ہفتہ، 30 نومبر، 2013

کیا حل ہو گئی آروشی مر ڈر مسٹری ؟

محمد علم اللہ اصلاحی 
نوکر سے پیار،جنسی استحصال اور پھر قتل ،مئی ، ۲۰۰۸ء کی رات سیکٹر ۔۲۵ واقع جل وایو وہار کے ایل ۔۳۲ میں ایسی ہلچل مچی کہ ساری دنیا کی نگاہیں اسی پر ٹک کر رہ گئیں۔ گھر میں والد،والدہ، آروشی اور نوکر ہیم راج تھا۔ ایک فلیٹ میں کل چار افراد تھے اور رات کے ۱۲ سے۱؍ بجے کے درمیان آروشی اور ہیم راج بیک وقت دو لوگ موت کے گھاٹ اتار دئے گئے ۔ آروشی کی لاش قتل کے اگلے دن دوپہر کو اور ہیم راج کا لاشہ تیسرے دن برآمد ہوا۔ قاتل نے تیز وار کئے تھے ، گلے پر وار کے باوجود آروشی کی آواز نہیں نکل سکی تھی۔قتل کے بعد آروشی کے کمرے میں رکھا موبائل اور کمپیوٹر رات ایک سے چار بجے کے درمیان کئی بار استعمال کیا گیا۔ دو لوگ ہی گھر کے اندر تھے۔ جب صبح گھر پرنوکرانی آتی ہے اور سارے ماجرے سے مالک و مالکن کو واقف کراتی تو ڈاکٹر تلوار اور نوپور بیٹی کی موت کے بارے میں پولس سے شکایت کرتے ہیں۔ وہیں ، پولیس بھی صبح جلدی میں جائے حادثہ کو چھوڑ ہیم راج کو تلاش کرنے باہر نکل جاتی ہے۔ایک دن بعد جب ریٹائرڈ ڈی ایس پی کے کے گوتم چھت پر جاتے ہیں تو انھیں نوکر ہیم راج کی لاش ملتی ہے۔ اس کے بعد قتل کی اس واردات کا منظرنامہ پورے طور سے بدل جاتا ہے اور آروشی ، ہیم راج قتل ایک معمہ بن جاتا ہے۔لیکن شواہدکی روشنی میں عدالت اور پولس مجرم کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔اور مجرم کیفر کردار کو پہنچ جاتے ہیں ۔
یہ ہے اس کہانی کا خلاصہ جو گذشتہ ساڑھے پانچ سالوں سے جاری رہنے کے بعد۲۶دسمبر ۲۰۱۳ء کوبہ ظاہر اپنے انجام کو پہنچ گئی ۔اور ملک کے سنسنی خیز جرائم میں سے ایک قتل مسٹری آروشی تلوار اور ہیم راج کے قاتلوں کو سزا سنائی گئی۔خبروں کے مطابق ڈبل قتل کے اس معاملے میں غازی آباد کی خصوصی سی بی آئی عدالت نے یہ فیصلہ سنایا جس میں عدالت نے آروشی کے والدین راجیش تلوار اور نپور تلوار کو قتل اور ثبوت مٹانے کا قصوروار قرار دیااورآروشی ۔ ہیم راج قتل کیس میں والدین کو ہی بیٹی اور نوکر کو قتل کا مجرم قرار دیتے ہوئے دونوں کو عمر قید کی سزا دی، خبروں کے مطابق منگل کو دوپہر بعد اس کیس میں سزا پر بحث ہوئی جس میں سی بی آئی نے پھانسی جب کہ دفاع کے وکیل نے کم سے کم سزا کی مانگ کی۔اس درمیان ایک وقت تک معمہ رہ چکایہ دوہرے قتل کامعاملہ عوام میں موضوع بحث اور میڈیا میں شہ سرخیوں میں رہا۔ لیکن پیر کو سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے دانتوں کے ڈاکٹر راجیش تلوار اور نوپور تلوار ، کو مجرم قرار دے کر طویل عرصے سے چل رہے اس کیس کا تصفیہ کردیا۔اور اس کے دوسرے دن جج شیام لال نے دونوں کو دفعہ 302 ( قتل ) کے تحت عمرقید، دفعہ 201 کے تحت پانچ سال قید اور راجیش تلوار کو دفعہ 203 کے تحت ایک سال قیدکی سزا دی۔سی بی آئی کے وکیل کے مطابق تلوار جوڑے پر 17 ہزارروپیوں کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا اوران تمام سزاؤوں کا نفاذ بہ یک وقت ہونا طئے پایا۔
