پیر، 25 ستمبر، 2017

سرحد پار سے ایک طالب علم اس دیس میں آیا ہے

محمد علم اللہ
کبھی ڈائری لکھی جاتی تھی، گزرے ایام کی جھلک دیکھی جا سکتی تھی، سائبر ورلڈ نے روزنامچے محفوظ کرنا شروع کیے تو گاہے بگاہے گزرے دنوں کی جھلک سامنے آتی رہتی ہے۔ فیس بک نے یاد دلایا کہ استاد من ظفر عمران سے دوستی کیے ایک سال ہو گیا۔ یہ دوستی کیسے ہوئی اس کے پیچھے ایک داستان ہے۔ ذکر ان دنوں کا ہے، جب میں ای ٹی وی اردو میں کام کرتا تھا اور میری نائٹ ڈیوٹی تھی۔ رات کو کام کم ہوتا ہے تو وقت گذارنا بھی پہاڑ کاٹنے جیسا لگتا ہے۔ وقت گذاری کے لیے کبھی فلمیں، ٹی وی سیریلز وغیرہ دیکھتا یا انٹرنیٹ کی خاک چھانتا۔ ایک دن یو ٹیوب پر ایک فلم دیکھ رہا تھا، کوئی ٹیلی فلم تھی اس وقت نام یاد نہیں آ رہا ہے۔ اس میں اسکرپٹ رائٹر کا نام ظفر عمران لکھا تھا، فلم مجھے بہت اچھی لگی، اس کے مکالمات، زبان، بیان، کہانی کا اسٹائل سب کچھ اچھا تھا۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب میں کوئی اچھی چیز دیکھتا ہوں یا پڑھتا ہوں تو اس کے خالق سے ملنے کو دل بے قرار ہو جاتا ہے۔ کسی فنکار کی کوئی اچھی چیز دیکھی تو اس کی انگلیاں چوم لینے کو جی چاہتا ہے۔ جامعہ میں بھی اسی وجہ سے مالی، بڑھئی آرٹسٹ سبھی سے دوستی ہو گئی ہے۔ میں حتی الامکان فنکار کو کم از کم ہمت افزائی کے دو کلمات ہی کہہ دوں، اس بات کی پوری کوشش کرتا ہوں۔ مذکورہ فلم کو دیکھنے کے بعد یہ تجسس پیدا ہوا کہ اس شخص سے ملاقات کی جائے۔ آخر یہ کون ہے اور کیسے اتنا اچھا لکھتا ہے۔
چھان بین شروع کی، آنٹی گوگل سے فریاد کی، ڈارلنگ فیس بک کو زحمت دی، تو معلوم ہوا کہ جس شخص کو ہم اپنا عزیز بنائے ہوئے ہیں وہ تو ’دشمن ملک‘ یعنی پاکستان کا ہے، ہم پڑوسی ملک کے بارے میں اپنے طور پر یہ فرض کر لیتے ہیں، کہ وہاں کے سب لوگ برے ہی ہوں گے، اسٹیریو ٹائپ کے طور پر جب سر حد کے اس پار کی بات آتی ہے تو کسی سے ملنا توبہت دور کی بات رہی، مبارکباد دینے پر بھی شک کے دائرے میں نہ آ جائیں اس کا ڈر لگا رہتا ہے۔ پھر ہم بظاہر جس کو فیس بک میں دیکھ رہے ہیں یہ وہی ہے یا کوئی دوسرا ان کے نام سے چلا رہا ہے، اس کی تصدیق کرنا بھی مشکل کام ہوتا ہے۔
بسیار تلاش کے بعد مجھے کہیں سے ظفر عمران صاحب کی ای میل آئی ڈی حاصل کرنے میں کامیابی ہوگئی، اور میں نے ڈرتے ڈرتے اس آئی ڈی پر فلم کو لے کر اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے کچھ ناقدانہ کمنٹس بھی اس میں ڈال دیے۔ دوسرے دن خوشگوار حیرت کی انتہا نہیں تھی کہ فنکار نے مجھے جواب لکھا تھا اور میری معروضات پر خوشی کا اظہار کیا تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں نے کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہے، یقیناً یہ بھی ایک معرکہ ہی تھا، جس پر خوش ہونا میرا حق بنتا تھا۔ میں نے ان کو فورا جواب لکھا اور یوں یہ میل ایک خوبصورت منزل کا رستہ ثابت ہوا۔ یہ آدھی ملاقات ہماری پوری ملاقات بن گئی۔ اس درمیان ہماری کبھی نہ ویڈیو کالنگ ہوئی اور نہ آڈیو لنک لیکن شاید ہی ایسا کوئی دن گزرا ہوگا جب کسی نا کسی موضوع پر ہمارے اور عمران صاحب کے درمیان تبادلہ خیال نہ ہوا ہو۔ اس درمیان ایک مشفق مہربان مربی استاد کی طرح وہ مجھے کسی اچھے مضمون یا فلم کا لنک بھیجتے اور میں اس کو پڑھنے اور دیکھنے میں منہمک ہو جاتا۔
اس درمیان ظفر عمران صاحب نے لکھنے پڑھنے کی جانب جہاں میری رہنمائی کی وہیں اپنی کئی فلموں اور سیریلز کی نشاندہی کی جسے میں نے دیکھا اور اس سے کافی کچھ سیکھنے کو ملا۔ عموما ً دیکھا یہ گیا ہے کہ فلم انڈسٹری یا اس قسم کے پیشے سے وابستہ افراد خود کو بہت بڑا سمجھتے ہیں، ان میں رعونت بہت ہوتی ہے، وہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے ہیں اور خاص کر اگر وہ تخلیق کار ہے تو اس کی انا کا پندار بہت جلد ٹوٹتا ہے، لیکن میں نے دیکھا کہ ظفر عمران صاحب کے یہاں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ بلکہ ان کی تحریروں میں جس طرح سے خوش مذاقی، خوش مزاجی، خوش سلیقگی، خوش خلقی، خوش نستعلیقی جھلکتی ہے۔ ان کی طبیعت میں بھی وہ چیزیں دکھائی دیتی ہیں۔ نفسیات کا ذرا بھی علم رکھنے والا شخص کسی کی بھی تحریر پڑھ کر اندازہ لگاسکتا ہے، کہ وہ شخص کس قسم کا ہوگا۔ میں یہاں پر ٖظفرعمران کی تحریروں کا نفسیاتی جائزہ لینے نہیں بیٹھا ہوں، لیکن ان کی تحریر پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نستعلیق اور نفیس انسان ہیں سلیقہ مندی ان کی طبیعت کا حصہ ہے اور مجھے ان کے یہ اطوار بہت پسند ہیں، میں بھی ایسی خوبیوں کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہوں، مگر ایسا ہو کہاں پاتا ہے۔
جب ہماری ظفر عمران صاحب سے شناسائی ہوئی تو انھی دنوں ہمارے ای ٹی وی کے کچھ احباب نے ایک مختصر فلم بنانے کا منصوبہ بنایا اور اسکرپٹ لکھنے کی ذمہ داری میرے سپرد کر دی۔ اس سے قبل گرچہ میں’ریتو مہرا‘ اور’اجئے شاہ‘ کے ساتھ ’دوردرشن‘ کے سیریلز میں ’کو رائٹر‘ کے طور پر کام کر چکا تھا، لیکن پھر بھی اسکرپٹ رائٹنگ کو لے کر پس و پیش کی کیفیت میں تھا اور سوچ رہا تھا کہ ایک آئیڈیل اسکرپٹ کیسا ہوتا ہوگا۔ ریتو مہرا کے ساتھ تو خوبی یہ تھی کہ وہ سڑیل سے سڑیل اسکرپٹ کو بھی اپنے جاندار انداز میں شوٹ کر کے کامیاب بنا لیتی تھی، مگر یہاں مسئلہ اپنی اہمیت کو ثابت کرانا تھا۔ میں نے لکھنے سے قبل ظفر عمران صاحب سے مشورہ چاہا اور ان سے کچھ نمونے کے اسکرپٹ مانگے تو انھوں نے ایک دو نہیں درجنوں اسکرپٹ بھیج دیے، ساتھ میں فلموں اور سیر یلز کی بھی نشاندہی کر دی، ان کا یہ رویہ مجھے بہت بھایا۔
مجھے اندازہ نہیں تھا کہ محض ایک ای میل ہم دونوں کے درمیان اس قدر قربت کا باعث بنے گا، میں نے ظفر عمران صاحب کو ایک چھوٹا سا اسکرپٹ لکھ کر بھیجا، جسے انھوں نے خاصا پسند کیا اور زبان و بیان کی اصلاح کرکے مجھے واپس بھیج دیا، یہ الگ بات ہے کہ اسے شوٹ کرنے کی ابھی تک نوبت نہیں آئی، لیکن ان کی ہمت افزائی اور سراہنے نے مجھے کافی حوصلہ دیا۔ اس محبت میرے اندر بھی ہمت آئی اور اس کے بعد ہم دونوں کی اس فلم، ٹیلی ویژن اور صحافت پر خوب باتیں ہونے لگیں، وہ مجھے دنیا جہان کی فلمیں بتاتے، میں اسے دیکھتا اور ان سے اس پر دیر گئے رات تک گفتگو کرتا۔ یہ گفتگو رات کے بارہ ایک بجے سے شروع ہو کر کبھی کبھی صبح کے چھہ بجے تک جاری رہتی۔ میں ایشیاء کے ایک بڑے ادارے سے دو سالہ باضابطہ فلم اور جرنلزم کا کورس کرنے کے دوران اساتذہ سے جو سوال نہیں کر سکا تھا، وہ سب موصوف سے پوچھتا۔ پھر جس سمے انسان کلاس میں کوئی چیز پڑھ رہا ہوتا ہے، اس وقت یہ ضروری نہیں کہ ساری چیزیں سمجھ میں بھی آجائیں، میری نا سمجھی ہوئی باتوں کا روز ایک پٹارا ہوتا، جسے میں کھولتا جاتا اور ظفر عمران صاحب ایک اچھے اور مخلص استاد کی طرح اس کو حل کرتے جاتے۔ مجھے اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہ ان سے اس درمیان میں نے بہت کچھ سیکھا، خصوصاً فلم اور تیکنیک کے حوالے سے۔ ان سے جو کچھ بھی باتیں ہوئیں وہ میری زندگی کا بہترین سرمایہ ہیں۔
اسی دوران انھوں نے مجھے آن لائن ویب پورٹل ”ہم سب“ پر لکھنے کے لئے مجبور کیا۔ میرے جھجھکنے پر بار بار مجھے لکھنے کے لیے اکساتے، کچوکے لگاتے، سمجھاتے بجھاتے۔ اس طرح انھوں نے ”ہم سب“ پر ایک مضمون ’بدلتے ہندوستان میں کتابوں کی واپسی ‘کے عنوان سے لکھوانے میں کامیابی حاصل کر ہی لی، اس مضمون پر انھوں نے اصلاح دی۔ نوک پلک سنواری اور ”ہم سب“ پر وہ شائع ہو گیا۔ ”ہم سب“ پر اس مضمون کا چھپنا تھا کہ اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ ہندی اور انگریزی میں اس کے ترجمے شائع ہوئے۔ پہلی مرتبہ میرے کسی مضمون کا ترجمہ بغیر میری کوشش کے شائع ہوا تھا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی اور پھر مضمون کا معاوضہ نہ ملنے اور اردو میں لکھ کر پذیرائی کی کمی کا جو شکوہ تھا دور ہو گیا۔ پھر وہ برابر مجھ سے مضمون کا تقاضہ کرنے لگے۔
یہی نہیں اچھا مضمون کیسے لکھیں، خیالات کو کیسے قلم بند کریں، پیراگرافنگ کیسے کی جاتی ہے، رموز و اوقاف، لسان و قوائد کا کتنا خیال رکھنا چاہیے۔ کیا لکھنا اور کیا نہ لکھنا، ان سب باتوں کی انھوں نے مجھے باریکیاں بتائیں۔ میں فیس بُک پر کچھ پوسٹ کرتا، اس میں کوئی غلطی ہوتی تو وہ اس کی نشاندہی کرتے اور ان غلطیوں پر قابو پانے کے طریقے بتاتے۔ جس سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ انھوں نے ”ہم سب“ پر میرے بلاگ کا پیج بنوایا، میرا تعارف لکھا اور قلم کو مزید رواں اور صیقل کرنے کے لیے برابر ابھارتے رہے۔ ان کے ذریعے ”ہم سب“ کی ٹیم میں شامل عدنان خان کاکڑ، وصی بابا اور نام نامی وجاہت مسعود جیسے معتبر صحافی سے متعارف ہونے اور ان کو پڑھنے کا موقع ملا اور تب اپنی اوقات بھی سمجھ میں آئی۔
جب بھی کوئی مضمون شائع ہوتا تو کوئی نا کوئی کچھ نا کچھ مشورہ ضرور دیتا، جس کو میں اپنے اگلے مضمون میں برتنے کی کوشش کرتا۔ میرے استاد ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب کہا کرتے ہیں، ”لکھنے سے لکھنا آئے گا، بولنے سے بولنا اور پڑھنے سے پڑھنا، جو کام پسند ہو تو دیکھو کہ لوگ اس کو کیسے برتتے ہیں۔ “ اور معروف کمپنی ایپل کے سی او کا قول ہے ”انسان کو ہمیشہ بھوکا اور بے وقوف بن کے رہنا چاہیے کہ اس سے اسے سیکھنے کو ملتا ہے۔ “ تو میں ہمیشہ اس کی کوشش کرتا ہوں۔ آ ج کے اس مادہ پرستانہ دور میں جبکہ ہر چیز کو لوگ مادیت سے ناپتے ہیں، ایسے مخلص لوگوں کی ہمیں قدر کرنی چاہیے۔ انسان بہتوں سے بہت کچھ سیکھتا ہے، میں نے اپنے قلمی زندگی میں جن لوگوں سے سیکھا ہے، ان میں ظفر عمران صاحب کے علاوہ ناموں کی ایک طویل اور لمبی فہرست ہے۔ ان میں بچے سے لے کر جوان، بوڑھے اور ادھیڑ سبھی شامل ہیں۔ میں انشاء اللہ وقتا فوقتا ان شخصیات پر لکھنے کی کوشش کروں گا، جن سے میں کسی طور متاثر ہوا اور کچھ سیکھا۔ میں فیس بک کے بانی مارک ذکر برگ کا بھی شکر گذار ہوں کہ اس کی بنائی ہوئی فیس بک کی بدولت ہم ایسے مخلص اہل علم و ادب اور اپنی پسندیدہ شخصیتوں مکمل نہ سہی نصف ہی مل تو پاتے ہیں۔
کہتے ہیں آرٹسٹ کی کوئی سرحد یا حد بندی نہیں ہوتی ہے، وہ انسانیت کے لئے جیتے اور انسانت کے لیے مرتے ہیں۔ سرحد کے اس پار اور سر حد کے اس پار بھی دونوں جانب ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان امن چاہتے ہیں محبت چاہتے ہیں۔۔ ظفر عمران صاحب سے کتنی ہی مرتبہ اس موضوع پر گفتگو ہوئی ہے اور انھوں نے دونوں ملکوں کے مابین خلیج، دراڑ اور نفرت پر افسوس کا اظہار کیا ہے. آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایسے افراد کو لے کر آگے بڑھیں اور دونوں جانب امن، اخوت، محبت کے پھول اگائیں تاکہ آئندہ آنے والی ہماری نسلوں کو ایک ایسا خطہ ملے، جس میں بم، بارود کی بو، توپ، میزائل اور ٹینکوں کی گھن گرج نہیں بلکہ الفت، محبت اور رحمت کے نغمے سننے کو ملے جہاں خوشحالی، بھائی چارگی اور ہمدردی کے نقوش ملیں۔
24/09/2017

