تعلیم سب کے لئے ،سرو شکشا ابھیان ،چودہ سال تک بچوں کی تعلیم مفت جیسے جملے بظاہر خوشنما اور سننے میں اچھے لگتے ہیں ۔لیکن اس کی حقیقت کا جب علم ہو تا ہے یا سرکار کے جھوٹے دعوﺅں کی قلعی کھلتی ہے توحیرانی بھی ہوتی ہے اور افسوس بھی کہ ایک ایسے ملک میں جسے نالج معیشت کے طور پر جانا جاتا ہو یا جو سپر پاور بننے کا خواب دیکھتا ہو،اس کے اسکولوں ،وہاں کے اساتذہ اور تعلیم کی حالت ناگفتہ بہ ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ معیار کو بہتر بنانے کی کوششیں ایک مثبت عمل ہے ،اور حکومت نے اس کے لئے کئی منصوبہ بنائے ،لیکن اس کو عملی جامہ پہنانا بھی ایک اہم کام ہے ۔حکومتیں تعلیم ، تعمیر اور ترقی کے نعرے تو دیتی ہیں اور خاکے بھی بناتی ہیں لیکن جب انھیں حقیقی روپ دینے اور عملی نفاذ کی بات آتی ہے تو معاملہ دگر گوں ہو جاتا ہے ،اور سارے کے سارے ہاتھ کھڑے کر دیتے ہیں ۔
ابھی سپریم کورٹ نے ایک ایسے ہی معاملہ کی طرف توجہ دلائی ہے جس میں اسکولوں میں غیر مستقل اساتذہ کی بڑھتی تعداد اور ضرورت کے مطابق با صلاحیت اساتذہ کے فقدان پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے ۔ اس کے لئے عدالت عالیہ نے مرکزی و ریاستی دونوں حکومتوں کو ذمہ دار قرار دیا ہے ۔اور کہا ہے کہ اس طرح کا رویہ تعلیم دوست نہیں بلکہ تعلیم دشمن ہے،یہ ملک کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ ہے۔اور ایسی پالیسی تعلیمی نظام کو برباد کر رہی ہے۔اس کا خاتمہ ہونا چاہئے۔عدالت نے عارضی اساتذہ کے عہدے پر نااہل افراد کی تقرری جیسے عمل سے عدم اتفاق ظاہر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ تعلیم کا حق قانون نافذ ہونے کے بعد اس پالیسی کو کس طرح آگے بڑھایا جا سکے گا۔
اس سلسلہ میں ججوں نے ایسے اساتذہ کی قابلیت اور تقرریوں سے متعلق تفصیلات تیار کرنے کی ریاستی حکومت کو ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 21 -(الف )کے وجود میں ہونے کے بعد آپ کو اس طرح کی پالیسی کو کس طرح تیار کر سکتے ہیںجو تعلیم مددگارنہیںبلکہ تعلیم دشمن ہیں۔اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو عدالت عالیہ کا یہ تبصرہ غلط بھی نہیں ہے پہلے سرو شکشا مہم اور اس کے بعد تعلیم کا حق (آر ٹی ای) قانون کے تحت اساتذہ کی تعداد میں اضافہ کی تو بات کی گئی لیکن رقم بچانے کے لئے اساتذہ غیر مستقل یعنی ایڈہاک کی بنیاد پر رکھے گئے اور اس طرح پورے ملک میں غیر مستقل ٹیچر وں کی بہتات ہو گئی ۔
یہاں پر یہ بات واضح کر دینے کی ہے کہ عدالت کے جس فیصلہ کا ذکر اوپر کیا گیا وہ گجرات سے متعلق ایک کیس کی بابت تھا ۔جس پر گذشتہ دنوں جسٹس بی ایس چوہان اور جسٹس دیپک مشرا پر مشتمل بینچ فیصلہ میں یہ تبصرہ کیا تھا ۔مگر حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ محض گجرات کی ہی بات نہیں ہے ،بلکہ دیگر ریاستوں کی حالت بھی اس سے بہت بہتر نہیں ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کے مختلف ریاستوں میں 5.5لاکھ سے بھی زیادہ غیر مستقل اساتذہ ہیں ،اور ایسا نہیں ہے کہ یہاں تک پہنچنے کے بعد بھی یہ سلسلہ رک گیا ہو بلکہ یہ تا ہنوز جاری ہے ۔مختلف ریاستوں میں پرائمری اساتذہ کی ایڈہاک تقرریاں کی جا رہی ہیں اور اس کے لیے انہیں باقاعدہ اساتذہ کے مقابلے میں ایک چوتھائی تنخواہ ملتی ہے۔،کئی ریاستوںمیں تو انھیں مستقل کرنے کا مسئلہ سیاسی رخ اختیار کر چکا ہے ۔تعلیم سب کے لئے قانون میں کہا گیا ہے کہ30طلباءپر ایک ٹیچر ہونا چاہئے،استاذ تعلیم یافتہ ہونا چاہئے لیکن یہ مستقل ہوگا یا غیر مستقل اس بابت کچھ نہیں کہا گیا ہے اس لئے آر ٹی سی کے تحت غیر مستقل ٹیچر رکھنا غیر قانونی نہیں ہے ۔قانون کے تحت جو اساتذہ کام کر رہے ہیں انھیں روزانہ کی مزدوری کی شرح سے بھی رقم نہیں مل رہی ہے لیکن قانون اس پر خا موش ہے ۔
