پیر، 8 ستمبر، 2014

اگر سچ مچ "ملی گزٹ " ڈوب گیا تو !



ہواؤں سے الجھتی روشنی کو اعتبار کامرانی کون دے گا 
محمد علم اللہ اصلاحی 
ابھی حا ل ہی میں معروف انگریزی جریدہ ملی گزٹ کے تازہ شمارے میں یہ خبرآئی ہے کہ تقریبا 14 برسوں سے شائع ہو نے والایہ اخبار بند ہونے والاہے۔
اخبار کے مدیر ڈاکٹرظفرالاسلام نے صفحہ اول پرقارئین کو بڑی خبرسناتے ہوئے اپنی پریشانیوں کا ذکر نہایت مفصل انداز میں کیاہے،جس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ" ملی گزٹ"اور"مدیر ملی گزٹ"نے مرحلہ وار سطح پرپریشانیوں اور دشواریوں کا طویل سفر طے کیاجس کے بعدہی یہ فیصلہ سامنے آیا۔اس ضمن میں مدیر ملی گزٹ لکھتے ہیں: 
" موقر قارئین کو یہ بتاتے ہوئے مجھے انتہائی افسوس اور مشکل مرحلہ درپیش ہے کہ ہم نے ملی گزٹ کے پرنٹ ایڈیشن کو نہ چاہتے ہوئے بھی ایک طویل عرصہ کے بعد کلی طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔آنے والے 15اکتوبر کا رسالہ آخری ہوگا۔۔۔جب 2000میں اس اخبار کے اشاعت کی ابتداکی توسوچا تھا کہ دو تین سال میں یہ خودکفیل بن جائے گا اور اس کو ہفتہ وارکر دیا جائے گا اور اسے ملت سے دلچسپی رکھنے والی قابل اعتمادٹیم کے حوالہ کر دیا جائے گا۔ اخبارمیں میری حیثیت محض ایک نگراںکی ہوگی۔میں ابتدائی دو تین سال میں اخبار کے اخراجات برداشت کرنے اور اپنی خدمات دینے کیلئے بھی پوری طرح آزاد تھا۔مگر ان تمام تر قربانیوں اور اخبار کو ملنے والی کامیابیوں نیز ملی گزٹ کو ملنے والے وقار و اعتبار کے باوجود اخبارملکی و عالمی پیمانے پروہ مرتبہ صحیح معنوں میں حاصل نہیں کر سکا جس کا وہ اہل تھا۔ہمارا خیال تھا کہ قوم سے وابستہ افراد اس کی زیادہ سے زیادہ کاپیاں خریدیں گے اور اشتہارات کے ذریعہ اس کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں گے۔لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور نتیجہ کے طور پر ہم اعلی درجہ کے صحافی اور وقائع نگار نہیں رکھ سکے، جب کہ ایڈیٹنگ کے علاوہ بس مجھے اسٹوری لکھنا ،صفحہ سازی ، یہاں تک کہ بسا اوقات اخبارکی تزئین اور ترتیب کی ذمہ داری بھی میرے سر پر آن پڑی۔اور میرا سارا وقت اسی میں لگنے لگا۔ حالانکہ ایک محقق اور ریسرچ اسکالرکے طور پر میرے وہ تحقیقی اور علمی کام پڑے کے پڑے ہی رہ گئے جو میرے منصوبے میں شامل تھے۔اس ذمہ داری میں میرے علاوہ میرے خاندان کے کم از کم دوافرادبھی بغیر معاوضہ کے کام کرتے رہے۔ میرا گھربھی آہستہ آہستہ ملی گزٹ ہاؤس میں تبدیل ہو گیا اور اس کی پرانی کاپیاں اور کاغذات جمع ہونے کی وجہ سے الماریاں بھر گئیں۔۔۔"
 میں نے یہاں اخبارِمذکور کے مدیر کی تحریر کی محض چندسطروں کا ترجمہ پیش کیا ہے ، ورنہ پورا مضمون دل و دماغ کو جھنجھوڑ کررکھ دینے والا ہے۔اس مضمون کو پڑھنے کے بعد خود مجھ پرکیا گذری ،میں اپنے جذبات کویہاں بیان نہیں کرنا چاہتا۔مجھے زیادہ افسوس اس وقت ہوا جب میرے چند احباب نے مجھ سے کہا کہ یہ محض چندہ بٹورنے کا ایک حیلہ ہے۔ میں ذاتی طور پر ڈاکٹر صاحب کی تربیت میں رہا ہوں۔ کئی مرتبہ مجھے ان کی معیت میں سفر کرنے اور ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں سے برابر فیضیاب ہونے کا موقع ملتا رہا ہے۔ان دنوں بھی ان کی نگرانی میں ایک تاریخی دستاویز پر کام جاری ہے اور ہر دن کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کو مل رہا ہے۔ میں خود اس ادارے سے دو سال تک وابستہ رہا ہوں اس لئے اس ادارہ کے اچھے برے حالات سے بھی واقف ہوں۔ اپنے احباب کی اس طرح کی باتوں سے مجھے جب اتنی تکلیف ہوئی تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان تمام مراحل میں خود مدیر محترم نے کتنی اذیتیں براشت کی ہوں گی۔
 میرے چند احباب نے اس مضمون کو اپنے فیس بک کی ٹائم لائن پر بھی لگایا ہے اور اس پر مثبت و منفی دونوں قسم کے تبصرے آ رہے ہیں۔ بحیثیت ایک مسلم ریسرچ اسکالر وصحافی مجھے اس خبر سے جو صدمہ پہنچا اسے میں بیان نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اس طرح کے صدمہ سے اور بھی بہت سارے لوگ دو چار ہوئے ہیں۔
ملی گزٹ کے سرکولیشن مینیجر کوثر عثمانی نے مجھے  بتایا کہ کولکاتہ سے اخبار کی خریداری کیلئے ایک خاتون نے فون کیا اور جب ہم نے انھیں یہ اطلاع دی کہ اب سبسکرپشن ہم نے بند کر رکھی ہے تو ان کی حیرانی کی انتہا نہ تھی۔ خاتون کا بیان تھا کہ اس خبر سے مجھے ایسا لگا جیسے سچ مچ میرے کسی انتہائی عزیز کا انتقال ہو گیا ہے ، جذبات پر وہ قابو نہ رکھ سکیں اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں۔ اس سلسلہ میں میں نے خود مدیر محترم سے بات کی تو گرچہ وہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دے رہے تھے جو ان کاعام شیوہ ہے لیکن ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ انھیں بہر حال اس کا غم ہے۔ اور غم کیوں نہ ہو جس کو انہوں نے چودہ سال تک اپنے خون جگر سے صرف قوم کی محبت اور خدمت کے جذبہ سے انتہائی مختصر ٹیم کے ساتھ بے سرو سامانی کے عالم میں شروع کیا تھا، اپنوں کی بے رخی اور غیروں کے ستم نے ایک قدم بھی آگے بڑھنے نہ دیا۔ اپنوں کے طعنے توبرابر ملتے ہی رہے وہیں آئے دن دھمکی بھرے ای میل اور فون کا ایک اضافی سلسلہ بھی جاری رہا لیکن اسے بہر حال ہمت اور حوصلہ سے ہی تعبیر کرنا پڑے گا کہ انھوں نے نامساعدحالات کے باوجود اتنا لمبا عرصہ طے کیااور سچ تو یہ بھی ہے کہ 'ملی گزٹ' کی اشاعت کا یہ طویل سلسلہ مدیر'ملی گزٹ 'کی عالی ہمتی ،حوصلہ مندی اور نیک نیتی کے نمونہ کی صورت میں جاری بھی رہا۔ اللہ تعالی یقینا انہیں اس کے اجر سے نوازے گا۔
ایک ایسے اخبار کا بند ہو جانا مسلمانان ہند کے لئے شرم اور عار کی بات ہے۔وہ بھی ایسی صورت میں جب کہ ہندوستانی مسلمان لاکھوں بلکہ کروڑوں روپئے رشوت ، شادی ، دکھاوا، شہرت اور غیر ضروری و غیر اسلامی چیزوں میں ضائع کر دیتے ہیں انہیں کبھی یہ خیال نہیں گذرتا کہ وہ ایسے سنجیدہ اور علمی کام میں بھی کچھ خرچ کر لیا کریں۔ انگریزوں کے ذریعہ جاری کردہ اخبارات 'ٹائمس آف انڈیا' ، 'ہندوستان ٹائمس'، 'دی پاینیر '، 'ٹیلی گراف' اور دوسرے کئی اہم جریدے آج بھی شان سے نکل رہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ انہیں کارپوریٹ گھرانوں نے خرید لیا  ہے۔مگر ان کی حیثیت اور اہمیت آج بھی برقرار ہے۔ اس کے بر عکس جب ہم مسلمانوں کے ذریعہ جاری کردہ اخبارات پرنظرڈالتے ہیں تو مایوسی ہی ہاتھ آتی ہے۔
