برما کے بے خانماں مسلمان
محمد علم اللہ اصلاحی
دنیا کے مختلف علاقوں کے مسلمانوں کو بدترین مظالم کا شکار بنایا
جاتارہا ہے،یہ ایک کڑوی حقیقت ہے۔مسلمانوں کی منظم نسل کشی کا سلسلہ فلسطین‘
افغانستان اورعراق وغیرہ ممالک میںدراز ہوتا رہاہے، جہاں نہتے اور لاچار
مسلمانوںپر ڈھائے جانے والے مظالم پر غیرجانبدار‘ باضمیر اور انصاف پسند حلقوںکی
جانب سے انسانی حقوق کی سنگین پامالیوںاور انسانیت سوز سلوک کے خلاف آوازیںبھی
بلند کی جاتی رہی ہے، لیکن دنیا میں متعدد ممالک ایسے بھی ہیں جہاں مسلمان ناقابلِ
بیان مسائل و مصائب میں گھرے ہوئے ہیں اور ان کے حق میں کوئی آواز بلند نہیں ہوتی۔
”وہ مردہ بہ دست ِزندہ“ کے مصداق اذیتیں سہنے پر مجبور ہیں۔مزید یہ تصویر اس وقت
ابھر کر سامنے آئی جب برما کے مہاجرین سے دہلی میں ملنے اور ان کی حالت زار کو
جاننے کا ایک موقع ملا۔ جہاں پناہ گزیںکی حیثیت سے 150سے زائد بچے بیمار ہیں اور
انھیں فوری علاج کی ضرورت ہے، اگر انھیں طبی و غذائی سہولیات مہیا نہ کی گئیں تو
ان کی بڑی تعدا د اپنی جان بھی گنوا سکتے ہیں ۔جہاں کے بدنصیب مسلمانوں کو سفاک
فوجی حکومت کے رحم و کرم پر 623 خاندان کے 1200 افراد پر مشتمل افراد انتہائی نا
گفتہ بہ حالت میں زندگی گذار رہے ہےں،400 عورتیں اور300 بچوں پر مشتمل ان افراد کے
پاس ہے نہ تو انھیں پانی، کھانا، انسانی ضروریات اور طبی سہولیات حاصل ہیں اور نہ
ہی ان کے ساتھ ایک عام انسان کا معاملہ کیا جا رہا ہے، یہاں تک کہ ذرائع ابلاغ
میںبھی ان کے بارے میں نہ کوئی خبر دی جارہی ہے نہ رپورٹ۔
حالانکہ یہ بات مخفی نہیں ہے کہ برما کے مسلمانوں کی اپنی تاریخی
حقیقت رہی ہے۔ یہاں مسلمان نویں صدی عیسوی میں اس وقت آئے تھے ،جب اسلام پوری آب و
تاب کے ساتھ عرب،فارس،یورپ اور چین میں اپنی لازول کرنیں بکھیر رہا تھا،اسی وقت
برما میں بھی حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے محمد حنفیہ
کے ذریعہ اس آفاقی مذہب کی آمد ہوئی اور یہاں کے عوام اخوت ،محبت اور انسانیت سے
لبریز دین اسلام سے متعارف ہوئے تھے ۔فی الحال برما کے مسلمانوں کی آبادی جو کہ
عربی،فارسی ،ترکی،ہندوستانی ،چینی ملایائی نسل پر مشتمل ہے کیچن،کایا،کاین اور چین
وغیرہ میں آباد ہیں، وہاں کے اصل باشندوں کی طرح برمی مسلمانوں کے نام سے آباد ہیں
۔برمی مسلمانوں کا مطلب وہ تمام مسلمان ہیں جو برما میں وہاں کے قانون،دفعہ ،ذات
اور مذہب کے اعتبار سے وہاں کے اصل الاصول باشندے ہیں ۔وہاں کے مسلم قائدین کے بقول
ایک اندازے کے مطابق 2006 میں وہاں کی آبادی 30فیصد سے بھی زائد تھی (تفصیل کے لئے
دیکھئے :یو ایس اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ 2006انٹرنیشنل رلیجنس فریڈم رپورٹ )برما کے روہنگیا
مسلمانوں کی تعداد 8 لاکھ ہے جو شہریت کے حق سے بھی محروم کردیے گئے ہیں اور انہیں
گندی پسماندہ بستیوں تک محدود کردیا گیا ہے جن میں وہ جانوروں سے بھی بدتر زندگی
بسر کررہے ہیں۔ بہتر زندگی اور روزگار کی تلاش میں جان پر کھیل کر کشتیوں کے ذریعے
راہِ فرار اختیار کرنے والے اکثر افراد سمندر کی بے رحم موجوں کی نذر ہوجاتے ہیں‘
جب کہ باقی ماندہ لوگ تھائی لینڈ بحریہ کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور غیر قانونی نقل
مکانی کی پاداش میں جیلوں میں ڈال دیے جاتے ہیں یا انہیں کھلے سمندر میں واپس
