بدھ، 9 جنوری، 2013

سردی کا قہریا حکومت کی بے حسی



                              سردی کا قہریا حکومت کی بے حسی                         
محمد علم اللہ اصلاحی
برف کے بت ہی بنانے میں وہ رہے مصروف
اور  میں  اپنی   جگہ  برف   میں  تبدیل   ہوا
یہ شعردار السلطنت دہلی کے ان غریبوں پر صادق آتا ہے جنھیں اس کڑاکے کی سردی میں سر چھپانے کےلئے چھت،تن ڈھانکنے کےلئے کپڑے اور ٹھنڈ سے بچنے کے لئے کمبل یا لحاف نصیب نہیں ہو سکااور انھوں نے یونہی ٹھٹھر ٹھٹھر کرموت کو گلے لگا لیا۔اس خبر نے اس سے قطع نظر کہ میڈیا میں اسے وہ اہمیت نہیں دی گئی جو دی جانی چاہئے ہر حساس اور انسانیت کا درد رکھنے والے دل کو مضطرب اور بے چین کرکے رکھ دیا ہے۔ایسا ملک کی اس راجدھانی میں ہو رہا ہے جسے لندن ،پیرس اور میکسکو جیسا شہر بنانے کاارباب اقتدار کی جانب سے بار بار عزم و ارادہ ظاہر کیاجاتارہاہے۔ ابھی جب کہ پورا موسم بھی نہیں گذرا ہے، 100 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ یہاں کے سب سے بڑے شفا خانہ” آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز“ میں مناسب انتظام نہ ہونے کے سبب عوام بیت الخلاءمیں رات گذارنے پر مجبور ہیں۔جھگیوں ،جھوپڑیوں اور فٹ پاتھوں میںبے چارے ان غریبوںکی پوری زندگی گذر جاتی ہے، مگرجمہوریت کاچوتھا ستون جسے تل کو پہاڑ بنانے کا ہنربھی بدرجہ اتم آتا ہے ،کی نظر ان پرنہیں پڑتی اوراسی سبب وہ اس پر گفتگو کرنا یاپھر اس قدر’ حساس‘موضوع پرحکومت کی توجہ دلانا مناسب نہیں سمجھتی ۔

ہر موسم کی تبدیلی کے ساتھ مرنے والوں کا نیا اعداد و شمار سامنے آتا ہے۔ یہ اعداد و شمار کبھی سرد لہروں کے ہوتے ہیں،تو کبھی لو کے تھپےڑو ں کے ،کبھی سیلاب اور باد و باراں کے تو کبھی حکومتی لا پرواہی اور بیماری کے لیکن اپنے اپنے آشیانوں میں دبکے ہوئے کول کول’ ایسی ‘اور گرم گرم ’ہیٹر‘ کا مزا لیتے امراء،مصاحب اور انسانیت کے’ مبینہ ‘علم برداروںکو اس کی پراہ نہیں ہوتی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہماری حکومت کی ناکامی اور نا اہلی کو ظاہر کرتا ہے۔ہم نے بڑے بزرگوں سے سنا تھا کہ انصاف پسند بادشاہ رات کو کمبل اور اونی لباس لے کر نکلتے ، تاکہ فٹ پاتھ پر کوئی غریب سردی سے نہ مرے۔لیکن یہ’ احساس ‘جمہوریت کے’ جدید بادشاہوں ‘میں کہاں ہے؟ گاہے بگاہے عدالت کوسرد لہروں سے موت کے اعداد و شمارکا گراف بڑھتے دیکھ کر رین بسیروں اور عوامی الاؤ کا انتظام کرنے کا حکم دینا پڑتا ہے اور حکومت وانتظامیہ کی عام سمجھ والے موضوعات پر بھی عدالت کو ہی پہل کرنی پڑتی ہے۔ اس کے بعد بھی اس پر عدالتی سرگرمی کا الزام جڑ دیا جاتا ہے۔بے گھرو ں اور بے موتوں کی موت سے حکومت اور انتظامیہ کی مایوسی اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ ملک میں ہر سال کتنے بے گھر مرتے ہیں حالانکہ اس کا کوئی باضابطہ سرکاری اعداد و شمار نہیں ہے، پھر بھی یہ خیال کہ سب سے زیادہ اموات گرمیوں میں ہوتی ہیں، پھر برسات میں لوگ بے گھر مرتے ہیں اور جو اس وقت بھی بچ جائے اس کا سامناپئے بہ پئے مار کی طرح سردی سے ہوتا ہے غلط نہیں ہے۔گزشتہ سال بھی ایسے ہی موسم میں سپریم کورٹ نے دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) کے برآمدے کے باہر ٹھٹھرتے لوگوں کی تصاویر دیکھ کر دہلی سمیت تمام ریاستی حکومتوں کو اس بات کی ہدایات دی تھی کہ کسی بھی شخص کی موت سردی سے نہیں ہونی چاہئے مگر لگتا ہے کہ حکومت نے غریبوں کی مفاد کی خاطر کسی بھی حکم کو نہ ماننے کی ٹھان لی ہے تبھی تو لاکھوں لوگ یا تو تنگ جھونپڑیوں میں، یا پھر کسی سہارے کی اوٹ لے کر ٹھٹھرتی ہوئے راتیں گزارنے پر مجبور ہیں۔ پتہ نہیں، ایسا کیوں ہوتا ہے کہ یہ لوگ اکثر ترقی کی اسکیموں میں پیچھے چھوٹ جاتے ہیں۔کسی کو بھر پیٹ کھانا نصیب نہیں ہے تو کسی کو سات پشتوں کی فکر ہے۔آدمی موسم سے نہیں، غربت سے مرتا ہے۔ اقتصادی اصلاحات غریبوں کو اور بھی غریب بنا تے جارہے ہےں ۔ملک کا آئین ہر شہری کو جینے کا بنیادی حق دیتا ہے،ہر شہری کو کھانے کے علاوہ سر چھپانے کےلئے چھت اور تن ڈھانکنے کےلئے کپڑے مہیا کرانے کی بات کہتا ہے لیکن جمہوری ،فلاحی اور رفاہی کا موں کیلئے خود کو وقف رکھنے کاراگ الاپنے والی حکومتیں عملی طور پر اس سمت میں کوئی کارگر قدم نہیں اٹھاتیں اور بے گھر لوگوں کی ضروریات پر ان کی زبان گنگ اور بجٹ تنگ پڑ جاتی ہے ۔

ایک طرف تو کہا جاتا ہے ہندوستان دنیا کی گنی چنی بڑھتی معیشت کی علامت ہے اور دوسری جانب آج تک ہم غریب، بے سہارا آدمیوں کےلئے ٹھیک ڈھنگ سے رین بسیرے تک نہیں بنا سکے؟ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ دونوں کو ان غریبوں کی فکر ضرور ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کے بعد دہلی ہائیکورٹ نے کہا کہ کڑاکے کی اس ٹھنڈ میں ہزاروں بے سہارا لوگ سڑکوں پر راتیں گذارنے کو مجبور ہےں لیکن سرکار اس طرف توجہ نہیں دے رہی ہے۔ عدالت نے ان 84 عارضی نائٹ شیلٹروں کو دوبارہ سے قائم کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ہائیکورٹ نے ماسٹر پلان2021ءکے حساب سے مستقبل کی ضرورتوں کو دیکھنے کیلئے 184 پختہ رین بسیرے بنانے کی بھی ہدایت دی تھی عدالت نے اس سے وابستہ معاملوں میں سبھی ریاستوں کے چیف سکریٹریوں کو بھی سبھی شہروں میں رین بسیروں کے مناسب انتظام کرنے کو کہا تھا۔لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہاں نصف سے کچھ ہی زیادہ رین بسیرے ہیں جو چل رہے ہیں۔ ان میں بھی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔حالات اتنے خراب ہیں کہ بے گھر ہونے کے بعد بھی بہت سے لوگ ان میں آنا پسند نہیں کرتے۔کہنے کو حکومتیں ہر سال میونسپل کارپوریشن اور اورنگرپالیکاؤوں کو لاکھوں کروڑوں روپے رےن بسےرے آپریشن کرنے کے لیے دیتی ہے،مگر یہ رقم کہیں بھی صحیح طریقے سے خرچ نہیں کی جاتی۔مثلا 1985 سے دہلی حکومت ہر سال اپنے بجٹ میں رین بسیروں کےلئے الگ سے 60 لاکھ روپے مختص کرتی ہے لیکن اس رقم کا زیادہ تر پیسہ ملازمین کی تنخواہوں، انتظامیہ اور دیگر مد میں خرچ ہو جاتا ہے۔یقینا یہ المیہ ہی ہے کہ سردی کا موسم بھی غریبوں کےلئے کسی آفت جیسا ہو گیا ہے۔سردی کا موسم بے گھر اور بے سہارا لوگوں کےلئے مصیبت بن کر آتا ہے۔ان کیلئے موسم گرما تو جیسے تیسے فٹ پاتھ پر سوکر کٹ جاتی ہیں لیکن سردی قہر بن کر ٹوٹتی ہے اور ملک کے مختلف مختلف حصوں میں موسم سرما سے ٹھٹھرکر مرنے والوں کی خبریں آنے لگتی ہیں۔

اعداد و شمار اور رپورٹ بتاتی ہے کہ سردی سے مرنے والوں کی تعداد گاؤں کی نسبت شہروں میں زیادہ ہے۔ گاؤں میں روزگار کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے غریب دن بہ دن شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیںمگر شہروں میں ان کے پاس سر چھپانے کیلئے چھت تک نہیں ہوتی۔اور بے چارے موسلا دھار بارش اورخون کو منجمد کر دینے والی سردی حتی کہ تپتی دھوپ میں بھی وہ آسمان تلے رات گزارنے کو مجبور ہوتے ہیں۔امراءواور ملک کے ٹھیکیدارحضرات تو خود گرم ملبوسات‘ حفاظتی تدابیر اور انڈہ‘ مچھلی‘ مرغ اور میوہ جات پر مشتمل غذاںسے اپنے نظام صحت کے گرد مناسب حفاظتی حصار استوار کئے رہتے ہیں لیکن غریب اور مزدور پیشہ افراد اپنی اقتصادی و معاشی ناہمواریوں کے تحت شدید سردی کے ان ایام میں موسم کے برفیلے تھپیڑے سہنے پرمجبور ہوتے ہیں۔ ناکافی لباس اور مطلوبہ لوازم میسر نہ آسکنے کی وجہ سے امراض میں گھرے رہتے ہیں۔شہروںمیں رین بسیرے بنوانے اور دیکھ بھال کی ذمہ داری اورنگرپالیکاؤوں اور مقامی منصبوں کی ہے، لیکن انہیں اس جانب توجہ دینے کی فرصت نہیں۔یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ کہیں رےن بسیروں میں فالتو اشیاءرکھی ہونے کی خبریں آتی ہیں تو کہیں دبنگو ںکے قبضے کی حالت سنائی دیتی ہیں جسے ہٹانے کی پولس اور انتظامیہ بھی ہمت نہیں جٹا پاتی۔کئی کی حالت خود عام لوگوں نے اتنی خراب کر دی ہے کہ غریب تو کیا جانور بھی ان میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔

افسوس کہ سماجی انصاف اور اس کے اصول کی وکالت کرتے ہوئے خوشحال طبقہ اپنی جائیداد کو سماج کے حاشیے پر ڈالے گئے لوگوں کی امانت سمجھنے کی بات تو کرتا ہے مگرحکومت کے ساتھ ساتھ سر مایہ کے پیچھے بھاگنے والے سماج کو بھی اس کا احساس نہیں۔ غریب کو بھی سردی لگتی ہے اور ان کے بچوں کو بھی سویٹر،ہیٹرو لحاف کی ضرورت ہوتی ہے،گرمی میںانہیںبھی پانی ،پنکھا اور کولر کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔کہا تو جاتا ہے کہ ہمیں ایک حساس سماج کا کردار ادا کرتے ہوئے محروم سماج کے دکھ تکلیف کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے مگر ملک میں کمبلوں کی تقسیم صرف پریس نوٹس اور اخبارات میں تصویر شائع کرنے کےلئے زیادہ ہوتی ہے۔ کہا تو جاتا ہے کہ ملک سے غریبی کو ختم کیا جائے گا لیکن غریبی نہیں غریبوں کو ختم کرنے کے اقدامات کئے جاتے ہیں ۔صحیح معنوں میں کوئی شخص خود غریب نہیں ہونا چاہتا۔حالات و وسائل ،بد عنوانی اور سماجی و نسلی ناانصافی اور نا برابری غربت کی تعداد بڑھاتے ہیں۔بے شک کئی دہائیوں سے گونج رہے غریبی دور کرنے کے نعرے کھوکھلے ہی ثابت ہوئے ہیں۔ ان کا مقصد صرف ووٹ جٹانا ہی رہا ہے۔نظام پر لگے بدعنوانی کے داغ کو چھڑانا نہیں۔یہاں پر سوال محض حکومت کی پیشگی تحفظ یا رےن بسےرں تک ہی محدود نہیں ہے۔سوال حکومت کی ان نئی لبرل معاشی پالیسیوں پر بھی کھڑے ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے ہمارے شہروں میں ایسے غریبوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جن کے سر پر نہ چھت ہے، نہ پیٹ میں دانا اور نہ جسم پر لباس۔ سردی سے غریبوں کو بچانے میں اس وقت کامیابی مل سکتی ہے، جب حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کی ترجیحات تبدیل ہوں۔ جل، جنگل، زمین اور اناج سمیت تمام بنیادی ضروریات اور اس سے متعلق پروگراموں کو موثر طریقے سے نفاذکے ساتھ ہی حکومت، انتظامیہ اور سماج سبھی کا فرض بنتا ہے کہ موسم سے جوجھتے ہوئے جان گنوانے والے لوگوں کی مدد کو آگے آئیں۔ صحیح معنوں میںبدلتے موسم سے ہونے والی اموات قومی شرم کی بات ہے جس سے نجات کو اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر موسم کی تبدیلی ایک قدرتی آفات کی طرح یوں ہی قہر برپاکرتی رہے گی۔ 

