اتوار، 29 نومبر، 2015

مودی جی کو جامعہ ضرور دکھانا چاہئے!

محمد علم اللہ، حیدرآباد
میرا ایک ہندو دوست ہے، انتہائی عزیز، جب وہ 2010 میں جامعہ آیا تو ہم سارے ہی احباب اسکی جن سنگھی اور بھگوا سوچ سے کافی پریشان ہوئے ۔ ہماری اس سے بشمول بھگوا بریگیڈافکار و نظریات کے کافی بحثیں ہوتیں، بسااوقات یہ بحثیں۔۔ تو تو۔ میں میں ۔۔اور تکرار تک پہنچ جاتیں ، وقت گذرتا رہا پھر 23/فروری 2011 کو جامعہ کا اقلیتی کردار بحال ہوا، تواس وقت ہماری بحث کچھ زیادہ ہی بھیانک صورتحال اختیار کر گئی ۔ایک دن ہماری زبردست بحث اس بات پر ہوئی کہ جامعہ کو اقلیتی کردار ملنا چاہئے یا نہیں ؟ میرے دوست کی رائے تھی کہ بالکل نہیں ملنی چاہئے ، ہماری رائے الگ تھی اور ہمارے پاس اپنے دلائل تھے ، اس دن اس موضوع پر گفتگو کچھ ایسی ہوئی کہ ہم دونوں پھٹ پڑے اور اس دن ہمارے راستے الگ الگ ہو گئے ۔
ابھی زیادہ دن نہیں گذرے تھے کہ میرا وہ فاضل دوست میرے پاس آیا اور کہنے لگا بھائی تم درست کہتے تھے ، میں غلط تھا، مجھے معاف کرنا اور پھر ہم دونوں کی دوستی ہو گئی اور یہ دوستی ایسی ہوئی کہ آج بھی جب تک ہم دونوں ایک مرتبہ دوری کے باوجود فون پر ہی سہی گفتگو نہیں کر لیتے ہمارا دن نہیں کٹتا ۔
ایک دن میرے دوست نے مجھے بتایا "جامعہ آنے سے قبل میں نے جامعہ کے علاوہ جے این یو ، بی ایچ یو ، ڈی یو کے بھی فارم پُر کئے تھے اور اتفاق سے جامعہ کے ساتھ ڈی یو اور بی ایچ یو میں بھی میرا نام آ گیا تھا ، میرے دادا اور گھر والوں کا شدید اصرار تھا کہ میں بی ایچ یو میں داخلہ لوں ، لیکن میری خواہش تھی کہ میں جامعہ میں ایڈمیشن لوں ،اس لئے کہ ماڈرن ہسٹری میں جامعہ کا ایک مقام ہے ،لیکن گھر والے مان نہیں رہے تھے ، دادا کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو رہے تھے ، آخر میں نے دادا سے وجہ دریافت کی کہ کیوں جامعہ میں داخلہ نہ لوں؟ تو انھوں نے کہا کہ جامعہ مسلمانوں کا ادارہ ہے اوروہاں سا رے کٹر پنتھی پڑھتے ہیں ، انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ جامعہ میں دہشت گرد پڑھتے ہیں ، میرے پورے گھر میں لوگوں کی یہی رائے تھی ، سب ڈرے ہوئے تھے اور سبھی کا کہنا تھا کہ جامعہ دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے ، لیکن میں بضد ہو کر جامعہ میں داخلہ لیا جس کے لئے مجھے لڑائی بھی لڑنی پڑی ۔آج میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پورے ہندوستان میں سہی معنوں میں اگر کہیں سیکولرزم کا نمونہ دیکھنا ہے تو جامعہ میں دیکھنا چاہئے ۔ مجھے اس پر فخر ہے کہ میں جامعہ کا طالب علم ہوں ، میں جامعہ کا احسان مند ہوں کہ اس نے مجھے علم و ادب کا وہ پاٹھ پڑھایا جو شاید میں دوسری جگہ نہیں پا سکتا تھا "۔
اس نے مجھ سے جامعہ آنے سے قبل کی اپنے ، اور اپنے گھر والوں کی اور بھی بہت ساری غلط فہمیوں کے بارے میں بتایا، جس پر اکثر وہ نادم بھی ہوتا رہتا ہے ۔ وہ ساری چیزیں میں یہاں نہیں لکھنا چاہتا۔ بس اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر پرو فیسر طلعت نے نریندر مودی جی کو جامعہ آنے کی دعوت دے ہی دی ہے، تو اسے آنے دینا چاہئے تاکہ وہ بھی دیکھے کہ جامعہ میں کیا کچھ ہے ، اور قوم و وطن کے لئے جامعہ کیا قربانی پیش کر چکا ہے اور کر رہا ہے ۔ مودی جی نے جامعہ کے تعلق سے 2014 الیکشن کمپین کے دوران خطاب میں جامعہ کی بابت جو کچھ کہا تھا ، میں ان کی باتیں یہاں نقل کرکے اپنے قارئین کا وقت کا ضائع نہیں کرنا چاہتا ۔ وہ خطاب یو ٹیوب میں موجود ہے احباب اسے دیکھ سکتے ہیں، وہ خطاب کوئی معمولی خطاب نہیں بلکہ جامعہ اور جامعہ برادری کے خلاف خطرناک زہر ہے ، جسے سُن کر سینہ چھلنی اور دل اداس ہو اٹھتا ہے کہ ہماری مادر علمی کی بابت کوئی ایسی رائے رکھتا ہے ۔ اس سوچ کی عکاسی بی جے پی اور ایسی سوچ رکھنے والے لوگ اقلیتوں اور خصوصا مسلمانوں کے خلاف اکثر کرتے رہتے ہیں ۔
میں سمجھتا ہوں اس میں غلطی ہماری بھی ہے کہ ہم حقیقت حال سے انھیں واقف کرانے کے لئے کوشش نہیں کرتے ۔ میں اپنے دوست کی ایک اور بات نقل کرتے ہوئے اپنی بات سمیٹنے کی کوشش کروں گا ۔ اس نے مجھ سے کہا تھا "ہندووں کی ایک بری تعداد مسلمانوں کے رہن سہن ، مذہب اور فکر سے لاعلم ہے ، اس لئے نادانی اور کچھ لوگوں کی زہر افشانی کی وجہ سے وہ مسلمانوں کو غلط سمجھتے ہیں ، حالانکہ ایسا نہیں ہے ، بلکہ یہ صرف اور صرف مس انڈر اسٹندنگ اور دونوں قوموں کے درمیان بُعد کا نتیجہ ہے۔ اس سلسلہ میں ہمیں آگے بڑھ کر کام کرنا ہوگا ایک دوسرے کا ساتھ لیکر آگے بڑھنا ہوگا ، جب ہم ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھیں گے تو تفرقہ میں بھی یقینا کمی آ ئے گی "۔
مجھے لگتا ہے اگر مودی جی جامعہ کو قریب سے دیکھیں گے تو ان کی سوچ میں بھی میرے دوست کی طرح ہی تبدیلی ضرور آئے گی اور وہ یقینا اس بات پر قوم سے معافی مانگیں گے ، جو انھوں جامعہ کے تعلق سے کہی ۔ اس لئے مودی جی کو جامعہ ضرور دکھانا چاہئے کہ۔
یہ اہل شوق کی بستی یہ سر پھروں کا دیار
یہاں کی صبح نرالی، یہاں کی شام نئی
یہاں کی رسم و رہ مے کشی جدا سب سے
یہاں کے جام نئے، طرح رقص جام نئی
یہاں پہ تشنہ لبی مے کشی کا حاصل ہے
یہ بزم دل ہے یہاں کی صلائے عام نئی
alamislahi@gmail.com

۔۔۔مزید

اتوار، 25 اکتوبر، 2015

رخصت ائے دلی تری محفل سے اب جاتا ہوں میں‎...

