ضیاء اعظی اور اس کا عکس خیال
محمد علم اللہ اصلاحی
تصویر: ضیاء اعظمی |
خیالوں میں گم اپنے آفس میں نوجوان شاعر ضیاء اعظمی۔ |
غم لے کر نکل پڑا اور آج تک تلاش معاش اور غم فراق ساتھ چل رہے ہیں“۔
.اپنے آبائی وطن دوباواں میں ضیاءاعظمی
|
:رونا کچھ اس طرح ہے
ادائے دل بری سے فصل لہراتی ہے کھیتوں میں
مگر باد خزاں میں اے خدا تاثیر کتنی ہے
بھری ہیں بالیاں بیجوں سے
بھری ہیں بالیاں بیجوں سے
ضیا ءاعظمی نے شاعری کے تقریبا تمام ہی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے اور حمد و نعت کے ساتھ نظم ،غزل،مرثیہ ،مدح ،قطعہ اور ترانوں کے دفاتر جمع کر دئے ہیں، جس میں انھوں نے زندگی کے حقائق کو خوش اسلوبی سے برتنے کی کوشش کی ہے ،یہ الگ بات ہے کہ اس میں تنقید اور بحث کی گنجائش موجود ہے لیکن اس کے باوجود ضیاء اپنی نظموں اور ترانوں کے ذریعہ مسلمانوں کوعظمت رفتہ اور نوجوانوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانے میں کامیاب رہے ہیں ،عام طور پر حمد اور نعت گوئی میں شعراءفرق نہیں کر پاتے اور اچھے اچھے اس میں کہیں نہ کہیں گرفت میں آ ہی جاتے ہیں لیکن ضیاء یہاں بھی اپنے دامن کو
: بچا لے جاتے ہیں ،ان کے یہ نعتیہ اشعارملاحظہ ہوں
: بچا لے جاتے ہیں ،ان کے یہ نعتیہ اشعارملاحظہ ہوں
دعا ئے خلیل اور نوید مسیحا ، ذرا دیکھئے کیا اثر لا ر ہی ہے
وہ فاراں کی چوٹی سے رحمت کی بدلی،اٹھی جارہی ہے بڑھی جارہی ہے
سراپا محبت ، سراپا عنایت ، سراپا شرافت ، سراپا سخاوت
یہ بزم نبوت ہے ، شمع رسالت ، ہدایت کے انوار پھیلا رہی ہے
مشام رگ جاں م عط ر ہیں میرے ، سلامت رہے گلشن دین و ایماں
ضیاء وہ لگن میرے دل میں لگی ہے،تپش جس کی سورج کو گرمارہی ہے
ضیا ء الرحمان ضیا ء اعظمی کی عمر بہت زیادہ نہیں ہے لیکن ان کی شاعری بڑے اور قادر الکلام شعراءکی یاد تازہ کردیتی ہے ،ضیاءکی پیدائش 15 کتوبر 1981 کو اعظم گڈھ کے ایک چھوٹے سے گاوں دوباواں میں ہوئی ،ضیاء اپنی شاعری کے بارے میں کہتے ہیں
کون ہووے گا بڑھاپے میں سہارا کہئے
چھوڑ کر جام و سبو، ذکر بہاراں کیسا
گرکہیں ہے یہ چلن،کیوں اسے زیباکہئے
لوگ کہتے ہےں گہرہائے ندامت جن کو
باعثِ خو شنو دی بارِ الٰہا کہئے
:ایک جگہ اور کہتے ہیں
نہ یہ داستان غم ہے ، نہ فسانہ محبت
نہ ہے گیت بل بلوں کا ، نہ ترانہ محبت
ائے خدائے عشق مجھ پر،یو ں تمام کردے نعمت
میرے دل میں بھر دے سارا، تو خزانہ محبت
شہر اعظم گڈھ کے شبلی منزل ( دارالمصنفین ) میں گذارے ہوئے ایام کو کچھ
: اس انداز میں یاد کرتے ہیں
: اس انداز میں یاد کرتے ہیں
سرزمینِ حجازِ اعظم گڈھ
تیری صبحیں بڑی سہانی ہیں
اےک گھر سےنکڑوں ہیں دروازے
اور سب محوِ دُرفشانی ہےں
جوئے تخئیل ہے رواں یثرب
گویا آئینے پانی پانی ہیں
ضیاءالرحمان اعظمی نے اپنے دونوں ناموں یثرب اورضےاءکوتخلص کے طور
پر اپنایا ان کی نانی جان نے ان کا نام ےثرب تجوےز کےاتھااور والد محترم نے ضیاءالرحمن اور الحمدللہ آج وہ اسی ملک میں مقیم ہیں جہاں یثرب (مدینة الرسول ) کی زےارت کا شرف اللہ کے فضل سے جب چاہں ممکن ہے،مذہبی شعور اور مذہب سے والہانہ وابستگی کا اظہار ان کی شاعری مےں بڑے دل کش انداز مےںنظر آتاہے،
