محمد علم اللہ
خود کو بچپن
کے دنوں میں لےگئے تو ایک ہوک سی دل میں اٹھی ۔کہاں وہ مستیوں ، رنگ رلیوں ، بے فکریوں
کے دن اور کہاں یہ کمپٹیشن ، امتحان ، پڑھائی ، نوکری کی تلاش ، بچھڑے رشتے ، دوستوں
کی کرم فرمائیاں ، ناراضگیاں،دغابازیاں یعنی کہ بے شمار حاضر اور ماضی کی یادیں ایک
دوسرے سے ٹکرانے لگیں اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں
۔
خود کو جب آج
سے بیس بائس سال پیچھے ماہ رمضان المبارک میں لے گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہر چہار
جانب سے تلاوت قران مجید کی پر سوز آوازیں آ رہی ہیں ۔ خوشیوں اور چہچاہٹوں کا ریلا
، بھائیوں ، بہنوں اور دیگر رشتہ داروں کا میلا ۔نانی اماں بڑے سے ریحل میں موٹے موٹے
حروف والا قران لیکر پڑھنے میں مصروف ہیں ۔ ادھر ہم بچوں کی دھما چوکڑی اور اچھل کود
جاری ہے ۔کبھی لڑتے ، گرتے ہیں تو کبھی ہنسیوں کے فوارے چھوٹے پڑ رہے ہیں ۔ امی قران
پڑھ رہی ہیں ، ہماری نیند کھل چکی ہے اور ہم رو رو کر ہلکان ہوئے جا رہے ہیں کہ ہمیں
کیوں نہ اٹھایا سحری میں، امی لاکھ سمجھائیں کہ بچوں کا روزہ نہیں ہوتا لیکن کہاں مان
کے دیتے ہیں ۔ ابو آئے انھوں نے گود میں اٹھا لیا سمجھایا، بجھایا اور دیر تک کھلاتے
رہے ۔
چچا کے ڈر سے
کبھی ہم ادھر بھاگ رہے ،کبھی اُدھر دروازے کے پیچھے چھپے ہیں کہ ابھی کہیں گے جی میاں!
درود شریف سنائیے، دعائے قنوت سنائیے،قنوت نازلہ ،آیۃ الکرسی یہ کیا ایک ہی تو غلطی
ہوئی جی ہاں اب سو مرتبہ انھیں سناؤ۔ یا خدا یہ مر کیوں نہیں جاتا ۔اب سوچتے ہیں تو
عجیب سا لگتا ہے ، بچپنے کی سوچ بھی کیسی عجیب و غریب ہوتی تھی۔ یہ مرنے کی بددعا کرنے
والا قصہ بھی عجیب ہے، شکر ہے اللہ کا کبھی ایسی دعا قبول نہ ہوئی ورنہ کتنوں کی شفقت
سے محروم رہتے اور کتنے اللہ کے پیارے ہو چکے ہوتے ۔گھر میں چھوٹے چچا کا بھی یہی حال
تھا ۔ کبھی پہاڑاسناؤ،تو کبھی کلمہ، کبھی جملوں کی ترکیب کرو تو کبھی نحوی و صرفی تحلیل۔اسکول
سے چھٹی کیا ملتی تھی، گھر پر ایک نیا مدرسہ کھل جاتا اور سب موقع کی تلاش میں گھیرے میں لینے کو تیار رہتے ۔
ایسا صرف میرے ساتھ ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ سبھی بچے بڑوں کے راڈار پر رہتے ۔ اس سے
تربیت بھی ہوتی اور سب ایک دوسرے کی نگرانی میں رہتے ۔ جوائنٹ فیملی میں جہاں بہت ساری
پیچیدگیاں ہیں، وہیں بہت سے فائدوں سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔
خیر ۔۔۔ گھرسے
نجات ملی تو اچھلتے کودتے نانی کے گھر بھاگتے ۔نانی کا گھر قریب ہی تھا، سب پوچھتے
"روزہ رکھے ہو؟"
"ہاں رکھا ہوں"
"چل جھوٹے، ذرا منہ تو دکھا۔ آآآ کر آآآ"
خالہ نے جوں ہی یہ کہا، ان سے لڑ پڑے،پھر تھوڑی دیر بعد ہی خالہ کے ساتھ دوڑ دوڑ کے
کام کر رہے ہیں، دیکھنا اس میں نمک زیادہ تو نہیں اور اس میں شکر کم تو نہیں ،تو بھیا
