پیر، 23 دسمبر، 2013

اب تو دسمبر بھی جانے کو ہے

محمد علم اللہ اصلاحی 
زندگی کی مدت ایک سال اور کم ہو گئی ہے۔دسمبر پھر سے لوٹ آیا ، بلکہ اب تو ختم ہونے کو ہے ،یہ ہر سال آتا ہے ، مگر پتہ اس وقت چلتا ہے جب ایک سال اور گزر جاتا ہے۔کئی نادانیا ں اس سال بھی ہوں گی اور اب تو وقت نے کچھ اورپختگی دے دی ہے سوچ کو، جینے کا کچھ اور ڈھب آ گیا ہے، کچھ تحمل کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوا ہے،کچھ دنیا کے اور رنگ دیکھ لیے ہیں ، اور ڈھیروں پیاری یادیں اس سال سے منسلک ہیں جو وہ اپنے دفتر میں سمیٹے چلا جائے گااور پھر کبھی لوٹ کرنہ آئے گا،لیکن اس کی وہ تمام یادیں دل کے گلستان میں پھولوں کی طرح ہمیشہ تازہ رہیں گی جن کی خوشبوؤں سے دل کو طمانینت اور لبوں کو تبسم کی دولت مل سکے گی اور کچھ ایسی تلخیاں ہیں جو دل دکھا گئیں جن کا اعادہ نہ ہونا ہی بہتر ہے۔پتہ نہیں ایسا ہوگا یا نہیں کل کو کس نے دیکھا ہے ۔مگر اندیشے ابھی سے سر اٹھا رہے ہیں اس لئے ڈر لگتا ہے کہ اگلے برس کیا ہوگا ؟ کیا چھن جائے گا؟ کہیں نیا سال کوئی ایسا زخم نہ دے گا جو عمربھر کا روگ بن جائے ، ایسی سزا نہ دے جس کا زخم تادم حیات مندمل نہ ہوسکے۔زندگی میں مثبت یا منفی کس طرح کی تبدیلیاں آئیں گی۔اللہ کرے بہتر ہی ہو ۔ایک عزم ہے کہ اب پرانی غلطیوں کونہیں دہرانا ۔ اب کہ کچھ نیا کرنا ہے، کچھ ایسا کہ اگلے سال دسمبر میں جب ضمیرکی عدالت لگے اور کٹہرے میں کھڑا ہوں ، تو شرمندگی سے اپنی ہی نظروں میں نہ گر جاؤں،ایسا کوئی گناہ نہ ہو کہ ضمیر کی عدالت میں قابل معافی نہ قرار دیا جائے اورمزید ایک سال کے ضیاع کا مجرم ٹھہروں، کچھ ایسا نہ ہو کہ جس سے کسی کا دل دکھے، کچھ ایسا نہ ہو کہ جس سے کوئی روٹھ جائے، اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرنا آجائے، انا مجھے سنگ دل نہ کردے، مجھ سے وابستہ لوگوں کی امیدیں نہ ٹوٹ جائیں، اگلے سال جب دسمبر آئے تو دل مطمئن ہو ، دل پر کوئی بوجھ نہ ہو۔میں دعا گو ہوں خدایا ! زندگی کو سب کے لئے آسان بنا ، ہم سب خوش رہیں،میں اب کے سال زندہ رہوں تووہ زندگی کی کامیابی کے حساب میں ہواورسانسیں اکھڑ جائیں تو لوگ یاد رکھیں۔آپ سے بھی دعا کی درخواست ہے ۔

۔۔۔مزید

ہفتہ، 30 نومبر، 2013

کیا حل ہو گئی آروشی مر ڈر مسٹری ؟

محمد علم اللہ اصلاحی 
نوکر سے پیار،جنسی استحصال اور پھر قتل ،مئی ، ۲۰۰۸ء کی رات سیکٹر ۔۲۵ واقع جل وایو وہار کے ایل ۔۳۲ میں ایسی ہلچل مچی کہ ساری دنیا کی نگاہیں اسی پر ٹک کر رہ گئیں۔ گھر میں والد،والدہ، آروشی اور نوکر ہیم راج تھا۔ ایک فلیٹ میں کل چار افراد تھے اور رات کے ۱۲ سے۱؍ بجے کے درمیان آروشی اور ہیم راج بیک وقت دو لوگ موت کے گھاٹ اتار دئے گئے ۔ آروشی کی لاش قتل کے اگلے دن دوپہر کو اور ہیم راج کا لاشہ تیسرے دن برآمد ہوا۔ قاتل نے تیز وار کئے تھے ، گلے پر وار کے باوجود آروشی کی آواز نہیں نکل سکی تھی۔قتل کے بعد آروشی کے کمرے میں رکھا موبائل اور کمپیوٹر رات ایک سے چار بجے کے درمیان کئی بار استعمال کیا گیا۔ دو لوگ ہی گھر کے اندر تھے۔ جب صبح گھر پرنوکرانی آتی ہے اور سارے ماجرے سے مالک و مالکن کو واقف کراتی تو ڈاکٹر تلوار اور نوپور بیٹی کی موت کے بارے میں پولس سے شکایت کرتے ہیں۔ وہیں ، پولیس بھی صبح جلدی میں جائے حادثہ کو چھوڑ ہیم راج کو تلاش کرنے باہر نکل جاتی ہے۔ایک دن بعد جب ریٹائرڈ ڈی ایس پی کے کے گوتم چھت پر جاتے ہیں تو انھیں نوکر ہیم راج کی لاش ملتی ہے۔ اس کے بعد قتل کی اس واردات کا منظرنامہ پورے طور سے بدل جاتا ہے اور آروشی ، ہیم راج قتل ایک معمہ بن جاتا ہے۔لیکن شواہدکی روشنی میں عدالت اور پولس مجرم کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔اور مجرم کیفر کردار کو پہنچ جاتے ہیں ۔
یہ ہے اس کہانی کا خلاصہ جو گذشتہ ساڑھے پانچ سالوں سے جاری رہنے کے بعد۲۶دسمبر ۲۰۱۳ء کوبہ ظاہر اپنے انجام کو پہنچ گئی ۔اور ملک کے سنسنی خیز جرائم میں سے ایک قتل مسٹری آروشی تلوار اور ہیم راج کے قاتلوں کو سزا سنائی گئی۔خبروں کے مطابق ڈبل قتل کے اس معاملے میں غازی آباد کی خصوصی سی بی آئی عدالت نے یہ فیصلہ سنایا جس میں عدالت نے آروشی کے والدین راجیش تلوار اور نپور تلوار کو قتل اور ثبوت مٹانے کا قصوروار قرار دیااورآروشی ۔ ہیم راج قتل کیس میں والدین کو ہی بیٹی اور نوکر کو قتل کا مجرم قرار دیتے ہوئے دونوں کو عمر قید کی سزا دی، خبروں کے مطابق منگل کو دوپہر بعد اس کیس میں سزا پر بحث ہوئی جس میں سی بی آئی نے پھانسی جب کہ دفاع کے وکیل نے کم سے کم سزا کی مانگ کی۔اس درمیان ایک وقت تک معمہ رہ چکایہ دوہرے قتل کامعاملہ عوام میں موضوع بحث اور میڈیا میں شہ سرخیوں میں رہا۔ لیکن پیر کو سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے دانتوں کے ڈاکٹر راجیش تلوار اور نوپور تلوار ، کو مجرم قرار دے کر طویل عرصے سے چل رہے اس کیس کا تصفیہ کردیا۔اور اس کے دوسرے دن جج شیام لال نے دونوں کو دفعہ 302 ( قتل ) کے تحت عمرقید، دفعہ 201 کے تحت پانچ سال قید اور راجیش تلوار کو دفعہ 203 کے تحت ایک سال قیدکی سزا دی۔سی بی آئی کے وکیل کے مطابق تلوار جوڑے پر 17 ہزارروپیوں کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا اوران تمام سزاؤوں کا نفاذ بہ یک وقت ہونا طئے پایا۔
جج والدین کے کرتوت سے اس قدر نالاں تھے کہ انھوں نے آروشی کے والدین کو ’ شیطان‘قرار دیا ۔جنہوں نے ’’اپنی ہی اولاد کو قتل کر دیا‘‘۔انہوں نے کہا ’’دونوں ملزمان ( تلوار جوڑے ) نے دوہرے قتل کا گناہ کر کے ملک کے قانون کی سخت خلاف ورزی کی ہے اس لئے دونوں دوہرے قتل کے مجرم قرار دیے جاتے ہیں‘‘۔ جج نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ’’انہوں نے اپنی ہی بیٹی کو قتل کر دیا ، جس نے ابھی اپنی زندگی کی چودہ بہاریں ہی دیکھی تھیں، انہوں نے اپنے نوکر کو بھی قتل کیا اور ایک ڈاکٹر کے طور پر لئے گئے حلف’’\' تم قتل نہیں کرو گے‘‘ کی بھی پروا نہیں کی۔ زندگی کا مطلب بتاتے ہوئے عدالت نے اپنے فیصلے میں مقدس کتاب قرآن مجید کو بھی حوالے کے بطور پیش کیا ’’وَلاَ تَقْتُلُوْا لنَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ‘‘(بنی اسرائیل:۷۱: ۳۳)(ترجمہ :’’خدا نے جس جان کو حرمت دی ہے، اْسے ناحق قتل نہ کرومگر حق پر\" )
خبروں کے مطابق حالانکہ تلوار جوڑے کے وکیل نے ان کے حوالے سے کہا کہ ’’ہم ایسے گناہ کے لئے قصور وار قرار دیے جانے پر بے حد مایوس ، دلبرداشتہ اور دکھی ہیں ، جو ہم نے کیا ہی نہیں،ہم ہارے نہیں ہیں اور انصاف کے لئے اپنی لڑائی جاری رکھیں گے‘‘۔ وکیل نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا ایک شاذ واقعہ ہے اس لئے اس پر مزیدغور و فکر اور مزید بحث کی گنجایش ہونی چاہئے تھی ،وہیں راجیش تلوار کے بھائی دنیش تلوار نے بھی عدالت کے فیصلے پراپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ نچلی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمی میں اپیل کریں گے، دنیش نے کہا ،’’ عدالت کے فیصلے میں بہت سے پہلووں کو نظر انداز کیا گیا ، جسے ہم سپریم کورٹ میں اپیل کرکے اچھی طرح پیش کریں گے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا ، ’’ہمیں امید تھی کہ آج ہمیں انصاف ملے گا ، آروشی کو انصاف ملے گا ، ہیم راج کو انصاف ملے گا ، جو نہیں ملا‘‘۔
بتایا جاتا ہے کہ آروشی کے قتل کے بعد تحقیقات کے دوران پولیس نے شروع میں راجیش تلوار کو دونوں کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ پولیس حکام کو شبہ تھا کہ یہ قتل حفظ ناموس کے نام پر کیے گئے تھے۔ لیکن کچھ ہی دنوں بعد پولیس کی تفتیش پر سوال اٹھنے لگے۔ اس کے بعد اتر پردیش کی سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی نے اس معاملے کی جانچ سی بی آئی کو سونپ دی۔سی بی آئی نے جانچ شروع کرتے ہی تلوار جوڑے کو کلین چٹ دے دی اور ان کے لیبارٹری ساتھی اور دو دیگر افراد کو گرفتار کر لیا۔ لیکن ان کے خلاف ٹھوس ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے انہیں ضمانت پر چھوڑدیا گیا۔جانچ میں رکاوٹ کی وجہ سے ہو رہی تنقید کو دیکھتے ہوئے سی بی آئی کے ڈائریکٹر اشونی کمار نے ایک نئی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی۔سی بی آئی کی اس نئی تفتیشی ٹیم نے پھر سے تلوار جوڑے پر قتل کرنے کا شبہ ظاہر کیا تھاجوآخر کار تقریباً ساڑھے پانچ سال تک جاری تفتیشی کارروائی کے بعد آج بہ ظاہر اپنے اختتام کو پہنچ گیا ۔ڈاکٹر تلوار اور ان کے وکیل پہلے ہی عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی بات کر چکے ہیں،قانون کے بہت سے ماہرین نے بھی اس فیصلہ پر سوالیہ نشان لگایا ہے ۔