محمد علم اللہ
انسانی زندگی میں کبھی نہ کبھی ایسا مرحلہ ضرور آجاتا ہے،جب دوراہے پہ کھڑا انسان خود اپنے ہی تعلق سے کوئی فیصلہ کرتے ہوئے کشمکش میں گرفتا ر ہوجاتا ہے کہ کس راستہ کاانتخاب کرے اور کس کو چھوڑ دے ؟کتابوں، کہانیوں اور فلموں میں متعدد مرتبہ لوگوں کونقل مکانی یا ہجرت کے کرب سے گزرتے اور دوستوں و رشتہ داروں سے دوری کی کسک جھیلتے، اس غم میں گھلتے، ٹوٹتے دیکھا اور محسوس کیا تھا۔ خود مجھے ذاتی طور پر اِس کرب کاپہلی باراحساس تب ہوا جب ہاسٹل میں ڈالاگیا۔ترک وطن یا مہاجرت کا یہ سفر جو محض نو سال کی عمرمیں شروع ہوا وہ سمت سفرکی عوامل اور منزل کی تلاش کے مراحل سے وقتا فوقتا گذرتا رہا اور مہاجرت کا یہ تسلسل اور بنجارہ پن مجھے آبائی وطن سےدور کرہی گیااوریوں نگر نگرکی خاک چھاننے کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو شہر رانچی کے ایک چھوٹے سے گاوں اٹکی سے بھٹکل اور اعظم گڑھ ہوتا ہوا مہانگرکی سمت مڑگیا۔جس میں نظاموں کے شہرحیدرآباد،اس کے بعد ’’بے وطن‘‘ لوگوں کے مسکن دہلی کو اپنا مستقر بنانے کے بعدایک بارپھر حیدرآبادکی جانب عازم سفر ہونا در حقیقت اُسی ’’خانہ بدوشی‘‘کے سلسلوں کی ایک کڑی ہے،جسے عرف عام میں ہجرت یا شہر بدری سے بھی موسوم کیاجاسکتاہے،اب اس کا آخری پڑاؤ کب اور کہاں ہوگا تقدیر کا مالک ہی بہتر جانتا ہے ۔
یہ بھی محض اتفاق ہے کہ بچپن سے ہی امیر خسرو ، بہادر شاہ ظفر ، میر امن دہلوی ، مومن خاں مومن اورمیر و غالب کے قصے،کہانیاں،ان کی نظمیں ، غزلیں اور ان سے متعلق کتابوں میں دہلی کی تہذیب ، علم و فن اور تاریخی واقعات کو پڑھنے کی دھن سوار رہی اور جب کبھی’دلی دربار‘کی باتیں نظروں کے سامنے آتیں تو جی چاہتا کہ ’’ہنوز دِلّی دور است‘‘ محاورہ کو پھلانگ کراس شہر میں پہنچ کر دیکھیں کہ یہ ہزار رنگ داستانوں کا شہر کیسا ہے؟ مرکز ہند کہی جانے والی اس سر زمین کے باسی کیسے ہیں ؟ ، عالم میں انتخاب اس شہر میں کیسی جلوہ سامانیاں ہیں ؟ اور پھر جب اِس آنگن میں بسیرا ہی ہو گیا تو گویا عشق کو اپنے اظہار کی راہ مِل گئی۔ شب و روز علم و فن کی تلاش میں سرگرداں دہلی کے سحر میں گم ہوتا چلا گیا۔تاریخ اور علم و ادب کے اس شہر میں پڑھی ہوئی چیزوں کو تلاش کرتے کرتے، نئی دلی سے پرانی دلی ،کبھی قطب مینار، ہمایوں اور نظام الدین اولیاء کا مقبرہ اور پرانے قلعہ کے کسی منظر میں کھو جاتا تو کبھی کافی ہاؤس ،انڈیا گیٹ ، ماڈرن آرٹ گیلری اور ریگل کے قصوں کے کرداروہاں کے چلتے پھرتے لوگوں میں ڈھونڈتا۔
اب جب کہ دہلی کو چھوڑ چلااورحیدرآبادکو مستقربنا نے کا سوچا تو دہلی کے شب و روزکی یادوں کا ایک ہجوم پریشان کئے ہوئے ہے۔اور باوجود اسکے کہ دکن میں بڑی قدر سخن ہے دہلی میں بیتا ہواایک ایک پل یاد آ رہا ہے۔ حیدرآباد سے بھاگ کر جب پہلی مرتبہ دہلی میں قدم رکھا ، پرانی دلی ریلوے اسٹیشن سے اترکر اوکھلا کیلئے بلیو لائن بس پکڑی اورجب یہ بس جامعہ نگر کیلئے چلنی شروع ہوئی تو لال قلعہ، جامع مسجد ،کناٹ پلیس مارکیٹ کی اونچی اونچی عمارتوں کے سامنے سے ہوتی ہوئی گزرنے لگی اور مبہوت کردینے والی رنگا رنگی جو اخبارات و رسائل میں دیکھی یاپڑھی تھی ،اپنے سامنے جوں کا توں دیکھ کر ایک خوشگوار حیرت سے دوچار ہوئے بغیر نہ رہ سکا تھا ۔
دہلی عجیب شہر ہے۔جہاں آپ کسی نہ کسی روپ میں حیرت سے ملے بنا نہیں رہ سکتے۔ کبھی حکمرانوں کی حکمرانی کا اندازحیران کْن تو کبھی پڑھے لکھے اور قابل لوگوں کی زبوں حالی دیکھ کر حیرانی۔لاچار ، مجبور ، بے بس اور بے سہارا لوگوں کی مجبوری دیکھ کر حیرانی۔ دہلی کی یہی خصوصیت ہے جو ہر طرح اور ہررنگ کے حامل لوگوں کو اپنے یہاں جگہ دے دیتی اور اس کے لئے اپنی بانہیں اس قدر پھیلا دیتی ہے کہ انسان ہر تلخ و شیریں سہہ کر بھی اسی کا ہو کر رہ جاتا ہے۔
دیہاتی زندگی کی بے ریا سادگی سے مزین اور مذہبی ماحول میں پرورش پانے والے ایک بھولے پنچھی کے لیے دہلی کی دھنک رنگ فضا بڑے اچنبھے کی بات تھی۔ ایک خوف دامن گیر تھا کہ نوواردیہاں کی وسعتوں میں کہیں کھو تو نہیں جائے گا؟ یہ آزادی ہے یا انسانوں کے سمندر میں اپنے قطرۂ ہستی کا بے نشاں ہونا ؟ کبھی سوچتا کہ سماج اور معاشرے کو بدلنے کا جو خواب دیکھتا رہا اْس کی تعبیر آسان ہے ؟ یا حالات کے مْنہ زور تھپیڑوں میں اپنی ذات کا خس وخاشاک کی طرح بہہ جانا حقیقت کے زیادہ قریب؟ مجھے اعتراف ہے کہ دِلّی کی فضاؤں میں اپنے بقا کی اُڑانیں بھرتے ہوئے پر کتر لئے جانے کا خوف ہمیشہ دامن گیر رہا لیکن دِلّی کی محبت اِس کی گلیوں اور بازاروں میں رچے بے نام سے تحیر آمیز خوف پر غالب ہی رہی۔
دہلی آنے کے بعد حقیقت اور فریب سے بے نیاز نوجوان کو ایسے ہی لگا تھا کہ اب وہ آزادہے اور اپنی منزل کی تلاش کا اپنا مالک اور مسافر لیکن منزل کبھی کسی کو ملتی ہی کہاں ہے ؟ انسان کی خواہشات لامحدود اور اس کو حاصل کر پانا اس سے زیادہ محدود اور مشکل۔انسان مسرت، خواہش اورچاہ کی تلاش میں سرگرداں پھرتے پھرتے اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے اورخواہشیں اپنی جگہ برقرار ہی رہتی ہیں،یہ خواہشیں اور ضرورتیں قصر کائنات کی راہداریوں میں خوشنما محل کی طرح ہیں جن کے پاس سے لوگ جب بھی گذرتے ہیں ان کی تمنا کرتے ہیں، گذرنے والے حسرت ومسرت کے احساس لے کر گذر جاتے ہیں اور یہ خواہشوں کے ستون وہیں کے وہیں رہ جاتے ہیں۔ شاید زندگی اسی کا نام ہے ،چلتے رہنے کا۔ جہد مسلسل کا ،کہیں نہ رکنے اورقدم لگاتار آگے بڑھاتے رہنے کا ، مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے۔انسان خواہشات کی تکمیل کی خاطر بھاگتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ وہ خود ختم ہو جاتا ہے مگرخواہشیں تشنۂ تکمیل ہی رہتی ہیں۔
اس میں بھی جب انسان کسی خاص مقصد کے حصول کی خاطر کسی سرزمین پر قدم رکھتا ہے تو زندگی اس کے سامنے اپنے نت نئے رنگ روپ سے آتی ہے۔بے شمار موہوم خیالات اس کا پیچھا کررہے ہوتے ہیں۔ اس کے اندر خوف بھی ہوتا ہے اور کامیابی کے حصول میں خدشات بھی اور یہ کیفیت اس وقت تک اس کا پیچھا کرتی رہتی ہے جب تک وہ اپنے مقصود کو حاصل نہ کر لے یا کم از کم اس کے حصول کے قریب نہ پہونچ جائے ،نفس کو نہ تو سکون ملتا ہے اور نہ قرار اور یہ تلاطم بلاخیز سایہ کی طرح اس کا پیچھا کرتی رہتی ہے ۔خوف اس کو ڈستا رہتا ہے ۔
ہمارے معاشرے میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ بچوں کے ذہن میں کچھ اور خیال پنپ رہا ہوتا ہے اور والدین یاسرپرست اس کو کچھ اور بنانا چاہتے ہیں اور وہ بے چارہ بننے اور بنائے جانے کی کشاکش میں معلق رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ خود تباہ ہو جاتا ہے یا باغی بن جاتاہے۔میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا مگرمیرے لئے یہ کہنا ذرا مشکل ہے کہ میں بغاوت کر کے بھاگا تھا لیکن کیفیت کچھ اس کے سوا بھی نہ تھی، آس لگائے ہوئے لوگوں کو دھوکہ دے کر بھاگنا اور وہ بھی ایسی چیز کو دیکھ کر جو آپ کے ہاتھ میں نہ آئی ہو اورامید و بیم کے درمیان آپ جھول رہے ہوں تو ڈرنا فطری بات ہے۔اس ڈر اور خوف نے نہ جانے میری کتنی نیندیں حرام کیں ۔
میں آج بھی اپریل دو ہزار چھ کی اس بوندا باندی والی شام کو نہیں بھول سکتا جب حیدر آباد دکن سے بھاگ کر پہلی مرتبہ میں میرو غالب اور داغ کے شہر میں داخل ہو رہا تھا۔استعجاب اور حیرت سے آنکھیں کھلی تھیں اور آفتاب دن بھر کی تھکن سے چور اپنی بساط لپیٹ رہا تھا ۔بارش میں نہائے ہوئے پیڑ پودے اور در و دیوار دلفریبی کے ساتھ مسکرا رہے تھے ۔ جسم وجاں کو ہلا دینے والی بلیو لائن بس کے ذریعہ اپنے بچپن کے دوست عارف کے ساتھ ہولی فیملی اسپتال سے ہی شروع ہوجانے والے محمد علی جوہر کے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی شکل میں لگائے گئے باغ کی سرحد میں داخل ہوااور اس کی عالی شان عمارتوں کو دیکھا تو دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے نہ جانے کتنی دعائیں کر ڈالی کہ یااللہ! لاج رکھ لیجیو!کہ اگر میرا یہاں داخلہ نہ ہوا تو میں کسی کو منھ دکھانے کے لائق نہ رہوں گا۔اللہ نے میری دعا قبول کی اورمیں نے مولانامحمد علی جوہراورمولانامحمود حسن کے قائم کیے ہوئے اس ادارہ سے بے شمار ثمرات سمیٹے یہاں سے میں نے صرف ڈگریاں ہی نہیں لیں بلکہ ایسے ایسے جید، لائق اور مہربان استاذ اور جان نچھاور کرنے والے احباب پائے کہ ماضی کو پلٹ کردیکھنے کا موقع ہی نہ ملا۔
جامعہ ملیہ کا روح پر رور ماحول ،جامع مسجد ، مینا بازار، لال قلعہ، صفدر جنگ کا مقبرہ، جنتر منتر، پرانا قلعہ،قطب مینار ،پریس کلب ، آل انڈیا ریڈیو ، ابوالفضل کے ہوٹل ،بٹلہ ہاؤس اور عظیم ڈیری کے چائے خانے اور جامعہ کے کینٹین میں بحث ومباحثہ ، توتو میں میں اور تکراریں… کہانیوں ، فلموں اور کتابوں پرتبصرے آرٹ ، فن اور ان تمام کے تیکنک و باریکیوں پر گفتگو اور گھنٹوں بات چیت ۔سیمنار ، میٹنگ پریس کانفرنس اور اس میں پری پلان مقرر کا گھیراو، بے باک صحافت کی تمنا میں اپنوں اور غیروں کی ناراضگیاں ، سینیرز اور عزیزوں کی جھڑکیاں ان کی محبت اور نصیحت۔ایک ایسی دنیا اور ایسا ماحول جس کے سحر میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ کبھی یہ خیال بھی نہیں آیا کہ ایک دن ان سب کو چھوڑ کر منزل کی تلاش میں کہیں اور کے لئے بھی کمر کسنا ہوگا۔آج ان تمام یادگار بھرے لمحات کو چھوڑتے ہوئے آنکھوں میں آنسو اورقلم پر لرزہ طاری ہے۔
کچھ یقیں کچھ گمان کی دلی
ان گنت امتحان کی دلی
خواب، قصہ، خیال، افسانہ
ہائے، اردو زبان کی دلی
شاید اسی وجہ سے خدائے سخن میر تقی میر ، استاذ غلام ہمدانی مصحفی ، ذوق اور حبیب جالب جیسے جدید اور قدیم اہل سخن نے دہلی کو اپنا مرکز بنایا اور اس شہر سے بچھڑنے کے بعد جدائی کے آنسو بہائے۔ خصوصاًمیر نے تو فراق دلی کا مرثیہ اتنا زیادہ لکھا کہ اس کو پڑھتے ہوئے کوئی بھی یہ کہے بغیر نہ رہ سکے گا کہ میر نے دلی کی شان میں مبالغہ کیا ہے۔ لیکن آج جب خود اس شہر کو وداع کہنے کا وقت آیا تو یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ میرکو دلی سے اس قدر لگاؤ کیوں تھا اور دلی کے لٹنے کا غم انہیں اس قدر کیوں ستا رہا تھا۔واقعی میرکا ایک ایک شعر دل کو چھلنی کر دینے والا ہے۔
دلی کے نہ تھے کوچے اوراقِ مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
یا پھر
خاک دہلی سے جدا ہم کو کیا یک بارگی
آسمان کو تھی کدورت سو نکالا یوں غبار
جب سے احباب کو پتہ چلا ہے میں دلی چھوڑنے والاہوں ، فون کا تانتا بندھ گیا ہے ، بار بار فو ن ریسیو کرتے کرتے تھک سا گیا ہوں۔ اب غصہ بھی آنے لگاہے اور کسی سے بات کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ کھانا پینا بھی اچھا نہیں لگتا۔ آج میں نے رات کا کھانا نہیں کھایا ،یہ بھی یاد نہیں رہا۔ دل اداس ہے۔ سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں۔ یہ دوست بھی عجیب ہوتے ہیں لڑائی جھگڑا بھی کریں گے اور پھر فوراً ہی منانے آجائیں گے۔ ویسے مجھے یاد نہیں پڑتا کہ دہلی میں میری کبھی کسی سے لڑائی بھی ہوئی ہو۔ ہاں ہاٹ ٹاک بہتوں سے ہوئی لیکن یا تو اس نے منا لیا یا ہم خود ہی من گئے۔ شاید اسی وجہ سے دوستوں کے ساتھ گذارے لمحے اور دہلی کی علمی و ادبی رونقیں کچھ زیادہ ہی جذباتی بنا رہی ہیں۔
ابھی ابھی تھوڑی دیر قبل جے این یو سے ایک دوست نے فون کیا ہے اور گذارش کی ہے کہ میں دہلی میں گذارے ہوئے لمحات کو قلم بند کروں ۔ اُس نے کئی خوبصورت مشورے بھی دئے ہیں اور یہ بھی کہا ہے کہ میں اس میں اپنے چھوٹے چھوٹے تجربات کو شامل کروں ۔ میں سوچ رہا ہوں تجربات تو ان کے ہوتے ہیں جنہوں نے ایک عمر یں گذاری اور دنیا دیکھی ہو ، تجربات کی بھٹی میں تپے ہوں اور زندگی میں کچھ کر گذرے ہوں۔میں تو ابھی مشاہدۂ حق اور موجودات کی حقیقت کے ادراک ہی کی کوشش کر رہا ہوں۔
۔

