جمعرات، 9 اگست، 2012

جامعہ میں گم ہوتی تاریخی روایات




Published Daily Urdu Hindustan Express Delhi
جامعہ جامعہ کی گم ہوتی تاریخی روایات 
محمد علم اللہ اصلاحی 
(جامعہ کے یوم تاسیس کی مناسبت سے لکھی گئی خصوصی تحریر







وہ تین 
ستمبرجمعرات کادن اور2009کاسن تھا ،جب جامعہ ملیہ اسلامیہ سے معروف مورخ پروفیسرمشیر الحسن اپنی میعاد پوری کرکے جا چکے تھے اور ان کی جگہ وزارت پٹرولیم میں جوائنٹ سکریٹری اور مختلف اعلی حکومتی عہدوں پر فائز رہ چکے سینٹ اسٹیفن کالج دہلی اور لندن اسکول آف اکونومکس کے پڑھے تجربہ کار آئی اے ایس افسر نجیب جنگ اس عظیم تاریخی ادارے کے وائس چانسلر بنائے گئے تھے۔تو یہاں کے طلباءکے علاوہ اس سے محبت کرنے والے ہزاروں دلوں کو امید تھی کہ نئے وی سی جامعہ میں کچھ انقلاب لائیں گے اور ان کے ذریعہ جامعہ کا وقار بحال ہوگا خود مسٹر جنگ نے بھی چارچ سنبھالتے ہی صحافیوں کے ساتھ پریس کانفرنس جس میں راقم الحروف بھی شریک تھا جامعہ کے تئیں اپنے پاکیزہ خیالات اور نیک عزائم کا اظہار کرتے ہوئے جس کے ایک ایک لفظ آج بھی مجھے یاد ہے کہا تھا کہ میرے سامنے بہت سارے چیلنجز ہیں۔میںجامعہ کو دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک بنانا چاہتاہوں۔ میں اپنی ہر ممکن کوشش کروں گا کہ یہاں کا تعلیمی و ثقافتی اور یونیورسٹی کا معیار بہتر ہو،میرا خواب ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ بلندیوں کے ان مدارج کو طئے کر لے کہ اس کی حیثیت ہارڈورڈ اور آکسفورڈ سے بھی اونچا ہو۔نجیب جنگ نے کہا تھا جامعہ کا مقابلہ ڈی یو، جے این یو یا اس جیسے ملک کے دیگر یونیورسٹیوں سے نہیں ہے بلکہ اس کا مقابلہ بین الاقوامی سطح کے غیر ملکی یونیورسٹیوں سے ہے الغرض انھوں نے جامعہ کو ورلڈ کلاس کا یونیورسٹی بنا دینے کے لئے اپنی ہر ممکن کوششیں کرنے کا وعدہ کیا تھا اور اس کے لئے انھوں نے محض ایک سال کی مدت مانگی تھی۔لیکن اب تقریبا ایک ماہ بعدتیسرا سال شروع ہونے کو ہے نجیب جنگ کے اس خیالی یونیورسٹی کا کوئی عکس جامعہ میں نظر نہیں آیا ۔

یہاں پر ہم ان کی کلیتا خدمات کا انکار نہیں کر رہے ہیں اس لئے کہ انھوں نے گزشتہ سالوں کے مقابلہ جامعہ کے تعلیمی و انتظامی امور کو جس حد تک سنبھالا اور پڑھائی لکھائی کا جو ماحول بنا یا ہے یہ انھیں کا حصہ ہے اور اس پر انھیں جتنی بھی مبارکباد دی جائے کم ہے انھوں نے اس ادارے کو حکومت سے اقلیتی کردار کا درجہ دلانے میں بھی کم کردار ادا نہیں کیا ۔ لیکن ان تمام اعتراف کے باوجودیہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ موصوف وائس چانسلرکے وعدے کے مطابق حالات جو ہونے چاہئیں تھے نہیں ہوئے بلکہ ان کی بعض نادانیوں کے سبب جامعہ کو کافی نقصانات اور پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔بات بات پر میڈیا میں چھائے رہنے کے شائق نجیب جنگ نے اپنے آقاں کو خوش کرنے کے لئے کبھی جامعہ کو اعلی مدرسہ کے ٹھپہ سے باہر باہر نکالنے کی بات کہ کر میڈیا کا رخ اپنی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی تو کبھی غیر حاضری معاملہ میں طلباءکے حقوق پر شب خوں مار کر میڈیا کے سامنے فاتح بننے کا عمل کیا تو کبھی کشمیر معاملہ پر بیان بازی کرکے اپنے آپ کو ملک کا سب سے بڑا دانشور ثابت کرنے کے لئے میڈیا کو ہتھیار بنایا تو کبھی خیر سگالی اور بھائی چارے کے نام پر جامعہ میں ہولی و دیوالی کے نئے رواج کو جنم دیا اور ان سب سے بڑھ کر ضیاع وقت کے نام پر جامعہ کے تعلیمی میلہ پر ہی ہتھوڑا چلا ڈالا ۔