۔۔۔مزید

جمعرات، 21 ستمبر، 2017

رویش جی! آپ کو کیا چیز ڈراتی ہے؟


بٹلا ہاوس اِنکاونٹر کے پس منظر میں ’شبلی‘ تم تو واقف تھے؟

نوٹ : اس مضمون کا مرکزی خیال میرے عزیز دوست فہیم خان(فلم ہدایت کار اور اسکرپٹ رائٹر) کے فیس بُک وال سے اخذ کیا گیا ہے، فہیم بھائی کا درد میرا درد ہےاور یہ مضمون اسی کا نتیجہ ہے ۔۔۔۔

محمد علم اللہ ، نئی دہلی
ان دِنوں رویش کمار (پیدائش 5 دسمبر 1974ء ) مشرقی چمپارن بہار سے تعلق رکھنے والے این ڈی ٹی وی سے وابستہ معروف صحافی اور ٹی وی اینکر کو دھمکی دی جا رہی ہے، کہ وہ سیکولرازم کی بقا، اقلیتوں اور پچھڑے طبقات، جن کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا، کی آواز اٹھاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رویش کمار فی زمانہ ایک حق گو اور بے باک صحافی کے طور پر سامنے آئے ہیں ۔ شاید اسی وجہ سے بہتوں کو ان سے امیدیں بھی ہیں کہ ایک ایسے دور میں، جب ایک خاص ذہنیت کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، رویش جیسے لوگ اندھیرے میں امید کا چراغ جلانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن انسان بہرحال انسان ہوتا ہے اور خواہ کتنا ہی جرات مند اور بے باک ہو اس کے اپنے مفادات اور اپنی مصلحتیں ہو تی ہیں۔ ہم اس پر بات نہیں کریں گے تاہم ان دنوں پورے ملک میں ایک خاص قسم کے خوف اور دہشت کی نفسیات کو ہوا دی جا رہی ہے اور رویش بھی تقریبا ہر تقریر میں اس کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ ملک میں ایسا ماحول ہے جس نے ہر باشعور شہری کو متفکر کر دیا ہے۔ یہاں بات کسی فرد واحد یا کسی ایک قوم کے تحفظ کی نہیں، بلکہ ملک کی سالمیت اور جمہوریت کے تحفظ کی ہے۔ اس لیے ہم آج اسی پر گفتگو کریں گے، اور ہمارے مخاطب براہ راست رویش جی ہوں گے۔
رویش کمار جی! آج آپ خوف کی جس لہر کی بات کر رہے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ وہ خود آپ کو خوف زدہ کرتی بھی ہے یا نہیں؛ لیکن زیادہ دور نہیں بس یہی آٹھ نو سال پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ اس وقت آپ نے خوف کی اس لہر کو ہمارے سینوں میں اتارنے کا کام کیا تھا۔ اور تب ہم سچ میں ڈر گئے تھے۔ کہتے ہیں خوف ایک خطرناک بیماری ہے جو انسان کو اندر سے توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ وہ انسان کی نفسیات پر طویل عرصے تک غالب رہتی ہے اور یہ بات شخصیت کے ارتقا کے لیے سم قاتل سے کم نہیں ہے۔ بات اس دن کی ہے جب ہمارے علاقے (بٹلا ہاوس) میں19 ستمبر 2008ء کو مبینہ طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے دو طالب علموں کو دہشت گرد قرار دے کر ایک ”انکاونٹر“ میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے اس دن ایک ریلی نکالی تھی۔ ان دنوں ہم ایک اخبار کے لیے خبر فراہم کرنے کا کام کیا کرتے تھے۔ دن بھر ہم اپنے دوستوں کے ساتھ انکاونٹر والی جگہ پر خبروں کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگے پھر رہے تھے۔ شام تک ہم نے اپنے آفس کو خبریں فائل کر دی تھیں۔ رات کو ٹیلی ویژن پر کیا آتا ہے، اس کا انتظار تھا۔
مجھے یاد ہے کہ اس وقت جب انسپکٹر موہن چند شرما (پیدائش 23 ستمبر 1965ء وفات 19 ستمبر 2008ء، ایک متنازع پولیس انسپکٹر جو مشتبہ طور پر بٹلہ ہاوس انکاونٹر کے دوران ہلاک ہوا اور جسے بعد میں حکومت نے اشوک چکر سے نوازا) کے مرنے کی خبر آئی تو ٹی وی اسٹوڈیو میں نام نہاد حب الوطنی کا رنگ ظاہر ہونے لگا تھا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے آج کل ظاہر ہورہا ہے۔ ہم نے سوچا کہ این ڈی ٹی وی بہت سنجیدہ چینل ہے، دیکھتے ہیں یہ کیا دکھاتا ہے۔ رویش جی آپ بھی اسٹوڈیو میں بیٹھے تھے، ویسے ہی کوٹ پینٹ پہنے ہوئے، پرائم ٹائم سلاٹ پر، جیسا کہ ارنب گوسوامی (9 اکتوبر 1973ء کو گوہاٹی میں پیدا ہونے والے، چیخنے چلانے اور نام نہاد وطنیت کا گن گانے والا صحافی) بیٹھا رہتا ہے۔ آپ ارنب کی طرح چیختے چلاتے نہیں۔ یہ فرق اس دن بھی تھا۔ آپ آپے سے باہر نہیں تھے، سنجیدہ ہی دکھائی دے رہے تھے۔ یہ آپ کا انداز ہے، لیکن اس دن آپ کی سنجیدگی پر ”حب الوطنی“ کا پر تو صاف جھلک رہا تھا۔ ”انا الحق“ والے منصور کو سب پتھر مار رہے تھے، بڑے بڑے پتھر۔ منصور مسکرا رہا تھا، مگر جب منصور کے دوست شبلی نے بھی ایک پھول سے منصور کو مارا تو منصور درد سے چیخ اٹھا۔ شبلی تم بھی؟! لوگوں نے پوچھا: جب سب مار رہے تھے تو تم مسکرا رہے تھے، شبلی نے تو پھول سے مارا؟ منصور نے کہا کہ وہ لوگ جانتے نہیں کہ وہ معذور ہیں مگر شبلی جانتے ہیں، اس لیے ان کا پھول مجھ پر گراں گزرا۔ اس کے بعد منصور کے ہاتھ، پاؤں کاٹ دیے گئے اور آنکھیں نکال دی گئیں (ٹھیک اسی طرح جیسے آج کل بعض خاص طبقات کے ساتھ ہورہا ہے) رویش آپ بھی۔۔۔؟
ہاں! ہاں! اس دن، دِبانگ (بھگوا چولا کے پرستار ہندی نیوز چینل اے بی پی سے وابستہ صحافی، جو روزانہ پرائم ٹائم اور ہفتہ واری پریس کانفرنس شو کی میزبانی کرتے ہیں) کے ساتھ اسٹوڈیو میں بیٹھے آپ بھی بٹلہ ہاوس انکاونٹر پر بحث کر رہے تھے اور گراؤنڈ زیرو سے رپورٹنگ کرنے والی عارفہ خان شیروانی کا لائیو پروگرام جاری تھا تو رپورٹنگ کو درمیان ہی کاٹ کر آپ نے ایک جملہ کسا تھا۔ وہ طعنہ ارنب کے پتھر نہیں بلکہ شبلی کے پھول تھے جس نے ہمیں زخمی کر دیا تھا۔ اس دن ہم چوٹ سے بلبلا اٹھے تھے۔ آپ نے تو محض ایک طعنہ دیا تھا جو صرف عاطف اور ساجد پر نہیں تھا بلکہ پوری کمیونٹی پر تھا، ایک پورے علاقے پر تھا، اور اس دن کی رپورٹنگ کی وجہ سے عارفہ کو آپ کا چینک چھوڑنا پڑا تھا۔
کیا یہ آپ کی مجبوری تھی؟ شاید نہیں! لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ جب مسلمانوں کی بات آتی ہے توآپ اور آپ ایسے بہتوں کے رویے ان کی مجبوری بن جاتے ہیں۔ اچھے اچھے لوگ ایسے مواقع پر پھسل جاتے ہیں، بہک جاتے ہیں؛ ان کے قدم لڑ کھڑا جاتے ہیں اورجام ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔ ذہین، سمجھ دار اور سیکولر افراد بھی اس مفروضے اور رویے کو کنارے نہیں رکھ پاتے، جس میں ہم انھیں ماضی میں ’حملہ آور‘ اور حال میں ’دہشت گرد‘ نظر آتے ہیں۔ میں جانتا ہوں آپ اپنے ضمیر کی سنتے ہیں، لیکن جب پورا ہجوم پتھر مار رہا ہوتا ہے، تو آپ بھی انھی میں شامل ہو جاتے ہیں یعنی پتھر مارنا شبلی کی مجبوری بن جاتی ہے۔