کورٹ کے اس فیصلہ کے بعد حکومتیں اس جانب توجہ دیں گی ؟یاکتنی جلد تبدیلی لائیں گی کہنا مشکل ہے۔کیونکہ فیصلہ کے فورا بعد دونوں ہی یعنی ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی جانب سے ”ہم ذمہ دار نہیں اس کے“والی بحث شروع ہو گئی ہے۔ مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ سرو شکشا ابھیان یا آر ٹی ای کے تحت اساتذہ کی تنخواہ ریاستی حکومتیں طے کریں ۔مرکزی حکومت سے ملنے والی رقم میں اساتذہ کی تنخواہیں بھی شامل ہیں ۔لیکن اس میں مرکزی و ریاستی حکومت کی حصہ داری والا فارمولہ کام کرتا ہے ۔اسمیں65فیصدخرچ مرکزی حکومت اور 35فیصد ریاستوں کو صرف کرنا ہوتا ہے ۔مرکزی حکو مت کا کہنا ہے کہ اگر ریاستی حکومتیں اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ کرتی ہیں اس فارمولہ کے تحت انھیں بجٹ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
اگر ریاست غیرمستقل اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ کرتی ہے یا انھیں مستقل کرتی ہے تو انھیں 35فیصد کا خرچ اٹھانا پڑے گا ۔لاکھوں اساتذہ کے حساب سے یہ کافی بڑی رقم ہوتی ہے ۔اس لئے یوپی ،بہار ،مدھیہ پردیش جیسی ریاستیں غیر مستقل اساتذہ کی تنخواہیں نہیں بڑھا رہی ہیں اور نا ہی ان کا کی تقرری عمل میں آ رہی ہے ۔کونٹریکٹ ایکٹ وغیرہ میں ذکر ہے کہ غیر مستقل استاد یا مزدور رکھنے پر انھیں بازار میں اس پیشے کو معروف تنخواہ کے برابر رقم دی جائے گی ۔اس حساب سے اساتذہ کو قریب 15سے 20ہزار روپئے فی ماہ تنخواہ دی جانی چاہئے ۔اتراکھنڈ سمیت کئی ریاستوں نے اس سمت میں پہل کی ہے لیکن کئی ریاستوں میںانھیں 3500سے 5000روپئے ادا کئے جا رہے ہیں ۔
یہاں پر یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ محض اسکولوں کی ہی یہ صورتحال نہیں ہے بلکہ اعلیٰ تعلیم کی سطح بھی اس سے بہت بہترنہیں ہے ۔روزانہ نئی سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیاں اور تکنیکی ادارے کھل رہے ہیں۔ لیکن کوالٹی کے معاملے میں وہ دیگر ممالک کے مقابلےمیں بہت پیچھے ہیں۔ اس وقت ملک میں 560 سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیاں ہیں۔ ان میں 44 مرکزی یونیورسٹیاں، 285 ریاستی سطح کی یونیورسٹیاں، 130 ڈیڈ ڈیمڈ یونیورسٹیاں اور 106 پرائیویٹ یونیورسٹیاں ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 26,500 اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں جو امریکہ اور چین کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں۔امریکہ میں 7000 اور چین میں محض 4000 اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں۔ لیکن بنیادی ڈھانچہ اور تعلیمی کوالٹی کے معاملے میں ان کے ادارے ہم سے بہت آگے ہیں۔ ہمارے یہاں نہ توضرورت کے مطابق اساتذہ ہیں اور نہ ہی تجربہ گاہ۔ تجارت اور صنعت کی ضرورتوں کے مطابق نہ تو اساتذہ اَپ ڈیٹ ہیں اور نہ ہی نصاب۔
یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کی اعلیٰ تعلیم پر مبنی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں جتنے اساتذہ کی ضرورت ہے اس میں سے نصف اساتذہ سے ہی گزارا کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم میں چھ لاکھ اساتذہ کی ضرورت ہے لیکن صرف تین لاکھ اساتذہ سے ہی کام چلایا جا رہا ہے۔ یعنی تین لاکھ اساتذہ کی کمی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اعلیٰ تعلیم کی ضرورتوں کے مطابق آئندہ 10 سال تک ہر سال تقریباً ایک لاکھ نئے اساتذہ چاہئے ہوں گے۔ رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ آئی آئی ٹی اور این آئی ٹی جیسے مقبول اداروں میں اساتذہ کے تقریباً 35 فیصد عہدے خالی پڑے ہیں۔مرکزی یونیورسٹیوں کی بھی حالت تشویشناک ہے جب کہ طلبا کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کی تعداد تقریباً 1.6 کروڑ ہے جو 2020 تک بڑھ کر چار کروڑ ہو جائے گی۔
یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ لیکن دوسرا رخ یہ ہے کہ اساتذہ بھی تعلیم کی گرتے معیار کے لئے اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنی کہ سرکار۔ وہ نہ تو ریسرچ پر دھیان دیتے ہیں اور نہ ہی تجارتی نصاب کے مطابق خود کو اَپ ڈیٹ رکھتے ہیں۔اسکول سے لے کر کالج تک میں ایڈہاک پر اساتذہ کی تقرری میں پرزور طریقے سے بھائی بھتیجہ واد چل رہاہے جس سے واقعی قابل اور تعلیم یافتہ اساتذہ کو موقع نہیں مل پارہا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا استعمال مناسب جگہ پر کر سکیں ۔یہ الگ بات ہے کہ بعض جگہوں پر اس قسم کی رپورٹ بھی سننے کو ملی ہیں کہ مستقل طور پر مقرر اساتذہ خود نہ کلاسیں نہ لیکر دوسروں کو معمولی تنخواہ پر پڑھانے کے لئے بھیج دے رہے ہیں ۔
ایک ایسا ملک جس میں آبادی کا پچاس فیصد حصہ 25 سال کی عمر سے بھی کم ہو ، وہاں تعلیم کی اہمیت اور اسی طرح لائق اور قابل اساتذہ کی ضرورت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔گذشتہ ماہ سائنسی مشاورتی کونسل (SAC - Scientific Advisory Council) نے کہا تھا کہ ہندوستان میں ترقی یافتہ ممالک کے درجہ کا ایک بھی تعلیمی ادارہ نہیں ہے۔ اساتذہ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کونسل نے اساتذہکے لئے بہترین مشاہروں اور سہولتوں کے ساتھ ساتھ انہیں تعلیم جاری رکھنے کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت کو بھی اہم قرار دیا۔ہندوستان میں تحتانوی مدارس کی سطح پر بچوں کے داخلے کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اور اس سطح پر داخلے کی شرح اب 85 فیصد سے زائد ہو چکی ہے۔ہمیں فوری طور پر متعدد لائق و قابل اساتذہ کی ضرورت لاحق ہے ۔
ہندوستان میں فی الحال ہر تعلیمی سطح پر ماہر اساتذہ کی کافی کمی محسوس ہوتی ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ جو اساتذہ دستیاب ہیں اور تنخواہ داروں کی فہرست میں شامل ہیں وہ مشکل ہی سے اسکولوں میں حاضر ہوتے ہیں۔ عالمی بنک کے ایک معروف جائزے میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں سرکاری تحتانوی اسکول کے 25 فیصد اساتذہ اپنے کام پر حاضر نہیں ہوتے اور صرف 50 فیصد اساتذہ ہی عملاً تدریس میں مصروف رہتے ہیں۔ پرانے اساتذہ ، زیادہ تعلیم یافتہ ٹیچر اور صدر مدرس کی اچھی خاصی تنخواہ ہوا کرتی ہے اور یہی لوگ اکثر اسکولوں سے غائب رہا کرتے ہیں۔باضابطہ ملازم پیشہ اساتذہ کے مقابلے میں ٹھیکے پر کام کرنے والے ٹیچروں کی تنخواہیں بہت کم ہوا کرتی ہیں لیکن ان کی غیر حاضری کی شرح بھی باقاعدہ اساتذہ کی طرح ہوتی ہے۔اساتذہ اور ڈاکٹروں کی غیر حاضریوں کے بارے میں کئی بار بتایا جا چکا ہے کہ یہ خرابیاں ہی کم ترقی اور خواندگی اور حفضان صحت میں بہتری کے اضافے میں راستے کی رکاوٹیں ہیں۔
ان تمام صورت حال کے بعد بھی کیا حکومت اپنے رویہ میں تبدیلی لائے گی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔لیکن یہ بہر حال کہا جا سکتا ہے کہ محض نعرے دینے سے کام بننے والا نہیں ہے بلکہ عملی طور پر کچھ کرنا ہوگا ۔آنے والے دنوںمیں ہندوستان نالج معیشت بننا چاہتا ہے۔تو کیا یہ ایسے ہی ہوائی وعدوں سے ہوگا یا اس کے لئے کچھ عملی طور پر بھی کرنا ہوگا ۔اس جانب حکومت کو توجہ دینی ہوگی ۔عدالت کا کام تو فیصلہ دینا یا غلط و صحیح کی نشاندہی کرنا ہے اس کا کے نفاذ کی ذمّہ داری بہرحال حکومت اور اداروں کا کی ہے سو عدالت نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی اب حکومت بھی اپنا کام کرے اور ہنگامی بلکہ ترجیحی بنیادوں پر کرے تب ہی تبدیلی آئے گی ۔
0 تبصرہ جات:
ایک تبصرہ شائع کریں