ہم نمک بھی چکھ رہے۔ماموں کے لئے دوکان میں افطار پہنچا رہے ہیں اور پھر شام کو افطار
کے بعد فیرنیاں، مٹھائیاں،جلیبیاں،کیا مزے کے دن تھے۔
ہم امی سے ضد
کرکے روزے رکھتے۔ حالانکہ وہ ضد کرتیں بچوں کا روزہ آدھے دن کا ہوتا ہے، لیکن صاحب
مان کے نہیں دیتے ۔ یوں تو ہر جگہ اور ہر علاقہ کی اپنی اپنی روایات ہیں اور وہی انفرادیت
اور خصوصیت اس علاقہ کے حسن کو دوبالا کرتی ہیں ۔رمضان کا مہینہ شروع ہونے سے قبل ہی
مسجد کے مینار پر کئی بڑے بڑے بانس کو ملا کر کھڑا کیا جاتا اور رسیوں سے مسجد کے مینار
پر باندھ دیا جاتا جس میں لال اور ہری بتیاں لگی ہوتیں ۔ ہری بتی افطار کا وقت ہونے
پر جلتی۔ جب کہ لال بتی انتہاے سحری کے وقت جلتی۔ ہم بچے اس لائٹ کو دیکھنے کے لئے
بہت بے قرار رہتے خصوصا شام میں ہری بتی جلنے کا بڑی بے صبری سے انتظار رہتا اور جیسے
ہی ہری بتی جلتی ایک شور ہوتا ’’ بتی جل گئی روزہ کھولو‘‘۔
مجھے یاد پڑ
ا رمضان کا مہینہ آتا تو پورے علاقہ میں ایک جشن کا سا ماحول ہوتا ۔حالانکہ ایسا اب
بھی ہوتا ہے لیکن آج کل کی تیز رفتار زندگی میں وہ روحانی منظر کہاں دیکھنے کو ملتا
ہے۔ ہم بچوں میں تلاوت کلام مجید کا کمپٹیشن ہوا کرتا تھا ۔ کون کتنے پارے روزانہ پڑھتا
ہے ،اور یوں اس کمپٹیشن کی بدولت ہم کئی کئی مرتبہ قران مجید ختم کر لیا کرتے تھے
۔
یوں تو گھر
میں پورے رمضان ہی اچھے اچھے پکوان اور قسم قسم کی ڈشیں بنتی اور آس پڑوس میں بھجوایا
جاتا لیکن جس دن محلہ سے باہر اور رشتہ داروں کو افطار بھجوانا ہوتا اس دن سب دو پہر
سے ہی بھڑ جاتے۔ کیا باجی ، امی ، ابو بھی اپنا شوق پورا کرنے میں پورے انہماک سے جٹ
جاتے، ابو کو کھانا پکانے اور کھانے کا بڑا شوق تھا، اور یہ شوق الحمد للہ اب بھی جوان
ہے ۔ مختلف قسم کے پکوان بنائے جا رہے، پکوڑیاں، پھلواریاں، سموسے، سنگھاڑے، آلو چاپ
، انڈا چاپ ، گگھنی ، چھلکا روٹی ، دُھسکا ، پُوا ٹکیاں اور نہ جانے کیا کیا ۔ اب تو
صرف اس کی یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں ۔ دیہاتوں میں افطار تقسیم کرنے ، اور خصوصی طور
پر غرباء کا خیال رکھنے کا بڑا رواج تھا ، یہ چیزیں شہروں میں کم ہی دکھائی دیتی ہیں
۔یہاں تو ایک فلیٹ والے کو بغل والے فلیٹ کے بارے میں پتہ نہیں رہتا۔
ان ہی دنوں
کی بات ہے یہ میرے ضدی پن کی وجہ سے ہوا تھا ، جس کا نشان اب بھی باقی ہے ۔ افطار سے
تھوڑا پہلے کا وقت تھا، میرا چھوٹا بھائی یا بہن
مجھے اچھی طرح یاد نہیں ہاں اتنا
یاد ہے کہ امی اس سے دق ہو رہی تھیں ۔ میں سامنے ہی تھا امی نے کہا :’’کچھ نہیں کر
رہے ہو تو کم از کم بچے کو ہی باہر لے کر جاؤافطار کے وقت آنا‘‘۔ ہم غصہ سے بچہ کو
لیکر باہر نکلے۔افطار کا وقت ہو گیا لیکن ہم گھر نہیں گئے ابو نے یکے بعد دیگرے گھر
کے تقریبا ًٍہر فرد کو بلوانے کے لئے بھیجا۔امی ، بھیا ، بڑی آپا ، اس سے چھوٹی والی