میں جاننا چاہتا ہوں کہ آخر ایسی مجبوری کہاں سے آتی ہے؟ کیا اس مجبوری کی بنیاد خوف ہے؟ کیا اس دن آپ سچ مچ ڈر گئے تھے؟ مجھے نہیں لگتا کہ اس دن آپ ڈرگئے تھے۔ آپ تو چوتھے ستون کی طرح مضبوط نظر آ رہے تھے، اپنے کندھے پر حکومت کی چھت لیے۔ آپ شہید گنیش شنکر ودیارتھی (پیدائش 26 اکتوبر 1890ء وفات 25 مارچ 1931ء، کانپور۔ ہندی صحافت کے ستون جو کانپور فسادات کے دوران انگریزوں کے ہاتھوں شہید کر دیے گئے) کے صحافت کے اصولوں کو فراموش کرکے انسپکٹر موہن چندرا شرما کے وکیل دکھائی دے رہے تھے۔ آپ جذبات میں بہہ گئے تھے۔ جذباتی ہونا غلط بات نہیں ہے، یہ اچھی بات ہے۔ ملک کے ہرباشندے کو اپنے وطن کے تئیں جذباتی ہونا ہی چاہیے۔ ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ایک صحافی کو بھی محب وطن اور اس کی محبت میں جذباتی رویہ اپنانا چاہیے۔ یہ قابل تعریف ہے۔ مگر جو لوگ آج آپ کی حب الوطنی کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، ان کی نظروں میں ہماری ’دیش بھکتی‘ ہمیشہ سے مشکوک رہی ہے۔ انھوں نے اسی شک کی بنیاد پر ہمارا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ کئی مرتبہ آپ بھی ہمارے خلاف اس شک میں ان کے ہم جولی اور ہم نوا دکھائی دیئے اور بٹلہ ہاوس انکاونٹر والے دن بھی آپ ان کے ساتھ تھے۔ جس بے لگام بھیڑ کو لے کر آپ آج بے چین ہو رہے ہیں، اس دن اسی بھیڑ کے ساتھ آپ بھی تھے۔
آپ من موہن سنگھ سے تو وہ سوالات کر لیتے ہیں، جس کی مثال اب آپ اپنی وضاحتوں میں بھگتوں کو دیتے ہیں، مگر وہ سوالات جو بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر اٹھائے گئے تھے یا اٹھائے گئے ہیں، ان میں آپ من موہن سنگھ حکومت کے ساتھ ہی کھڑے نظر آئے، انھی کے جملے میں کہ ایک انسپکٹر کی موت کے بعد بھی کمیونٹی کو یقین نہیں آ رہا ہے کہ عاطف اور ساجد دہشت گرد تھے۔ رویش جی! آپ کو بھی اب یقین آ گیا ہوگا کہ صرف ماضی ہی نہیں بلکہ حال بھی اطمینان کے قابل نہیں ہے۔
آپ کی طرح نہ تو مجھے زبان و بیان پر گرفت ہے اور نا ہی میرے پاس آپ جیسے منطقی دلائل ہیں۔ مگر ایک چیز اب میرے اور آپ کے درمیان یکساں ہو گئی ہے، اور وہ ”خوف“ کی وہ لہر ہے جو میرے اور آپ کے وجود کی گہرائی تک اتر گئی ہے۔ اب آپ کو بھی ڈرایا جا رہا ہے جیسے ہم لوگوں کو ڈرایا جاتا رہا ہے، صدیوں سے۔ جس خوف کی نفسیات کے بارے میں آپ بول رہے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے البتہ یہ پہلے ایک خاص طبقے تک ہی محدود تھی اور اب ذراعام ہوگئی ہے، جس پر ملک کا لبرل طبقہ فکرمند نظر آرہا ہے۔ آپ غور کیجیے۔ اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بطور خاص اس وقت جب یہ خوف ایک فرد کا نہ ہو کر ایک طبقہ اور کمیونٹی اور پوری ایک قوم کا مقدربن جائے۔ میں آپ کو بتاوں، اس ڈر نے ہمیں بہت دکھی کیا ہے اور اب بھی اکثر ستاتا رہتا ہے۔ بنا کسی جرم اور قصور کے کسی کو مجرم بنا دینا یا سمجھنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ آپ کے پاس تو پھر بھی اسٹوڈیو ہے، پرائم ٹائم، کوٹ ٹائی اور آپ کے چاہنے والوں کا ایک جم غفیر ہے۔ ہمارے پاس کیا ہے؟ خوف کے لفافوں میں لپٹے ہوئے ماضی کے طعنے اور حال کے الزامات۔ میرا خیال ہے اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ خوف کے عالم میں جینے والے کیسا محسوس کرتے ہیں۔
مجھے معلوم ہے آپ سے بے انتہا محبت کرنے والے بہت سے لوگوں کو میری یہ بات اچھی نہیں لگے گی اور وہ مجھ سے یہ سوال کر سکتے ہیں، کہ اب جب کہ رویش کی امیج بہت بدل چکی ہے تو آپ نے اس کے ماضی اور حال کے کردار کا موازنہ کیوں ضروری سمجھا، تو ان سے مجھے یہ کہنا ہے کہ انسان کو جس سے امید ہوتی ہے، شکایت بھی اسی سے ہوتی ہے۔ جب آپ یا آپ جیسے لوگ، جو بظاہر انصاف اور حق کی بات کرتے ہیں، ان کو مزید محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ جن کو لوگ اپنا سمجھتے ہیں ان سے جب کوئی زیادتی ہوتی ہے تو زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ چوں کہ اب آپ کو ڈر کا احساس ہو گیا ہے اس لیے بھی ہم نے یہ سطریں لکھنے کی جرات کی ہے۔ میں آپ سے یہ قطعا نہیں کہوں گا کہ آپ کسی خاص طبقے کی حمایت کی بات کریں۔ ایسا ممکن بھی نہیں ہے، مگرجس چیز کے لیے آپ جانے جاتے ہیں اس میں تو سچے بنیے۔ اگر آپ معروضیت پسند (objective) نہیں رہ سکتے تو پھرصاف ستھرے (fair & accurate) تو رہیے۔ یہاں پر بات کسی خاص طبقے کی نہیں ہے بلکہ بات ملک کی سالمیت، اس کی بقا اور ترقی کی ہے۔ اس لیے ہم سب کو اس کے لیے آگے آنا ہوگا اور عوام کے دلوں سے خوف کی اس لہر کو دور کرنا ہوگا۔
خوف کی وہ لہر جوآپ کو اور ہم سب کو ستاتی ہے، وہ لہر اور اس کی خوف ناکی اپنی جگہ، مگر میرے اندرون میں ایک اور لہر دندناتی پھر رہی ہے، جو اس لہر سے قدرے مختلف ہے۔ میں ڈرتا ہوں کہ خوف کی یہ لہر کہیں ہمارے وجود پر اور خاص کر رویش کمار جیسے دیو ہیکل وجود پر مصلحت کی چادر نہ تان دے اور وہ اپنی موجودہ بے باکی اور منصفانہ امیج کو کہیں اپنے من گہرائیوں میں دفن کرکے پھر سے وہیں نہ جا بیٹھیں جہاں آپ اس دن بیٹھے تھے، یعنی 19 ستمبر 2008ء کو، اور ایسا ہوتا ہے، بلکہ ہوچکا ہے۔ اس کے لیے صرف چند مثالیں دوں گا۔ دور کیوں جائیں، قریب ہی میں دیکھتے ہیں ایم جے اکبر کو جس نے اپنے بے باک مضامین اور India: The Siege Within: Challenges to a Nation’s Unity اور Riots after Riots جیسی کتابیں لکھ کردنیائے صحافت میں نام پیدا کیا تھا، مگر اب کہاں چلے گئے؟ اسی طرح اگر کلدیپ نائیر کی بات کی جائے تو چند لمحات ہی کے لیے سہی لیکن 2014ء میں لغزش کھا گئے تھے اور اپنے رشتے دار ارون جیٹلی کی انتخابی مہم میں حصہ لینے پہنچ گئے تھے، مگر انھیں اپنی غلطی کا جلد احساس ہوگیا اور پیچھے ہٹ گئے۔ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے ڈر ہے کہ کہیں آپ اور آپ جیسے جری صحافی مصلحت جسے ہم ڈر بھی کہہ سکتے ہیں، کا واقعی شکار نہ ہو جائیں۔

