ہفتہ، 11 اگست، 2012

مسلم نوجوانوں کے خلاف پولس کی عرضی مسترد


پھر خوار ہوئی خاکی وردی  

محمد علم اللہ اصلاحی 
 ملک کے امن و امان کو بر قرار رکھنے میں پولیس کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے انھیں ملک کی حفاظت و صیانت کا نگہبان تصور کیا جاتا ہے ، جس کے ذمہ جرائم پر قابو پانا ہی نہیں بلکہ شہریوں کو اعتماد میں لے کر ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے جائز اقدامات بھی کرنا ہوتا ہے۔پولس سماج کی پر امن فضا کو مکدراوربدامنی سے پاک کرنے میں خصوصی رول نبھاتی ہے وہیں وہ عوام او رحکومت کے مابین ایک مضبوط رشتہ بھی استوارکرتی ہے،لیکن اگر محافظ کا رول نبھانے والی پولس کاکردار ہی ظالمانہ ہو جائے توملک میں امن و آشتی کی امیدنہیںکی جاسکتی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آج عوام دہشت گردی سے تنگ آ چکی ہے اور یہ کہنے لگ گئی ہے کہ دہشت گردی کو جلد سے جلد جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور ان سب کو مار گرایا جائے جو سینکڑوں ہزاروں بے قصوروں کی جان لینے میں جھجک محسوس نہیں کر تے،لیکن اس میں شرط وہی ہے کہ وہ واقعی دہشت گردہوں اور ان کے دہشت گرد ہونے کا مکمل ثبوت بھی موجودہو۔

 اس پس منظرمیںپولیس کے کردار پرتب کئی سوال اٹھ کھڑے ہوتے ہیں،جب کسی معصوم کو پکڑ کر اسے دہشت گرد بنادیاجاتاہے۔دراصل پولس کے محکمہ میں متعدد خامیاں آ گئی ہیںاورقانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کارواج عام ہوگیاہے۔ تقریباروزانہ ہی کہیںنہ کہیں پولیس کی طرف سے قانون کو ہاتھ میں لینے کا معاملہ سامنے آتا رہتا ہے۔ شاطر بدمعاشوں اور دہشت گردوں کے ساتھ پولیس کی فائرنگ عام بات ہے، مگر ان میں کتنی جائز اور کتنی فرضی ہوتی ہے، اس کا پتہ نہیں چل پاتا، نہ جانے اب تک کتنے ہی معصوم لوگوں کو فرضی تصادم میں قتل کر دیا گیا ہوگا۔ان دنوں پولیس کا یہی ”تصادم“ایک بار پھر بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ جس میں دہلی ہائی کورٹ نے7 سال پہلے ایک جھڑپ کے بعد گرفتار 7 مشتبہ افراد کو رواں ماہ یعنی 6اگست کوبری کرنے کے نچلی عدالت کے فیصلہ کے خلاف پولس کی اپیل مسترد کر دی ہے۔یہاں پر یہ بات بھی عرض کر دینے کی ہے کہ اس معاملہ میں 9فروری 2011کودہلی پولیس کی طرف سے دہشت گرد بتائے گئے سات لوگوں کودہلی کی نچلی عدالت نے رہا کرنے کا حکم دیا تھااور کہا تھا کہ اس سلسلے میں پولیس کی فائرنگ کی کہانی بہت احتیاط سے گڑھی گئی ہے۔اس وقت اضافی سیشن جج وےرےندر بھٹ نے ثاقب رحمان، بشیر احمد شاہ، نذیر احمدصوفی، حاجی غلاممعین الدین ڈار، عبدالمجید بٹ ،عبد القیوم خان اور وریندر کمار سنگھ کو بری کر دیاتھا ۔عدالت کے فیصلہ کے بعد بھی دہلی پولس کی پیٹ کا درد ختم نہیں ہوا اور اس نے ساتوں کے خلاف دوبارہ رٹ دائرکر دی لیکن دہلی ہائی کورٹ کے فاضل ججوںنے ایک مرتبہ پھر اپنی مدبرانہ فیصلہ کے ذریعہ پولس کی سازش کوہی طشت ازبام نہیں کیا ہے بلکہ ان کے اس سیاہ کارنامے پر انھیں پھٹکار بھی لگائی ہے ۔

  اس معاملہ میں جسٹس ایس روےندر بھٹ اور جسٹس ایس پی گرگ پر مشتمل بینچ نے نہ صرف پولس کی اپیل مسترد کی بلکہ نچلی عدالت کے اس نتیجے سے اتفاق ظاہر کیا کہ یہ’تصادم فرضی‘ تھا اور تمام 7 ملزمان کو اس معاملے میںجھوٹ پھنسایا گیا تھا۔عدالت نے کہا کہ اگر ریکارڈ میں موجود ثبوتوں کی بنیاد پرنتائج پختہ ہوں تو ملزمان کو بری کرنے کے نچلی عدالت کے فیصلہ سے اپیلی عدالت کو چھیڑ چھاڑ نہیں کرنی چاہئے۔ عدالت نے کہا کہ نچلی عدالت کے فیصلہ میں مداخلت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ججوں نے فرضی تصادم کے معاملے میں چار پولس اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے نچلی عدالت کے حکم میں ترمیم کی ہے۔اس سے پہلے پولس نے دعویٰ کیا تھا کہ مخبر سے ملی اطلاعات کی بنیاد پر اس نے جولائی 2005 میں دہلی۔ گڑگاںبارڈر پر ایک تصادم کے بعد ثاقب رحمن، نذیر احمدصوفی، غلام معین الدین ڈار اور بشیر احمد شاہ کو گرفتار کیا تھا۔ پولس نے ان کی کار سے ہتھیار برآمد کرنے کا بھی دعویٰ کیا تھا۔ پولس نے بعد میں تین دیگر افراد کو بھی گرفتار کیا تھا۔پولس کے مطابق ایک کار میں سوار ان ملزمان نے اشارہ دینے پر بھی کار نہیں روکی تھی۔ اس پر سب انسپکٹر رویندر تیاگی کی قیادت میں پولس نے ان کا پیچھا کیا اور بعد میںثاقب کی فائرنگ کے جواب میں تیاگی نے اپنی سروس ریوالور سے گولیاں چلائیں۔

 اس معاملہ میں پولس کا کہنا تھا کہ یہ دہلی اور اس کے مضافاتی علاقوں میں واردات کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔پولس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ثاقب کی نشاندہی پر ایک اے کے 47 رائفل، دو مےگزین، 130 کارتوس، دو دستی بم اور دیگر ہتھیار برآمد کیے گئے تھے لیکن نچلی عدالت نے ان تمام ثبوتوں کو نظر انداز کر دیا تھا۔نچلی عدالت نے اپنے فیصلے میں تمام حقائق اور ثبوتوں پر غور کے بعد تمام 7 ملزمان کو بری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک اور دو جولائی 2005 کی رات میں کوئی مڈبھیڑ نہیں ہوئی تھی اور یہ فرضی تصادم تھا۔عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ تصادم کی کہانی دہلی پولس کے اسپیشل سیل کے دفتر میں لکھی گئی تھی جسے سب انسپکٹر روےندر تیاگی نے سب انسپکٹر نراکار، سب انسپکٹر چرن سنگھ اور سب انسپکٹر مہندر سنگھ کی مدد سے لکھا تھا۔عدالت نے کہا کہ یہ ناممکن ہے کہ مختلف تھانوں سے لئے گئے الگ الگ درجہ کے 15 سے زیادہ پولس افسران کی جانچ ٹیم مختلف مقامات پر رہنے والے ملزمان کو جھوٹے معاملے میں پھنسانے کی سازش کرے گی۔ عدالت نے کہا کہ عرضی گذاروں کو قصوروار پائے جانے سے پہلے ہی سزا نہیں دی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے پولس کمشنر کو ہدایت دی کہ وہ اس معاملے میں عرضی گذاروں کے کردارکی تحقیقات کریں اور پھر قانون کے مطابق مناسب کارروائی کریں۔

 عدالت کے اس فیصلہ کو نیک فال تصور کیا جا رہا ہے۔ عدالت کا یہ تبصرہ پولس والوں کے منھ پرواقعی نہ صرف ایک بڑا طمانچہ ہے بلکہ ان کے لیے ایک سبق بھی ہے۔عدالت نے پولس کے ذریعے انجام دیے جانے والے فرضی انکاونٹر کے بارے میں پہلی بار اس قسم کے سخت لہجے کا استعمال کیا ہوایسا بالکل بھی نہیں ہے بلکہ ملک کی عدالتیں ماضی میں بھی پولس کو اس معاملے میں کھری کھوٹی سنا چکی ہیں۔ لیکن پولس اتنی ہٹ دھرم اور سخت جان ہے کہ اس پر کچھ فرق ہی نہیں پڑتابلکہ مزید ان کے ناجائز کاموں میں اضافہ ہی ہوتا ہے ۔ملک کے اعلیٰ طبقہ سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے آدمی تک سے اگر پولس کے بارے میں ان کی ذاتی رائے جاننے کی کوشش کی جائے، تو سب کا جواب پولس کے تئیں نفرت بھرا ہی ہوگا۔ شاید ہی کوئی ایسا آدمی ہو جو کسی پولس والے کی تعریف کرے۔ اور پھر ایسے میں پولس کے ذریعے انجام دیے جانے والے فرضی انکاونٹر کے معاملوںنے تو گویا جلتے میں گھی کا کام کیا ہے۔ ان فرضی انکاونٹرس میں نہ صرف بدمعاشوں، ڈاکووں اور لٹیروں کی جانیں گئی ہیں، بلکہ ملک کے بہت سے معصوم شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ سیکڑوں فرضی انکاونٹرس کو انجام دینے کے بعد بعض پولس والے خود کو ”انکاونٹر اسپیشلسٹ“ کہلانا زیادہ پسند کرتے ہیں،بلکہ اس لقب کو یوں سمجھتے ہیں جیسے انہیں کوئی بڑا تمغہ مل گیا ہو، جیسے انہیں فوجیوں کی طرح ہی ’ویر چکر‘ حاصل ہوگیا ہو۔پولس کی ذہنیت جب یہ ہوگی، برے کام کو انجام دینے کے بعد اسے ندامت نہیں بلکہ اس پر انہیں فخر ہوگا، تو پھر بھلا’ جرائم‘ پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے۔

 دراصل اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پولس بعض معاملوں میں عدالت کا سامنا نہیں کرنا چاہتی۔ اسے جب یہ احساس ہو جاتا ہے کہ فلاں سرغنہ، ڈکیت، یا خونخوار مجرم کے معاملہ میں عدالتی کارروائی طویل مدتی ہو سکتی ہے، شاید وہ مجرم عدالت کے ذریعے بری بھی ہو جائے، تو وہ پھر’ فرضی انکاونٹر ‘یا پھر ’فرضی گرفتاری کو انجام دیتی ہے۔ ملک کی عدالتوں اور قانون سازوں کو اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ چندن کی لکڑی اور ہاتھی دانت کے ملک کے سب سے بڑے اسمگلر، ویرپن کے مبینہ انکاونٹر کے معاملے میں بھی شاید پولس کی یہی ذہنیت کارفرما تھی۔ ان معاملوں میں بعض مقام ایسا بھی آیا ہے، جب ملک کے لوگوں کی عام رائے بھی کچھ ایسی ہی بنتی دکھائی دیتی ہے کہ فلاں مجرم کو کب تک جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بند رکھا جائے گا، کب تک عدالتوں میں اس کے خلاف گواہوں اور ثبوتوں کو پیش کرنے کی کارروائی چلتی رہے گی، جب کہ سیکڑوں آنکھوں نے اسے جرم کرتے دیکھا ہے اور وہ واقعی ایک بڑا مجرم ہے۔ لوگوں کی اس عام رائے سے بھی بعض دفعہ پولس متاثر ہوتی دکھائی دیتی ہے، اور شاید ماضی میں اس نے بعض معاملات کو انہی حالات کے پیش نظر انجام دیا ہے۔ 2008 کے ممبئی حملے کے پاکستانی دہشت گرد، اجمل عامر قصاب کے معاملہ کو اس کی مثال کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

 لیکن پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر پولس کو اس قسم کی آزادی دے دی جائے، تو کیا یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اس کا ہر عمل جائز اور درست ہوگا، شاید نہیں،کیوں کہ موجودہ معاملہ کے علاوی ہمارے سامنے ایسی بھی بہت سی مثالیں ہیں، جن میں پولس کے ہاتھوں بے گناہوںکی گرفتاریاں اور معصوموں کوہلاک کیا گیا ہے۔ پولس کو اگر یہ آزادی دے دی جائے، تو پھر ملک کے اندر نہ صرف عدالتوںکا وجود خطرے میں پڑ جائے گا بلکہ ان کے ایسے رویہ کی وجہ سے بد امنی اور انارکی کا بول بالابھی ہوگا۔ایسے میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پولس قانون کی حفاظت کرے، عدالتوں کی بات مانے ، ملک کے شہریوں کی حفاظت کرے، خود سے انصاف کرنے کی ذہنیت کو اپنے دل سے نکالے، اگر پولس والے چاہتے ہیں کہ لوگوں کے منھ سے انہیں دیکھ کر گالیاں نہ نکلیں، بلکہ ان کی بھی اسی طرح عزت کی جائے، جس طرح ملک کے فوجیوں کی کی جاتی ہے ،تو انھیں اپنے اندر تبدیلی لانی ہی ہوگی اور یہ تبھی ممکن ہیں، جب پولس اپنے رویہ میں ایمانداری سے تبدیلی لائے۔ وہ لوگوں کے اندر یہ اعتماد پیدا کرے کہ پولس واقعی لوگوں کی ہمدرد ہے، وہ دکھ درد میں اور مشکل کی گھڑی میںعوام کے کام آسکتی ہے۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یقینا کی گارنٹی دی جاسکتی ہے کہ ملک کے شہریوں کی حفاظت سکے گی اور امن و امان کا قیام سہل اور ممکن العمل ہوسکے گابصورت دیگر ساری کی ساری کوششیں رائگاں اور اقدامات بے کار جائیں گے۔