آج جب کہ ہم یہ تحریریں لکھ رہے ہیں جامعہ میں تعلیمی میلہ منانے کا دن ہوا کرتا تھا اس لئے فی الحال ہم جنگ کے اسی کارنامہ پر گفتگو کرتے ہیں ،موقع ملا تو بقیہ باتیں پھر کبھی کریں گے ۔قارئین کو معلوم ہوگا کہ گزشتہ سال سے ہی موصوف وائس چانسلر نے یہاں کے تعلیمی میلہ پر پابندی عاید کردی ہے ۔اس وقت اولڈ بوائز ایسوسی ایشن اور ہمدردان جامعہ کی جانب سے احتجاج کے جواب میں انھوں نے کہا تھا کہ اس روایت کو ہم نے اس لئے ختم کر دیا کہ اس سے طلباءکا کوئی فائدہ نہیںبلکہ یہ تو بلا وجہ کا وقت اور پیسہ کا ضیاع ہے۔نجیب جنگ کی اس بات پر یہ کہا جائے تو مضائقہ نہیں ہوگا کہ اگر موصوف جامعہ کی تاریخ اسکی روایت اور مقصد سے ذرہ برابر بھی واقف ہوتے تو ایسی بات ہر گز نہ کرتے ۔ہم ان کی اس بات پر جامعہ کے سابق وائس چانسلر اور اس ادارے کے لئے اپنا سب کچھ تج دینے والے پروفیسر محمد مجیب 1943میں کی گئی تقریر کا ایک اقتباس نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں جس سے جامعہ میں تعلیمی میلہ کی روایت اور حقیت کا پتہ چلتا ہے پروفیسر مجیب کہتے ہیں ”جامعہ نے جہاں اور باتوں میں عام روش اور عام وضع کو چھوڑا ہے وہاں تعلیمی میلہ کی تقریب منانے میں بھی انوکھا چلن اختیار کیا ہے ۔ایسا چلن کہ اس پر رعب اور شان کا فریب کھائے ہوئے لوگ مسکراتے ہیں ۔قائدے اور ضابطے کے سیدھے رستے پر چلنے والے حیران ہوتے ہیں یا الجھتے ہیں مگر سادگی اور خلوص،ایمانداری اور انکسار کے قدر دان کو اس میں کچھ نہ کچھ دل میں رکھنے اور ساتھ لے جانے کو ضرور نظر آ جاتا ہے“ملک کے سب سے پہلے مسلم صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین کہتے ہیں ”اس کے ذریعہ ہمارا مقصد علاقہ (اوکھلا)کے لوگوں کے درمیان تعلیمی بیداری پیدا کرنا ہے کہ وہ لوگ جو تعلیم و تعلم سے دور ہیں وہ اس تعلیمی میلہ میں آئیں ،اسکو قریب سے دیکھیں تاکہ ان کے اندر بھی تعلیمی ذوق پروان چڑھے