۔۔۔مزید

اتوار، 17 ستمبر، 2017

ماسٹر اللہ داد کریم---- محمد علم اللہ

کس طرح امانت نہ رہوں غم سے میں دل گیر
آنکھوں میں پھرا کرتی ہے استاد کی صورت
(امانت لکھنوی)
انسان کے ذہن پر کچھ ایسے نقوش بن جاتے ہیں، جو کبھی نہیں مٹتے۔ ان ہی میں سے ایک ماسٹر اے ڈی کریم کا نقش بھی ہے، جن سے وابستہ میرے بچپن کی یادیں آج بھی میرے ذہن میں مرتسم ہیں۔ 21 اگست 2017ء کو یہ اطلاع ملی کہ ماسٹر اللہ داد کریم جنہیں ہم ماسٹر اے ڈی کریم کے نام سے جانتے تھے کا انتقال ہو گیا۔ یہ اطلاع میرے گاؤں کے نام سے موجود فیس بک پیج پر ایک ساتھی کے ذریعہ ملی تو ماسٹر صاحب سے وابستہ کئی یادیں عود کر آئیں۔ انتقال کی خبر ملنے کے بعد ہی سوچا تھا کہ ماسٹر صاحب سے متعلق یادوں اور باتوں کو رقم کروں گا۔ لیکن ادھر کچھ ایسی مصروفیات اور ذہنی خلجان میں مبتلا رہا کہ چاہ کر بھی کچھ نہ لکھ سکا۔ پھر پانچ ستمبر کو یوم اساتذہ کے موقع پر بھی کچھ لکھنے کا خیال آیا، لیکن عید الاضحی اور دیگر روزانہ کے معمولات میں اس قدر مصروف رہا کہ کچھ لکھنے کی ہمت نہیں ہو سکی۔ آج ایک مرتبہ پھر فیس بک پیج پر موجود اس خبر کو دیکھا توماسٹر صاحب سے متعلق کئی باتیں یاد آئیں اور میں یہ سطریں لکھنے بیٹھ گیا۔