۔۔۔مزید

جمعہ، 4 جنوری، 2013


   عصمت دری کے خلاف دہلی میں احتجاج کی آندھی
محمد علم اللہ اصلاحی
نئی دہلی
دہلی میں اجتماعی عصمت دری معاملہ پرپوراملک غصے میں ہے، شرمندگی بھی ہے کہ ہم ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں ملک کے دارالحکومت میں سرعام سڑکوں پر چلتے گاڑیوں میں لڑکیوں کو اغوا کیا جاتا ہے اور آزادی کے ساتھ ان کی عصمت کو تار تار کر دیا جاتا ہے۔لیکن ایسا نہیں ہے کہ ملک میں عصمت دری کا یہ کوئی پہلا واقعہ ہے یاملک میں درندگی کی ایسی واردات پہلے کبھی نہیں ہوئی ۔مگر اس بار شایدعوام کے صبرکاپیمانہ لبریز ہو چکا ہے ۔جس کی محض ایک جھلک بھر گذشتہ دنوں دار السلطنت دہلی میں ہم سب کو دیکھنے کو ملا ۔لوگوں کا یہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر صرف عصمت دری معاملہ کو لیکر ہی نہیں تھا بلکہ ظلم ،تشدد،غنڈہ گردی،مہنگائی ،بدعنوانی اور مختلف مسائل سے دوچار عوام کا یہ وہ لاوا تھا جوسالوں سے ان کے سینوں میں پل رہا تھا۔تھے جس کے حل کی خاطر لوگ اپنے اپنے گھروں سے باہرناصرف نکل آئے تھے بلکہ تشدد پر بھی اتارو تھے اور ان کا یہ غصہ اور غم نیوز چینلز ہو یا نیوزپورٹلس، سوشل میڈیاسائٹ ہو یا سڑک، ہر جگہ دیکھنے کو ملا ۔جسے خون کو منجمد کر دینے والی سردلہریں،ٹھٹھرا دینے والی ٹھنڈ ہوائیں اور ہڈیوں کو چیر دینے والا جاڑا بھی پست اورفرو نہیں کر پایا۔اس واقعہ کے بعد جس طرح سڑکوں پر انسانوں کا بحر بے کراں، نوجوانوںکا ہجوم ،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلباءو طالبات کا انبوہ اور خواتین کی شکل میںجوجم غفیر امڈا اس سے بہر صورت یہ ظاہر ہوگیاکہ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں ایسی تبدیلی جس سے انھیں امن و سکون ملے اور ان کی زندگی دشوار کن نہ ہو ۔

عدم تحفظ کے خلاف عوام نے اپنے غصے کا اظہار جس طرح حکومت اور نظام کے اہم مراکز پرچڑھکر کیا اسے کسی بھی طرح معمولی نہیں کہا جا سکتا ۔ اس میں شک نہیں کہ صدارتی محل کے سامنے غصہ کا اظہار کے ساتھ جو فساد ہوا اس کے لئے کہیں نہ کہیں پولیسائی طاقت کااستعمال اوراسکی فطرت بھی ذمہ دار ہے۔تاہم ایک جمہوری ملک میںاس بات کو بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا کہ عوام جب مزاحمت اور اظہار کے اپنے حق کا پر امن طریقے سے استعمال کرےںتو اس پرسنگینوں اور آنسو گیس کے گولوں سے قابو پایانے کی کوشش کی جائے۔اس معاملہ کو لیکر حالانکہ مبصرین کا کہنا ہے کہ غم وغصہ کے اظہار کے ساتھ لاقانونیت کا کوئی مطلب نہیںبنتا۔ غم وغصہ کا اظہار پرامن اور ڈسپلن طریقے سے ہو سکتا تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو یقینی طور پر پالیسی سازی اوراس کے ذریعہ حکومت پر دباو ¿ بنانے میں مدد ملتی ۔ان کے بقول اس معاملہ میں نوجوانوں کا غصہ اگر کنٹرول میں ہوتا تو الگ الگ مطالبات اور قیادت کے فقدان کے باوجود وہ اپنی بات موثر انداز میں کہنے کے قابل ہو سکتے تھے۔ تشدد اور لاقانونیت نے ان سے یہ موقع چھیننے کا کام کیا ۔اس معاملہ میں حالانکہ مبصرین نے یہ بھی کہاکہ ایسی صورت حال کسی بھی حکومت کی طاقت کے بجائے اس کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے عوامی غصہ کا حل مظالم نہیں بلکہ فوری بات چیت کے عمل کے ذریعہ حل پر مضمرہے، ایک منتخب حکومت کو اپنی اس بنیادی سمجھ کو بہر حال بحال رکھنا چاہئے۔

دہلی میں اس سے قبل بھی متعدد احتجاج ہوتے رہے ہیں اس بابتکچھ ماہ قبل بدعنوانی کے خلاف یوگ گروبابا رام دیو اور ان کے حامیوں کے بھوک ہڑتال پر آدھی رات کو ٹوٹے پولسیائی قہر کو اگر ایک استثنائی عمل مان بھی لیں تو، حکومت نے باقی موقعوں پر بات چیت کے ذریعہ ہی مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس بار بھی یہ طریقہ اپنایا جا سکتا تھا۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور وزیر داخلہ سشیل کمار شندے اس طرح کی پہل کو آگے بڑھا بھی رہے تھے۔مگر اس پورے عمل کی سنجیدگی اس وقت ختم ہو گئی، جب پولیس نے طاقت کے ذریعہ لوگوں کے غصے پر قابو پانے کا فیصلہ لیا۔ حالانکہ دہلی کی وزیر اعلی شیلا دکشت نے کہا کہ لوگوں کا غصہ جائز ہے اور پولیس کو ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنا چاہئے تھا۔اس درمیان سشما سوراج نے کل جماعتی میٹنگ بلانے کا مطالبہ کیا تو مایاوتی نے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے کی بات کہی۔ اور بعد میں وزیر اعظم نے بھی ملک کو خطاب کرتے ہوئے لوگوں کی ناراضگی کو صحیح بتایا۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے ایک ایسی زبان میں پیغام دیا جسے عوام نہیں سمجھتی تاہم انھوں نے بھی یہی کہاکہ وہ امن بنائے رکھیں ۔جب حکومت بھی یہ کہہ رہی ہے کہ لوگوں کا غصہ جائز ہے تو اس کا اظہار کرنے سے روکنے کی کوشش کیوں کی گئی؟اس پر بھی لوگوں نے سوال کھڑے کئے ہیں۔

مختلف ریاستوں کی عصمت دری کی خبریں تقریبا ہر روز آتی ہیں، ان میں الگ الگ پارٹیوں کی حکومتیں ہیں۔ ان میں سے کسی بھی حکومت کے ریکارڈ سے ایسا نہیں لگتا کہ ایسے واقعات کو روکنے کو ترجیح دی گئی ہے۔ نہ تو پولیس انتظامیہ کو عورت مخالف تشدد کے حوالے سے حساس بنانے کی پہل ہوئی ہے نہ ایسے جرائم کو روکنے کے دوسرے اقدامات کئے گئے ہیں۔اگر انتخابات کے وقت نامزدگی کے ساتھ دیئے گئے تفصیلات درجنوںکے خلاف بھی جنسی زیادتی کے الزام درج ملیں گے۔ انہیں امیدوار بنانے کا فیصلہ کون کرتا ہے، انہیں تحفظ کہاں سے ملتا ہے؟ اگر جماعتیں واقعی اس معاملے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں پہلے سیاست کو مجرموں سے مکمل طور پر آزاد کرنے کا وعدہ لینا چاہئے۔خواتین کے عدم تحفظ کا یہ مسئلہ محض قانونی نظام سے وابستہ نہیںہے،اور یہ کہ فی ا لوقت سماج کی موجودہ تخلیق بھی اس کے لئے کم ذمہ دار نہیں ہے۔ اگر خواتین کے مصیبتیں بڑھتی جا رہی ہیں، تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ترقی اور خوشحالی کے فہرست اس سے منسلک ہیں۔ عورت کی تصویر اور اس کے استعمال کی بازار وادی رویے کو اگر بے لگام چھوڑا گیا تو پھر اس کے نفرت کے نتائج بھی سامنے آتے رہیں گے۔وقت اور سماج کی نئی بیداری اس خطرے کو بھی سمجھے گی ایسی امید کرنی چاہئے۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں حکومت کو کئی بار شہری معاشرے کے تشددکا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس معاملہ کے بعد یہ بھی محسوس کیا جانے لگا کہ جمہوریت میں عدم تشدد کی تحریک شہری مزاحمت کا جوخلا گزشتہ کچھ دہائیوں سے خالی ہو گیا تھا، وہ اب تیزی سے پر ہورہا ہے۔ جو کام بچا ہے، وہ یہ کہ سرکاری نظام کو عوام کے اوپر نہیںبلکہ اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کی مشترکہ ثقافت تیار ی ہے۔

اسی سال جولائی میں گوہاٹی میں ایک لڑکی کو سرعام پریشان کیا گیا تھا، اس وقت بھی غصے کا ایک بڑا ابال نظر آیا تھا۔مگر دہلی کے واقعہ کے بعدخواتین کے ساتھ سماج کا ہر طبقہ اب فیصلہ کن طور پر یہ چاہتا ہے کہ حکومت ایسی پالیسی کا فورا نفاذ کرے، جس سے یہ اعتماد بحال ہو کہ خواتین کے تئیںبڑھ رہے مسائل کو لے کر حکومت واقعی سنجیدہ ہے۔ ملزم کو پھانسی کی سزا، ایسے معاملات کی فوری سماعت اور پولیس کی حفاظت کا پختہ بندوبست یہ کچھ ایسے مطالبات ہیں، جنہیں حکومت بھی قابل غور گردان رہی ہے۔ ایسے اشارے بھی مل رہے ہیں کہ عصمت دری کے سنگین معاملات میں زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید کی جگہ پھانسیدئے جانے کے بارے میں حکومت اقدامات کر سکتی ہے۔لیکن معاملہ اس قدر آسان نہیں ہے کہ کچھ سرکاری اعلان کر دی جائیں اور کچھ کو لے کر عمل شروع کرنے یا کمیٹی بنا دینے جیسی باتیں کہہ دی جائیں۔ جمہوریت کی نمائندگی کرنے والوں کو یہ بات اب ےقےنی طور پر سمجھنی ہوگی کہ وہجمہوری قدروں اور فکر کو نظر انداز لمبے عرصے تک نہیں کر سکتے ہیں۔چھ دہائیوں کے جمہوری تجربے نے عوام کے حصے جو مایوسی اوریاسیت بڑھائی تھی یہ اسی کا نتیجہ ہے کہعوام اب پہلے کے مقابلے میں نہ صرف مزیدمتفکرہیں بلکہ اپنے حق اورانصاف کو لے کرپہلے کے مقابلہ زیادہ سنجیدہ اور بیدارہیں۔ اس شعور کے انکشاف میں ابھی بھلے کچھ لوگ تنظیمی اور نظریاتی پختگی کی کمی کی بات کریں۔

اس سارے احتجاجی کارکردگی سے حکومت نے عصمت دری اور جنسی زیادتی سے متعلق قوانین کا جائزہ اور ان میں ضروری ترامیم تجویز کرنے کے لئے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جےےس ورما کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو ایک ماہ میں اپنی رپورٹ دے دے گی۔دہلی میں ایسے معاملات کی عدالتی کارروائی فوری عدالتوں میں چلے گی اور دہلی ہائی کورٹ کا حکم ہے کہ ان کی سماعت روزانہ ہوگی۔ اورچونکہ دہلی اور ملک کے دوسرے حصوں میں جنسی بے راہ روی اور جرم کے حوالے سے عوامی مزاحمت کا سلسلہ اب بھی تھما نہیں ہے لہذا پولیس اور انتظامیہ کو کچھ بھی ایسا کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے جس سے لوگ اوربھڑک اٹھیں اور شدد پر اتارو ہو جائےں۔ ایسے موقع پر سب سے بڑی جوابدہی حکومت کی ہے کہ وہ اپنی طرف سے ہر ایسی کوشش کرے جس سے عوام میں خوف کی جگہ ایک اعتماد بحال ہو۔ قانونی بہتر ی اور فوری انصاف کے عمل سے آگے حکومت کو اپنے ایکشن کومثبت طرز عمل میں تبدیلی لانی چاہئے چاہئے ۔ ورنہ
اب کے بھی اک آندھی چلی اب کے بھی سب کچھ اڑ گیا
اب کے بھی سب باتیں ہوئیں لیکن ہوا کچھ بھی نہیں
والا معاملہ اور وہی ڈھاک کے تین پات والی بات ہوگی ۔جب تک ہماری حکومت ایسے جرائم کی روک تھام کے لئے سسٹم میں شامل انتظامیہ، پولیس، عدالتوں کو ذمہ دار نہیںبنائے گی، اس وقت تک دہلی گینگ ریپ جیسے معاملات پر روک یا قدغن لگانا مشکل ہی ہوگا۔



