جمعہ، 31 مئی، 2013

ایڈہاک سسٹم تعلیم دوست یا تعلیم دشمن؟

تعلیم سب کے لئے ،سرو شکشا ابھیان ،چودہ سال تک بچوں کی تعلیم مفت جیسے جملے بظاہر خوشنما اور سننے میں اچھے لگتے ہیں ۔لیکن اس کی حقیقت کا جب علم ہو تا ہے یا سرکار کے جھوٹے دعوﺅں کی قلعی کھلتی ہے توحیرانی بھی ہوتی ہے اور افسوس بھی کہ ایک ایسے ملک میں جسے نالج معیشت کے طور پر جانا جاتا ہو یا جو سپر پاور بننے کا خواب دیکھتا ہو،اس کے اسکولوں ،وہاں کے اساتذہ اور تعلیم کی حالت ناگفتہ بہ ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ معیار کو بہتر بنانے کی کوششیں ایک مثبت عمل ہے ،اور حکومت نے اس کے لئے کئی منصوبہ بنائے ،لیکن اس کو عملی جامہ پہنانا بھی ایک اہم کام ہے ۔حکومتیں تعلیم ، تعمیر اور ترقی کے نعرے تو دیتی ہیں اور خاکے بھی بناتی ہیں لیکن جب انھیں حقیقی روپ دینے اور عملی نفاذ کی بات آتی ہے تو معاملہ دگر گوں ہو جاتا ہے ،اور سارے کے سارے ہاتھ کھڑے کر دیتے ہیں ۔

ابھی سپریم کورٹ نے ایک ایسے ہی معاملہ کی طرف توجہ دلائی ہے جس میں اسکولوں میں غیر مستقل اساتذہ کی بڑھتی تعداد اور ضرورت کے مطابق با صلاحیت اساتذہ کے فقدان پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے ۔ اس کے لئے عدالت عالیہ نے مرکزی و ریاستی دونوں حکومتوں کو ذمہ دار قرار دیا ہے ۔اور کہا ہے کہ اس طرح کا رویہ تعلیم دوست نہیں بلکہ تعلیم دشمن ہے،یہ ملک کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ ہے۔اور ایسی پالیسی تعلیمی نظام کو برباد کر رہی ہے۔اس کا خاتمہ ہونا چاہئے۔عدالت نے عارضی اساتذہ کے عہدے پر نااہل افراد کی تقرری جیسے عمل سے عدم اتفاق ظاہر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ تعلیم کا حق قانون نافذ ہونے کے بعد اس پالیسی کو کس طرح آگے بڑھایا جا سکے گا۔

اس سلسلہ میں ججوں نے ایسے اساتذہ کی قابلیت اور تقرریوں سے متعلق تفصیلات تیار کرنے کی ریاستی حکومت کو ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 21 -(الف )کے وجود میں ہونے کے بعد آپ کو اس طرح کی پالیسی کو کس طرح تیار کر سکتے ہیںجو تعلیم مددگارنہیںبلکہ تعلیم دشمن ہیں۔اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو عدالت عالیہ کا یہ تبصرہ غلط بھی نہیں ہے پہلے سرو شکشا مہم اور اس کے بعد تعلیم کا حق (آر ٹی ای) قانون کے تحت اساتذہ کی تعداد میں اضافہ کی تو بات کی گئی لیکن رقم بچانے کے لئے اساتذہ غیر مستقل یعنی ایڈہاک کی بنیاد پر رکھے گئے اور اس طرح پورے ملک میں غیر مستقل ٹیچر وں کی بہتات ہو گئی ۔