مبصرین کا کہنا ہے استغاثہ کے طور طریقوں اور طویل قانونی عمل پر بھلے ہی سوال اٹھائے جائیں ، مگر عدالت نے آخر کار آروشی کے والدین ڈاکٹر نپور اور راجیش تلوار کو ہی ان کی اپنی بیٹی اور گھریلو نوکر ہیم راج کے قتل کا مجرم پایا ہے۔اصل میں ۱۶ مئی۲۰۰۸ء کی جس رات اس دوہرے قتل کو انجام دیا گیا تھا اس کے بعد سے حالات و شواہد تلوار جوڑے کے مجرم ہونے کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ استغاثہ کی یہ دلیل کافی مضبوط تھی کہ جس فلیٹ میں چار لوگ ہوں ان میں سے دو کا قتل ہو جائے اور باقی دو کو اس قتل کے بارے کچھ پتہ ہی نہیں چلے ، یہکیسے ممکن ہے۔یقینی طور پر اس معاملے میں سی بی آئی کا کردار بھی ابتدا سے ہی مشتبہ رہا ہے، جس نے کبھی اس کیس کو بند کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا تھا۔ تلوار جوڑے نے بھی اپنی سطح سے ہر طرح کے قانونی دا�ؤپیچ آزمانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،اس تگ ودو میں یہ نوبت بھی آئی کہ عدالت عظمیٰ نے انہیں کئی بار پھٹکاربھی لگائی۔ ان کے رویے سے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اس معاملے کو طول دینا چاہتے ہیں۔تلوار جوڑا واقعی کوئی پیشہ ور قاتل نہیں ہے ، لیکن انہوں نے جو کچھ کیاوہ مہذب سماج کے لیے ناقابل قبول ہے۔ یہ معاملہ اس طرز زندگی پر بھی سوالیہ نشان ہے جہاں اخلاقی اقدار تیزی سے روبہ زوال ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ مجرم ٹھہرائے جانے کے باوجود تلوار خاندان کا رویہ متاثرین جیسا ہے،جبکہ ضرورت ان تین نوکروں کے بارے میں بھی سوچنے کی ہے ، جنہیں کبھیقاتل قرار دیا گیا تھا، کیا اس پر غور نہیں کیاجانا چاہئے کہ انہیں اور ان کے اہل خانہ کو جو اذیتیں اٹھانیپڑیں ، اس کی بھرپائی کیسے ہوگی ؟اور پھر ہیم راج کے اہل خانہ پر جو بیت رہی ہے ، اس کا کیا ہوگا؟ اس فیصلے سے تلوار جوڑے کا غیر مطمئن ہونا فطری ہے ، مگر ان کے لئے عدالت عظمی کے دروازے کھلے ہوئے ہیں ، جہاں ان کے وکیل چارہ جوئی کا اعلان کر ہی چکے ہیں،نپور اور راجیش تلوار کو ہندوستانی عدالتی نظام پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔تاہم یہاں پر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ آروشی قتل معاملہ میں مجرم قرار دیے جانے کے فوراً بعد راجیش تلوار اور نوپور تلوار کی طرف سے کورٹ میں ایسے کاغذ تقسیم کئے گئے جن میں ان کے بے گناہ ہونے کے دعوے کے گئے تھے۔ ظاہر ہے انہیں خود کے مجرم قرار دیے جانے کا مکمل اندیشہ رہا ہوگا تبھی یہ کاغذات پہلے سے تیار رکھے گئے ہوں گے۔ تلوار جوڑے کو یہ خدشہ تبھی رہاہوگا جب اس معاملے کو بند کرنے کی اجازت لینے کورٹ پہنچے سی بی آئی کو الٹے آروشی کے والدین کو ملزم بنا کر تحقیقات شروع کرنے کا حکم دے دیا گیا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دوہرے قتل میں اتنے معمے آگئے تھے کہ ہر کوئی حیران تھا،تاہم مبصرین کے مطابق یہ بھی سچ ہے کہ اس میں بھی خود تلوار ان کی اہلیہ اور مقامی پولیس بڑی حد تک ذمہ دار تھی، تلواراور ان کی اہلیہ بڑے رسوخ والے ہائی ٹیک لوگ تھے،اس لئے قتل کی اطلاع پا کر پہنچی پولیس کو انہوں نے ایسے دائرے میں لیا کہ چھان بین محض خانہ پری بن کر رہ گئی تھی، پولیس اپنی بنیادی ذمہ داری بھی بھول گئی جس میں جائے حادثہ کا گہرائی اور باریک بینی سے معائنہ کیا جاتا ہے اور اسے سیل کر دیا جاتا ہے تاکہ ثبوت تباہ اور مسخ نہ ہونے پائیں، نتیجہ یہ ہوا کہ جائے حادثہ پر لوگوں کا ہجوم امڈتا رہا اور ثبوت پیروں تلے روندکرمٹتے چلے گئے۔ ایسے میں یہ فیصلہ ملک کی عدالتی سرگرمی کا ایک اور جیتا جاگتا ثبوت ہے جس میں مجرم اپنے تمام تر اثر ورسوخ کو اختیارکرنے کے باوجودد خود کو انصاف کی زدسے نہیں بچا سکا۔حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ معاملے کی پہلی ایف آئی آر خود راجیش تلوار نے کرائی تھی اور جس ہیم راج کو نامزد کیا تھا اس کی لاش اسی مکان کی چھت پر چھپا کر رکھی گئی تھی۔ پولیس نے پورے مکان کا جائزہ لینے کی زحمت بھی نہیں اٹھائی، شاید یہ پولیس کی نااہلی تھی یا تلوارخاندان کی وجاہت سے طاری ہوجانے والا رعب تھا، تلوار اور ان کی اہلیہ کو شکایت ہے کہ ٹھوس ثبوتوں کے بغیر انہیں مجرم مان لیا گیا ہے، لیکن انہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ قانون نے انصاف کے لئے ثبوتوں کے علاوہ حالات کو بھی معیار تسلیم کر رکھا ہے۔ قانون مانتا ہے کہ انسان جھوٹ بول سکتا ہے ، حالات نہیں۔ اس معاملے میں تمام حالات چیخ چیخ کر ان کے گناہ گارہونے کی شہادت دے رہے تھے، تو عدالت بھلاایسے قوی دلائل کو نظر انداز کیسے کرسکتی تھی ۔ 
پوسٹ مارٹم رپورٹ سے چھیڑ چھاڑ کی کوشش ، چھت پر ملی ہیم راج کی لاش کی شناخت سے انکار کرنا ، چھت پر لگے تالے کو کھولنے سے ہچکچانا ، ہیم راج کو پھنسانے کی کوشش کرنا اور مقدمے کو لمبا کھینچنے کی کوشش کرنا ،حالات اس سے زیادہ اور کیا نشان دہی کر سکتے تھے،سی بی آئی پر وہ چاہے جتنا بھی الزام لگائیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ خود تلوار کی بیوی نے سپریم کورٹ تک یہ تنازعہ پہنچا دیا تھا اور ملک کی بڑی عدالت بھی مان رہی تھی کہ ان کے خلاف معاملہ تو بنتا ہی ہے۔ راجیش تلواراور ان کی اہلیہ کے لئے انصاف کے دروازے ابھی کھلے ہیں، جن سے رحم کی ہواؤں کے آنے کی امیدکی جا سکتی ہے، اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے تلوار جوڑے کو یہ سوچنے کا پورا وقت ملے گا کہ ان سے چوک کہاں ہو گئی ! خوشحال زندگی اور کامیاب کیریئر کی چاہ میں ایسی بھی کیا محویت کہ خود اپنی اولادکی تربیت سے غفلت شعاری آگئی ! آروشی میں قابلیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی جس کا اعتراف اس کے اساتذہ اور اسکول کے ساتھیو نے بھی کیا ہے ،لیکن وہ اپنے ماں باپ کی مصروف زندگی میں اپنے لیے انس کاپہلو نہیں تلاش کرسکی ، جس میں وہ اپنے جذبات واحساسات کورکھ کر تسکین پاتی اور نتیجتا یہی تنہائی اسے اس منزل پر لے آئی جہاں اسے زندگی داغ مفارقت د ے گئی،یہاں پر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سماجی اور اقتصادی طور پر ممتاز خاندان میں کہاں چوک ہو گئی، آروشی کے ماں باپ بھی اسے فطری طور پر بہت لاڈ پیار سے ہی پالتے رہے ہوں گے پھر ہوا کیا ، پرورش میں کہاں کمی آگئی، ایسا کیا تھا جو آروشی کو اس کے ماں باپ نہیں دے پائے ۔
درست بات تو یہ بھی ہے کہ وہ دونوں اپنے بہتر کیر یر اور مزید دولت کی تلاش میں’’ وقت‘‘ ہی نہیں دے پائے اپنی اولاد کو، مگر یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بچپن سے جب بچہ آہستہ آہستہ بڑا ہوتا ہے وہ اپنے آس پاس کے لوگوں سے ہی زیادہ گھلتا ملتا ہے۔ اگر ماں باپ بچے کو کم وقت دیتے ہیں اور نوکر زیادہ رہتا ہے بچے کے ساتھ، اس وقت بچہ بھی نوکرکے ساتھ مزید گھل مل جاتا ہے ۔ ماں باپ یہ دیکھ کر انتہائی خوش ہوتے ہیں کہ نوکر کے ساتھ ان کا بچہ بہت خوش ہے اور وہ آرام سے اپنی مصروفیات کو برقرار رکھتے ہیں ۔ماں باپ یہ سوچ کر اطمینان کر لیتے ہیں کہ بچہ ابھی چھوٹا ہے جب بڑا ہوگا تو اسے اپنے مطابق سمجھا کر جیسا چاہیں گے بنا لیں گے ۔بس یہیں غلطی ہو جاتی ہے شروع سے ہی بچے کے دماغ میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ یہ جو ماں باپ ہیں ان کا کام صرف زندگی کے ضروریات کو پورا کرنا ہے اور دل کے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے نوکر کا ہی سہارا ہے ۔
حالانکہ بچپن سے لے کر بالغ ہونے تک ہی بچے کو ماں باپ کے سہارے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ماں باپ کی، ایسے میں اسے نوکر کے سہارے چھوڑ دینا اسے تباہی کے راستوں کا پتہ دینا ہے۔ یہ بات لڑکے اور لڑکی دونوں کے باب میں مساوی طور پرکہی جاسکتی ہے ۔ بچے کو سائیکل سکھانے کے لئے اسے ایسی سائیکل دلائی جاتی ہے جس کے دونوں طرف دو چھوٹے چھوٹے پہیے اس کا توازن برقرار رکھنے کے لئے ہوتے ہیں۔ جب بچے کو توازن بنانا آ جاتا ہے اور اسے چلاتے ہوئے دیکھ کراعتمادپالیتے ہیں کہ اب اس کے پہیے زمین کو نہیں چھو رہے ہیں تب ہی اسے چھوڑا جاتا ہے ۔ بالکل ایسے ہی پرورش کی جانی چاہئے بچوں کی ۔ماہرین کے مطابق جب تک ہم اس بات پرمطمئن نہ ہو جائیں کہ انہیں اچھے برے کی سمجھ ہو گئی ہے تب تک ہمیں ان کے ساتھ ایک قریبی دوست کی طرح ہی رہنا چاہئے اور بچے میں اتنا یقین پیدا کر دیا جانا چاہئے ماں باپ سے کوئی بھی بات بغیر کسی جھجھک کے کہہ سکے ۔ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ بچوں کے ساتھ وقت گذارنے سے بہت سی الجھنیں یوں ہی حل ہو جاتی ہیں۔ بالغ ہوتے بچے بہت نازک موڑ سے گزررہے ہوتے ہیں ۔ آج کل کے دور میں گھر میں سارے سہولت کے سامان موجود ہیں ،انٹر نیٹ اور ٹی وی کے ذریعے اچھی بری تمام چیزوں تک رسائی ہے ایسے میں بچوں کی اخلاقی تربیت اور بھی ضروری ہے اور ان پر چیتے کی نظر رکھنا ہی ان کی حفاظت کاضامن ہے ۔