جج والدین کے کرتوت سے اس قدر نالاں تھے کہ انھوں نے آروشی کے والدین کو ’ شیطان‘قرار دیا ۔جنہوں نے ’’اپنی ہی اولاد کو قتل کر دیا‘‘۔انہوں نے کہا ’’دونوں ملزمان ( تلوار جوڑے ) نے دوہرے قتل کا گناہ کر کے ملک کے قانون کی سخت خلاف ورزی کی ہے اس لئے دونوں دوہرے قتل کے مجرم قرار دیے جاتے ہیں‘‘۔ جج نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ’’انہوں نے اپنی ہی بیٹی کو قتل کر دیا ، جس نے ابھی اپنی زندگی کی چودہ بہاریں ہی دیکھی تھیں، انہوں نے اپنے نوکر کو بھی قتل کیا اور ایک ڈاکٹر کے طور پر لئے گئے حلف’’\' تم قتل نہیں کرو گے‘‘ کی بھی پروا نہیں کی۔ زندگی کا مطلب بتاتے ہوئے عدالت نے اپنے فیصلے میں مقدس کتاب قرآن مجید کو بھی حوالے کے بطور پیش کیا ’’وَلاَ تَقْتُلُوْا لنَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ‘‘(بنی اسرائیل:۷۱: ۳۳)(ترجمہ :’’خدا نے جس جان کو حرمت دی ہے، اْسے ناحق قتل نہ کرومگر حق پر\" )
خبروں کے مطابق حالانکہ تلوار جوڑے کے وکیل نے ان کے حوالے سے کہا کہ ’’ہم ایسے گناہ کے لئے قصور وار قرار دیے جانے پر بے حد مایوس ، دلبرداشتہ اور دکھی ہیں ، جو ہم نے کیا ہی نہیں،ہم ہارے نہیں ہیں اور انصاف کے لئے اپنی لڑائی جاری رکھیں گے‘‘۔ وکیل نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا ایک شاذ واقعہ ہے اس لئے اس پر مزیدغور و فکر اور مزید بحث کی گنجایش ہونی چاہئے تھی ،وہیں راجیش تلوار کے بھائی دنیش تلوار نے بھی عدالت کے فیصلے پراپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ نچلی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمی میں اپیل کریں گے، دنیش نے کہا ،’’ عدالت کے فیصلے میں بہت سے پہلووں کو نظر انداز کیا گیا ، جسے ہم سپریم کورٹ میں اپیل کرکے اچھی طرح پیش کریں گے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا ، ’’ہمیں امید تھی کہ آج ہمیں انصاف ملے گا ، آروشی کو انصاف ملے گا ، ہیم راج کو انصاف ملے گا ، جو نہیں ملا‘‘۔
بتایا جاتا ہے کہ آروشی کے قتل کے بعد تحقیقات کے دوران پولیس نے شروع میں راجیش تلوار کو دونوں کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ پولیس حکام کو شبہ تھا کہ یہ قتل حفظ ناموس کے نام پر کیے گئے تھے۔ لیکن کچھ ہی دنوں بعد پولیس کی تفتیش پر سوال اٹھنے لگے۔ اس کے بعد اتر پردیش کی سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی نے اس معاملے کی جانچ سی بی آئی کو سونپ دی۔سی بی آئی نے جانچ شروع کرتے ہی تلوار جوڑے کو کلین چٹ دے دی اور ان کے لیبارٹری ساتھی اور دو دیگر افراد کو گرفتار کر لیا۔ لیکن ان کے خلاف ٹھوس ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے انہیں ضمانت پر چھوڑدیا گیا۔جانچ میں رکاوٹ کی وجہ سے ہو رہی تنقید کو دیکھتے ہوئے سی بی آئی کے ڈائریکٹر اشونی کمار نے ایک نئی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی۔سی بی آئی کی اس نئی تفتیشی ٹیم نے پھر سے تلوار جوڑے پر قتل کرنے کا شبہ ظاہر کیا تھاجوآخر کار تقریباً ساڑھے پانچ سال تک جاری تفتیشی کارروائی کے بعد آج بہ ظاہر اپنے اختتام کو پہنچ گیا ۔ڈاکٹر تلوار اور ان کے وکیل پہلے ہی عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی بات کر چکے ہیں،قانون کے بہت سے ماہرین نے بھی اس فیصلہ پر سوالیہ نشان لگایا ہے ۔
