پیر، 15 مئی، 2017

طلبائے برج کورس کی خود نوشت تحریریں: ایک مطالعہ

طلبائے برج کورس کی خود نوشت تحریریں: ایک مطالعہ
محمد علم اللہ

گذشتہ دنوں ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب کے یہاں جانا ہوا تو ان کے ڈیسک پر ایک انتہائی پر کشش اور دیدہ زیب کتاب پر نگاہ پڑی اور میری نظریں وہاں ٹک کر رہ گئیں۔ ڈاکٹر صاحب نے میری دلچسپی دیکھ کر وہ کتاب میرے حوالے کر دی۔ یہ کتاب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبائے برج کورس کی خود نوشت تحریروں پر مبنی اظہاریہ تھی۔ جس کا نام ہے ”منزل ما دور نیست“۔ گھر آتے ہی ورق گردانی شروع کی۔ ایک کہانی، دو کہانی، تین کہانی اور دیکھتے ہی دیکھتے تقریبا ایک رات میں تین سو پانچ صفحات پر مشتمل کتاب چاٹ ڈالی۔ کتاب اس قدر دلچسپ تھی کہ درمیان میں حاجت کو بھی روک دینا پڑا۔ یہ کتاب در اصل دینی مدارس سے فارغ طلباء کی داستان حیات تھی جسے انھوں نے خود رقم کیا ہے۔

کتاب کو پڑھتے ہوئے احمد فراز کی معروف نظم ”خواب مرتے نہیں“گردش کرتی رہی، جس میں احمد فراز نے کہا تھا : ”خواب مرتے نہیں/خواب دل ہیں نہ آنکھیں نہ سانسیں کہ جو/ریزہ ریزہ ہوئے تو بکھر جائیں گے/جسم کی موت سے بھی یہ نہ مر جائیں گے/خواب مرتے نہیں/خواب تو روشنی ہیں/نوا ہیں ہوا ہیں/جو کالے پہاڑوں سے رُکتے نہیں/ظلم کے دوزخوں سے پُھکتے نہیں/ روشنی اور نوا اور ہوا کے عَلم/مقتلوں میں پہنچ کر بھی جھکتے نہیں/خواب تو حرف ہیں/خواب تو نُور ہیں/خواب سُقراط ہیں/خواب منصور ہیں/خواب مرتے نہیں“۔

اس کتاب کو ہم احمد فراز کے اس نظم کی شرح سے تعبیر کر سکتے ہیں جس میں کل 39 خوابوں کی روداد اور خود نوشت کہانیاں ہیں اور ہر کہانی ایک مکمل داستان ہے۔ جس میں درد ہے، کسک ہے، تڑپ ہے، احساس ہے۔ پاکیزہ جذبوں، آنسووں اور نیک تمناوں سے مزین یہ کہانیاں اس وجہ سے بھی دلچسپ اور معلوماتی ہیں کہ اس میں مدارس دینیہ سے فارغ طلباء کی داستان ہے جن کے بہت سارے خوابوں کو بچپن میں ہی کچل دیا جاتا ہے اور ایک مخصوص ذہن اور کینوس میں ان کی تربیت کی جاتی ہے۔ لیکن جب وہ دنیا دیکھتے ہیں اور ان کو اپنی اہمیت اور قابلیت کا اندازہ ہوتا ہے تو کیسے ان کے خواب زندہ ہو جاتے ہیں! اور اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے وہ کس قدر بے قرار ہو جاتے ہیں! یہ کہانیاں مدارس سے فارغ طلباء کو اندھیرے میں اجالے کی نوید سناتی ہیں ۔ ان کے سوچ اور ذہن کے پردے پر کس قسم کی تہیں جمی ہوئی تھیں اور اس کو کیسے ان طلباء نے کھرچ کر پھینک دیا! کیسے مختلف مکاتب فکر اور مسالک کے ماننے والے ایک بینر تلے جمع ہو گئے! کیسے ان کے اندر دین، اسلام، انسانیت اور ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ (اسکول اور یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ طلباء کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر )جاگزیں ہوا! کیسے وہ مسلک اور فرقہ بندی کے قیودسے آزاد ہو کر“ ان الدین عند اللہ الاسلام“ کی تعبیر بننے کے لئے کوشاں ہوگئے! یہ کتاب یہ سب ایک دلچسپ انداز میں بیان کرتی ہے۔