یہاں پر یہ بات واضح کر دینے کی ہے کہ عدالت کے جس فیصلہ کا ذکر اوپر کیا گیا وہ گجرات سے متعلق ایک کیس کی بابت تھا ۔جس پر گذشتہ دنوں جسٹس بی ایس چوہان اور جسٹس دیپک مشرا پر مشتمل بینچ فیصلہ میں یہ تبصرہ کیا تھا ۔مگر حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ محض گجرات کی ہی بات نہیں ہے ،بلکہ دیگر ریاستوں کی حالت بھی اس سے بہت بہتر نہیں ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کے مختلف ریاستوں میں 5.5لاکھ سے بھی زیادہ غیر مستقل اساتذہ ہیں ،اور ایسا نہیں ہے کہ یہاں تک پہنچنے کے بعد بھی یہ سلسلہ رک گیا ہو بلکہ یہ تا ہنوز جاری ہے ۔مختلف ریاستوں میں پرائمری اساتذہ کی ایڈہاک تقرریاں کی جا رہی ہیں اور اس کے لیے انہیں باقاعدہ اساتذہ کے مقابلے میں ایک چوتھائی تنخواہ ملتی ہے۔،کئی ریاستوںمیں تو انھیں مستقل کرنے کا مسئلہ سیاسی رخ اختیار کر چکا ہے ۔تعلیم سب کے لئے قانون میں کہا گیا ہے کہ30طلباءپر ایک ٹیچر ہونا چاہئے،استاذ تعلیم یافتہ ہونا چاہئے لیکن یہ مستقل ہوگا یا غیر مستقل اس بابت کچھ نہیں کہا گیا ہے اس لئے  آر ٹی سی کے تحت غیر مستقل ٹیچر رکھنا غیر قانونی نہیں ہے ۔قانون کے تحت جو اساتذہ کام کر رہے ہیں انھیں روزانہ کی مزدوری کی شرح سے بھی رقم نہیں مل رہی ہے لیکن قانون اس پر خا موش ہے ۔

کورٹ کے اس فیصلہ کے بعد حکومتیں اس جانب توجہ دیں گی ؟یاکتنی جلد تبدیلی لائیں گی کہنا مشکل ہے۔کیونکہ فیصلہ کے فورا بعد دونوں ہی یعنی ریاستی اور  مرکزی حکومتوں کی جانب سے ”ہم ذمہ دار نہیں اس کے“والی بحث شروع ہو گئی ہے۔ مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ سرو شکشا ابھیان یا آر ٹی ای کے تحت اساتذہ کی تنخواہ ریاستی حکومتیں  طے کریں ۔مرکزی حکومت سے ملنے والی رقم میں اساتذہ کی تنخواہیں بھی شامل ہیں ۔لیکن اس میں مرکزی و ریاستی حکومت کی حصہ داری والا فارمولہ کام کرتا ہے ۔اسمیں65فیصدخرچ مرکزی حکومت اور 35فیصد ریاستوں کو صرف کرنا ہوتا ہے ۔مرکزی حکو مت کا کہنا ہے کہ اگر ریاستی حکومتیں اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ کرتی ہیں اس فارمولہ کے تحت انھیں بجٹ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

اگر ریاست غیرمستقل اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ کرتی ہے یا انھیں مستقل کرتی ہے تو انھیں 35فیصد کا خرچ اٹھانا پڑے گا ۔لاکھوں اساتذہ کے حساب سے یہ کافی بڑی رقم ہوتی ہے ۔اس لئے یوپی ،بہار ،مدھیہ پردیش جیسی ریاستیں غیر مستقل اساتذہ کی تنخواہیں نہیں بڑھا رہی ہیں اور نا ہی ان کا کی تقرری عمل میں آ رہی ہے ۔کونٹریکٹ ایکٹ وغیرہ میں ذکر ہے کہ غیر مستقل استاد یا مزدور رکھنے پر انھیں بازار میں اس پیشے کو معروف تنخواہ کے برابر رقم دی جائے گی ۔اس حساب سے اساتذہ کو قریب 15سے 20ہزار روپئے فی ماہ تنخواہ دی جانی چاہئے ۔اتراکھنڈ سمیت کئی ریاستوں نے اس سمت میں پہل کی ہے لیکن کئی ریاستوں میںانھیں 3500سے 5000روپئے ادا کئے جا رہے ہیں ۔