مبصرین کا کہنا ہے استغاثہ کے طور طریقوں اور طویل قانونی عمل پر بھلے ہی سوال اٹھائے جائیں ، مگر عدالت نے آخر کار آروشی کے والدین ڈاکٹر نپور اور راجیش تلوار کو ہی ان کی اپنی بیٹی اور گھریلو نوکر ہیم راج کے قتل کا مجرم پایا ہے۔اصل میں ۱۶ مئی۲۰۰۸ء کی جس رات اس دوہرے قتل کو انجام دیا گیا تھا اس کے بعد سے حالات و شواہد تلوار جوڑے کے مجرم ہونے کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ استغاثہ کی یہ دلیل کافی مضبوط تھی کہ جس فلیٹ میں چار لوگ ہوں ان میں سے دو کا قتل ہو جائے اور باقی دو کو اس قتل کے بارے کچھ پتہ ہی نہیں چلے ، یہکیسے ممکن ہے۔یقینی طور پر اس معاملے میں سی بی آئی کا کردار بھی ابتدا سے ہی مشتبہ رہا ہے، جس نے کبھی اس کیس کو بند کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا تھا۔ تلوار جوڑے نے بھی اپنی سطح سے ہر طرح کے قانونی دا�ؤپیچ آزمانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،اس تگ ودو میں یہ نوبت بھی آئی کہ عدالت عظمیٰ نے انہیں کئی بار پھٹکاربھی لگائی۔ ان کے رویے سے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اس معاملے کو طول دینا چاہتے ہیں۔تلوار جوڑا واقعی کوئی پیشہ ور قاتل نہیں ہے ، لیکن انہوں نے جو کچھ کیاوہ مہذب سماج کے لیے ناقابل قبول ہے۔ یہ معاملہ اس طرز زندگی پر بھی سوالیہ نشان ہے جہاں اخلاقی اقدار تیزی سے روبہ زوال ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ مجرم ٹھہرائے جانے کے باوجود تلوار خاندان کا رویہ متاثرین جیسا ہے،جبکہ ضرورت ان تین نوکروں کے بارے میں بھی سوچنے کی ہے ، جنہیں کبھیقاتل قرار دیا گیا تھا، کیا اس پر غور نہیں کیاجانا چاہئے کہ انہیں اور ان کے اہل خانہ کو جو اذیتیں اٹھانیپڑیں ، اس کی بھرپائی کیسے ہوگی ؟اور پھر ہیم راج کے اہل خانہ پر جو بیت رہی ہے ، اس کا کیا ہوگا؟ اس فیصلے سے تلوار جوڑے کا غیر مطمئن ہونا فطری ہے ، مگر ان کے لئے عدالت عظمی کے دروازے کھلے ہوئے ہیں ، جہاں ان کے وکیل چارہ جوئی کا اعلان کر ہی چکے ہیں،نپور اور راجیش تلوار کو ہندوستانی عدالتی نظام پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔تاہم یہاں پر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ آروشی قتل معاملہ میں مجرم قرار دیے جانے کے فوراً بعد راجیش تلوار اور نوپور تلوار کی طرف سے کورٹ میں ایسے کاغذ تقسیم کئے گئے جن میں ان کے بے گناہ ہونے کے دعوے کے گئے تھے۔ ظاہر ہے انہیں خود کے مجرم قرار دیے جانے کا مکمل اندیشہ رہا ہوگا تبھی یہ کاغذات پہلے سے تیار رکھے گئے ہوں گے۔ تلوار جوڑے کو یہ خدشہ تبھی رہاہوگا جب اس معاملے کو بند کرنے کی اجازت لینے کورٹ پہنچے سی بی آئی کو الٹے آروشی کے والدین کو ملزم بنا کر تحقیقات شروع کرنے کا حکم دے دیا گیا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دوہرے قتل میں اتنے معمے آگئے تھے کہ ہر کوئی حیران تھا،تاہم مبصرین کے مطابق یہ بھی سچ ہے کہ اس میں بھی خود تلوار ان کی اہلیہ اور مقامی پولیس بڑی حد تک ذمہ دار تھی، تلواراور ان کی اہلیہ بڑے رسوخ والے ہائی ٹیک لوگ تھے،اس لئے قتل کی اطلاع پا کر پہنچی پولیس کو انہوں نے ایسے دائرے میں لیا کہ چھان بین محض خانہ پری بن کر رہ گئی تھی، پولیس اپنی بنیادی ذمہ داری بھی بھول گئی جس میں جائے حادثہ کا گہرائی اور باریک بینی سے معائنہ کیا جاتا ہے اور اسے سیل کر دیا جاتا ہے تاکہ ثبوت تباہ اور مسخ نہ ہونے پائیں، نتیجہ یہ ہوا کہ جائے حادثہ پر لوگوں کا ہجوم امڈتا رہا اور ثبوت پیروں تلے روندکرمٹتے چلے گئے۔ ایسے میں یہ فیصلہ ملک کی عدالتی سرگرمی کا ایک اور جیتا جاگتا ثبوت ہے جس میں مجرم اپنے تمام تر اثر ورسوخ کو اختیارکرنے کے باوجودد خود کو انصاف کی زدسے نہیں بچا سکا۔حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ معاملے کی پہلی ایف آئی آر خود راجیش تلوار نے کرائی تھی اور جس ہیم راج کو نامزد کیا تھا اس کی لاش اسی مکان کی چھت پر چھپا کر رکھی گئی تھی۔ پولیس نے پورے مکان کا جائزہ لینے کی زحمت بھی نہیں اٹھائی، شاید یہ پولیس کی نااہلی تھی یا تلوارخاندان کی وجاہت سے طاری ہوجانے والا رعب تھا، تلوار اور ان کی اہلیہ کو شکایت ہے کہ ٹھوس ثبوتوں کے بغیر انہیں مجرم مان لیا گیا ہے، لیکن انہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ قانون نے انصاف کے لئے ثبوتوں کے علاوہ حالات کو بھی معیار تسلیم کر رکھا ہے۔ قانون مانتا ہے کہ انسان جھوٹ بول سکتا ہے ، حالات نہیں۔ اس معاملے میں تمام حالات چیخ چیخ کر ان کے گناہ گارہونے کی شہادت دے رہے تھے، تو عدالت بھلاایسے قوی دلائل کو نظر انداز کیسے کرسکتی تھی ۔ 
پوسٹ مارٹم رپورٹ سے چھیڑ چھاڑ کی کوشش ، چھت پر ملی ہیم راج کی لاش کی شناخت سے انکار کرنا ، چھت پر لگے تالے کو کھولنے سے ہچکچانا ، ہیم راج کو پھنسانے کی کوشش کرنا اور مقدمے کو لمبا کھینچنے کی کوشش کرنا ،حالات اس سے زیادہ اور کیا نشان دہی کر سکتے تھے،سی بی آئی پر وہ چاہے جتنا بھی الزام لگائیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ خود تلوار کی بیوی نے سپریم کورٹ تک یہ تنازعہ پہنچا دیا تھا اور ملک کی بڑی عدالت بھی مان رہی تھی کہ ان کے خلاف معاملہ تو بنتا ہی ہے۔ راجیش تلواراور ان کی اہلیہ کے لئے انصاف کے دروازے ابھی کھلے ہیں، جن سے رحم کی ہواؤں کے آنے کی امیدکی جا سکتی ہے، اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے تلوار جوڑے کو یہ سوچنے کا پورا وقت ملے گا کہ ان سے چوک کہاں ہو گئی ! خوشحال زندگی اور کامیاب کیریئر کی چاہ میں ایسی بھی کیا محویت کہ خود اپنی اولادکی تربیت سے غفلت شعاری آگئی ! آروشی میں قابلیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی جس کا اعتراف اس کے اساتذہ اور اسکول کے ساتھیو نے بھی کیا ہے ،لیکن وہ اپنے ماں باپ کی مصروف زندگی میں اپنے لیے انس کاپہلو نہیں تلاش کرسکی ، جس میں وہ اپنے جذبات واحساسات کورکھ کر تسکین پاتی اور نتیجتا یہی تنہائی اسے اس منزل پر لے آئی جہاں اسے زندگی داغ مفارقت د ے گئی،یہاں پر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سماجی اور اقتصادی طور پر ممتاز خاندان میں کہاں چوک ہو گئی، آروشی کے ماں باپ بھی اسے فطری طور پر بہت لاڈ پیار سے ہی پالتے رہے ہوں گے پھر ہوا کیا ، پرورش میں کہاں کمی آگئی، ایسا کیا تھا جو آروشی کو اس کے ماں باپ نہیں دے پائے ۔