۔۔۔مزید

عصمت دری اور فحش اشتہارات میں میڈیا کا کردار
محمد علم اللہ  اصلاحی
نئی دہلی
میڈیا کا اخلاقی فرض ہے کہ سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں سے سماج کو روشناس کرائے۔ ملک اور سماج کے مفاد کے لئے عوام کو بیدار کرے۔اور معاشرے میں پھیلی ہوئی ہر قسم کی برائیوں سے نجات دلانے کے اقدامات کرے، لیکن ایسامحسوس ہوتا ہے کہ پیسہ کمانے کی اندھی دوڑ میں جمہوریت کا یہ چوتھا ستون اپنی تمام تر اقدار اور اخلاقیات کو پامال کرچکاہے ۔ تمام اخبارات میں ایڈیٹران روزانہ بڑے بڑے اداریہ اور مضامین لکھ کرانسانیت کا درس دیتے اور عوام کو اپنے قلم کی طاقت سے آگاہ کرتے نہیں تھکتے، الیکٹرانک میڈیا کا بھی یہی حال ہے لیکن عملی طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دولت کی جھولی بھرنے کے لئے تمام قوائد و قوانین کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ تمام پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں فحش اور غیر اخلاقی اشتہارات کی بھر مار ہے، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس سے لوگ گمراہ ہو رہے ہیں۔ لیکن کسی میڈیا والے کو اتنی فرصت نہیں ہے کہ وہ ان اشتہارات کی حقانیت کو پرکھنے کی کوشش کرے۔ دولت کمانے کی’ ہوس‘ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ’کاوش‘ اور ہر جائز ناجائز طریقے سے اپنے حریف پر سبقت لے جانے کی ’کوشش ‘نے میڈیا کے اس رویہ کو ایک غیر اخلاقی عمل بنادیا ہے۔ مانا کہ ایڈورٹائزنگ مارکیٹنگ کا ایک اہم اور لازمی جزو ہے جس کا بنیادی مقصد خریدار کو متوجہ کرنا، اسے پراڈکٹ کے بارے میں تفصیلات بتانا اور خریدنے پر مجبور کرنا ہے۔ لیکن اسی کے ذریعہ عورت کے وجود کا ایک ایک انگ اور حصہ نمایاں کرنے اور کیش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس نیم عریاں عورت کے ساتھ ساتھ ، فحش ڈائلاگز، بے ہنگم موسیقی، آبرو باختہ لطیفے ، نوجوانوں کو رات بھر عشقیہ باتوں کی ترغیب اور دیگر پہلو بھی شامل ہیں۔

حیرت کی بات ہے کہ اس آندھی نے پورے معاشرے کو اس طور پر لے لیا ہے کہ ہندوستانی ثقافت کی دھجیاں اڑتی نظر آرہی ہیں لیکن اسے کوئی برائی تصور کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہے ۔ انگریزی اخبارات میں پہلے اور اب بھی مساج پارلرزکے اشتہار طرح طرح کے ناموں سے شائع ہو رہے ہیں۔ اشتہار میں کوئی ماڈل لیٹی ہوئی نسوانی اعضاءکو نمایاں کر رہی ہے تو کسی میں برہنہ پشت کی نمائش جار ی ہے۔ کہیں چست لباس اعضاء کو ابھارنے میں مصروف ہے تو کہیں خطرناک حد تک چاک گریباں ناظرین و قارئین کودعوت گناہ دے رہا ہے۔ ان اشتہارات میں صاف کہا جارہاہے کہ مساج کے لئے روسی، افغانی، کشمیری، پنجابی، ترکی، رشین، ہسپانوی ماڈل قسم لڑکیاں موجود ہیں جو فائیو اسٹار اور سیون اسٹار ہوٹلوں میں ہی اپنی سروس دیتی ہیں۔ رابطہ کرنے کے لئے ان کا فون نمبر بھی اخبارات میں موجود ہوتا ہے۔ کونٹکٹ کرنے پر یہ انگریزی زبان میں اپنی فیس اور مساج کے نام پر کس طرح کی سروس وہ فراہم کریں گی تک کی تفصیلات دی جاتی ہیں۔ ان اشتہارات میں یہ واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ تمام کریڈٹ کارڈ قبول کئے جائیں گے۔ فل باڈی مساج کے نام پر کھلی جسم فروشی، تشہیر کی زبان سے یہ سمجھ لینا کوئی مشکل نہیں ہے۔ اس طرح اسکارٹ ایجنسیوں کے اشتہارات بھی خوب شائع ہوتے ہیں۔اسکارٹ ایجنسیاں لوگوں کو خاتون اسکارٹ فراہم کرتی ہیں یہ ملکی اور غیر ملکی، دونوں طرح کی ہوتی ہے۔ ان سے رابطہ کرنے کے لئے انٹرنیٹ پر ان تصاویر کے ساتھ ان کی قیمت اور ان کی طرف سے فراہم کی جانے والی خدمات کی تفصیلات بھی دستیاب ہوتی ہیں۔

دراصل یہ ہائی پروفائل حرافائیں ہوتی ہیں جواپنے اپر کلاس گاہکوں کے ساتھ سیر سپاٹے پر بھی جاتی ہیں انٹرنیٹ پر ہر شہر کی ہائی پروفائل جسم فروش خواتین کی تصاویر، فون نمبر اور ریٹ صاف صاف لکھے ہوتے ہیں۔ جہاں تک مساج پارلرز کا سوال ہے کئی عورتوں میں یہ ذکر رہتا ہے میل ٹو میل مساج۔ ان اشتہارات میں واضح اور کھلے الفاظ میں لکھا رہتا ہے کہ کمسن افغانی، کشمیری اور دیگر امرد لڑکے دستیاب ہیں ۔ سمجھا جا سکتا ہے کہ میل ٹو میل مساج کے تحت کیسے گل کھلائے جاتے ہوں گے۔ لیکن اس طرح کی فحش اشتہارات پر روک لگانے کی آواز کہیں سے بھی اٹھتی نظر نہیں آتی۔ اب تو ان سے بھی آگے بڑھے ہوئے اشتہارات اخبارات میں نظر آنے لگے ہیں جن کے اشتہارات میں لکھا ہوتا ہے ’ ضرورت ہے امرد لڑکوں کی، ماڈلوں اور ہائی پروفائل عورتوں کا مساج کرنے کے لئے یومیہ 000 10روپے سے زیادہ کمائیں'۔مختلف اخباروں میں اس طرح کے آٹھ دس اشتہارات کا مل جانا کوئی معمولی بات ہے ۔اور تو اور اب کچھ نجی موبائل کمپنیاں بھی ماہانہ فیس لے کر فری نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان دوستی کروانے کا ثوابی کام کر رہی ہیں۔ اس طرح نوجوانوں اور ہر عمر کے لوگوں کو ٹھگنے والے اس بات سے بھلی طرح واقف ہوتے ہیں کہ سماج میں زیادہ تر لوگ جنسی بیماریوں میں مبتلا ہیں ان کی اس بیماریوں سے فائدہ اٹھانے والو ں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔

ان سب کے باوجود ایسے نام نہاد ترقی پسندوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے جو جسم فروشی اور ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دینے کی وکالت کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر جسم فروشی اور ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دے دیا جائے گا تو ایڈز جیسی خطرناک بیماریوں پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔ لیکن حکومت نے جسم فروشی سے متعلق قوانین کا جائزہ لینے کے دوران یہ کہا ہے کہ کسی طوائف کے یہاں کلائنٹ کے طور پر جانے والے شخص کو بھی مجرم تصور کیا جائے گا اور اس کے لئے سخت سزا کا انتظام کیا جائے گا اگر ایسا ہوتا ہے تب تو ٹھیک۔ مگر صاف پانی کے تالاب میں گندگی ڈالی جائے تو پانی دھیرے دھیرے گدلا ہونے لگتا ہے اور اس کا دیکھنے والوں کو احساس بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہمارے اشتہارات میں یہ غیر اخلاقی پہلو اس آہستگی کے ساتھ سرایت کررہاہے کہ اب یہ سب کچھ شرفاءکو بھی برا نہیں لگتا۔ اس کے نتیجے میں   پورا معاشرہ نیم عریانی، فحش کلامی، گھٹیا مذاق اور بے ہنگم موسیقی کے ساتھ سمجھوتہ کرتا نظر آرہا ہے۔ایسے بہت سے اشتہارات ہیں جن میں کوئی پتہ نہیں ہوتا، صرف موبائل نمبر دے دیا جاتا ہے۔ کیونکہ لاکھ کوشش کرنے کے باوجودبھی ایسے مشتہرین نے اپنا پتہ نہیں بتایا۔ اس طرح کی کئی شکایات تھانے میں درج بھی کرائی گئی ہیں۔ لیکن اس پر کاروائی نہیں کے برابر ہوتی ہے ایسے مشتہر عوام سے رقم اینٹھ کر فرارہو جاتے ہیں۔ کیا ان کے جنسی استحصال میں میڈیا بھی برابر کا حصہ دار نہیں ہے؟ایڈیٹر کو معاشرہ اور ملک و سماج کے لئے ذمہ دار ہونا چاہیے، تبھی ان کے ادارتی تحریروں کے وقار کا احساس عوام کو ہو گا اور ان کے دروس و اسباق کا فائدہ ملک اور سماج کو مل سکے گا۔اگر میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا کہ آج سماجی برائی کے لیے کافی حد تک میڈیا بھی ذمہ دار ہے۔ اگر انٹرنیٹ کی بات چھوڑ دیں تو، اس طرح کے گمراہ کرنے والے اشتہارات سے کی جانے والی کمائی سے ملک میں اور خاص طور پر بڑے شہروں میں عصمت دری جیسے واقعات نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوگا؟

سالوں پہلے بھی جب پنجاب کیسری اخبار ،ڈلہی ٹائمس اور اس طرح کے دیگر اخبارات میں غیر ملکی خواتین کی فحش تصویر شائع ہوتے تھے تو بہت سے بیدار قارئین نے اس کی مخالفت کی تھی لیکن یہ آج تک جاری ہے ۔ستم بالائے ستم کہ بعض اردو اخبارات بھی اسی راہ پر چل پڑے ہیں اور اب اردو اخبارات میں بھی اس طرح کی چیزیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بہت سے لوگ صرف اسی وجہ سے ایسے اخبارات کو پسند کرنے لگ گئے ہیں۔افسوس کی بات ہے کہ ہر شخص امیر بننا چاہتا ہے، چاہے اس کے لئے سماج اور ملک کو کوئی بھی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔ جب ہم نرمل بابا اور دوسرے مذہب کے ٹھیکیداروں، بدعنوان لیڈروں کو کوستے ہیں، تومیڈیا کے ذمہ داران اور اخبارات کے مدیران کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے کہ ہم کیوں پیڈ نیوز اور اشتہارات کے ذریعہ چند لوگوں کے فائدہ کے لئے سماج کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں؟سماج کے کئی سرمایہ دار افراد اور امیر شخص ان دھوکہ بازوں کے شکار ہوتے ہیں، لیکن اپنی بدنامی سے بچنے کے لیے آواز نہیں اٹھاتے۔اطلاعات و نشریات کے وزیر کئی بار ٹی وی پر بڑھتی ہوئی فحاشی کے خلاف بولتے ہیں اور چینلوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی سرحد کی لکیر خود طے کریں، یعنی فحاشی تو’ پروسیں‘پر اس کو’اوورڈوز‘ نہ ہونے دیں۔ سینسر بورڈ جو فلموں کو نمائش کے لیے سرٹیفیکیٹ دیتا ہے، وہ اطلاعات و نشریات کی وزارت کے تحت ہی آتا ہے۔ لیکن بورڈ میں چند افسران کے علاوہ زیادہ تر فلمی دنیا کے ہی لوگ رکن اور صدر ہوتے ہیں۔ یہ اعلان تو کرتے ہیں کہ فلم میں تشدد اور جنسی عناصرکے مناظر میں کمی لائی جائےگی، مگرکیا کمی آئی۔ جنسی، تشدد اور عریانی کے مناظر کی تعداد بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔

ضرورت ہے کہ میڈیا اور اخبارات و رسائل کے ذمہ داران عوام کے مفاد میں گراہک بن کر ایسے افراد کی سرگرمیاں معلوم کریں اور اس کاانکشاف کرکے ان کے ناپاک عزائم کو طشت ازدبام کرکے ان کے حوصلوں کو توڑیں ۔اس موقع پر صنعت کاروں ، تاجروں اور حکومتی اداروں کوبھی مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل تلا ش کرنا ہوگا تاکہ اس طرح کا ایک کوڈ آف کنڈکٹ بنایا جائے جو مارکیٹنگ کے مقاصد بھی حاصل کرتا ہو اور فحاشی کے زمرے میں بھی نہ آئے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو نتیجے کے طور پر جنسی ناآسودگی، آبروریزی اور آزادانہ جنسی اختلاط کا ایک طوفان جنم لے گا جو محض چند طبقات تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کا شکار ہر دوسرا محلہ اور گھر ہوگا اور کیا خبر یہ اسی اشتہار دینے والے کا گھر ہو جس نے عریانی کے ذریعے دولت کمانے کی کوشش کی تھی۔