یہاں پر یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ محض اسکولوں کی ہی یہ صورتحال نہیں ہے بلکہ اعلیٰ تعلیم کی سطح بھی اس سے بہت بہترنہیں ہے ۔روزانہ نئی سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیاں اور تکنیکی ادارے کھل رہے ہیں۔ لیکن کوالٹی کے معاملے میں وہ دیگر ممالک کے مقابلےمیں بہت پیچھے ہیں۔ اس وقت ملک میں 560 سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیاں ہیں۔ ان میں 44 مرکزی یونیورسٹیاں، 285 ریاستی سطح کی یونیورسٹیاں، 130 ڈیڈ ڈیمڈ یونیورسٹیاں اور 106 پرائیویٹ یونیورسٹیاں ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 26,500 اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں جو امریکہ اور چین کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں۔امریکہ میں 7000 اور چین میں محض 4000 اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں۔ لیکن بنیادی ڈھانچہ اور تعلیمی کوالٹی کے معاملے میں ان کے ادارے ہم سے بہت آگے ہیں۔ ہمارے یہاں نہ توضرورت کے مطابق اساتذہ ہیں اور نہ ہی تجربہ گاہ۔ تجارت اور صنعت کی ضرورتوں کے مطابق نہ تو اساتذہ اَپ ڈیٹ ہیں اور نہ ہی نصاب۔

یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کی اعلیٰ تعلیم پر مبنی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں جتنے اساتذہ کی ضرورت ہے اس میں سے نصف اساتذہ سے ہی گزارا کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم میں چھ لاکھ اساتذہ کی ضرورت ہے لیکن صرف تین لاکھ اساتذہ سے ہی کام چلایا جا رہا ہے۔ یعنی تین لاکھ اساتذہ کی کمی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اعلیٰ تعلیم کی ضرورتوں کے مطابق آئندہ 10 سال تک ہر سال تقریباً ایک لاکھ نئے اساتذہ چاہئے ہوں گے۔ رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ آئی آئی ٹی اور این آئی ٹی جیسے مقبول اداروں میں اساتذہ کے تقریباً 35 فیصد عہدے خالی پڑے ہیں۔مرکزی یونیورسٹیوں کی بھی حالت تشویشناک ہے جب کہ طلبا کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کی تعداد تقریباً 1.6 کروڑ ہے جو 2020 تک بڑھ کر چار کروڑ ہو جائے گی۔

یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ لیکن دوسرا رخ یہ ہے کہ اساتذہ بھی تعلیم کی گرتے معیار کے لئے اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنی کہ سرکار۔ وہ نہ تو ریسرچ پر دھیان دیتے ہیں اور نہ ہی تجارتی نصاب کے مطابق خود کو اَپ ڈیٹ رکھتے ہیں۔اسکول سے لے کر کالج تک میں ایڈہاک پر اساتذہ کی تقرری میں پرزور طریقے سے بھائی بھتیجہ واد چل رہاہے جس سے  واقعی قابل اور تعلیم یافتہ اساتذہ کو موقع نہیں مل پارہا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا استعمال مناسب جگہ پر کر سکیں ۔یہ الگ بات ہے کہ بعض جگہوں پر اس قسم کی رپورٹ بھی سننے کو ملی ہیں کہ مستقل طور پر مقرر اساتذہ خود نہ کلاسیں نہ لیکر دوسروں کو معمولی تنخواہ پر پڑھانے کے لئے بھیج دے رہے ہیں ۔

ایک ایسا ملک جس میں آبادی کا پچاس فیصد حصہ 25 سال کی عمر سے بھی کم ہو ، وہاں تعلیم کی اہمیت اور اسی طرح لائق اور قابل اساتذہ کی ضرورت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔گذشتہ ماہ سائنسی مشاورتی کونسل (SAC - Scientific Advisory Council) نے کہا تھا کہ ہندوستان میں ترقی یافتہ ممالک کے درجہ کا ایک بھی تعلیمی ادارہ نہیں ہے۔ اساتذہ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کونسل نے اساتذہکے لئے بہترین مشاہروں اور سہولتوں کے ساتھ ساتھ انہیں تعلیم جاری رکھنے کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت کو بھی اہم قرار دیا۔ہندوستان میں تحتانوی مدارس کی سطح پر بچوں کے داخلے کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اور اس سطح پر داخلے کی شرح اب 85 فیصد سے زائد ہو چکی ہے۔ہمیں فوری طور پر متعدد لائق و قابل اساتذہ کی ضرورت لاحق ہے ۔