ماسٹر صاحب کو جب میں یاد کرتا ہوں، تو مجھے جگنو، تتلی اور بیر بہوٹی یاد آتے ہیں؛ دراصل ماسٹر صاحب نے ہی بتایا تھا کہ جگنو کیا ہوتا ہے، تتلی کسے کہتے ہیں اور بیر بہوٹی کیا شئے ہے۔ ان کے پڑھانے کا انداز نرالا اور سب سے الگ تھا۔ ابھی جب میں ماسٹر صاحب سے متعلق یادوں کوضبط تحریر کرنے بیٹھا ہوں تو میری نظروں کے سامنے پندرہ سولہ سال قبل گاؤں کے اسکول درس گاہ اسلامی اٹکی کا منظرنامہ سامنے ہے، جس نے کئی نسلوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ہی خلوص، محبت، الفت اور تہذیب و شایستگی کا پاٹھ پڑھایا ہے۔ ماسٹر صاحب اس انمول ادارے کے ایسے جاں نثار تھے، جنھوں نے انتہائی کم اجرت کے باوجود اسے اپنے خون جگر سے سینچنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ انھوں نے بہار شریف کے دور افتادہ علاقے سے آ کر خود کو اس ادارہ کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ماسٹر صاحب درس گاہ کے عقبی حصے میں قائم کمرے میں رہتے تھے۔ ان کا اپنا انداز اور اسٹائل تھا جس سے وہ پہچانے جاتے تھے؛ دو پلی کج کلاہ ان کی شان تھی۔ وہ اونچے درجے کے بچوں کو پڑھایا کرتے تھے، کچھ کلاس چھوٹے بچوں کی بھی لیتے اور وہ کلاس ہم بچوں کے لئے عذاب جاں ہوا کرتی تھی۔ ہم نے اس زمانے میں جن اساتذہ کے مر نے کی دعائیں کیں ان میں ماسٹر صاحب بھی شامل تھے۔ لیکن ماسٹر صاحب کو ہماری دعاوں کے صدقے نہ مرنا تھا اور نہ مرے، وہ تو اپنی طبعی موت مرے۔ انھوں نے شاید ہی کبھی کلاس آنے میں تاخیر کی ہو۔



سارے بچے ماسٹر صاحب سے بے حد خوف کھاتے، اس کی وجہ یہ تھی کہ ماسٹر صاحب مارتے بہت تھے۔ ان سے خوف کا یہ عالم تھا کہ گھر پر بھی شرارت کرنے پر والدین یا سرپرست ماسٹر صاحب سے شکایت کی دھمکی دیتے تو بچہ سہم ساجاتا، مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ ماسٹر صاحب صرف غصیلے اور مارنے ہی والے تھے؛ ماسٹر صاحب اچھے بھی تھے اور سبق یاد کرنے والے بچوں کو شفقت و محبت سے نوازتے اور انھیں انعام بھی دیتے تھے؛ ہم ماسٹر صاحب کی ان دونوں ہی خصوصیات سے خوب فیض یاب ہوئے، مار بھی کھائی اور کئی مرتبہ چاکلیٹ، اٹھنی اور ایک دو مرتبہ ایک آدھ روپے بھی وصول کیے۔
مجھے یاد پڑتا ہے ماسٹر صاحب جہاں رہتے تھے اس سے ذرا آگے پھولوں کی کیاریاں تھیں اور ان کیاریوں کے بیچوں بیچ مچان لگا کر کدو، کریلے، کھیرا اور ککڑی وغیرہ کے پودے لگائے گئے تھے، جنھیں ماسٹر صاحب ہی نے بچوں سے لگوایا تھا۔ یہ ماحولیات کے کلاس کا حصہ تھا، جس میں بچوں نے اپنے ہاتھوں سے کیاریاں بنائی تھیں۔ اینٹوں سے اسے گھیرا تھا۔ جس میں مختلف قسم کے پھول کھلے تھے؛ ان پھولوں میں رات کی رانی کے علاوہ گل بہار، چنبیلی، بیلا، موتیا، چمپا، نرگس، گیندا اور گلاب کے پھول تھے جو ہمیشہ پوری فضا کو معطر رکھتے۔ اس قدر خوش نما منظر ہونے کے باوجود ہم بچے رات کی رانی کے پھول کے قریب نہیں جاتے تھے، کیوں کہ بچوں کے درمیان یہ بات مشہور تھی کہ رات کی رانی میں جنات بسیرا کرتے ہیں اور ماسٹر صاحب کی ان جناتوں سے دوستی ہے۔ ماسٹر صاحب اپنی چھڑی بھی اسی رات کی رانی کی جھاڑیوں میں چھپا کر رکھا کرتے۔ جب کلاس آتے تو اپنی چھڑی کو آستین میں چھپا لیتے تاکہ بچے ڈریں نہیں۔ چھڑی کو وہ تنبیہ الغافلین کہا کرتے تھے۔ مشہور تھا کہ ماسٹر صاحب چھڑیوں سے صرف انسانوں کے بچوں ہی کی دھنائی نہیں کرتے ہیں بلکہ جناتوں کی پٹائی بھی کرتے ہیں اور جنات بھی ان سے خوف کھاتے ہیں۔ ماسٹر صاحب چھڑی کو مضبوطی کے لیے تیل پلاتے تھے، جس کی وجہ سے چھڑی میں ایک عجب سی چمک دکھائی دیتی تھی۔
یوں تو درس گاہ کے سبھی اساتذہ مخلص، بے ریا اور شفیق تھے لیکن ماسٹر صاحب کا انداز ان میں سب سے جدا تھا؛ اسی لیے وہ مارتو خان یعنی بہت زیادہ مارنے والا، گسیڑو یعنی بہت زیادہ غصے والا، ظالم، قصائی اور نہ جانے کن کن ناموں سے مشہور تھے۔ جن القابات سے ہم بچے ماسٹر صاحب کو جانتے ماسٹر صاحب اس کے بالکل برعکس ہم بچوں کو پھول ہی کے لقب سے نوازتے۔ کسی کو گلاب، کسی کو چنبیلی، کسی کو چمپا، کسی کو کچھ تو کسی کو کچھ۔ کسی نے بہت اچھا کام کیا تو اسے گلاب کہہ دیا۔ کسی نے ان کی مرضی کے خلاف کام کیا، یا ہوم ورک نہ کیا تو ماسٹر صاحب اسے گڑھل کا پھول کہتے۔ مجھے یاد پڑتا ہے ایک لڑکی تھی، پڑھنے میں بہت کم زور؛ وہ کبھی بھی ہوم ورک مکمل کر کے نہیں لاتی تھی؛ ماسٹر صاحب اس کو بہت سمجھاتے، مارتے ڈانٹتے مگر اس کے دماغ میں کچھ بھی نہیں گھستا، ماسٹر صاحب نے اس کا نام گڑھل رکھ دیا۔ گڑھل پھول کے بارے میں وہ بتاتے کہ یہ بے گن کا پھول ہے جو خوب صورت تو ہے مگر اس میں کوئی خوش بو نہیں، اور وہ پھول ہی کیا جس میں خوش بو نہ ہو۔ ماسٹر صاحب ہم بچوں کو خوب صورت پھول کے ساتھ ساتھ بوئے خوش بودار یعنی مہک دار پھول بننے کی بھی ترغیب دیتے اور کہتے؛ جس طرح سے اچھے پھول کو لوگ دور ہی سے دیکھ کر پہچان لیتے ہیں اور اس کی کشش لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے، انسان کو بھی ویسا ہی بننا چاہیے۔ ایک لڑکا گول مٹول اور موٹا تازہ تھا ماسٹر صاحب اسے گیندے کا پھول کہتے، ایک لڑکی بہت شرمیلی تھی، اس کا نام ماسٹر صاحب نے چھوئی موئی رکھا ہوا تھا۔ ایک لڑکی کی آنکھیں بڑی بڑی تھیں ماسٹر صاحب اسے سورج مکھی کہتے۔ ایک لڑکی دبلی پتلی تھی بالکل سوئی کی طرح ماسٹر صاحب اس کو سرو کہتے اور پھر یہ کس طرح دیو قامت ہوتا ہے اس کی کہانی بتاتے۔
مجھے امید ہے کہ کلیوں، کیاریوں اور پھولوں کا شوقین، نا تراشیدہ پتھروں کو زندگی بھر تراش کر خوب صورت روپ دینے کی کوشش کرنے والا وہ صورت گر ویسے ہی خوب صورت، پر بہار، تر و تازہ اور خوش بووں سے معطر باغوں میں آرام کی نیند سو رہا ہوگا۔