ڈھکیل دیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے گزشتہ کئی دنوں سے دہلی کے اردو اخبارات میں جو رپورٹیں
آ رہی ہیں ان سے رونگٹے کھڑے کردینے والے حالات کا پتا چلتا ہے جن سے روہنگیا
مسلمان دوچار ہیں۔ حالانکہ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ یہاں کے مسلمان شروع سے ہی
امن پسند،روادار اور بھائی چارے کے ساتھ رہتے آئے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ برما کا جب
قیام عمل میں آیا تو وہاں کی انتظامیہ میں بڑے افسران کے طور پر مسلمانوں کی تقرری
ہوئی جسے انھوں نے بطرز احسن نبھایا۔ یہاں پر بتا دیں کہ برما ایک بدھ مذہب کے
ماننے والوں کا اکثریتی ملک ہے لیکن اس کے باوجود جب یہ ایک نئے اسٹیٹ کے طور
پردنیا کے نقشہ پر ابھرا تو یہاں کے اقلیتوں کو اس بات کی مکمل آزادی دی گئی کہ وہ
اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق مذہب کو قبول کریں اوراس کے
مطابق زندگی گزاریں، آئین کے مطابق بغیر کسی خوف اور ڈر کے اپنے عقیدے اور ثقافت
کو فروغ دیں ۔لیکن صحیح معنوں میں اگر دیکھا جائے تو فی زمانہ معاملہ بالکل اس کے
بر عکس ہے ۔خاص کر 1962میں جنرل نی کے اقتدار میں آنے کے بعدجان بوجھ کر بلکہ منظم
طریقہ سے مسلمانوں کو اعلی عہدوں سے معزول کیا گیا اور سینکڑوں ہزاروں مسلمانوں کو
اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ برما چھوڑ دیں ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہاں کے
مسلمان بے یار و مددگار تیسرے درجہ کے شہری بن کر رہ گئے ، اس سفاکانہ حکومت کے
ذریعہ مسجدوں کی بے حرمتی کی گئی ،مسلم اسکولوںپر پابندیاں عاید کی گئیںاور مذہبی
عمارتوںکی تعمیرپر روک لگا دی گئی۔حد تو یہ بھی ہے کہ قرآن مجید اور دیگر اسلامی
لٹریچر کی نشر و اشاعت پر بھی قدغن لگا دیا گیا۔ یہاں مسلمانوں کو گوشت، انڈہ، مچھلی
وغیرہ کھانے تک پر پابندی ہے۔ بنگلہ دیش کی سرحد پر پڑے بے گھر 4 لاکھ مسلمان
شادیاں تک نہیں کر سکتے۔جون 2005میں منتظمین نے ٹاﺅن شپ اورشیوپیتھااور رنگون ڈیویژن جیسے علاقوں سے آٹھ مسلمانوں بشمول
امام مسجد کو اس بات پر گرفتار کر لیا تھا کہ انھوں نے اپنے گھر میں نماز پڑھائی
تھی ۔
یہاں کی حکومت نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کی معیشت و سیاست
کو تباہ کرنے کےلئے ہر وہ ہتھکنڈے اپنائے جو ممکن ہو سکتے تھے۔ اس کےلئے انھوں نے
وہاں کے مقامی لوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے بیج بوئے اور ان کے
جذبات کو بر انگیختہ کرنے کےلئے یہ افواہ اڑائی کہ بدھ کے مجسمہ میں مسلمانوں نے
عورتوں کے ناپاک کپڑے رکھے ،مسلمانوں کے خلاف پمفلٹ تقسیم کئے گئے اور بڑے پیمانہ
پر اس بات کی جھوٹی تشہیر کی گئی کہ ہر جمعہ کو بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد
کو اسلام قبول کرایا جاتا ہے ۔اور یہ بھی کہ اگر ایک مسلمان لڑکا کسی بدھ لڑکی سے
شادی کرتا ہے تو اسے مساجد سے تعاون دیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں اگر لڑکی زیادہ
تعلیم یافتہ ہوتی ہے تو اسی اعتبار سے امداد میں بھی اضافہ کر دیا جاتا ہے
۔مسلمانوں کو پیدائشی سرٹیفیکٹ دینے میں بھی عصبیت کا رویہ اپنایا گیا بلکہ ستوے
اور رکھائن جیسی ریاستوں میں تو 2005میں زبانی طور پر یہ اعلان بھی کر دیا گیا کہ
مسلم بچوں کو پیدائش کا سرٹیفیکٹ اجراءہی نہ کیا جائے ۔اس بابت رنگون کے