ہندوستان میں فی الحال ہر تعلیمی سطح پر ماہر اساتذہ کی کافی کمی محسوس ہوتی ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ جو اساتذہ دستیاب ہیں اور تنخواہ داروں کی فہرست میں شامل ہیں وہ مشکل ہی سے اسکولوں میں حاضر ہوتے ہیں۔ عالمی بنک کے ایک معروف جائزے میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں سرکاری تحتانوی اسکول کے 25 فیصد اساتذہ اپنے کام پر حاضر نہیں ہوتے اور صرف 50 فیصد اساتذہ ہی عملاً تدریس میں مصروف رہتے ہیں۔ پرانے اساتذہ ، زیادہ تعلیم یافتہ ٹیچر اور صدر مدرس کی اچھی خاصی تنخواہ ہوا کرتی ہے اور یہی لوگ اکثر اسکولوں سے غائب رہا کرتے ہیں۔باضابطہ ملازم پیشہ اساتذہ کے مقابلے میں ٹھیکے پر کام کرنے والے ٹیچروں کی تنخواہیں بہت کم ہوا کرتی ہیں لیکن ان کی غیر حاضری کی شرح بھی باقاعدہ اساتذہ کی طرح ہوتی ہے۔اساتذہ اور ڈاکٹروں کی غیر حاضریوں کے بارے میں کئی بار بتایا جا چکا ہے کہ یہ خرابیاں ہی کم ترقی اور خواندگی اور حفضان صحت میں بہتری کے اضافے میں راستے کی رکاوٹیں ہیں۔

ان تمام صورت حال کے بعد بھی کیا حکومت اپنے رویہ میں تبدیلی لائے گی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔لیکن یہ بہر حال کہا جا سکتا ہے کہ محض نعرے دینے سے کام بننے والا نہیں ہے بلکہ عملی طور پر کچھ کرنا ہوگا ۔آنے والے دنوںمیں ہندوستان نالج معیشت بننا چاہتا ہے۔تو کیا یہ ایسے ہی ہوائی وعدوں سے ہوگا یا اس کے لئے کچھ عملی طور پر بھی کرنا ہوگا ۔اس جانب حکومت کو توجہ دینی ہوگی ۔عدالت کا کام تو فیصلہ دینا یا غلط و صحیح کی نشاندہی کرنا ہے اس کا کے نفاذ کی ذمّہ داری بہرحال حکومت اور اداروں کا کی ہے سو عدالت نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی اب حکومت بھی اپنا کام کرے اور ہنگامی بلکہ ترجیحی بنیادوں پر کرے  تب ہی تبدیلی آئے گی ۔

۔۔۔مزید

ہفتہ، 25 مئی، 2013

پاکستان کے الیکشن اور ان کے بین الاقوامی معاملات پر اثرات

آخر کار مملکت خداداد یعنی اپنے پڑوسی ملک پاکستان میں انتخابات ہوگئے اور نتائج بھی تقریبا واضح ہو گئے ہیں۔ ابتدائی رجحانات اور غیر سرکاری ذرائع بتا رہے ہیں کہ مسلم لیگ نواز کوتقریباً اکثریت ملنے جا رہی ہے اور اب نواز شریف ہی تیسری بار پاکستان کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالیں گے، چونکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار جمہوری طور پر منتخب کسی حکومت نے اپنی مدت مکمل کی اور اس کے بعد انتخابات بھی تقریبا پرامن طریقے سے نمٹ گئے، اس لئے ان انتخابات کو صرف پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر میں امید افزا نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ اگر ایک ملک کے طور پر جہاں فوج نے بار بار جمہوری حکومت کا تختہ پلٹ دیا ہو، دیکھا جائے تو اس طرح کے انتخابات واقعی غیر معمولی ہیں، لیکن اس موقع سے یہ دیکھنا ہے کہ صرف کامیاب انتخابات کا انعقاد اور پارٹی کا تقریبا واضح اکثریت لے کر اقتدار میں آنامحض ہے یا اس بات کی ضمانت ہے کہ پاکستان کے بیشتر مسائل کا خاتمہ ہو جائے گا؟