 آخر کیا وجہ ہے کہ ملت اسلامیہ ہندکے افراد یا انجمن کے ذریعہ نکالے گئے اخبارات کی اشاعت کا سلسلہ جاری نہیں رہ پاتا۔ کوئی بھی اخبار دو چارسال سے زیادہ عرصہ تک شاید ہی نکل پایا ہو۔ رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر نے انتہائی دکھ کے ساتھ کہا تھا کہ:
"مسلمانوں کی مفت خوری نے مجھے کامریڈ بند کرنے پر مجبور کیا "۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ آزادی سے قبل صحافت کی دنیا میں' کامریڈ' یا 'زمیندار'کا کیا مقام تھا بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انگریزحکومت کسی اخبار یا رسالہ سے خوف کھاتی تھی تو وہ ایسے ہی اخبارات تھے  اور اسی وجہ سے انھیں بار بار ضبط کیا جاتا اور انھیں ہراساں کیا جاتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ان بزرگوں نے وہی لکھا اور شائع کیا جو صحافت کا بنیادی تقاضا تھا۔ اس حق گوئی کے سبب ان اخباروں کے ذمہ داران کو جیل بھی جاناپڑا ،ان کی جائیدادیں قرق بھی کی گئیں ،یہ لوگ دیوالیہ بھی ہوئے مگر اس کے باوجود حق سے منہ نہیں موڑا۔ لیکن ان کی بس ایک ہی مجبوری تھی جس کا انھوں نے کئی مرتبہ اظہار بھی کیا تھا۔ وہ تھی اخبار کیباب میں مسلمانوں کیبے گانگی آمیز بے نیازی جس کے باعث ایسے مضبوط اور توانا اخبار کو بھی بند کرنا پڑا۔
 ایک ایسے عہد میں جبکہ میڈیاکوضروریات زندگی کا لازمی حصہ تصور کیاجارہاہے،یہ تحقیق اور ریسرچ کا موضوع ہے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ "مسلم میڈیا"کا دائرہ سمٹتا جا رہاہے؟ اس سے قطع نظراس بات کا ذکر کیے بغیر بھی ہم نہیں رہ سکتے کہ بہت سے لوگوں نے اخبارات خصوصا انگریزی اخبار نکالنے کے نام پر قوم کو گمراہ کرنے اور لوگوں کوٹھگنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ہے۔اردو میں مسلم صحافت چھوڑ کر، کمیونٹی سے وابستہ افراد نے گزشتہ سو سال سے ایک مضبوط اور معیاری انگریزی اخبار نکالنے کے لئے بہت ہاتھ پاؤں ما رے ہیں۔
مولانا محمد علی جوہر (1876-1931) کامریڈ اور محمد علی جناح (1876-1948)کی سرپرستی میں 1941 میں دہلی سے ڈان شائع ہوا تھا۔جس میں کامریڈ بمشکل 3 سال، 1911-14تک جاری رہ سکا۔ جبکہ ڈان آزادی کے بعد محمد علی جناح اپنے ساتھ پاکستان لے گئے۔اور کئی تاریخی شواہد کے مطابق اگست 1947 اور ابتدائی 1950 کے درمیان، مسلم مسائل پر آواز اٹھانے کے لئے ان کا کوئی انگریزی  پریس نہیں تھا۔ 1950سے 1960کے درمیان صرف دواخبارات ایسے تھے جو مسلم مسائل سے دلچسپی رکھنے والے مسائل کا احاطہ کرتے تھے ایک کلکتہ کا 'وکٹر کرٹیز'جو ایک بیلجئیم کیتھولک کا تھایہ اخبار1955سے 1960تک جاری رہا۔دوسرا ا نڈین یونین مسلم لیگ کا 'سیرت 'جو 1960مدراس سے شائع ہونا شروع ہوا تھا۔ خود قومیت کا دعویٰ کرنے والی ملک کی معروف تنظیم جمعیۃ علمائے ہندنے ایک انگریزی اخبار شروع کرنے کے لئے 1960 میں 6 لاکھ روپے جمع کئے لیکن مقصد کو پورا کرنے میں ناکام رہی۔اور اخبار آج تک نہیں نکل سکا۔ قوم کے ذریعہ دی گئی رقم کس کے جیب میں گئی؟ کس نے اس سے فائدہ اٹھایایا قوم کو اس سے کیا فائدہ پہنچا، آج تک معلوم نہیں ہو سکا۔ 