کہانی کاروں میں محمد تمیم، اظہر احسن، محمد اسمعیل، نعیم احمد، شرافت حسین، محمد ارشد، محمد عظیم، فاطمہ اسعد، عتیق الرحمان، فرخ لودی، محمد سلمان، ابرار عادل، فرحانہ ناز، اجمل حسین، محمد اسلم، نہال احمد، مشیر احمد، عمیر خان، رقیہ فاطمہ، روشنی امیر، محمد عادل خان، ساجد علی، اصلاح الدین، عبد الاحد، عمر شمس، فہیم اختر، محمد ثوبان، نعمان اختر، اشتیاق احمد ربانی، محمد نثار احمد، محمد فرمان، نہال احمد، عبد الرقیب انصاری، محمد عدنان، ابو اسامہ، محمد اسلم، توصیف احمد، محمد منفعت اورسلیم الٰہی کے نام شامل ہیں جو ہندوستان کے مقتدر اداروں مثلا ند وۃ العلماء، دار العلوم دیوبند، جامعہ سلفیہ بنارس، جامعۃ الصالحات رامپور، جامعہ حفصہ للبنات لکھنو وغیرہ سے فارغ التحصیل ہیں۔

بیشتر طلباء کا تعلق یوپی اور بہار کے ان دور افتاد اور پسماندہ علاقوں سے ہے، جہاں کے لوگ شاید ہی اعلیٰ تعلیم کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں یا اپنے سپوتوں کو کچھ بڑا بنانے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اگر بھولے سے کبھی ان کے ذہن میں ایسا کوئی خیال پیدا بھی ہوتا ہے تو وہ اس کو وسائل کی کمی اور غربت کی وجہ سے کچل دیتے ہیں۔ بعض کہانیاں اس قدر دلدوز اور جذباتی ہیں کہ آپ کے آنکھوں میں آنسو آئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان میں سے کسی نے ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھا ہوا ہے تو کوئی آئی اے ایس افسر بننے کا متمنی ہے۔ کوئی محقق، کوئی لیڈر تو کوئی قانون داں اور سماجی کارکن بن کر قوم و ملت کی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہے۔ مدارس سے پڑھنے کے بعد یہ طلباء اپنے خواب کو شر مندہ تعبیر نہیں کر سکتے تھے لیکن اب ان کے لئے راہیں ہموار ہو گئی ہیں بلکہ ان میں سے کچھ طلباء تو ملک کی معتبر یونیورسٹیوں میں اچھے کورسوں میں داخلہ پانے میں کامیاب بھی ہو گئے ہیں۔