۔۔۔مزید

جمعہ، 2 اکتوبر، 2015

سالنامہ نقش دہلی پر ایک تبصرہ

سالنامہ نقش (انجمن طلبائے قدیم مدرسۃ الاصلاح)
مدیر ۔ محمد علم اللہ 
مبصر:محمد اسد فلاحی
مدرسۃا لاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ کے فارغین ملک کے مختلف شہروں میں اپنی انجمنوں کے ذریعہ تعلیمی اور سماجی میدان میں سرگرم عمل ہیں ۔ انجمن طلبۂ قدیم دہلی اس میدان میں گدشتہ کئی برسوں سے بہت فعال ہے۔اِس کی جانب سے ’نقش‘ کے نام سے ایک سالانہ میگزین شائع ہوتا ہے، جس کے بیش تر قلم کار مدرسۃالاصلاح کے فارغین ہوتے ہیں جو مختلف عصری اداروں میں زیر تعلیم ہیں ۔ َ ََ مدرسۃالاصلاح ہندوستان کے ان گنے چنے اداروں میں ایک ہے،جہاں قرآن و احادیث کی محققانہ تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کے لیے عصری تعلیم لازم قرار دی گئی ہے۔چناں چہ یہاں کے نصاب میں قرآن ،حدیث،فقہ اور عربی ادب کے ساتھ انگریزی ،ہندی جغرافیہ،تاریخ ،سیاسیات،معا شیات اور ریاضی وغیرہ کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔

زیر نظر ’نقش ‘ شمارہ ۲۰۱۵ زبان و ادب اور مضامین کے اعتبار سے ایک حسین گلدستہ کی مانند ہے،جو کہ اصلاحی برادران کے رنگ برنگے مضامین اور ان کی علمی کاوشوں سے مزین ہے۔اردو،عربی ،فارسی اور انگریزی زبانوں کے مضامین کی شمولیت نے اسے مزید پر کشش بنا دیا ہے۔

اس مجلہ میں تقریبا پینتیس(۳۵) مضامین کو یکجا کیا گیا ہے،جو ادب،تعارف مخطوطات،نظم نگاری،غزلیات،اسکرپٹ نگاری،مراسلات،افسانوی،اور سیرو سوانح جیسے موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں ۔لیکن ’نقش ‘ اپنی تمام خوبیوں کے باوجود، مدرسۃ الاصلاح کی بنیادی فکر کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہے ۔اس لیے کے مدرسۃ الاصلاح کا نمایاں وصف قرآن کریم سے گہرا تعلق قرار دیا جاتا ہے اوراس کے منہج تدریس میں بھی اسے نمایاں مقام حاصل ہے،جبکہ اس مجلہ میں شامل تین درجن تحریروں میں سے صرف دو مضامین قرآنیات سے متعلق ہیں ۔ایک اردو میں اور دوسرا عربی میں۔

بہر حال اس مجلہ سے یہ تعارف ضرور ہو جاتا ہے کہ دہلی کے مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم فارغین مدرسۃ الاصلاح کے ذوق اور دلچسپی کے موضوعات کیا ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ان کی تحریری صلاحیتیں پروان چڑھیں اور انہیں خدمت دین کی توفیق ہو۔


۔۔۔مزید

جمعرات، 1 اکتوبر، 2015

مشاورت کی تاریخ لکھنے والے نوجوان قلم کار محمد علم اللہ سے ایشیاء ٹائمز کی بات چیت


من و عن


کسی بھی مصنف کی زندگی میں  سب سے زریں موقع وہ ہوتا ہے، جب وہ کچھ لکھے اور اس کی پذیرائی ہو ، خوش قسمتی سے یہ  سعادت  نوجوان  مصنف محمد علم اللہ  کو  اپنی پہلی ہی تصنیف  کی تکمیل پر  ان کے حصے میں آئی ۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت  کی مختصر  تارییخ لکھنے  کا یہ شرف دہلی  کے  جامعہ نگر  میں مقیم   اس نوجوان قلم کار  کو حاصل ہو ا، جس نے  جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اے کے جے  ماس کمیونیکیشن ریسرچ  سینٹر سے ماس کمیونکیشن میں ما سٹر ڈگری حاصل کرنے  کے بعد  تاریخ  سے ایم اے   کیا ۔  اس ہونہار  لکھاری نے   طالب علمی کے دور سے  ہی صحافت سے وابستگی  اختیار کر لی تھی  اور کئی اہم روزناموں  سے وابستہ رہے ،شاعری  اور  افسانہ  نگاری بھی ان کا  میدان  ہے۔ موصوف کی پہلی تصنیف" مسلم مجلس مشاورت –ایک مختصر تاریخ "    کا اجرا مشاورت  کے 'جشن زریں '  میں 31 اگست   کو " نائب صدر جمہوریہ  محمد حامد انصاری  کے بدست  عمل میں آیا ۔

26 سالہ حوصلہ مند نوجوان  مصنف کے اس تاریخی  حصولیابی پر  'ایشیا ٹائمز' کے  اڈیٹر نے ان سے بات چیت کی اور یہ جاننے  کی کوشش کی کہ انہوں  نے یہ کارنامہ کس طرح انجام دیا ؟انہیں  کیا کیا دشواریاں پیش آئیں؟  اور وہ  کیسے  اس کم عمری  میں مصنف بن گئے ؟ ' ایشا ٹائمز'  کے قارئین کی خدمت   ان سےبات چیت  کے اہم اقتباسات  پیش ہیں۔(ادارہ)

سوال: مشاورت کی تاریخ لکھنے کا موقع آپ کو ملا ،آپ کی پہلی تصنیف مشاورت پر آئی آپ کے احساسات کیا ہیں ؟

جواب: دیکھئے بنیادی طور پر کسی بھی مصنف کے لئے یہ خوشی کا موقع ہوتا ہے کہ اس کی کوئی تصنیف شائع ہو اور لوگ اس کو پسند بھی کریں ۔یہ میرے لیے بڑی خوشی کی بات ہے کہ مجھے کام کرنے کا موقع ملا  اور اس درمیان بہت سارے لوگوں کا تعاون شامل رہا ان میں سے بہتوں کا نام اس کتاب میں موجود ہے اور بہت سارے ایسے افراد بھی ہیں جن کا نام میں اس میں نہیں لکھ سکا ۔انسان جب کوئی کام کرتا ہے تو صرف اس  کا  اپنا ذاتی کام نہیں ہوتا ، بلکہ وہ اس سے دوسروں کو بھی فائدہ پہونچا رہا ہوتا ہے ،  بہت کچھ سیکھتا ہےاور اپنے مطالعے  اور مشاہدےکی روشنی میں لوگوں کو  بہت کچھ بتاتا بھی ہے ۔ اس کتاب کو لکھتے ہوئے مجھے بہت کچھ خصوصا ہندوستانی مسلمانوں کے حوالہ سے جاننے کا موقع ملا ، اور میرا یہ احسا س کہ ہے آزادی کے بعد  سے مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے کوئی کمی نہیں آئی ۔

سوال: آپ تو بنیادی طور پر صحافی ہیں پھر تاریخ نگاری کی جانب کیسے آگئے ؟

جواب: صحیفہ نگار تو صحیفہ نگار ہوتا ہے یعنی صرف لکھاری اور اگر واقعی اس کو لکھنا آتا ہے ،تو وہ کچھ بھی لکھ سکتا ۔ لیکن آپ کے علم کے لئے میں یہ بات بتا دوں کہ میں پہلے تاریخ کا طالب علم رہا صحافت کی جانب بعد میں آیا ۔  ایک بات اور آج کا صحیفہ نگار تو کل کا مورخ ہوتا ہی ہے ۔ لیکن یہ ہماری بد قسمتی ہے خصوصا اردو صحافت کے حوالہ سے میں یہ بات کر رہا ہوں کہ آج کے صحافی کو اس کا ادراک نہیں ہو تا کہ اس کی تحریر کل کو تاریخ کا حصہ بھی بنے گی ۔آجکل صحافت میں کیا کچھ آ رہا ہے  مجھ سے زیادہ آپ خود واقف ہیں ۔جہاں تک باضابطہ تاریخ نگاری کے جانب عود کر آنے کی بات ہے تو اسے آپ ایک حادثہ کہہ سکتے ہیں ۔ میں تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تاریخ نویسی پر باضابطہ کام کروں گا ۔ صحافت میں آنے بعد اس وادی میں انسان اتنا ڈوب جاتا ہے کہ اس کو اس سے نکلنے کا موقع نہیں ملتا ۔ لیکن اس سلسلہ میں میں اپنے کرم فرما ڈاکٹر ظفرالاسلام  خانصاحب کا تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ انھوں نے ہی مجھے یہ موقع فراہم کیا اور میں اس جانب چلا آیا ۔


سوال: تاریخ نگاری کے دوران  آپ کو کچھ  چیلنجز  کا بھی سامنا کرنا پڑا   ہوگا ،  اس بارے میں کچھ  بتائیں  ؟

جواب: آپ کوئی بھی نیا کام کریں گے آپ کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا ۔میرے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ رہا کہ اس پر کچھ کام سرے سے ہوا ہی نہیں تھا ، یعنی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے زیرو لیبل سے کام شروع کرنا پڑا ۔انٹرویوز ، دوڑ دھوپ ، پرانے اخبارات کی  تلاش ، خطوط اور گرد آلود دستاویزوں کی ورق گردانی ۔ اس درمیا کئی  کئی مرتبہ تو ایسا ہوا کہ میرے کپڑے بالکل گندے ہو گئے ۔ بعض مراحل اور ادوار  ایسے بھی آئے  جس کے بارے میں کچھ تھا ہی نہیں  کاروائی رجسٹر اور ریکارڈ بھی غائب تھے ۔ایسے موقع پر بے حد غصہ آتا  ۔ لیکن  ان مراحل سے بھی اللہ کا شکر ہے ہم گذرے  ایسے مواقع پر میں شکر گذار ہوں اپنے احباب کا اور خصوصی طور پر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان  صاحب کا کہ انھوں نے مجھے بڑی  ہمت دلائی اور قدم قدم پر رہنمائی کی ۔ڈاکٹر صاحب اکثر کہتے "جو شخص میدان چھوڑ کر ہی بھاگ گیا اس نے کیا لڑائی  لڑی مزہ تو جب ہے کہ آپ میدان میں ڈٹ جائیں اور جیت کر باہر نکلیں "ایسے الفاظ واقعی آپ کو بہت ہمت دلاتے ہیں ۔

سوال : آپ کی کتاب کا اتنی بڑی شخصیت کے ہاتھوں اجراء عمل میں آیا اور آپ وہاں موجود نہیں تھے ؟اور اجراء کے وقت آپ کا نام بھی غلط انداز میں پکارا گیا ؟

جواب: نہیں نہیں ! میں وہاں تھا ،کس نے کہہ دیا کہ میں وہاں نہیں تھا ۔ بھئی یہ تو پروگرام  ہی میرا تھا اور میں ہی پروگرام میں نہیں رہتا  یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ پھر میرے لئے تو یہ اعزاز کی بات تھی کہ نائب صدر جمہوریہ کے ہاتھوں میری کتاب کا اجراء  ہو رہا تھا ۔بعض بزرگوں کے الفاظ میں "اس پروگرام کا دولہا تو میں ہی تھ"۔ منصور آغا صاحب میرے بڑے اچھے بزرگ ہیں ان کا  ہی یہ کہنا تھا ، وہ اکثر شفقت میں مجھے ڈانٹتے بھی ہی اور سمجھاتے بھی ، میں ان کی بڑی قدر کرتا ہوں ۔آپ کو غلط فہمی غالباا س وجہ سے ہو گئی کہ آپ نے مجھے اسٹیج پر نہیں دیکھا ۔یہ ممکن ہے سیکیورٹی کی وجہ سے  ایسا ہوا ہو  یا کوئی اور مصلحت رہی ہو ، مجھے نہیں معلوم ۔کئی اور لوگوں نے بھی یہ بات مجھ سے دریافت  کی   ۔ لیکن ایسا نہیں ہے ، میں وہاں پر تھا ۔ ہاں جہاں تک نام غلط پکارنے کی بات ہے تو مجھے بھی یہ اچھا نہیں لگا ، اور بعد میں میں پروگرام کے ناظم سے ملا اور انھیں بتایا کہ آپ نے میرا نام غلط پکارا تھا میں علیم اللہ نہیں ، علم اللہ (جھنڈا والا)  ہوں تو انھوں نے انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا یہ یہ' مُلاّوُلّا' کیا ہوتا ہے ، مجھے اس وقت بڑا غصہ آیا تھا کہ ایک تو لوگ غلطی کرتے ہیں اور انھیں اگر بتایا جائے تو قبول بھی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔مجھے بعد میں پتہ چلا وہ صاحب علی گڑھ کے پروفیسر ہیں اور ایڈوکیٹ بھی ۔ انہوں نے  نظامت کے دوران اور بھی بڑی فاش غلطیاں کی تھیں  جس کا میں یہاں تذکرہ  کرنا نہیں چاہتا ۔


سوال: تاریخ  لکھنے کے دوران ملت اسلامیہ ہند کے نشیب و فراز کو آپ نے کس طرح محسوس کیا ؟