۔۔۔مزید

جمعہ، 10 اگست، 2012

آماجگاہ علم و ادب سرائے میر کو بم سے اڑانے کی دھمکی



آماجگاہ علم و ادب 
سرائے میر کو بم سے اڑانے کی دھمکی
محمد علم اللہ اصلاحی

 ہندوستان میں کوئی بھی نا خوشگوار واقعہ ہوتا ہے تو وہ کس طرح ایک خاص کمیونٹی کے سر منڈھ دیا جاتا ہے یا اسے کس طرح ایک خاص زاویہ نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔اس طرح کے حادثات کو انجام دینے والے چاہے ابھینو بھارت جیسے لوگ ہی کیوں نا ہو شک کی سوئی اسی کمیونٹی کی طرف اٹھتی ہے ۔اور اب تو بٹلہ ہاس انکاونٹر کے بعد سے عموما باضابطہ ان علاقوں کو نشانہ بنایا جانے لگا ہے جہاں یہ کمیونٹی آباد ہے انھیں ہر قسم کے دہشت گرد اور مجرمین بھی انھیں علاقوں میں دکھائی دیتے ہیں خواہ وہ مہاراشٹر اکا پوناہو،دہلی کا جامعہ نگر،اترپردیش کا اعظم گڈھ،راجستھان کا اجمیر، یا پھر مدھیہ پردیش کا حیدر آباد ہر قسم کا عتاب اور عذاب یہیں نازل ہوتاہے ۔اسی طرح کے ایک عذاب سے ان دنوں مشرقی اتر پردیش کے مسلم اکثریتی والا علاقہ اور معروف گہوارئہ علم و ادب اعظم گڑھ سرائے میر دوچار ہے اور پورا علاقہ خوف اور دہشت کے ماحول میں جینے پر مجبور ہے۔اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ اس علاقہ کو مبینہ طور پر بم سے اڑانے کی دھمکی دی گئی ہے۔یہ دھمکی ایک ای میل کے ذریعہ دی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یو پی کے اعظم گڑھ کے قریب واقع سرائے میر کو بم سے اڑا دیا جائے گا۔ میل میں یہ بھی لکھا ہے کہ پونے جیسا دھماکہ کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق ای میل ایک صحافی کو ملا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جس طرح پونے میں بم دھماکے کئے گئے ہیں اسی طرح سرائے میر میں بم دھماکے کرکے اسے اڑا دیا جائے گا۔ بم دھماکہ بھی 15 اگست کے آس پاس کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ ای میل میں پولس کو چیلنج کیا گیا ہے کہ اگر سرائے میر کو بچا سکو تو بچا لو۔اس بابت اخباری اطلاعات کے مطابق ای میل کے ذریعہ بھلے ہی سرائے میر کو بم سے اڑانے کی دھمکی دی جا رہی ہے، لیکن انتظامیہ کو اس کی بھنک تک نہیں۔ جبکہ خبر سے سرائے میر قصبے میںدہشت پھیلا ہوا ہے ،لوگ سہمے ہوئے اور تشویش میں مبتلا ہیں۔

 اسی علاقہ کے تعلق سے دوسری طرف ایک اور خبر ہے وہ یہ کہ سلسلہ وار بم دھماکوں کے سلسلے میں تفتیشی ایجنسی اترپردیش کے پوروانچل میں چھاپہ مارنے پہنچ گئی ہیں۔ تفتیشی ٹیم پوروانچل کے کئی اضلاع میں دہشت گرد تنظیموں سے مبینہ طور پر وابستہ افرادکی دھر پکڑ کے لئے تفتیشکر رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس تفتیشی ایجنسی کی اعظم گڑھ پر خاص نظر ہے۔مہاراشٹر نیشنل انٹیلی جنس (این آئی اے) کے افسران اعظم گڑھ،و ارانسی، جون پور،چندولی کے کئی قصبوں میں تفتیش کے لیے مقامی پولس کو خبر دیے بغیرپہنچے ہےں۔ اس جانچ ٹیم نے چکیا،حسین آبادکے باشندہ وسیم عرف رمضان ولدمہتشم بلا کے بارے میں پوچھ گچھ کی اور اس کا مجرمانہ ریکارڈ دیکھا۔ وہیں اس نے ایک نوجوان بسیل کے گھرقرقی کا نوٹس بھی چسپاں کر دیاہے۔ایک ٹیم حیدرآباد کی این آئی اے کے ڈپٹی انسپکٹرٹی راجاکی قیادت پر مشتمل ایک دستہ بھی اس علاقے میں سرگرم ہے۔

  یہ علاقہ دہلی میں ہوئے بٹلہ واقعہ کے بعد سے میں شہ سرخیوں پر ہیں۔قارئین کو یاد ہوگا بٹلہ ہاوس انکاونٹرکےبعد اندھا دھند نوجوانوں کی گرفتاری سے پورا علاقہ ابل پڑا تھا۔ اس کے بعد سے ملک میں جب جب بم دھماکوں کے واقعات ہوئے، اعظم گڑھ ضلع کے نوجوان اے ٹی ایس،ایس ٹی ایف اور خفیہ محکمہ کے نشانے پر ہوتے ہیں۔بٹلہ ہاس انکاونٹر کے بعد کسی نامعلوم ذرائع نے یہاں واقع سرائے میر ریلوے اسٹیشن کو اڑانے کی دھمکی دی تھی، لیکن انتظامیہ کی بد احتےاط کی وجہ سے دھمکی دبی کی دبی رہ گئی۔اب کی ہفتہ کو دوبارہ ای میل کے ذریعے دہلی کے ایک صحافی کو بھیجے گئے میل کے بعد دہلی پولیس سرگرم ہو گئی ہے۔اس طرح کی خبروں کے آنے کے بعد سرائے میر ر قصبے کے لوگ جہاں سہمے ہوئے ہیں،وہیں اس علاقہ سے دور معیشت کی تلاش اور تعلیم کے حصول میں اپنے وطن سے باہرجانے والے لوگ تشویش میں مبتلا ہیں اور عید جیسے خوشی کے موقع پر یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ عید منانے گھر جائیں یا نہیں،مائیں اپنے بچوں کو گھروں سے باہر اسکول تک بھیجنے کے لئے گھبرا رہی ہیں کسی کے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ وہ کریں تو کیا کریں ؟

  ای میل کے مطابق حال ہی میں پونے میں ہوئے سیریل بم بلاسٹ جیساواقعہ 15 اگست تک سرائے میر علاقے میں کئے جانے کا منصوبہ ہے۔اس کے باوجودمقامی انتظامیہ کے علاوہ محکمے کے اعلی افسران نے ابھی تک ایسی کسی بھی ای میل کو ماننے کو تیار نہیں ہے،نہ ہی مقامی سطح پر خصوصی حفاظتی انتظامات کا ہی انتظام کیا گیا ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ایس پی آکاش کلہری نے کہا کہ ایسی کسی بھی قسم کی کوئی معلومات ہمیں نہیں ملی ہے اور نہ ہی کوئی اس بابت کوئی اطلاعات ہیں ۔ آئی جی زون وارانسی بر ج بھوش شرما نے بھی اس معاملے سے لا علمی ظاہر کی ہے ۔حالانکہ قصبے میں سیکورٹی انتظامات چوکس کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اتوار کوراشٹریہ علماءکونسل کے کارکنوں نے سرائے میر تھانہ انچارج کو میمورنڈم سونپاہے اس موقع پر کلیم جامعی، ماسٹر طارق، مشیر شیروانی، پرویز، ممتاز وغیرہ موجود رہے۔اطلاعات کے مطابق حالانکہ میل ملتے ہی تمام ہی جگہوں پر ہائی الرٹ کر دیا ہے اور دہلی پولس کی اسپیشل سیل نے ایک ٹیم بناکر تفتیش شروع کر دی ہے اور یو پی پولس کو بھی اطلاع دے دی ہے۔اگر اس بات میں صداقت ہے تب تو ٹھیک ہے ورنہ پانی کا پل سے گذر جانے کے بعدمعاملہ سنگین ہو سکتا ہے۔

 جب بھی ملک میں کوئی دہشت گردانہ واردات ہوتی ہے تو ایک ہی جملہ سامنے آتا ہے ’ریڈ الرٹ‘لیکن اس کے باوجود دھماکہ ہو ہی جاتے ہیں اور احتیاطی طور پر بھی کوئی خاص اقدام نہیں ہو پاتا۔حکومت کا کام کیا صرف ریڈ الرٹ کا اعلان کرنے تک ہی محدود ہو گیا ہے۔ اس کے بعد جو بھی ہوتا ہے، اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ یہ سوال اب تک الجھا ہوا ہے۔قابل ذکر ہے کہ اس سال جے پور دھماکوں سے شروع ہوا سلسلہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ اور ریڈ الرٹ ہونے کے باوجود بھی بنگلور، احمد آباد اور دہلی دہشت گردوں کے نشانے سے بچ نہیں سکے ۔گزشتہ دو تین برسوں میں بنارس،دہلی، اجمیر کی درگاہ، حیدرآباد کی مکہ مسجد میں دھماکے اور گزشتہ نومبر میں لکھنو ¿، فیض آباد اوربنارس کے عدالتی احاطوں میں ہوئے دھماکے دہشت گردی اور اس کے عزائم و منصوبوں کو بڑھانے والے کچھ مثالیں ہیں۔ایسے میں یہ ریڈ الرٹ اور اھتیاطی تدابیر کیا گل کھلاتی ہے ہم کچھ نہیں کہ سکتے ۔

 مگراس سال جے پور، بنگلور، احمد آباد، اور دہلی جیسے بڑے شہروں میں ہوئے جان لیوا دھماکے دہشت گردوں کے ناپاک ارادوں کی داستاں بیان کرنے کے لئے کافی ہیں۔ ان تین سالوں میں ہوئے دھماکوں میں مشتبہ افراد اور ملزمان کی دھرپکڑ آج بھی جاری ہے لیکن ان تین سالوں میں ملزمان کے خلاف ایک بھی فیصلہ ابھی تک نہیں آیا ہے۔مزید ستم ظریفی تو یہ ہے کہ مسلم علاقوں میں بھی دھماکہ ہو یہاں تک کہ ان کی عبادتخانوں میں دھماکہ ہوتا ہے تو بھی وہی پکڑتے جاتے ہیں اور ان ہی پر شک کیا جاتا ہے ۔اس لئے یہاں پر اس خبر کو لیکر تشویش،اور خوف کا اظہار کرنا خلاف واقعہ نہیں ہے۔پورے ملک میںحکومت نے جو رویہ اپنایا ہوا ہے وہ ایسے بھی قابل اطمئنان نہیں ہر ،ہر جگہ مسلم نوجوانوں کی فرضی جرائم میں گرفتاری اور جگہ جگہ فسادات سے مسلم اقلیت ایسے ہی سہمے ہوئے ہیں۔موجودہ آسام فساد،کوسی کلاں،لکھنو اور دوسری جگہوں پر فسادنے انھیں اور بھی ڈرا دیا ہے۔

  ایسے میں حکومت کی زیادہ ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ ان علاقوں کی حفاظت کرے اور حفاظتی اقدامات کے لئے ہر ممکن کوشش کرے ۔یہ کوئی چھوٹا موٹا علاقہ نہیں ہے بلکہ علاقہ کے تحت پڑنے والے قصبوں اور گرامو ںکی کل آبادی تقریبا 2 لاکھ کے آس پاس ہے۔یہ گھنی آبادی والا علاقہ ہے،لوگوں کے پاس زمین بہت کم ہے اس لئے تعلیم اور روزی روٹی کی تلاش میں،یہاں کے لوگ دنیا کے ہر حصے میں گئے ہیں ،جہاں سے ملک کے لئے کروڑوں بلکہ عربوں کی آمدنی آ رہی ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ مذموم ذہنیت کے عناصر اس کو بھی غلط تناظر میں دیکھتے رہے ہیں ۔اس علاقے میں کئی نامی گرامی مدرسے اور بڑی تعداد میں مساجدو علمی و ادبی مراکزہیں ،مدرسة الاصلاح ،فیض العلوم ،بیت العلوم کے علاوہ اسکولوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے۔ یہاں دیگر ریاستوں کے غریب مسلم بچے بھی پڑھنے آتے ہیں جہاں یہ مدرسے ان بچوں کے پڑھنے کے علاوہ رہنے اور کھانے کی بھی مفت نظم کرتے ہےں۔صنعتی اعتبار سے بھی اس علاقہ کی اپنی اہمیت ہے ۔نظم میں کسی نے اس علاقہ کی خوب عکاسی کی ہے۔

آئینہ دار  فکرو نظر ہے  سرائے   میر 
اک جلوہ گاہِ اہل  ہنر ھ ے سرائے میر

اصلاح ہے فراھی کے  تعبیر خوا ب کی
نخلِ ادب کا ایک ثمر  ہے سرائے  میر
...
ھیں ضو فگن  سپہرِ ادب پر مہ و نجوم
آماجگاہ شمس و قمر ہے  سرائے  میر