کہانی کا انداز انتہائی سادہ اور دلچسپ ہے جو کہ نوجوانوں کےقلم، ان کی سوچ اور فکر کو ہی نہیں درشاتا بلکہ بتاتا ہے کہ یہ بہت اونچی اڑان کا خواب دیکھنے والے نوجوان ستاروں پر کمندیں نہ بھی ڈال سکیں تو کم از کم وہاں کی سیر تو کر ہی آئیں گے۔ نوجوانوں کا فطری انداز صرف قاری کو جذباتی ہی نہیں بناتا ہے بلکہ ان کے چھوٹے چھوٹے خواب اور یونیورسٹی آنے سے قبل اور بعد کی داستان آپ کو مسکرانے پر بھی مجبور کر دیتی ہے۔ ایک جگہ ایک طالب علم محمد اسماعیل انگریزی نہ جاننے اور محفل میں اس سے انگریزی میں سوالکیے جانے پر کیسے اپنے راز کو افشاء نہیں ہونے دیتا، اس بارے میں وہ بتاتا ہے : ”باہر چند کر سیاں پڑی ہوئی تھیں، جن پر لوگ سلیقے سے بیٹھے ہوئے تھے۔ دیکھنے ہی سے معلوم ہوتا تھا کہ سارے لوگ پڑھے لکھے ہیں۔ چونکہ میری بچپن سے عادت رہی ہے کہ جہاں پڑھائی لکھائی کی بات ہوتی وہاں میں ضرور بیٹھتا تھا۔ لہذا میں نے بھی اپنی کرسی کو جنبش دی اور ان کے قریب ہو لیا۔ وہ لوگ آپس میں کسی موضوع پر بات کر رہے تھے اور درمیان میں انگریزی کے الفاظ بھی استعمال کر رہے تھے، اس وجہ سے مجھے پوری بات سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ خیر میں اس وجہ سے ہاں میں ہاں ملاتا جا رہا تھا کہ لوگوں کو پتہ نہ چلے کہ میں انگریزی نہیں جانتا۔ آخر ایک صاحب نے Where are you from؟ کہ کر میری پول کھولنے کی کوشش کر ہی ڈالی، لیکن میں بھی کہاں پیچھے ہٹنے والا تھا، آخر مولوی طبقے سے تعلق رکھتا تھا! چچی کے بلانے کا بہانہ کیا اور وہاں سے کھسک لیا۔ اس دن تو میری عزت کسی طرح بچی لیکن جو صدمہ میرے دل پر لگا وہ بہت گہرا تھا اور میں نے اسی دن سے پکا ارادہ بنا لیا کہ میں عصری تعلیم ضرور حاصل کروں گا“۔

اس طرح کے سینکڑوں ، دلچسپ، علمی، معلوماتی اور جذباتی خوبصورت شہ پارے پوری کتاب میں بکھرے ہوئے ہیں، جس سے نئی نسل کی فکر، سوچ اوراس کے رویے کا اندازہ ہوتا ہے۔ مدارس اور جدید دانش گاہوں کے درمیان دوری اور کھائی پر کرب کا اظہار کرتے ہوئے ایک طالب علم محمد تمیم سوال کھڑے کرتے ہیں اور علی گڑھ کے اپنے اساتذہ کے بارے میں بتاتے ہیں: ”یہ بہترین اور اعلیٰ قسم کے دماغ جو موجودہ دور کے تمام جدید علمی ہتھیاروں سے لیس اور اسلامی جذبات سے سر شار، اپنی صلاحیت، اسلام اور مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی کے لئے قربان کرنے کو تیار کھڑے ہیں، مگر یہ سب کے سب ہمارے تقدس اور دینی و دنیوی علوم کی تفریق کی وجہ سے اپنے آپ کو ایک الگ دنیا کا باشندہ سمجھتے ہیں اور اپنے انداز، لب و لہجے، تہذیب و تمدن اور لائف اسٹائل ہر چیز میں اگر ہم سے الگ کھڑے نظر آتے ہیں تو آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ حضرات ہمیں اس قدر تقدس کا حامل سمجھتے ہیں، پر کیا ہم نے انھیں کبھی گلے لگانے اور مدرسے میں آنے کی دعوت دی؟ اب معاملہ روز بروز بد تر ہوتا جا رہا ہے۔ ہم لاکھ اسلام کی غلبے کی دعا کرتے ہیں، مگر اپنے عمل سے بالکل اس کا الٹا کرتے ہیں، کہیں بھی دور دور تک کوئی ایسی تحریک نظر نہیں آتی جس سے اسلامی نظام کے برپا ہونے کی امید کی جا سکے اور طرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ اوپر سے اہل مدارس اسلام کے تحفظ کے نام پر اسلام کے گرد گھیرا اور تنگ کر رہے ہیں“۔