:کہتے ہیں
پر اپنایا ان کی نانی جان نے ان کا نام ےثرب تجوےز کےاتھااور والد محترم نے ضیاءالرحمن اور الحمدللہ آج وہ اسی ملک میں مقیم ہیں جہاں یثرب (مدینة الرسول ) کی زےارت کا شرف اللہ کے فضل سے جب چاہں ممکن ہے،مذہبی شعور اور مذہب سے والہانہ وابستگی کا اظہار ان کی شاعری مےں بڑے دل کش انداز مےںنظر آتاہے،
:کہتے ہیں
وہ اک نوشتہ جس کی سرخیاں ہمارے نام ہیں
ہمارے ذمہ جو بھی ہیں وہ اہمیت کے کام ہیں
ہے گل بہار خیمہ زن ہما رے انتظار میں
رسول اس کے پھر رہے ہیں کوچہ ودیار میں
ہم ایسی راہ پر ہیں دونوں سمت خار زار ہے
لہو لہو ہے جسم اور لباس تار تار ہے
ضیاء یہی وہ راہ ہے، چلے جو راہ یاب ہو
سفر کے اختتام پر گلاب ہی گلاب ہو
ضیاءکی شاعری میں حقیقت کی منظر نگاری کچھ اس انداز میں ہوتی ہے کہ
:قاری اسی میں کھوکر رہ جاتا ہے دیکھئے ان کا یہ اچھوتا شعر
:قاری اسی میں کھوکر رہ جاتا ہے دیکھئے ان کا یہ اچھوتا شعر
چھوٹے جو قفس سے ہم، زنداں میں پڑے جاکر
وسعت کی فراوانی پر خود کو رہا سمجھے
ضیاء اعظمی کی شاعری کا ایک خوبصورت نمونہ |
دل پرلگائے زخم اور اس پر ہنساکرےکوئی
ایسا نصیب سے ملے دل بر خدا کرے کوئی
ضیاء کی شاعری زمینی حقائق سے جڑی ہوتی ہے چوںکہ انھوں نے خود غربت کو قریب سے دیکھا ہے اورغربت ہی کی وجہ سے انھیں وطن عزیز کو چھوڑ کر دور درازکا سفر کرنا پڑا اس لئے وہ ایک غریب انسان پر گزرنے والے احساسات سے اچھی طرح واقف ہیں تبھی تو وہ کہتے ہیں ۔
نہیں ہنستا کسی کی خستہ حالی فاقہ مستی پر
بہت دیکھی ہیں چھوٹی عمر میںً مجبوریاں میں نے
محبت جسے آج کی ترقی یافتہ دنیا کوڑیوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی یعنی بازار ِجنس میں ان گہر پاروں کی وہ ارزانی ہے کہ خود خریدار بسا اوقات پس و پیش میں پڑ جاتا ہے لیکن ضیاءکہتے ہیں ۔
بہت دیکھی ہیں چھوٹی عمر میںً مجبوریاں میں نے
محبت جسے آج کی ترقی یافتہ دنیا کوڑیوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی یعنی بازار ِجنس میں ان گہر پاروں کی وہ ارزانی ہے کہ خود خریدار بسا اوقات پس و پیش میں پڑ جاتا ہے لیکن ضیاءکہتے ہیں ۔
کوئی چھیڑے بھلا کیوںکر ہمیں یاد ِمحبت میں
جبیں خم ہے ہماری آج پھر ان کی عقیدت میں
تصور اور ہے ،تصویر جاناں اور ہی شے ہے
جدا ہیں مرتبے سب کے ، نگاہ ِذوقِ الفت میں
ضیا اعظمی کی تحریر کا ایک عکس |
اسی طرح ایک اور چیز جو اکثر جگہوں پرکھٹکتی ہے وہ یہ کہ ضیاءشعری وزن کی ہمواری ، آہنگ و عروض کا خیال رکھنے اور شعر کو وزن میں باندھنے کے لئے بعض غیر ضروری تراکیب اور الفاظ بھی استعمال کر جاتے ہیں،جو فن شاعری میں معیوب ہے،لیکن ان سب کے باوجود ضیا نے بڑی خوبی سے ان اضافی چیزوں کو بھی نبھانے کی کوشش کی ہے ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ضیاءکی شاعری کوزبان وادب کی خدمت کے طور پر قبول فرمائے ۔
(آمین)
(آمین)
0 تبصرہ جات:
ایک تبصرہ شائع کریں