جماعت اسلامی ہند کے تحت 1963 سے نکلنے والے ہفت روزہ انگریزی جریدہ "ریڈینس" کی کیا حالت ہے،اس اخبارکوپڑھنے والے افراد بخوبی جانتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ 60کی دہائی تک اس اخبار نے قوم کی اچھی رہنمائی کی ہے اور اس کے ذریعہ قوم کو معیاری مضامین اور تبصرے و خبریں پڑھنے کو ملے لیکن فی زمانہ وہ محض جماعت اسلامی کا ایک ترجمان بن کر رہ گیا۔اس احساس کے زیراثر سید شہاب الدین نے جو ایک ریٹائرڈ آئی ایف ایس افسر اور سیاستدان ہیں ، 1983 میں "مسلم انڈیا" نکالالیکن یہ بھی بہت جلد قوم کی بے حسی کے حصار میں چھپ گیا۔ 1989کے آ س پاس سید حامد نے بھی اخبار نکالنے کیلئے لاکھوں روپئے جمع کئے۔جس کے ممبران میں سید حامد کے علاوہ حکیم عبد الحمید اور ڈاکٹر اشتیاق قریشی جیسی شخصیات شامل تھیں۔اور جسے مولانا ابوالحسن علی ندوی کی سفارش پر عرب ممالک سے ایک خطیر رقم عطا کی گئی تھی تا کہ اس رقم کے ذریعہ اخبار نکالا جائے۔اور جو رقم بعد میں بنگلور کے سعادت اللہ خان کے پاس ودیعت رکھی گئی کہ اس سے انٹرنس کی شکل میں حاصل ہونے والی رقم سے اخبار کو جاری رکھنے میں مدد مل سکے گی۔ایسا نہیں ہے کہ وہ اخبار نہیں نکل رہا ہے لیکن اس نے کس حد تک اس خلا کو پورا کیا ہم واقف ہیں۔ آج بھی نویڈا سے یہ اخبار ناتجربہ کار افراد کے ہاتھوں نکل رہا ہے ،معیار اور میڈیا کی دنیا میں اس کی حیثیت کی بات ہم نہیںکہیں گے۔
بنگلور کے "اسلامک وائس" میں زیادہ تر مضامین اسلامیات اور حج و زکوۃ ونماز سے ہی متعلق شائع کئے جاتے ہیں۔ یعنی اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس کی نوعیت محض ایک ثقافتی جریدہ کی ہے۔ 
اسی طرح کلکتہ سے نکلنے والا 'ایسٹر ن کریسینٹ 'یا اس جیسے اخبارات کا معیار کیا ہے، اس سے بھی سبھی واقف ہیں۔ ویسے بھی آزادی کے بعدانگریزی زبان میں مسلمانوں کی ترجمانی کا فریضہ انجام دینے والا کوئی ایک اخباربھی ایسا منظرعام پر نہ آسکاجو مسلمانوں کے جذبات و احساسات کی ترویج و تشہیر کو یقینی بنائے۔ایسے میں ملکی و غیر ملکی میڈیا کے ذریعہ کس طرح مستقل طور پرمسلمانوں کے تعلق سے منفی اندازمیں خبریں شائع کی جاتی رہی ہیں،یہ کسی سے بھی مخفی نہیں ہے۔ چناںچہ اس ماحول میں ایسے اخبار ات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی رہی ہے جو میڈیا میں مسلمانوں کے مثبت رجحانات کو فروغ دے سکیں۔ لیکن ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان کی مسلم امت میڈیا کے اس دائرۂ کار کو توسیع نہ دے سکی۔ایسے ستم ظریف ماحول میں ملی گزٹ کی اشاعت کی موقوفی کی خبرمسلمانوں پر بجلی گرجانے کے مترادف ہی کہلائے گی۔