۔۔۔مزید

بچپن کی یاد



بچپن کی یاد 
محمد علم اللہ اصلاحی
 اس وقت رات کے تقریبا بارہ بج رہے ہیں ،میں عید کی چھٹیوں کے بعد واپس دہلی لوٹ رہا ہوں ،لائٹیں گل کر دی گئی ہیں ،بوگی کے سارے مسافر نیند کی آغوش میں جا چکے ہیں ، کہیں کہیں سے ایک دو بوڑھے مسافروں کی کھانسنے کی آواز ضرور آرہی ہے ،اس سے مجھے کوئی خلل نہیں ہو رہا ہے ،لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے نیند بالکل بھی نہیں آ رہی ہے ۔ سہی ہی کہا ہے میرزا ادیب نے جس جگہ پر انسان کا بچپن گزرا ہو وہ جگہ ہمیشہ دل کے پاس رہتی ہے۔ اور اکثر خواب بھی انسان اسی ماحول میں دیکھتا ہے۔ مطالعہ کے ساتھ ساتھ جو تصور اشیاءکے بارے میں قائم ہوتے ہیں، وہ بھی اسی جگہ کے ساتھ مختص ہو جاتے ہیں۔ کوئی کہانی یا ناول پڑھتے ہوئے واقعات اور مقامات کے تصور کے ساتھ وہی جگہیں ابھرتی ہیں کہ جہاں ہم نے اپنے سنہرے دن گزارے تھے۔میں بھی اکثر کبھی خوابوں میں اور کبھی یونہی تنہائی میں اپنے ان لمحوں کو دیکھتا رہتا ہوں جہاں میں نے آنکھیں کھولی اور اپنی زندگی کے ایام گذارے۔آج میرزا ادیب کی مٹی کا دیاپڑھنے کے بعد اس میں اور بھی پختگی آ گئی ہے ۔حالانکہ ابھی میں نے اس کتاب کے کچھ ہی ابواب پڑھے ہیںلیکن میرزا ادیب کی اس دلچسپ تحریر کو پڑھ کر نا جانے میرا ذہن کہاں کہاںبھٹک رہا ہے ۔ماضی کی یادوں کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے۔آنکھوں سے آنسو جاری ہے اور بچپن کی کھوئی ہوئی یادیں ایک ایک کر کے چلی آ رہی ہیں۔
بچپن کی موہوم سی یاد
کومل سی معصوم سی یاد
بے مقصد سے آنسو ہیں
بے جا ، بے مفہوم سی یاد
شام کے ساتھ ہی آتی ہے
تنہا اور مغموم سی یاد
کیا کیا یاد دلاتی ہے
کوئی نا معلوم سی یاد
پھر سے دل بے تاب ہوا
جاگ اٹھی مرحوم سی یاد
شعروں میں ڈھل جاتی ہے
آتی ہے منظوم سی یاد
یوں تو ازل سے باقی ہے
لگتی ہے معدوم سی یاد
 میں انھیں یادوںکوآپ کے حوالہ کرنا چاہ رہا ہوں ،اس لئے نہیں کہ یہ تمام باتیں تجربات کی بھٹی میں تپی ہوئی یا آپ کے لئے کار آمد ہیں ۔میںکوئی ادیب بھی نہیں ہوں کہ اس میں آپ کو ادب کی چاشنی اور زبان کا چٹخارہ ملے گا تو پھر کیوں شایداوراق کالے کر نے کے لئے یا پھر آپ کا وقت ضائع کرنے کے لئے ۔مجھے خود بھی اس کا جواب نہیں معلوم اس لئے اب اس بابت مجھ سے دریافت نا کیجئے گا ۔شاید کہانی پڑھنے کے بعد آپ کو کچھ مل جائے۔

  میری پیدائش متحدہ بہار شہر رانچی کے قصبہ اٹکی میں جو موجودہ جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی سے تقریبا 22کیلو میٹر دور ہندو مسلم آبادی پر مشتمل ایک سر سبز و شاداب اور پر امن قصبہ ہے میں 15فروری 1989کوہوئی۔ یہاں پر پر امن کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے اس بات سے قطع نظر کہ ادھر دو چار سالوں میں یہاں بھی فرقہ پرستی کی زہر گھولنے کی کوشش کی گئی ہے اور کئی مرتبہ حالات بگڑتے بگڑتے بچے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجودیہ علاقہ ہندو مسلم اتحاد کی علامت کے طور پر آج بھی جانا جاتا ہے۔ جہاںمسلمان ہندووں کے خوشی و غمی کے موقع پر لوگوں کے سکھ اوردکھ میں شریک ہوتے ہیں، وہیں ہندو بھی عید و بقرعید سمیت ہر قسم کے تہوار میں شریک ہو کر مبارکباد دیتے اور ایک دوسرے کو خوشیاں بانٹتے ہیں۔ میرے زمانے تک یہاں کے زیادہ تر لوگ کھیتی ،باڑی یا اسی قسم کے معمولی پیشہ سے وابستہ تھے۔اب کافی تبدیلی آ گئی ہے لوگوں نے اپنے کھیتوں کو بیچ کر عالی شان عمارتیں تعمیر کر لی ہیں ، وہ جگہ جہاں کبھی سر سبزو شاداب کھیت لہرایا کرتے تھے آج عالی شان عمارتیں، بڑے بڑ ے مارکٹ اوردکانوں میں تبدیل ہو گئی ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

 جہاں پر ہمارا آبائی گھر تھا ٹھیک اس کے پیچھے ہندوں کی آبادی تھی جو پیشہ سے یا تو لوہارتھے یا بت ساز،آس پاس کا علاقہ بہت زیادہ مہذب اور پڑھا لکھا نہ تھا۔ دیہاتی لوگ تھے سادہ سی زندگی اور محدود وسائل شاید اسی وجہ سے معمولی ساتویں آٹھویں بہت زیادہ ہوا تودسویں پاس کو لوگ واجبی سمجھ لیا کرتے تھے۔ البتہ ہمارے گھر میں ہم بہن بھائیوں کو جو ماحول ملا وہ علمی تھا۔ امی بہت زیادہ پڑھی لکھی نہ تھیں لیکن اردو ہندی پر اچھی پکڑ رکھنے والی خاتون والد محترم مولانا محمد اسماعیل رحمانی جامعہ رحمانیہ خانقاہ مونگیر اور دارالعلوم ندوہ العلما کے پر وردہ جبکہ چچا جان مولانا محمد ابراہیم ندوی بڑے عالم دین دار العلوم ند وۃ العلما اور علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے پروردہ۔ امی اور ابو کے علاوہ میں نے عربی کی ابتدائی کتابیں تمرین النحو ،تمرین الصرف قصص الانبیا ،القراہ الراشدہ اور اسی قسم کی دوسری کتابیں چچا محترم مولانا ابراہیم ندوی کی نگرانی میں ہی ختم کیں ۔میرے ایک اور چچا عزرائیل کی علمی لیاقت کا تو مجھے علم نہیں لیکن اتنا ضرور یادہے کہ انھوں نے مجھے کئی دعائیں یاد کرائیں ایک دعا یاد کرنے پر وہ پچاس پیسے یاایک روپئے انعام دیا کرتے تھے۔ میں نے بہت ساری دعائیں یاد کرکے نہ جانے اپنے چچا سے کتنے پیسے وصول کئے ،ایک اور چچا اسرائیل حافظ قران سے بہت زیادہ فیضیاب ہونے کا موقع نہیں ملا اس کی وجہ یہ رہی کہ ان کا زیادہ تر قیام کاروباری وجوہات کی بنا پر رانچی میں رہا۔

 مجھے یہ یاد نہیں کہ میں نے باضابطہ تعلیم کا آغاز کب کیا لیکن ہاں اتنا ضرور یاد ہے کہ ابا محترم ہم تمام بھائی بہنوں( بڑے بھائی ذکا ءاللہ ،دونوں آپی فرحت ،مسرت ،میں اور میرا چھوٹا بھائی روح اللہ )کو شام ہوتے ہی گھر کے بر آمدے میں چٹائی بچھا کر لالٹین یا پھر لیمپ کی مدھم روشنی میںپڑھانے بیٹھ جایا کرتے ، جہاںہم سب ابو کی نگرانی میںعشاءتک پڑھا ئی کرتے۔ابو چونکہ خاندان کے سب سے بڑے تھے اس لئے زمین جگہوں سے لیکر لڑائی جھگڑا ہر قسم کے حالات کے نپٹارے کی ذمہ داری بھی انھیں کی تھی ۔ابو جس دن اس طرح کے کاموں میں پھنسے ہوتے ہماری جیسے عید ہو جاتی ۔مجھے یاد پڑتا ہے جس بر آمدے میں ہم لوگ پڑھنے بیٹھتے تھے اسکے باہری دروازے پر ایک سوراخ تھاجسے ٹین سے بند کیا گیا تھا۔اس طرح کے حالات میں ابو اگر ہمارے ساتھ نا بیٹھ پاتے یا کہیں گئے بھی ہوتے تو بھی موقع ملتے ہی اس دروازے میں سے جھانک کر ضرور دیکھتے۔پڑھائی کے وقت اگر کوئی شرارت کرتے ہوئے یا پھر گپیں لڑا تے ہوئے مل جاتا تو اس کی خیر نہیں ہوتی ابو اکثر سیلف اسٹڈی پر زور دیتے اور کہا کرتے ڈنڈے کے زور پر پڑھائی کے عادی نہ بنو بلکہ اپنے اندر شوق پیدا کرو کہ یہ چیزیں بعد میں بھی انسان کے کام آتی ہیں ۔گھر پر ہر ایک کو نماز پڑھنے کی سخت تاکید تھی ۔اس سلسلہ میں امی بھی بڑی اسٹرکٹ(سخت) تھیں۔اگر کوئی بلا عذرنماز نہ پڑھتا تو اسے کھانا بھی نہیں ملتا۔مجھے یاد پڑتا ہے ایک مرتبہ میں ایسے ہی نماز کی غرض سے گھر سے نکلا اور تھوڑی دیر بعدبغیر نماز پڑھے ہی گھوم پھر کر گھرآ گیا ۔امی نے پوچھا نماز پڑھ لی میں نے کہا ہاں پڑھ لیا ۔پتہ نہیں امی کو کیسے شک ہو گیا کہ میں نے نماز نہیں پڑھی ہے فورا انھوں نے پاں دکھانے کے لئے کہا ،میں نے پاں جو دکھایاتو گندے تھے ۔امی نے وہیں پہلے تو جھوٹ بولنے پر تھپڑ رسید کئے اور پھرسے گھر پر وضو کرنے اور نماز پڑھنے کے لئے کہا اور جب میں نے نماز پڑھ لی تبھی کھانا ملا ۔

 ابو پیشہ سے ٹیچر تھے اس لئے ان کے مزاج میں بھی ذرا رعب اور کڑک تھا۔جب کبھی ابوکسی بات پر ہم بہن بھائیوں سے غصہ ہوتے تو امی بالکل نرم پڑ جاتیں ۔مجھے یاد پڑتا ہے میرے زمانے میں گھر پر ایک مولوی صاحب ٹیوشن پڑھانے کے لئے آیا کرتے تھے ۔جسے ابو نے ہی ٹیوٹر کے طور پر رکھا تھا ۔وہ اس لئے کہ اب ابو کا تبادلہ ہوگیا تھا اوروہ گاں کے اسکول بالیکا اچیہ ودھیالیہ کوچھوڑ کر پلاموں ضلع کے پاکی نامی گاں کے کسی اسکول میں پڑھانے کے لئے چلے گئے تھے ۔حالانکہ پاکی میں بھی ابو نے کچھ ہی دن اپنی خدمات انجام دیںکیونکہ جلد ہی یہاں سے بھی ان کا تبادلہ ہو گیااوروہاں سے انھیں لوہردگا ضلع کے ندیا ہندو اچیہ ودھیالیہ میںاپنی ذمہ داریاں نبھانی پڑیں اوراس طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹرانسفر اور مستقل ایک جگہ قیام نہ ہونے کے سبب ہم سارے بھائی بہن ابوکی باضابطہ تعلیم سے محروم رہ گئے۔ ان تمام مجبوریوں کے باوجود ابو نے ہم سب کو ایسے ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ وقت برباد نہ ہو کہ کر اور بھی کئی کئی جگہ ٹیوشن کا انتظام کر دیا۔اس صبح و شام کی ٹیوشن نے ہمارا کھیل کود سب کچھ بند کر دیا ۔ انھیں دنوں ہمارے گھر پر ایک بوڑھے مولوی صاحب پڑھانے کے لئے آیا کرتے تھے انھوں نے مجھے کیا پڑھا یایہ یاد نہیں بس ایک ہلکا سا یادوں کا عکس ذہن کے پردہ پر رہ گیا ہے۔مولوی صاحب کی موٹے لینس والی عینک سے جھانکتی آنکھیں ،برسوں کے تجربات سے سفید ہوئی داڑھی اور حالات زمانہ کے سبب ہاتھوں میں پڑی ہوئی جھریاں اور اس میں موٹی سی بانس کی قمچی آج بھی مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔

 جب میں نے اسکول جانا شروع کیا اس وقت میرے گھر پر ایک ماسٹرثناءاللہ صاحب پڑھانے کے لئے آیا کرتے تھے انتہائی مشفق استاذ ہم سب انھیں بھائی جان کہا کرتے تھے۔ میں نے جس اسکول سے پڑھائی کی وہ پورے علاقہ میں سب سے اچھااسکول مانا جاتا تھا،جماعت اسلامی ہند کے زیر نگرانی درسگاہ اسلامی نامی اس ادارہ میں اساتذہ انتہائی مشفق اور مہربان ہوا کرتے تھے۔ آج کل کی طرح پروفیشنل انداز نہ تھا۔ اساتذہ کے اندر خلوص اور محبت کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ہمارے خاص اساتذہ میں اللہ دادکریم جنھیں ہم لوگ ایڈی کریم کہا کرتے تھے۔مولانا عبد الحفیظ کامی مولانا انعام اللہ رحمت ندوی ،مولانا نسیم انور ندوی ،مولانا سعید ندوی ،مولانا منیر الدین ،ماسٹر عبد الحفیظ ،مولانا فضل الحق ،حافظ شمیم ،مولوی عابداورماسٹرسہیل وغیرہ تھے۔افسوس ان میںسے ایک اب اس جہان میں نہیں رہے ۔ موت کا مزاتو ہر ذی روح کو چکھنا ہے لیکن پتہ نہیں کیوں یقین نہیں آتا کہ عبد الحفیظ صاحب سچ مچ اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ مشیت الہی کے آگے انسان بے بس ہے یقین تو کرنا ہی پڑے گا ۔معلوم ہوا ہے کہ 27نومبربعد نماز ظہر ان کے آبائی وطن میں سیکڑوں نمناک آنکھوں کے ساتھ انھیں سپرد خاک بھی کر دیا گیا۔ استاذ مرحوم کے ساتھ بہت ساری یادیں وابستہ ہیں ۔موقع ملا تو جلد ہی الگ سے اس پر کچھ لکھوں گا۔

 بات چونکہ درسگاہ اور وہاں کے اساتذہ کی ہو رہی تھی اس لئے پھر وہیں چلتے ہیں ۔درسگاہ میں تمام ہی اساتذہ کی تربیت اور پڑھانے کا اپنا اپنا انداز تھا۔لیکن صحیح معنوں میں ماسٹر ایڈی کریم کا انداز ان سب میںسب سے جدا تھا۔وہ اچھے سے اچھے کائیاں اور ڈھیٹ لڑکوں کو بھی ٹھیک کر دیا کرتے تھے ،میں بھی کئی مرتبہ ان کے عتاب کا شکار ہوا اس لئے ان سے جڑے کئی واقعات میرے ذہن میں اب بھی محفوظ ہیں۔ایک مرتبہ کا واقعہ ہے ماسٹر صاحب کلاس میں پڑھا رہے تھے ،پتہ نہیں کیسے مجھے نیند آ گئی اور میں اونگھنے لگا۔انھوں نے اشارے سے کسی بچے کو مارنے کے لئے کہا۔جیسے لڑکے اسی انتظار میں بیٹھے تھے تڑا تڑ کئی ہاتھ میرے سر پر پڑے اور میں رونے لگا۔ماسٹر صاحب نے ان لڑکوں کو بلایا اور سب کی گوش مالی کرتے ہوئے کہا میں نے اتنا زور سے مارنے کے لئے تھوڑے ہی کہا تھا ،میں تو محض جگانے کوکہا تھا۔ماسٹر صاحب کی تربیت کا انداز بھی عجیب و غریب تھا۔وہ بچوں کی ایمانداری کو آزمانے کے لئے سر راہ کچھ روپئے یا پیسے گرا دیتے اور یہ دیکھتے کہ بچہ اسے اٹھا کر رکھ لیتا ہے یا پھر ہیڈ ماسٹر کے حوالہ کرتا ہے۔ اگر بچے نے لے جاکر ہیڈ ماسٹر یا پھر جس کا سامان ہے اس کے حوالہ کر دیا تب تو ٹھیک اور اگر غلطی سے بھی رکھ لی تو اس کی خیر نہیں ،ایمانداری دکھانے پر ماسٹر صاحب شاباشی دیتے اور شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرتے۔ماسٹر اللہ داد کریم ہم بچوں کو انگریزی پڑھایا کرتے تھے ،شکل وصورت سے تھے بھی بالکل انگریزوں کی طرح گورے چٹے اور لمبے تڑنگے۔سبق یاد نہ کرنے والے بچوں کی وہ ایسی دھنائی کرتے کہ بس۔ایسے موقع پر وہ اپنے مخصوص انداز میں کہا کرتے ”لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے“اور یہ کہتے ہوئے چھڑیوں جسے وہ تنبیہ الغافلین کہا کرتے تھے کی برسات کر دیتے۔ان کی چھڑی کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اسے تیل پلاتے ہیں۔ماسٹر صاحب کے نزدیک ساری بیماریو ں کا علاج بس چھڑی سے ہی ممکن تھا۔

 مجھے یاد پڑتا ہے درسگاہ میں ہم سارے بچے کلاسیز شروع ہونے سے قبل ترانہ اور دعا پڑھا کرتے تھے۔دعا کیا تھی علامہ اقبال کی ”یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے “اور ” لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری “ اس وقت ہمیں ترانہ ختم ہونے ے بعد آداب سکھائے جاتے مثلا کوئی چیز گری پڑی ملے تو اس کا کیا کرنا ہے ،چھینک آئے تو الحمد للہ کہنا ہے ،سننے والے کو جواب میں یرحمک اللہ ،جمائی کے وقت الٹاہاتھ منھ پر رکھناہے،کھانا بسم اللہ سے شروع کرنا ہے ،کھانے کے بعد دعا پڑھنی ہے ،سڑک میں بائیں طرف سے جانا اور بائیںطرف سے لوٹنا ہے وغیرہ وغیرہ۔ نہ جانے کیوں آج جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں توآنکھوں سے سےل اشک رواں ہے، پرانی یادیںایک ایک کرکے تازہ ہو رہی ہیں وہ چھوٹی چھوٹی شرارتیں ،سبق یاد نہ کرنے پر اساتذہ کی چھڑیاں،دوستوں کے ساتھ لڑائی جھگڑا،چھٹی اور وقفہ میں چورن، چاکلیٹ ،لیمن چوس، پنیرا اور بیر کی خریداری اور دوستوں سے چھپا کر اورانھیں چڑھا کر کھانا،کبھی ان کی چیزیں چھین لینا اور کبھی اپنی چیزیں لٹادینا، ساری چیزیں ایک ایک کر کے یاد آ رہی ہیں۔

 میں آج بھی اپنے اسکول سے متصل اس بوڑھے آم کے پیڑ کو نہیں بھول سکتا ،جب اس کے نیچے لکڑی کی کرسی پر بیٹھ کر مولوی صاحب ہمیں درس دیا کرتے تھے۔اور ہم بچے ان کے گرد حلقہ بنائے کھڑے ہوا کرتے تھے۔آہ! وہ بھی کیا زمانہ تھا ،بچپن کا لا ابالی پن اور شرارتیں کسی کا سلیٹ توڑ دینا تو کسی کا سر پھوڑ دینا،دوستوں کے ساتھ اسکول سے بھاگ جانااور ثواب کے مبینہ حصول کے لئے جھاڑیوں میں گرگٹ کا مارنا اس پر استاذ کی سختی اور جان کی اہمیت پر تقریر ،آم کی کیریاں اور املی کی ڈلیاں توڑنا ، ،کبڈی، لٹواورپتھر کی گولیاں ،پتنگ،گلی ڈنڈا اور آنکھ مچولی کھیلنا،بھائی بہنوں کا اسکول کے کاموں میں ہماری مدد کر نا ، نماز کے نام پر گھر سے نکلنا اور مسجد میں نہ جانا اس پر ابو کی جھڑکی ،ڈانٹ ،ڈپٹ اور تھپڑ، دوستوں کے ساتھ یا میدان میں کھیلتے ہو ئے ان میں مگن ہو کر ناکھا نا ناپینا اورپھرگھروقت پر ناپہنچنے پر ابو کی پٹائی اس پر امی کی شفقت اور باجی کی حمایت۔اب تو صرف اس کی یادیں ہی باقی
 : رہ گئی ہیں سچ کہا ہے کہنے والے نے
بچپن کے دن بھی کتنے اچھے ہواکرتے تھے
تب دل نہیںکھلونے ٹوٹا کرتے تھے
وہ خوشیاںبھی کیسی خوشیاںتھیں
تتلی پکڑ کر ا چھلا کرتے تھے
چھوٹے تھے تو مکرو فریب بھی چھوٹے تھے
دانہ ڈال کر چڑیاںپکڑا کرتے تھے
اپنے جل جانے کا بھی احساس نہ تھا
جلتے شعلوںکو چھیڑاکرتے تھے
اب تو ایک آنسو بھی رسوا کر جاتا ہے
بچپن میں تو جی بھر کے رویا کرتے تھے

 گزشتہ دنوں جب گاں جانا ہوا تو انھیں پرانی یادوں کو تازہ کرنے اور اساتذہ سے ملاقات کی غرض سے میں اپنے پرانے علمی گہوارہ میں بھی گیا۔جن اساتذہ کا ابھی میں نے ذکر کیا ان میں سے کئی اب اس دنیا میں نہیں رہے جوحیات ہیں وہ بھی ضعیف ہو چکے ہیں، اللہ ان کو صحت و عافیت سے نوازے اور مرحومین کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔اپنی ان یادوں کے درمیان اسکول کی موجودہ حالت اوروہاں کے رویہ کو دیکھ کر کافی افسوس ہوا۔وہ ادارہ جس کا کسی زمانے میں طوطی بولتا تھا اور جو پورے علاقہ میں اپنے نظم و نسق اور تعلیمی ماحول کی بنا پر مثالی ادار ہ تھا۔آج اپنوں کی بے حسی کی وجہ سے آنسو بہا رہا تھا۔اسکول کی بابت وہاں کے طلبہ، اساتذہ اور مقامی لوگوں سے بات کرکے کافی تکلیف ہوئی۔کئی لوگوں نے اسے منتظمین کی کوتاہی کا نام دیا،تحقیق کرنے پر کئی وجوہ سامنے آئے میں نے دہلی آنے کے بعد جماعت اسلامی کے ذمہ داران کو اس جانب توجہ بھی دلائی اور ایک تفصیلی خط بھی لکھا جس پر تعلیمی امور کے ذمہ دار جناب اشفاق صاحب نے مجھے فون کے ذریعہ جلد ہی کاروائی کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ،انھوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ جلد ہی وہاں کا دورہ کرنے والے ہیں لیکن معاملہ ہنوز سرد خانہ میں پڑا ہوا ہے۔

 میں نے اس اسکول میں مکتب پنجم تک تعلیم حاصل کی۔ہم کلاس میں کتنے بچے تھے یہ تو یاد نہیں لیکن ہاں چالیس ،پچاس سے کم نہیں رہے ہونگے ،یہاں آس پاس کے دیہات کندی ،مورو،ٹٹکندو،نگڑی اور پسکا و رانچی تک کے بچے پڑھنے کے لئے آیا کرتے تھے۔ لیکن ان میں سے سوائے چند ایک کے کوئی بھی یاد نہیں رہ گیا ہے جن ساتھیو کے نام ابھی میرے ذہن میں ابھر رہے ہیں ان میں سے چند ایک کے نام کچھ اس طرح ہیں عارف حبیب ،آصف،ارشاد ، افروز،راشد ،فردوس ،رقیہ ،نزہت ،راحت وغیرہ۔ان میں سے کس نے آگے تعلیم جاری رکھی اور کون کہاں گیا مجھے کچھ پتہ نہیں ہاں مذکورہ بالا ناموں میں ایک نام مجھے کبھی نہیں بھولے گا اور وہ ہے میرے ہر دلعزیز دوست اور راز عارف حبیب کا جنھوں نے جامعۃ الفلاح سے عالمیت تک کی تعلیم حاصل کی اور عصری علوم کے لئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کا رخ کیا ،یہاں سے عربی زبان میں گریجویشن کے بعداب کسب معاش کے سلسلہ میں ریاض میں مقیم ہیں ،اب ان سے بھی محض فون اور انٹرنیٹ کے ذریعہ ہی ملاقات ہو پاتی ہے۔ان کی اہلیہ فردوس اطہربھی میرے کلاس کے ساتھیو میں سے ہے، گزشتہ سال دہلی قیام کے دوران دونوں سے ملاقات ہوئی تو کافی دیر تک ماضی کی یادوں پر گفتگو ہوتی رہی ،پرانی یادیں اور بچپن کی شرارتوں کو یاد کر ہم کافی محظوظ ہوئے۔