۔۔۔مزید

بدھ، 20 نومبر، 2013

دہلی :تاج کس کے سر پر؟

محمد علم اللہ اصلاحی 
دہلی اسمبلی کے انتخابات کا اعلان کر دیا گیا ہے۔اور اطلاعات اب تک کی یہی ہیں کہ یہ  انتخابات 4 دسمبر 2013 کوہی ہوگا۔ جبکہ اس کے نتائج 8 دسمبر 2013 کوکئے جائیں گے۔یہ ان اے پانچ انتخابات میں سے ہوں گے۔اب کی ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ تاریخی فیصلہ بھی لیا گیا ہے کہجس میں الیکشن کمیشن نے یہ کہا ہے کہ اس کے تحت انتخابات میں اترے تمام امیدواروں کو مسترد کرنے کا حق ووٹر کے پاس ہو گا۔اس کے اوپر ابھی تک حالانکہ بحث و مباحثہ جاری ہے کہ یہ ہونا چاہئے یا نہیں لیکن ابھی تک اس کو ہٹائے جانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے بتایا جاتا ہے کہ انتخابات کے وقت یہاں کی کل آبادی 16،787،941 ہے جس سے 1،15،07113 لوگ اپنے رائے دہی کا استعمال کر سکیں گے۔
 یہ انتخابات ایسے وقت پر ہو رہے ہیں جب لوگوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ضروری چیزوں کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں ، تعلیم، صحت اور رہائش جیسی ضروری خدمات پہنچ کے باہر ہو رہی ہیں۔ کانگریس پارٹی اور بی جے پی نے اپنے اپنے انتخابی مہم شروع کر دیے ہیں اور ووٹروں کو بڑے بڑے وعدوں کے ساتھ لبھایا جانے لگا ہے کہ یہ تمام مسائل ختم ہو جائیں گی اگر " ہماری پارٹی کو ووٹ دے کر اقتدار میں لایا گیا  "۔
یوں تو پانچ ریاستوں میں یہ الیکشن ہونے والے ہیں اور سبھی کی اپنی جگہ اہمیت ہے مگر دہلی کو ہندوستان  کے متوسط ​​طبقے کا نمائندہ شہر کہا جاتا ہے ۔ یہاں پر ہونے والی سیاسی شکست یا فتح کو عملی طور سے کوئی مانے نہیں ہوں پر علامتی معنی گہرا ہوتا ہے۔یہاں سے اٹھنے والی ہوا کے جھونکے پورے ملک کو متاثر کرتے ہیں۔دوسرے ریاستوں کی طرح ، دہلی میں بھی لوگ ایسا تبدیلی چاہتے ہیں جس سےحقیقتا ترقی ہو۔ لیکن ان انتخابات سے ایسی تبدیلی نہیں آنے والی ہے۔ اقتصادی اور سیاسی انتظام هندوستاني و غیر ملکی اجارےدار کمپنیوں اور سرمایہ داروں ، بڑے  بڑے زمينداروں ، سٹے باجوں اور جمع خوروں کے مفاد میں چلائی جاتی ہیں ، جو عوام کو لوٹ کر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔ اس نظام کے اندر جو بھی پارٹی اقتدار میں آتی ہے ، یہ صورتحال بدلے گی ایسا نہیں لگتا ۔
اس بار دہلی اسمبلی انتخابات سے پہلے کئی سوال بڑے ہی دلچسپ بن پڑے ہیں۔سب سے بڑا سوال تو یہی ہے کہ کیا مسلسل تین بار جیتنے کا کرشمہ کرنے والی شیلا دکشت چوتھی بار بھی جیتنے کا ریکارڈ قائم کر پائیں گی  بی جے پی کا مظاہرہ کیسا رہے گا ؟ کیا پارٹی کے وزیر اعلی کے دعویدار کا نام اعلان کئے بغیر ہی الیکشن لڑے گی ؟ اگر جیت گئی تو وزیر اعلی کون ہوگا -ہرش وردھن  یا پھر کوئی اور ؟
انتخابات میں کانگریس تو کوئی غیر متوقع امیدوار شاید ہی کھڑی کرے لیکن بی جے پی ایساکون سا امیدوار لائے گی جو بعد میں سی ایم کے دعویدار بھی بن سکتے ہیں ؟ ان دلچسپ سوالات کے ساتھ دو اور بڑے سوال آ جڑے ہیں، جن کا تصفیہ دہلی انتخابات میں ہی ہو گا۔یہ دونوں ایسے سوال ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے جواب مئی 2014 کے عام انتخابات دیں گے، لیکن شاید اس وقت تک انتظار کی ضرورت نہیں ہوگی۔دہلی ہی ان کا تصفیہ کر دے گی۔
ان میں بڑا سوال تو یہی ہے کہ نریندر مودی فیکٹر ان انتخابات میں کتنا کام کرتا ہے ؟ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مودی پر عام آدمی کی نگاہ ہے۔مودی کے بہانے بی جے پی کی اور بھی کئیمسائل ہیں۔ہندو ووٹوں کے متحد ہونے کی امیدیں بھی وہ باندھ رہی ہے۔یوں تو بی جے پی کے لئے مودی 2014 کے عام انتخابات کے لئے ٹرمپ کارڈ ہیں لیکن یہ اتفاق ہے کہ دہلی انتخابات میں وہ پہلے ہی کسوٹی پر کسے جا چكےگے ۔اس لئے دہلی انتخابات میں ایک اور بڑا سوال ہے کہ مودی کی قیادت میں بی جے پی کا مظاہرہ کیسا رہے گا ؟
دہلی کے ساتھ ساتھ مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بھی انتخابات ہوں گے لیکن دہلی کے نتائج کی گونج دور تک جاتی ہے۔جن سنگھ کے طور پر بی جے پی نے اپنا سفر بھی دہلی سے ہی شروع کیا تھا اور ایک بار دہلی میں کامیابی ملنے کے بعد ہی اس نے پورے ملک میں قسمت آزمائےتھے۔بی جے پی بھی دہلی کی اہمیت سمجھتی ہے۔اسی لیے اس نے سب سے پہلے تو وجے گوئل کو صوبائی صدر کے طور پر اتارا۔اگرچہ وجیندر گپتا کو برقرار رکھنا یا ڈاکٹر هرشوردھن کو لانے کے اختیارات بھی تھے لیکن وجے گوئل کی جارحانہ اور محنتی تصویر انہیں دوسروں سے آگے لے گئی۔مگر اختلافات کے بعد پھر ہرش وردھن کو امیدوار بنانا پڑا ۔
اب نتن کڈگری کو انچارج بنانے سے بھی ظاہرہے کہ بی جے پی ہر حال میں ان انتخابات کو جیتنا چاہتی ہے۔بی جے پی کو معلوم  ہے کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات سے پہلے ہی طے ہو جائے گا کہ مودی فیکٹر کتنا کام کر رہا ہے۔بی جے پی کو مودی کے فیکٹر کے مثبت ہونے کی امیدیں شہروں میں ہی زیادہ ہے اور دہلی اس کے لئے سب سے زیادہ موزوں جگہ ہے۔اگر دہلی میں مودی کا جادو نہیں چلا تو پھر 2014 کے لئے یہی پیغام جائے گا کہ" دلی ہنوز دور است" ۔
مودی کے علاوہ ارون کیجریوال کا مظاہرہ کیسا رہے گا ، یہ بھی دہلی انتخابات سے منسلک سوال ہے۔انا ہزارے کی قیادت میں بدعنوانی کے خلاف کیجریوال نے جو جنگ شروع کی ہے، اب وہ سیاسی موڑ پراختیار کر چکا ہے۔پورے ملک میں قسمت آزمانے سے پہلے کیجریوال دہلی میں اترنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔اور انھوں نے زپنے طور پر پوری کوشش بھی کی ہوئی ہے ۔اب یہ ان انتخابات ہی سےیہ  طے ہو سکے گا کہ ان جیسے کاسیاسی پارٹیوں کی سیاست میں جگہ ہے یا نہیں۔یہ سچ ہے کہ کرپشن کے خلاف جنگ میں سڑکوں پر بہت بڑی تعداد میں لوگ اترے ہیں، لیکن وہ تعداد ووٹوں میں تبدیل ہو پائے گی، اس سوال کا جواب بھی دہلی کے انتخابات ہی دیں گے۔
عام آدمی پارٹی کا مستقبل دہلی انتخابات سے منسلک ہے۔وہ کانگریس کے ووٹ كاٹےگے یا بی جے پی کے یا ایک نیا ووٹ بینک ان کے نام جڑے گا ، یہ بھی طے ہو جائے گا۔ابھی انتخابات میںایک ماہ کا بھی وقت نہیں رہ گیا ہے ۔لیکن اندازے اٹکل کی بنیاد پر مختلف قسم کی تیریں چلائی جا رہی ہیں ۔وہ تیر کہاں لگے گا ۔کس کے ہاتھ میں پالا آئے گا کہنا مشکل ہے ۔کیونکہ ہر ایک کی اپنی الگ کہانی الگ روداد اور الگ دلائل ہیں ۔ان سوالات کے ساتھ اور کئی سوال بھی جڑ سکتے ہیں، لیکن ان بڑے سوالات کی وجہ سے دہلی انتخابات کا اس بار خاص اہمیت بن گیا ہے۔
مبصرین کی مانیں تو جس طرح سے بی جے پی نے ترقی کا آئینہ گجرات کو اور کامیابی کا چہرہ نریندر مودی کو بنایا ہے اسی طرح کانگریس نے بھی ترقی کے لئے دہلی کو رول ماڈل اور وزیر اعلی شیلا دیکشت کو فرنٹ رنر کے طور پر پیش کیا ہے۔ اگرچہ یہاں شیلا کانگریس کی کامیابی کا صرف دہلی میں چہرہ ہے، اس سے باہر نہیں۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی گلیاروں میں یہ بحث بھی زوروں پر ہے کہ جس طرح سے راہل فرنٹ رنر بننے سے کترا رہے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے اگر شیلا چوتھی بار کانگریس کو دہلی کے اقتدار سونپنے میں کامیاب ہوتی ہیں تو پارٹی ان کے انتخابی تجربہ اور مہارت کا استعمال لوک سبھا انتخابات میں کرنے سے نہیں هچكےگي ۔ ویسے بھی شیلا کی سونیا کے تئیں وفاداری اس حکمت عملی کو آگے بڑھانے میں کانگریس کی راہ آسان کر سکے گی۔اس لحاظ سے بی جے پی اور کانگریس دونوں کے لئے دہلی فتح کرنا وقت کی سب سے ضروری مطالبہ بن گئی ہے۔ اس کا اثر بھی نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔ دہلی میں بہہ رہی انتخابی ہوا میں مودی کا رنگ اب گهرانے لگا ہے۔
اس مرتبہ دہلی میں مسلمانوں کو ان انتخابات میں رام کرنا کانگریس کے لئے سب سے زیادہ مشکل تصور کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ کئی مہینوں سے مسلسل ایسی خبریں سامنے آئیں ہیں جنکے سبب مسلمانوں میں کانگریس کے تئیں تلخی بڑھی ہے۔خود جامع مسجد کے امام سید احمد بخاری بارہا کانگریس کی کھنچائی کر چکے ہیں اور یہ بھی طے ہے کہ ان چناؤ ں میں انکی حمایت سماجوادی پارٹی کو حاصل ہوگی ۔پورے ملک میں مسلم  نوجوانوں کو مسلسل پولس کے ذریعہ پریشان کئے جانے جیسے معاملات بھی اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ ان انتخابات میں کانگریس کو مسلمانوں کو ساتھ لانے کے لئے بہت پاپڑ بیلنے ہونگے۔چناؤ کے اس دنگل میں کسکو جیت اور کسے شکست نصیب ہوگی یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن فی الحال جو صورتحال ہے وہ نہ صرف بی جے پی بلکہ کانگریس کے لئے بھی غیر یقینی ہے اسلئے ان تمام پارٹیوں کو مل کر کافی محنت کرنی پڑے گی تبھی ان کی ناؤ کنارے لگ سکتی ہے۔ 

۔۔۔مزید

اتوار، 10 نومبر، 2013

مدیر ماہنامہ "تدبر"لاہور مولانا خالد مسعود کی یاد میں

یہ غالبا 1999 یا 2000 کا واقعہ ہے ۔مدرسۃ الاصلاح میں امین احسن اصلاحی سیمنار تھا ۔اُ س میں مولانا پاکستان سے انڈیا تشریف لائے تھے ۔حُلیہ تو پوری طرح یاد نہیں اُس وقت میں کافی چھوٹا تھا غالبا دس سال کا ۔ہلکا ہلکا ذہن میں عکس بھر ہے لمبے تڑنگے ۔تُرکی ٹوپی پہنے ہوئے انتہائی پر وقار شخصیت ۔اس وقت اصلاح میں کافی ہنگامہ تھا کہ امین احسن اصلاحی کے شاگرد آ رہے ہیں ۔بھیڑ بہت زیادہ تھی یوں کہہ سکتے ہیں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا جو مولانا کو دیکھنے کے لئے امنڈ پڑا تھا ۔

مولانا نے زبردست تقریر کی تھی ۔۔۔ ۔۔کیا کہا تھا ؟۔۔۔ یہ بھی مجھے یادنہیں ہے ،لیکن میں نے زبردست کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ اساتذہ سے بعد کے ایام تک بھی جب تک میں اصلاح میں رہا اس خطاب کا تذکرہ کرتے سنا ۔مجھے یاد پڑتا ہے سرائے میر کے ریلوے اسٹیشن سینیر طلباء اور اساتذہ مولانا کو چھوڑنے گئے تھے تو سب کی آنکھیں نمدیدہ تھیں ۔

آج اچانک اپنی فائل میں سے کچھ ضروری کاغذات ڈھونڈ رہا تھا تو ضیاء الرحمان اعظمی صاحب کی یہ نظم ملی سوچا کیوں نا محفل میں شیر کر دوں ۔یہی بہانے محفوظ بھی ہو جائے گی اور لوگ واقف بھی ہو سکیں گے۔کہ یہ عظیم شخصیت کون تھی ؟۔

مولانا کے انتقال پرمولانا طالب الہاشمی صاحب جو غالبا جاوید احمد غامدی صاحب کے ادارہ سے وابستہ ہیں نے ماہنامہ"المورد " میں مولانا کے انتقال کے بعد اپنے جس غم اور درد کا اظہار کیا تھا۔نیچے دی گئی تحریر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اتفاق سے انٹرنیٹ سرچ میں مجھے یہ مل گیا ۔تو اسے بھی یہاں منسلک کر رہا ہوں ۔
(علم)
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
خالد مسعود کی رحلت
صاحب سیرت و کردار علما کی ہمیشہ کمی رہی ہے۔ ہمارا یہ زمانہ تو بطور خاص رجال خیر و صلاح کے قحط کا زمانہ ہے۔ خالد مسعود صاحب مرحوم ان چند افراد میں سے ایک تھے جنھیں اللہ تعالیٰ نے دین کا علم بھی دیا تھا اور اس پر عمل کرنے کی توفیق بھی بخشی تھی۔
وہ قرآن کے عالم تھے۔ وہ حدیث کے عالم تھے۔ ان کی اسلامی تاریخ پر اچھی نظر تھی۔ ان موضاعات پر ان کا وقیع علمی کام کتابوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ لیکن اس جلالت علمی کے باوجود ان کی شخصیت انتہائی سادہ تھی۔ کوئی طنطنہ اور طمطراق یا علم کا زعم، اس طرح کی کسی چیز کی پر چھائیں بھی ان کی شخصیت پر نظر نہیں آتی تھیں۔ ہاں ان کے لیے فخر کی بات اور ان کا سرمایہ حیات ایک ہی بات تھی اور وہ یہ کہ وہ مولانا امین احسن اصلاحی کے شاگرد تھے۔
بلاشبہ، وہ مولانا امین احسن اصلاحی کے لائق شاگرد تھے۔ انھوں نے ان سے علوم اسلامی کی تحصیل کی اور پھر ساری عمر ان کے افکار کی خدمت میں صرف کردی۔ روزی کمانے کے جھنجھٹ کے بعد ان کی ساری سرگرمیوں کا محور و مرکز مولانا امین احسن اصلاحی تھے۔ استاد کی شخصیت میں گم ایسے شاگرد دنیا نے کم ہی دیکھے ہوں گے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم شخصیت کی عظمت کا اندازہ اس کی شہرت اور ناموری سے کرتے ہیں۔ ایسے گوشہ گیر جو علم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہوں، زمانے کی نگاہ میں نہیں آتے۔ سچی عظمت کیا ہے کہ آدمی خدا کا سچا بندہ ہو اور اعلیٰ اخلاقی اوصاف سے متصف ہو۔ خالد مسعود ہر اعتبار سے ایسے ہی عظیم لوگوں میں شمار کیے جانے کے لائق تھے۔
مرحوم کا علمی کام اور ان کی دینی خدمات ان کے خیر کو جاری رکھیں گی۔ ہم دعاگو ہیں کہ اللہ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ ان کے حسنات کو قبول فرمائے۔ ان کی کمزوریوں اور لغزشوں سے درگزر فرمائے۔ انھیں اپنے مقبول بندوں میں شامل فرمائے۔ جیسا ان کا چہرہ دنیا میں روشن و تاباں تھا، ایسا ہی آخرت میں روشن و تاباں رہے۔"
http://www.al-mawrid.org/pages/articles_urdu_detail.php?rid=883&cid=533



مدیر ماہنامہ "تدبر"لاہور
مولانا خالد مسعود کے انتقال پر

ضیاء الرحمان ضیاء اصلاحی

جاتی ہے اب تو وائے رے عظمت رہی سہی
ائے دل بتا یہ کیسی مصیبت سہی گئی

وا حسرتا !کہ گُم ہے متاع گراں بہا
وا ویلتا ! ہے دامن فردا تہی تہی

وہ سر گیا جو شان کُلاہ بلند تھا
ڈوبی وہ نبض جس میں حرارت بھری رہی

دانائے راز اُٹھ گیا محفل اداس ہے
مجموعہء صفات وہ ہستی نہ اب رہی

جاں کا ہ حادثہ ہےیہ ،غم بے بیان ہے
اب صبر کیجئے کہ عبادت ہے یہ بڑی

ملتے ہیں ایسے لوگ زمانے میں خال خال
اٹھتے ہیں سر فروش بھی ایسے کبھی کبھی

اللہ کی رضا پہ بھلا کس کا زور ہے
وہ لے گیا کہ یہ تو امانت اسی کی تھی

خالد تو جاوداں ہے دیار خلود میں
ہوئے نصیب اس کو شفاعت رسول کی

ائے صبر آ! کہ غم کا مداوا ضرور ہے
ہوگا نہ ختم ،کم سہی اتنا ضرور ہے
مولانا مرحوم کے بارے میں مزید معلومات انگریزی وکی پیڈیاسے بھی حاصل کی جا سکتی ہیں ملاحظہ فرمائیں : 
http://en.wikipedia.org/wiki/Khalid_Masud

۔۔۔مزید

جمعہ، 1 نومبر، 2013

بی جے پی : دہلی میں کون بنے گا صدر ؟



 تعین کے باوجود گھمسان جاری
محمد علم اللہ اصلاحی 
بھارتیہ جنتا پارٹی کی دہلی یونٹ میں نہ تھمنے والے گھمسان کو لے کر فی الحال پارٹی کے اعلی رہنما مشکل میں ہی نہیں ہیں بلکہ ان کے ہاتھ پاؤں پھولتے نظر آ رہے ہیں۔ اسمبلی انتخابات میںچند ماہ کا وقت بھی نہیں بچا ہے اور حالات یہ ہیں کہ وزیر اعلی شیلا دکشت اور کانگریس کے خلاف مورچہ لینے کی جگہ پارٹی کے ریاست کے بڑے لیڈران آپس میں ہی الجھ رہے ہیں۔ اورانتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو جانے کے باوجود بی جے پی کا ایک طبقہ ابھی بھی وزیر اعلی کے امیدوار کااعلان کروانے کے لئے سرگرم ہے ، جبکہ کوئی امیدوار نہ اعلان ہونے پر ریاستی صدر وجے گوئل کے حامی اور میڈیا کا ایک طبقہ انہیں ہی وزیر اعلی کا امیدوار پیش کر رہا ہے۔ وزیر اعلی شیلا دکشت نے یہ کہہ کر نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ وہ وزیر اعلی بنے یا نہ بنے کانگریس چوتھی بار اسمبلی انتخابات جیتے گی ۔کانگریس میں تو وزیر اعلی کے امیدوار کا اعلان کرنے کی روایت ہی نہیں ہے۔ا انتخابی نتائج کے بعد پارٹی اراکین تجویز پاس کرکے وزیر اعلی کے انتخاب کا اختیار کانگریس کی صدر کو دے دیتےہیں اور وہیں سے جو نام طے ہوتا ہے وہ وزیر اعلی بن جاتا ہے۔