مسلمانوںکو احتجاج کے بعد سرٹیفیکٹ دیا گیا لیکن وہاں کی مقامی حکومت نے اس بات کی
اجازت تب بھی نہ دی کہ مسلم بچوں کا نام ہاﺅس ہولڈ رجسٹر پر درج کیا جائے ۔وہاں کے مسلمانوں کو نیشنل رجسٹریشن
کارڈ بھی جاری نہیں کئے جاتے اور اگر کوئی یہ چاہتا ہے تو اس سے کہا جاتا ہے کہ وہ
بدھ مذہب کو قبول کر لے ۔
ابھی حال ہی میں یہاں کی حکومت نے ان مسلمانوں کےلئے ایک الگ قسم
کاشناختی کارڈ جو انھیں یہاں کے دیگر شہریوں سے ممیز کرتا ہے ،جاری کیا ہے۔ان سب
کے علاوہ عام کام کی جگہوں اور فوج میں بھی مسلمانوں کے ساتھ تعصب کا رویہ اپنایا
جاتا ہے ۔مسلمانوں کو فوج میں آنے کی اجازت نہیں دی جاتی اس وقت تک کہ وہ اپنے
مذہب کو تبدیل کر لے ۔ملازمت کےلئے بھی آفیسرز کو کہا جاتا ہے کہ وہ مذہب تبدیل
کرے مع اپنی بیوی بچوں کے تبھی اسے ملازمت کا اہل قرار دیا جائے گا ۔ اسکولوں میں
بھی اس قسم کا رویہ کم نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جنرل ون کے سوشلسٹ پروگرام پارٹی سے
تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مانگ جب وزیر تعلیم بن کر آئے تو اپنے عہدہ کی بر قراری
کےلئے اپنے من کی خوب بھڑاس نکالی۔ اس کےلئے انھوں نے تمام پبلک اسکولوں میں بدھ
مذہب کے مخصوص ترانہ اور ان کے مذہبی دعاﺅں کو ہر طالبعلم کےلئے پڑھنا لازمی قرار دے دیا ۔اس سلسلہ میں چند
طلباءنے جب اعتراض جتایا تو انتظامیہ نے مئی 2005میں وہاں کے طلباءکو اس بات پر
زبردستی مجبور کرنے کی کوشش کی کہ وہ اسے پڑھیں ورنہ انھیں اسکول سے نکال دیا جائے
گا ۔مسلمانوں کے پرائیوٹ اسکولوں پر بھی پابندی عاید کی گئی اور ان کے اوپر الزام
عائد کیا گیا کہ وہ ان اسکولوں میں مذہب تبدیل کرانے کاکام کرتے ہیں ۔اس سلسلہ میں
وہاں کی حکومت نے کئی مسلم رہنما کو گرفتار بھی کیا۔ خاص کر جنوبی ٹاونشپ علاقہ
میں جو مسلم بچوں کو اپنے گھروں میں قرآن پاک کی تعلیم دیا کرتے تھے ۔
برما کے مسلمانوں کے خلاف کام کرنے والی ہر اس تحریک کو ہوا دی گئی
جو انھیں بے دست و پا کرنے کے لئے کام کرتے تھے ۔یہاں کی حکومت نے برما کے
مسلمانوں کو تقسیم اور حکمرانی کی پالیسی کے تحت ہدف کا نشانہ بنایا ۔اس بابت مسلم
مخالف سرگرمیوں میں 2000کے بعد زیادہ اضافہ ہوا ۔گزشتہ 6 سالوں میں تقریبا ایک
ہزار مسلمانوں کے گھروں اور 30سے زائد مساجد کو پانچ مسلسل مذہبی فسادات کے دوران
تباہ کیا گیا ۔برما میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی جو آندھی گزشتہ 20 سال سے چل رہی
ہے، اس میں ذرہ بھر فرق نہیں آیا۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مسلمانوں پر جو
ظلم و جبر برما میں روا رکھا گیا ہے، وہ دنیا کے کسی خطے میں یا تاریخ انسانی میں
دیکھنے کو نہیں ملتا۔ لیکن ان سب کے باوجود اس حوالے سے کہیں کوئی تذکرہ تک دیکھنے
سننے کو نہیں ملتا۔ برمی مسلمانوں کی بدترین صورتحال پر ہر طرف خاموشی بھیانک جرم
سے کم نہیں۔ اس سلسلہ میں بین الاقوامی طور پر حقوق انسانی کےلئے کام کرنے والی تنظیموں
کا رویہ بھی افسوس ناک ہے ۔کافی شور اور ہنگامہ کے بعد گرچہ ہندوستان کی بعض مسلم
تنظیموں نے اس جانب پہل کی ہے لیکن ان کی سست روی بھی کسی مثبت مستقبل کی جانب
اشارہ نہیں کرتی ہے ۔ اس سلسلہ میں یو این او کی جانب سے بھی مداخلت کی جانی چاہئے
تھی،لیکن بدقسمتی سے ایسی کسی پیش رفت کا کوئی احساس نہیں ہورہا ہے۔
0 تبصرہ جات:
ایک تبصرہ شائع کریں