عینک سے دیکھتے ھیں تعصب کی وہ اسے
حالانکہ گنجِ  لعل و گہر ہے سرائے  میر

 خدانخوستہ کچھ نا ہو لیکن ماضی(کے حالات خاص کر حیدر آباد ،پونا اور اجمیر جیسے علاقوں کوہم نے دیکھ لیا ہے ۔جہاں مسلمانوں کی ہی عبادتگاہیں اور عمارتیں اور جان و مال تباہ ہوئے اور مسلمان ہی مجرم ٹھہرے، انھیں ہی گرفتار کیا گیا اور انھیں پر جھوٹے مقدمہ چلائے گئے) ایسے میںہم یہی کہیں گے کہ حکومت وقت رہتے پیشگی طور پر احتیاطی قدم اٹھائے،بصورت دیگر سرائے میر سمیت کہیں بھی سہی معنوں میں کچھ ہوتا ہے تو اس کی ذمہ دار حکومت ہی ہوگی ۔ایسے بھی یہ علاقہ شروع سے ہی فرقہ پرست عناصر کے ذہنوں میں خار کی طرح کھٹکتا رہا ہے ۔فرقہ پرستوں سے مسلمانوں کی خوشحالی اور ترقی نہیں دیکھی جاتی۔ شاید اسی وجہ سے اس سے قبل بھی یہاں کئی مرتبہ فساد برپا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اگر مسلمان صبر و حمیت سے کام نا لیں تو انھیں اپنا مقصد پورا کرنے میں کامیابی مل جائے ۔لیکن ہر مرتبہ انھیں ناکامی ہاتھ لگی ہے ،اللہ کرے اب کی بھی وہ اپنے ناپاک منصوبہ میں ناکام ہوں اور اللہ انھیں ذلیل و خوار کرے جو اس طرح کی گھٹیا حرکتوں کو انجام دیتے ہیں ۔یہاں پر جاتے جاتے یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ حکومت اس کو نظر انداز کر کے ہلکے میں نا لے۔ملک میں پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے اور نظر انداز کرکے ملک کے باسیوں نے بہت بڑی قیمت چکائی ہےحکومت کو چاہئے کہ اولیں فرصت میں یہاں لوگوں کے اندر اعتماد بحال کرے ۔ اس ترقی یافتہ زمانے میں کچھ بھی پتہ کر پانا ناممکن نہیں ہے اس لئے کس نے ایسا کیا؟کیوں کیا ؟اس کے پیچھے کیا مقاصدکارفرما تھے یا ہیں کا پتالگایا جانا انتہائی ضروری ہے ۔



۔۔۔مزید

جمعرات، 9 اگست، 2012

A page of my diary

A page of my diary
Yesterday I had to narrate a story at my coaching centre, which was quite daunting for me, since I just started learning English. Nevertheless, I tried to speak and I spoke on how the day before I celebrated my birthday party with my friends, who love and respect me. This was my first experience of celebrating my birthday. This realisation even brought a tear to my eye. My friends showered me with a number of gifts like books, pens, a perfume, a dictionary and a diary.  They all looked very happy but I was inexplicably a little sad.

Athar, Bableen, Zainab,Arsheen  and Rasheed asked me why I looked unhappy. But the truth was that even I didn’t know the reason. I couldn’t even concentrate a bit in class, and when I returned to my room, I got under my blanket and tried to contemplate on what the matter could be. Eventually I dozed off, with thoughts swimming around in my head.

I woke up a little while later to the voice of the Muezzin from a mosque  which was located close to my room .I got out of my bed and went to themasjid  to offer  Namaz, after which ,I recited the holy Quran. After I was done, I went back to my room, and decided to begin reading the book ‘Chicken Soup for the Soul’ which my friend had gifted me. This book was very interesting but today my heart was not in it completely. Eventually I picked up a pen and began scribbling random thoughts in my diary.

I realised a little later that my scribbling was not actually random, but that I had ended up spilling out my inner feelings onto the paper. I was upset with my parents for sending me to a hostel so early, as a young child of 10 years, when I had no clue about life, let alone take responsibility of washing my own clothes and laying my own bed. I realised how angry and resentful I felt towards them for depriving me of a carefree childhood and of my siblings’ love for 15 years of my life.

I looked back at the time when I was leaving for hostel for the first time, and I could still taste my salty tears which flowed relentlessly. I remembered the tears of Ammi too, which related her helplessness in the entire matter.
And that day, on my birthday, all I wanted to do was to spend the day with Ammi and share my joy with her, which had not been. Perhaps that was why I was upset. Perhaps.....

۔۔۔مزید

سیر و سیاحت : گوا میں چند دن




سیر و سیاحت : گوا میں چند دن
گواکے اس دس دن کے پروگرام اور سیاحت میں میں نے محسوس کیا کہ طویل مدت تک حکومت کرنے والے پرتگالیوں نے یہاں کی تہذیب و ثقافت اور معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔

محمد علم اللہ اصلاحی 
ذہن کے گوشہ میں کچھ چیزیں اس طرح ثبت ہو جاتی ہیں کہ ان کا اثر دیر پا رہتاہے ۔پھر انسان اسے بھلانابھی چاہے توبھی نہیں بھلا پاتا ۔گرمی کی چھٹیوں میں’ گوا‘ کا میراسفر بھی اسی طرح یادوں کے چندانمٹ نقوش ثبت کر گیا جنھیں شاید میں کبھی نہ بھول پاں ۔دراصل دہلی میں ہی کچھ ایسے حالات رونما ہونے شروع ہوئے کہ دل نے کہا اسکی روداد ضرور قلم بند کی جائے۔اب دیکھئے! کہ ساڑھے سات بجے ہمیں نظام الدین ریلوے اسٹیشن سے ٹرین پکڑنی تھی ٹکٹ بھی کنفرم نہیں، اور ہماری نیند کھلتی ہے ۶ بجے ،تیار ہوتے ہوتے سات بج جاتے ہیں ۔بلا وجہ ہوئی اس تاخیر کے جھلاہٹ اور جلدی جلدی کے چکر میں بجائے’ بٹلہ ہاؤس ‘یا ’جولینا ‘جانے کے رکشہ لیا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ بس اسٹاپ پر آگیا کہ یہیں سے آٹورکشہ لیکراسٹیشن نکلیں گے لیکن جیسے آٹورکشہ والوں نے ہڑتال مچا رکھی تھی۔ کوئی اسٹیشن جانے کے لئے تیار نہیں ہو رہا تھا ۔میری نگاہ بار بار گھڑی پر جاتی تھی کہ کہیں ٹرین چھوٹ نہ جائے ۔بڑی منت سماجت کے بعد ایک آٹو والا اس بات پر تیار ہوا کہ نظام الدین ریلوے اسٹیشن تک کا پچاس روپئے لے گا، میں نے کہا ”چلو ٹھیک ہے“ اور بیٹھ گیا.


تقریبا 20 منٹ کے بعدہم اسٹیشن پہونچ گئے تھے ۔ٹرین پلیٹ فارم پرکھڑی تھی اور بس چلنے کے لئے تیارہی تھی ،میں جلدی سے ہانپتے کانپتے ٹرین پر سوار ہو گیا ۔لیکن چونکہ سیٹ کنفرم نہیں تھی اس لئے ابھی اور پریشانی جھیلنی تھی ۔دیر تک ٹی ٹی کے انتظار میں بیٹھا رہا ۔ٹی ٹی آیا تو معلوم ہوا کہ’ آراے سی ‘ہے ۔جان میں جان آئی ،خدا کا شکر ادا کیا ،اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا ۔تقریبا پوری بوگی اسکولی بچوں سے بھری ہوئی تھی ۔بچے کھیل کھیل میں کبھی شور مچاتے تھے تو کبھی آپس میں لڑنا جھگڑنا شروع کر دیتے تھے۔چھوٹے چھوٹے بچوں کی حرکتوں پر تو غصہ بھی آرہا تھاکہ میں تو خشونت سنگھ کے خشک ناول ’اے ٹرین ٹو پاکستان‘ کامطالعہ کر رہا ہوں اور یہ بچے بار بار میرا ذہن منتشرکئے دیتے ہیں۔غصہ سے میں نے کتاب بند کی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔


کسقدر پر کیف و پر لطف منظر تھا ،دیہی ہندوستان کی بساط میرے سامنے بچھی تھی جس پر پیادوں سے لیکر بادشاہ تک ہر ایک اپنی اپنی چال چلنے میں مصروف تھا،کھیت میں کام کرتے کسان،کارخانوں سے نکلتا دھنواں ،گاتی ہوئی ندیاں،مچلتے ہوئے جھرنے،آسمان کا بوسہ لینے کی کوشش میں مصروف پہاڑ،جھیلیں ،ان میں نہاتے پرندے اور ان سب کے درمیان اشرف المخلوق ہونے کا دعویٰ کرنے والا انسان ،کہیں گاڑی کھینچ رہا ہے تو کہیں کسی کی گاڑی پر بیٹھا ہے ،کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ جب آدم ؑ آسمان سے ہم انسانوں کو دیکھتے ہونگے تو اپنی اولاد کے اتنے مختلف حالات دیکھ کر انہیں کیسا لگتا ہوگا؟۔انھیں سوچوں میں گم نہ جانے کب نیند لگ گئی ۔جب آنکھ کھلی تو رات کے آٹھ بج رہے تھے یعنی سفر کا ایک تہائی حصہ طے ہو چکا تھا ۔کچھ بچے سو رہے تھے ،کچھ اونگھ رہے تھے ۔میں نے ایک بچے سے پوچھاتم سب کہاں جا رہے ہو ؟اس نے بتایا ”ہم لوگ اسکول کی طرف سے گوا سیر کو جا رہے ہیں “۔ان بچوں کو دیکھ کر مجھے اپنا اسکول کا زمانہ یاد آنے لگا اور میں اپنی اس زندگی کو دیکھنے لگا جب تمام ذمہ داریوں سے بے پروا ہ اپنا زیادہ تر وقت کھیلنے ،کھانے،گھومنے اور نہ جانے کن کن چیزوں میں گزارا کرتا تھا۔ میں آج بھی اپنے اسکول سے متصل اس بوڑھے آم کے پیڑ کو نہیں بھول سکتا ،جب اسکے نیچے لکڑی کی کرسی پر بیٹھ کر مولوی صاحب ہمیں درس دیا کرتے تھے ۔اور ہم بچے ان کے گرد حلقہ بنائے کھڑے ہوا کرتے تھے ۔مولوی صاحب کی موٹے لینس والی عینک سے جھانکتی آنکھیں ،برسوں کے تجربات سے سفید ہوئی داڑھی اور حالات زمانہ کے سبب ہاتھوں میں پڑی ہوئی جھریاں اور اس میں موٹی سی بانس کی قمچی جسے وہ’ تنبیہ الغافلین‘ کہا کرتے تھے آج بھی مجھے اچھی طرح یاد ہیں ۔مختلف دانش گاہوں کی سیر ،بڑی بڑی لائبریریوں میں کتب خوانی اور مختلف سمیناروں اور مذاکروں میں شرکت کرتے وقت مجھے کبھی یاد نہیں کہ میں اپنے مولوی صاحب کے ان لرزتے ہاتھوں کو بھول گیا ہوں جن ہاتھوں نے میری ننھی انگلیوں کوتھام کر قلم پکڑناسکھایاتھا۔


گوا جاتے ہوئے راستہ میں دہلی ،یو پی،راجستھان ،مہاراشٹر اور گجرات جیسی ریاستوں سے گزرناہوا ۔گجرات میں داخل ہوتے ہی سانحہ گجرات یاد آگیا اور اسکے خیال سے ہی رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔آہ۔۔۔۔!!کس قدر دلدوز اور بھیانک رہا ہوگا وہ واقعہ۔انسان نما درندوں نے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو آن واحد میں ہی اپنی ہوس کا شکار بنایا ۔افسوس۔۔۔۔!!انھیں روتے بلکتے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں پر بھی رحم نہیں آیا اور حیرت تو یہ ہے کہ ان انسانیت سوز واقعات کے ذمہ دار اب بھی آزاد پھر رہے ہیں ۔یہ جمہوریت کا مذاق نہیں تو اور کیا ہے ؟گودھرا ریلوے اسٹیشن پر ایک صاحب نے بتایا کہ سابرمتی ایکسپریس کی جلی ہوئی بوگی کچھ دن پہلے تک اسی اسٹیشن پر کھڑی تھی ۔وہ صاحب سانحہ گجرات پر شروع ہو گئے ،ٹرین اپنی پوری رفتار سے منزل کی طرف پھر سے دوڑ پڑی تھی اورشاید اس سے تیز رفتار آندھیاں میرے ذہن میں چل رہی تھیںپل بھر کے اندر قطب الدین انصاری سے لیکر بلقیس بانو تک ،سہراب الدین سے لیکر کوثر بی تک ،بیسٹ بیکری سے لیکر گلبر گ سوسائٹی وشاہ عالم کیمپ تک اور ۷۲فروری کے گودھرا سانحہ سے لیکر نریندر مودی کی تیسری جیت تک نہ جانے کتنے مناظر میری نظروں کے سامنے سے گزر گئے انھیں خیالات میں کھوئے کھوئے نہ جانے کب میں گجرات کی سر حد عبور کر چکا تھا ۔گاڑی آہستہ ہونے لگی تھی معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ اب ہم مہاراشٹر میں داخل ہو رہے ہیں اور پہلا اسٹیشن آنے والا ہے ۔مہاراشٹر کو کئی اعتبار سے امتیازی اہمیت حاصل ہے ۔اسی ریاست کے شہر ناگپور میں وہ ناگ پیدا کئے جاتے ہیں جنھوں نے زعفرانی زہر سے سارے ملک کی فضا کو مسموم کر رکھا ہے ۔یہیں وہ خفیہ فوجی ٹریننگ کیمپ ہیں جن کے پیداوار پرگیہ ،دیا نندپانڈے اور ان کے ساتھی ہیں اور اسی مہاراشٹر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے ایک طلبہ تنظیم پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا اور’ سیمی ‘کے نام پر اتنی گرفتاریاں ہوئیں جتنی شاید ہی کسی اور ریاست میں نہ ہوئیں ہوں ۔لیکن یہاں مجھے نہ جانے کیوں ایک عجیب سی مسرت کا احساس بھی ہو رہا تھا کہ میں اس سر زمین پر پہونچ گیا ہوں جہاں کے مراٹھا فرمانرواں نے اس ملک کی تاریخ میں اپنا نام عزت و وقار کے ساتھ درج کرایا تھا ۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مہاراشٹر کا اپنا ایک کلچر ہے ۔لیکن مجھے اس کا قطعی احساس تک نہ ہوا ۔البتہ وہ نا قابل دید فصیلیں جو راج ٹھاکرے اور بال ٹھاکرے نے کھڑی کی ہیں ان کی حقیقت کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ضرور ملا ،اور اس کامجھے اس وقت احساس ہوا جب میں نے ایک اسٹیشن پرایک ہاکر سے ہندی یا انگریزی کا اخبار طلب کر لیا ۔ پہلے تواس نے مجھے تقریبا گھور کر دیکھا اور پھر بس اتنا کہا ”بھیا !یہ مہا راشٹر ہے “اب اسکے بعد کچھ پوچھنے کے لئے باقی نہ رہ گیا تھا ۔میں سمجھ چکا تھا کہ راج ٹھاکرے جیسے لوگوں نے ان سادہ لوح بیوپاریوں اور ہاکروں کے دلوں میں بھی کس قدر عصبیت کے بیج بو دیئے ہیں ۔وہ تو کہئے کہ میں نے اردو کا اخبار مانگنے کی غلطی نہ کی تھی ورنہ قارئین کی عدالت میں میں ہی خطاوار گردانا جاتا کہ’مراٹھی مانس ‘کا نعرہ دینے والے راج ٹھاکرے اور بال ٹھاکرے کے شہر میں اردو کا اخبار تلاش کر رہا ہوں لیکن میں نے تو ہندی یا انگریزی کا اخبارمانگا تھا، وہ بھی اسکے پاس نہیں تھا کہنے والے نے صحیح کہا ہے