بی جے پی نے پانچ ماہ بعد ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لئے تو وزیر اعظم کا امیدوارکون ہوگا یہ عام کر دیا لیکن دہلی اسمبلی کے لئے کسی کو وزیر اعلی کے امیدوارکی حیثیت سے پیش نہیں کیا۔ اور اس کے پہلے اچانک 15 فروری کو وجیندر گپتا کے مقام پر وجے گوئل کو صوبائی صدر بنا دیا گیا۔ پھر دو ماہ بعد اچانک سابق ریاستی صدر ڈاکٹر هرش وردھن کو وزیر اعلی کے امیدوارکے طور پر اعلان کرنے کی تیاری کر لی گئی اور جب یہ معلومات میڈیا میں آ گئی تو اعلان ٹال دیا گیا۔ تب سے پارٹی کے دہلی انتخابات کے انچارج نتن گڈکری اور دوسرے لیڈر اسی ناپ تول میں لگے ہوئے ہیں کہ وزیر اعلی کا امیدوار اعلان کرنے سے پارٹی کو فائدہ ہوگا یا نقصان ۔پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ نے جس امید کے ساتھ اپنے ویٹو پاور کا استعمال کرتے ہوئے تمام مخالفتوں کو نظرانداز کرکے وجے گوئل کو دہلی کی کمان سونپی تھی اب اس پر ہی سوالیہ نشان لگنے لگے ہیں۔ کسی بھی ریاستی  انتخابات کے دوڑ میں اتنی جلدی اس  مسئلہ کا تنازعات میں آ جانا پارٹی کے لئے ایک بڑا سوال بن گیا ہے۔ بی جے پی کے مرکزی سطح کے لیڈر بھی مسٹر گوئل کے طریقہ کار کو لےناخوشی ظاہر کرنے لگے ہیں۔ یہ بات راج ناتھ سنگھ کے دربار تک بھی جا پہنچی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ مسٹر گوئل کو باگ ڈور دہلی میں گروپ بندی ختم کر پارٹی کو متحد کرنے کے لئے دی گئی تھی لیکن یہاں تو الٹا ہو رہا ہے۔ انہیں دیا گیا ضرورت سے زیادہ فری ہینڈ کہیں بی جے پی سے جیتی ہوئی بازی نہ چھین لے۔

بتایا جاتا ہے کہ جس وقت وجے گوئل کو باگ ڈور سونپی گئی تھی تو آر ایس ایس کو بھی یہ کہہ کر اعتماد میں لینے کی کوشش کی گئی تھی کہ وہ بی جے پی میں سب کو متحد کر کے پارٹی میں نئی روح پھونکنے کا کام کریں گے ، جس سے کہ دہلی اسمبلی کا انتخاب بی جے پی آسانی سے فتح کر سکے گی۔ لیکن یہ اندازہ صرف اندازہ ہی رہ گیا۔ مسٹر گوئل نے عہدہ سنبھالنے کے پہلے دن ہی وہاں موجود تمام رہنماؤں کو اشاروں اشاروں میں سمجھا دیا تھا کہ وہ اپنی ہی چلائیں گے۔ ان کی یہ بات اس وقت پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو بری  بھی لگی تھی لیکن امید تھی کہ ایسا انہوں نے جوش، جذبہ میں کیا ہے اور منجھے ہوئے لیڈر ہونے کی وجہ سے وہ بی جے پی کی ڈگمگاتی کشتی کو سنبھال لیں گے لیکن کہانی کچھ اور ہی ہوئی۔ مسٹر گوئل نے پہلے ہی دن سے اپنے نشانے پر ان سابق لیڈران کو لے لیا جو مستقبل میں وزیر اعلی کے دعویدار ہو سکتے تھے۔ مسٹر گوئل نے دہلی بی جے پی کے ضلعی صدر کے اعلان کے ساتھ ہی اپنے ارادوں کی جھلک بھی دے دی اور ریاست کے سابق لیڈران  کے حامیوں کو جگہ دینا تو دور کی بات ان کا قہر مخالفین کو ان کے ہی علاقے میں اتنی ہوا دے دی جو سیاسی طور پر انہیں جھٹکا دینے والا تھا۔ اسی طرح  شہر کے تینوں کارپوریشنوں میں تبدیلی کے وقت سابق صدر وجیندر گپتا کی نزدیکیوں کے ساتھ ساتھ بڑے لیڈروں کے قہر نے حامیوں کو کارپوریشن میں اہم عہدوں سے بھی باہر کر دیا۔ 

حالانکہ اس معاملے میں اس وقت مجروح کاؤنسلروں اور لیڈروں میں سے زیادہ تر نے مسٹر گوئل کے یہاں حاضری لگانے کے بجائے چپ رہنا مناسب سمجھا۔یوگیندر چندوليا ضرور خاموش رہے جو کارپوریشن میں اسٹینڈنگ کمیٹی کے صدر کے عہدے پر برقرار نہ رہ پانے کے بعد پالا بدل کر گوئل کی پناہ میں چلے گئے اور ان کی ٹیم میں نائب صدر کا عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اس کے پیچھے قرول باغ وارڈ میں منسلک ان کی کچھ مجبوریاں بھی بتائی جا رہی ہیں۔ صدارتی عہدے کے اعلان کے بعد رہی سہی یہ کسر بھی واضح ہو گئی کہ اضلاع میں مخالفین کی نظر اندازی  محض اتفاق نہیں تھی بلکہ حکمت عملی کے تحت تھی کیونکہ بنیادی ٹیم میں بھی وہی سب کچھ دہرایا گیا۔

 ریاست کی طرف سے کارپوریشن کا ؤنسلروں کو اپنےاپنے علاقوں میں عوامی عدالتیں لگانے کی ہدایات سے کونسلر تونا خوش ہیں ہی اسمبلی بھی خفا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان عوامی عدالتوں میں مسئلہ تو حل ہونا نہیں ہے الٹا عوام کی ناراضگی بڑھے گی کیونکہ وہاں بجلی، پانی، ڈی ڈی اے سمیت ایسے مسائل اٹھائےجائیں گے جن کا تعلق زیادہ تر دہلی حکومت کے محکموں سے ہے اور ان سے ہمارا کوئی سروکار نہیں ہو گا۔وہاں بیٹھ کر جب ہم ان کے حل کی بات کریں گے تو "آ بیل مجھے مار "والی کہاوت براہ راست نافذ ہوگی اور اس کا خمیازہ کاؤنسلرز کا ؤنسلروں کو نہیں ہمیں اسمبلی انتخابات میں اٹھانا پڑے گا۔ المیہ یہ ہے کہ بی جے پی کے رکن اسمبلی جو وجیندر گپتا کی اسمبلی میں دلبرداشتہ تھے اور وجے گوئل کے بننے سےپارٹی اور بی جے پی ممبر اسمبلی پارٹی میں تال میل بڑھنے کی امید کر رہے تھے، انھوں نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ اس سے ٹھیک تو پہلا صدر تھا۔

 اراکین اسمبلی کے قریبی کہتے ہیں کہ 4-4 بار کے جیتے ممبران اسمبلی کو یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی ٹکٹ پکی مان کر نہ چلیں ، اس سے بڑی بےعزتی ان کی اور کیا ہو سکتی ہے۔مسٹر گوئل نے بھلے ہی اسمبلی انتخابات لڑنے نہ لڑنے کو لے کر کوئی تبصرہ نہ کیاہو لیکن مانا جا رہا ہے کہ وہ اپنے لئے محفوظ ( مضبوط ) نشست تلاش کر رہے ہیں ، جہاں سے انہیں مزید محنت نہ کرنی پڑے۔ان کے والد چرت لال گوئل نے سال 1993 میں جس ماڈل ٹاؤن سیٹ سے جیتا تھا ، وہاں تین بار سے کانگریس کا قبضہ ہے ، وہیں آس پاس کی مضبوط سیٹیں جو بی جے پی کے پاس ہیں انہیں کسی بھی رکن اسمبلی سے خالی کرانے پر بغاوت ہو سکتی ہے۔پارٹی کی مرکزی سیکریٹری آرتی مہرا کی ڈنر پارٹی کو وجے گوئل کے خلاف بغاوت کی شروعات سمجھا جا رہا ہے، اگرچہ اس پارٹی میں شامل کچھ رہنماؤں نے مسٹر گوئل کو صفائی دی ہے کہ وہ تو عام پارٹی مان کر گئے تھے انہیں یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اس کا مقصد دوسرا ہے دکھاوے کے لئے وجے گوئل اگرچہ اس واقعہ کو عام کہہ کر کوئی اہمیت نہیں دے رہے لیکن اس حوالے سے وہ چوکنا ہو گئے ہیں اور مخالفین پر جوابی حملہ کا راستہ بھی ڈھونڈرہے ہیں۔ پارٹی میں موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے پارٹی کے اعلی لیڈروں کو فی الحال ایک ہی حل نظر آ رہا ہے کہ جلد سے جلد ایک ایسےموثر لیڈر کو دہلی کا انچارج بنا دیا جائے جو مسٹر گوئل پر بھی بھاری ہو اور تمام غیر مطمئن رہنماؤں کو متحد کر سکے۔

گزشتہ اسمبلی انتخابات میں تو شروع سے پارٹی کی باگ ڈور اس وقت کے ریاستی صدر ڈاکٹر ہرش وردھن کے ہاتھ میں تھا۔اچانک 26 ستمبر 2008 کو پارٹی قیادت نے سینئر رہنما وجے کمار ملہوترا کو وزیر اعلی کے امیدوار کی حیثیت سے نامزد  کر دیا تھا۔ ڈاکٹر ہرش وردھن نے ان کا تعاون کیا لیکن اس کے سال بھر پہلے ہوئے کارپوریشن انتخابات کی جیت کا سارا جوش کارکنوں میں ٹھنڈا پڑ گیا تھا۔ کل 62،42،917 ووٹ ڈالے گئے اور اس میں کانگریس کو 24،89،817 اور بی جے پی کو 22،75،711 ووٹ ملے یعنی بی جے پی 2،14،106 ووٹوں کے فرق سے الیکشن ہار گئی۔ بی ایس پی کو 9،01،670 ووٹ ملے تھے. کانگریس کو 70 میں 43 اور بی جے پی کو 23 سیٹیں ملیں۔لوک سبھا انتخابات اور لین بدلی کے بعد اب کانگریس کے تو 43 رکن ہی ہیں بی جے پی کے رکن 24 ہو گئے ہیں۔ 1993 کے اسمبلی انتخابات کے وقت مدن لال كھرانا صوبائی  بی جے پی کے صدر تھے۔ کافی کوششوں کے بعد پارٹی نے انہیں وزیر اعلی کےعہدیدار کے طور پر اعلان کیا ۔ پارٹی نے انہیں فری ہینڈ دیا تو نتائج بی جے پی کے حق میں آئے۔ اس کی ایک وجہ جنتا دل کو ملے 18 فیصد ووٹ بھی مانے جا رہے ہیں۔

1998کے اسمبلی انتخابات کے پہلے تو بی جے پی میں گروپ بندی بھاری چلی۔كھرانا کے دباؤ میں صاحب سنگھ ورما کو ہٹایا گیا لیکن ان دونوں کے نہ چاہتے ہوئے سشما سوراج کو وزیر اعلی بنا کر ان پر اگلے انتخابات میں بی جے پی کو جتانے کی ذمہ داری دے دی گئی۔ وہ طریقہ کار  کامیاب نہیں ہوااور بی جے پی انتخابات ہارگئی ۔ اسی طرح 2002کے کارپوریشن انتخابات ہارنے کے بعد مانگےرام گرگ کو ریاستی صدر سے ہٹا کر پھر سے كھرانا کو ریاستی صدر بنایا گیا۔ تب تک حالات کافی بدل چکے تھے، اس بار كھرانا نہیں چلے اور شیلا دکشت کاایجنڈاچل گیا۔ كھرانا اس سے پہلے اور اس کے بعد کئی کوششیں کر چکے تھے۔ یہ انتخابات كھرانا دور کے اختتام کا اعلان کرنے والا تھا۔ كھرانا کے ساتھی ملہوترا کو كھرانا کے رہتے مزید اہمیت نہیں ملی تو انہوں نے اس کے بعد اپنی چلوا لی۔ نتائج جگ ظاہر ہونے کے بعد ہی اس بار پارٹی قیادت ابھی تک فیصلہ نہیں لے پا رہی ہے۔

دراصل سروے کی روایت نے وزیر اعلی ، وزیر اعظم کے امیدوار کا اعلان کرنے کی روایت کو اور بڑھا دیا ہے۔ اسی کے ساتھ  ساتھ میڈیا میں بھی سروے کو کور کروانے یا خود سروے کرنے کی دوڑ سی لگ گئی۔اس کے بعد تو پارٹیاں اپنے آپ وزیر اعلی کے امیدوار کا اعلان کرنے لگیں۔ بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر کا کہنا تھا کہ اگر پارٹی ڈھنگ کے امیدوارکا اعلان نہیں کرے گی تب ایسا ہی ہوگا کہ شیلا دکشت کا موازنہ اروند کیجری وال جیسے لیڈر سے کیا جائے گا۔ کانگریس میں تو شیلا دکشت کی قیادت میں الیکشن لڑنے کا اعلان ہوا ہےتو انہیں وزیر اعلی کے امیدوار اپنے آپ مان لیا گیا ہے۔ 1998 میں مشرقی دہلی لوک سبھا الیکشن ہارنے کے بعد انہیں چو پریم سنگھ کو ہٹا کر ریاستی کانگریس صدر بنایا گیا۔ انہیں صدر بنوانے والے رہنماؤں میں اےایچ کے ایل بھگت ، سجن کمار ، جگدیش ٹايٹلر وغیرہ 1984 کے سکھ مخالف فسادات کے ملزم ہونے کے سبب خود ریاستی صدر نہیں بن سکتے تھے تو انہوں نے دہلی کی سیاست کی کم علم اور کم پکڑ والی شیلا دیکشت کو ریاستی صدر بنوایا ۔ سال بھر میں دکشت نے واضح کر دیا کہ وہ اپنے حساب سے چلیں گی تو تمام ان کے خلاف ہو گئے۔بڑا مہم چلا، شیلا دکشت نہ صرف بچ گئیں بلکہ اپنی زمین کو سب سے زیادہ مضبوط بنا لیا۔