اس سوال پر بات کرنے سے پہلے میں آپ کو ذرا دیر کے لئے 1997 کے پاکستانی عام انتخابات کی طرف لے جانا چاہوں گا۔اس الیکشن میں نواز شریف کی اسی پارٹی نے تاریخی کامیابی حاصل کرتے ہوئے کل 207 میں سے 137 نشستیں جیت لی تھیں، اس وقت ان کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا، جسے مسلم لیگ (نواز) نے صرف اٹھارہ نشستوں پر سمیٹ دیا تھا۔ اس تاریخی جیت کے بعد نواز شریف نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تھا، لیکن بعد میں کیا ہوا؟ وہ ہم سب کے سامنے ہے۔

اس موقع پر یہ یاد دلانے کا مقصد یہی ہے کہ صرف انتخابات جیت لینا یا یا بازی مار لینا ہی اس بات کی ضمانت نہیں ہوتی کہ جمہوری نظام اور ریاست کےاجزائے ترکیبی میں کوئی خلل واقع نہیں ہوگا۔
اس وقت پاکستان کو جو مسائل درپیش ہیں، ان کو ہم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
اولاً اندرون خانہ پاکستان میں برپا دہشت گردی اور تشدد کو ختم کرنا۔
ثانیاً پاکستان پر خارجہ برتری کو ختم یا کم سے کم محدود کرنا۔
اور ثالثاً پاکستان میں جمہوری اداروں کو استحکام دینا، تاکہ مستقبل میں فوجی ڈکٹیٹر عوام کی گردن پر لاگو نہ ہو۔جہاں تک پہلے مسئلے یعنی پاکستان میں اندرونی تشدد کے خاتمے کا سوال ہے تو اس کی جڑیں دراصل فرقہ وارانہ اختلافات اور کٹر مذہبی جماعتوں کے بڑھتے ہوئے اثر میں اندر تک جمی ہوئی ہیں۔اب پیچیدہ سوال یہ ہے کہ کیا محترم نواز شریف بنیاد پرست مذہبی جماعتوں کو کنٹرول کرنے کی جرأت دکھا سکیں گے؟

یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ نواز شریف کی کامیابی دراصل ان کی پنجاب میں حمایت دینا ہے اور اتفاق سے تقریبا تمام عسکریت پسند مذہبی جماعتوں کا بیس کیمپ بھی پنجاب کی ریاست ہی ہے، ایسے میں اپنے حامیوں کی ہی گردن کاٹنا شاید نواز شریف کے لئے آسان ثابت نہ ہو۔
پنجاب میں سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور پنجابی طالبان جیسی جماعتیں، ساتھ ہی ان جماعتوں کے حامی پنجاب کے باہر پھیلے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اگر ان تینوں میں سے کسی بھی گروپ کے خلاف مسلم لیگ(ن) کی حکومت کچھ کرنے کی کوشش کرے گی تو ہنگامہ ہونا طے ہے۔

دوسرا مسئلہ پاکستان پر خارجہ تسلط ہے۔ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح پاکستان میں امریکی ڈرون طیاروں کی مسلسل بمباری سے سینکڑوں بے گناہ شہری مارے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے امریکہ کی ان کارروائیوں کو عام پاکستانی سخت ناپسند کرتے ہیں، بلکہ محتاط تجزیہ یہ بھی کہتا ہے کہ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کی جو درگت ہوئی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں امریکہ نے پاکستان میں جب جو چاہاکیا، لیکن پاکستانی حکومت اس کے خلاف چوں کرنے کی ہمت نہیں کرسکی۔ ایسے میں نئی حکومت کو عوام کے جذبات کا احترام بالخصوص مذہبی جماعتوں کی ہمدردی حاصل کرنی ہے تو انھیں امریکی کارروائی کو کنٹرول کرنا ہوگا۔