جواب: عروج و زوال قوموں کا خاصہ رہی ہے ۔ میں نے اپنے  کتاب کے مقدمہ میں اس کا تذکرہ بھی کیا ہے ۔ آپ کتاب کا مطالعہ کریں گے تو اس میں بہت ساری چیزیں  آپ کو ملیں گی،  جس سے اندازہ ہوگا کہ ہماری ملت کے  کیا مسائل رہے اور ہم کیسے اس سے باہر نکلے ہیں ؟  اور ایک بات میں بتادوں! آزادی کے بعد سے سچی بات تو یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان اپنے پاووں پر کھڑا ہی نہیں ہو سکا ۔ ہماری قوم نے بڑی پریشانیاں جھیلی ہیں ۔ ان پریشانیوں میں ہماری ملی تنظیموں  نے کسی حد تک مرہم لگانے کا کام کیا ہے  ۔لیکن سہی  بات تو یہ ہے  کہ وہ زخموں کا مداوا نہیں کر سکے ہیں ۔ ملت اسلامیہ ہند نے خصوصا آزادی کے بعد سے جن نا گفتہ بہہ حالات کا سامنا کیا ہے اس کی داستان انتہائی دلخراش اور کربناک ہے ۔ ممکن ہے اسے آپ میری حساسیت کہیں لیکن اس کتاب کو  لکھتے ہوئے بہت مرتبہ میں  رویا ہوں۔میں کبھی کبھی مستقبل کے بارے میں سوچتا ہوں کہ کیا ہوگا! ہماری آنے والی آئندہ نسلوں کا ۔ ہمیں بہت محنت کرنی پڑے گی ، ایک لمبی لڑائی لڑنی پڑے گی اپنے پاووں پر کھڑے ہونے کے لئے ۔

سوال : مشاورت کی ایک عظیم تاریخ رہی ہے ۔ اس کے بانیان میں بھی بڑے بڑے لوگوں کے نام ہیں ۔کیا انہوں نے کچھ کام نہیں کیا ؟ بحیثیت مورخ آپ اس پر کیا کہنا چاہیں گے ؟

جواب: مشاورت نے تو کافی کام کیا ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ہے ۔ آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے وجود کو سمیٹنے اور اس کی بقاء میں اس کا بڑا رول رہا ہے ۔ لیکن چونکہ مورخ کی حیثیت سے آپ نے مجھ سے پوچھا ہے تو میں یہ بات کہوں گا کہ مشاورت کو جو کارنامہ انجام دینا چاہئے تھا اور جس انداز سے یہ تنظیم آگے بڑھی تھی بعد کے دنوں میں یہ کیفیت دیکھنے کو نہیں ملتی  اور 1983 کے بعد کے  تو اور بھی حالات خراب نظر آتے ہیں ، جب مفتی عتیق الرحمان صاحب جو اس کے بانیان میں سے بھی تھے کا انتقال ہوا تو دو صدور بنا دئے گئے ،ایک شیخ ذولفقار اللہ اور دسرے سید شہاب الدین ،بلاشبہ ان شخصیتوں کی بڑی خدمات رہی ہیں لیکن یہ ویسی ہی بات ہوئی آپ نے بچپن میں پڑھا ہوگا " اگر دو خدا ہوتے سنسار میں، تو دونو ں بلا ہوتے سنسار میں"۔ مشاورت میں بھی ایسی کیفیت نظر آتی ہے اور قدم قدم پر اختلاف اور افتراق کا نمونہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ اس طرح پچاس سال کی طویل العمری اور کارکردگی کے باوجود یہ فیصلہ تو نہیں کیا جا سکتا کہ یہ دورانیہ ناکامیوں کا مجموعہ کہلانے کا مستحق ہے ، البتہ زندگی بچانے کے لئے حکماء اور اطباء مبارکباد کے مستحق ہیں ۔

سوال: اس کتاب میں کیا ایسی خاص بات ہے کہ ہم اس کا مطالعہ کریں  ؟

جواب : دیکھئے !کوئی بھی چیز کسی کے لئے بہت خاص ہو سکتی ہے اور  وہی چیز کسی کے لئے بہت عام ، آپ کا یہ کہنا کہ اس  کتاب میں کیا خاص بات ہے کہ کوئی اس کا مطالعہ کرے، میرے لئے اس کا جواب دینا واقعی بہت مشکل ہے ۔ لیکن ہاں میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ جدید ہندوستان میں مسلمانوں کے مسائل کو سمجھنے میں یہ کتاب ضرور آپ کی مدد کر سکتی ہے ۔ آزادی کے فورا بعد پر تو بہت کتابیں لکھی گئیں ،لیکن بعد کے دنوں میں وقوع پذیر ہونے والے حالات اور  ہم عصر تاریخ پر بہت کم کتابیں دستیاب ہیں ،جو ہیں وہ یا تو بالکل تاریخی نوعیت کی یا بالکل دستاویزی نوعیت کی  ہیں ، جس سے ایک عام آدمی کا استفادہ کر پانا بہت مشکل ہے ۔ہم عصر تاریخ لکھنا بہت مشکل  ہے کہ آپ اس میں جو کچھ بھی لکھ رہے ہوتے ہیں، اس کے دیکھنے اور جاننے والے موجود ہوتے ہیں،  ایسے میں آپ کے لئے یہ بہت مشکل ہو جاتا  ہے کہ آپ کیا لکھتے ہیں اور کیا چھوڑتے ہیں ، ان تمام چیزوں کو دیکھنے کے لئے آپ اس کتاب کا مطالعہ کر سکتے ہیں ۔

یہ انٹرویو ایشیا ٹائمز کی ویب سائٹ میں دستیاب ہے ۔ لنک یہاں موجود ہے ۔
 http://www.asiatimes.co.in/urdu/Asia-Times-Special/2015/09/22573_


۔۔۔مزید

منگل، 8 ستمبر، 2015

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کا جشن طلائی

ایک مکمل رپورٹ



محمد علم اللہ
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کا جشن پچاس سالہ پروگرام 31اگست 2015ء کو دیر رات گئے تک دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر میں اختتام کو پہنچا۔ اس میں ملک کے نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری سمیت سرکردہ اور سربرآوردہ شخصیات نے شرکت کی اور ماضی سے سبق لیتے ہوئے مستقبل کو مزید تابناک اور مسلم قوم کے مسائل سے متعلق آئندہ لائحہ عمل بنانے پر غوروفکر کیا ۔
پورے دن  چلنے والے اس اجلاس میں کل چار سیشن تھے،جس  میں پہلا سیشن مشاورت کی تاریخ اور اس کی حصولیابیوں پر مشتمل تھا، دوسرا اور تیسرا ملک وملت کے مسائل ،جبکہ چوتھا سیشن تقسیم لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ زپر مشتمل تھا۔ اس موقع پر مشاورت کے سوینئر سمیت چار کتابوں کا اجراء بھی نائب صدر جمہوریہ کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ پہلی کتاب مشاورت کی تاریخ پر مشتمل تھی جس کے مصنف محمد علم اللہ ہیں، دوسری کتاب مشاورت کے بانیان وممبران کے خاکوں پر مشتمل تھی جس کو ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے ترتیب دیا تھا۔ اس موقع سے ڈاکٹر ظفرالاسلام کی ترتیب کردہ دو ضخیم کتابوں کا اجراء بھی عمل میں آیا جس میں ایک مشاورت کے قیام سے لے کر اب تک کے تمام دستاویزات پرمشتمل اردو میں تھی  جبکہ دوسری انگریزی میں۔
پروگرام کا آغاز ڈاکٹر تابش مہدی کی تلاوت قرآن مجید سے ہوا۔تعارفی کلمات ڈاکٹر ظفرالاسلام خان صدر مسلم مجلس مشاورت نے پیش کئے۔جبکہ استقبالیہ کلمات سید شہاب الدین سابق صدر مسلم مجلس مشاورت نے کہے۔تعارف کراتے ہوئے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے کہا کہ یہ  مشترکہ پلیٹ فارم اپنی عمر کے پچاس نہیں بلکہ اکیاون سال پورے کرچکا ہے۔اس عرصہ میں مسلم مجلس مشاورت نے متحدہ طور سے ان تمام مسائل کے لئے جدوجہد کی اور آواز اٹھائی جو ملت اسلامیہ ٔہند کو درپیش ہیں۔ ہم کچھ مسائل میں کامیاب رہے ہیں اور کچھ میں ناکام ۔ اکیاون سال قبل کے ہمارے بہت سے مسائل اسی یا بدلی ہوئی صورت میں آج بھی ہمارے سامنے موجود ہیں جو ہم سے مزید جدوجہد اور تعاون کا مطالبہ کرتے ہیں۔ہمارا آج کا اجلاس رسمی یا دکھاوے کا نہیں ہے بلکہ ہم آج نہ صرف اپنے اکیاون سالہ تجربہ پر مختلف طور سے غورکریں گے،مسائل کا تجزیہ کریں گے اور یہ بھی دیکھیں گے کہ ہم کہاں کمزور ہیں اور کیا کچھ کرنا اب بھی باقی ہے۔
مشاورت کے سابق صدر  سید شہاب الدین نے اپنی پیرانہ سالی اور علالت کے باو جود اجلاس میں شرکت کی اورجامع استقبالیہ خطبہ پیش کیا ۔ انہوں کہا کہ اگست 1964ءمیں اپنے قیام کے  پہلے دن سے  مشاورت کا پہلا ہدف تو اس صورت حال کا ازالہ کر ناتھا  ،جو تقسیم وطن کے نتیجے میں پیدا ہوگئی تھی ۔ہمارے بانیان کی نظر زندگی کے ان تمام شعبوں اور میدانوں پر رہی اور یہ کوشش رہی کہ صورت حال کی اصلاح ہو اور ملت  قومی امور میں دیگر اقوام کے ساتھ برابر کی شریک ہو ۔ ملت نے خود اپنی کو ششوں سے اپنی زندگی کی تعمیر نو شروع کی اور رفتہ رفتہ زندگی کے تمام شعبوں میں پیش رفت کی ۔ابھی بہت کچھ کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مختلف ایشوز کو لے کر سرکاری سطح پر مشاورت کی کوششیں اقتدار کے گلیاروں تک پہنچتی رہیں ، لیکن پریشانیوں کے باوجود ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان مایوسی کے بجائے اپنی تعلیمی،ثقافتی اور ہمہ جہت ترقی کیلئے کامیاب کوشش کرتا رہاہے۔ انھوں نے کہا کہ آج ملت اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں قائم کررہی ہے۔ نئی مسلم نسل تعلیم اور ٹکنالوجی میں آگے بڑھ رہی ہے لیکن سینکڑوں نوجوان لڑکوں کو دہشت گردی کے فرضی الزامات عائد کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے،جہاں سے وہ برسہابرس کے بعد باعزت بری ہورہے ہیں لیکن ضائع ہونے والے سالوں کا کوئی معاوضہ انہیں نہیں مل رہا ہے۔ اب ہم کسی سے یہ امید اور خواہش نہیں رکھتے کہ وہ ہمارے آنسو پونچھے گا۔ہمارے ساتھ ملک کے سیکولر عوام اور انسانیت نواز طاقتیں ہیں جو مانتی ہیں کہ ہم ملک کے لئے مفید اور مساویانہ حقوق رکھنے والے شہری ہیں۔
 