ن2003اسمبلی انتخابات آتے آتے تو دلی میں ان کا سکہ چلنے لگا۔بی ایس پی کے بڑھتے اثر کو کم کرنے کے لئے 2002، میں پھر چو پریم سنگھ کو اسمبلی کے صدر کے بجائے ریاستی کانگریس صدر بنایا گیا۔چو پریم سنگھ کے حامیوں نے یہی کہ کیا کہ اگر کانگریس جیتی توپریم سنگھ وزیر اعلی ہوں گے۔ لیکن انتخابات کے نتائج آنے کے بعدپریم سنگھ کے ممبران اسمبلی کی رائے لینے کی ضد کے باوجود شیلا دکشت وزیر اعلی بنیں۔ انہوں نے انتخابات میں چالاکی سے موجودہ اسمبلی کو دوبارہ ٹکٹ دینے کی وکالت کی تھی جبکہ پریم سنگھ ایک دو ٹکٹ پر ہی اٹک گئے تھے۔ دوسرے ان کے دہلی میں نئے تجربات کا بھی یہ انتخاب تھا۔ تیسرے انتخابات میں تو وہ اپنے آپ وزیر اعلی کی امیدوار بن گئیں، جیسے اس بار بنی ہوئی ہیں۔ تمام لیڈر بھی انہی کا نام لیتے ہیں، ویسے پارٹی کی قیادت وزیر اعلی شیلا دکشت اور پردیش کانگریس صدر جے پرکاش اگروال کی قیادت میں الیکشن لڑنے کی بات کرتا ہے لیکن بی جے پی میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد بھی کسی کو وزیر اعلی کا امیدوار طے نہیں کیا جا  سکا ہے لیکن ایسے اعلان کی ضرورت پارٹی کے زیادہ تر لوگ محسوس کر رہے ہیں۔

ریاستی انچارج کے طور پر جو نام گردش میں ہیں ان پر فی الحال اتفاق نہیں ہو پا رہا ہے ، لیکن اس بارے میں جلد فیصلہ لیا جائے گا۔صدر کون بنے گا یہ تو پارٹی کے بڑے لیڈر ہی طے کریں گے لیکن اسمبلی انتخابات سے پہلے جو حالات دہلی بی جے پی میں بنے ہیں وہ مستقبل کے لئے اچھے اشارے نہیں دے رہے ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ دہلی بی جے پی میں جو" ' ایکلا چلو رے" کی جوروایت شروع ہوئی ہے وہ بھی پارٹی کے گراف کو نیچے کی طرف لے جا رہی ہے۔ہائی کمان کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

 alamislahi@gmail.com

۔۔۔مزید

جمعہ، 25 اکتوبر، 2013

لو کر لو گل

محمد علم اللہ اصلاحی
ابھی ابھی مرے ایک دوست نے بتایا کہ دہلی پولس نے تین ناجيرين کو دو کلو پیاز کے ساتھ گرفتار کیا ہے۔ اسے دہلی پولیس کی ایک بڑی کامیابی مانی جا رہی ہے۔میں نے اس پر تبصرہ وہ یہاں بھی پوسٹ کئے دیتا ہوں۔۔۔۔۔دیہات میں ایک محاورہ کہا جاتا ہے"  لو کر لو گل " اس سے زیادہ بلیغ تبصرہ اس پر شاید نہیں کیا جا سکتا. سمجھ میں نہیں آتا ہنسے یا روئیں مرزا غالب ہوتے تو کہتے ۔۔۔۔
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی


۔۔۔مزید

منگل، 8 اکتوبر، 2013

ترکی وہندتعلقات اورپرنب کا دورہ

محمد علم اللہ اصلاحی
صدرجمہوریہ ہند اپنے ترک ہم منصب عبداللہ گل کی دعوت پرحال ہی میں استنبول کے کامیاب دورے سے واپس آئے ہیں۔ خبروں کے مطابق گزشتہ پندرہ سالوں میں کسی ہندوستانی صدر کایہ پہلا ترکی کا سفرتھاجبکہ ترکی کے صدر 2010 میں آخری بار ہندوستان آئے تھے۔اس دورے پرصدرجمہوریہ ہند پرنب مکھرجی کے ساتھ ممبران پارلیمنٹ ، تاجروں، صحافیوں اوردانشوروں کاایک اعلیٰ سطحی وفدبھی شریکِ سفر تھا۔ پرنب مکھرجی نے ترکی کے صدر عبداللہ گل کے علاوہ وزیر اعظم رجب طیب ایردوغان سمیت دیگر اعلیٰ حکام کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کے فروغ کے امکانات پر گفت وشنیدکی، جس میں بالخصوص سائنس ،ٹیکنالوجی اور معیشت و ثقافت جیسے موضوعات زیر غور آئے۔علاوہ ازیں ہندوستان اور ترکی کے درمیان تجارتی شعبوں میں کئی معاہدوں پر دستخط بھی کئے گئے۔ لیکن ان تمام سرگرمیوں کے حوالے سے ایک قابل غور بات یہ بھی ہے کہ ہندوستانی میڈیا میں صدرجمہوریہ کے دورہ ترکی کوکوئی اہمیت نہیں دی گئی ،سوائے اس کے کہ چند ہی خبریں اس ضمن میں اخبارات کی زینت بنیں۔اس کی وجہ کیا ہے، ہم ٹھیک سے تو نہیں کہہ سکتے، لیکن میڈیا کی یہ بے رخی بہتو ں کو معنی خیزمحسوس ہورہی ہے۔یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صدر کے دورے کوہمارے میڈیا نے بھلے ہی بہت زیادہ اہمیت نہ دی ہو لیکن ترک سمیت عالمی میڈیا میں یہ خبر اس پورے ہفتہ بحث کا موضوع بنی رہی اور مختلف تجزیہ نگار اپنے اپنے نقطہ نظر سے پرنب کے دورہ ترکی کی خبرکو تجزیہ اور تبصرہ کاموضوع بناتے دیکھے گئے۔

ترک میڈیا میں اس دورے کو اس تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعہ دونوں ملکوں کے تعلیمی اور ثقافتی تعلقات میں استحکام پیدا ہوگااور سائنس و تکنالوجی کے شعبوں میں بھی باہمی تعاون بڑھے گا۔ اس ضمن میں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ پرنب مکھر جی کو استنبول یونیورسٹی سے پولٹیکل سائنس میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطاکی گئی ہے۔اس سلسلے میں اس دورے کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس میں ہندوستان کے کئی بڑے اداروں کے ذمہ داران یعنی جواہر لال نہرو یونیورسٹی ،دہلی یونیورسٹی اور حیدرآباد یونیورسٹی کے سربراہان کے علاوہ یوجی سی کے چیر مین وید پرکاش بھی وفد کا حصہ تھے۔ذرائع کے مطابق اس موقع پرتعلیمی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کیلئے کئی معاہدوں پر دستخط بھی ہوئے۔جن میں دونوں ملکوں کے درمیان طلباء کا تبادلہ اور اسکالر شپ جیسے پروگرام بھی شامل ہیں۔اس سے یقیناًعلمی تحقیق و جستجو کی راہیں ہموار ہوں گی اور دونوں ممالک ایک دوسرے کو بہتر ڈھنگ سے سمجھ سکیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ برصغیر کا ترکی سے رشتہ قدیم اور گہراہے۔دونوں ممالک کی تہذیب وثقافت میں بھی کافی مماثلت ہے۔ شاید اس لئے بھی بہت سارے ہندوستانیوں کو یہ جاننے کی خواہش رہی ہوگی کہ اس دورے میں دونوں ملکوں کے درمیان کیا باتیں ہوئیں اور کیا کیا موضوعات زیر بحث آئے لیکن انھیں ہندوستانی میڈیا سے مایوسی ہوئی جو بہر حال ایک لمحہ فکریہ ہے۔ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ امریکہ یادوسرے یورپی ممالک کے سفر پر ہمارے ملک کا چھوٹے سے چھوٹا افسر یاوزیربھی جاتا ہے تو خبریں بھری پڑی رہتی ہیں لیکن اسے اہمیت کیوں نہیں دی گئی۔ترکی کو قدر و منزلت اور عزت کی نگاہ سے دیکھنے والے ہندی مسلمانوں سمیت بہت سے لوگ ہماریمیڈیا کے اس رویے سے حیرت زدہ ہیں۔اس سلسلے میں جملہ معترضہ کے طور پر یہ بات عرض کرتا چلوں کہ صدر جمہوریہ نے اپنے وفد میں جامعہ ملیہ کے کسی ذمہ دار کو شامل سفرنہیں کیا،یاد رہے کہ ہندوستان میں جامعہ ملیہ اسلامیہ وہ واحد یونیورسٹی ہے جہاں باضابطہ طور پر ترکی ڈپارٹمنٹ قائم ہے اور بڑی تعداد میں طلباء ذوق شوق سے ترکی زبان وادب کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

ترکوں سے ہماری وابستگی کوئی نئی نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں کے درمیان اعلی سطحی آمدورفت بھی دیکھی گئی ہے۔ ابھی ماہ جولائی میں ہی ہمارے ملک کے وزیر خارجہ سلمان خورشید بھی ترکی کے دورے پر گئے تھے اور انھوں نے کافی خوشی کا اظہار کیا تھا، اس لئے اس بارے میں لوگوں کے توہمات بے جا بھی نہیں ہیں۔راقم الحروف کو ابھی حال ہی میں ترکی کی ایک این جی او انڈیا لاگ فاونڈیشن کی جانب سے منعقدہ ایک پروگرام میں جانے کا اتفاق ہوا تو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ترکی شعبہ کے منتظم ڈاکٹر محسن علی نے بڑی تفصیل سے ترک و ہند تعلقات پر روشنی ڈالی۔انہی کے ذریعہ معلوم ہوا کہ ترکی حکومت کی جانب سے دہلی جیسے شہر میں چار معیاری اسکول چلائے جا رہے ہیں ،کئی ہاسٹل اور کوچنگ سینٹر بھی جس سے مسلم و غیر مسلم ہندوستانی طلبہ بڑی تعداد میں مستفید ہو رہے ہیں لیکن ایسی سرگرمیوں پر بھی ہمارے میڈیا کی توجہ نہیں جاتی۔ڈاکٹرموصوف کے ذریعہ یہ بھی معلوم ہوا کہ یہاں سے کئی معیاری علمی و ادبی پرچوں کا بھی اجرا ہواہے، یہ یقیناًخوشی کی بات ہے۔یوں بھی ترکوں سے ہماری علمی و ادبی وابستگی گھر اور آنگن جیسی ہے،جس کے اثرات وہاں اور یہاں کے ثقافت اور کلچر میں بھی صاف دکھائی دیتے ہیں۔

آتے وقت انڈیا لاگ فاونڈیشن دہلی آفس کے ڈائریکٹر نورالدین کپارو نے ’’ٹرکش ریویو‘‘ کا ایک خاص شمارہ بھی دیا جو شہر استنبول سے متعلق ہے۔اس شمارے میں اس شہر سے متعلق کافی معیاری اور تاریخی مضامین و مقالہ جات شامل ہیں۔ابھی اسے مکمل پڑھنے کا اتفاق تو نہیں ہوا ، لیکن اس کے چیدہ چیدہ حصوں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ترک قوم کا معیار کافی بلند اور ذوق بالیدہ ہے۔شاید اسی وجہ سے ہمارے یہاں یعنی ہندوستان سے بھی کافی لوگ ترکی گئے، وہاں آباد ہوئے اور وہاں کے بارے میں کافی کچھ لکھا۔معروف ادیب سید سجاد حیدر بھی اسی وجہ سے ترکی سیکھنے پر مجبور ہوئے تھے اور انھیں ترکی اتنا بھایا تھا کہ انھوں نے اپنے نام میں ’’یلدرم‘‘ کا اضافہ کر لیا تھا۔انھوں نے بغداد اور قسطنطنیہ (آج کا استنبول) کے برطانوی قونصل خانے میں ترکی زبان کے مترجم کے طور پر کام کیا تھا۔انھوں نے بڑی تعداد میں وہاں کے لٹریچر کا تر جمہ بھی کیا۔ان کے قلم سے ہوئے 1906ء4 میں خلیل رشدی کے ’’نشے کی پہلی ترنگ‘‘ نامی افسانے کے ترجمہ کو اردو دان حلقے نے بطور خاص خوب سراہا۔انھوں نے اس کے بعد ترکی سے کئی ڈرامے اور افسانے ترجمہ کیے۔اسی طرح علامہ شبلی نے کافی کچھ ترکی کے بارے میں لکھا اور وہاں سے اپنے خصوصی لگاؤ کا ذکر کیا ،علامہ شبلی نے توترکی سے واپسی کے بعد باقاعدہ سفرنامہ لکھا جسکی تاریخی اور ادبی حیثیت سے شاید ہی کوئی انکار کر سکتا ہے۔اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد کے والد مولوی خیر الدین کوبھی ترکی کی علمی فضا راس آنااوران کے ذریعہ ترکی کی لغت تیار کرنا ایک اہم کارنامہ تھا جسے ہم فراموش کر چکے ہیں۔

یہ ترکی سے اردو ادیبوں اور شاعروں کی محبت ہی تھی کہ 1922ء میں علامہ نیاز فتح پوری نے ایک علمی اور ادبی پرچہ کا آغاز کیا تو ایک ترک شاعرہ نگار بنت عثمان کی نسبت سے اس کا نام ’’نگار‘‘ رکھا۔ علامہ اقبال کو بھی ترکی سے خاص نسبت تھی اور اپنی شاعری میں وہ اس کا جابجا ذکر بھی کرتے ہیں۔ترکی قلمکاروں نے بھی ہندوستان کو اتنی ہی اہمیت دی اور شاید یہ بھی وجہ رہی ہو کہ جب خالدہ ادیب خانم 20ء کی دہائی میں ہندوستان آئیں تو ان کا استقبال شہزادیوں کی طرح کیا گیا، اسی طرح دوسرے ترک ادیب بھی ہندوستان کے اردو خواں طبقے میں مقبول و محبوب رہے۔خالدہ ادیب خانم نے تو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں کئی خطبات بھی دیے، جنھیں تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ہمارے ملک کے باسیوں میں ترکوں اور سلطنت عثمانیہ سے وابستگی اور اس کیلئے محبت و مودت کے احساس کا عالم یہ تھا کہ ہندوستان میں خلافت تحریک چلائی گئی تو اسے مسلم ہندو اتحاد کی علامت کادرجہ حاصل ہوگیا جس کے قائدین میں محمد علی جوہر کے علاوہ گاندھی جی بھی تھے۔پہلی عالمی جنگ نے جہاں دنیا کا نقشہ تبدیل کر دیا، وہیں سلطنت عثمانیہ کا سورج بھی ڈوب گیا۔ کمال اتا ترک نے خلافت کو خیر باد کہا اور 1923 میں جدید ترکی کی بنیاد رکھی۔اس نے ترکی میں جدید مغربی خیالات و نظریات اورطرز معاشرت کا دور شروع کیا۔ وہ ملک جو یورپ کا ’’مرد بیمار‘‘ کہلاتا تھا اور بہت پسماندہ اور بدحال تھا اس کی حالت اقتصادی طور پہ قدرے بہتر ہونا شروع ہوئی لیکن 1929 میں دنیا شدید اقتصادی بحران کا شکار ہو گئی جس کوعظیم کساد بازاری کہتے ہیں،ظاہر ہے اس کا اثر ترکی پر بھی پڑا۔