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگلا سال افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاءکا ہے، اس لئے ممکن ہے کہ اس سال کے آخر میں امریکہ اپنےآپریشن کے خاتمہ کے بطور پاکستانی علاقوں میں کارروائی اور تیز کردے، ایسے میں نئے وزیر اعظم کے لئے امتحان کی اصل گھڑی ہوگی کہ وہ امریکہ کی خوشی اور عوام کے جذبات میں سے کس کا انتخاب کرتے ہیں؟

تیسرا اور اہم مسئلہ پاکستان میں جمہوری اداروں کی مضبوطی کا ہے، چونکہ خود نواز شریف تختہ الٹے جانے کا درد جھیل چکے ہیں، اس لئے وہ اصل میں کبھی نہیں چاہیں گے کہ مستقبل میں تاریخ دہرائی جائے، اس لیے عجب نہیں کہ فوج کے اختیارات کو کم کرنے پر غور کیا جانے لگے، مگر لاکھ ٹکے کا سوال یہ ہے کہ کیا فوج خود اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے وردی اتروانے پر راضی ہو جائے گی؟ ابھی تو ایسا نہیں لگتا۔ جمہوری اداروں کی مضبوطی کے بارے میں ایک اور اہم قدم آئی۔ایس۔آئی پر لگام ڈالنا بھی ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان کی ناکامی میں جتنا اہم کردار اس خفیہ ایجنسی نے انجام دیا ہے، اتنا تو پاکستان کے کسی دشمن نے نہیں دیا۔

اس وقت نواز شریف اور ان کی پارٹی مسلم لیگ(ن) فتح کا جشن منانے میں مصروف ہوں گے، ہمارا ارادہ بھی ان کی تقریب کو بدمزہ اور کرکرا کرنے کا نہیں ہے، لیکن چونکہ جمہوری انتخابات ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور اچھے خوابوں کی تکمیل کرنے کا نام ہے، اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنے والے ارباب سیاست ایک مضبوط حکمت عملی تیار کریں کہ وہ پاکستان میں پیش آمدہ ان تین مسائل سمیت دیگر محاذوں پر کس طرح لڑیں گے۔

ان انتخابات کو سب سے زیادہ پر امید نظر وں سے ہمارا ملک ہندوستان دیکھ رہا ہے۔ اب پاکستان کی نئی حکومت کے پالے میں گیند ہے کہ وہ کس طرح ہندوستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو خوشگوار کرتی ہے۔ مجھے ہند و پاک دوستی کو لے کر پاکستان کی نئی حکومت کے سامنے ایک بڑا چیلنج یہ لگتا ہے کہ مسئلہ کشمیر بہت جلد دونوں ممالک کے رشتوں میں تلخی گھول دے گا، چونکہ اگلا سال افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کا ہے اور ایسے میں کونسل جہاد کے سربراہ سید صلاح الدین نے پہلے ہی اعلان کردیا ہے کہ افغانستان سے نپٹ کر ان کے جنگجو کشمیر جائیں گے۔ ویسے بھی افضل گرو کی پھانسی نے انتہا پسند جماعتوں کو موقع دیا ہے کہ وہ کشمیر میں تشدد کو فروغ دیں۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان پر دباؤ ہندوستان ہی سے نہیں، دنیا بھر سے ہوگا کہ وہ تشددپسند جماعتوں کو کنٹرول کرے اور پھر وہی پرانا سوال حکومت پاکستان کے سامنے منہ اٹھائے کھڑا ہوگا کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟

۔۔۔مزید

منگل، 7 مئی، 2013

امید ابھی باقی ہے سرحد کے دونوں پار

محمد علم اللہ اصلاحی
ایک ایسے دور میں جب سرحد کے دونوں طرف نفرت کی آندھی چل رہی ہو اس وقت اگر امن کے پیروکار دونوں ملکوں میں آواز اٹھاتے ہیں تو یہ قابل تعریف ہے۔ پاکستان میں سربجیت کے قتل کے بعد جس طرح سے ہندوستان میں ماحول زہریلا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس میں میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا بہت ہی خراب رول ادا کر رہا ہو ایسے میں پاکستان کے اہم اخبار جہاں اس مسئلہ پر حکومت پاکستان کے رویہ کی تنقید کر رہے ہیں وہیں ہندوستان میں بھی امن کی آواز کمزور نہیں پڑی ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مار کنڈے کاٹجو نے بھی انسانی بنیاد پر جموں جیل میں حملے میں زخمی ثنا ءاللہ کو پاکستان بھیجنے کی اپیل حکومت سے کی ہے۔