انکی تیشہ  گری کو دیکھیے گا
 بانٹ  کر رکھ   دیا   زبانوں  کو
شمعیں روشن تو کی نہیں جاتی
 آگ  دینے  چلے  مکا نوں  کو 
(مالک اشتر نوگانوی

خیر! 32 گھنٹہ کے مسلسل سفر کے بعد اب ہم مہاراشٹر کی سرحد کو پار کر رہے تھے۔ابھی مہاراشٹر کی سر حد ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہواں کے جھونکوں نے استقبال کرنا شروع کر دیا ۔یہاں درختوں کے قطار درقطار اور پہاڑوں کی فلک بوس چوٹیاں نیز نیلے نیلے عودے عودے پھول عجیب دلکش اور مسحور کن نظارہ پیش کر رہے تھے ۔شام ہو چکی تھی ۔ایسے میں پہاڑوں کے عقب سے سورج کے غروب ہونے کا منظر ۔۔۔۔۔۔مجھے اقبال کا یہ شعر یاددلا رہا تھا ۔کانپتا پھرتا ہے یہ رنگ شفق کہسار پرخوشنما لگتا ہے یہ غازہ ترے رخسار پرحالانکہ یہ بات بھی سہی ہے کہ منظر چاہے کتنا ہی دلکش کیوں نہ ہو غروب آفتاب کی کسک بہرحال ہر ایک حساس دل محسوس کرتا ہے مگر مخمور سعیدی کے اس شعر نے مجھے اس کسک کا احساس نہ ہونے دیا۔عورود شام میں بھی ہے ،نمود صبح کی نویدغروب آفتاب ہی ،طلوع آفتاب ہےان حسین وادیوں کو دیکھتے ہی دل و دماغ تازہ ہو گیا ۔دوستوں نے سفر پر نکلنے سے پہلے ہی ’گوا ‘کی سر سبز و شادابی اور اسکی جلوہ سامانیوں کو دیکھنے کی تاکید کی تھی ۔


واقعی اللہ تعالٰی نے اپنی کرشمہ سازیوں کے انمول نمونے اس سر زمین میں رکھے ہیں ۔جسے دیکھ کر طبیعت خوش ہو اٹھتی ہے ۔یہاں کا مو سم اورآب و ہوا اس قدر پر لطف ہے کہ بیمار سے بیمار انسان بھی اچھا ہو جائے۔شام میں ہم مڈگاں ریلوے اسٹیشن پہونچے ۔جہاں ہمیں اترنا تھا ۔چھوٹا سا خوبصورت اسٹیشن ،یہاں دلی اور رانچی کے اسٹیشنوں کی طرح بالکل بھیڑنہیں تھی، پرسکون ماحول ،خوشگوار فضا، موسم بھیگا بھیگا اور کافی سہانا ۔یہاں سے ہم لوگ بذریعہ بس منزل کی طرف روانہ ہوئے معلوم ہورہا تھا کہ دو تین دن سے جم کر بارش ہو ئی ہو،صاف شفاف نشیب و فراز والی پتلی پتلی سڑک پر ہماری گاڑی فراٹے بھر رہی تھی ۔ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ،بساط افق اور زمین کے آنچل پر پھیلا منظر ،چھوٹے و خوبصورت مکانات ،بڑے شہروں کی عام روایات کے برخلاف بیشتر ایک منزلہ کشادہ عمارتیں ۔ایک گھنٹہ کے اندر ہم اپنی منزل پہونچ چکے تھے ۔یہاں پہونچتے ہی ہم نے غسل کیا پھر ناشتہ اور چائے کے بعد ٹہلنے کے لئے نکل گئے ۔حالانکہ سفر سے لوٹنے کے بعد فطری طور پر انسان تکان اور سستی محسوس کرتا ہے ۔

لیکن قدرت کی ان کرشمہ سازیوں کو دیکھنے کے بعد تکان اور سستی کہاں غائب ہو گئی اسکا احساس ہی نہ رہا ۔ہم لوگ دیر تک پہاڑی کی چوٹی پر واقع ’نیشنل کونسل آف چرچز‘کے احا طہ میں گھومتے رہے اور خدا کی بنائی ان نعمتوں پر عش عش کرتے رہے وہاں درختوں کی ہریالی ،پیڑ اور رنگ برنگے پھول پھر اوپر سے پانی کے گرنے کی آواز پورے ماحول کو اس قدر مسحور کن بنائے ہوئے تھی کہ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔چونکہ میرے رفیق سفر کی طبیعت بھی خراب تھی اس لئے چاہتے ہوئے بھی زیادہ دیر ٹہل نہ پا یا اور جلد ہی کمرے میں واپس آگیا ۔ساڑھے آٹھ بجے رات کھانے کا انتظام تھا ،کھانے میں چاول ،سلائس،مچھلی ،ناریل کڑھی،اچار اور کندری کی سبزی تھی۔کھانا ناریل اورمونگ پھلی کے تیل سے تیار کیا گیا تھا جبکہ ہمارے یہاں سرسوں کے تیل میں سالن بنانے کا رواج ہے۔اس لئے ذائقہ کچھ اجنبی سا لگا لیکن شدید بھوک میں ذائقہ کی پرواہ کون کرتا ہے؟۔اس لئے ہم شکم سیر ہوئے ۔کھانے کے بعد تمام مندوبین نے اپنی اپنی پیلٹوں کو خود صاف کیا یہ شاید اس بات کا پیغام تھا کہ ’اپنا کام آپ کرو‘یہ تو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے تقریبا ڈیڑھ ہزار سال پہلے ہی بتایا تھا لیکن آہ۔۔۔۔!ہم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو پس پشت ڈال دیا ۔کسی نے سہی ہی کہا ہے کہ اسلام ،قرآن اور حدیث سب کچھ ہمارے پاس ہے لیکن شرافت ،عمل اور زندگی کا سلیقہ ہمارے پاس نہیں ہے۔شاید کہنے والے نے اسی لئے کہا تھا کہ ہم نے اپنے نبی کے فرمان کوبھلا دیا۔خدایا!ہمیں اسکی توفیق دے کہ ہم تیرے نبی اور حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلنے کی سعادت حاصل کر سکیں (آمین)۔

دوسرے دن حسب عادت صبح صادق کے وقت ہی بیدار ہو گیا ۔وضو وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد فجر کی نماز پڑھی اور قرآن مجید کے نصف پارے کی تلاوت کی ،چونکہ آج کوئی پروگرام نہیں تھا اس لئے تقریبا ساڑھے چھ بجے کمرے سے باہر چہل قدمی کے لئے نکل گیا،رات بھر بارش ہوئی تھی اس لئے پورا ماحول پانی کی بوندوں میں نہایا ہوا معلوم ہو رہا تھا ،یہ گرمی کا موسم ہے لیکن برسات کا گمان ہوتا ہے ۔آدھے گھنٹہ سے زائد بے راہرو مسافر کی طرح پورے کیمپس میں ادھر ادھر ٹہلتا رہا ۔واپسی کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ مجھے دور چرچ میں صبح کی عبادت ہونے کے آثار دکھائی دیئے چونکہ یہ عیسائیوں کے طرز عبادت کا مشاہدہ کرنے کا ایک بہترین موقع تھا اس لئے شوق دیدار مجھے اس سمت لے چلا۔دیکھا ایک شخص انجیل کا درس دے رہا ہے اور لوگ ہمہ تن گوش خاموشی سے اسے سن رہے ہیں،میں بھی اس درس میں جا شریک ہوا اور ان کی باتیں سننے لگا وہ بیچ بیچ میں نہ جانے کیوں اچانک کھڑے ہو جاتے تو کبھی گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے اور کبھی اپنے دونوں ہاتھوں کو ملا کر اپنے سینے اور پیشانی تک لاتے اور چھوڑ دیتے ۔غالبا یہ ان کی عبادت کا طریقہ تھا اور وہ عبادت کر رہے تھے ۔ان کی اس خود ساختہ مبینہ طرزعباد ت کو دیکھ کر میں دل ہی دل میں دعائیں کرنے لگا کہ یا الٰہ العالمین !انھیں ہدایت دے اور ہمیں استقامت عطا فرما ۔انھوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کو کس طرح تھریف کا شکار بنا ڈالا تھا ۔اے کاش!!یہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر ایمان لے آتے تو انھیں نجات مل جاتی ۔در اصل اس میں ہم مسلمانوں کی بھی غلطی ہے کہ اللہ تعالٰی نے ہمیں دین اسلام کا امین بنایا تھا اور کہا تھا ادعوا الیٰ سبل ربک لیکن ہم نے اسکا پیغام اسکے بندوںتک نہیں پہنچایا ۔کل یقیناً خدا کی بارگاہ میں ان بے چاروں کا ہاتھ ہوگا وار ہمارا گریبا ن یہ فریادی ہونگے کہ با ری الٰہ !یہی وہ تیرے بندے ہیں جنھیں تو نے اپنے دین کا امین اور محافظ بنایا تھا لیکن انھوں نے تیرا دین ہم تک نہیں پہونچایا اور ہم سرگرداں رہ گئے اسلئے گر ہم سزا کے مستحق ہیں تو یہ بھی مستحق تادیب ہیں ۔

پروگرام چونکہ کل سے شروع ہوناہے اور ہم ایک دن پہلے ہی پہنچ گئے تھے اس لئے ہم نے گوا گھومنے کا ارادہ بنایا اور ہم چار پانچ ساتھی پروگرام آرگنائزر مسٹر ونیت کوشی کو مطلع کر کے گھومنے نکل گئے ۔تین بجے کے قریب ہم لوگ’ پلر‘ سے نکل کر راجدھانی پنجی گئے جو کہ ہماری اقامت گاہ سے بارہ کیلو میٹر کی دوری پر واقع تھا ۔راجدھانی کافی خوبصورت تھی ۔لیکن چونکہ ہم لوگوں کو’ ڈونا پولا ‘جانا تھا اس لئے یہاں زیادہ دیر نہیں ٹھہرے اور بزریعہ بس ’ڈونا پولا ‘نکل گئے ۔

یہ بھی راجدھانی سے گیارہ یا بارہ کیلو میٹر کی دوری پر ہے یہاں کئی سیاحتی مقامات تھے جن کے بارے میں مختلف قسم کے قصے کہانیاں گائیڈ سیاحوں کو سنا رہے تھے ۔یہاں سے سمندر کا نظارہ اس قدر دلچسپ تھا کہ دن بھر آدمی بیٹھا نظارہ کرتا رہے ۔ٹھیک سمندر کے کنارے اوشنوگرافی کالج تھا،جہاں سمندر اور اس سے متعلق تحقیقی تجربات کئے جاتے ہیں ۔سمندر کے کنارے کنارے دور تک بڑی بڑی چٹانیں تھیں جنھیں دیکھ کر لگتا تھا کہ خصوصی طور پر انھیں کسی خاص مقصد کے لئے بچھایاگیا ہے ،سمندر کے لہروں کا ان چٹانوں سے ٹکرانے کا منطر ہی کچھ اور تھا ۔ایسا لگ رہا تھا جیسے چٹانوں پر لہریں اپنا سر پٹک رہی ہیں ۔اور دور بپھری ہوئیٰ لہریںساحل تک آکر واپس لوٹتیں توان کے جھاگوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا جیسے ہزاروں ٹینکر دودھ سمندر کے کنارے انڈیل دئے گئے ہوں ۔مچھواروں کے ذریعہ بوٹنگ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی ۔واسکو کی طرف جارہا ایک بوٹ لہروں کے بیچ ایسا نظر آرہا تھا جیسے ڈوب گیا ہو لیکن کچھ ہی منٹوں بعد پھر ابھر آتا ،کس قدر زور ہوتا ہے پانی کی ان لہروں میں اسے آج میں کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا ۔ابھی سنامی میں یہی لہریں تو بپھر اٹھی تھیں جنہوں نے لمحوںمیں ہزاروں لوگوں کو لقمئہ اجل بنا ڈالا تھا ۔سنامی سے متعلق خبریں اور تصویریں میرے ذہن کی اسکرین پر صاف دکھائی دے رہی تھیں ۔اس طرح کے چھوٹے چھوٹے حادثات دراصل انسان کو جگانے کے لئے ہوتے ہیں لیکن انسان اس سے سبق نہیں لیتا ۔خیر ہم لوگوں نے یہاں کافی لطف اٹھایا ۔کیمرے کے ذریعہ تصویریں کھینچیں ۔