طلبا کے علاوہ اساتذہ بھی ماسٹر صاحب کا بڑا احترام کرتے؛ ماسٹر صاحب ایک فوجی جوان کی طرح ہمیشہ فٹ رہتے اور بچوں کو بھی اسی طرح چاق چوبند رہنے کی تلقین کرتے۔ ماسٹر صاحب بہت با رعب دکھائی دیتے؛ ان کی کلاس چھوڑنے کی ہمت کسی کو نہیں ہوتی تھی۔ وہ اچھے سے اچھے کائیاں اور ڈھیٹ بچے کو بھی ٹھیک کر دیا کرتے تھے۔ انھیں غیر حاضری یا کلاس میں موجود ہونے کے باوجود پڑھائی میں توجہ نہ دینا، بالکل بھی پسند نہ تھا۔ وہ ایک چیز کو کئی طریقے سے سمجھانے کی کوشش کرتے، کبھی کبھی غصے بھی ہو جاتے۔ جسے وہ ’محبت‘ کا نام دیا کرتے۔ ماسٹر صاحب کی اس مخصوص’شفقت و محبت‘ کا شکار میں بھی ہوا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے شاید درجہ دوم یا سوم تھا، ٹھیک طرح سے یاد نہیں، ماسٹر صاحب کلاس میں پڑھا رہے تھے کہ پتا نہیں کیسے مجھے نیند آ گئی اور میں اونگھنے لگا۔ انھوں نے اشارے سے کسی بچے کو مارنے یا جگانے کے لیے کہا۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں، جیسے بچے اسی انتظار میں بیٹھے تھے، تڑا تڑ کئی ہاتھ میرے سر پر پڑے اور میں رونے لگا۔ ماسٹر صاحب نے سبھی لڑکوں کو بلایا اور ان کی گوشمالی کرتے ہوئے کہا ”میں نے اتنا زور سے مارنے کے لیے تھوڑا ہی کہا تھا، میں نے تو محض جگانے کو کہا تھا۔ “
ماسٹر صاحب کی تربیت کا انداز بھی عجیب و غریب تھا۔ وہ بچوں کی ایمان داری کو آزمانے کے لیے سر راہ کچھ روپے یا پیسے گرا دیتے اور یہ دیکھتے کہ بچہ اسے اٹھا کر رکھ لیتا ہے یا پھر ہیڈ ماسٹر کے حوالہ کرتا ہے۔ اگر بچے نے لے جا کر لقطہ کی پیٹی، ہیڈ ماسٹر یا پھر جس کا سامان ہے اس کے حوالہ کر دیا تب تو ٹھیک اور اگر غلطی سے بھی اپنی جیب میں رکھ لیا تو اس کی خیر نہیں؛ ایمان داری دکھانے پر ماسٹر صاحب بچوں کو شاباشی دیتے اور شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرتے۔
ماسٹر اللہ داد کریم ہر فن مولا تھے یعنی ریاضی، جغرافیہ، اردو، تاریخ، سوشل سائنس، اسلامیات سبھی کچھ پڑھاتے مگر بنیادی طور پر وہ انگریزی کے استاد تھے؛ شکل صورت سے بھی بالکل انگریزوں کی طرح گورے چٹے اور لمبے تڑنگے نظر آتے۔ سبق یاد نہ کرنے والے بچوں کی وہ ایسی دھنائی کرتے کہ بس۔ ایسے موقع پر وہ اپنے مخصوص انداز میں کہا کرتے ’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے‘ اور یہ کہتے ہوئے چھڑیوں کی برسات کر دیتے۔ ماسٹر صاحب کے نزدیک ساری بیماریوں کا علاج بس چھڑی ہی سے ممکن تھا۔
مجھے یاد پڑتا ہے درس گاہ میں ہم سارے بچے کلاسیں شروع ہونے سے قبل ترانہ اور دعا پڑھا کرتے تھے۔ دعا کیا تھی علامہ اقبال کی ’یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے‘ اور ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ اس وقت ہمیں ترانہ ختم ہونے کے بعد آداب سکھائے جاتے مثلاً کوئی چیز گری پڑی ملے تو اس کا کیا کرنا ہے، چھینک آئے تو الحمد للہ کہنا ہے، سننے والے کو جواب میں یرحمک اللہ، جمائی کے وقت الٹا ہاتھ منہ پر رکھنا ہے، کھانا بسم اللہ سے شروع کرنا ہے، کھانے کے بعد دعا پڑھنی ہے، سڑک میں بائیں طرف سے جانا اور دائیں طرف سے لوٹنا ہے وغیرہ۔ یہ سب باتیں ماسٹر صاحب بڑے ہی دل نشیں انداز میں بتاتے۔ صفیں سیدھی کرنے کا طریقہ اور دعا کے وقت ہاتھ اٹھانے کا سلیقہ بھی وہ اپنے مخصوص انداز میں بیان کرتے۔ صف ذرا بھی ٹیڑھی ہوئی تو بس وہ تنبیہ الغافلین ہی کا سہارا لیتے۔ ناخن چیک کرتے اور بڑھے ہوئے ہونے پر اسی چھڑی سے ناخنوں پر کُٹائی (ضرب کاری) ہوتی۔ ماسٹر صاحب اپنا قلم، کان کے اوپری حصے پر کھونس کر رکھتے۔ اگر کبھی چھڑی بھول گئے تو قلم کا بھی سہارا لیتے اور سزا کے طور پر قلم انگلیوں کے بیچ رکھ کر اتنے زور سے دباتے کہ بچے بلبلا اٹھتے۔ ماسٹر صاحب کو چچا غالب کی طرح آم بڑے پسند تھے؛ ماسٹر صاحب آم کو بھوجن گھسیڑ کہتے۔ جو بچے ان کے نشانے پہ رہتے، وہ انھیں غصے سے ”ایڈیا“ کہا کرتے تھے۔ جب ماسٹر صاحب کو اس کی خبر ہو جاتی تو وہ دبے پاوں کلاس میں داخل ہوتے اور اس بچے کو پکڑ کر کہتے، ’’کیا کہا تھا تم نے؟ ایڈیا آ رہا ہے۔ لو ایڈیا آ گیا“۔ اور پھر کسی نئے آئیڈیا یا مشکل سبق میں اس کو گرفتار کر لیتے اور مجرم بے چارہ سوچتا ہی رہ جاتا۔
ماسٹر صاحب کی کچھ عادتیں بڑی عجیب سی تھیں، آج انھیں یاد کرتا ہوں تو ہنسی بھی آتی ہے اور ان کے انداز تربیت پر مسکرائے بغیر نہیں رہا جاتا۔ امتحان کے دنوں میں ماسٹر صاحب امتحان ہال میں طلبہ کو کچھ نہیں کہتے بس اخبار پڑھنے میں مصروف ہوجاتے، مگر نقل کرنے والوں کو بہت آسانی سے پکڑ لیتے۔ ان کا انداز ہی نرالا تھا، جس اخبار کے مطالعے میں بظاہر وہ غرق دکھائی دیتے اس میں ایک دو جگہ چھوٹے چھوٹے شگاف کر دیتے اور انھیں شگافوں سے طلبہ پر نظر رکھتے، جب کہ طلبہ یہ سمجھتے کہ ماسٹر صاحب تو اخبار کا مطالعہ کر رہے ہیں۔

ماسٹر صاحب بچوں سے باقاعدگی سے دریافت کرتے کہ کس نے نماز نہیں ادا کی ہے، نگرانی کے لیے ہر محلے کے ایک ایک دو دو لڑکوں کو ایک دوسرے کی ذمہ داری سونپ دیتے کہ دیکھنا فلاں مسجد میں آیا تھا، یا نہیں؛ یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی ہم لوگ سانٹھ گانٹھ (Setting) بھی کر لیتے، لیکن پتا نہیں کیسے ماسٹر صاحب کو اندازہ ہو جاتا تھا اور پھر ہماری درگت بنتی تھی؛ نماز نہ پڑھنے پر الگ اور جھوٹ بولنے پر الگ۔

ماسٹر صاحب کتاب پڑھاتے تو کبھی کبھی متن کی قرات بھی کراتے تھے، اس میں ح، ہ، ق، ک، س، ش وغیرہ پر بڑی باریک نظر رکھتے۔ ماسٹر صاحب آنکھیں بند کیے رہتے ایسا لگتا جیسے سو رہے ہیں مگر جیسے ہی غلطی ہوتی صرف ٹوکتے ہی نہیں بلکہ دوبارہ، سہ بارہ اس کو درست کراتے۔ آزمایش کے لیے چاک یا پنسل دور پھینک دیتے اور کہتے اسے اٹھا لاؤ اور ایک دو، تین، چار گنتے ہوئے جاؤ اور گنتے ہوئے واپس آو؛ اس درمیان بچے کو گنتی سے زیادہ اپنی غلطی کے اصلاح پر توجہ مرکوز کرنی ہوتی کہ گنتی ختم ہوتے ہی ماسٹر صاحب وہی الفاظ پھر دہرانے کو کہتے اور غلطی ہونے پر دھنائی کرتے۔ جغرافیہ کی کلاس میں بحرالکاہل، بحرمنجمد شمالی، بحر اوقیانوس، اور اس طرح کے بھاری بھرکم الفاظ یاد نہ رکھنے پرنہ جانے کتنے طلبہ کی شامت آتی۔
یہ سطریں لکھتے ہوئے عجیب کیفیت سے دو چار ہوں؛ ماسٹر صاحب ہم لوگوں کو اسپورٹس بھی سکھاتے اور ہفتے میں ایک آدھ دن ورزش بھی کراتے۔ کبھی کبھی وہ کلاس کی چہار دیواری سے باہر نکال کر میدان میں لے جاتے اور وہیں اپنے مخصوص انداز میں پڑھاتے۔ میں آج بھی اپنے اسکول سے متصل اس بوڑھے آم کے پیڑ کو نہیں بھول سکتا، جب اس کے نیچے لکڑی کی کرسی پر بیٹھ کر ماسٹر صاحب ہمیں درس دیا کرتے تھے اور ہم بچے ان کے گرد حلقہ بنائے کھڑے ہوا کرتے۔ ماسٹر صاحب کی موٹے لینس والی عینک سے جھانکتی آنکھیں، برسوں کے تجربات سے سفید ہوئی داڑھی اور حالات زمانہ کے سبب ہاتھوں میں پڑی ہوئی جھریاں اور اس میں موٹی سی بانس کی قمچی آج بھی مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔


آج میں ایک مرتبہ پھر گاؤں آیا ہوں اور آتے ہی اسکول کی طرف رخ کیا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ ہر سو خاموشی چھائی ہے، ماسٹر صاحب کے کوارٹر کا دروازہ بند ہے۔ کنوئیں کا منڈیر جہاں ماسٹر صاحب بیٹھ کر وضو کرتے تھے خالی خالی سا ہے۔ بچے اپنے اپنے درجوں میں پڑھائی میں مشغول ہیں لیکن پھول کی کیاریاں، مچان اور اس میں اگے ہوئے سبز پتے کدو، ککڑی، کھیرا اور پھول اور سبزیوں کا نام و نشان بھی باقی نہیں ہے۔ جہاں ہم لوگ ترانہ اور دعائیں پڑھا کرتے تھے وہ لان بھی خالی پڑا ہے، مجھے لگا ماسٹر صاحب وہیں کرسی پر کونے میں بیٹھے ہیں، میری نگاہ کونے پر طرف گئی وہاں بے ترتیب اینٹوں کا ڈھیر پڑا ہے۔ ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں موجود وہ چارپائی بھی خالی ہے، جس پر ماسٹر صاحب لیٹا کرتے تھے۔ میں چند لمحے وہاں رکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے ابھی ماسٹر صاحب کچھ بولیں گے؛ اپنا کرتا اور ٹوپی ٹھیک کرتے ہوئے کچھ پوچھیں گے۔ ”پڑھائی تو ٹھیک چل رہی ہے ناں؟ کھانے پینے کی کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟ مجھے امید ہے تم ہم سب کا نام روشن کروگے، ہمیں تم پر فخر ہے۔ “ اور میں صرف جی جی کرتے ہوئے، شرم سے گڑا جارہا ہوں؛ اپنی کم مائیگی اور نا ہنجاری پر شرمندہ، خدا تعالیٰ سے دل ہی دل میں دعا کر رہا ہوں، خدایا! عزت رکھ لیجیو! کاش میں الفت و محبت اور امید کی لو لگائے ہوئے ان بزرگوں کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر پاوں۔ میرے اندر مزید وہاں رکنے کی ہمت نہیں ہے اور میں بوجھل قدموں کے ساتھ اسکول سے باہر نکل آیا ہوں۔

۔۔۔مزید

منگل، 12 ستمبر، 2017

کرائم شوز: چند سوالات اور ان کے جوابات


فرحان احمد خان معروف صحافی اور مترجم ہیں جو متعدد موضوعات پر  لکھتے ہیں ، گذشتہ دنوں انھوں نے اپنے فیس بُک پر کرائم شوز سے متعلق چند سوالات کئے تھے ، ان کے سوالوں کا میں نے بھی اپنی فہم کے مطابق جواب دینے کی کوشش کی تھی ۔سوالوں کے ساتھ جوابات فیس بُک احباب کی نذر ہے ۔ فرحان بھائی کے شکریے کے ساتھ ۔
محمد علم اللہ
دہلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

1- کیا یہ پروگرام معاشرے کے سدھار کے لیے ضروری ہیں؟اگر ہاں تو کیسے؟
جواب : 
میرے خیال میں اس سے سماج کے سدھار کے بارے سوچنا ویسے ہی ہے جیسے ریت میں سراب کے پیچھے دوڑنا ۔ایک منفی رویہ کو فروغ دیکر اس سے مثبت نتیجہ کی توقع  کیسے کی جا سکتی ، ببول بوکر آپ گلاب نہیں اگا سکتے  ۔ چونکہ اس میں باضابطہ طور پر  جرم کو فلما کر دکھایا جاتا ہے یا اس کی تفصیلات بتائی جاتی ہیں کہ فلاں ظلم کس طرح وقع پذیر ہوا یا اس کے پیچھے کیا کیا عوامل  تھے  کس طرح کا اسلحہ ، زہر اور انسانی جان کو نقصان پہنچانے والی اشیاء کا کیسے  استعمال کیا گیا اور آج کل چھوٹے سے لیکر بڑے تک یہاں تک کہ بچے بھی  ٹیلی ویژن یا انٹرنیٹ کے ذریعہ ایسے پرگراموں تک بآسانی رسائی  رکھتے ہیں ۔متاثر نہ ہونا ناممکن ہے ۔ انسان کسی نا کسی حد تک  اس کا اثر بھی قبول کر تا ہی ہے ۔

2- کیا جرائم پیشہ افراد کی آپ بیتیاں نشر کر کے جرائم ختم ہو جائیں گے؟
جواب : 
آپ بیتی ، سوانح ، افسانہ ، کہانی یہ سب کچھ در اصل معاشرہ کا آئینہ ہوتے ہیں ،آپ معاشرے کو جس طرح کا آئینہ دکھائیں گے اثر اس کا ویسے ہی ہوگا ، اس معاملہ میں گرچہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب تک برائی کو برائی نہیں کہا جائے گا بندہ کیسے جانے گا کہ یہ غلط ہے ،  یا صحیح ، اپنی جگہ پر یہ بات درست ہو سکتی ہے لیکن مجموعی طور پر اس کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا ، اس لئے جرائم پیشہ لوگوں کی آپ بیتیاں شائع نہیں کرنی چاہئے ، اگر  شائع کرنا بہت ضروری بھی ہو تو اسکرپٹ اس انداز سے لکھا جانا چاہئے کہ بجائے اس سے ہمدردی پیدا ہو، اس کو واقعی جرم تصور کئے جانے کا مادہ پیدا ہو ۔ لوگ  خاص کر بچے اس کو آئیڈیل کے طور پر قبول نہ کریں بلکہ جانیں کہ یہ ایک خراب آدمی تھا جس کو لوگ آج اس کے خراب کام سے یاد کر رہے ہیں نا کہ اچھے کام سے ۔ 

3-کیا جرائم کی تمثیلی منظر کشی اور پیش کش جرائم کی تعلیم تو نہیں بن رہی؟
جواب : 
بہت حد تک ، اسی وجہ سے آپ دیکھیں گے  اور اکثر  نوجوانوں کی زبان سے اس طرح کی باتیں سنیں گے کہ اس نے اس چیز کو یوں انجام دیا اور اس کو  کو فلاں فلم میں یوں دکھایا گیا ہے  وغیرہ وغیرہ ۔  جب انسان کے اندر جنون سوار ہوتا ہے تو پھر اس کو کچھ سجھائی نہیں دیتا اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس طرح کی منظر کشی یا لٹریچر جنونی کیفیت پیدا کرنے میں اہم کر دار ادا کرتے ہیں ۔ ابھی کچھ دنوں قبل کہیں میں نے یہ پڑھا تھا کہ نوجوان بڑی تعداد میں ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں اور سیکس اور جنسی موضوعات کے علاوہ وہ جن چیزوں کو گوگل میں تلاش کر رہے ہیں ان میں بلا تکلیف آسان طریقہ خود کشی  کیا ہے ؟ اس  بارے جاننے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ایسے معاشرے میں جرائم کی تمثیلی منظر کشی جذبات کو مزید بر انگیختہ کرنے کا کام کرے گا چہ جائکہ ہم اس سے اصلاح اور سدھار کی امید رکھیں ۔ 

4- پولیس سرکاری ادارہ ہے، بتایا جاسکتا ہے کہ کس ضابطے کے تحت کسی نجی چینل کو پولیس کی نفری بطور ایکٹر فراہم کی جاتی ہے؟
جواب : 
میرے خیال میں پولس کی باضابطہ نفری تو کسی چینل کو فراہم نہیں  کی جاتی ہوگی ، جو چینل  یا  پروڈکشن ہاوس اس طرح کے پروگرام کراتے ہیں ان کے پاس مختلف قسم کے ڈریس اور میک اپ کا ساز و  سامان ہوتا ہے جس سے وہ اپنا مطلوبہ کیریٹر ڈیولپ کرلیتے ہیں ۔ آپ جیسا  بتا رہے ہیں اگر کسی چینل یا ادارے کو واقعی اداکاری کے لئے باضابطہ اور حقیقی کارکن فراہم کئے جا رہے ہیں تو یہ تباہی کا عندیہ ہے ، اس کی روک تھام کے لئے سماجی کارکنان اور سنجیدہ طبقہ کو آگے آنا چاہئے ۔ 