ایک طالبہ فاطمہ اسعد جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پہنچی اور داخلہ وغیرہ کی کارروائی کے بعد ہاسٹل چھوڑ کر اس کے والد جانے لگے تو اس نے کیسا محسوس کیا، اس کا منظروہ کچھ اس طرح جذباتی انداز میں بیان کرتی ہے : ”یہ کیا؟ والد کی آنکھوں میں آنسو؟ یہ میرے لئے نہات حیران کن بات تھی۔ آج تک اتنی بڑی ہو گئی مگر کبھی والد کو اتنا کمزور نہیں پایا تھا۔ نہ جانے کیوں آنسو خود بخود آ گئے تھے اور اس بات کی دلیل دے رہے تھے اور مجھے احساس کرا رہے تھے کہ یہ آنسو ایک بیٹی کے لئے ہے جو ان کے لئے ایک بیٹا ہے اور ان کا فخر، ان کا غرور۔ جب میری طرف سے انھوں نے اپنی آنکھیں پھیر دیں تو پھر پلٹ کر نہیں دیکھا، کہیں میرے آنسو ان کے پیروں کی بیڑیاں نہ بن جائے۔ وہ آخری وقت جب والد نے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا جاؤ اندر!بس اتنا ہی کہا، نصیحت بھی نہیں کی۔ یہ کیا کہوں میں؟ شاید ان کی آواز بھرا سی گئی یا ان کو مجھ پر خود سے سکھانے یا کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہوئی۔ “۔

غازی پور کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والی فرحانہ ناز کی کہانی کافی دلپذیر ہے۔ وہ کہتی ہے : ”بچپن کے اس لمحے کو یاد کرکے آنکھو ں میں آنسو بھر لاتی ہو ں جب میں ڈاکٹر کی ڈریس پہن کر کھیلتی تھی۔ میرے آس پڑوس کے لوگ مذاق مذاق میں کہتے کہ یہ بڑی ہو کر ڈاکٹر بنے گی۔ لیکن میں جانتی تھی کہ یہ نا ممکن ہے۔ اپنے ماحول کو دیکھتی پھر کالج کی پڑھائی۔ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ اللہ پاک کا ہم پر کرم تھا کہ ہم فضیلت ایک ہاسٹل میں رہ کر کر رہے تھے۔ اور میں نے وہاں پر بی یو ایم ایس کی کتابیں خرید کر چوری چوری پڑھنا شروع کر دی تھیں۔ جب ہاسٹل میں کسی لڑکی کو سر درد ہوتا یا بخار ہوتا تو ہم اسے دوائی دے دیتے تھے۔ جب مدرسہ کی چھٹی ہوتی تو میں مطالعہ کے درمیان، جب دوسری لڑکیاں کھیل رہی ہوتیں یا بات کر رہی ہوتیں، تو میں یہ سب سیکھتی اور میں نے ڈھیر ساری کتابیں اپنی جیب خرچ سے خریدی تھیں۔ میرے استاد نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے دعا دی اور کہا : تم ضرور کامیاب ہوگی انشاء اللہ۔ اور میں نے پاپا کو اگلے دن سب بتا دیا۔ میرے پاپا مجھے پڑھانا تو چاہتے تھے لیکن پیسے کی کمی تھی کہ اتنا خرچہ ہوتا تھا گھر کا اور میرے بھائی لوگوں کی پڑھائی پر اور میرے چچا زاد بھائی بہن بھی پڑھ رہے تھے، اس لئے اتنا پیسہ نہ تھا کہ ہم کالج میں پڑھائی کر سکیں۔ اس کے بعد گاؤں میں آہستہ آہستہ پڑھانے اور پڑھنے کا رواج عام ہو گیا۔ جو لوگ اپنے بچوں کو نہیں پڑھاتے تھے وہ اب انھیں پڑھانے لگے۔ اور میں نے اپنے ایک استاد کی مدد سےایک اسکیم چلائی۔ گھر گھر میں دوائی سپلائی کرائی۔ اور ہر گھر میں مجبوری کے تحت جن دواوں کی ضرورت ہوتی ان کو رکھوایا۔ میرا محلہ مجھے ڈاکٹر بٹیا کہنے لگا۔ اس کے بعد میرے انھیں استاد نے اخبارات میں میرے لئے کھوج شروع کر دی۔ لیکن میری مارک شیٹ کوئی کالج نہیں مانتا تھا۔ پھر بھی ہم نے ہمت نہ ہاری اور برابر اپنی کوشش جاری رکھی۔ اب میرے ساتھ پورا گاؤں تھا“۔