یہاں پر ہم 1929 میں شروع ہونے والی جامعہ اس روایت کی سب سے پہلی،تجویزاور رپورٹ بھی نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں جس سے ہمارے بزرگوں کے مقاصد اور عزائم کی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔جامعہ کے سابق استاذعبد الغفارمد ہولی (مرحوم ) اپنی کتاب جامعہ کی کہانی میں لکھتے ہیں ”یہ پہلا سال تھا کہ یوم تاسیس منانے کے سلسلہ میں ہر ایک جماعت سے تعلیمی کام لیا گیا ،ذاکر صاحب نے ایک مہینہ پہلے استاذوں سے بات چیت کرکے اپنی تجویزیں ان کے سامنے رکھ دی تھیں۔وہ یہ کہ (1)ہر جماعت لکھنے پڑھنے سے متعلق کوئی چیز تیار کرکے جامعہ کو تحفہ کے طور پر دے ،ایک جماعت کئی چیزیں دے سکتی ہے ۔(2)میلہ میں ان سب تحفوں کی نمائش کی جائے تاکہ ایک دوسرے کے کام سے لڑکے اور مہمان واقف ہو جائیں ۔(3)ایک طرف مکتبہ والے بھی صرف جامعہ کی چھاپی ہوئی کتابیں سجائیں۔(4)لڑکوں کو مشغول رکھنے کے لئے ایک ڈرامہ کھیلا جائے ۔(5)پیام تعلیم والے خاص نمبر نکالیں جس میں زیادہ تر جامعہ کے استاذاور لڑکوں کے مضامین ہوں “۔اس کا کیا اثر طلباءکے اوپر پڑا اس بابت لکھتے ہیں ”جب لڑکوں کو یہ معلوم ہوا تو وہ بہت خوش ہوئے ۔ایسا معلوم ہوتا تھا عید کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔کچھ کرنے کی خوشی سے پہلے سے زیادہ پڑھا لکھا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ لکھنے پڑھنے کا شوق بڑھتا ہی گیا ۔جماعتوں میں بے رونقی نہ رہی ،کھلنڈرے لڑکوں کی تو بن آئی ،دوڑ دوڑ کر کام کرتے تھے “۔آگے بتاتے ہیں ”تاریخ اور جغرافیہ کی مسلمانوں کی حکومتوں کے نئے اور پرانے نقشے ،چندر گپت کا زمانہ ،راجپوپوتوں کی ریاستوں کے نقشے اور اشوک کے سلطنت کے نقشے بنوائے گئے ۔لال قلعہ (دہلی)کی چزیں دکھلا کر مضمون لکھوایا گیا ۔1857کے بعد دہلی میں جو پرانی درسگاہیں رہ گئیں یا جو نئی قائم ہوئیں ان کا حال گھوم پھر کر دیکھنے کے بعد لکھا گیا ۔اسلامیات دانوں نے مشہور حدیثیں جمع کیں ،آں حضرت کے خطبہ کو بہت خوش خط لکھواکر آویزاں کیا گیا ۔اردو والوں نے اس زبان کے پانچ مشہور مصنفوں کے (جو عناصر خمسہ کہلاتے ہیں )حالات لکھے ،اور ان کی تصویریں بنوائیں ۔سائنس والوں نے کام کے چارٹ بنائے ،منشی علی محمد خان صاحب ہندوستان کے بہترین خوش نویسوں میں سے تھے ۔آپ کا تعلق شروع سے آخر تک جامعہ ہی رہا ،لڑکوں نے آپ کی نگرانی میں اچھے اچھے کتبے اور قطعات تیار کئے ،ڈرائن والوں کی تو بن آئی ۔جو لڑکے ڈرائنگ اچھی جانتے تھے وہ تو آرٹسٹ بنے ہوئے تھے ،طاہر علی ،مسعود اختر،ضمیر الدین نے اسلامی ملکوں کے بڑے بڑے رہنما ،ہندوستان کے مشہور لوگوں کی منہ بولتی تصویریں بنائی تھیں ۔شعبہ نجاری نے اس سجاوٹ میں چار چاند لگا دئے ،لکڑی کی خوبصورت ڈھال (شیلڈ)کے چاروں طرف نقاشی اور بیچ میں جامعہ کی مہر کندہ کرکے رنگ و روغن کر دیا تھا ،لکڑی کا کچھ اور سامان بھی تیار کیا تھا “۔ خستہ حالی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں ”کرائے کی مکان میں بھلا خوبصورت حال کہاں سے لاتے ۔صحن میںشامیانے لگا کر سب چیزیں سجائی تھیں ۔ایک طرف جلسے کا انتطام تھا ،مشہور لوگوں میں سے کون نہیں تھا ،ڈاکٹر انصاری ،مولانا ابوالکلام آزاد ،مولانا محمد علی ،پنڈت موتی لال نہرو ،پنڈت مدن موہن مالویہ ،لالہ لاجپت رائے ،سری نواس آئنگر ،ستی مورتی ،این سی کیلکر ،مولانا ظفر المک ،مسٹر امینی بیسنٹ ،مسٹر آصف علی سب ہی تھے “۔

صورتحال سے واقفیت کراتے ہوئے آگے کہتے ہیں ”یہ سار دھوم دھام لڑکوں کی تعلیمی حالت اور معاشرے میں بیداری کے لئے ہو رہی تھی ۔ورنہ اس زمانے میں جامعہ کی مالی حالت انتہائی حد تک خراب ہو گئی تھی ۔قوم کے رہنما تعلیم کی طرف سے غافل تھے اس کی ایک مچال یوں بھی سمجھئے کہ چند مالی قوم کی بھلائی کے لئے مصیبتیں اٹھا کر باغ کے پودوں کو سینچ رہے ہوں ،قوم سیر کرتی ہوئی ادھر آ نکلے اور پوچھے بھی نہیں کہ حال کیسا ہے تو اس وقت مالی جو کچھ کہے اس کا کہا برا نہیں لگتا ہے ۔

اس قدر تنگ دستی اور عسرت کے باوجود کتنے عظیم خیالات تھے ان بزرگوں کے اس کا اندازہ اوپر پیش کئے گئے اقتباسات سے لگایا جا سکتا ہے ۔لیکن بجائے اس کے کہ ہم ان کے ایسے عمدہ خواہشات وعزائم کا استقبال اور اسکی حفاظت کے اقدامات کرتے، اسی پر چھری چلانا شروع کر دیا جو یقینا تمام ہی لوگوں کے لئے تشوییش کا باعث ہے اور اسکے ذمہ دار محض وائس چانسلر یا جامعہ انتظامیہ نہیں ہیں بلکہ اس میں وہ مبینہ محبان و ہمدردان بھی بھی شامل ہیں جنھوں نے اس پر خاموشی اختیار کی ۔انھیں یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہئے کہ اگر ہم اپنی ان روایات کو ایسے ہی بے حیثیت سمجھ کر نظر انداز کرتے رہے تو نہ صرف یہ کہ ہمارا کوئی تاریخی اعتبار رہ جائے گا بلکہ وہ ساری شناخت اور اقدار بھی مٹی میں مل جائیں گے جو اس یونیورسٹی کا طرہ امتیاز رہی ہیں اور جسکی وجہ سے اس یونیورسٹیکا دیگر یونیورسٹیوں کے مقابلہ ایک عظیم تاریخی پس منظر رہا ہے ۔