہی اور دل میں کینہ پوشیدہ رکھنے کا نام حلم ، لڑائی جھگڑے کا نام بحث و مباحثہ ، ہذیان طبع کا نام معرفت ، نفسیاتی باتوں اور دل کی حرکتوں کا نام محبت۔ خدا کے رستے سے منحرف اور بے دین ہونے کا نام فقر حق تعالیٰ اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے کا نام فنا فی اللہ ، اور ترکِ شریعت کا نام طریقت رکھ لیا ہے۔
خیال رہے جس اقتباس کا ترجمہ میں نے یہاں نقل کیا ہے، وہ حضرت گنج بخش لاہوری رح کے عہد یعنی ۱۰۰۹اور ۱۰۷۲ کے درمیان کا ہے جو ہند میں محمود غزنوی کی آمد اور آس پاس کا زمانہ کہلاتا ہے ۔
0 تبصرہ جات:
ایک تبصرہ شائع کریں