جمعرات، 1 اکتوبر، 2015

مشاورت کی تاریخ لکھنے والے نوجوان قلم کار محمد علم اللہ سے ایشیاء ٹائمز کی بات چیت


من و عن


کسی بھی مصنف کی زندگی میں  سب سے زریں موقع وہ ہوتا ہے، جب وہ کچھ لکھے اور اس کی پذیرائی ہو ، خوش قسمتی سے یہ  سعادت  نوجوان  مصنف محمد علم اللہ  کو  اپنی پہلی ہی تصنیف  کی تکمیل پر  ان کے حصے میں آئی ۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت  کی مختصر  تارییخ لکھنے  کا یہ شرف دہلی  کے  جامعہ نگر  میں مقیم   اس نوجوان قلم کار  کو حاصل ہو ا، جس نے  جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اے کے جے  ماس کمیونیکیشن ریسرچ  سینٹر سے ماس کمیونکیشن میں ما سٹر ڈگری حاصل کرنے  کے بعد  تاریخ  سے ایم اے   کیا ۔  اس ہونہار  لکھاری نے   طالب علمی کے دور سے  ہی صحافت سے وابستگی  اختیار کر لی تھی  اور کئی اہم روزناموں  سے وابستہ رہے ،شاعری  اور  افسانہ  نگاری بھی ان کا  میدان  ہے۔ موصوف کی پہلی تصنیف" مسلم مجلس مشاورت –ایک مختصر تاریخ "    کا اجرا مشاورت  کے 'جشن زریں '  میں 31 اگست   کو " نائب صدر جمہوریہ  محمد حامد انصاری  کے بدست  عمل میں آیا ۔

26 سالہ حوصلہ مند نوجوان  مصنف کے اس تاریخی  حصولیابی پر  'ایشیا ٹائمز' کے  اڈیٹر نے ان سے بات چیت کی اور یہ جاننے  کی کوشش کی کہ انہوں  نے یہ کارنامہ کس طرح انجام دیا ؟انہیں  کیا کیا دشواریاں پیش آئیں؟  اور وہ  کیسے  اس کم عمری  میں مصنف بن گئے ؟ ' ایشا ٹائمز'  کے قارئین کی خدمت   ان سےبات چیت  کے اہم اقتباسات  پیش ہیں۔(ادارہ)

سوال: مشاورت کی تاریخ لکھنے کا موقع آپ کو ملا ،آپ کی پہلی تصنیف مشاورت پر آئی آپ کے احساسات کیا ہیں ؟

جواب: دیکھئے بنیادی طور پر کسی بھی مصنف کے لئے یہ خوشی کا موقع ہوتا ہے کہ اس کی کوئی تصنیف شائع ہو اور لوگ اس کو پسند بھی کریں ۔یہ میرے لیے بڑی خوشی کی بات ہے کہ مجھے کام کرنے کا موقع ملا  اور اس درمیان بہت سارے لوگوں کا تعاون شامل رہا ان میں سے بہتوں کا نام اس کتاب میں موجود ہے اور بہت سارے ایسے افراد بھی ہیں جن کا نام میں اس میں نہیں لکھ سکا ۔انسان جب کوئی کام کرتا ہے تو صرف اس  کا  اپنا ذاتی کام نہیں ہوتا ، بلکہ وہ اس سے دوسروں کو بھی فائدہ پہونچا رہا ہوتا ہے ،  بہت کچھ سیکھتا ہےاور اپنے مطالعے  اور مشاہدےکی روشنی میں لوگوں کو  بہت کچھ بتاتا بھی ہے ۔ اس کتاب کو لکھتے ہوئے مجھے بہت کچھ خصوصا ہندوستانی مسلمانوں کے حوالہ سے جاننے کا موقع ملا ، اور میرا یہ احسا س کہ ہے آزادی کے بعد  سے مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے کوئی کمی نہیں آئی ۔