 اس کے باوجود ہماری بے حسی کا عالم یہ ہے کہ قوم کی ترجمانی کرنے والا زندہ اور سطرسطر بولنے والا ایک معیاری اور پرانا اخبار بندہو جانے کا اعلان کرتا ہے اور ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ہے۔ ہمارے ایک انتہائی عزیز دوست اور صحافت و ادب سے دلچسپی رکھنے والے نوجوان، جو خود بھی 'تعمیرنیوز' کے نام سے ایک نیوز پورٹل چلاتے ہیں، نے بجا طور پر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی فیس بک وال پر لکھا ہے :
'ہماری قوم چٹ-پٹی خبروں ،مسالا فوٹوز والے انگریزی اخبار دس روپئے دے کر بھی ضرور خریدے گی مگر اپنی قوم کی درست خبریں دینے والا اخبار مذہبی رشتہ داری کے ناطے مفت وصول کرنا چاہتی ہے'۔
 ایک اور عزیز شیخ احمد علی کے بقول :
' اب وہ مزید نقصان نہیں اٹھائیں گے۔ ہماری قوم کے زیادہ تر لوگ اور تنظیمیں ساری ہی چیزیں مفت حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ میڈیا گھرانے اخبار کے لئے سرمایہ لگاتے ہیں معلومات اکٹھا اور حاصل کرنے کیلئے، لیکن سبھی اس سے فائدہ محض مفت میں حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اگر آپ ان سے پیسوں کا تقاضا کر دیجئے تو لڑنے بھڑنے کیلئے تیار ہو جائیں گے۔'
ان عزیزوں کی بات میں سچائی ہے یا نہیں یہ قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔آج ہندوستان کے تمام اقلیتی فرقے اپنی نمائندگی کیلئے اخبارا ت و رسائل شائع کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کے ذریعہ شروع کئے گئے اخبارات یا تو کلیتاً دم توڑ چکے ہیں یا کارپوریٹ گھرانوں کی خیرہ کر دینے والی چمک نے انہیں شکار بنا لیا گیا ہے ،کچھ ہیں بھی تو ان کی حیثیت پانی میں بلبلے کی سی ہے۔ زیادہ تر کی حیثیت جذباتیت یا احتجاجات تک محدود ہے تو کچھ دوسرے اسلام دشمن عناصر کے ہاتھوں کاکھلونا بنے ہوئے ہیں جو انہی سے اپنی قوم کے خلاف زہر اگلواتے ہیں اور وہ آنکھ موند کر اپنے آقا کی ہم نوائی میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔
 جہاں تک اردو اخبارات کی بات ہے تویہ کہاجاسکتا ہے کہ بہ ظاہر ملک کے ان تمام علاقوں سے جہاں اردو پڑھی اور لکھی جاتی ہے، یہ اخبارات شائع ہوتے ہیں لیکن ان میں ملت کی ترجمانی والی خصلتیں کم ہوگئی ہیں اور جذبات نگاری کا غلبہ ہے۔
خاص بات یہ بھی ہے کہ ملت کا دردرکھنے والے لوگ اب اردو کا بڑا اخبار نہیں چلارہے ہیں بلکہ کارپوریٹ گھرانہ کہلانے والے کم از کم دو اداروں نے نہایت تیزی کے ساتھ اردو ذرائع ابلاغ کی دنیا میں قدم رکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے اْن کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلاگیا۔ کارپوریٹ اداروں کے اِن اردو اخبارات سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اسلامیان ہند کے مفادات کے تحفظ کا فریضہ انجام دیں گے۔ ملک کے طول وعرض سے نکلنے والے دوسرے بڑے اردو اخبارات کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اْن کے مالکان کسی مخصوص جماعت یا لیڈرکے ہاتھوں کا کھلونا ہیں جن کو مسلمانوں اور ان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ ان کیلئے ان کا اپنا مادی مفاد اور حکو مت اور ان کے آقاؤں کے مفادات کاتحفظ زیادہ عزیز ہوتاہے۔ حالاںکہ یہ اخبارات ہمیشہ اور ہر آن امت کی بے بسی کا رونا روتے نہیں تھکتے۔ 