چونکہ اس سیر میں میرے ساتھ مختلف مذاہب کے پیرو کئی اور بھائی بھی تھے اس لئے خوشی دوبالا ہو گئی۔ہم لوگ یہاں دیر تک باتیں کرتے رہے ۔اس میں ایک دوسرے کے مذہب کے بارے میں جاننے اور بتانے کا موقع بھی ملا ۔میں نے انھیں اسلام کے بارے میں بتایا انھیں بڑی خوشی ہوئی انھوں نے کہا ہم آپ کے مذہب کو اور سمجھنا چاہتے ہیں ہمیں کوئی کتاب یا قرآن دیجئے ۔میں نے کہا میرے پاس ہندی ترجمئہ قران اور کئی کتابیں موجود ہیں انشاءاللہ پلر جاتے ہی آپ کے حوالہ کر دونگا ۔ آپ ان کا ضرور مطالعہ ضرو ر کیجئے ۔اور پلر آ ٓتے ہی میں نے ان کی امانت ان کے حوالہ کر دیں۔اللہ انھیں ہدایت دے اور اسلام کی حقانیت کے لئے ان کاذہن کھول دے۔اسکے بعد بقیہ چھہ دن سخت مصروفیت میں گزرے ۔منتظمین کے مطابق ہرپروگرام میں تمام شرکاءکی شرکت لازمی تھی ،بصورت دیگر ہم لوگوں کا دور دراز کا سفر طے کرکے آنا فضو ل تھا ۔اس ہفتہ بھر کے پروگرام میں تقریبا ۵۱موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ۔موضوعات کچھ اس طرح کے تھے ۔شخصیت کوکیسے پہچانیں ؟،عدل کی اہمیت ضرورت اور اسکے تقاضے،کیسے نمٹیں اختلافات سے،بین المذاہب مکالمہ اور تعاون،ڈرامہ کی مشق و ممارست: معاشرتی مسائل کے تنا ظر میں ،معاشرے میں مصالحت اور امن کی بحالی میں نوجوانوں کا کردار، نسلی مسائل اور جنسیت، معاشی بحران :ترقی اور مذہبی ذمہ داریاں ،فضائی توازن میں نظریہ کی تلاش ،شناخت ،حقوق انسانی اور ثقافت میں اختلاف کا جشن۔دو شفٹوں میں ایک مقرر نے الگ الگ دو موضوعات پر گفتگو کی ۔جسکے لئے ساتوں مذاہب(ہندو،مسلم،سکھ،عیسائی،بہائی،جین، بدھ) سے ایک ایک فرد کا انتخاب کیا گیا تھا اور قوس قزح کے مانند سب کو ایک خوبصورت گلدستہ میں سجانے کی کوشش کی گئی تھی ۔اس ورکشاپ میں لکچرس کے علاوہ کھیل کود اور بحث ومباحثہ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا ۔

اس پروگرام کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ ہر لکچر ۰۹منٹ کا ہوتا اور اسکے بعد ٹی بریک تاکہ چائے پینے اور کچھ چہل قدمی کر لینے کے بعد انسان دوبارہ دوسرے پروگرام کے لئے تازہ دم ہو جائے۔۰۹منٹ کے اندر ایک پروگرام کو نمٹا دینے کے پس منظر شاید یہ مصلحت کارفرما تھی کہ ایک انسانی ذہن لگاتار ۰۹ منٹ تک بغیر کسی بریک کے کام کر سکتا ہے۔یہاں لکچر کا انداز بھی ہمارے دینی مدارس یا دینی مجالس کے روایتی اور گھسے پٹے طریقہ سے یکسر مختلف تھا،جدید تکنک کا استعمال کرتے ہوئے اپنی بات کو خوبصورت اور جامع اندازمیں کہنے کا فن کوئی ان سے سیکھے ۔بیچ بیچ میں سوال جواب تاکہ ذہن اصل مقصد سے بھٹکنے نہ پائے ساتھ ہی ساتھ اسپیکر اور سامع کا رشتہ اخیر تک برقرار رہے ۔اس سے سامعین کو کافی فائدہ ہوتا اور چونکہ ہر ایک کو اس بات کا خطرہ لاحق رہتا کہ نہ جانے کب مجھ سے کیا پوچھ لیا جائے اس لئے سبھی مقرر کی باتوں کو دھیان سے سنتے ۔بنیادی طور پر اس پروگرام کا مقصد ہی living togather is possible))یعنی ایک دوسرے کے درمیان رہنے اور رہ کر زندگی گزارنے کو ممکن بنانا تھا اس لئے تقریبا ہر مقرر کا مرکزی خیال یہی تھا۔یہاں پر شرکاءبھی تقریبا ہر مذہب سے تھے جو ملک کے مختلف شہروں جیسے دہلی،حیدرآباد، رانچی،جمشیدپور ،بنگلورو،کشمیر،ممبئی،پونا،کولکاتہ کے علاوہ بیرون ممالک امریکہ اسٹریلیا اور پاکستان کے بھی تھے ۔جن میں زیادہ تعداد عیسائیوں کی تھی ۔

یہ سات دن کا پروگرام خالص علمی نوعیت کا تھا اور سوائے ایک یا دو لیکچرس کے سارے لکچر انگریزی میں ہی ہو تے تھے ، یہاں کا ذریعہ زبان بھی انگریزی ہی تھا ، یہاں رہتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا جیسے ہم ہندوستان سے باہر کسی دوسرے ملک میں آگئے ہوں۔اس پروگرام میں تقریبا تمام ہی مذاہب کے افراد سے براہ راست ملنے اور تبادلئہ خیال کا موقع ملا۔یوں تو اس سے پہلے المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد اور جامعہ ملہ اسلامیہ میں مختلف مذاہب کے بارے میں پڑھنے اوراسکے تقابلی مطالعہ کا موقع ملا تھا ۔اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ میں نے تھیوری تو معہد اور جامعہ میں پڑھی لیکن پریکٹیکل کا موقع اس پروگرام میں ملا۔اس پروگرام میں ایک دن گو اکے جناب آصف صاحب آئے ہوئے تھے جو غالبا جماعت اسلامی ہند کے ممبر تھے انھوں نے ’ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودہ صورتحال‘ پر سیر حاصل گفتگو کی سب سے زیادہ سوالات بھی انھیں سے کئے گئے ۔انھوں نے ہر سوال کا جواب انتہائی سلجھے ہوئے اور سائنٹفک انداز میں دیا ۔ایک لڑکے نے سوال کیا اس وقت پوری دنیا میں کیوں ہر جگہ مسلمانوں کو ہی کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے خواہ وہ ہندوستان میں گجرات ہو ممبئی ہو یا مالیگاوں یا پھر ہندوستان سے باہر عراق،افغانستان،چیچنیا بوسنیا یا فلسطین ۔چونکہ ٹیبل ٹاک پروگرام تھا اور اس میں آصف صاحب کے علاوہ اوربھی کئی اسکالر موجود تھے جو اسکا جواب دینا چاہ رہے تھے لیکن سائل نے کہا کہ میرا یہ سوال خصوصا آصف صاحب سے ہے ۔تھوڑی دیر کے لئے آصف صاحب بھی شش و پنج کا شکار رہے سب کی نگاہیں ان پر ٹک گئیں کہ معلوم نہیں کیا جواب دیتے ہیں لیکن جب انہوں نے جواب دینا شروع کیا اور ماضی کے جھروکے سے حق و باطل کی معرکہ آرائی اور اسکے پیچھے کار فرما سازش کو چاک کرتے ہوئے الحق یعلو ولا یعلی علیہ کے اصول پر اسلام ہی کو کامیابی ملے گی کی بات کی تو بہت سے لوگوں اور خصوصا عیسائیوں کو آصف صاحب کی باتیں اچھی نہیں لگیں۔ایک صاحب نے تو کھڑے ہوکر کہہ بھی دیا کہ کہ ایسا صرف مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہو رہا ہے بلکہ عالمی طور پر کئی ایسے مسائل ہیں جس سے پوری انسانیت جوجھ رہی ہے مثلاسفید فاموں کا سیاہ فاموں پر ظلم،دلتوں کی حالت زار ،سری لنکا میں تمل باغیوں کی زیادتیاں غرض اس نے درجنوں واقعات ایک ساتھ گنوا دیئے۔پروگرام ختم ہونے کے بعد ہماری ملاقات آصف صاحب سے ہوئی انھوں ہم لوگوں کے ملکر بڑی خوشی کا اظہار کیا ۔میں نے ان سے انگریزی ترجمئہ قرآن کے کچھ نسخوں کی فرمائش کی انھوں نے دوسرے ہی دن تقریبا ۵۲،۰۳ نسخہ بھیج دئے جسے میں نے اپنے غٰیرمسلم ساتھیوں کے درمیان تقسیم کر دیا ۔سبھوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اورمطالعہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔مجموعی طور پر پروگرام ٹھیک رہا۔

لیکن اسکے باوجود اس پروگرام سے جو نتیجہ میں نے اخذ کیا وہ یہ کہ دراصل اس طرح کے پروگرام امت مسلمہ کے نوجوانوں کو ان کے اصل مقصد اور موقف سے بھٹکانے کا خوبصورت طریقہ کار ہیں ۔سیکولرزم اور انسانیت کے نام پر انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے کی یہ کوشش ویسے ہی ہے جیسے انسان حق کا متلاشی تو ہے لیکن وہاں تک پہونچنے کے لئے صحیح راستہ اختیار کرنے کو رضامند نہیں بلکہ ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑا ہوکہ نہیں مجھے تو اسی راستہ سے کامیابی ملے گی اور اسی کے ذریعہ ہم حق کو پا سکتے ہیں جو کہ بالکل غلط ہے۔مجھے حیرت اور افسوس ا سوقت ہوا جب کلکتہ سے آئے ایک عالم دین جو ماشاءاللہ ایک سرکردہ دینی ادارہ سے فارغ بھی ہیں انھوں نے اپنی تقریر میں یہ کہہ دیا کہ ”ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ ہم کسی کے مذہب کو برا بھلا کہیں ۔ہر مذہب حق اور خدا کے ذریعہ بنایا گیا ہے اور ہر مذہب ایک ہی خدا کو پہچاننے اور اور اسکی تعلیمات پر عمل کرنے کے الگ الگ راستے ہیں ۔میرے جی میں آیا کہ میں اٹھوں اور اسکا گریبان پکڑ کر کہوں تم نے آٹھ اور دس سال مدرسہ میں رہ کر کیا کیا۔۔۔۔؟؟ائے میرے دینی بھائی !اگر سب حق ہیں تو محمدصلی اللہ علیہ وسلمکیوں مبعوث کئے گئے اور ہمارے خالق ومالک نے اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں کیوں فرمایا ”جاءالحق ذہق الباطل کان ذہوقا“پھر ”لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ“ کا کیا مطلب ہے ؟۔مجھے سمجھ میں نہیں آتا آخر ہم حق بات کہنے سے کیوں جھجکتے ہیں اور حق بات کو کیوں چھپاتے ہیں ۔مجھے اسکی اس غفلت پر حیرت تھی کہ” ان الدین عنداللہ الاسلام“کاوہ پیغام جو اسلام کے بارے میں معمولی علم رکھنے والے شخص کو بھی اچھی طرح معلوم ہے اگر تمام مذاہب حق ہیں تو پھر یہ اعلان چہ معنی کہ’ دین تو خدا کے نزدیک بس اسلام ہی ہے‘۔اس اعلان کا مطلب ہی ہے کہ بس اللہ تک جانے کی ایک ہی راہ ہے اور وہ اسلام ہے۔ہو سکتا ہے میرے یہ فاضل بھائی نصرانیت ،الحاد اور شرک کو اسی پلے میں رکھنا چاہتے ہیں جن کے جاہلانہ نظام کو ختم کرنے کے لئے رسول کائناتصلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام حقہ بنام اسلام سنایا تھا ۔خدا میرے اس بھائی کی ہدایت فرمائے (آمین)

اس ورکشاپ کا آخری دن گوا اور اسکے گرد و نوح میں گھومنے اور مختلف مقامات کی سیرکے لئے وقف تھا ۔جسکے کے لئے صبح تقریبا ۹ بجے دو بسوں کا انتظام کیا گیا تھا ۔چونکہ چالیس کے قریب شرکاءتھے اس لئے ۰۲،۰۲ کی تعداد میں سب کو تقسیم کر دیا گیا اور دونوں میں سے ایک کے لیے’ شمالی گوا‘اور دوسرے کےلئے ’جنوبی گوا‘ کا انتخاب کیا گیا ۔شمالی گوا کا صدر مقام’ پنجی ‘اور جنوبی کا ’مڈ گاوں‘۔جانے سے پہلے ایک عیسائی مذیبی رہنما (جس کا نام یاد نہیں رہ گیا ہے) نے کانفرنس ہال میں تمام ہی شرکاءکو جمع کرکے ’گوا‘کی مختصر تاریخ اور اسکی جغرافیائی حیثیت پر روشنی ڈالی انھوں نے بتایا کہ بنیادی طور پر گوا کا اطلاق شما لی گوا کے ان تین گاوں پر ہوتا ہے جو کہ مغربی ہندوستان کی تاریخ کے مختلف کامیاب ادوار کی نمائندگی کرتے ہیں ۔دوسرا قدیم گوا ہے جوکہ پرتگالی انتظامیہ کا صدر مقام بنا اور اس وقت یہ ہندوستان کی رومن کیتھولک کلیسا کا صدر مقام ہے ۔تیسرا جسے عام طور پر پنجی کہا جاتا ہے اس وقت گوا کی راجدھانی ہے ۔گوا کے اصل شہر (گوا ویلیا ۔goa velia)کو کدمبا حکمرانوں نے آباد کیا تھا ۔گوا کا دوسرا شہر (velha cidadede goa)جو کہ قدیم گوا کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے ۔قدیم ہندو صدر مقام کے شمال میں پانچ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔اسے مسلمانوں نے ۹۷۴۱ءمیں واسکوڈی گاما کی ہندوستان آمد سے انیس سال بعد آباد کیا تھا ۔اسی مشہور شہر کو البوقرق’Albuquerque‘نے ۰۱ ۵۱ءمیں فتح کیا تھا ۔یہ ایشیا میں سلطنت پرتگال کا صدر مقام بنا تھا ،یہی شہر مشرق و مغرب کے درمیان تجارت گاہ بن گیا تھا ۔اس دور میں یہ پرتگال کے صدر مقام لسبن ہی کی خصوصیات کا مالک تھا ۔اور اب یہ عیسائیوں کی مذہبی زیارت گاہ ہے جہاں پر سولہویں صدی کے عیسائی مبلغ سینٹ فرانسس زیویر St francis xavier))کی باسیلکا آف بوم جیس(basilica of bom jeus )میں رکھی میت کو دیکھنے آتے ہیں ۔اس نے لیپا پوتی اورجلد سے جلداپنی بات کو ختم کرنے کے چکر میں بہت سارے تاریخی حقائق سے انحراف کیا یا ممکن ہے جان بوجھ کر چھپا لیا ہو مثلا اس نے یہ نہیں بتایا کہ بعد کی صدیوں میں پرتگال کے زوال کے ساتھ ساتھ یہ بھی زوال پذیر ہوا اور اپنی اہمیت کھوتا گیا اور اب اس نے محض کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی صدر مقام کی حیثیت سے اپنی شناخت باقی رکھے ہوئے ہے۔اور اب یہاں سولہویں اور سترہویں صدی کے گرجا گھروں اور کلیساں کے علاوہ کچھ بھی باقی نہیں رہ گیا ہے ۔پھر یہ کہ یہی وہ شہر ہے جہاں ۹۹۸ھ( ۴۹۴۱ء)میں اندلس میں صلیبیوں کے غلبہ کے صرف پندرہ سال بعد اندلس میں مسلمانوں پر داستان الم من و عن دہرائی گئی ۔یا یہ کہ مارچ ۰۱۵۱ءکو صلیبی سامراج کا اولین خواب صلیبی اور یورپی سامراج کے دوسرے وائسرائے البوقرق کے ہاتھوں گوا پر پرتگالیوں کے قبضہ سے پورا ہو ۔