ایک اور طالبہ رقیہ فاطمہ، جس کا تعلق اتر پردیش کے ایک قصبہ لونی سے ہے، اپنی داستان سناتے ہوئے کافی پر عزم ہے۔ وہ کہتی ہے: ”انسانیت جس کرب سے کراہ رہی ہے اسے نجات دلانے کی فکر عمر کے ساتھ ساتھ وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ اسلام نے جو حقوق دیے تھے مسلم خواتین کے اعتبار سے اس کو معاشرہ نے چھین لیا۔ مسلم خواتین کو پبلک اسپیس سے بے دخل کر دیا اور گھر کو محدود دائرہ کار بتا کر گھروں میں بند کر دیا۔ حالانکہ عورتوں کا دائرہ کار اگر صرف گھر ہوتا تو ہماری تاریخ میں عورتوں کے جو نام ملتے ہیں وہ نہ ملتے۔ اب برج کورس اس پر کام کر رہا ہے کہ مسلم خوتین کی بھی ایک نئی نسل سامنے آئے جو اسی رول کو زندہ کرے جو کہ صد ر اول کی مسلم خواتین نے کیا۔ لہذا سماجی و فلاحی کاموں کا حصہ بن کر سماج کی انسانیت کی اور امت مسلمہ کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ کرنا چاہتی ہوں ”۔

میں نے یہاں مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر محض چند اقتباسات پر ہی اکتفا کیا ہے، ورنہ پوری کتاب میں ایسے بے شمار واقعات، حالات اور رویوں کا ذکر ہے جس سے جوجھتے لڑتےیہ طلباء اپنے خوابوں کی تکمیل کے لئے علی گڑھ پہنچے جہاں انھیں اپنی منزل کی مراد ملتی نظر آئی۔ طلباء کے اس لازوال خوابوں کی تکمیل کا ذریعہ بنا برج کورس جو معروف مفکر، عالم دین، محقق اور متعدد کتابوں کے مصنف ڈاکٹر راشد شاز کی تمناوں کا مرکز ہے، جسے انھوں نے سوچا اوراپنے خون جگر سے سینچا ہے۔

کتاب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ہی پروفیسر ڈاکٹر کوثر فاطمہ کی نگرانی میں پایہ تکمیل کو پہنچی ہے۔ معروف عالم دین اور جدید مسلم مسائل پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی نے پیش لفظ لکھا ہے جس میں انھوں نے کتاب کے منصہ شہود پر لانے کی وجوہات بیان کی ہیں۔ وہ کہتے ہیں : ”برج کورس اب طلباء کے مضامین کے اس مجموعہ کو شائع کر رہا ہے تاکہ ملت اسلامیہ ہند کے سامنے خود ان طلباء کی زبانی برج کورس کی افادیت، اس کی یافت اور اس کے امکانات کی ایک جھلک حقیقی پس منظر کے ساتھ آ جائے اور برج کورس کے بارے میں جو معاندانہ پرو پیگنڈہ کیا گیا ہے جس کے باعث کچھ حلقے اس کے بارے میں تشویش بے جا کا شکار ہو گئے ہیں اور مدارس اور علماء کے حلقوں میں جو بے جا تحفظات پائے جاتے ہیں ان کا ازالہ ہو سکے اور ان کی غلط فہمیاں اور خدشات دور ہو جائیں“۔ کتاب کی اشاعت کا اہتمام علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کےمرکز برائے فروغ تعلیم و ثقافت مسلمانان ِ ہند نے کیا ہے۔ کتاب عمدہ موٹے کاغذپر مجلد شائع کی گئی ہے۔

http://www.humsub.com.pk/63728/طلبائے-برج-کورس-کی-خود-نوشت-تحریریں-ایک/

۔۔۔مزید