کہا جاتا ہے کہ یہی بحران آگے چل کر دوسری عالمی جنگ کا ایک سبب بنا۔ اس درمیان ترکی میں ناخوشگوار حالات پیدا ہوتے چلے گئے اور اس مملکت کواقتصادی بحران نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس کے سکے کی قیمت خطرناک حد تک گر گئی۔ قرض اور درآمد کی ادائیگی کے لئے خزانہ خالی ہوگیا۔ ایسے میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے ذریعہ حکومت کی مدد کی گئی اور یوں اقتصادی بحالی کا عمل شروع ہوا۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد یہ وہ وقت تھا جب مملکت ترکی کی اقتصادی حالت سب سے زیادہ خراب تھی۔آٹھ سالہ ایران عراق جنگ نے جہاں ایک دوسرے کو بربادکیا وہیں جنگ کے بحران میں پھنسی ہوئی ترکی کی معیشت کو سہارا دیا۔ 1980۔88 ء کے درمیان عراق اور ایران نے ترکی کے ساتھ تجارت کی، خاص طور سے عراق نے ترکی کی بندرگاہوں کا استعمال کیا جس کے ذریعہ ترکی کو اربوں ڈالر کا معاوضہ ملا۔ 90 ء کی دہائی میں ترکی میں مستقل اقتصادی ترقی کاایک عمل شروع ہوا جو آج بھی جاری ہے۔ترکی اس وقت دنیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ جی ڈی پی کے حساب سے وہ دنیا کی 17 ویں بڑی معیشت ہے۔ چند سال پہلے جب پوری دنیا مالی بحران کا شکار تھی،اس وقت ترکی کی معیشت 8 اور 9 فیصد سالانہ ترقی کی شرح پر تھی۔اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت ترکی یورپ میں تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت ہے اور فی کس جی ڈی پی کے لحاظ سے وہ اعلی وسطی آمدنی والا ملک ہے۔

فوربس سروے کے مطابق استنبول میں ارب پتی افراد کی تعداد 28 ہے جبکہ نیو یارک میں 60 ، ماسکو میں 50 اور لندن میں 32 ارب پتی رہتے ہیں۔اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ استنبول ارب پتیوں کے لحاظ سے دنیا میں چوتھے نمبر پر آتا ہے۔ہندوستان کی طرح ترکی میں بھی پارلیمانی جمہوریت ہے۔ تمام انتظامی اختیارات وزیر اعظم اور کابینہ کے پاس ہیں۔ قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کو حاصل ہے، 1933 کے بعد سے ووٹنگ کا حق 18 سال کے ہر شہری کو حاصل ہے۔ ہندوستان کی طرح اس ملک میں درجنوں سیاسی پارٹیاں سرگرم عمل ہیں۔ آئین کے مطابق تر ک خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں۔ آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو کہ ترکی میں ایک خاتون حکومت بھی ملک کی باگ ڈور سنبھال چکی ہیں جبکہ امریکہ جیسے ملک میں ابھی تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا ہے۔

ہم ترکوں سے اپنے دیرینہ تعلقات وروایات کا ذکر بار بار کرتے ہیں۔لیکن ان تمام حقائق کے باوجود ہم میں سے بہت کم ہیں جو ترکی کی صنعت ، زراعت اور معیشت کاقریب سے جائزہ لیتے ہیں۔ ترک جمہوریہ کی اندرونی کل پیداوار 1358 ارب ہے۔ کاروبار کے لئے بہتر ممالک میں ترکی 71 ویں نمبر پر ہے۔اس کی سالانہ برآمدات163.40 ارب ڈالر ہے اور وہ برآمد کے بارے میں دنیا میں 29 واں سب سے بڑا ملک ہے 2012 ء تک ترکی میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم 152.90 ارب ڈالر تھا۔ اس سلسلے میں وہ دنیا کا 29 واں بڑا ملک تھا۔ اس کی سالانہ آمدنی 209 ارب ڈالر جبکہ سالانہ خرچ 228.3 ارب ڈالر ہے۔ اس وقت جب کہ ہمارے یہاں تبادلہ کے ذخائر کم ہو چکے ہیں اس تناظر میں دیکھیں تو ترکی کے پاس کرنسی ذخائر اگست 2013 تک124.187 ارب ڈالر تھے۔ ترکی دنیا میں 10 واں سب سے بڑا سٹیل پروڈیوسر ہے اور یورپ میں ٹی وی تیار کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔

فن تعمیر کی صنعت میں بھی یہ چین کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کی 33 تعمیراتی کمپنیوں کا شمار دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں میں ہوتا ہے اور اس کے طول و عرض میں 9 بین الاقوامی سمیت 102 ہوائی اڈے ہیں۔ہوائی مسافروں کی سالانہ تعداد 12 کروڑ سے زیادہ ہے جبکہ ریلوے کا 22 واں سب سے بڑا نظام ترکی میں ہے۔ سڑکوں کا جال چار لاکھ 26 ہزار کلو میٹر پر مشتمل ہے۔ جس میں 2 ہزار کلومیٹر ایکسپریس وے بھی شامل ہے۔ ترکی کے پاس 12 سو جہاز ہیں اور دنیا میں جہاز رانی کی 7 ویں بڑی صنعت ہے۔لینڈ لائن ٹیلی فون اور موبائل کی طرف سے ترکی دنیا کا علی الترتیب 18 واں اور 15 واں بڑا ملک ہے۔ سیاحت میں ترکی تیز رفتاری سے ترقی کرنے والا ملک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے 100 بہترین ہوٹلوں میں سے 10 ترکی میں ہے جہاں 3 کروڑ سیاح ہر سال آتے ہیں اورجن سے اسے 22 ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔

ان تمام خشک اعداد و شمار ز اور تفصیلات کو ایک طرف رکھتے ہوئے جب ہم علم اور ادب کی دنیا کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں وہاں دنیا کے مشہور مصنف اور شاعر ملتے ہیں۔ ناظم حکمت اور محمد عاکف ارصوئی کا ہمارے یہاں کافی نام ہے۔ اسی طرح جدید ترکی کے مصنفین میں اورخان پاموک ادب کا نوبل انعام لے چکا ہے۔ ہمارے ملک کو اس بات پر فخر ہے کہ اتنے بڑے عظیم قلم کار کی مہمان نوازی کر چکا ہے جے پور لٹریری فیسٹیول میں جس طرح سے لوگوں نے ان کی عزت افزائی کی، یہ کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔کل کا قسطنطنیہ جو آج استنبول کے نام سے مشہور ہے ، اس کے بارے میں اورہان پامک نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ ہر عمر اور ہر نسل کے بچے ، نوجوان اور بڑے ، عورتیں اور مرد اپنی کھڑکیوں یا بالکونی میں کھڑے ہوکر ان بحری جہازوں کو تکتے اور گنتے رہتے ہیں جو آبنائے باسفورس سے گزرتے ہیں۔ترکی کے اس مصنف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی کتابیں ترکی کے عوام اس طرح پڑھتے ہیں گویا اپنی نبض ٹٹول رہے ہوں۔ابھی حال ہی میں معروف ہندوستانی پبلشر پنگوئن نے ان کی کتاب ’’اسنو‘‘کا خوبصورت ہندی ترجمہ شائع کیا ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ ترکی علم و ادب اور ثقافت کے چاہنے والے ہندوستان میں بڑی تعداد میں ہیں۔میں نے یہ کتاب پڑھی ہے، واقعی کافی دلچسپ ہے۔اس کتاب کے ذریعہ ہم یورپ اور ایشیا کے درمیان واقع ترکی کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں۔

الغرض ہم جتنی باریکی سے ہندوستان اور ترکی کا جائزہ لیتے ہیں، علم وادب اورثقافت کی پرتیں تہہ در تہہ کھلتی جاتی ہیں۔ہمیں اس ملک کی قدر کرنی چاہئے اور ایک ایسے دور میں جب کہ ہمارے ملک کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، ایک مخلص اور ترقی کی طرف گامزن ملک کے طور پر ترکی کے احساسات و جذبات کی قدر اور خلوص کا اسی انداز میں استقبال کرنا چاہئے۔ہمارے ملک کے صدر پرنب مکھر جی نے وہاں جن جذبات اور خیالات کا اظہار کیا ہے اسے حقیقی معنوں میں عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ ایک دوست مملکت کے خلوص اور محبت کا تقاضہ بھی ہے اور خود ہمارے ملک کے امن ومفاد عامہ کے لئے مفید ترین بھی۔اگر انقرہ ا اور دہلی کی یہ کوشش بار آور ثابت ہوتی ہے تو یہ نہ صرف دونوں ملکوں کے لئے بہتر ہوگا۔بلکہ اس پورے خطہ کے لئے بھی مفید ،اور اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہیں ہوگا کہ اس خطہ کے مسائل کو حل کرنے کے حوالہ سے ترکی انتہائی مثبت کردار ادا کرنیکی پوزیشن میں ہے، کیونکہ ترک قیادت کو پاکستان میں بھی تمام حلقوں کا اعتماد حاصل ہے۔ ہندوستان ،پاکستان اور افغانستان کے مسائل کو حل کرنے میں ترکی کا معاشی درجہ بھی ممد و معاون ہوسکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کارپردازان سلطنت ان امکانات کو جانچ ٹٹول کر نیک نیتی سے آگے بڑھنے کا تہیہ کریں اور پھر اس ضمن میں جلد از جلد عملی اقدامات اٹھائیں۔