بہرحال ایسے اخبارات جو صحیح معنوں میں قوم کی ترجمانی کرتے رہے ہوں، ان کے بند ہونے کے وجوہ پر غورکرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر مسلمان ہونے کی حیثیت سے آپ صحافت کو بھی اسلامی رنگ دینا چاہیں گے ، جھوٹی، پروپیگنڈہ پر مبنی خبروں کی اشاعت سے گریز کا راستہ اختیارکریں گے، زرد صحافت سے سروکار نہیں رکھیں گے تو ایسے میں کسی بھی اخبار کا چلانا بہر حال محال ہو جائے گا۔ آخرت پر یقین رکھنے والا اور خدا تعالی سے ڈر نے والاکوئی بھی شخص منفی طرز فکراختیار نہیں کرے گا ، گمراہ کن خبروں کو اہمیت نہیں دے گا ،چاپلوسی اور کاسہ لیسی کاشعاراختیار نہیں کرے گا،فحش اور شہوت انگیز اشتہارات کی اشاعت سے دامن بچائے گا۔ظاہر سی بات ہے کہ ایسا کیا جانا اخبارات کیلئے مصیبتوں اور پریشانیوں کاپیش خیمہ اْسی طرح ثابت ہوگا،جس طرح آج 'ملی گزٹ 'اور اْس کے ' مدیر 'کی پریشانی ہماری گفتگو کا موضوع ہے۔
ایک کامیاب اخبار کی اشاعت اور اس کی ترویج و ترقی اْسی وقت ممکن ہوسکتی جبکہ اْس کی پشت پر 'درد مند دل 'رکھنے والے' ملت دوست' افراد عملاًکھڑے ہوں اور قوم مسلم کی آوازکو طاقت بخشنے اسے سجانے ، سنوارنے اور اس کی شبیہ بنانے کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پراْٹھائیں۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ اگر آپ اس پر دھیان نہیں دیں گے تو آپ کاآشیانہ بکھرجائے گا ، گر جائے گا ،ختم ہو جائے گا۔ اس کو باقی رکھنے کے لئے آپ کو ہی تگ و دو کرنی ہوگی۔
 مجھے یاد پڑتا ہے میں نے کہیں پڑھا تھا۔ مولانا محمد علی جوہر کے "ہمدرد" کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا اور جب مولانا کی ہمت جواب دے گئی تو انھوں نے قوم کے نام ایک خط لکھ کر اسے بند کر دینے کی بات کہی تھی۔ لیکن قوم نے اس اخبار کو بند نہیں ہونے دیا اور ہمدرد کے نام اس قدر منی آرڈر قوم کی جانب سے بھیجے گئے کہ کئی کئی ہفتے ان کے منشی منی آڈر وصول کرتے کرتے تھک گئے لیکن اس کے باوجود اخبار محض دو سال یا اس سے بھی کم عرصہ چل سکا۔
کیا موجودہ ہندوستان کی مسلم قوم بھی ایسا کرے گی؟ ان کے رویہ کو دیکھتے ہوئے بظاہر ایسا نہیں لگتا لیکن یہ ناممکن بھی نہیں۔حالانکہ 'ملی گزٹ' کے مدیر نے لکھا بھی ہے کہ اگر اخبارہذا کاسرکولیشن ایک لاکھ ہو جائے تو اخبار کے احیا کی اْمیدکی جا سکتی ہے۔جس ملک میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 177 ملین ہو،وہاں اس ٹارگیٹ کو پار کرنا کوئی مشکل معاملہ نہیں ہے۔ سانحہ سے قبل اسے بچانے کی کوشش کی جانی چاہئے کہ یہ نہ صرف ہماری آوازہے بلکہ دنیابھر میں ملت اسلامیہ ہند کی ترجمانی کا بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔
اور حقیقت یہ بھی ہے کہ "ملی گزٹ"ایک تاریخی دستاویز کی فراہمی کا سامان بھی ہے جس سے کل کا مورخ ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ لکھ سکے گا۔