درست بات تو یہ بھی ہے کہ وہ دونوں اپنے بہتر کیر یر اور مزید دولت کی تلاش میں’’ وقت‘‘ ہی نہیں دے پائے اپنی اولاد کو، مگر یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بچپن سے جب بچہ آہستہ آہستہ بڑا ہوتا ہے وہ اپنے آس پاس کے لوگوں سے ہی زیادہ گھلتا ملتا ہے۔ اگر ماں باپ بچے کو کم وقت دیتے ہیں اور نوکر زیادہ رہتا ہے بچے کے ساتھ، اس وقت بچہ بھی نوکرکے ساتھ مزید گھل مل جاتا ہے ۔ ماں باپ یہ دیکھ کر انتہائی خوش ہوتے ہیں کہ نوکر کے ساتھ ان کا بچہ بہت خوش ہے اور وہ آرام سے اپنی مصروفیات کو برقرار رکھتے ہیں ۔ماں باپ یہ سوچ کر اطمینان کر لیتے ہیں کہ بچہ ابھی چھوٹا ہے جب بڑا ہوگا تو اسے اپنے مطابق سمجھا کر جیسا چاہیں گے بنا لیں گے ۔بس یہیں غلطی ہو جاتی ہے شروع سے ہی بچے کے دماغ میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ یہ جو ماں باپ ہیں ان کا کام صرف زندگی کے ضروریات کو پورا کرنا ہے اور دل کے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے نوکر کا ہی سہارا ہے ۔
حالانکہ بچپن سے لے کر بالغ ہونے تک ہی بچے کو ماں باپ کے سہارے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ماں باپ کی، ایسے میں اسے نوکر کے سہارے چھوڑ دینا اسے تباہی کے راستوں کا پتہ دینا ہے۔ یہ بات لڑکے اور لڑکی دونوں کے باب میں مساوی طور پرکہی جاسکتی ہے ۔ بچے کو سائیکل سکھانے کے لئے اسے ایسی سائیکل دلائی جاتی ہے جس کے دونوں طرف دو چھوٹے چھوٹے پہیے اس کا توازن برقرار رکھنے کے لئے ہوتے ہیں۔ جب بچے کو توازن بنانا آ جاتا ہے اور اسے چلاتے ہوئے دیکھ کراعتمادپالیتے ہیں کہ اب اس کے پہیے زمین کو نہیں چھو رہے ہیں تب ہی اسے چھوڑا جاتا ہے ۔ بالکل ایسے ہی پرورش کی جانی چاہئے بچوں کی ۔ماہرین کے مطابق جب تک ہم اس بات پرمطمئن نہ ہو جائیں کہ انہیں اچھے برے کی سمجھ ہو گئی ہے تب تک ہمیں ان کے ساتھ ایک قریبی دوست کی طرح ہی رہنا چاہئے اور بچے میں اتنا یقین پیدا کر دیا جانا چاہئے ماں باپ سے کوئی بھی بات بغیر کسی جھجھک کے کہہ سکے ۔ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ بچوں کے ساتھ وقت گذارنے سے بہت سی الجھنیں یوں ہی حل ہو جاتی ہیں۔ بالغ ہوتے بچے بہت نازک موڑ سے گزررہے ہوتے ہیں ۔ آج کل کے دور میں گھر میں سارے سہولت کے سامان موجود ہیں ،انٹر نیٹ اور ٹی وی کے ذریعے اچھی بری تمام چیزوں تک رسائی ہے ایسے میں بچوں کی اخلاقی تربیت اور بھی ضروری ہے اور ان پر چیتے کی نظر رکھنا ہی ان کی حفاظت کاضامن ہے ۔

1 تبصرہ جات:

ڈاکٹر جواد احمد خان نے لکھا ہے کہ

kudos to those parents.....
hats off...