 درس گاہ میں تعلیم کے دوران ہی کچھ دن میرا دارالعلوم بنا پیڑھی میں بھی پڑھنے کا اتفاق ہوا ،غالبا ان دنوں میں مکتب پنجم میںتھا۔میرے چچا محترم مولانا محمد ابراہیم ندوی یہیں پڑھایا کرتے تھے ،لیکن بہت زیادہ چھوٹا ہونے اور امی ابوکی یاد میں رونے کی وجہ سے چچا نے مجھے گھر واپس چھوڑ دیا ،یہ مےرا نو یا دس کا سن رہا ہوگا۔اس کے بعد ابا محترم نے اس ڈر سے کہ میں کہیںغلط صحبتوں میں نہ پڑ جاوں مجھے درسگاہ اسلامی میں ڈال دیا جہاںابھی نیا نیا ہاسٹل کھلا تھا،اس درمیان ابو کے ذہن میں یہ بات ضرور رہی ہوگی کہ وہ مجھے باہر پڑھنے کے لئے بھیجیں گے اور انھوں نے مجھے محض عادت ڈالنے کے لئے یہاں ڈالا تھا۔صبح صبح روزانہ سائیکل چلا کر ابو خود ملنے کے لئے آتے ،امی ناشتہ میں حلوہ،پوریاںاور نا جانے کیا کیا بنا کر بھیجتی ،آپا میرے کپڑے دھل کر اور پریس کر کے بھیج دیا کرتی تھیں،میں ہر جمعرات کو گھر جاتا رات وہیں گزارتا اور جمعہ کو ابو کے ساتھ ہاسٹل آجاتا،میں ہاسٹل آتے ہوئے کبھی خوش نہ رہتا ہمیشہ روتا ،مجھے ہاسٹل میں بالکل جی نہیں لگتا تھا ،جب کبھی بھی ابو ہاسٹل پہنچانے کی بات کرتے تو میں نہ جانے کی ضد کرتا ،روتا اور حیلہ بہانہ تراشتہ لیکن پھر بھی ابو مجھے ہاسٹل پہنچا دیتے۔ایسے موقع پر ابو مجھے بڑے ظالم نظر آتے تھے۔

 میر ا ننھیال گاں میں ہی تھا، میں بھاگ کر وہاں پہنچ جاتا، مجھے نانا ،نانی ،خالہ ،ماموں اور ممانی سبھی خوب مانتے لیکن ان سبھوں میں مجھے نانی ہی سب سے زیادہ مانتی تھی ،میںجب بھاگ کر نانی کے گھر جاتا تو نانی مجھے خوب پیار کرتی اپنے پوتے پوتیوں سے چھپا کر مٹھائیاںیا اور کوئی کھانے کی اچھی چیز رکھی ہوتی وہ مجھے لاکر دیتی ،پیسے دیتی اور پھر سمجھا بجھا کر ہاسٹل جانے پر راضی کر لیتی ،میں نانی کے کہنے پر ہاسٹل تو چلا جاتا لیکن پھر دوسرے دن بھاگ آتا نانی پھر ویسے ہی کرتی اور بہلا پھسلا کردوبارہ ہاسٹل بھیج دیتی۔نانی کی مجھ سے بہت زیادہ توقعات وابستہ تھیں ،وہ بہت زیادہ پڑھی لکھی تو نا تھی لیکن تعلیم کی اہمیت سے خوب واقف تھی ،مجھے قصہ کہانیاں سناتی ،پرانے زمانے کے واقعات بتاتی اوراپنی آپ بیتی اس انداز سے سناتی کہ جی چاہتا سنتے ہی رہیں ،نانی کو میںکلمہ، مثنون دعائیں اور حمد و نعت سناتا تو بہت خوش ہوتی اور اپنے دو پٹہ کے آنچل سے کھول کر ہاتھوں میں پیسے تھما دیتی میں خوش ہوجاتا اور پھر ہاسٹل چلا جاتا،مجھے یاد پڑتا ہے جب کبھی میں ہاسٹل نہ جانے کی ضد کرتا اور رونے لگتا تونانی بھی رو دیتی ،نانی نے کئی مرتبہ ابو سے مجھے ہاسٹل نہ بھیجنے کی سفارش بھی کی ،آج میری نانی اس دنیا میں نہیں ہے تو شدت سے ان کی یاد آ رہی ہے ،میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں اور آنکھوں سے آنسو جاری ہے۔یاالہ العالمین تو میری نانی کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔

 درسگاہ اسلامی اٹکی کے ہاسٹل میں جن شخصیات سے مجھے بطور خاص استفادہ کا موقع ملا ان میں مولانا نسیم انور ندوی، مولانا عبد الحفیظ کامی اور مولانا انعام اللہ رحمت ندوی قابل ذکرہےں۔اول الذکر نے ہم طلبہ کے اندر تقریر و تحریر کا ذوق پیدا کیا ،ثانی الذکر ہاسٹل کے بچوں کو بعد نماز فجر خوشخطی ،انگریزی اور ریاضی سکھایا کرتے تھے جبکہ ثالث الذکر قرائت قران مجید، حمد ونعت اور ترانہ وغیرہ کی مشق کراتے ،آخر الذکر کی آواز بہت اچھی تھی جب وہ ”اللہ لے چل مورا مدینہ “اور” خودی کا سر نہاں لا الہ ا لا اللہ “اپنے مخصوص انداز میں پڑھتے تو ایک سماں بندھ جاتا۔الحمد للہ تینوں ابھی باحیات ہیں اور اسی ہمت ،حوصلہ اور خلوص کے ساتھ علم کی شمع کو روشن کرنے میں مصروف ہیں اللہ ان کو مزیدصحت اور طاقت دے۔

 میرے اندر مطالعہ کا شوق بھی ا ن ہی دنوں پیدا ہوا ہمارے اسکول میںچھوٹے بچوں کے لئے لائبریری کا انتظام تو نہیں تھا ،ہاں گھر پر ابو اور چچا کی کچھ کتابیں تھیں لیکن وہ بچوں کے لئے نہیں تھیں ،ابو نے میرے اس ذوق کی تسکین کے لئے گاں کے ہی ایک کتب فروش جنھیں ہم لوگ چھوٹے ابو کہا کرتے تھے ان کا نام عالمگیر ہے ،میںموقع ملتے ہی چچاعالمگیر کی دکان پر جاتا اور” سندباد جہازی“،”گل بکاولی“،”کوہ قاف“،”کچھوے کی جیت“،”طفلستان“ اور پریوں کی کہانیاں جےسی کتابےں لے کرآتااور انہےں خوب مزے لے لے کر پڑھتا۔مجھے یاد ہے کہ عارف کے ماموں ماسٹر اقبال جنھیں ہم لوگ چھوٹے ابو کہا کرتے تھے کے یہاں ”نور“ اور”ہلال“بھی آیا کرتا تھا۔میں وہاں سے اس کے پرانے شمارے بھی لاکر پڑھتا تھا۔

 درسگاہ سے ابھی میں نے تعلیم مکمل بھی نہ کی تھی کہ ابونے مجھے چچا کے ساتھ پھر مدرسہ تعلیم القران تنگن گنڈی بھٹکل بھیج دیاتاکہ میں عربی کی تعلیم حاصل کر سکوںیہاںمیرا داخلہ مکتب ششم مجوزہ درجہ عربی اول میں ہوا تھا ، اساتذہ میں مولانا ایوب ندوی اور مولانا اسحق ندوی یاد رہ گئے ہیں اول الذکر نحو جبکہ ثانی الذکر ادب پڑھاتے تھے ،چچا محترم عربی انشاءاور اردو پڑھاتے ، اب دارالعلوم بنا پیڑھی کو چھوڑ کر چچا پڑھانے کی غرض سے یہاں آ گئے تھے ،یہ مسلم آبادی پر مشتمل ایک چھوٹا مگر انتہائی خوبصورت گاں تھا ،میںیہاںصرف ایک سال رہالیکن اس کی مدھم مدھم سی یاد ابھی بھی میرے ذہن میںباقی ہے ،ناریل اور کاجو کے درخت میں نے پہلی مرتبہ یہیں دیکھے۔جب میںیہاں پہنچا تو کئی دن تک نیند نہیں آئی مجھے محسوس ہوتا تھا سامنے سے کوئی ٹرین گذر رہی ہے میںتو کئی دن تک یہی سمجھتا رہا کہ قریب ہی ریلوے اسٹیشن ہے اور یہ دھڑام دھڑوم کی آواز وہیں سے آ رہی ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ ٹرین کی آواز نہیں بلکہ سمندری لہروں کے سر پٹکنے کی آواز ہے جسے عرف عام میں مدو جذر کہا جاتا ہے ۔

 یہ جگہ واقعی بڑی خوبصورت اور پر لطف تھی ۔میں وقت گذاری کے لئے اکثر بعد نماز عصر سمندر کے کنارے دیر تک ٹہلا کرتا۔دور تک سمندر کے کنارے بچھائے گئے پتھر پر بیٹھ کر تلاطم خیز موجوں اور ان کے تھپیڑوں کو دیکھ کر میں سب کچھ بھول جاتا تھا۔اور تنہائی میں امی ،ابو ،بھائی بہن اور گھر کو یاد کرکے روتا بھی ،پتہ نہیں کیوں میں یہاں ایک سال رہا لیکن امی ابو بھائی بہن سب کے چھوٹ جانے کا غم اکثر ستایا کرتاان سب کو یاد کر کے میں جی بھر کے روتا۔ کر رات کو اتنا زیادہ کہ تکیہ بھیگ جایا کرتا، گرچہ یہاں چچی تھی ساتھ میں چچا زاد بھائی اور بہن بھی لیکن حقیقی ماں باپ اور بھائی بہن جیسی محبت کوئی نہیں دے سکتا۔ چچا کے کہنے کے باوجودچچی اپنے اولادوں سے جس انداز سے پیار کرتی مجھے ویسا پیار نہیں دے سکتی تھیں اورظاہر ہے اس میں ان کا کوئی قصور نہ تھا یہ ان کی مجبوری تھی اور انسانی فطرت کا خاصہ بھی اگر اس کی جگہ میری اپنی سگی امی بھی ہوتی تو شاید ان کا رویہ اپنے اولاد کےساتھ جیسا ہوتا دوسروں کے اولاد کے ساتھ ویسا نہیں ہو سکتا تھا۔

 پھر بھی یہاں ایک دو واقعوں کا ذکرنا مناسب نا ہوگا ایک مرتبہ میرے بدن پر خارش نکل آئی ،جس نے مجھے بہت زیادہ پریشان کردےا،ایک پل بھی سکون نہ ملتا تھا ،کافی پریشانی کی حالت میں مدرسہ سے میں چچا کے یہاں آیا ،چچی نے کسی طرح کی کوئی توجہ نہ دی،میں حمیرہ کو گود لینا چاہتا تھا ،مجھے شروع سے ہی بچے بہت اچھے لگتے ہیں ،چچی نے منی کو چھونے نہ دیا ،میں بشری ،طہ کے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا چچی نے دونوں کو اندر بلا لیا۔غالبا جمعہ کا دن تھا چچا نے کہا تم نہا لو پھر دوا دلانے ساتھ لے چلیںگے ،میں نہانے کے لئے جب غسل خانہ گیا تو چچا نے کہا کہ کپڑے نہ دھلنا چچی دھل دیں گی ،مجھے ایک مرتبہ کو تردد تو ہوا لیکن پھر چچا کے کہنے کی وجہ سے میں کپڑے غسل خانہ میں چھوڑ دئے اور نہا کردوسرے کپڑے پہن لئے ،دوا دلانے کے بعد چچا نے مجھے مدرسہ میں ہی چھوڑ دیا ایک ہفتہ بعد میں پھر چچا کے یہاںآیا کپڑالینے کے لئے۔ لیکن گھر آنے پر پتہ چلا کہ کھجلی والے کپڑے چچی کیونکر دھلتی۔جب میں غسل خانہ کپڑے لینے کے لئے گیا تو کیا دیکھتا ہوںہفتہ بھر پانی اور دھوپ میں بھیگنے کے سبب کپڑے خراب ہو چکے ،جگہ جگہ کالے پھپھوند پڑ چکے ہیں ،میں رو رو کر انھیں کپڑوں کوخود دھلتا ہوں لیکن کالے دھبے نہیں مٹتے ،سسکیوں کے ساتھ جب رونے کی آوازچچا نے سنی تو یہ کہ کر چپ کیا کہ تمہیں نیا کپڑے خرید دیں گے ،لیکن چچا نے نئے کپڑے نہیں خرید ے شاید چچی کے ہاتھوں وہ بھی مجبور تھے۔

 ایک اور واقعی چچا کے یہاں کہیں سے مٹھائیاں آئیں ،کھیلتے کھیلتے میں چچا کے گھر جا پہنچا ،چچی اس وقت مٹھائیاںاپنے بچوں کے درمیان تقسیم کر رہی تھیں۔چچی نے جیسے ہی مجھے دیکھا جھٹ مٹھائی اپنے آنچل میںچھپا لیا کہ جیسے میری نظر ہی نہیں پڑی۔چچی کی یہ حرکت میرے دل کو لگی اور میں الٹے پاوں مدرسہ واپس آ گیا۔ظاہر ہے اگر اس کی جگہ میری اپنی ماں ہوتی تو کبھی ایسا نہ کرتی۔اس کے علاوہ بھی اور ڈھیروں ایسے واقعات ہیں جس کا تذکرہ نہ کرنا ہی بہتر ہے۔لیکن ہاں اتنا ضرور ہے کہ انھیں وجوہ کی بنا میں اکثر سوچا کرتا ہوں کہ مجھے ماں باپ کا پیار نہیں ملا۔میں نے ایک دو مرتبہ امی اور ابو سے اس کا ذکر بھی کیا ہے۔ابو نے یہ کہ کر ٹال دیا کہ ہا ں بغیر پیار کے ہی اتنے بڑے ہو گئے۔ لیکن بھلا میں امی اور ابو کو کیسے بتاتا کہ ایسا میں کیونکر کہتا ہوں۔اگر میں امی اور ابو سے ان واقعات کو بتاتا تو انھیں ضرور تکلیف ہوتی اور انھیں پتہ بھی چل جاتا کہ میں ایسا کیوں کہتا ہوںلیکن میں نے آج تک ان میں سے کسی بھی واقعہ کا کسی سے ذکر نہیں کیا ہے۔