معروف ماہر لسانیات اورمفکر 'نوم چومسکی 'نے ملک 'میکسیکو 'کے ایک دورے سے واپس لوٹنے کے بعد 2009میں تحریر کئے گئے اپنے ایک سفرنامہ میں وہاں کی ایک چھوٹی سی کمیونٹی کے ذریعہ جاری کردہ ایک انگریزی اخبار 'لاجورناڈا'کا ذکر کرتے ہوئے مذکورہ اخبار اور اس اخبار کے ذمہ داران اور اس کمیونٹی کی تعریف کرتے ہوئے اسے دنیا کے لئے ایک آئیڈیل قرار دیا تھا۔ نوم چومسکی کی تحریر کا وہ حصہ یہاں دہرائے جانے کے قابل ہے۔
نوم چومسکی نے لکھا تھا کہ 1984میں جاری ہونے والے اس اخبار نے انتہائی کم مدت میں وہاں سے نکلنے والے اخبارات میں اول مقام حاصل کر لیا ،یہی نہیں بلکہ اس اخبار نے اپنی خبروں ، تبصروں اور تجزیوں سے وہاں کی حکومت کو بھی ہلا کر رکھ دیا اور بسا اوقات تو ایسا ہوا کہ حکومت کو بھی اس اخبار اور اس کے ذمہ داران کی پالیسی کے موافق فیصلہ طے کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
 نوم چومسکی نے لکھا ہے کہ جب یہ اخبار اپنی 25 ویں سالگرہ تقریب منا رہا تھا تب تقریب کے دوران اس کے بانی سربراہ کارلوس پیان نے بتایا کہ اخبار کی شروعات کے وقت تقریباً 800 متوقع سرمایہ کار وارد ہوئے تھے  اور انہوں نے ہزار پیسا (76  امریکی ڈالر) فی حصص کے طور پر شراکت کی۔ ان شراکت داروں میں اسی کمیونٹی کا  'کارلوس سلم' بھی موجود تھا  جو آج دنیا کا تیسرا امیر ترین شخص ہے مگر اس وقت وہ  ایک معمولی سا سرمایہ کار تھا۔  علاوہ ازیں میکسیکو کے دو مشہور مصور 'رفینو تمایو' اور 'فرانسسکو ٹولیڈو' نے اپنی بیش قیمت تصاویر کے ذریعے 'لاجورناڈا 'کے اصل سرمائے میں انمول اضافہ کیا۔اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والا ہر شخص اس اخبار کو خرید کر پڑھتا ہے۔بڑی تعداد میں کمیونٹی کے لوگ اشتہارات دیتے ہیں۔اس کا نتیجہ ہے کہ یہ اخبار اپنے پاؤں پر کھڑا ہے اور وقتا فوقتا کئی رفاہی کام بھی انجام دیتا رہتا ہے۔چنانچہ 1989میں 'میکسیکو' میں جب وہاں زلزلہ آیا تو اس اخبار نے تقریبا 30ہزار زندگیوں کی بازآبادکاری میں نمایاں کردار ادا کیا۔
نوم چومسکی نے لکھا ہے اس اخبار کو دیکھنے کے بعد مجھے اور میرے ساتھیوں کو اپنا یہ خیال بدلنا پڑا کہ اخبارات محض کارپوریٹ گھرانوں کے مرہون منت ہوتے ہیں۔
 اس اخبار کی بابت نوم چوسکی کی کن کن باتوں کا تذکرہ کیا جائے کہ انھوں نے تو اس پر پورا ایک مضمون تحریر کیا  ہے جو پڑھنے کی چیز ہے اور ایک زندہ اور متحرک قوم یعنی اہل اسلام کو جھنجھوڑتا ہے کہ ان کی تو اولین ذمہ داریوں میں سے ایک یہی تھی کہ وہ حق اور سچ کو صحیح ڈھنگ سے لوگوں تک پہنچانے کے لئے زیادہ فعالیت کا مظاہرہ کر تے لیکن ان کا رویہ قابل افسوس ہے۔
 کیا مسلم قوم بھی 'میکسیکو ' کی اس کمیونٹی کی طرح بیدار ہوگی ؟ اپنی آواز کو تقویت بخشنے کے لئے کچھ کرے گی ؟ اس پر یقینی طور سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔لیکن بہر حال یہ امید ضرور رکھی جا سکتی ہے کہ مسلمانان ہند ایک زندہ اور متحرک قوم ہونے کا ثبوت حقیقی معنوں میں پیش کریں گے اور عملی قدم اٹھاتے ہوئے ایک ایسی تحریک کا بھرپور ساتھ دیں گے جو ہندوستان میں عملی طور پر ان کے وجود کو منوا سکتی ہے،حکومتوں کے ذریعہ ان کے فیصلے تبدیل کروا سکتی ہے اور ان کے مسائل کو دنیا کے سامنے مضبوطی کے ساتھ پیش کر سکتی ہے۔



۔۔۔مزید