سوال: آپ تو بنیادی طور پر صحافی ہیں پھر تاریخ نگاری کی جانب کیسے آگئے ؟

جواب: صحیفہ نگار تو صحیفہ نگار ہوتا ہے یعنی صرف لکھاری اور اگر واقعی اس کو لکھنا آتا ہے ،تو وہ کچھ بھی لکھ سکتا ۔ لیکن آپ کے علم کے لئے میں یہ بات بتا دوں کہ میں پہلے تاریخ کا طالب علم رہا صحافت کی جانب بعد میں آیا ۔  ایک بات اور آج کا صحیفہ نگار تو کل کا مورخ ہوتا ہی ہے ۔ لیکن یہ ہماری بد قسمتی ہے خصوصا اردو صحافت کے حوالہ سے میں یہ بات کر رہا ہوں کہ آج کے صحافی کو اس کا ادراک نہیں ہو تا کہ اس کی تحریر کل کو تاریخ کا حصہ بھی بنے گی ۔آجکل صحافت میں کیا کچھ آ رہا ہے  مجھ سے زیادہ آپ خود واقف ہیں ۔جہاں تک باضابطہ تاریخ نگاری کے جانب عود کر آنے کی بات ہے تو اسے آپ ایک حادثہ کہہ سکتے ہیں ۔ میں تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تاریخ نویسی پر باضابطہ کام کروں گا ۔ صحافت میں آنے بعد اس وادی میں انسان اتنا ڈوب جاتا ہے کہ اس کو اس سے نکلنے کا موقع نہیں ملتا ۔ لیکن اس سلسلہ میں میں اپنے کرم فرما ڈاکٹر ظفرالاسلام  خانصاحب کا تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ انھوں نے ہی مجھے یہ موقع فراہم کیا اور میں اس جانب چلا آیا ۔


سوال: تاریخ نگاری کے دوران  آپ کو کچھ  چیلنجز  کا بھی سامنا کرنا پڑا   ہوگا ،  اس بارے میں کچھ  بتائیں  ؟

جواب: آپ کوئی بھی نیا کام کریں گے آپ کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا ۔میرے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ رہا کہ اس پر کچھ کام سرے سے ہوا ہی نہیں تھا ، یعنی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے زیرو لیبل سے کام شروع کرنا پڑا ۔انٹرویوز ، دوڑ دھوپ ، پرانے اخبارات کی  تلاش ، خطوط اور گرد آلود دستاویزوں کی ورق گردانی ۔ اس درمیا کئی  کئی مرتبہ تو ایسا ہوا کہ میرے کپڑے بالکل گندے ہو گئے ۔ بعض مراحل اور ادوار  ایسے بھی آئے  جس کے بارے میں کچھ تھا ہی نہیں  کاروائی رجسٹر اور ریکارڈ بھی غائب تھے ۔ایسے موقع پر بے حد غصہ آتا  ۔ لیکن  ان مراحل سے بھی اللہ کا شکر ہے ہم گذرے  ایسے مواقع پر میں شکر گذار ہوں اپنے احباب کا اور خصوصی طور پر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان  صاحب کا کہ انھوں نے مجھے بڑی  ہمت دلائی اور قدم قدم پر رہنمائی کی ۔ڈاکٹر صاحب اکثر کہتے "جو شخص میدان چھوڑ کر ہی بھاگ گیا اس نے کیا لڑائی  لڑی مزہ تو جب ہے کہ آپ میدان میں ڈٹ جائیں اور جیت کر باہر نکلیں "ایسے الفاظ واقعی آپ کو بہت ہمت دلاتے ہیں ۔

سوال : آپ کی کتاب کا اتنی بڑی شخصیت کے ہاتھوں اجراء عمل میں آیا اور آپ وہاں موجود نہیں تھے ؟اور اجراء کے وقت آپ کا نام بھی غلط انداز میں پکارا گیا ؟