 ایک سال گذار کر بھٹکل سے عید کی چھٹی کے موقع پررمضان المبارک میں چچا کے ساتھ جب گھر آیا توابواپنے چند دوستوں کے مشورسے مجھے اعظم گڈھ جامعۃ الفلاح یا مدر سۃ الاصلاح بھیجنے کا ارادہ کر چکے تھے ۔یہ مشورہ غالبا مولانا امین الدین اصلاحی کا تھا جو جامعۃ المحسنات کے نام سے لوہردگا ضلع میں لڑکیوں کا ایک ادارہ چلاتے ہیں ،بہر حال ابو نے جب مجھے یہ فیصلہ سنایا تو میں نے ہاں کہہ دی ،میرے ہاں کرنے کے پیچھے یہ بات بھی تھی کہ میں نے مکتب میں کہیں شہباز ہندی اور کوثر اعظمی کی کچھ نظمیں پڑھی تھیں جن کے تعارفی نوٹ میں بتایا گیا بتایا گیا تھا کہ انھوں نے مدرسۃ الاصلاح سے تعلیم پائی تھی میرے ننھے ذہن میں اسی وقت یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ مجھے مدرسۃ الاصلاح پڑھنے جانا ہے اور ان جیسا ایک قلم کار بننا ہے۔

 لیکن امی کسی بھی طرح مجھے باہر بھیجنے کے لئے راضی نہ تھیں ،مجھے آج بھی یاد پڑتا ہے جس دن مجھے اعظم گڈھ کے لئے روانہ ہونا تھا،اس رات امی بار بارمیرے پاس آتی اور میرے چہرے سے چادر اٹھا کر نا جانے کیا دیکھتی ،کبھی میرے گال کو چومتی تو کبھی میرے پیشانی کو، امی کی بار بار کے اس عمل سے جب میری نیند کھل گئی تو انھوں نے مجھے گلے لگا لیا اور کہنے لگی بھلا میں اس چھوٹے سے بچے کو کیسے اکیلے باہر بھیج سکتی ہوں،بھٹکل میںتو دیکھ ریکھ کرنے والا ابراہیم تھا تو کم از کم اطمینان رہتا تھا ،پھر کہتی نہیں نہیں میں نہیں جانے دونگی اور پھر گلے لگا کر رونا شروع کر دیتی ،صبح بھی امی کا یہی رویہ رہا ابو کو بھی تشویش ہوئی تو انھوں نے گاں کے ہی کئی بچوں کو ساتھ پڑھنے کے لئے بھیجنے کا ارادہ کیا ،لیکن کوئی بھی اپنے لخت جگر کو اپنے سے دور بھیجنا نہیں چاہتا تھا یہ کام وہی کر سکتا ہے جس کی نظر مستقبل پر ہو اور جس کے اندر عزم ،ہمت اور حوصلہ ہو۔

 مجھے اچھی طرح معلوم ہے ابو بھی مجھے اپنے سے جدا کرنا نہیں چاہتے تھے،اپنی اولاد کسے پیاری نہیں ہوتی کوئی نہیں چاہتا کہ اس کی اولاد نظروں سے اوجھل ہو ،لیکن ابو میرے بارے میں کچھ خواب سجائے ہوئے تھے اسی لئے انھوں نے دل پر پتھررکھ کر یہ فیصلہ کیا تھا۔خیر کافی سمجھانے بجھانے کے بعد ایک دور کے ماموں کو ابو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور انھوں نے اپنے بیٹے کوبھی میرے ساتھ بھیجنے کا ارادہ ظاہر کر دیا، ابو بڑے خوش ہوئے اور ہم دونوں یعنی راقم الحروف اور ماموں زاد بھائی دانش عبد اللہ کو استاذ محترم مولانا انعام اللہ رحمت ندوی کی معیت میں اعظم گڈھ تعلیم کے لئے روانہ کر دیا۔میں آج بھی اس جدائی کے منظر کو نہیں بھول سکتا جب میں نے گھر سے نکلتے ہوئے امی ،نانی ،خالہ ،ممانی اور باجی ان سب کی آنکھوں کو ڈبڈبائی ہوئی دیکھا ،نانی تو فرط جزبات میں آنچل اٹھائی ہوئی رو رو کر میری کامیابی کی دعائیں دے رہی تھیں۔مجھے رانچی بس اسٹنڈ تک چھوڑنے کے لئے ابو کے ساتھ ساتھ ماموں ،چچا اوربھائی جان بھی آئے تھے سبھوںنے مجھے ڈھیر سارے روپئے اور طرح طرح کے سامان خرید کر دئے ،ماموں نے روپیوں کے علاوہ بہت سارے پوسٹ کارڈ اور لفافہ بھی دئے اور تاکید کی کہ جاتے ہی خط لکھنا ماموں نے توپوسٹ کارڈوں اور لفافوں میں پتے تک لکھ دئے تھے تاکہ مجھے پتہ بھی لکھنے میں دشواری نا ہو۔

 مجھے یہاں پر ایک واقعہ اور یاد ہے شاید اسے میں کبھی نہیں بھولوں گا یہ سردیوں کا موسم ہے ،کڑاکے کی سردی پڑ رہی ہے ،شام کے غالبا چھہ بج رہے ہیں گاڑی کے آنے میں ابھی ذرا دیر ہے ابو مجھے ایک ہوٹل میں لے جاتے ہیں، دو چائے کا آرڈر دیتے ہیں، چائے والا چائے لے کر آتا ہے ابو ایک مجھے دیتے ہیں اور ایک خوداپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں ،اب ابو مجھے نصیحت شروع کرتے ہیں”بیٹا دل لگا کر پڑھائی کرنا ،پہنچتے ہی فون ضرور کرنا ،وقت ضائع نہ کرنا ،کسی بھی قسم کی پریشانی ہو تو بلا جھجھک بتانابیٹا !میری لاج رکھنا،تم سے بڑی امیدیں ہیں“ یہ کہتے کہتے ابو کی آواز رندھ جاتی ہے اور پھر میں دیکھتا ہوں کہ ابو کی آنکھیں ڈبڈبا گئی ہیں وہ آنسووں کو چھپانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں لیکن آنسوہیں کہ چھپنے کا نام ہی نہیں لیتے ابو کو روتا دیکھ کر میں بھی رو دیتا ہوںتو ابو مجھے اپنے سینے سے لگا لیتے ہیں اوراپنے مفلر سے آنسو پوچھتے ہیں اورمجھے چپ کرتے ہوئے وہ مفلر میرے کاندھوں پر لپیٹ دیتے ہیں،میں سویٹر پہنا ہوا ہوں مجھے ٹھنڈ بھی بالکل نہیں لگ رہی ہے،لیکن اس کے باوجود ابو مفلر کو میرے گلے سے لپیٹ دیتے ہیں اور کہتے ہیں چلو کہیں بس کھل نہ جائے اور پھر ابو لمبے لمبے قدم بڑھاتے ہوئے بس کی طرف چل پڑتے ہیں ،میں بھی ان کی انگلی تھامے ان کے پیچھے چل پڑتا ہوں،سوار ہوتے ہی گاڑی فضا میں دھواں بکھیرتی ہوئی منزل کی طرف چل پڑتی ہے ،میں گاڑی کے شیشہ سے ابو ،ماموں ،بھائی جان،چچا سبھوں کو دیکھ رہا ہوں،سب اپنی اپنی باتوں میں محو ہیںسوائے ابوکہ جو دیر تک گاڑی کو دیکھتے رہتے ہیں یہاں تک کہ گاڑی دور نکل جاتی ہے ، اور اب ابوبھی مری نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں،لیکن دل کی نظروں سے ابواب بھی مجھے وہیں کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ابو کا وہ مفلر آج بھی میرے پاس ہے اور کیوں نہ ہو کہ اس میں میرے ابو، مجھ سے ٹوٹ کر پیار کرنے والے ابو کی محبتوں کے آنسو جذب ہیں۔

  ایک اور واقعہ سن لیجئے یہ بھی میرے اسکول کے زمانہ کی ہی بات ہے۔یہ یاد نہیں ہے کہ اس وقت میںکس کلاس میںتھا

 یہ گرمیوں کا موسم تھا ،ہم بچے گھر کے بر آمدے میں کھیل رہے تھے۔کہار اپنے کاندھوں پر اور آدی واسی خواتین اپنے سروں کے اوپر کچے آموں کی ٹوکریاں لئے ”آم لے لو ،آم لے لو“کی آواز لگاتے ہوئے گلی سے گذر رہے تھے۔امی نے آ م والوں کو رکوایا اور مول بھاکرنے لگی ،غالبا زیادہ مہنگے ہونے کے سبب امی نے آم نہیں خریدے۔لیکن میں نے ایک بڑھیا کی ٹوکری میں سے دو آم چرا کر چپکے سے چاول کی بوری میں چھپا دیا کہ کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور دو چار دن میں کھانے لائق ہو جائیں گے۔لیکن یہ کیا جب دوپہر کے کھانے کے لئے امی بوری میں سے چاول نکالنے گئی تو اس میں سے دو تازے کچے آم دیکھ کر حیران ہوئی انھوں نے اندازہ لگا لیاتھا یہ صبح والے ہی آم ہیں ،خیر پوچھ گچھ شروع ہوئی کہ بوری میں آ م کس کے ہیں ،اس بابت جب مجھ سے دریافت کیا گیا تو جیسے میری زبان ہی گنگ ہو گئی ،امی کو اب ماجرا سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ آم میں نے بڑھیا کے ٹوکری میں سے بغیر اجازت لئے ہیں۔ اسوقت تک ابو بھی اسکول سے واپس آ چکے تھے۔ابو کو جیسے ہی اس بات کا انکشاف ہوا کہ شریف زادے نے آم چوری کئے ہیں۔ابو یوں بھی شروع سے ہی سخت مزاج ہیں ،ایسے موقع پر ان کا رویہ اوربھی سخت ہو جاتا ،آنکھیں سرخ ہو جاتیں ،چہرہ تمتما اٹھتا اور غصہ سے لال پیلےہو جاتے۔یہ سنتے ہی انھوں نے میری وہ درگت بنائی کہ الامان و الحفیظ وہ تو اچھا ہوا امی سامنے آ گئیں ورنہ میری کیا حالت ہوتی وہ میں ہی جانتا ہوں۔ابو نے مجھے سزا سناتے ہوئے کہا کہ میں آم والے کو نہ صرف آم واپس لوٹا آں بلکہ اس سے معافی بھی مانگوں اور جب میں نے ایسا کیا تبھی انھوں نے گھر میں قدم رکھنے دیا۔اس واقعہ کے بعد سے آج تک مجھے بلا اجازت کسی کا ساما ن اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی۔

 ایک اور واقعہ جو آج بھی مجھے دہلا دیتاہے ،ہم امردوتوڑنے اپنے چچیرے دادا کے یہاں گئے ہوئے تھے۔جو ہمارے گھر سے کچھ ہی دور پر تھا۔یہاں پر ہمارے دادا کی کافی زمینیں تھیں جن میں مختلف قسم کے پیڑ پودے لگے ہوئے تھے ،لیکن دادا کے ہاں کے امرودوں کی کچھ بات ہی الگ تھی ،میٹھےبڑ ے بڑے خوبصورت امرود کہ دیکھ کر اچھے اچھوں کا جی للچا جائے ،ہم تو ٹھہرے بچے۔دادای اماں جھولی میں بھر بھر امرودگھر پہنچا جاتی ،لیکن جو مزا خود سے توڑ کے کھانے میں ہے وہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ایک دن دادی کے منع کرنے کے باوجود میں درخت پر چڑھ گیا اور بندروں کی طرح کبھی اس ڈالی سے اس ڈالی اور کبھی اس ڈالی سے اس ڈالی امرودتوڑتا اور کھاتا رہا، بڑا مزا آ رہا تھا۔جس درخت پر میں چڑھا تھا ٹھیک اس کے سامنے گہرا کنواں تھا مجھے اس کا اندازہ ہی نہ تھا۔اچانک ایک ڈالی ٹوٹتی ہوئی رٹ رٹ کی آواز کے ساتھ نیچے آ رہی۔نیچے جو نظر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کنواں خطرناک اڑدہاکی طرح منہ کھولے کھڑا ہے۔یہ دیکھتے ہی اچانک میری چیخ نکل گئی ،مجھے موت انتہائی قریب نظر آنے لگی اور ایسا محسوس ہوا جیسے میں واقعی مر گیا ،تھوڑی دیر کے لئے سانس جیسے تھم سی گئی۔مری زبان سے بس یہی نکلا”اللہ بچا لے“۔ سچ کہا کہنے والے نے ”مصیبت کے وقت خدا یاد آتا ہے “اسی لمحہ اچانک ایک دوسری ڈال میرے ہاتھ کی گرفت میں آ گئی اور میں اس کی مدد سے زمین پر صحیح سلامت اترنے میں کامیاب ہوگیا۔واقعی یہ اللہ کا کرم تھا ورنہ اس دن میں کنویں میں گر ہی گیا تھا۔آج بھی جب میں دادی کے یہاں جاتا ہوں یہ منظر نہیں بھولتا ،بدن میں کپکپی سی طاری ہو جاتی ہے۔
12/aug/2012