۱۷۴۱عرصہ سے گوا پر عادل شاہی حکومت کا قبضہ چلا آرہا تھا ۔اسے اس نے درہم برہم کر دیا اور یہی وہ شخص تھا جس نے شاہ ایران اسماعیل صفوی سے ہر مز پر تسلط کے بدلہ مکہ مکرمہ پر حملہ اور کعبہ شریف کو ڈھانے سازش رچی تھی تھی ۔اس نے یہ بھی فراموش کر دیا کہ ۳۱۵۱ءمیں اس کا ارادہ تھا کہ حبشہ سے گھوڑے حاصل کرکے پرتگالی بری بیڑے کے چار سو سواروں کو ینبع کے راستہ مدینہ منورہ بھیجے تاکہ مسجد نبوی میں محفوظ اسلامی خزانوں کو لو ٹیں اورخاکم بدہن قبر اطہر سے جسد مبارک نکال کرحجاز سے باہر لے جائیں (نعوذو باللہ)۔پھر اسکے بعد شاہ پرتگال بیتت المقدس میں واقع کنیسہ القیامہ اسکے قبضہ میں دینے کے لئے مسلمانوں سے بھا تا کریں۔اس نے گوا کے مسلمانوں پر ظلم و بربریت میں اسپین کے محاکم تفتیش کی یاد تازہ کر دی تاریخ کی کتابوں میں ایسے بہت سارے واقعات رقم ہیںمثلا پرتگالیوں میں سے جو لوگ اسلام لاکر مسلمانوں سے مل گئے تھے ۔اس نے ان کا دایاں ہاتھ اور بائیں ہاتھ کی انگلیاں کا ٹیں ،ان کے داڑھی اور سر کے بال نچوائے اور جسم میں خالی جگہوں پر مٹی بھر دی۔البوقرق نے تہیہ کر لیا تھا کہ گوا کی سر زمیں پر کوئی مسلمان باقی نہیں چھوڑے گا ۔اس نے وہاں کے تمام مسلمانوں کو شہید کر دیا ۔اس کے حکم سے گوا کے مسلمانوں کو ایک مسجد میں جمع کرکے جلا دیا گیا ۔مسلمانوں کی قبریں اور مقبرے کھود کر ان کے پتھر قلعہ کی تعمیر میں لگوا دئے۔اس نے شاہ مانویل کو گوا کی فتح کے بعد جو خط لکھا تھا تاریخ کی کتابوں میں آج بھی وہ موجود ہے وہ لکھتا ہے ”اس کے بعد میں نے شہر کو آگ لگا دی ،ہر گردن پر میں نے تلوار رکھی ،کئی روز تک لوگوں کا خون بہتا رہا ۔جہاں بھی ہم نے مسلمانوں کو پایا ان کی کوئی عزت و توقیر نہیں کی ،ہم مسجدیں ان سے بھر کر ان کو آگ لگا دیتے تھے یہاں تک کہ ہم نے ۶ ہزار مرنے والوں کے جسم دیکھے ۔میرے آقا !یہ بہت عظیم اور شاندار کارنامہ تھا جس کا آغاز بہت خوب تھا اور اختتام بھی بہتر ہوگا “تاریخ سے د لچسپی اور اسکے طا لب علم ہونے کی حیثیت سے سفر پر نکلنے سے پہلے میں نے کئی کتابوں کا مطالعہ کر رکھا تھا ۔ اس لئے بہت ساری باتیں ذہن میں تھیں اور بہت سارے شکوک و شبہات بھی ۔میری خواہش تھی کہ میں ان سے سوال کروں اور کچھ پوچھوں لیکن شرکاءپہلے سے ہی بور ہو چکے تھے اور مزید کچھ سننے کے لئے تیار نہ تھے بلکہ جلد سے جلد ان ساری چیزوں کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہے تھے جسکے بارے میں ابھی ابھی فاضل مقرر نے بتایا تھا یا انھوں نے پہلے ہی کسی کی زبانی سنا تھا ۔

اس لئے میں بھی دونوں کے درمیان حائل ہونا مناسب نہیں سمجھا اور بہتری اسی میں محسوس کی کہ اب چلنا چاہئے۔چنانچہ پروگرام کے مطابق سب سے پہلے ہم ان مزدوروں کی جھوپنڑیوں کو دیکھنے گئے جو اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں کمانے کے لئے آئے ہوئے ہیں ۔ان میں زیادہ تر تعداد یوپی ،بہار اور جھارکھنڈ کے باسیوں کی ہے جو سمندر کے کنارے کھجور کے پتے اور لکڑی و بانس کے بنے چھوٹے چھوٹے جھوپڑ ے نما مکانات میں رہتے ہیں ۔ ان کاکام سمندر سے ریت نکالنا اور اسکو بیچنا ہے یہ لوگ زیادہ تر گرمی کے دنوں میں یہاں آتے ہیں ۔یہ مزدور یہیں کھاتے ،پیتے ،رہتے،اور سوتے ہیں اور چونکہ زیادہ تر یہ غریب ہیں اور بمشکل اپنی روزی روٹی چلا پاتے ہیں ۔اس لئے عیسائی مشنریاں اسکا خوب خوب فائدہ اٹھا کر اپنی فکر اور کلچر ان کے سر تھوپتے ہیں یہ مشنریاں ان کے درمیان کئی رفاہی کام بھی کرتی ہیں مثلا ان غریب لوگوں اور ان کے غریب بچوں کے لئے مفت تعلیم ،ہاسپٹل اور دوائیوں کا انتظام کرنا ،مختلف مہلک بیماریوں خصوصا ایڈس کے تئیں بیداری پیدا کرنا اور انھیں اس سے بچا اور محفوظ رہنے کے طریقہ وغیرہ بتانا۔ہم نے یہاں رہ رہے لوگوں سے باتیں کیں ۔وہ انھیں بہت عزت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور دیوتا سے کم تصور نہیں کرتے میں نے دیکھا ان کی آنکھوں سے ان مشنری والوں کے لئے احسان کا جذبہ صاف عیاں تھا ۔اسکے بعد ہمارا اگلا پڑاؤ تھا مشہور ’میرا میربیچ‘ یہاں پہونچتے ہی میں نے آ دیکھا نہ تا اور مزے میں کپڑے پہنے ہی پہنے سمندر میں کود گیا فورا خیال آیا یہ تو میں نے بڑا برا کیا لیکن میرے رفیق سفر نے بتایا کہ احتیاطا میں تمہارے بھی ایک جوڑے کپڑے ساتھ لے آیا تھا ۔پھر کیا تھا میں نے کپڑے پہنے ہی پہنے سمند ر میں خوب تیراکی کی اور نہایا ۔تقریبا دس سال بعد کسی سمندری ساحل پر گھومنے کا موقع ملا تھا ۔

یوں تو اس سے پہلے بھی میں بھٹکل میں سمندر دیکھ چکا تھا ۔لیکن اس وقت میں اتنا چھوٹا تھا کہ اسکی ایک مدھم سی تصویر بھرہی نظر آتی تھی ۔یہاں تو کھلی آنکھوں سے حقیقت دیکھ رہا تھا ۔مسٹر ونیت کوشی ہمارے ساتھیوں کو متنبہ کر رہے تھے کہ زیادہ دور نہ جا آج لہریں تیز ہیں ۔ان کے اس جملہ کو سنتے ہی میں سہم گیا سنامی کی صبح بھی لہریں تیز تھیں معلوم نہیں کس وقت سمندر بپھر اٹھے اور ایک مرتبہ پھرابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ مسٹر ونیت کوشی کی آوازپھر کانوں میں آئی واپس چلو۔۔۔۔!واپس چلو۔۔۔۔۔۔!اور پھر بس کے ذریعہ ہم لوگ واپس ’ہوٹل ہیریٹیج‘ پہونچے ۔جہاں رات کے کھانے کا انتظام تھا ۔کھانے کے بعد واپس پلار رٹرٹ سینٹر لوٹ آئے جہاں ہمارا قیام تھا۔دہلی آنے سے ایک دن پہلے ایس آئی او کے ایک ممبر شعیب بھائی سے ملاقات ہوئی جو گوا یونیورسٹی سے ایم اے کر رہے تھے اور ایس آئی او گوا کے زونل سکریٹری بھی ہیں ۔میری خواہش پر انھوں نے بھی کئی تاریخی مقامات کی سیر کرائی لیکن فی الحال میرے ذہن میں ’اولڈ گوا‘ میں واقع گرجا گھر کی یاد باقی رہ گئی ہے ۔جس میں سینٹ پال کے بعد مسیحیت کے سب سے عظیم ملغ سینٹ فرانس زیویر کی ممی (لاش)رکھی ہوئی ہے اور جسے یونیسکو نے تاریخی ورثہ کی حیثیت دے رکھی ہے ۔یہ گرجا گھر اصل میں مسجد تھی ،حیرت کی بات ہے اس گرجا گھر کے صدر دروازے پر صلیب آویزاں نہیں ہے مقامی روایت کے مطابق اس پر صلیب نصب نہیں ہو پاتی ہمیشہ گر جاتی ہے۔ 

گواکے اس دس دن کے پروگرام اور سیاحت میں میں نے محسوس کیا کہ طویل مدت تک حکومت کرنے والے پرتگالیوں نے یہاں کی تہذیب و ثقافت اور معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں ۔قدم قدم پر چرچ اور شراب کی دکانیں ۔۔۔۔۔بر ہنگی کی حد تک عریانیت ۔۔۔۔۔۔سویلائزیشن کے نام پر بد تہذیبی۔۔۔۔۔جدیدیت کے نام پر دور جہالت کی رسمیں۔۔۔۔۔فاضل کپڑوں میں مرد اور قلیل کپڑوں میں عورتیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی یورپی ملک میں ہم آگئے ہیں ۔دس لاکھ کے اس آبادی والے گوا میں ہندو اکثریت میں ہیں لیکن عیسائی ہر اعتبار سے خوشحال ۔مسلما نوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور ان کی بھی تقریبا وہی حالت ہی جو دیگر ہندی مسلما نوں کی ہے جماعت اسلامی کے علاوہ کئی مسلم تنظیمیں یہاں کام کر رہی ہیں لیکن وہ بھی اپنے ابتدائی مرحلہ میں ہیں۔عشرے بھر تک دنیا بھر کے ممالک اور ہندوستان کے کونے کونے سے پہنچنے والے بھانت بھانت کے مندوبین سے ملاقاتوں اور ان کے ساتھ اس بات پر غور و فکر کہ بین المذاہب ہم آہنگ کی فضا کیونکر قائم کی جائے اس سب کے بعد جب میں مڈگاں کے اسٹیشن پر ٹرین کے انتظار میں کھڑا تھا تو نہ جانے کیوں میرا دل اداس تھا ۔ جیسے ہی ٹرین ہمیں لیکر دہلی کے لئے چلنی شروع ہوئی ہلکی سی بوندا باندی ہونے لگی ایسا معلوم ہو رہا تھا گوا مہمانوں  جدائی پر آنسو بہا رہا ہو۔
alamislahi@gmail.com
    MD.ALAMULLAH ISLAHI


۔۔۔مزید

چینی مسلمانوں پر ظلم کی انتہا مگر عالم اسلام خاموش کیوں ؟


چینی مسلمانوں پر ظلم کی انتہا مگر عالم اسلام خاموش کیوں ؟

ہم لوگ فلسطین میں ہونے والے مظالم پر تو چلا اٹھتے ہیں لیکن چین میں مسلمانوں پر اتنا کچھ ہونے کے باوجود اس سے تجارتی روابط اور دوستی کی خاطر پینگیں بڑھانے سے باز نہیں آتے ۔