جواب: نہیں نہیں ! میں وہاں تھا ،کس نے کہہ دیا کہ میں وہاں نہیں تھا ۔ بھئی یہ تو پروگرام  ہی میرا تھا اور میں ہی پروگرام میں نہیں رہتا  یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ پھر میرے لئے تو یہ اعزاز کی بات تھی کہ نائب صدر جمہوریہ کے ہاتھوں میری کتاب کا اجراء  ہو رہا تھا ۔بعض بزرگوں کے الفاظ میں "اس پروگرام کا دولہا تو میں ہی تھ"۔ منصور آغا صاحب میرے بڑے اچھے بزرگ ہیں ان کا  ہی یہ کہنا تھا ، وہ اکثر شفقت میں مجھے ڈانٹتے بھی ہی اور سمجھاتے بھی ، میں ان کی بڑی قدر کرتا ہوں ۔آپ کو غلط فہمی غالباا س وجہ سے ہو گئی کہ آپ نے مجھے اسٹیج پر نہیں دیکھا ۔یہ ممکن ہے سیکیورٹی کی وجہ سے  ایسا ہوا ہو  یا کوئی اور مصلحت رہی ہو ، مجھے نہیں معلوم ۔کئی اور لوگوں نے بھی یہ بات مجھ سے دریافت  کی   ۔ لیکن ایسا نہیں ہے ، میں وہاں پر تھا ۔ ہاں جہاں تک نام غلط پکارنے کی بات ہے تو مجھے بھی یہ اچھا نہیں لگا ، اور بعد میں میں پروگرام کے ناظم سے ملا اور انھیں بتایا کہ آپ نے میرا نام غلط پکارا تھا میں علیم اللہ نہیں ، علم اللہ (جھنڈا والا)  ہوں تو انھوں نے انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا یہ یہ' مُلاّوُلّا' کیا ہوتا ہے ، مجھے اس وقت بڑا غصہ آیا تھا کہ ایک تو لوگ غلطی کرتے ہیں اور انھیں اگر بتایا جائے تو قبول بھی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔مجھے بعد میں پتہ چلا وہ صاحب علی گڑھ کے پروفیسر ہیں اور ایڈوکیٹ بھی ۔ انہوں نے  نظامت کے دوران اور بھی بڑی فاش غلطیاں کی تھیں  جس کا میں یہاں تذکرہ  کرنا نہیں چاہتا ۔


سوال: تاریخ  لکھنے کے دوران ملت اسلامیہ ہند کے نشیب و فراز کو آپ نے کس طرح محسوس کیا ؟

جواب: عروج و زوال قوموں کا خاصہ رہی ہے ۔ میں نے اپنے  کتاب کے مقدمہ میں اس کا تذکرہ بھی کیا ہے ۔ آپ کتاب کا مطالعہ کریں گے تو اس میں بہت ساری چیزیں  آپ کو ملیں گی،  جس سے اندازہ ہوگا کہ ہماری ملت کے  کیا مسائل رہے اور ہم کیسے اس سے باہر نکلے ہیں ؟  اور ایک بات میں بتادوں! آزادی کے بعد سے سچی بات تو یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان اپنے پاووں پر کھڑا ہی نہیں ہو سکا ۔ ہماری قوم نے بڑی پریشانیاں جھیلی ہیں ۔ ان پریشانیوں میں ہماری ملی تنظیموں  نے کسی حد تک مرہم لگانے کا کام کیا ہے  ۔لیکن سہی  بات تو یہ ہے  کہ وہ زخموں کا مداوا نہیں کر سکے ہیں ۔ ملت اسلامیہ ہند نے خصوصا آزادی کے بعد سے جن نا گفتہ بہہ حالات کا سامنا کیا ہے اس کی داستان انتہائی دلخراش اور کربناک ہے ۔ ممکن ہے اسے آپ میری حساسیت کہیں لیکن اس کتاب کو  لکھتے ہوئے بہت مرتبہ میں  رویا ہوں۔میں کبھی کبھی مستقبل کے بارے میں سوچتا ہوں کہ کیا ہوگا! ہماری آنے والی آئندہ نسلوں کا ۔ ہمیں بہت محنت کرنی پڑے گی ، ایک لمبی لڑائی لڑنی پڑے گی اپنے پاووں پر کھڑے ہونے کے لئے ۔