۔۔۔مزید

اتوار، 15 ستمبر، 2013

مظفر نگر فساد:آنکھوں دیکھا حال

قیامت کے دن ہیں مصائب کی راتیں

محمد علم اللہ اصلاحی
کبھی کسی کی زبانی سنا تھا ’’فساد تو دراصل فروٹ ہوتا ہے اس سے پہلے کھاد ،پانی اور بیج بویا جاتا ہے نفرت ،تعصب ،ظلم اور بربریت کا ‘‘۔اس قول کی سچی تعبیر اس وقت دیکھنے کو ملی جب ہم مغربی یوپی کے علاقہ مظفر نگر اور اس کے مضافات میں ہوئے فسادات کے بعد حالات کا جائزہ لینے کے لئے وہاں پہونچے۔پولس اور فورس کی بھاری نفری نے نقض امن کی دہائی دیکر ہمیں ان علاقوں میں جانے تو نہیں دیا جہاں یہ واردات انجام دی گئی تھیں۔مگر ہم نے متاثرین پر ہوئے ظلم و تشدد کی کہانی سننے اور حقیقی واقعہ کی تلاش کے لئے عارضی طور پر بنے کیمپوں کا رخ کیا اور وہیں بے یار و مددگار اور کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزاررہے متاثرین سے ملاقات کی۔
ریاست اترپردیش کے ضلع کاندھلہ ،شاملی اور باغپت جیسے ضلعوں کے مختلف مدرسوں ،اسکولوں، عید گاہوں و گھروں میں مقیم ایک لاکھ سے بھی زائد مہاجرین کی الگ الگ داستان اور الگ الگ واقعات تھے ،جنھیں سنتے ہوئے ہمارے دل لرز رہے تھے تو لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ رہے تھے۔یہیں معلوم ہوا کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ان کی کربناک داستان الگ ہے جن میں ہزاروں لوگ قرب و جوار میں اپنے رشتے داروں کے یہاں چلے گئے ہیں۔یہاں پچاسوں ہزارسے بھی زائد کی تعداد میں اپنے جائداد ،لٹے پٹے گھر ،جانور اور اثاثہ کو کھو دینے والے مہاجرین کے چہرے سے خوف اور دہشت صاف عیاں تھی۔
کھلے آسمان تلے ان بے خانماں لوگوں میں کوئی اپنے بیٹے کو کھوچکا ہے تو کسی کی بیٹی غائب ہے ،کوئی عورت اپنے شوہر کے قتل کی روداد سناتے سناتے آنسووں کو ضبط نہیں کر پارہی تو کوئی بوڑھا باپ اپنے جوان بیٹے کو کاندھا دینے کی دلخراش کہانی بیان کرتے کرتے رو پڑتا ہے۔کسی کا پورا اثاثہ لٹ گیا ہے ،کسی کے گھر کو آگ لگا دی گئی ہے تو کسی کے شیر خوار بچے کو چھین کر اس کے سامنے ہی قتل کر دیا گیاہے۔کسی کی ماں زخمی ہے تو کسی کا بھائی ہمیشہ کے لئے پاوں سے معذور ہو چکا ہے۔کتنے ایسے بھی ہیں جنھوں نے اپنی جوان بیٹیوں کو کھو دیا ہے یا انھیں بلوائی اغوا کر لے گئے ہیں۔
دہلی سولہ دسمبر 2012کے غیر انسانی واقعہ میں دامنی کے ساتھ جو کچھ ہوا اور جس پر شنوائی کرتے ہوئے عدالت نے چار لوگوں کو پھانسی کی سزا دی ہے ، اس سے کہیں زیادہ شرمناک اور جھنجھوڑ کر رکھ دینے والے واقعات اس علاقے میں ہماری بہت سی بہنوں کے ساتھ پیش آئے ہیں، یہ دونوں واقعات موازنہ کے قابل نہیں ہیں لیکن واقعاتی نوعیت پر حکومت کے اقدام کا موازنہ ضرور کیا جانا چاہیے، ایک موقع پر عالمی پیمانے پر حکومت کی ساکھ مجروح ہونے کا ڈر تھااس لیے تمام قانونی کارروائیاں عمل میں آگئیں،حکومت نے اخلاقی تقاضے بھی دھڑادھڑ پورے کرڈالے، دوسری طرف صرف اندرون ملک کا سماجی خلفشار ہے ، جو ہمیشہ سے حکومت کی غفلت شعاری کا شکار رہا ہے، اس واقعہ میں بھی سیاسی جماعتیں باہم جھگڑ رہی ہیں اور فساد کے مارے ہوئے لوگ عوام کے ذریعہ پہنچائی گئی مدد کے سہارے زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔
مدرسہ اسلامیہ سلیمانیہ کاندھلہ کیمپ
سب سے پہلے ہم سلیمانیہ کاندھلہ مدرسہ اسلامیہ میں واقع کیمپ میں پہنچے۔جس کے ذمہ دارپوری دل جمعی سے پناہ گزینوں کی خدمت کر رہے ہیں۔یہاں تقریبا ساڑھے سات ہزار مہاجرین قیام پذیر ہیں ،اس کیمپ میں زیادہ تر لساڑ گاوں ،نثار گنج ،پھگانہ ،دھوبیان جیسے دیہی علاقوں کے افراد تھے۔اس کیمپ کی دیکھ ریکھ اور دیگر ذمہ داریاں انجام دینے والے مولانا نور الحسن راشد کا کہنا تھا: ’’پورے علاقے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 60ہزار سے بھی زائد مہاجرین اس طرح کے کیمپوں میں ہیں ،مرنے والوں کی تعداد حکومت کے مطابق 48ہے تاہم ہمارا کہنا ہے کہ یہ تعداد بھی دو سو سے کم نہیں ہے۔بعض خاندانوں کے تو پانچ اور بعضوں کے دس دس افراد کو بلوائیوں نے یا تو قتل کر دیا یا زندہ جلا دیاہے۔20سے زائد لڑکیاں غائب ہیں۔لوگوں کے اندر خوف و ہراس اس قدر ہے کہ وہ پولس اور فورس کی موجودگی میں بھی اپنے گھروں کو واپس جانا نہیں چاہ رہے ہیں۔بہت سارے مسلم نوجوانوں کو پولس نے گرفتار کر لیا ہے ،گھراور مسجدیں مسمار کر دی گئی ہیں اور لاش و دیگر شواہد کو مٹانے کے لئے اس کے راکھ تک کو ندی میں بہا دیا گیا ہے۔مکانات جس طرح سے گرائے گئے ہیں وہ ایسا نہیں ہے کہ اچانک ہو گیا بلکہ وہ منظم سازش کا مظہر ہے ،جس میں دھماکہ خیز اشیاء کے علاوہ کچھ خاص قسم کے کیمیکل بھی استعمال کئے گئے ہیں۔سب سے بڑی دکھ کی بات تو یہ ہے کہ یہاں کبھی بھی اس قسم کے حادثات وقوع پذیر نہیں ہوئے،حتی کہ تقسیم ہند کے بعد بھی جب پورا ملک خاک و خون میں لتھڑ گیا تھا ‘‘۔
یہاں گوکہ ملی تنظیموں کی جانب سے ہیلتھ سینٹر ، اشیائے خوردونوش اور دیگر عام ضروریات زندگی کا نظم کیا گیا ہے لیکن حالات بہر حال نا گفتہ بہ ہیں۔ایک ایک خیمہ میں ہزاروں خواتین ایک ساتھ اور اسی طرح مردوں کے خیمہ میں ہزاروں مرد ایک ساتھ سونے پر مجبور ہیں۔چھوٹے چھوٹے بچے جن کی عمر کھیلنے اور اسکول جانے کی ہے ہجرت کی زندگی گذار رہے ہیں۔یہاں پر ہم نے مختلف متاثرین سے ملاقات بھی کی جنھوں نے ان واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔نثار گنج کے محمد طیب (30)کہتے ہیں ’’سات ستمبر کو کوال میں پنچایت ہوئی اسی کے بعد حالات خراب ہوئے ،سب سے پہلے گاوں کے ہی انصاری لڑکے کو جاٹ لڑکوں نے مارا۔کئی جگہ اس طرح کی واردات سننے میں آ رہی تھیں اور لوگ گھروں کو چھوڑ کر جانے لگے تھے۔ہم نے بھی لڑکیوں اور خواتین کو محفوظ مقام میں پہنچانا شروع کر دیا لیکن راستہ میں جاٹوں کے کھیت میں چار سو سے بھی زائد ہندو اکٹھا ہو گئے اور انھوں نے ہمیں جانے نہیں دیا۔کسی طرح ہم لوگ فورس کی مدد سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے لیکن ہماری بہت ساری خواتین اور لڑکے چھوٹ گئے اوروہ غائب ہیں جن کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔‘‘
اسی گاؤں کے ایک اور متاثر محمد خالد 25سال کا کہنا تھا: ’’ہم سب سے بعد میں آئے۔مختلف شر پسند عناصر کی جانب سے سی ڈی( CD)کی تقسیم کے بعد جس میں کچھ لوگوں کو مبینہ طور پر دکھایا گیا تھا کہ مسلمان ہندؤوں کو مار رہے ہیں۔ان کا مطلب یہی تھا کہ ہمارے لوگ جو مر گئے ہیں ان کا بدلہ لیا جائے۔سب سے پہلے ہمارے مکان سے آگ لگائی گئی۔آگ لگانے والوں کے ہاتھ میں پٹرول اور خطرناک ہتھیار تھے۔وہ ڈھول اور باجے کے ساتھ آتے تھے اور آگ لگاتے ہوئے آگے بڑھ جاتے تھے۔آگے آگے پولس تھی لیکن وہ کچھ نہیں کر رہی تھی۔ہم لوگوں نے گنے کے کھیت میں چھپ کر کسی طرح اپنی جان بچائی۔‘‘
اسی کیمپ میں مقیم 40سالہ لساڑ گاوں کے ستارہ مسجد کے امام جمیل احمد کا کہنا تھا: ’’ ہمارے گاوں میں تین سو کے قریب مسلمان گھرانے ہیں ،کوئی بھی نوکری والا نہیں ہے۔جس وقت واردات ہوئی میں جان بچا کر بھاگ رہا تھا۔ میرے سامنے میرے چچا کو ان لوگوں نے قتل کر دیا۔اتوار کا دن تھا آٹھ ستمبر ہمارے چچا، جن کا نام سکھن تھا کو انھوں نے گنڈاسے اور تبلہ سے مار دیا۔حملہ آوروں کے پاس تلوار ،گڑاسا ،بندوق اور رائفلیں تھیں۔انھوں نے مسجد کو بھی آگ لگا دی ،جس میں خاصی تعداد میں قرآن مجید اوردوسری بہت سی چیزیں جل کر راکھ ہو گئیں۔میں نے کھیتوں میں گھس کر جان بچائی اور ندی پار کرکے کاندھلہ پہنچا ‘‘۔
محمد سلیم 44 سال پھگانہ محلہ چھوٹی مسجد دھوبیان کا کہنا تھا ’’آٹھ ستمبر کی صبح کو جاٹ آئے ،جو بھاگ سکے وہ بھاگے۔عورتوں کو انھوں نے زخمی کیا ،کئی کو مار ڈالا۔عمر علی حاجی کی ماں اور ان کے لڑکے اور بھائی کو بری طرح چاقو سے مار کر زخمی کر دیا۔آس محمد نام کے ایک نوجوان کو قتل کر دیا۔اس کی وہ ریکارڈنگ بھی ہمارے پاس ہے جب وہ ڈاکٹر اور دیگر افراد کو رو رو کر بتا رہا ہے کہ کس طرح اس کے ہاتھ اور پاوں کو کاٹ دیا گیا۔ان تمام واقعات کی اطلاع کے لئے جب ہم نے ایس او کو فون کیا تو انھوں نے فون کاٹ دیا ،میرے سامنے دو لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔لیکن میں کچھ بھی نہیں کر سکا ،اس لئے کہ وہ پوری طرح ہتھیار سے لیس تھے ‘‘۔
مدرسہ اسلامیہ رفیقیہ ریاض العلوم جوگیا کھیڑا
اس کیمپ میں بھی پانچ ہزار کے قریب افراد قیام پذیر ہیں ،یہاں زیادہ تر پھگانہ ،ہڑد ،کھیڑا ،ستان ،شد ناولی ،ٹکری ،ڈونگر ،وغیرہ جیسے گاؤں کے افراد تھے۔لوگوں کے بقول حکومت کے ذمہ داران نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کے کھانے پینے ،رہنے سہنے اور ہر قسم کی ضرورتوں کا انتظام کرایا جائے گا ،لیکن فی الحال حکومت کی جانب سے کوئی خاص اقدام نہیں ہوا ہے۔زیادہ تر لوگ نا خواندہ اور کم پڑھے لکھے ہیں۔اس لئے ابھی تک انھوں نے اپنے اوپر ہوئے ظلم و تشدد کی رپورٹ بھی درج نہیں کرائی ہے۔جب ہم وہاں پہنچے تو لوگوں کی بھیڑ اکٹھا ہو گئی اور ہر ایک اپنی داستان سنانے کے لئے بے تاب ہو گیا۔اس کیمپ میں اسی سالہ بزرگ سے لیکر 15دن کے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بھی موجود تھے۔
اس کیمپ میں مقیم پھگانہ کی ایک خاتون فاطمہ 35سال کا کہنا تھا :’’بلوائیوں نے انھیں ننگا کر کے آبروریزی کی کوشش کی ،وہ برہنگی کی حالت میں بھاگ کر پولس اسٹیشن آئی جہاں انھیں کپڑا دیا دیا گیا اور اس کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔جلدی میں اور جان بچانے کے چکر میں ان کی تین سالہ بھتیجی بھی چھوٹ گئی جس کا کچھ پتہ نہیں ہے۔فسادی جے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے اور ڈھول بجاتے ہوئے حملہ کے لئے آئے تھے۔،ان لوگوں نے ہمارے کتنے لوگوں کو مارا پتہ نہیں ‘‘۔
پھگانہ کے حاجی مان علی ولد فتح دین( 55سال) کا کہنا تھا :’’ کئی دن پہلے سے مودی کے بڑے بڑے پوسٹر لگائے گئے تھے۔گاوں کے پردھان نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہوگا۔پردھان ہمیں یہ کہہ کر گیا تھا کہ آج کے دن نوجوانوں میں ذرا آکروش ہے تو اگر وہ کچھ کہہ بھی دیں تو اس کا جواب نہ دیں۔ہم لوگوں نے بھی یہی سوچا تھا کہ کچھ نہیں کہیں گے لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد انھوں نے حملہ کر دیا۔وہ بلم اور تلوار لئے ہوئے تھے۔انھوں نے میرے لڑکے کو گنڈاسا سے مار کر زخمی کر دیا۔اسلام نامی ایک ستر سالہ بزرگ کو میرے سامنے قتل کر ڈالا۔ہم اپنی جان بچانے کے لئے گھر وں کے چھتوں میں چڑھ گئے اور وہاں اینٹیں بھی جمع کر لیں۔ ہم نے سوچ لیا تھا کہ ہم انھیں اینٹوں سے حملہ کریں گے اگر وہ ہماری جانب آنے کی کوشش کریں گے۔بچوں کو ہم نے حوصلہ دلایا کہ ڈرو نہیں ہم بھی مقابلہ کر سکتے ہیں اور سچ مچ جب انھیں اندازہ ہو گیا کہ ہم بھی کچھ کر سکتے ہیں تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔اس کے بعد ہم نے تھانہ فون کیا لیکن فون ریسیو نہیں کیا گیا۔شام کو سات گھنٹہ بعد فورس آئی اور پھر چھت میں سے جہاں 300افراد جمع تھے ہمیں یہاں منتقل کیا۔اب ہمارے گھروں کو جلا دیا گیا ہے۔بھینس اور جانور کھول کر لے گئے۔ کچھ نہیں بچا ہم لٹ گئے ‘‘۔
اسی گاوں کے گلفام (30سال) کا کہنا تھا ’’ہم ہمت کر کے چار دن بعد اپنی بھینیسوں کو لانے گئے اور 6بھینسوں کو لانے میں کامیاب ہوئے ان لوگوں نے بہت سارے جانور ہمارے چرا لئے۔گاوں میں ایک بڑا مدرسہ تھا۔اس کو بھی پوری طرح لوٹ لیا۔اس میں تعمیراتی کام بھی جاری تھا۔عطیہ کی رقم بھی کافی مقدار میں اکٹھا تھی وہ سب لوٹ کر لے گئے۔مسجدوں میں بھگوا جھنڈا گاڑ دیا گیا ہے۔پتہ چلا کہ ہمارے بہت سے جانور وہ لوگ کاٹ کر کھا گئے اور بھی لوگوں کے جانور وہاں بندھے ہوئے تھے ،کئی دنوں سے انھیں کھانا پانی اور چارہ نہیں دیا گیا ہے وہ ویسے ہی وہاں پر بندھے پڑے ہیں اگر ان کی دیکھ ریکھ نہیں کی گئی تو سب مر جائیں گے ،کئی بچھڑے اور گائیں تو مرچکی ہیں۔‘‘
جولا گاؤں کا کیمپ