پاکستان کے اہم اخبار دی ایکسپریس ٹربیون نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ صرف یہ کافی نہیں ہے کہ یہ پتہ لگایا جائے کہ سربجیت پر جیل میں حملہ کن لوگوں نے کیا بلکہ ان جیل حکام سے سختی سے نمٹا جانا چاہیے جن کے اوپر تحفظ کی ذمہ داری تھی ۔اخبار لکھتا ہے کہ سربجیت کی حفاظت کی ذمہ داری پاکستان کی تھی۔ اس کے خاندان نے پاکستان سے انصاف مانگا تھا۔ پنجاب کے قائم مقاموزیر اعلی نجم سیٹھی نے معاملے کی عدالتی جانچ کے احکامات دیئے ہیں۔ یہ ابھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ حملہ بائی پلان تھا یا نہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ یہ شدید تشویش ہے کہ ایک ہندوستانی قیدی جس کاوکیل مستقل اس کی جان کو شدید خطرہ ہونے کے بارے میں حکومت کو بتاتا رہا، اس کو پاکستانی جیل میں قیمہ بنانے کی حد تک پیٹا گیا۔ یہ جیل حکام کی شدید صریح مجرمانہ غفلت ہے۔ اخبار زور دے کر لکھتا ہے کہ حکومت پاکستان کو اس بات کا جواب دینا ہی ہوگا کہ سربجیت کی جان کو شدید خطرہ ہونے کی اس کے وکیل کی وارننگ کے بعد پاکستان کی حکومت نے اس کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات اختیار کئے؟

اخبار لکھتا ہے کہ اس واقعہ نے نہ صرف سربجیت کی ایک قیدی کے طور پر حقوق کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ جیل حکام کی طرف سے برتی گئی سنگین خامی نے پاکستانی جیلوں کی صورت حال کو اجاگر کر دیا ہے۔اخبار کہتا ہے کہ ان پولیس افسران کے خلاف سخت سے سخت ایکشن لیا جانا چاہئے جن کے اوپر سربجیت کی حفاظت کی ذمہ داری تھی۔

اس واقعہ کو ہند و پاک تعلقات میں دراڑ ڈالنے والا بتاتے ہوئے اخبار لکھتا ہے کہ امید کی جانی چاہئے کہ اس واقعہ سے پیدا سفارتی تنازعہ کو حل کرنے کے لیے پاکستان کی حکومت ایک منصفانہ جانچ کرائے گی۔ویسے بھی اس واقعے نے پاکستان کی ساکھ کو بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اخبار زور دے کر لکھتا ہےہندوستان سمیت اپنے تمام پڑوسی ملکوں سے بہتر اور ملنسار تعلق قائم رکھنا پاکستان کے ہی مفاد میں ہے۔ سربجیت کی موت کے سانحہ کو آسانی سے روکا جا سکتا تھا۔ اخبار کہتا ہے کہ اس واقعہ کی غیر جانبدارانہ جانچ ہونی چاہیے اور مجرم حکام کوسزا دی جانی چاہیے۔

سوال یہ ہے کہ کیاہندوستانی میڈیا سے بھی ایسی ہی سمجھداری اور سنجیدگی کی امید کی جا سکتی ہے۔ افسوس ہے کہ اس کا جواب فی الحال نہ میں ہی ہے۔اسی طرح پاکستان کے معروف صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن بینا سرور نے بھی مسلسل ٹوئٹر پر اس مسئلے پر پاکستانی حکومت کی تنقید کی اور انتہا پسندوں کو کرارے جواب بھی دیے۔ انہوں نے کہا کہ بے شک جب قانون اپنا کام کرتا ہے تب اول انصاف ہونا ہی نہیں چاہیے بلکہ یہ ہوتا ہوا دکھائی بھی دینا چاہیے۔

