ہفتہ، 1 اکتوبر، 2016

عالمی یوم ِ ترجمہ ، سینٹ جیروم اور اردو

عالمی یوم ِ ترجمہ ، سینٹ جیروم اور اردو
محمد علم اللہ
بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ 30 ستمبر کو عالمی ترجمہ کا دن ہوتا ہے۔ جس طرح کسی بھی زبان میں تخلیق اور اصل متن کی اپنی اہمیت ہے اسی طرح ترجمہ کی بھی انسانی ثقافت اور زبان و ادب کی ترقی میں کردار اور اثر سے انکار نا ممکن ہے۔ذرا تصور کیجئے اگر دنیا کے عظیم ادب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ نہ ہوا ہوتا ، تومختلف معاشرے ہمارے لئے معمہ نہیں بنے رہتے؟ دنیا کے مختلف زبانوں سے وابستہ افراد دوسرے معاشروں میں کیا ہو رہا ہے اس کے بارے میں کیسے جان پاتے ۔شاید اسی لئے ترجمہ کو ایک فن نہیں بلکہ محض دو زبانوں اور ثقافتوں کے درمیان پل کا نام بھی دیا گیا ہے۔ ترجمہ کی اہمیت ہر زمانہ میں رہی ہے ، یہ بات اور ہے کہ اس کی مقبولیت میں گزشتہ دو تین صدیوں میں کافی اضافہ ہوا ہے اور آج عالم یہ ہے کہ کسی بھی معروف مصنف کی کتاب ایک ساتھ کئی زبانوں میں شائع ہو تی ہیں اور اسی کے ساتھ دنیا کے مختلف ممالک کے مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان پہنچ جاتی ہے، اور آج کے عالمگیر عہد میں ترجمہ کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ گئی ہے کہ اب یہ محض علم و ادب تک محدود نہیں رہ گیا بلکہ اس نے اپنا دائرہ پھیلا کر معیشت اور ضرورت کے ہر حصہ میں داخل ہو کر اپنی اہمیت منوا لی ہے ۔
ترجمہ کا یہ عالمی دن سینٹ جیروم کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ سینٹ جیروم کی اصل تاریخ پیدائش کی بابت تاریخ میں مستند معلومات دستیاب نہیں ہیں ، تاہم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی پیدائش سن 340-42 کے آس پاس كروشيا کے ایک چھوٹے سے شہر ستردو میں ہوئی تھی جبکہ موت 30 ستمبر 420 کو فلسطين بیت ا لحم نامی شہر میں ہوئی۔ بائبل کے اولین ترجمہ کا سہرا سینٹ جیروم کو ہی جاتا ہے جنھوں نے ترجمہ کے فن پر کئی اہم مضامین بھی لکھ کر تاریخ میں اس فن کو عروج دینے والوں میں اپنا نام درج کرایا ۔ سینٹ جیروم نے 390 اور 405 کے درمیان عہد نامہ قدیم کا ہبرو زبان میں ترجمہ کیا۔ اس درمیان انہوں نے ’بُک آف سیموئیل اینڈ آف کنگز‘، اور’ عہد نامہ جدید ‘ جیسی اہم کتابوں کے ساتھ ساتھ فلسفہ اور تصوف کے مختلف نصوص کا بھی ترجمہ کیا اور معاصر مقدس کتابوں پر مختلف زبانوں میں شرحیں لکھیں۔ سینٹ جیروم کے بارے میں کہا جاتا ہے کی انہوں نے انتہائی تیزی سے ترجمہ اور کمپوزیشن کام کیا ، کیونکہ وہ چاہتے تھے کی اپنی حیات میں ہی وہ دستیاب تمام مقدس کتابوں کا ترجمہ کر لیں، یا مختلف زبانوں میں اپنے تبصرے درج کر دیں ۔ اسی لئے تاریخ دانوں کے مطابق ان کی تحریروں اور ترجموں میں کہیں کہیں عدم مساوات بھی نظر آتا ہے۔مگر سینٹ جیروم نے خود ااس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ کئی چیزوں کی مزید بہتر وضاحت کر سکتے تھے، جو وقت کی قلت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں کر سکے ۔لیکن اس سے ان کے کام کی اہمیت کم نہیں ہو جاتی، کیونکہ اپنی وراثت میں سینٹ جیروم نے دنیا کو وہ قیمتی تحفہ دیا جسے دنیا کبھی فراموش نہیں کر سکے گی ۔
اور اسی لئے اس دن بہت سے ممالک میں ترجمہ سے متعلق متعدد پروگرام، ورکشاپ، اجلاس ، سمینار وغیرہ منعقد کراتے ہیں۔ سینٹ جیروم کی خدمات کے اعتراف کے بطور سال 1991 میں دنیا کے معروف مترجمین نے اس دن کو سرکاری طور پر منانے کا فیصلہ کیا تھا ۔ ہندوپاک میں بھی مترجمین کی جانب سے اس طرح کے کئی کام کئے جاتے ہیں ۔لیکن اسے بد قسمتی سے ہی تعبیر کیا جائے گا کہ اردو زبان میں اس حوالہ سے کوئی خاص سر گرمی دکھائی نہیں دیتی ۔ حالانکہ اس امر کی سخت ضرورت ہے کہ اہل اردو بھی ترجمہ کی صنف کو فروغ دینے میں سنجیدہ حصہ لیں ،محض حکومت پرتکیہ کرنے کے بجائے خود بیڑا اٹھانے کا اہتمام کریں ،اردو میں معیاری مترجم کی کمی کی وجہ سے عالمی کے علاوہ دیگر علاقائی زبانوں کے ادب کا انگریزی یا دیگر غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ کی کوشش کریں ۔ تمام عالمی زبانوں میں ترجمہ کے متعدد مراکز قائم کیے جائیں ،تاکہ اس عالمگیر عہد میں ہم بھی ترقی یافتہ قوموں کے ساتھ کھڑے ہو سکیں اور اپنے علمی،ثقافتی،اور تہذیبی ورثے کو ترجمے کی صورت میں عالمی زبانوں میں منتقل کر کے دینا بھر میں پہنچائیں،ایسے اقدامات اور کوششوں سے ہی ہم دنیا کے سامنے اردو کی شبیہ کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔
نوٹ : اس مضمون کو ادب کے شیدائی اور عالمی افسانوی ادب کے ایڈمن صفی سرحدی صاحب کی فرمائش پر لکھا گیا ہے ۔