کلیدی خطبہ میں نائب صدر جمہوریہ ڈاکٹر حامد انصاری نے مشاورت کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ مشاورت کی تشکیل ہندوستان کے مسلمانوں کے حقوق، تشخص اور وقار کے دفاع کے لئے کی گئی تھی جن کے وہ آئین ہند کے تحت مستحق ہیں۔ آج بھی یہ نصب العین معتبر ہے ،ہر چند کہ اس کے بعض عناصر توسیع شدہ ہیں اور ترمیم شدہ ہیں۔محرومی، عدم شمولیت اور امتیازی رویے بشمول تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی حکومت اور اس کے عوامل کی کوتاہی کا نتیجہ ہیں اور انہیں حکومت ہی کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ یہ کام فوری طورپر انجام دینا ہوگا اور اس کے لئے مناسب میکانزم تیار کرنے ہوں گے۔ملت کے سب سے سربرآوردہ اور قابل احترام ذہنوں کے اس ادارے کو تشخص اور وقار کے مسائل کو مدافعانہ انداز میں دیکھنے سے آگے جانا ہوگا اور یہ معلوم کرنا ہوگا کہ ان دونوں کو ایک تغیر پذیر ہندوستان اور دنیا میں کیسے آگے بڑھایا جائے تاکہ ملت کے تمام طبقات ،خصوصاً خواتین، نوجوان ور طبقات غیر اشرافیہ ، جو ملت کی اکثریت پر مشتمل ہیں، اور ان کی ناکافی طورپر دریافت ضرورتوں کا ادراک کیا جاسکے۔میری نظر میں مستقبل قریب میں مشاورت کی ذمہ داری سہ گانہ ہے: مکمل قانونی اور آئینی حقوق کے ساتھ خود اقدامی کی جدوجہد کو قائم رکھنا ، اس کا م کو تمام ہموطنو ں سے الگ ہوئے بغیر انجام دینا، اور دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے موافق فکروعمل کی تطبیق کرنا ہوگا۔ 
یہ افتتاحی سیشن تھا ،جس  میں  مشاورت کے جنرل سکریٹری مفتی عطاء الرحمان قاسمی نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا ۔ اس سیشن میں نظامت کے فرائض پروفیسرشکیل صمدانی انجام دے رہے تھے ۔ اس کے بعد کا دوسرا  سیشن جو کہ مشاورت کی تاریخ اور اس کی حصولیابیوں پر مشتمل تھا ۔سہ روزہ دعوت کے چیف ایڈیٹر پرواز رحمانی نے مشاورت کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے مرحلہ وار مشاورت کے سفر کا جائزہ لیا اور کہا کہ جن حالات میں مشاورت کا قیام عمل میں آیا تھا وہ حالات انتہائی ناگفتہ بہ اور ہندوستانی مسلمانوں کے لئے آزمائش والے تھے۔فسادات کا سلسلہ ایسے چل پڑا تھا جیسے لگتا تھا ہندوستان سے مسلمانوں کا خاتمہ ہی  ہوجائے گا لیکن یہ مشاورت کی ہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ہندومسلم دونوں ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہوکر شانہ بشانہ ہندوستان کے سیکولرزم کو بچانے نکل پڑے تھے۔ اس کے بانیوں میں اگرچہ ڈاکٹر سید محمود کا نام آتا ہے، لیکن ان کے ساتھ اس تنظیم میں اپنی توانائیاں اور خلوص نچھاور کرنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ مشاورت نےشروع سے ہی مسلم مسائل کو حل کرنے اور اس کے لئے حکومت پر دباؤ بنانے اور عوام کے درمیان بیداری پیدا کرنے کا کام کیا ہے۔
مشاور ت کے اثرات پر پروفیسر اختر الواسع نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے یقینا یہ تاریخی واقعہ تھا کہ مشاورت کی قیادت نے فیصلہ کیا کہ مسلمان ایک وفاقی صورت اختیار کریں اور مسلمانوں کے وجود کو سمیٹیں اور اپنی حیثیت کو منوانے کے لئے کوشش کریں۔مشاورت نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان پل بنانے کا کام کیا اور اس کے لئے پنڈت سندرلال وغیرہ کو ساتھ جوڑا۔ مختلف تھپیڑوں کے باوجود باقی رہنے والی مشاورت نے ہمیشہ مسلمانوں کے عدم تحفظ کے احساس کو ختم کرتے ہوئے حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی۔ نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں پل کا کام کیا۔ یہ موقع ہمارے لئے پیچھے مڑکر  بھی دیکھنے کا ہے ۔ ہمیں افراد سے عقیدت ہونی چاہئےتاہم یہ عقیدت ترقی کے لئے ہونی چاہئے۔ شخصیات ہمارے لئے  عقیدتوں کا محور ہوسکتی ہیں عقیدہ کا نہیں۔ انہوں نے لوگو ں کو اتحاد کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ عقیدہ کامرکز اللہ ورسول ہوناچاہئے۔
مشاورت کو در پیش چیلنج پر مفتی عطاء الرحمان قاسمی نے گفتگو کی انھوں نے کہا  مشاورت کا قیام انتہائی حساس موقع پر ہوا تھا ۔اسکے بانیان نے ملک کی خدمت کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں ، خصوصا اتحاد و اتفاق کے قیام کے لئے ان کی کوششیں لائق ستائش ہیں ۔ہندو مسلم اتحاد میں مشاورت کے رول کو فراموش نہیں کیا جا سکے گا جس میں پنڈت سندر لال اور سید محمود جیسے اکابر ایک اسٹیج سے سیکولرزم کے بقاء کی دہائی دیتے تھے ۔ اور یہ بات بھی اپنی جگہ قابل قدر ہے کہ لوگ ان کی بات کو اہمیت دیتے تھے ۔ لیکن آج ان تمام اقدار کو فراموش کیا جا رہا ہے جو ہمارے بزرگوں کا شیوہ تھیں۔ ہمیں اس کو باقی رکھنے کے لئے جدو جہد کرنی پڑے گی ۔ 
اس اجلاس میں پروفیسر محمد سلیمان نے  مشاورت کے مستقبل اور امکانات پر گفتگو کی ۔انھوں نے کہا کہ تاریخ سے لاعلمی  ہمارے قوم کے وجود کو خطرے میں ڈال رہی ہے ، ہمیں بیدار ہونا ہوگا ۔یہ افسوس کی بات ہے کہ  ہمارے نوجوان نہیں جانتے کہ ہمارے مسائل کیا ہیں۔ اس وقت سیکڑوں تنظیمیں ہیں جو اپنے اپنے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں لیکن مستقبل کے لئے لائحہ عمل بنا کر آگے کے لئے کام کرنے والے افراد کی تعداد کم ہے ۔ ہمیں اس جانب توجہ دینی ہوگی ۔اس ملک میں 1800سیاسی جماعتیں ہیں، 300 مسلم پارٹیاں رجسٹرڈ ہیں۔ مسلم سیاسی تنظیموں کے درمیان بھی وفاق کی حیثیت سے اس پر غور کیا جائے۔پروفیسر سلیمان نے مستقبل کے امکانات کا خاکہ پیش کرتے موجودہ دور کی مذہبی منافرت پر پانی ڈالنے کیلئے ہمہ تن کوشش کرنے کی ترغیب دلائی۔
اس سیشن کی صدار ت مولانا سالم قاسمی نے کی انھوں نے اپنے صدارتی خطبے میں اتحاد واتفاق پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مشاورت شروع سے ہی وحدت فکر اور اتحادکی ترجمان رہی ہے۔ مشاورت کا قیام تمام ملی جماعتوں کے مجموعہ کے طور پر مسلم ایشوز کے تئیں فعال کارکردگی نبھانے کیلئے ہوا تھا ۔اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اس کو بحسن و خوبی انجام دیا ہے ۔انتہائی پیچیدہ اور دشوار کن مراحل میں بھی مضبوطی کے ساتھ قیادت کا فريضہ انجام دیاہے ۔اس وقت تباہی سے نمٹنا اور اختلاف وافتراق کو ہوانہ دینا ہی اصل کامیابی ہے۔ مسلم تنظیموں کو مشاورت کو مزید مضبوط بنانے کے لئے آگے آنا چاہئے ۔ آج ملت کو  اجتماعی فکر کی ضرورت ہےاور اسے مشاورت کے علاوہ کوئی انجام نہیں دے سکتاہے۔ مشاورت اس کے لئے ہمیشہ سے  فکر مند رہی ہے اور رہے گی۔ انھوں نے انتہائی رقت آمیز دعا بھی کرائی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر اتحاد واتفاق کو قام رکھنے کی توفیق بخشے اور  ہمیں سمجھ عطا فرمائے کہ ہم اپنے مسائل کو بہتر ڈھنگ سے حل کرسکیں۔
دوسرا سیشن  ملک و ملت کے مسائل پر تھا ۔اس سیشن میں نظامت کے فرائض سہیل انجم انجام دے رہے تھے۔ اس موقع پر معاشیات پر گفتگو کرتے ہوئے ممبئی یونیورسٹی کے ڈاکٹڑ رحمت اللہ نے کہا کہ اسلام نے دولت کی  آمد پر پابندی عائد نہیں کی ہے۔ البتہ ذرائع کو منظم کرنے اور حلال وحرام کے دائرے  میں رہتے ہوئے اعتدال کا رویہ اپنانے کی بات  کہی ہے  ۔اسلام نے سرمایہ دارانہ رویہ کی ممانعت کی ہے جو اپنی دولت سے لوگوں کا خون چوستے ہیں۔ اسلام اعتدال اور انصاف کے قیام کی بات کرتا ہےاور فاشزم اور سوشلزم جیسے فرسودہ نعروں کی نفی کرتا ہے ۔یہ  سارے غیر فطری نظام ہیں ۔ ہماری سوچ اس نظام تعلیم سے ہونی چاہئے جس سے اتحاد اورسکون ملے۔اس وقت  اسلامی معاشی نظام توجہ کا طالب ہے جو انصاف اور جائز طریقہ سے معیشت کے بٹوارے کی ترجمانی کرتا ہے ۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ غیر قوموں کے مقابلہ میں ہمارے حالات زیادہ خراب ہیں ۔معاشیات پر توجہ دیں ۔توکل کو اسلامی نہج پر واپس لائیں۔ قلت اور ذلت سے بچیں۔ توکل محض کے رویہ سے اجتناب کریں اور ترقی ، تگ و دو اور زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے لئے کوشش کریں ۔
اس سیشن میں آئی پی ایس ریٹائرڈ منظوراحمد نے کہا کہ  ہمیں اس وقت  دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے دیکھا  جا رہا ہے۔حالیہ دنوں میں سوال یہ ہے کہ ہم اس کو کیسے بدلیں؟ بدقسمتی سے ہماری صفوں میں موجود مسلمان ہی مسلمانوں کا سودا کرنے میں مصروف ہیں۔ ہمیں ایسے افراد کو بھی پہچاننا ہوگا ۔سیاست جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ بنتی جارہی ہے۔ اس کو بدلنے کے لئے سیکولر پسند طبقہ کے ساتھ مزید تعلقات استوار کرنے پڑیں گے۔

