ہفتہ، 25 اپریل، 2015

دنیا میں کتنا غم ہے ۔۔۔۔۔

محمد علم اللہ اصلاحی
آج میرے ایک آفس کلیگ نے اپنے دل کی کچھ باتیں مجھ سے شیر کیں ،کئی دنوں سے وہ الجھا الجھا سا نظر آتا تھا میں نے یوں ہی پوچھ ہی لیا بھائی خیریت تو ہے ؟ اسقدر اداس کیوں ہو ۔
 یار زندگی کو خوشی خوشی جیو ، غم ہو تو بھی اس کو پی جاو ، یہ دنیا غم سننا نہیں چاہتی ۔
پتہ نہیں اس کو میری باتوں سے کیا لگا ۔سامنے کرسی پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں پریشان ہوں۔ ابھی میں اس سے کچھ بولتا کہ  اس نے اپنی داستان سنانی شروع کی ۔ جب وہ چھ سال کا تھا تو اس کے والد کا انتقال ہو گیا ، اس نے ایک مدرسہ میں پڑھائی کی ۔
اسکی  والدہ دماغی طور سے مریضہ ہیں ، بیوی حمل سے ہے ذہنی توازن کھوئی ہوئی والدہ ہمہ وقت اسے او اسکی بیوی کو گالیاں دیتی اور برا بھلا کہتی رہتی ہے ، شوگر اور موتیا بند بھی انھیں لاحق ہے ، بچے پر ہیز کے لئے کہتے ہیں یا چائے بغیر شکر کے دیتے ہیں تو انھیں لگتا ہے ان کے اوپر ظلم ہو رہا ہے ، اور تو پھر گالیوں کی برسات شروع ہو جاتی ہے۔ وہ بتانے لگا زندگی اجیرن ہو گئی ہے دوست کبھی کبھی  تو جی چاہتا ہے ، گھر ہی چھوڑ دوں لیکن پھر بیمار ماں کا خیال آتا ہے تو ہمت نہیں پڑتی ، کتنی دعائیں کتنی دوائیں سب کچھ کرالیا کچھ فائدہ نہ ہوا ۔
اس نے مجھے یہ باتیں بتائیں اور تب سے میں اداس ہوں ، ہم کتنے نا شکرے ہیں ، ہمیں ماں باپ، ڈھیر ساری خوشیاں ، اچھے احباب  سبھی کچھ تو میسر ہے ،پھر بھی ناشکری کرتے رہتے ہیں ۔
ماں آج بہت یاد آئی ، ابو آپ بھی ۔ماں تیری شفقت کا سایہ تادیر قائم رہے ابو میں گھر کو یاد کرکے اب بھی رو دیتا ہوں، اللہ آپ دونوں کو صحت و عافیت دے ۔آپ لوگوں کا سایہ تادیر قائم رکھے ۔سب کے مسائل حل ہوں،اور خوشیاں دوڑی چلی آئیں میں احباب سمیت سب کے لئے یہی دعا کرتا ہوں ۔

۔۔۔مزید