5- ریٹنگ اور منافع کے لیے پروگرام چلانے والے چینلز کے لیے عوام کے ٹیکسوں سے تن خواہ پانے والے پولیس اہلکار کیسے میسر آجاتے ہیں ؟ انہیں پیشہ وارانہ مصروفیات میں سے فلم شوٹنگ کا وقت کیسے مل جاتا ہے؟
جواب : 
یہ ایک تحقیق کا موضوع ہے ، صحافی حضرات اور سماجی کارکنان کو اس  پر نظر رکھنی چاہئے اور اس کے خلاف نہ صرف احتجاج کرنا چاہئے بلکہ ان پر  تادیبی کاروائی کے لئے  منسلکہ اداروں کے ذمہ داران  کے علاوہ  عدالت کا بھی دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے ۔ 

6- کرائم پروگراموں کے اینکرز کو جیلوں میں ملزمان یا مجرموں سے براہ راست بات چیت کی اجازت کس ضابطے کے تحت اور کیوں دی جاتی ہے؟ وہ کس اختیار کت تحت سوال پوچھ کر نشر کرتے ہیں ؟
جواب : 
اس کی اجازت  کسی بھی ملک کا قانون نہیں دیتا ، یہ ساری چیزیں افسران اور ایسے افراد کے ملی بھگت سے انجام دی جاتی ہیں ۔  دسمبر 2012 میں دہلی میں ایک چلتی بس میں لڑکی کو ریپ کرنے والے مجرموں سے بات چیت پر مبنی دستاویزی فلم لیزلی اڈون نے جب بنائی تھی اور اس میں مجرموں سے بات چیت کی تھی تو اس وقت ہندوستان سمیت عالمی سطح پر اس  موضوع پر کافی بحث ہوئی تھی ، اس فلم پر  حالانکہ ہندوستانی حکومت نے پابندی عاید کر دی تھی یہ الگ بات ہے کہ وہ فلم بعد میں لندن سے نشر ہوئی ۔ اس سلسلہ میں ماہرین کی رائے گوگل سرچ سے حاصل کی جا سکتی ہے ۔

7- میڈیا کو گالیاں دینے والے ناظرین نے کبھی ان چٹ پٹے پروگراموں کی پیش کش پر غور کیا ہے؟ کوئی سنجیدہ سوال اٹھایا ہے؟
جواب : 
میرے خیال میں اس طرح کی چیزوں پر دونوں طرح کےافراد پائے جاتے ہیں ، کچھ اس کو پسند کرتے ہیں کچھ نا پسند ، ایک سنجیدہ معاشرے میں اس کے اثرات پر  دونوں جانب سے غور کیا جانا چاہئے اور منطقی نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش ہونی چاہئے ۔ مجھے نہیں پتہ کہ ہندوستان میں یا پاکستان میں اس طرح کے پروگراموں پر کسی نے باضابطہ آواز اٹھائی ہے ۔ ہماری یہاں بد نصیبی تو یہی ہے کہ ہم کسی بھی چیز کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ، نہ تو اس طرح کے موضوعات پر ریسرچ ہو تی ہے اور نہ ہی اس کے مثبت اور منفی پہلووں پر کوئی غور و خوض کرتا ہے ۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارا پورا بر صغیر کا معاشرہ دن بدن قعر مذلت میں گر رہا ہے ۔ یہ صرف جرائم سے متعلق اثرات کی بات نہیں ہے ، ماحولیات ، بیماری ، حفظان صحت وغیری جیسے موضوعات کو بھی لیکر  ہمارے یہاں آپ کو غیر سنجیدگی ہی نظر آئے گی ، گویا یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ، اور جب تک آپ کسی چیز کو مسئلہ نہیں سمجھیں گے اس کے حل کی تد بیر کیسے تلاش کریں گے ۔ 

8- کیا ان پروگراموں میں آپ نے کبھی کسی ہائی پروفائل مجرم یا ملزم کو چیخنے والے اینکر کے سامنے نظریں جھکائے ہتھکڑی لگے کھڑے دیکھا ہے؟
جواب : 
میں نے اس پر کبھی غور نہیں کیا ۔

9- کیا آپ کے ذہن میں یہ سوال نہیں اٹھتا ہے کہ پولیس ، مجرم ، اور عدلیہ کے بیچ کسی بھی تیسرے گروہ کاکمرشل مقاصد کے لیے حائل ہونا پہلے ہی سے خستہ حال نظام عدل کو مزید متاثر کر رہا ہے ؟
جواب : 
بالکل متاثر کر رہا ہے ، ہمارے یہاں عدالتی نظام جس سست روی کا شکار ہے ، اس کی وجہ سے یہ عناصر تو فائدہ اٹھا ہی رہے ہیں ۔ جرمن سماجی علوم کے ماہر جرگن  ہیبر ماس  نے 18 ویں صدی سے لے کر اب تک کے ميڈيائی ترقی  کا مطالعہ کیا  اس کی تحقیق کے مطابق لندن، پیرس اور تمام یورپی ممالک میں اس کا رواج  پبلک اسفیر  کے آس پاس  ہوا ،   عوامی  مباحثے کو کافی  ہاوس  اور سیلون سے حاصل کیا گیا تھا لیکن یہ طویل عرصہ تک نہیں تھا۔  انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سیاست پارلیمان میں اور میڈیا میں ہوتی  ہے، جبکہ عوام کے مفادات اقتصادی مفادات پر غلبہ رکھتے ہیں۔  یہ  تسلیم  کیا  گیا کہ عوام  کے خیالات  کا تبادلہ کھلے عام نہیں  بلکہ بڑے لوگوں کے اثرات اور توڑنےمروڑنے کے سٹائل پر منحصر ہے۔ ظاہر ہے کہ اکثر  اقدام  جس عوام کے نام پر کی جاتی ہے، وہ اصل میں خود سکھ سے متاثر دماغی تانے بانے کا شکار ہوتی ہے۔
جرم کے نام سے تیزی سےکٹتی فصل   بھی اس نقطہ نظر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ قریب 225 سال کی عمر پرنٹ میڈیا اور 60 سال سے ٹکے رہنے کی جدوجہد کر رہے الیکٹرانک میڈیا کی خبروں کا پیمانہ جرم کی بدولت اکثر چھلكتا ظاہر ہوتا ہے۔ خاص طور پر 24 گھنٹوں کے ٹیلی ویژن کی تجارت میں، جرم کی دنیا خوشی کا سب سے بڑا سبب بن گیا ہے کیونکہ جرم کی دریا کبھی  بھی خشک نہیں ہوتی  ہے۔ نادان صحافی مانتے ہیں کہ جرم کی ایک انتہائی معمولی خبر میں بھی اگر مہم جوئی، راز، مستی اور تجسس  پروس  دیا جائے تو وہ چینل کے لئے  دلچسپی کا باعث ہو سکتی ہے۔ لیکن عوام کا خیال ہے کہ، کوئی ثابت کرنے کے لئے کافی مضبوط نہیں ہے۔
گونگا باکس کہلانے والا ٹی وی اپنی  پیدائش کے کچھ ہی سال بعد اتنی تیزی سے کروٹیں بدلنے لگے گا، اس کا تصور آج سے چند سال پہلے شاید کسی نے بھی نہیں کیا ہوگا ، لیکن ہوا یہی ہے اور یہ تبدیلی اپنے آپ میں ایک بڑی خبر بھی ہے۔ میڈیا انقلاب کے اس دور میں، قتل، عصمت دری اور تشدد کے واقعات  سبھی میں کوئی  نہ کوئی خبر ہے۔ یہی خبر  24 گھنٹے کے چینل کی خوراک ہے۔ یہ نئی صدی کی نئی چھلانگ ہے۔

10-کیا یہ سنسنی خیر پروگرام سماج میں شک ، عدم تحفظ اور خوف سمیت دیگر تباہ کن نفسیاتی عوارض کا باعث نہیں بن رہے ؟
جواب : 
بالکل بن رہے ہیں ، اسی لئے میں نے کہا یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کو اس جانب توجہ دینا چاہئے اور اس کی پوری تحقیق کر کے اس سے سماج میں پڑنے والے اثرات سے عوام کو رو برو کرانا چاہئے ۔ اس وقت ہمارے سامنے میڈیا کا  جو چہرہ ہے وہ مستقل تغیر پذیر  ہے۔ اس میں اتنی لچک ہے کہ پلک جھپکتے ہی  یہ ایک نئے اوتار کی شکل میں تبدیل  کیا جا سکتا ہے۔ نئے زمانے میں نئے  انداز  اور جرم کے نئے  طریقوں میں تبدیلی آ رہی ہے۔ ایسے میں اس کے  روک تھام کی بھی  ضرورت  بڑھ رہی ہے۔

۔۔۔مزید