ہندوستان میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے بھی جموں جیل میں حملے میں زخمی ثناءاللہ کو پاکستان بھیجنے کی پاک حکومت کا مطالبہ انسانی بنیاد پر قبول کرنے کی اپیل حکومت سے کی ہے۔انھوں نےہندوستان اور پاکستان دونوں کی حکومتوں سے فوری طور پر ایک کمیٹی قائم کرنے کی اپیل کی ہے جو دونوں ممالک میں قید ایسے قیدیوں جنہیں مشتبہ یا ناکافی ثبوتوں یاکمفیشن (اعتراف) کی بنیاد پر مجرم ٹھہرایا گیا ہو، کی جلد رہائی کا پروانہ حاصل کر سکیں ۔

جسٹس کاٹجو کہتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کو مبینہ اعتراف کی بنیاد پر مجرم ٹھہرایا گیا ہے اور ہر کوئی جانتا ہے کہ ہمارے ممالک میں ایسے اعترافات کیسے لیے جاتے ہیں (تھرڈ ڈگری ٹارچرکے ذریعہ)۔ اس لئے سزا کے لیے ان (کمفیشن) پر انحصار مکمل طور پر غلط ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے دوسرے ممالک کے شہریوں کے بارے میں تشویش کرتے وقت لوگ تعصبات سے شکار ہو جاتے ہیں۔ اب وقت ان تعصبات کی دیوار کو گرا دینے کا آ گیا ہے ۔ورنہ یہ تعصب بڑے ظلم کا سبب بنے گی جیسا کہ ڈاکٹر خلیل چشتی اور سربجیت سنگھ اس کا شکار بنے۔

سینئر صحافی جگموہن پھٹےلا کہتے ہیں -”سو فیصد صحیح ہیں صحافی ،سربجیت بینس اور میرے دیگر بہت سارے دوست۔ثنا ءاللہ پر ہوئے حملے کو ہم سربجیت پر ہوئے حملے کا بدلہ کہہ کر خارج نہیں کر سکتے۔ ہمیں مان ہی لینا پڑے گا کہ انسانی حقوق کے معاملے میں ہم بھی کچھ کم جاہل نہیں ہیں۔ غم اگر سربجیت کا ہے تو دکھ ثنا ءاللہ کا بھی ہونا چاہیے۔ ذمہ دونوں حکومتوں اور دونوں عوام کی ہے۔ عوام کی سطح پر بیداری کی شعلہ جلتی رہنی چاہیے۔ سونا نہیں ہے کیونکہ ہم سب کے جاگے بغیر سویرا بھی ہونا نہیں ہے۔“

سینئر ادیب موہن چھیتریہ کہتے ہیں”ہندوستان اور پاکستان ان سگے بھائیوں کی طرح ہیں، جو برج کے میلے میں بچھڑ گئے تھے۔ایک سا طرز عمل گواہ ہے۔ اب کوئی سیاستدان نیوٹن کے قوانین (عمل کا رد عمل ) کی پھر سے یاد دلا سکتا ہے۔“

سینئر صحافی اور میڈیا ناقدآنند پردھان کہتے ہیں "انسانی حقوق، جیلوں میں قیدیوں کی بدتر حالت،ایکسٹرا جوڈیشیل قتل، انصاف کے نام پر ناانصافی، یہ تمام کتنے بڑے مسائل ہیں لیکن ہندوستان کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے لیے یہاں سب ٹھیک ہے، پاکستان میں سب برا ہے۔ایسا نہیں کہنا چاہئے‘ کیونکہ اسے ہی کہتے ہیں ادھ قوم پرستی اور بے جا خود اعتمادی"یہی وجوہات ہیں کہ سرحد کے دونوں طرف امید کی شعلے ابھی باقی ہیں۔ انسانیت یوں ہی مر نہیں سکتی۔

۔۔۔مزید