محمد علم اللہ اصلاحی

عالم اسلام سمیت پوری 
بیرونی دنیا کو چینی کمیونسٹ پارٹی اپنے قیام کے اول دن سے یہیظاہر  
 کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ اس کے تحت چین میں اندرونی استحکام اور مکمل نظام امن کا ماحول ہے۔مگردنیا کواپنا یک رخی اورچمکیلا چہرہ دکھانے کی لاکھ کوششوں کے باوجودوہ اپنی ذاتی، نسلی اورعصبیت پرستانہ رویہ کو چھپا نہیں پارہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ نئے سال کے شروع بلکہ پہلے ہفتہ میں ہی ایک مرتبہ پھر چین نے مع ایک مسجد کی شہادت کے کئی مسلمانوں کوجاں بحق کرنے، اپنی حیوانیت اور تشدد پسندی کا ننگا ناچ ناچنے اور دنیا کو یہ معلوم نا ہو سکے کہ وہ لامذہبیت اور برابری کی آڑ میں کیاکچھ کر رہا ہے،زمین پرپڑے ہوئے خون کو چھپانے کے لئے اس جگہ کو ڈھک دیا ہے یہی نہیں بلکہ یہاں کے فون روابط بھی منقطع کر دئے ہیں تاکہ وہاں کے مظلوم اپنا درد بھی کسی کو نہ بیان کر سکیں۔ اس سلسلہ میں معروف خبر رساں ایجنسی ’رائٹر ‘کے مطابق شمال مغربی چین میں مسلم کمیونٹی کے ایک گاؤں کی مسجد کو گرانے آئے پولیس اور سینکڑوں افراد کے ساتھ جھڑپ ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ہانگ کانگ واقع انسانی حقوق مبصرین کے مطابق یہ مسئلہ اس وقت کھڑا ہوا جب جمعہ کے روز’ ہیکسی‘ نامی قصبے میں فساد کنٹرولر پولیس نے مسجد کو غیر قانونی ڈھانچہ قرار دے دیکر شہید کر دیا۔خبروں کے مطابق اس جھڑپ میں پولیس نے’ ہوئی‘ نسل کے مسلمان مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے ان کے خلاف آنسو گیس ، لاٹھیوں اور چاقوؤں کا استعمال کیا۔جس کے نتیجہ میں زائد از 2 افراد شہید، 50 زخمی اورتقریبا 100 مسلمان حراست میں لے لئے گئے ہیں ، چینی حکام نے مسجد گرائے جانے اور لوگوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے ۔

یاد رہے کہ چین میں مسلمانوں کے ساتھ یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی خاص کر دوسری جنگ عظیم یعنی 1949کے بعد وہاں کے مسلم اکثریتی والا علاقہ ژنجیانگ (مشرقی ترکستان)کو چین ناجائز طور پر قبضہ میں لینے کے بعد سے مستقل اب تک مسلمانوں پر عصبیت کا رویہ اپناتے ہوئے ان کےساتھ نسل کشی ،فساد ،ظلم و بربریت اور غیر انسانی سلوک کا رویہ اپناتا رہا ہے۔یہاںاسلامی شناخت کو ختم کرنے کیلئے وہ ایک طرف توان علاقوں میں چین کے غیر مسلم اقوام کو لا کر بسا رہا ہے تاکہ مسلم آبادی غالب ترین اکثریت نہ رہ سکے یا کم از کم بڑے شہروں کی حد تک ایک معتدبہ تعداد غیر مسلم باشندوں کی دکھلائی جا سکے اور دوسری طرف اسلامی عقیدے کو مشرقی ترکستان کے مسلمانوں کے ذہن سے محو کرنے کیلئے مختلف حربے بھی استعمال کر رہا ہے اور تیسری طرف روس کی طرح یہاں کی معدنی اور زرعی پیداوار کو نچوڑ کر دوسرے صوبوں میں لے جارہا ہے۔اس قسم کی ظلم و بر بریت کے علاوہ 1964سے لے کر 1996 تک چین نے اپنے تقریبا تمام جوہری تجربات انھیں مسلم علاقوں میں کئے ہیں۔ 

مسلمانوں کو بے بس کرنے کے لئے یہاں کے مساجد پرتالالگا یاگیا، اسلامی عبادت و روایات پر مختلف طرح سے پابندیاں عائدکی گئیں اورقرآن پاک کی تعلیمات کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔ اس سے عاجز آکر 1974 میں مسلمانوں نے اپنے مذہبی تشخص کے احیاءکے لئے ملک گیر پیمانے پر کوشش کی،تو انھیں دہشت گرد کہا گیا۔اسی کو لیکرمسلم آبادی والے دوسرے بڑے صوبہ یونّان میں زبردست پر تشدد جھڑپیں ہوئیں، جس میں تقریباً 1700 مسلمان شہید ہوگئے۔چند سال بعد چینی حکومت نے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے محدود مذہبی آزادی دے دی۔ لیکن مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بازار گرم رہا۔ ہان نسل کے لوگوں نے حکومت کی تائید سے مسلمانوں کے خلاف محاذ کھول دیا جس سے تنگ آکر 1988ءمیں ان کے خلاف ژنجیانگ کے دارالحکومت ارمقی و دیگر شہروں میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ 1990ءمیں اس وقت کے چینی وزیر اعظم ”لی پانگ“ نے اقلیتوں کی ایک کانفرنس میں ژنجیانگ کے علیحدگی پسندوں کی کھل کر مذمت کی جس کے خلاف پوری ریاست میں مسلمانوں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ لیکن فوجی آپریشن کے ذریعہ اس کو کچل دیا گیا،جس میں 60مسلمانوں سمیت ایک مسجد بھی شہید ہوگئی۔ گزشتہ سال بھی ایسے ہی مذہبی اجتماع کے موقع پر ایک منظم فساد کے ذریعہ 165 غیورمسلمانوں کوقتل 800 سے زائدافراد کو زخمی اور 1500 افراد گرفتار کیا گیا ۔

پچھلے سال انھیں علاقوں کے مختلف بسوں ،سڑکوں ،گلیوں اور اسکولوں میں مسلمانوں پر نظر رکھنے کے لئے تقریبا17 ہزار کیمرے نصب کیے گئے جبکہ رواں سال بھی کئی ہزار مزید کیمرے نصب کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔یہاں طلبہ اور اساتذہ کو روزہ رکھنے، سرکاری ملازموں کو مسجد جانے، مردوں کو داڑھی رکھنے، عورتوں کو اسکارف پہننے نیز رمضان میں دن کے اوقات میں ہوٹلوں کو بند کرنے سے منع کر نے کے ساتھ ہی گزشتہ کئی سالوں سے مشرقی ترکستان کے اسلامی شناخت پر مبنی تاریخی ورثے کو مٹایا جاتا رہا ہے۔مشرقی ترکستان میں اسلامی تشخص کو مٹانے کیلئے چین ہر غیر انسانی اور غیر اخلاقی اقدام کر رہا ہے، اپنے مذموم مقاصد کیلئے یہاں مخلوط تربیتی پروگرام جبرا ترتیب دیا تاکہ بداخلاقی اور زناکاری کو فروغ حاصل ہو اور اسلام مردوزن کو جس اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اس کا برسرعام تمسخر اڑا سکے۔ مقامی مسلمان قائدین نے جب ایسے تربیتی پروگرام کے خلاف آواز بلند کی تو چین نے ساڑھے تین لاکھ سے زائد مسلمانوں کو قتل کردیا۔ ان قتل ہونے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے قائدین میں چند نامور نام بھی تھے جنہوں نے چین میں قربانی کی داستانیں رقم کی ہیں جن میں عبدالرحیم عیسٰی، عبدالرحیم سیری اور عبدالعزیز قاری جیسے نام شامل ہیں۔

لیکن اسکے باوجود حیرت ہے کہ چین کی اس حرکت کے خلاف ابھی تک بین الاقوامی طور پر تودورعالم اسلام میں بھی ترکی اور ہندوستان کے علاوہ کسی مسلم ملک کی جانب سے اس پرغم وغصہ کا بھی اظہار نہیں کیا گیااگرچہ مسئلہ فلسطین اور گیارہ ستمبر جیسے پیچیدہ مسائل کے بارے میں مسلمانوں کے ذرائع ابلاغ بہت کچھ لکھتے رہے ہیں اور ابلاغ عامہ میں تقریباً ہر روز ان کا تذکرہ ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے چینی مسلمانوں پر ہورہے ظلم و ستم پر ابلاغ عامہ کی کوئی نظر نہیں پڑتی۔ اس مسئلے کو سیاسی اور ابلاغ عامہ کی سطح پر فراموش کر دینے کا نتیجہ اس طرح نکلا ہے کہ مسلمانوں کا ایک وسیع قطعہ اراضی چین نے ہتھیا کر وہاں کے مسلمانوں کو باقی امت سے کاٹ کر رکھ دیا، اگر ہمیں اپنی تاریخ پڑھنے کا موقع ملے تو ہمیں اپنے علمی اثاثہ سے معلوم ہوگا کہ چین میں مسلمانوں کی تعداد کروڑوں میں ہے ،یہاں عالم اسلام سے آنے والوں کا اثر صرف دین مبین کی تبلیغ تک محدود نہیں رہا بلکہ اسلامی دنیا سے وہ سائنس اور طب ،ریاضیات اور ہیئت کے علوم کے تحفہ بھی لائے ۔چینی کلینڈر کی تدوین میں بھی تقویم سے مدد لی گئی ہے ۔چینی سائنسداں جمال الدین ایک بہت بڑے ہیئت داں تھے ۔چودہویں صدی میں ماشح اور دوسرے مترجموں نے عربی سے ترجمہ کر کے چین کے سائنس کو ایسے ہی مالا مال کیا جیسے عباسی عہد کے مترجموں نے اپنے ہاں کے علوم کی زمین کو آسمان بنا دیا تھا ۔تیرہویں صدی کے سر بر آوردہ چینی مصوروں میں بھی کا کے کنگ نام کے ایک مسلمان تھے ،اور اسی عہد کے ایک عالم شمس الدین تو بہت مشہور ہیں جنھوں نے فلسفہ ،تاریخ ،ریاضی ،فلکیات ،جغرافیہ حتی کہ انجینئرنگ پر بیسیوں تصانیف چھوڑی ہیں۔چین میں خاص کر مسلمان گورنروں اور جر نیلوں کے تذکرے کا یہاں موقع نہیں ،جنھوں نے ہر عہد میں بڑے معرکہ مارے۔ہیں۔

الغرض یہ کہ چینی مسلمانوں نے اسلام کے لئے جو خدمات انجام دی ہیں اسے ہم اس مختصر سے مضمون میں بیان نہیں ایسے میں انھیں اسلامی امت کر سکتے تاہم اس بابت اتنا ضرور کہیں گے کہ کہ اسلامی تاریخ اور اس کی نشرو اشاعت میں ان کی حصہ داری جزولاینفک ہے ،ان کے ان ہی خدمات کے سبب ماضی قریب تک چین میں مشرقی ترکستان کا ایک فعال کردار رہا ہے جسے اسلامی مملکت ہونے کا بھی شرف حاصل ہے، اگرچہ یہ کردار ہمارے ہاں کوئی بڑی پذیرائی حاصل نہیں کر سکا جس کی وجہ ابلاغ عامہ کی خیانت ہے اور اب بھی وہاں اسلامی سرگرمیاں ختم نہیں ہوئی ہیں بلکہ برابر زور پکڑ رہی ہیں۔اور چین اسے انتہا پسند ،طالبانی ،دہشت گرد جیسے الفاظ سے نہ صرف پکار رہا ہے بلکہ ان سے اسی انداز سے پیش بھی آ رہا ہے اور آئے دن جس طرح سے تبتیوں کو اپنے عتاب کا شکار بنایا ان کے ساتھ بھی وہی انداز اپنائے ہوئے ہے ۔یہ صحیح ہے کہ تبتیوں کے حقوق کو لے کر جتنی بیداری اور ہمدردی مغربی دنیا میں ہے ، وہ یہاں کے مسلمانوں کے لئے نہیں ہے، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ ابھی بھی باقی دنیا سے کٹے ہوئے ہیں اور ان کے پاس دلائی لامہ جیسا کوئی شخصیت موجود نہیں ہے ، جو ان کے حقوق کے تئیں بیداری پھیلائے۔پھر مسلمانوں کے حقوق کے لئے جو لوگ پر امن طریقے سے بھی جدوجہد کر رہے ہیں ان پر بھی چین نے دہشت گرد ہونے کا ٹھپاا لگا دیا ہے۔

ہم لوگ فلسطین میں ہونے والے مظالم پر تو چلا اٹھتے ہیں، ہم نے ان کی خاطرکئی مرتبہ اسرائیل کا بائیکاٹ کئے جانے کا بھی اعلان کیا ، جب کہ کچھ عرب ممالک نے تو اسرائیل سے باقاعدہ تجارتی روابط رکھے ہوئے ہیں۔یہاں پر اگر یہ کہا جائے تو بالکل غلط نا ہوگا کہ چین کا مسئلہ بھی تقریبا ویسے ہی ہے لیکن اس کے باوجودعالم اسلام بھی چین سے اپنی تجارتی روابط مستحکم کرنے اور اس سے اس سے دوستی کی خاطر پینگیں بڑھانے سے باز نہیں آتے ،ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے توہیں آمیز خاکے شائع ہونے پر اپنے ہی ملک میں اپنے بھائیوں کے کاروبار تباہ کردیتے ہیں،(ایساپاکستان کے علاوہ دیگر کئی ممالک میں ہو چکا ہے )صرف اس لئے کہ ان کا کاروبار کسی ایک خاص کمپنی کی فرن چائز ہوتا ہے، ہم لوگ مغربی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے روئیے پر تو شور کرتے ہیں، مگر جب اپنے ہی پچھواڑے میں مسلمانوں کے ساتھ یہ سلوک ہو تو خاموش کیوں رہتے ہیں ؟اس کا جواب حقوق انسانی کے مبینہ علمبر داروں سمیت پورے عالم اسلام کو دینا ہی پڑے گا ۔یاد رہے کہ چونکہ گزشتہ دنوں گیتا سے متعلقہ ایک تنازعہ کو لیکر ہندوستان نے باقائدہ سفارتی سطح پر روس سے بات چیت کی تھی اسلئے یہ امید کی جا رہی تھی کہ چین میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے اس واقعہ کو پاکستان سفارتی سطح پر چین سے اٹھائے گا لیکن ان سطور کے لکھے جانے تک ایسی کوئی خبر نہیں ہے۔
alamislahi@gmail.com