            اس موقع پر موسی رضا نے تعلیم پر گفتگو کی انھوں نے کہا کہ ہم کو مثبت طرز عمل اپنانا چاہئے۔ ادارہ سازی کا فريضہ  انجام دینا چاہئے۔ مسلمان ہر چیز میں پیچھے ہیں ۔جو قوم تعلیم  اور تکنالوجی پر دھیان نہیں دیتی پیچھے رہ جاتی ہے ،سولہویں صدی تک ہمارے اکابرین نے نمایاں کردار انجام دیا۔ انہیں کی تکنالوجی سے آج یورپ ترقی کی راہیں ہموار کررہا ہے۔اس زمانے میں تعلیم کی اہمیت بتانے کی ضرورت نہیں بلکہ تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ریسرچ وتحقیق میں مسلم بچوں کو آٓگے بڑھانے کی ہے۔ ہم صرف لڑنے میں مصروف ہیں۔ باہر نکل کر دوسری قوموں کی ترقی کو دیکھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہے۔ مسلم قوم کے نوجوانوں کو خصوصاً انتہائی محنت اور دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔
اس موقع سے افتخار گیلانی نے میڈیا پر گفتگو  جس میں انھوں نے کہا کہ میڈیا کا کردار ایک نگراں کار کی ہے، جو تفریح کے ساتھ تعلیم و تربیت، اصلاحِ معاشرہ اور قیادت وسیاست پر نظر رکھنے کی ذمہ داری بیک وقت انجام دیتی ہے۔ مگر مصلحت آمیز ، مجرمانہ ذہنیت اور کاروباری مسابقت رکھنے والوں نے میڈیا کو سیاسی بے راہ روی، سستی تفریح، عریانیت اور تشدد وجرائم کا ذریعہ بنادیا ہے۔معاشرہ کا بڑا حصہ آج میڈیا کی طالع آزمائی سے براہِ راست متاثر ہورہا ہے۔مسلمانوں کو میڈیا  پر توجہ مرکوز کرنے  کی ضرورت ہے ۔ مسلم تنظیمیں  دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ اس جانب بھی توجہ دیں اور جو طلباءمیڈیا میں اپنا کیریئر بنانا چاہتے ہیں ان کی کفالت کریں۔
اس اجلاس میں صدارت کا فريضہ مولانا جلال الدین عمری نے انجام دیا ۔انھوں نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ آزادی کے بعد سے مسلمان مستقل  وجود وبقاء کے لئے کوششیں کر رہے ہیں ۔جو تمام تر نا مساعد حالات کے باوجود صرف منفی نہیں ہے ۔ مسلمانوں کو مواقع نہیں ملتے ۔اگر ان کو مواقع ملیں تو وہ بہتر حصہ داری نبھا سکتے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ  مسلمان جذبات میں  نہ بہیں ۔سوچ سمجھ کر سنجیدگی سے قدم اٹھائیں۔ مشاورت مسلمانوں کا مشترکہ پلیٹ فارم ہے۔ اس کا ایک اعتبار بھی ہے۔یہ  تنظیموں کا اشتراک ہے۔ ہم سب مل کر اس کو مزید فعال  بنائیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔
تیسرا سیشن بھی ملک کو ملت کے مسائل پر مشتمل تھا ۔اس سیشن کی صدارت پروفیسر نجات اللہ صدیقی انجام دینے والے تھے لیکن ان کی طبیعت خراب ہونے کہ وجہ سے وہ امریکہ سے نہ آ سکے ۔ اس سیشن کی صدارت مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی جنرل سکریٹری مرکزی جمعیۃ اہل حدیث نے کی اور نظامت پروفیسر شکیل صمدانی نے کی۔ اس اجلاس میں رزرویشن کے مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے نوید حامد نے کہا کہ مسلمانوں کو ریرزویشن  دیا جانا انتہائی ضروری ہے ۔ حکومت ایک طرف تو تمام شہریوں کو حاشیہ سے اوپر لانے کی بات کرتی ہے لیکن وہ قوم جو دلتوں سے بھی زیادہ پچھڑی ہوئی ہے اور جس کے بارے میں متعدد کمیشنوں اور کمیٹیوں نے سفارشات بھی کی ہیں اس کو اوپر لانے کے لئے کوئی اقدام نہیں کرتی ۔الٹے اس کے ورثہ پر ڈاکہ زنی کرتی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس میں غیروں کے ساتھ ساتھ اپنے بھی شامل ہو جاتے ہیں ۔یہ انتہائی تشویش ناک بات ہے ۔
ڈاکٹر عبد الحق نے اردو کے مسئلہ پر گفتگو کی ۔انھوں نے کہا کہ ایک بڑی تنظیم نے اپنے ایشو میں  اردو کو اس میں شامل کیا یہ خوشی کی بات ہے ۔ ذاتی طورپر میراخیال ہے کہ ہم آزادی کے بعد تجدید غلامی کے نئے دورمیں داخل ہوگئے۔ہر وہ چیز وہ مسلمانوں سے منسوب ہے وہ کچھ لوگوں کے لئے باعث تشویش ہے۔ 1947ء کےبعد ہی کانگریس کی مشترکہ جماعت نے اردو کو نہ پنپنے کے حالات پیدا کئے۔ پنڈت نہرو کے زمانہ سے اردو پر ڈاکہ زنی شروع ہوئی اور آج حالات یہاں تک پہنچ گئے۔ تاہم  اردو مرے گی نہیں۔ حکومت کی ناپسندیدگی کے باوجود اغیار کی زبان میں اردوایک تہذیب بن کر کھڑی ہے۔اور اردو ہی  شاعروں ، فلمی دنیا، اور دیگر افراد کے لئے  شیرینی کا ذریعہ ہے۔اردو کے فروغ اور بقاء کی ذمہ داری ہماری ہے۔
دہشت گردی کی حقیقت پر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ دہشت گردی فرد کی ہو یا اسٹیٹ کی قابل مواخذہ ہے۔ ریاستی دہشت گردی  نے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے ۔ اس سے صرف مسلمانوں کو ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ ہمارا ملک اس کی زد میں ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ اب اس کی حقیقت سامنے آ رہی ہے اور صحیح معنوں میں جو لوگ اس کے ذمہ دار ہیں ان سے پر دہ اٹھ رہا ہے ۔ زعفرانی اور بھگوا ٹولے کی کارستانی سامنے آ رہی ہے ۔
اس موقع پر محمد ادیب سابق ایم پی نے فسادات پر اظہار خیال کیا جس میں آزادی کے بعد سے لیکر اب تک کی پوری تاریخ سامنے رکھ دی ۔ انھوں نے کہا کہ مغل حکمرانوں کے عہد میں فسادات کا تذکرہ نہیں ملتا سوائے گنتی کے ایک دو کے لیکن انگریزوں نے جب اس ملک میں قدم رکھا تو انھوں نے ہندو مسلم دونوں کو لڑانے کا کام کیا اور بہت سارے افراد ان کے آلہ کار بن کر رہ گئے ، اور بد قسمتی سے ابھی بھی ہمارا ملک اسی راہ پر گامزن ہے اس کو ختم کرنا ہوگا ۔ فسادات منظم طریقہ سے ہوتے ہیں۔ سنجیدہ لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ ملک کدھر جارہا ہے۔ تشدد پسندوں کا جو حال پاکستان میں ہوا،وہاں فسادیوں کو سزا نہیں ملی اس لئے حالات خراب ہوئے۔ہمیں اس کو بدلنا ہوگا ۔
صدارتی کلمات میں مولانا اصغر علی مہدی سلفی نے کہا کہ مسلمان اپنے حالات کو لیکر بیدار ہیں  لیکن مزید بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔  جب تک ہم اپنی آنکھیں نہیں کھولیں گے اور اپنی ذمہ داری ادا نہیں کریں گے اغیار کو موقع ملتا رہے گا کہ وہ ہماری ناکامی  کا مذاق اڑائیں ۔
آخری سیشن مشاورت لائف ٹائم اچیو منٹ ایوارڈ زکا تھا جن میں بانیان مشاورت کے علاوہ سماجی سطح پر کام کرنے والی نمائندہ شخصیات کو ان کے کاموں کے اعتراف میں ان کو میمنٹو اور سند پیش کی گئیں  ۔ اس موقع پر جن شخصیات کو ایوارڈ سے نوازا گیا ان میں  پس ازمرگ مشاورت کے بانی صدر سید محمود کے علاوہ مرحوم مولانا سید ابوالحسن علی ندوی،مفتی عتیق الرحمن قاسمی ، محمد مسلم ، ابراہیم سلیمان سیٹھ ، ڈاکٹر مقبول احمد ، سید حامد ،سلطان صلاح الدین اویسی ، مولانا شفیع مونس اور ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی شامل ہیں۔جبکہ زندوں میں جن شخصیات کو ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ایوارڈ دیا گیا ان میں پروفیسر نجات اللہ صدیقی ، سید شہاب الدین ، مولانا محمدسالم قاسمی ، ڈاکٹر کلب صادق ، موسٰی رضا ، ڈاکٹر ممتاز احمد خان ، کے ایم عارف الدین ، پی اے انعامدار ، محترمہ تیستا سیتلواڑ، جسٹس راجندرسچر ، جان دیال ، روی نایار اورہرش مندر کے اسمائے گرامی شامل ہیں ۔
            اس آخری سیشن میں   جن زندہ شخصیات کو ایوارڈ سے نوازا گیا انھوں نے اپنی زندگی اور حالات کے علاوہ ہندوستان کے بدلتے  منظرنامے پر روشنی بھی ڈالی ۔معروف سماجی کارکن ہرش مندر نے یعقوب میمن کے پھانسی دینے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا حکومت نے یعقوب کو پھانسی دینے میں جلدی کی۔ مسلمان اس ملک میں اقلیت میں نہیں ہیں۔ خود کو اقلیت نہ محسوس کریں۔ ہم سب ان کے ساتھ ہیں ۔انھوں نے اس موقع پر کئی واقعات سنا کر مسلمانوں کو ہمت اور حوصلہ رکھنے کی تلقین کی ۔
اس موقع پر روی نایر نے کہا کہ اگرجمہوریت کو محفوظ رکھنا ہے  تو سچ کہنا سیکھیں ۔اگر سچ بولنا بغاوت ہے تو سچ بولیں ۔ قدم قدم پر لڑنا سیکھیں ۔جینا ہے تو مرنا سیکھیں۔انھوں نے کہا یہ افسوس کی بات ہے کہ اس وقت ملک میں ایک خفیہ نظام بنانے کا عمل جاری ہے۔ ہم آزاد روایت پر مبنی خوبصورت روایت رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجودخوف کھاتے ہیں ، خوف سے باہر نکلنا ہوگا ۔ جمہوریت کی خاطر ڈٹ کرلڑنا ہوگا۔ ہندی، ہندو ،ہندوستان کا اس وقت جو نعرہ دیا جا رہا ہے ،اگر ہم ڈٹ کے نہ لڑے تو شاید یہ بھی ہوجائے گا ۔
اس موقع پرڈاکٹر جان دیال نے کہا کہ ہم سب کو  اکھٹامل کر ہندوستان کی تعمیر کرنی ہوگی ۔یہ لڑائی  اسٹیٹ کے خلاف ہوگی جو قانون کا مذاق اڑانے میں مصروف ہیں ۔شدت پسندوں کے خلاف ایک  لمبی لڑائی ہے۔جب ہم اس سے لڑیں گے تب ہی ملک کا بھلا ہوگا ۔
کے ایم عارف الدین نے کہا کہ مسلمانوں کو اپنے  کھوئے ہوئے وقارکو واپس لانے کے لئے جد و جہد کرنی ہوگی۔ قوم کا مستقبل مفید تعلیم کے تابناک نہیں ہوسکتا۔ خواتین کی تعلیم پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔
پی اے انعامدارنے کہا کہ  1947ء سے پہلے اور بعد کے 65 سالوں میں کافی فرق ہے ۔احساس کمتری کی بات کم اور حوصلہ افزائی کی بات زیادہ کریں تو کامیابی ملے گی۔ درس گاہوں کے عرس بہت ہو گئے،تعلیمی اداروں کے عرس کریں۔ ہمیں  تکنالوجی کو اپنانا ہوگا۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ناکامی ہمارا مقدر ہوگی۔ مسلمانوں کو جاگنا پڑے گا۔ تکنالوجی کو اپنا نا پڑے گا۔ کم خرچہ میں زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہی ہمارا پلان ہے۔ اس ملک میں قانون کو نافذ کرنے کی کوشش بدلے ہوئے حالات میں ہماری جتنی ناکامی ہیں پاٹ سکتے ہیں۔ تکنالوجی کی وجہ سے ہم اس لڑائی میں کامیاب ہوں گے۔
معروف سماجی کارکن تیستاسیتلواڑنے کہا کہ ہمارا سسٹم  اس وقت امیروں کی طرف جھکا ہوا ہے۔اور ہماری میڈیا اس کی  طرف داری کر رہی ہے۔ یہ انتہائی شرم کی بات ہے ۔انھوں نے کہا  کہ مسلمان صحافت اور وکالت پر خاص توجہ دیں ۔
اس موقع پر ریٹائرڈ لفٹننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ شیخ الجامعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے صدارتی خطبہ میں کہا  کہ دہشت گردکوئی بھی ہوسکتا ہے۔سچائی اور علم کی طاقت کی وجہ سے تعصب سے ہم چھٹکاراپا سکتے ہیں ۔ اگر تعصب سے بچنا چاہتے ہیں تو علم حاصل کیجئے۔ دینی مدارس دین کا قلعہ رہے ہیں۔ آج ان کو دہشت گردی سے جوڑا جارہا ہے ۔ مسلمان ملت قیادت میں آگے ہوں  تو اس کے لئے شروعات کرنی پڑے گی ۔ ہماری قوم غربت کی وجہ سے اچھے اسکولوں میں اپنے بچے نہیں بھیج سکتی۔ہر صوبے میں ایک سرسید پبلک اسکول کھولیں۔چند مہینہ میں مظفر نگر میں ایک ایسا اسکول کھولا جائے گا۔ علماء کی ذمہ داری ہونی چاہئے کہ مسلمانوں کے آپس کے جھگڑوں کو روکیں۔
اخیر میں اس موقع پر 9نکاتی منشور بھی جاری کیا گیا جس میں بین الاقوامی اور آئینی پس منظر ، جمہوریت کی اصلاح، تشدد کی روک تھام ،مذہبی آزادی کا فروغ، تعلیم کا فروغ، سب کے لئے ریزریشن ،قومی مفاہمت کی صورت گری، عالمی منظرنامہ اور اللہ سے نصرت کے لئے دعا کی گئی۔پروگرام کے اخیر میں ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے سب کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مسلم مجلس مشاورت اور ملت اسلامیہ ٔہند کے اگلے پچاس سال ہمارے پچھلے پچاس سال سے بہتر ہوں گے۔ زندہ قومیں مسائل سے گھبراتی نہیں ہیں بلکہ ہر چیلنج ان کے لئے ترقی کا باعث بنتا ہے۔ اتحاد اور باہمی تعاون سے ہر مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ ہم اس عزم کے ساتھ یہاں سے اٹھیں کہ ہمارا کل ہمارے آج سے بہتر ہوگا اور ہم اپنے کل میں مزید اتحاد اور تعاون کا مظاہرہ کرکے ’’خیر امت‘‘ہونے کا ثبوت فراہم کریں گے۔
رابطہ کا پتہ :
Mohammad Alamullah
alamislahi@gmail.com
Mobile No: 9911701772
E-26 , Abul Fazl , Jamia Nagar
Okhla New Delhi .110025