۔۔۔مزید

نرسری میں غرباء کا داخلہ پھردرد سر



! کے ساتھ تفریق برتنے کا امکان بعید از قیاس نہیں مسلم بچوں  

محمد علم اللہ اصلاحی

                نیا سال آتے ہی دہلی کے نرسری اسکولوں میں داخلے کی دوڑ شروع ہو گئی ہے اور اس سال عام طبقے کے ساتھ اقتصادی طور پر کمزور (ای ڈبلیوایس) طبقے کے بچوں کے داخلے میں بھیڑ کافی بڑھنے کا امکان ہے کیونکہ محروم طبقہ میں یتیم بچوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔اس سال کئی اسکولوں نے جنرل زمرے میں آن لائن رجسٹریشن کی سہولت بھی پیش کی ہے تاہم اقتصادی طور پر کمزور طبقے کے بچوں کو مشترکہ درخواست فارم بھرناہوگا۔محکمہ تعلیم نے مختلف اسکولوں کیلئے الگ الگ درخواست دینے کے بجائے اس بار ’مشترکہ درخواست‘کی سہولت فراہم کرائی ہے۔تعلیم ڈائریکٹوریٹ کی ویب سائٹ پر مشترکہ درخواست ڈالا گیا ہے۔


                دہلی کے ایک حالیہ تعلیمی سروے میں نرسری کے داخلے میں بڑی تعداد میں درخواستوں کی بات سامنے آئی ہے۔ 2012 میں نرسری کلاسوں میں داخلے کے لیے فی عمومی نشست کے لئے 50 درخواست آئے تھے۔آئی آئی ایم میں داخلے کے لیے فی عمومی نشست پر 61 درخواست آئے تھے جب کہ یہ قومی سطح کا داخلہ امتحان ہے۔دہلی اسکول کی تعلیم نامزدگی بورڈ نے حال ہی میں نرسری کلاس میں داخلے کے لئے عمر کی حدکے بارے میں کچھ تجاویز پیش کی تھی لیکن اسے رواںتعلیمی سیشن میں نافذ نہیں جائے گا۔کافی تعداد میں بچوںکے سرپرست نرسری میں داخلے کی موجودہ نظام سے مطمئن نہیں ہےں اور اس میں ترمیم کر کے نظام کو مجموعی بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کئی اسکولوں میں نرسری میں داخلے کے لئے سابق طالب علموں کے بچوں کو 100 پوائنٹ میں سے 15 سے 30 پوائنٹ تک دیے جا رہے ہیں جس سے بہت سرپرست غیر مطمئن ہیں۔چھ سے 14 سال کے بچوں کو مفت میں فیس اور لازمی تعلیم کا حق قانون (آرٹی ای) کے تحت سماج کے کمزور طبقے کے بچوں کے لئے 25 فیصد سیٹ رکھنے کی بات کہی گئی ہے۔ دہلی کے پرائیویٹ اسکولوں میں داخلے کے لئے اس کسوٹی کو مکمل کرنا بھی اہم چیلنج ہوگا۔قومی دارالحکومت کے اسکولوں میں نرسری میں داخلے کے لئے 15 جنوری تک رجسٹریشن کرائے جا سکتے ہیں۔داخلے کے لیے پہلی فہرست 15 فروری کو اور دوسری فہرست 28 فروری کو جاری ہو سکتی ہے۔ داخلے کے لئے بچے کی پیدائش سرٹیفکیٹ اور پتے کے ثبوت اہم دستاویزات ہیں۔ پتے کے ثبوت کے طور پرآدھار کارڈ کو قبول کیا جائے گا۔اگر بچے کا صرف ایک سرپرست ہو تو اس کے لئے پوائنٹ مقرر کیا گیا ہے جبکہ لڑکیوں کو بھی داخلے میں توجہ دیتے ہوئے پوائنٹ رکھے گئے ہیں، اگر والدین میں سے کسی نے اس اسکول میںپڑھائی کی ہے تو اس کے لئے بھی پوائنٹ رکھے گئے ہیں۔معزور بچوں کے لئے بھی پوائنٹ ہیں۔


                کہا جا رہا ہے کہ بچوں کا نرسری میں اےڈمیشن ماں باپ کے لئے کسی لڑائی جیتنے جیسامعرکہ ہے۔ جس میں دہلی کے تقریبا 1200 اسکولوں میں نرسری ایڈمشن کے لئے یہ جنگ شروع ہوگی اور پوائنٹ سٹم کی بنیاد پر داخلے کے عمل کو مکمل کیا جائے گا۔اس کے تحت گھر اور اسکول کے درمیان کا فاصلہ (پڑوسی)، اسکول میں پہلے سے ہی پڑھ رہے بچے کے بھائی یا بہن اورقدیم کو بنیاد بنا کربھی پوائنٹس دیے جائیں گے سرپرست پوائنٹ سسٹم کے پیچ میں پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ اسکول اس سسٹم پر اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ(تعلیم سب کے لئے قانون)کے مطابق پوائنٹ سسٹم کے تحت بچوں کے داخلے کی بات کہی گئی ہے، لیکن اسکولوں کی من مانی کی وجہ سے پوائنٹ سسٹم میں تال میل کی کمی ہے۔ مثال کے طور پر ایلکان پبلک اسکول میں نرسری کی 160 نشستیں ہیں۔ایلکان آر ٹی ای کو دھیان میں رکھتے ہوئے بھائی بہن کو 40 پوائنٹس دے رہا ہے اوربھائی کو 25 پوائنٹس دے رہا ہے۔کیمبرج پرائمری اسکول بھائی بہن کو 15 اوربھائی کو 15 پوائنٹس دے رہا ہے۔دونوں اسکول کے طریقہ کار میں فرق صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ اتنا ہی نہیں کیمبرج اسکول اپنے پوائنٹ سسٹم کی لسٹ میں والدین کو انٹر کلچرل ہونے پر بھی 10 پوائنٹ دے رہا ہے۔ دہلی میں کئی اسکول جین مذہب کے لوگ چلا رہے ہیں، یہاں سبزی خوراور غیر سبزی خور پس منظر کے والدین کو 10 پواٹس الگ سے دےے جا رہے ہیں۔اسکولوں کے من مانے رویے پر دہلی حکومت نے یہ عذرپیش کرتے ہوئے پلہ جھاڑ لیا ہے کہ معاملہ عدالت میں ہے۔شاید اسی لئے کہا جا رہا ہے کہ والدین کو اپنی تیاری پوری کر لینی چاہئے کیونکہ ایڈمشن بھلے ہی بچے کا ہو لیکن اصل امتحان والدین کو پاس کرنا ہے۔


                اس مرتبہ ماہرین نے تخمینہ لگاتے ہوئے قیاس ظاہرکیا ہے کہ داخلے کے فارم بیچنے سے ہی اسکول والوں کو 1200کروڑ روپے کی کمائی ہونے کا امکان ہے۔ یہ تو محض ایک اتفاق ہے ملک بھر کے تمام پبلک اسکولوں کے اعدادو شمار کو جوڑا جائے تویہ رقم بہت بڑی بنے گی۔مگر پچھلے برس پرائیویٹ سیکٹر کے ان پبلک اسکولوں میں نرسری کے مہنگے فارم بیچ کر 1 ہزار کروڑ روپے کی کمائی کی تھی لیکن اس سال یہ رقم1200 کروڑ روپے سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔ ان کے مطابق کسی اچھے پبلک اسکول میں نرسری میں بچے کا داخلہ کرنا کوئی بڑی جنگ جیتنے سے کم نہیں ہے۔ اسی لئے ابھی زیادہ دن گذرے بھی نہیں ہیں کہ والدین کو کئی بڑے اسکولوں کے چکر لگانے پڑرہے ہیں بتایا جاتا ہے کہ اپنے لاڈلوں کی خاطر سرپرستوں کی یہ دوڑ دھوپ داخلہ مکمل ہونے تک 20 ہزار سے25 ہزار روپے تک خرچ ہو جاتے ہیں۔لوگوں کا تجربہ یہ بھی بتاتا ہے کہ داخلہ فارم کے فروخت کا عمل کچھ دنوں کے اندر بند کردیا جاتا ہے یا پھر بہت محدود رکھے جاتے ہیں۔ ایسے میں کسی بھی معیاری اسکول میں بچے کے داخلے کےلئے ماں باپ دن رات ایک کردیتے ہیں۔لیکن شایدمنتظمین کو عام لوگوں کو پریشان کرنے میں ہی مزا آتا ہے۔


                ایک این جی اوکے سروے کے مطابق دہلی میں چھوٹے بڑے تقریباً تین ہزار پبلک اسکول ہیں جو نرسری کے داخلے کے لئے ایک پورا دستورالعمل جاری کرتے ہیں جس میں داخلے کی تمام معلومات ہوتی ہیں۔ دہلی سرکار نے حال ہی میں ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے داخلے میں 25 فیصد سیٹیں اقتصادی طور سے پسماندہ خاندانوں کے بچوں کے لئے مختص کرنے کو کہا ہے۔ اس سے عام زمرے کے بچوں کے لئے داخلے میں سیٹیں محدود رہ جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ والدین کو ایک دو نہیں بلکہ کئی اسکولوں میں داخلے کے فارم پر پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ سروے کے مطابق دہلی پبلک اسکولوں میں نرسری اور کے جی داخلے کے فارم دہلی یونیورسٹی ،انڈین مینجمنٹ انسٹیٹیوٹ، چارٹرڈ اکاونٹٹنٹ اور دیگر تعلیمی اداروں سے بھی مہنگے ہوگئے ہیں۔نرسری و پری پرائمری اسکول میں داخلہ فارم کی فیس کی قیمت ہی دیکھ کر پریشان ہونے والے والدین کا درد سر یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ فارم جمع کر نے کے بعد بھی انھیں مہنگائی کی مارکئی طرح سے جھیلنی پڑ تی ہے۔ قسطوں میں فیس کی ادائیگی تو تب بھی سمجھ میں آتی ہے لیکن کئی اسکولوں میں یکمشت فیس جمع کرانے کی جو شرط مقرر ہے ،وہ والدین کے گلے کی پھانس بن گئی ہے۔ نرسری کلاس بھلے ہی چھوٹی لگ رہی ہو لیکن اس کے خرچ کسی اعلی تعلیم کے خرچوں سے کم نہیں۔ سالانہ خرچ کی بات کریں تو دہلی میں ایسے اسکولوں کی کمی نہیں جو 70 ہزار سے1 لاکھ روپے تک کی فیس وصولتے ہیں۔ اس بابت مبصرین کا یہ کہنا کہ درمیانہ طبقے کے خاندان کے لئے اتنی رقم کا انتظام کرنا بہر حال ایک مشکل امر ہوگا ۔
           

                دہلی کی سب سے بڑی اقلیت بالخصوص مسلمانوں کاایک بڑا طبقہ بھی اسکولوں کے اس رویہ کو لیکر کافی پریشان ہے ۔چونکہ عموما اس طبقہ کے ساتھ ملک کے تمام ہی معاملات میں تفریق برتا جاتا ہے، اس لئے وہ کچھ زیادہ ہی پریشان ہیں اور اپنے بچوں کی بابت چاہتے ہیں کہ انھیں ایسے اسکول میںداخلہ ملے جو ان کے بچوں کے خلاف امتیازی سلوک نہ کرتے ہوں۔یہ بیان ہندستان کے ایک انگریزی روزنامہ میں شائع’ ہیم بور ‘کر کے مضمون میں ہوا ہے جس میں فاضل مضمون نگار نے اپنے ایک سروے کے حوالہ سے کہا ہے کہ” اقلیتی طبقہ سے جڑے افراد کا یہ بیان اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں داخلہ حاصل کرنے میں پیش آنے والی مشکلات کے سبب والدین کے اندر بڑھ رہی لاچاری اور غصہ کے احساس پر روشنی ڈالتا ہے“۔ بہت سے لوگ اپنے ’احساس‘ کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ نجی اسکولوں نے پہلے سے ہی طے کیا ہے کہ’بس اتنے ہی طے شدہ مسلمانوں کو لینا ہے اور مزید کوئی مسلمان نہیں لینا ہے ۔اور چونکہ گزشتہ سال بھی دہلی کے اسکولوں میں نرسری درجے میں ہوئے داخلوں کے اعداد و شمار میں مسلمان بچوںکی تعدادتشفی بخش نہیں دیکھے کوملی تھی اس لئے اس برس بھی اس طبقہ کے لوگوں کو تشویش ہے۔


                واضح رہے کہ دہلی میں آبادی کی مناسبت سے مسلمان پندرہ فیصد ہیں جبکہ انہیں گزشتہ برس صرف صفر اعشاریہ پانچ فیصد سے کم ہی داخلے دیے گئے تھے ۔یعنی تقریباً 92 اسکولوں میں سے 12399 سیٹوں میں صرف 208 مسلم بچوں کو داخلے دیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ 20 اسکولوں نے تو کسی مسلم بچے کو داخلہ ہی نہیں دیا جبکہ 17 اسکولوں نے صرف ایک ایک مسلم بچے کو داخلہ دیا تھا۔اس وقت حکومت نے انکوائری کرانے اور آئندہ ایسی غلطی نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن آج تک یہ معاملہ حل نہیں ہو سکا ؟کیا اس بار بھی ایسا ہی ہوگا؟یہ ایک اہم سوال ہے۔بارہا چونکہ یہ دیکھا اور محسوس کیاجاتا رہاہے کہ ملت کے غمخواروں کی نینداُس وقت ٹوٹتی ہے،جب وقت گزرچکا ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر ایک بار پھر ملی قائدین داخلہ کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچ جانے کے بعد خواب غفلت سے بیدار ہونگے تو اس میں حیرانکردینے والی کوئی بات نہیں ہوگی۔
alamislahi@gmail.com




۔۔۔مزید