آپا ، چھوٹا بھائی ، چچا ، لیکن صاحب مجال ہے چھوٹے میاں اپنا غصہ توڑ دیں ،میں نے
تو جیسے قسم کھا لی تھی گیا ہی نہیں۔
تھوڑی دیر بعد
ابو خود آئے، انتہائی غصہ کے عالم میں اور مجھے ساتھ لے کر گئے جہاں دسترخوان پر افطاری
سجی تھی ۔ابھی ہم اندر گئے ہی تھے کہ آذان
ہو گئی میں روزے سے تھا لیکن غصہ کی وجہ سے میں نے کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا ۔امی
نے کہا ’’روزہ مکروہ ہو جائے گا اور دن بھر بھوکے پیاسے رہنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا
‘‘ لیکن نہیں۔ سبھوں نے بڑی کوشش کی لیکن نہیں ۔ اب بڑے میاں کی باری تھی ان کے ہاتھ
میں گلاس تھا ۔انھوں نے کہا اگر تین گننے تک نہ لیا تو گلاس چلا کے مار دوں گا۔ لیکن
ہم بھی تو ضدی باپ کے ضدی بیٹے تھے ۔ نہ لیا اور پھرگنتی شروع ہوئی ایک ۔۔۔دو۔۔۔ تین
۔۔۔اور یہ کیا انھوں نے سچ مچ گلاس چلا دیا ،بھن۔۔۔ اسٹیل کا بھاری گلاس تیز اسلحہ
کی طرح ۔ناک کے نچلے حصہ کو کاٹتا ہوا نکل گیا۔خون کا فوارہ ابل پڑا ۔ مجھ سے زیادہ
امی نے رونا دھونا شروع کر دیا ۔ فورا ًہاسپیٹل لیکر گئے ۔اور علاج و معالجہ شروع ہوا۔
اس وقت مجھ سے زیادہ بڑے میاں کی حالت خراب تھی ۔
بعد کو جب چوتھی
کلاس میں مجھے ہاسٹل میں داخل کرایا گیا۔ تب
ایک مدت بعد گھر لوٹنے کا اپنا ہی مزہ ہوتا تھا۔ خوب آو بھگت ہوتی لیکن جیسے جیسے
رمضان ختم ہونے کے دن آتے، اور عید کی گونج سنائی دیتی ۔ ہمارے دل پرآ ریاں چلنا
شروع ہو جاتیں کہ اب چھٹیاں ختم ہوتے ہی ہاسٹل واپس جانا پڑے گا ،دل کرتا کہ یہ رمضان
کا مہینہ ختم ہی نہ ہو ۔جیسے جیسے عید قریب آتی جاتی ، گھر چھوڑنے اور سب سے جدائی
کا غم ستانا شروع کر دیتا ۔ کھانا پینا کچھ بھی اچھا نہ لگتا تھا یاد کرتے کہ پھر مدرسہ
جانا پڑے گا ، اور دل ہی دل میں کڑھتے کہ پھر وہی تنہائی ہوگی ، وہی ظلم ہوگا اور باقی
رہ جائیں گی صرف یادیں ۔
نوٹ : میں محترمہ
کو ثر بیگ صاحبہ کا ممنون ہوں جنہوں مجھے رمضان سے جڑیں بچپن کی یادیں قلمبند کرنے
کی تحریک دی۔
3 تبصرہ جات:
بہت شکریہ بھائی آپ نے اس بہن کا مان رکھا اور اپنی یادیں ہم سب سے شیئر کی
سچ میں پہلے مہمان بھی گھر میں آتے تو انہیں کلمے سورے پڑھ کر سنانی پڑھتی تھی شرمندگی سے بچنے مقابلہ سے یاد کروائی اور کری جاتی تھی ۔ بہت اچھا ماحول ہوا کرتا تھا ،کتنی تیزی سے وقت بدل گیا ۔
اچھا تو ہمارے بھائی صاحب اتنے ضدی بچے تھے ۔کہتے ہیں ضدی بچے بڑے ہوکر کامیاب زندگی گزارتے ہیں ۔۔اللہ پاک دنیا اور آخرت کی ہر ہرموڑ وجگہ پرہمیشہ کامیابی عطا کرے۔
بہت عمدہ تحریر ہے۔ خاص کر سرخ و سبز بتیوں کی روائیت۔ واقعی ہر جگہ کی اپنی اپنی روایات ہیں۔ مزہ آیا پڑھ کر۔
"روزہ رکھے ہو؟"
"ہاں رکھا ہوں"
حیدرآبادی لب و لہجے کی تحریر نے خوب مزا دیا۔ شکریہ
ایک تبصرہ شائع کریں