۔۔۔مزید

بدھ، 12 اگست، 2015

قلم کار اپنے عہد کا گواہ ہوتا ہے

نام کتاب: سیاہ رات (ناول)
صفحات  :380
مصنف   : وکیل نجیب
تبصرہ نگار: محمد علم اللہ
            کہا جاتا ہے کہ قلم کار اپنے عہد کا گواہ ہوتا ہے جو بے انصافی ، ظلم ، تشدد اور معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف لڑائی لڑ رہا ہوتا ہے۔ ہمیں ایسے گواہان کی یقینا ضرورت ہے جو معاشرے کی نا ہمواریوں کو بہتر ڈھنگ سے درشا سکیں ، سچائی کو رقم کریں اور آنے والی نسلوں کے لئے دستاویز کو محفوظ کریں کہ وہ اس سے رہنمائی حاصل کریں ۔ وکیل نجیب کی کتاب سیاہ رات ہمارے موجودہ معاشرے کی عکاسی پر مبنی ناول ہے ، جسے بلاشبہ ایک دستاویزی ناول بھی کہا جا سکتا ہے ۔
            ناول 17دسمبر 1971ء کے ہنگامہ خیز واقعہ پاکستان بنگلہ دیش بٹوارے سے شروع ہوکر ہندوستان کے موجودہ حالات میں داخل ہوجاتی ہے جو ہندومسلم منافرت اور شر انگیزی کو خوبصورتی سے درشاتی ہے۔ اس میں اسلام کے نام پر مسلم نوجوانوں کو بہلا پھسلا کر غیر اسلامی کام کرانے کی بھی داستان ہے اور بالا صاحب اور اس قسم کے طرز فکر رکھنے والے افراد کی کہانی بھی۔ آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ ظلم و ستم کے متعدد طریقے اپنائے گئے ، جن میں فسادات سے لیکر نوجوانوں کی بے جاگرفتاری ، ریاستی دہشت گردی ، استحصال ، ظلم زیادتی سبھی کچھ شامل ہے ۔ ناول نگار نے ان تمام حالات و واقعات کو خوبصورتی سے داستان کی شکل دینے کی کوشش کی ہے اور اس کوشش میں بجا طور پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں ۔
            ناول کا مرکزی کردار بنگلہ دیش کاایک فراری اشرفل  ہے جو شیخ مجیب الرحمٰن کے عہد حکومت میں وزارت داخلہ کے دفتر میں ایک افسر کے طورپر کام کرتا تھا۔ مخالفین جب شیخ مجیب الرحمٰن کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے درپۂ آزار ہوگئے تو وہ یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنا وطن چھوڑ دینےپر مجبور ہوا  اور  ایک شب مختلف صعوبتوں کو برداشت کرتے ہوئے ہندوستان کی سرحد میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ یہاں آنے کے بعدجلد ہی اسے  ایک ہوٹل میں ملازمت مل گئی  ۔اشرفل اپنی لیاقت اور ایمانداری سے  مالک کا دل جیتنے میں کامیاب ہو گیا  اور ہوٹل کے مالک نے اشرفل سے متاثر ہوکر نہ صرف اپنے تمام بزنس کا ذمہ داراس کو بنا دیا  بلکہ اپنی مطلقہ  بیٹی سے شادی بھی کردی، جس کا ایک بچہ بھی تھا۔ بلوائیوں اور غنڈوں نے ایک دن مالک کے گھر پر حملہ بول دیا وہ بچہ کو لے کر ہاسپٹل گیا ہوا تھا اس لئے بچ گیا باقی سارے لوگ مارے گئے،  گھر جلاکر خاکستر کردیا گیا۔ خوف اور دہشت سے اشرفل  اپنے اس آشیانہ کو بھی چھوڑنے پر مجبور ہوااور ممبئی کی راہ لی۔ بچہ جو اب شلوک سے شاداب ہو گیا تھا  کو اس نے ایک مدرسہ میں داخل کروایا اور خود ایک چھوٹے سے قصبہ میں رہنے لگا، مسجد کے امام کی ایک مطلقہ بیٹی سے اس کی شادی بھی ہوگئی اور وہ ہنسی خوشی وہیں رہنے لگا ۔اس درمیان اسے بچے کا خیال بھی نہ آیا۔اشرفل جہاں مقیم تھا وہ ایک غیر متنازعہ زمین تھی ایک دن کچھ لوگوں سے لڑائی ہوگئی۔ لڑائی میں نادانستہ طورپر ایک شخص کا اس کے ذریعہ قتل ہوگیا اور اس کو جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا گیا۔ ادھر بچہ مدرسہ میں پڑھ کر جوان ہوا ، بچہ اپنی ذہانت اور محنت پر آگے بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ اس نے بی ایس سی میں بھی اچھے نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔ لیکن اس کے والدین نہ ہونے کی وجہ سے اسے کافی تکالیف اور مصیبتوں کا سامنا کرنا  پڑا ۔اسی درمیان اس کے تعلقات ایک تشدد پسند اسلامی تنظیم کے افراد سے ہوئی اور وہ اس کا رکن بن گیا ۔ رکن بننے کے بعد شاداب نے اس تنظیم کی رہنمائی میں کئی چڑھائیاں کیں اور اس میں کامیاب رہا ۔ ایک شام وہ ایسی ہی ایک بڑی مہم پر جا رہا تھا کہ اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا وہ جہاں گرا بے آب و گیاہ آبادی تھی ، بڑی مشکل سے چند قبائلی  اسے ملے جنہیں بلانے اور اپنی بپتا سنانے میں  شاداب کامیاب ہو گیا ۔قبائلی  اسے اٹھا کر اپنے گاؤں لے گئے ،علاج و معالجہ کیا اور مریض ٹھیک ہو گیا، تندرست ہونے کے ساتھ ہی شاداب نے اصلاح معاشرہ اور دعوت و تبلیغ کا کام شروع کر دیا اور گاؤں کو ایک مثالی گاؤں بنانے میں جٹ گیا ۔ اس کا یہ کام شر پسند عناصر کو پسند نہ آیا اور انھوں نے اس کے خلاف کارروائی شروع کر دی لیکن کیس جیتنے میں شاداب کامیاب ہو گیا ۔ اسی درمیان اشرفل جیل سے رہا ہوا اور شاداب کی کھوج میں نکل پڑا۔اپنے بیٹے سے ملنے کے بعد اشرفل اپنے کھوئے ہوئے میراث کو منہ بولے بیٹے کو پراپرٹی واپس دلانے آسام لے گیا جسے دوسرے لوگوں نے قبضہ کررکھا تھا جب شاداب کو اس کی پراپرٹی مل گئی تو اشرفل نے اپنے گھر کی راہ لی ،شاداب ممبئی کی ایک مسلم بستی  میں تعمیر وترقی کا کام کرنے لگا لیکن ہندو عوام کو اس پر اعتراض ہوا اور انہوں نے اس کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔اسی درمیان اشرفل کی بھتیجی کی شادی بنگلہ دیش میں تھی وہ وہاں گیا اورکچھ دنوں کے بعد شاداب اور اس کی بیوی کو بھی آنے کی دعوت دی ، جب دونوں بنگلہ دیش گئے تو وہیں  اس کے دشمنوں نے اس کا خاتمہ کردیا۔ اشرفل دشمنوں کو ختم کرنے نکلا۔ اسے اس میں کامیابی بھی مل گئی اور اپنے آپ کو بچانے کے لئے اس نے سیاہ راتوں میں خود کو گم کرلیا۔
کہانی یوں تو بنگلہ دیش کے لرزہ خیز حالات سے شروع ہوتی ہے لیکن پوری کہانی میں بنگلہ دیش  کی کم ہندوستان کی عکاسی زیادہ کی گئی ہے اس سے ہندوستان کے موجودہ عہد کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ناول کی بنت اچھی ہے لیکن بہاؤ نہیں ہے اور ایک اچھی اور عمدہ کہانی کی جو خصوصیات ہوتی ہیں وہ اس میں مفقود ہیں۔فکشن کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ قاری اس کو پڑھنے پر مجبور نہ ہو بلکہ وہ کتاب قاری کو اپنی جانب ملتفت کرلے اور ایک مرتبہ قاری جب اس کو پڑھنا شروع کرے تو ختم کرکے ہی دم لے اس حوالہ سے ناول بہت کمزور ہے۔زبان و بیان میں بھی کوئی ادبی رچاؤنہیں ہے ۔ بعض جگہوں پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ناول نگار زبردستی بات کو کھینچنے اور طول دینے کی کوشش کررہا ہے۔متعدد جگہوں پر مکالموں اور ڈائیلا گز میں تقریر کا گمان ہوتا ہے اور بعض جگہوں پر یہ تقریر اتنی لمبی ہو جاتی ہے کہ قاری کاذہن اصل مدعےہےپھسل جاتا ہے۔ پروف کی غلطیاں کم ، سر ورق مناسب اور کاغذ واجبی ہے ۔


  

۔۔۔مزید

منگل، 28 جولائی، 2015

سابق صدرجمہوریہ ہند ڈاکٹر ابوالفاخر زین الدین عبدالکلام کی رحلت پر منظوم خراج عقیدت ۔

27 جولائی ۵۱۰۲ء

سابق صدرجمہوریہ ہند، ہندوستان کے مایہ ناز ڈاکٹر ابوالفاخر زین الدین عبدالکلام کی رحلت پر برادر مکرم ضیاء الرحمان اصلاحی کا منظوم خراج عقیدت ۔

کشور ہندوستان پر سوگ طاری آج ہے
آسمان ہند پر اختر شماری آج ہے
رشک مہر وماہ تھاوہ اک ستارہ اوج کا
انجمن کی شان تھا وہ اور سہارا فوج کا
نبض ہندوستاں تھمی ہے تیرے اٹھ جانے کے بعد
ایک افتاد آپڑی ہے تیرے اٹھ جانے کے بعد
سب موافق او ر مخالف کر رہے ہیں آہ آہ
کارناموں پر ترے جو کر رہے تھے واہ واہ
اک صف ماتم بچھی ہے خاک ہندوستان پر
حرف آیا ہے ترے جانے سے اس کی شان پر
مسند عالی کو بخشیں تونے ایسی رفعتیں
جن کی وہ شایاں تھی لیکن اس پہ گذریں مدتیں
علم و حکمت اور تدبر اور سیاست کا کفیل
اس ریا کے دور میں اگلوں کی رفعت کا مثیل
تیرے ایجادات پر ہندوستان کو ناز ہے
اس کے نغموں کے لیے تیرا سراپا ساز ہے
طالبان علم کا تو ہم دم و دمساز تھا
اوررقیبوں کے لیے تو اک بت طناز تھا
تیرے عزم و جزم کی باتیں رہیں گی آن سے
ہم تری رسمیں ادا کرتے رہیں گے شان سے
کر رہے ہیں تیری عظمت کو کھڑے ہو کر سلام
نام تیرا زندہ و پائندہ ہے عبدالکلامA