سوال : مشاورت کی ایک عظیم تاریخ رہی ہے ۔ اس کے بانیان میں بھی بڑے بڑے لوگوں کے نام ہیں ۔کیا انہوں نے کچھ کام نہیں کیا ؟ بحیثیت مورخ آپ اس پر کیا کہنا چاہیں گے ؟

جواب: مشاورت نے تو کافی کام کیا ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ہے ۔ آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے وجود کو سمیٹنے اور اس کی بقاء میں اس کا بڑا رول رہا ہے ۔ لیکن چونکہ مورخ کی حیثیت سے آپ نے مجھ سے پوچھا ہے تو میں یہ بات کہوں گا کہ مشاورت کو جو کارنامہ انجام دینا چاہئے تھا اور جس انداز سے یہ تنظیم آگے بڑھی تھی بعد کے دنوں میں یہ کیفیت دیکھنے کو نہیں ملتی  اور 1983 کے بعد کے  تو اور بھی حالات خراب نظر آتے ہیں ، جب مفتی عتیق الرحمان صاحب جو اس کے بانیان میں سے بھی تھے کا انتقال ہوا تو دو صدور بنا دئے گئے ،ایک شیخ ذولفقار اللہ اور دسرے سید شہاب الدین ،بلاشبہ ان شخصیتوں کی بڑی خدمات رہی ہیں لیکن یہ ویسی ہی بات ہوئی آپ نے بچپن میں پڑھا ہوگا " اگر دو خدا ہوتے سنسار میں، تو دونو ں بلا ہوتے سنسار میں"۔ مشاورت میں بھی ایسی کیفیت نظر آتی ہے اور قدم قدم پر اختلاف اور افتراق کا نمونہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ اس طرح پچاس سال کی طویل العمری اور کارکردگی کے باوجود یہ فیصلہ تو نہیں کیا جا سکتا کہ یہ دورانیہ ناکامیوں کا مجموعہ کہلانے کا مستحق ہے ، البتہ زندگی بچانے کے لئے حکماء اور اطباء مبارکباد کے مستحق ہیں ۔

سوال: اس کتاب میں کیا ایسی خاص بات ہے کہ ہم اس کا مطالعہ کریں  ؟

جواب : دیکھئے !کوئی بھی چیز کسی کے لئے بہت خاص ہو سکتی ہے اور  وہی چیز کسی کے لئے بہت عام ، آپ کا یہ کہنا کہ اس  کتاب میں کیا خاص بات ہے کہ کوئی اس کا مطالعہ کرے، میرے لئے اس کا جواب دینا واقعی بہت مشکل ہے ۔ لیکن ہاں میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ جدید ہندوستان میں مسلمانوں کے مسائل کو سمجھنے میں یہ کتاب ضرور آپ کی مدد کر سکتی ہے ۔ آزادی کے فورا بعد پر تو بہت کتابیں لکھی گئیں ،لیکن بعد کے دنوں میں وقوع پذیر ہونے والے حالات اور  ہم عصر تاریخ پر بہت کم کتابیں دستیاب ہیں ،جو ہیں وہ یا تو بالکل تاریخی نوعیت کی یا بالکل دستاویزی نوعیت کی  ہیں ، جس سے ایک عام آدمی کا استفادہ کر پانا بہت مشکل ہے ۔ہم عصر تاریخ لکھنا بہت مشکل  ہے کہ آپ اس میں جو کچھ بھی لکھ رہے ہوتے ہیں، اس کے دیکھنے اور جاننے والے موجود ہوتے ہیں،  ایسے میں آپ کے لئے یہ بہت مشکل ہو جاتا  ہے کہ آپ کیا لکھتے ہیں اور کیا چھوڑتے ہیں ، ان تمام چیزوں کو دیکھنے کے لئے آپ اس کتاب کا مطالعہ کر سکتے ہیں ۔

یہ انٹرویو ایشیا ٹائمز کی ویب سائٹ میں دستیاب ہے ۔ لنک یہاں موجود ہے ۔
 http://www.asiatimes.co.in/urdu/Asia-Times-Special/2015/09/22573_