۔۔۔مزید

ڈی ڈی اردو:چینل کی دنیاکا واحدنمائشی ادارہ


ڈی ڈی اردو:چینل کی دنیاکا واحدنمائشی ادارہ


چھہ برسوں میں خوداپنا ڈھانچہ بھی کھڑانہیں کرسکا،اردو زبان کی ترقی کیا خاک ہوگی

محمد علم اللہ اصلاحی 
ٹیلی ویژن نشریات کی دنیامیں’ دوردرشن‘کوقابل قدر اضافہ کی حیثیت سے جانا اور پہچاناجاتاہے کیونکہ یہ دنیا کے سب سے بڑے ٹیلی ویژن نیٹ ورک میں سے ایک ہے۔جس کے پہلے نشریہ کا آغاز 15 ستمبر، 1959 کومحض آدھے گھنٹے کے پروگرام سے ہوا تھاجس کا دائرہ ابتدامیںتعلیم و ترقی تک محدود تھالیکن بہت جلد اس کے اثرات پھیلتے چلے گئے اور انتہائی کم مدت میں غیر معمولی تبدیلی کے بعد اس کی باقاعدہ شروعات دہلی (1965) ممبئی (1972)کولکاتہ (1975) اورچنئی (1975)سے کر دی گئی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ دن بھی آیا جب 15 ستمبر 1976 کواسے ایک ادارہ کی شکل دے دی گئی ۔روز افزوں اس کے ناظرین کی تعداد میں اضافہ ہوتاچلاگیا اور قدر دانوں کی بڑھتی اہمیت کو دیکھتے ہوئے نئی دہلی میں 1982 کے ایشیائی کھیلوں کے دورا ن اس کی نشریات کو رنگین کر دیا گیا ۔اس پیش رفت کو نشریات کی دنیامیںایک انقلاب بھی تصورکیاگیا۔انقلابی پیش رفت کاہی یہ نتیجہ تھاکہ 1984 میں ملک میں تقریبا ہر روز ایک ٹرانس میٹر لگایا گیاتاکہ پوری دنیا خاص طور پر ہندوستانی عوام کو سماجی، ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی مسائل سے واقف کرایاجاسکے اوران کی صحیح رہنمائی کی جاسکے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دوردرشن نے ملک میں سماجی واقتصادی تبدیلی، قومی اتحادکے فروغ اور سائنسی وعلمی سوچ و فکر کو پروان چڑھانے اور اس کو رفتار فراہم کرنے میں اہم رول اداکیا۔ عوامی خدمات و بیداری کے حوالہ سے اس کی حصہ داری کو فراموش نہیں کیا جا سکتا جس نے پورے ملک میں آبادی پرکنٹرول ، خاندانی بہبود، ماحولیات کے تحفظ اور مختلف قسم کے توازن کوبنائے رکھنے میںنمایاں مقام ادا کیا ۔دوردرشن کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی رہی کہ تقریبا ملک کی تمام علاقائی زبانوں میں اس کے پروگرام منفرد اندازمیںپیش کئے جاتے رہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے فیضیاب ہو سکیں اورملک کے کونے کونے میں بسنے والے مختلف قسم کی صلاحیتوں کے حامل افراد کو ایک بہترین پلیٹ فارم میسر آ سکے ۔اسی سلسلے کی ایک مضبوط کڑی کی حیثیت سے ڈی ڈی اردو کا قیام بھی عمل میں آیاجس کی خاطر کافی احتجاج اور ہنگامہ آرائی بھی ہوئی تاکہ دوردرشن کے اردو خواںناظرین کی دل بستگی کی سبیل نکل سکے۔ڈی ڈی اردوکا قیام 15اگست 2006کووزیر اعظم منموہن سنگھ کے ہاتھوں عمل میں آیاتاکہ دیگر زبانوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی طرح اردو داں طبقہ بھی اس سے محظوظ ہوسکے۔چنانچہ جب اس وقت کے ابلاغ عامہ و نشریات کے وزیر پریہ رنجن داس منشی نے یہ مژدہ سنایاکہ اس نئے چینل کا مقصد ملک میں اردو ثقافت کی بحالی اور اس کا فروغ ہوگا تو اردو والوں کی بانچھیں کھل گئی تھیں اور وہ پھولے نہیں سما رہے تھے کہ اب اس کے ذریعہ واقعی اردو کا فروغ ممکن ہوگا اور ساتھ ہی یہ بھی کہ اس سے بہت سارے لوگوں کو ملازمت اور اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملے گالیکن بہت جلد ان کی امیدوں کے قلعہ ڈھ گئے اور ساری امیدوں پر پانی پھر گیا کیونکہ انھوں نے ایک مرتبہ پھر یہاں بھی اس بات کا مشاہدہ کیا کہ ان کے ساتھ عصبیت کا رویہ اپنایا جانے لگا ہے اور آزادی کے بعد سے عملاً اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھ لئے جانے کے بعد اس چینل کے ساتھ بھی عصبیت کا رویہ اپنایا جانے لگا ہے اور اس کے حقوق پر بھی شب خوں مارے جا رہے ہیں ۔شاید یہی وہ بنیاد ی سبب ہے کہ جس طرح دوسری زبانوں کے چینلوں میںبڑی ترقی ہوئی اور نئے نئے پروگرام پیش کر کے عوام کا دل جیتاگیا، اردو چینل میںیہ خصلتیںنہیں پائی گئیں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا جس پر اُردودنیافخرکرسکے بلکہ یہ ادارہ صرف ایک نمائش بن کر رہ گیا ۔

اس پر اردو داں طبقہ کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا اس کے باوجود کوئی شنوائی نہیں ہوئی ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چینل کی حالت دن بدن خراب ہوتی گئی حالانکہ اخبارات میں بار بار یہ بات دہرائی گئی کہ کافی پہلے یعنی دو دو ،تین تین سال ل قبل جو گھٹیا پروگرام محض پچاس ہزار فی ایپی سوڈ کے حساب سے لئے گئے تھے انھیں بار بار دہرایا جا رہا ہے ۔ان پروگراموں کی کوالٹی انتہائی خراب ہے باوجود اس کے چینل کا مکمل انحصار انھیں پروگراموں پر ہے ۔ابھی کچھ ہی دنوں قبل یہ خبر بھی آئی تھی کہ چینل کو جو رقم پروگرام بنانے کےلئے فراہم کی گئی تھی اسے استعمال کرنے سے چینل کے ذمہ داران قاصر رہے اور تقریبا62کروڑ روپئے چینل کو پروگرام بنانے کے لئے دئے گئے تھے مگر یہ رقم خرچ نہیں کی گئی اور مالی سال ختم ہوتے ہی اب یہ مر کزی سرکار کو لوٹا دی گئی ۔ابھی اس پربحثچل ہی رہا تھا کہ ایک دوسریخبر نے محبان اردو کو بے چین کر دیا اور لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ملک بھر کے 80 دوردرشن مراکز میںڈی ڈی اردو کےلئے ملازمین کی تقرری اب تک کیوں نہیں کی گئی؟یہ خبر ایک موقر میڈیا تنظیم کے سروے کے بعد منظر عام پر آئی جسے ملک بھر میں دہلی، لکھنو، حیدرآباد، کولکاتہ، پٹنہ اور احمد آباد کے علاوہ دوردرشن کے 80 مراکز سے اردو چینل کےلئے مقرر ملازمین کے سلسلے میںحق معلومات قانون کے تحت فراہم کئے گئے جوابات کی بنیاد پر تحقیقی جرنل میڈیا (ہندی) اورماس میڈیا (انگریزی) نے عام کیا۔ میڈیا تحقیق سے وابستہ اس اسٹڈی گروپ نے ڈی ڈی اردو کے مقاصد اور اس کے تناسب میں انسانی وسائل پر اپنے اس سروے میں پایا کہ خاص لسانی ناظرین کےلئے شروع کئے گئے اس چینل کے لیے ملازمین کی کوئی مستقل تقرری نہیں کی گئی ہے ۔

آر ٹی آئی سے ملی اطلاعات کے مطابق 80 دوردرشن مرکز، جہاں سے ڈی ڈی اردوکے پروگرام کی نشریات کا عمل انجام پاتا ہے، وہاں پر اس کےلئے نہ تو کوئی عہدہ تشکیل دیا گیا ہے، نہ ہی ملازمین کی تقرری کی گئی ہے۔ ان مراکز پر دوردرشن کےلئے کام کرنے والے ملازمین ہی ڈی ڈی اردوکا بھی کام کرتے ہیں۔ان مراکز پر اردو چینل کےلئے پروگرام بنانے کا بندوبست نہیں ہے۔دہلی میں دوردرشن عمارت میں ڈی ڈی اردو کےلئے 6 مستقل افسر مقرر ہیں۔ ان عہدوں میں ایک نائب ڈائریکٹر جنرل، ایک سیکشن افسر، ایک پروگرام پروڈیوسر، ایک پروڈیوسر، ایک ایڈیٹر اور ایک اے ڈی جی ہیں۔تنظیم کی معلومات کے مطابق اس کے علاوہ دوردرشن عمارت کے ڈی ڈی اردو سیکشن میں 18 ملازمین تعینات ہیں، جو کہ تمام عارضی ہیں علاقائی نشریات مراکز میںتقرریاں عارضی اور ہنگامی ہے۔ اس کے علاوہ دوردرشن کے دہلی مرکز میں اردو چینل کےلئے صرف 6 مستقل ملازمین ہیں، ان میں بھی چار عہدے انتظامی ہیںہے جبکہ دوردرشن کے لکھنو ¿ مرکز میں ڈی ڈی اردو کے پروگرام بنانے والے پینل میں 11، حیدرآباد میں 29، کولکاتہ میں 21 اور پٹنہ میں 6 ملازمین ہیں۔ یہ تمام عارضی یاکیزول بنیاد پر کام کرتے ہیں۔احمد آباد میں اردو کا ایک پروگرام انجمن نشر ہوتا ہے، جو دوردرشن مرکز کے ایک ملازم ایشو دیسائی بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان تمام مراکز میں اردو چینل کے فروغ کےلئے نہ کوئی پالیسی ہے اور نہ ایچ آر کے نام پر کوئی سہولت جس کی بناءپر عام ملازمین میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے ۔

میڈیا اسٹڈی گروپ سے وابستہ ذمہ دارن نے اخباروں کے نام جاری کردہ بیان میں یہاں تک کہا ہے کہ زیادہ تر مراکز میں غیر تشفی بخش کام ہو رہا ہے ۔آر ٹی آئی رپورٹ کے انکشاف کو سامنے رکھتے ہوئے میڈیا گروپ نے اردو چینل کے ساتھ جانبداری پر کئی سوالات اٹھائے ہیں ۔میڈیا گروپ کے مطابق اردو چینل کے جو مقاصد تھے ان میں رنگ بھرنے کی نہ کوشش کی گئی اور نہ ہی کوئی اقدام جو اردو چینل کے مقاصد تھے ۔میڈیا گروپ نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ نشریاتی چینل کے فروغ کے لئے کئی نئی پالیسیوں کی ضرورت ہوتی ہے جو یہاں پائی ہی نہیں جاتی ہے ۔ایک چینل کے طور پر ڈی ڈی اردو نے 14 نومبر 2007 سے 24 گھنٹے کی نشریات کی شروعات کی مگر اس میں وہ بری طرح ناکام رہا اورجس کا مقصد اپنے ناظرین کو وراثت، ثقافت، معلومات، تعلیم اور سماجی مسائل پر پروگرام مہیا کرانا تھا ،بالکل فوت ہو کر رہ گیا ۔ چینل کے قیام کے وقت یہ دعوی کیا گیا تھا کہ اس کے ذریعہ اردو زبان کو پھر سے مقبول بنانے میں مدد ملے گی،لیکن یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ یہ چینل ابھی تک پروگرام تعمیر کےلئے اپنا ڈھانچہ تیار نہیں کر سکا ہے۔ ملازمین کی تقرری نہیں کئے جانے کی وجہ سے اس چینل کو پروگراموں کی تعمیر کےلئے بیرونی ایجنسیوں پر منحصر رہنا پڑتا ہے۔ ڈی ڈی اردو سے نشر ہونے والی خبریں بھی دوردرشن سے ہی لی جاتی ہیں،اردو کے پروگرام کےلئے کسی پالیسی کا نہیں ہونا اصل میں ایک ٹھوس مواصلاتی پالیسی کی کمی سے منسلک ہے۔چوبیس گھنٹے کا یہ چینل ٹھوس پالیسی کے فقدان کی وجہ سے اپنے مقاصد کو حاصلنہیں کر پا رہا ہے۔میڈیا اسٹڈیز گروپ پہلے بھی میڈیا سے متعلق مسائل پر تحقیق اور سروے کرتا رہا ہے۔اس پر اگر اردو والے آواز اٹھاتے اور اپنے حق کا مطالبہ کرتے ہیں تو انھیں بنیاد پرست اور نا جانے کیا کیا کہا جاتا ہے لیکن چینل کے تعلق سے یہ باتیں ہم نہیں بلکہ میڈیا کے ایک ایسے گروپ نے کہی ہے جو سبھوں کے درمیان ہمیشہ سے موقر اور معتبر تسلیم کی جاتی رہی ہے۔لیکن اس کے باوجود ابھی تک حکومت کے اعلی ذمہ داران کی جانب سے کوئی امید افزا بیان تک نہیں آیا ہے ۔افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ ڈی ڈی اردو کے اس حشر پر نہ تو کوئی لیڈر پارلیمنٹ میں آواز اٹھا رہا ہے اور نہ ہی کوئی اردو کا خیر خواہ ادھر توجہ دینے کو تیار ہے ۔ہمیشہ اردو کا دم بھرنے اور اپنی تقریروں و بیان بازیوں میں اردو کے حقو ق کی بات کرنے والے بھی خاموش ہیں ۔
    Md.Alamullah
alamislahi@gmail.com


۔۔۔مزید