یہاں باضابطہ خیمہ گاڑ کر کیمپ نہیں بنایا گیا ہے ،لیکن بڑی تعداد میں مقامی لوگوں کے گھروں میں مقیم ہیں۔یہاں بھی پانچ ہزار لوگ مقیم ہیں۔کسی کے یہاں دو سو لوگوں کے رہنے کا عارضی انتظام کیا گیا ہے تو کسی کے یہاں ڈیڑھ سو۔بہت سارے خاندان ٹکڑیوں کی صورت میں مختلف لوگوں نے مہمان بنا لئے ہیں ،یہاں بھی زخمی اور بے یار و مددگار اور عزیزوں اور پیاروں کو کھو دینے والے افراد کی ایک لمبی فہرست ہے۔ لوگوں نے اپنے اپنے طور پر ان کے رہنے اور کھانے کا انتظام کیا ہے۔یہاں کے مقامی مدرسہ میں ریلیف کا سامان رکھا ہواہے جہاں سے ضرورت مندوں کو سپلائی کیا جا رہا ہے ،ایک اور مدرسہ میں طعام کا انتظام کیا گیا ہے۔یہاں لاکھ گاؤں، باوڑی ،لساڑ اور ڈونگر جیسے علاقوں کے افراد کی تعداد زیادہ ہے۔
یہاں حاجی مہدی کے یہاں مقیم 120لوگوں میں سے لاکھ کی رہنے والی ایک 60سالہ رئیسہ خاتون کا کہنا تھا: ’’ 8ستمبر کو صبح کا وقت تھا۔وہ لوگ بڑے بڑے لاٹھی، ڈنڈا اور بلم و چاقو لے کر گاؤں میں گھس گئے ،وہ زور زور سے چلا رہے تھے۔ ساتھ میں نعرے بھی لگا رہے تھے اور ڈھول و باجا بھی پیٹ رہے تھے۔جب ہم نے انھیں دیکھا تو ہم بیت الخلاء میں چھپ گئے۔انھوں نے ہمارے گھر میں گھس کر ہمارے دیور اور شوہر کو مار ڈالا۔میرے دیور کا نام پونی (40)تھا اور شوہر کا نام قاسم (62)۔ہم تو ڈر کے مارے وہاں سے نکلے ہی نہیں۔بعد میں جولا گاوں کے لوگ فورس کے ساتھ آئے اور ہمیں نکال کریہاں لائے ‘‘۔
یہیں مستری مانگی کے یہاں مقیم 137لوگوں میں سے ایک اقبال( 41سال )جس نے اپنے تیرہ سالہ بیٹے کو کھو دیا کا کہنا تھا :’’۔انھوں نے میرے بیٹے کو شہید کر دیا۔میرے گھر کو آگ لگا دی ،سارا اثاثہ لوٹ کر لے گئے ،ہم کسی طرح جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔میری امی 75سال کی ہے انھیں بھی ان لوگوں نے سر میں مار کر زخمی کر دیا۔گنڈاسے سے مار کر پیٹھ کو زخمی کر دیا اور آگ لگا کر بھاگ گئے۔اقبال کی والدہ رمضانو سے ہم نے ملاقات کی۔وہ بستر پر پڑی تھی اور آس پاس عیادت کرنے والی خواتین کا ہجوم لگا ہوا تھا۔ان کا پچھلا حصہ پوری طرح جلا ہوا تھا ،سر پر پٹی تھی اور پشت پر بینڈیج لگا تھا۔
کینوال کیمپ :
شفیق الپٹی نامی گاؤں میں ایک وسیع و عریض سرکاری قطعہ اراضی پر تھوڑے تھوڑے سے فاصلہ پر کئی خیمے لگے ہوئے ہیں ۔وہ خواتین جو کل تک اپنے اپنی گھروں میں ہنسی خوشی زندگی گذار رہی تھیں،یہاں دھوپ کی شدت اور بارش میں ٹپکتے پانی کے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور تھے ۔اس کیمپ کے ٓرگنائزر مولانا محمد داؤود اسعدی کے بقول :’’اس کیمپ میں تقریبا پانچ ہزار افراد مقیم ہیں کچھ اپنے رشتہ داروں کے یہاں چلے گئے ہیں پھر بھی روزانہ یہاں 300سے زائد لوگوں کا کھانا بنایا جا رہا ہے ۔یہاں 29گاوں کے لوگ ہیں ۔
اس کیمپ میں مقیم ایک بزرگ محمد یوسف 50سال کا کہنا تھا :رات کو پتھرا�ؤکیا گیا ،ہمارے گاؤں سے کسی کے مرنے کی اطلاع تو نہیں ہے لیکن رات بھر بلوائی گالم گلوچ ااور دلوں کو دہلا دینے والے نعرے لگاتے رہے ۔ہم سے کہا گیا کہ اگر یہاں رہنا ہے تو سارے مسلمانوں والے اعمال کرنا چھوڑ دو ،داڑھی کٹوا لو اور ہم جیسا کہیں ویسا ہی کرو نہیں تو ہم تم لوگوں کو مزا چکھا دیں گے ۔ہم بہت ڈر گئے تھے ،دروازہ بند کر لیا تھا ،کئی دنوں تک ہم گھر میں بند رہے 7ستمبر کو فورس آئی اور ہمیں شکار پوئی چھوڑ گئی اور وہاں سے ہم کیمپ میں آ گئے ‘‘
یہیں تنگائی گاؤں کی ایک خاتون جنھوں نے اپنا نام حسینہ بتایا عمر پوچھنے پر ذہن پر ذرا زور دیتے ہوئے 60بتایا ،کہنے لگیں :پہلے تو ان لوگوں نے فساد ہونے سے بھی پہلے ہمارے گاوں میں مسجد کے امام حاجی علی حسن کے اوپر غلط الزام لگا کر انھیں جیل بھیجوا دیا اور جب وہ ضمانت پر رہا ہوکر آئے تو ان کے اوپر حملہ کی کوشش کی گئی ،انھیں مارا پیٹا گیا ،ہماری مسجد جسے ستارہ مسجد کہتے ہیں میں خنزیر کا گوشت رکھ دیا ۔ہماری جانب سے احتجاج کیا گیا تو پورے گاوں کو تباہ و برباد کر دینے کی دھمکیاں دی جانے لگیں ۔ہمارے کئی جانوروں کو ان لوگوں نے زہر دے کرمار دیا ،ہم اس گاوں میں صرف 30سے 40گھر ہیں ۔ہم واپس نہیں جا سکتے چاہے یہیں ہماری موت کیوں نہ آ جائے ۔
لوئی گاوں کا کیمپ :
یہاں بھی بقول یہاں کے پردھان مہربان علی کے پانچ ہزار سے زائد افراد مقیم ہیں وہ کرودا ،نرپڑا ،بڑہل ،باوڑی دہا اور دوسرے گاوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کے پاس نہ تو رہنے کا کوئی بندو بست ہے اور نا ہی کوئی مناسب ہیلتھ سینٹر اور دیگر سہولیات کا انتظام جس کے سبب کئی بچوں کی موت ہو چکی ہے۔کئی ایک شدید طور پر زخمی ہیں ،جن کا مناسب علاج ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔یہاں بھی زیادہ تر لوگ ناخواندہ اور کم پڑھے لکھے افراد ہیں۔لوگوں کی آمد کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے ،اور یہ اتنی زیادہ ہے کہ ان کے رہنے سہنے اور دیگر ضروریات کا انتظام کرانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔حکومت کی جانب سے محض امید اور دلاسا دلایا جا رہا ہے۔لیکن ابھی تک صحیح معنوں میں کچھ نہیں کیا گیا ہے۔مقامی لوگوں نے اپنے اپنے طور پر جو کچھ ہو سکا ہے کیا ہے۔
ان کے علاوہ بھی اورمتعدد کیمپ ہیں لیکن چونکہ رات کافی ہو گئی تھی اور ہمیں دہلی واپس بھی آنا تھا اس لئے ہم ان جگہوں کا دورہ نہیں کر سکے اور یوں ہمیں اس خواہش کے باوجود کے اور بھی لوگوں سے ملاقات کرتے انھیں حوصلہ دلاتے اور دکھ درد میں شریک ہوتے وقت نہ ہونے کے سبب واپس لوٹنا پڑا۔واضح رہے کہ ہمارا یہ دورہ مسلم مجلس مشاورت کے صدر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کی قیادت میں تھا جن کے ساتھ مشاورت کے رکن مرکزی عاملہ نوید حامد ،ایسو سی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس کے اخلاق احمد کے علاوہ کئی سماجی کارکنان بھی شامل تھے۔اس وفد نے پرانی دہلی کے عوام اور مقتدر طبقہ کی جانب سے عطیہ کی شکل میں دئے گئے کپڑے ،چادریں اور ضروری سامان بھی متاثرین کے درمیان تقسیم کئے۔اس موقع پر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان اور نوید حامد نے تفصیل سے متاثرین کی بات سنی، انھیں دلاسا دیا اور اعلی ذمہ داران تک ان کی بات پہنچانے و انصاف دلانے کی یقین دہانی کرائی۔
عمومی تاثرات
لوگ ابھی بھی ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔کسی بھی طرح سے وہ اپنے گھروں کو واپس جانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔زیادہ تر لوگ ان پڑھ ،ناخواندہ یا کم پڑھے لکھے ہیں اس لئے انھیں اپنے حقوق کے لئے لڑنے حتی کہ ایف آئی آر کس طرح سے درج کرائی جائے یا کیسے لکھی جائے معلوم نہیں ہے۔پولس اور دیگر منتظمین کا رویہ متعصبانہ ہے اور وہ حقیقت حال نہ تو جاننا چاہ رہے ہیں اور نہ ہی مجرمین کو کوئی سزا دینا ،بلکہ بعض جگہوں پر جیسا کہ متاثرین نے بتایا ،حکومتی ذمہ داران نے جان بوجھ کر لوگوں کو ڈھیل دی کہ مسلمانوں پر حملہ کیا جائے اور ان کے جان و مال کو لوٹا جائے۔اس بابت پھگانہ سے شروع ہونے والے ایس او علاقہ کے اوم بی سروہی کے کر دار پر لوگوں نے سوالیہ نشان کھڑے کئے۔اسی طرح لوگوں نے ہریش چندر جوشی کاندھلہ کے موجودہ ایس او کی کافی تعریف بھی کی اور کہا کہ ان کا کر دار اس معاملہ میں مثبت رہا۔جہاں پر واردات ہوئی ہیں حکومت کی جانب سے سروے اور دیگر احکام جاری ہونے کے بعد بھی پولس کی جانب سے شواہد کے مٹانے کا کام پڑے پیمانہ پر جاری ہے۔ فساد شروع ہونے سے پہلے پولیس نے مسلم گھروں سے ان کے روزمرہ کے استعمال کے اشیاء بلم، گنڈاسے اور چاقو وغیرہ ، جو ان کے دفاع میں کام آسکتے تھے، جمع کرالئے ،جب کہ باہر سے اسلحے وغیرہ لاکر فسادی عناصر میں تقسیم کئے گئے۔بعض معمر لوگ اور بچے ابھی تک مخدوش گاؤوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کو نہ کھانا مل رہا ہے اور نہ پانی۔ پولیس ان کو محفوظ مقامات تک پہنچانے میں مدد نہیں کررہی ہے۔ اندیشہ ہے کہ اگرتوجہ نہ دی گئی تو ان میں سے کچھ کمزور لوگ مرگئے ہوں گے یا عنقریب مر جائیں گے۔ جہاں مسلم اکثریت میں ہیں ان علاقوں سے بعض ہندو بھی احتیاطاً بھاگے لیکن مسلمانوں نے ان کی حفاظت کی اور کہیں بھی ان کے خلاف کوئی واردات انجام دینے کی خبریں نہیں ملیں۔کافی تعداد میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری ہوئی ہے۔وہ کہاں ہیں کس حالت میں ہیں کسی کو علم نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے تمام طرح کی یقین دہانی کے باوجود ابھی تک کوئی مثبت رویہ سامنے نہیں آیا ہے۔
مجھ پر کیا گذری :
سچ مچ ان تمام حالات اور واقعات کو دیکھنے کے بعد مجھ پر کیا گذری میں اسے بیان نہیں کر سکتا ،کئی جگہ میری آنکھیں بھر آئیں ۔ہم صحافی لوگ روزانہ کسی نہ کسی معاملے میں کسی کے مرنے کی خبر سنتے ہیں اور اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہیں سڑک حادثہ ،تو کہیں قتل کہیں لڑائی جھگڑا ،وہاں پر ہمارے لئے صرف اور صرف خبر کی اہمیت ہوتی ہے اگر ہم ان میں جذبات کو حاوی ہونے دیں تو شاید ایک سطر بھی نہ لکھ سکیں ۔لیکن یہاں کا منظر ہی کچھ ایسا تھا کہ ہم اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکے ،میں اپنے آنسووں کو روک نہیں پایا ۔انھیں تسلی کیا دیتا یہاں تو خود اپنی حالت ہی غیر تھی ۔شاید اسی وجہ سے واپسی کے موقع سے ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب جن کی معیت میں مجھے جانا نصیب ہوا تھا سے میں نے کہہ ہی دیا کہ ان تمام واقعات کو دیکھنے کے بعد تو جینے کی جیسے تمنا ہی ختم ہو جاتی ہے ،اس سے بہتر تو مر جانا ہے ،ڈاکٹر صاحب نے اس بات پر خفگی کا اظہار کیا اور کافی دیر تک مجھے سمجھاتے رہے ،کہنے لگے’’ اسی معاشرے کو تو بدلنا ہے اپنی فکر سے اپنے علم سے۔۔۔ ‘‘ ۔
فساد زدہ علاقوں سے لوٹنے کے بعد جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں ایسا لگ رہا ہے جیسے الفاظ ہی ختم ہو گئے ۔میں دیکھ رہا ہوں سڑک کے دونوں جانب لہلہاتے ہرے بھرے کھیت ہیں لیکن ان میں بھی اداسی چھائی ہوئی ،پتہ نہیں قدرت کے ان کرشمہ سازیوں کو دیکھنے کے بعد دل میں جو سرور اور طمانیت نصیب ہوتی ہے آج مجھے وہ بالکل بھی نظر نہیں آ رہا ہے ۔ایک ہو اور سناٹے کا عالم ہے ۔میں اپنے دوست اویس سلطان خان سے اس کا تذکرہ کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں ’’یہ نظروں کا پھیر ہے‘‘،ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن پتہ نہیں مجھے تو بڑی بے چینی ہو رہی ہے اور مجھے ہر کوئی بے قرار اور آبدیدہ نظر آ رہا ہے ۔
میرے پاس وہ الفاظ ہی نہیں جس کے ذریعہ میں اپنی ماوں اور بہنوں کے درد اور کرب کو بیان کر سکوں ،میرے اندر اتنی ہمت ہی نہیں کہ میں ان بوڑھے بزرگ اور لاٹھی ٹیکتے ضعیف العمرلوگوں کی کہانی کو لفظوں کا روپ دے سکوں ،ان معصوم بچوں کی ان کہی کہانیوں کو لکھ سکوں جو وقت سے پہلے ،مستقبل سے بے خبر یتیم ہو گئے ۔معروف جرمن شاعر اور ادیب رائندر ماریہ رلکے نے اپنے شاگرد صحافی فرانز ژاور کاپس کو ایک خط میں لکھا تھا’’ اگر زندگی کی حقیقتوں کو بیان نہیں کر سکتے ،معاشرے کی عکاسی نہیں کر سکتے تو تم سمجھ لو کہ ایک اچھا تخلیق کار نہیں بن سکتے ،تمہیں لکھنے کا کوئی حق نہیں ہے ‘‘اگر ماریہ رلکے کہ اس حقیقت پسندانہ بیان کو دیکھا جائے تو مجھ جیسے مبتدی قلم کار کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ۔لیکن اس کے باوجود میں نے اسے اس لئے لکھنے کی کوشش کی ہے کہ آنے والے دنوں کے لئے سند رہے ۔مجھے پتہ ہے اس سے کچھ ہونے والا نہیں ہے پھر بھی نے اسے اس لئے لکھا کہ ہمارا ۱قومی ذرائع ابلاغ اور خود اردو اخبارات جو ہمیشہ اور ہر آن قوم کی قصیدہ خوانی کا گن گاتے اور آواز اٹھانے کا دم بھرتے ہیں اتنے بڑے حادثہ کو بیان کرنے میں لگی لپٹی سے کام لیتے رہے ۔اللہ ان سب کو سمجھ عطا کرے، کہنے والے اس کو عصبیت کا شاخسانہ کہہ رہے ہیں، تو کچھ سیاسی بازی گری کا نتیجہ ،لیکن میں کیا کہوں مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔


۔۔۔مزید