۔۔۔مزید

بدھ، 8 جولائی، 2015

انکاؤنٹر


محمد علم اللہ دہلی
            ہم چار مینار پولس اسٹیشن کے قریب اس کے لوٹنے کا انتظار کر رہے تھے۔ برآمدے کے دوسری جانب کا پٹ کھلا ہوا تھا لیکن میری نگاہیں اس کا جائزہ بھی نہ لے پائی تھیں کہ ایک پولس والے نے اس کو بند کر دیا۔ اب کچھ نظر تو نہیں آ رہا تھا لیکن ہم کسی کے چیخنے کی آواز صاف سن سکتے تھے۔
کچھ پوچھ تاچھ چل رہی ہے کیا؟“میں نے قریب ہی کھڑے ایک آفیسر سے پوچھا۔اس نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا ، کئی افسران چائے پی رہے تھے اور کچھ اخبار بینی میں مصروف تھے۔
            حیدر آباد آئے ہوئے یہ میرا پانچواں مہینہ تھا۔ بہت سارے سینئر صحافیوں سے دوستی ہو گئی تھی۔دہلی چھوڑنے کا غم اب دھیرے دھیرے محو ہو رہا تھا۔نئے لوگ ،نئی زندگی ،نئی راہیں ،سب کچھ بدلا بدلا سا تھا۔ یوں بھی جب کسی چیز سے سمجھوتہ کرنا پڑے، تو انسان کونہ چاہتے ہوئے بھی بہت ساری چیزوں سے نباہ کرنا ہی پڑتا ہے۔
            ریڈی میرا بہت عزیز دوست تھا۔ اس سے میری ملاقات حیدر آباد آنے کے بعد ہوئی۔ ہم دونوں ایک ہی محلہ میں رہتے تھے۔ وہ ایک اچھا صحافی تھا اور بہت اچھا لکھتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے  پورے صحافتی حلقہ میں اس کی بڑی عزت تھی۔اعلیٰ افسران سے لے کر نچلی سطح کے لوگوں تک ،سبھی سے اس کے اچھے تعلقات تھے۔ اس نے ایک انجان شہر کی صحافتی دنیا میں تعلقات بنانے میں میری کافی مدد کی ۔ میں اکثر تو نہیں لیکن کبھی کبھی اس کے ساتھ رپورٹنگ کے لئے چلا ہی جا یا کرتا ۔ ہمارے میدان جسے صحافت کی اصطلاح میں بیٹ کہتے ہیں، الگ الگ تھے۔وہ کرائم رپورٹر تھا اور میرے ذمہ اقلیتی امور، ثقافت اور تعلیم کا شعبہ تھا لیکن پھر بھی ہم دونوں بہت سے وقوعے ایک ساتھ ہی  کور کرتے ۔
            آج جب ریڈی نے بتایا کہ وہ وجے سے ملنے جا رہا ہےتو میری بھی خواہش ہوئی کہ اس کے ساتھ چلوں ، وجے انکاؤنٹر اسپشلسٹ تھا۔ اچانک اور نا گہانی حالات میں بھی مورچہ کیسے سنبھالا جائے، دہشت گردوں کا کس طرح مقابلہ کیا جائے؟ ان معاملات سے وہ اچھی طرح واقف تھا۔ایسا اس کے بارے میں کہا جاتا تھا لیکن وہ کچھ لوگوں کے نزدیک بدنام بھی تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جعلی انکاؤنٹر بھی کرتا رہتا ہے۔ ایسے ہی ایک الزام میں وہ پھنس گیا تھا اور اب وہ کل ہی عدالت سے بری ہو کر آیا تھا۔
وجے کے آفس پہنچنے سے پہلے ہی مٹھائی کے دو ڈبے آئے، مجھے بھی ایک بڑے ڈبے سے لڈو پیش کیا گیا  ، اس سے نہ میں نےکچھ لیا اور نہ ہی ریڈی نے۔لڈو دیکھ کر ریڈی کچھ بڑ بڑا یا، وہ کیا کہنا چاہ رہا تھا، میں نہیں سمجھ سکا  لیکن اس کے چہرے سے نا پسندیدگی جھلک رہی تھی۔کئی ذمہ دار اور با اثر شخصیات کے آنے جانے کا سلسلہ  جاری  تھا۔انتظار کی گھڑیاں بے قراری میں بدلنے لگییں۔میں نے ریڈی پوچھا”کب آئے گاتمہارا وہ آفیسر؟“ابھی میرا سوال ختم ہی ہوا تھا کہ پولس اسٹیشن میں اچانک ہلچل سی پیدا ہوئی۔ انکاؤنٹر اسپیشلسٹ وجے آن پہنچا تھا۔ پولس والے اسے مبارکباد دے رہے تھےاور وہ مسکراتے ہوئے سب کی مبارکبادیں قبول کرتا رہا تھا۔ ایک نے تیلگو میں کہا:
             ” وجے بہادر! کل سے کام شروع کردو۔
            اس کے بعد ریڈی نے اس کا انٹرویو لینا شروع کیا۔ وجے ریڈی سے اچھی طرح واقف تھا اور شاید دونوں میں کچھ بے تکلفی بھی تھی۔ریڈی سوالات کرتا رہا اور وجے نہایت اطمینان سے اس کے ہر سوال کا جواب دیتا رہا۔اور جب ریڈی اپنا انٹرویو ختم کر چکا تو میں نے بھی ایک سوال پوچھ ہی لیا ۔
  ”وجے جی! آپ کتنی مڈبھیڑوں میں شامل رہے ہیں اور کس طرح کی بندوقیں استعمال کرتے ہیں ؟ “اس نے تھوڑی دیر کچھ سوچا اور پھر فخریہ انداز میں گویا ہوا:
  ” اب تک بیس لوگوں کا انکاو ٔنٹر کر چکا ہوں۔“ پھر اس نے دراز میں سے چمڑے کا ایک پاؤچ نکالا، اسے کھولا اور میرے ہاتھ  میں تھما دیا۔ یہ سکس شوٹر تھا جس کا ہنڈل بھورا اوربیرل اسٹیل کا تھا۔ اس پر ٹائٹن ٹائگر کا لوگو بنا ہوا تھا اور اس کے نیچے 38 اور مایا ایف ایل کندہ تھا۔ اس کے ہینڈل پر داڑھی والا نارس گاڈ بنا ہوا تھا۔ یہ 1950ءکے زمانے کے ہالی ووڈ کی کسی فلم کے سین جیسا نظر آ رہا تھا۔ میں نے بیرول کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر وجے سے پوچھا:
کبھی مڈبھیڑ کے بعد یا کسی کی زندگی لینے کے بعد آپ کو برا لگا ؟
 ” وہ انسان نہیں تھے۔ “اس نے فوراً جواب دیا۔
وہ جانور تھے سب کے سب ۔ ایک زندگی لینے سے پہلے سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ مرنے والا انسان نہیں بلکہ ایک بیکار جانور ہے۔۔۔آپ کو پہلے یہ ماننا پڑے گا۔ “اس نے جواب دیا۔
کیا کبھی مڈبھیڑ کے دوران آپ نے خطرہ محسوس کیا؟“میرا اگلا سوال تھا۔میرا سوال سن کر وہ تھوڑی دیر کے لئے رکا۔ پھر کہنے لگا:
  ” کبھی نہیں، طریقہ یہ ہے کہ جوابی کا رروائی سے پہلے نشانہ پر گولی داغ دو۔ میں کوئی بہت اچھا نشانہ باز نہیں ہوں ، پھر بھی مجھے کبھی بھی پچیس فٹ سے زیادہ فاصلے سے گولی چلانی نہیں پڑی۔“میں نے اس سے کہا:
 ”ابھی فاضل جج نے حال ہی میں ایک فیصلہ کی بابت لکھا ہے کہ ملزم نے جدید ہتھیار اے۔کے 56 سے گولی چلائی  جس سے ایک منٹ میں چھ سو راؤنڈ گولیاں چلتی ہیں اور اس کی وار کرنے کی صلاحیت تین سو میٹر تک ہے مگر نہ معاون پولس افسران اور نہ ہی کمانڈر افسرکو ایک خراش تک لگی؟“ابھی میری بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ وجے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور کہنے لگا:
بھیا ہم پولس والے ہیں۔“ریڈی نے اس کے خاندان کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کی دس سال کی بیٹی ہے:
  ” کیا آپ چاہیں گے کہ آپ کے بچے پولس میں شامل ہوں۔“میرا اگلا سوال تھا۔
            اس نے اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا :
 ”نہیں! “گفتگو کے ساتھ ساتھ میرا صحافیانہ ذہن کچھ اور چیزیں بھی دیکھ رہا تھا ، گفتگو کے دوران مبارکباد دینے والوں کا سلسلہ جاری تھا۔ ایک سینئر انسپکٹر نے کہا کہ وہ مڈبھیڑ میں حصہ لینے والے ٹیم کے ہر رکن کو اکٹھا کریں گے اور جشن منائیں گے ، شراب کا دور چلے گا اور رنڈیاں بھی نچوائیں گے۔میرا سر چکرانے لگا تھا۔ میں بہت جلد یہاں سے نکل جاناچاہتا تھا ،میں نے ریڈی کو ایک ٹہوکادیا:
  ” اب چلو ۔۔۔بہت دیر ہو چکی ہے۔ “وجے نے مسکراتے ہوئے اجازت دی ۔ ہم اپنی کار میں بیٹھ چکے تھے۔ میرا ذہن نہ جانے کہاں کھویا ہوا تھا اور ریڈی بولے جا رہا تھا۔
 ”تم کرائم رپورٹنگ میں شاید پہلی مرتبہ آئے ہو، یار میں بھی جانتا ہوں، یہ سب غلط ہے لیکن کیا کریں کرنا پڑتا ہے یہ سب۔میں نے ایسے بہت سے واقعات دیکھے اور سنے ہیں۔ اور میں ایک راز کی بات بتاؤں؟ مجھے اُس واقعہ کی ایک پولیس افسر کے ذریعہ سن گن مل گئی تھی۔ یہ میرے لئے بہت بڑی خبر تھی  اور میں چاہتا تو ایک انسان کی جان بچ سکتی تھی  لیکن میں نے اس پر کوئی فالو اپ نہیں کیا۔اس کا قلق آج تک مجھے ہے۔ اس واقعہ کو میں آج بھی نہیں بھول سکتا  ۔ تم سُن رہے ہونا“میں نے نیند میں اونگھتے ہوئے  ہہہ ں  کہا :
وہ کہہ رہا: تھا اب بھی جب کبھی مجھے وہ واقعہ یاد آتا ہے، میرا دل دہل جاتا ہے۔میں نے اس واقعہ کو دیکھا ، بہت قریب سے دیکھا بلکہ اسے تم ایک کامیاب اسٹنگ آپریشن بھی کہہ سکتے ہو۔ میں نے اس دن اُس آدمی کو زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تھا۔اسے مڈبھیڑ کہنا غلط ہوگا۔ وہ جان بوجھ کر ایک قتل کا معاملہ تھا، پولس اس کو وقت سے پہلے ہی نمٹا دینا چاہتی تھی۔اس بے چارے کو اس کے کھڑے ہونے کی جگہ دکھا دی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ یہاں سے ہلنا مت۔ تمہیں گولی لگ سکتی ہے۔“ بولتے بولتے ریڈی جذباتی ہو گیا تھا۔ لیکن اس نے اپنی بات جاری رکھی:اس دن رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے ۔پولس کے جوان جائے وقوعہ پر پہنچے ۔ اس آدمی کو پتہ تھا کیا ہونے والا ہے۔ وہ ڈر سے تھر تھر کانپ رہا تھااور اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔“
             میرے بچے ہیں سر! پلیز مجھے بخش دیں ! میں کچھ بھی کروں گا۔ میں انفارمر بن جاؤں گا۔“ جب وہ اپنی زندگی مانگ رہا تھا تو ایک پولس والے نے اپنی بندوق اٹھائی اور گولی چلانا شروع کر دیا ۔ الگ الگ زاویے سے الگ الگ شاٹ، ایک منظم سازش کے تحت۔ا س طرح ایک پولس والا ایک مخصوص جگہ پر کھڑا ہوگا اور دوسرا دوسری جگہ پر۔ اس بات پر سمجھوتہ ہو چکا تھااور اس شخص پر لگ بھگ چھ سات راؤنڈ گولیاں چلائی گئیں۔ گولی چلاتے ہوئے وہ اسے گالیاں دے رہے تھے۔ ان پولس والوں کے چہرے پر کوئی افسوس نہیں تھا۔ جب آدمی زمین پر گر گیا تو انھوں نے ساتھ لائے رومال میں لپٹے ریوالور کو مردہ آدمی کے ہاتھ میں رکھ کر اس سے دو گولیاں داغ دیں۔ جو بھی عام لوگ جائے وقوعہ پر تھے پہلے ہی پولس کی آواز سن کر بھاگ گئے تھے۔ پولس نے پنیتالیس منٹ تک انتظار کیا کہ اس میں زندگی کی  رمق بھی باقی نہ رہے، پھر اسے اسپتال لے کر گئے۔ میں اس رات تین بجے تک نہیں سو سکا۔ اور تین دن کھانا نہیں کھایا۔ میں نے پہلی مرتبہ کسی کو اس طرح مارے جاتے ہوئے دیکھا تھا:”اس واقعہ کے بعد سے پولس سے میرے تعلقات بدل گئے۔میں ان سے نفرت کرتا ہوں۔ یہ سب  حرامی ہیں !کتے ہیں سالے !اگر مجبوری نہ ہوتی تو کب کا اس پیشہ سے توبہ کر لیتا۔ “گاڑی ایک جھٹکے سے رکی ، مگر ریڈی خاموش نہیں ہوا تھا ۔
 ” مجھے افسوس ہے بھائی میں نے اس واقعہ کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ ایک سطر بھی نہیں۔ پولس مڈبھیڑ کے بارے میں جو بھی خبریں چھپتی ہیں وہ بکواس ہوتی ہیں۔ آج کا انٹرویو بھی جھوٹا تھا۔ ہم صحافی نہیں اسٹینو گرافر ہیں اسٹینو گرافر! ہم پولس کے منشی ہیں۔“ میں نے ریڈی کی جانب دیکھا۔ اس کی آنکھیں خشک تھیں اور چہرہ کسی پتھر کی طرح بے جان نظر آ رہا تھا۔
نوٹ : یہ افسانہ سہ ماہی ادبی جریدہ  ثالث  “ مونگیر میں شائع ہو چکا ہے ۔

۔۔۔مزید