جمعہ، 10 اگست، 2012

آماجگاہ علم و ادب سرائے میر کو بم سے اڑانے کی دھمکی



آماجگاہ علم و ادب 
سرائے میر کو بم سے اڑانے کی دھمکی
محمد علم اللہ اصلاحی

 ہندوستان میں کوئی بھی نا خوشگوار واقعہ ہوتا ہے تو وہ کس طرح ایک خاص کمیونٹی کے سر منڈھ دیا جاتا ہے یا اسے کس طرح ایک خاص زاویہ نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔اس طرح کے حادثات کو انجام دینے والے چاہے ابھینو بھارت جیسے لوگ ہی کیوں نا ہو شک کی سوئی اسی کمیونٹی کی طرف اٹھتی ہے ۔اور اب تو بٹلہ ہاس انکاونٹر کے بعد سے عموما باضابطہ ان علاقوں کو نشانہ بنایا جانے لگا ہے جہاں یہ کمیونٹی آباد ہے انھیں ہر قسم کے دہشت گرد اور مجرمین بھی انھیں علاقوں میں دکھائی دیتے ہیں خواہ وہ مہاراشٹر اکا پوناہو،دہلی کا جامعہ نگر،اترپردیش کا اعظم گڈھ،راجستھان کا اجمیر، یا پھر مدھیہ پردیش کا حیدر آباد ہر قسم کا عتاب اور عذاب یہیں نازل ہوتاہے ۔اسی طرح کے ایک عذاب سے ان دنوں مشرقی اتر پردیش کے مسلم اکثریتی والا علاقہ اور معروف گہوارئہ علم و ادب اعظم گڑھ سرائے میر دوچار ہے اور پورا علاقہ خوف اور دہشت کے ماحول میں جینے پر مجبور ہے۔اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ اس علاقہ کو مبینہ طور پر بم سے اڑانے کی دھمکی دی گئی ہے۔یہ دھمکی ایک ای میل کے ذریعہ دی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یو پی کے اعظم گڑھ کے قریب واقع سرائے میر کو بم سے اڑا دیا جائے گا۔ میل میں یہ بھی لکھا ہے کہ پونے جیسا دھماکہ کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق ای میل ایک صحافی کو ملا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جس طرح پونے میں بم دھماکے کئے گئے ہیں اسی طرح سرائے میر میں بم دھماکے کرکے اسے اڑا دیا جائے گا۔ بم دھماکہ بھی 15 اگست کے آس پاس کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ ای میل میں پولس کو چیلنج کیا گیا ہے کہ اگر سرائے میر کو بچا سکو تو بچا لو۔اس بابت اخباری اطلاعات کے مطابق ای میل کے ذریعہ بھلے ہی سرائے میر کو بم سے اڑانے کی دھمکی دی جا رہی ہے، لیکن انتظامیہ کو اس کی بھنک تک نہیں۔ جبکہ خبر سے سرائے میر قصبے میںدہشت پھیلا ہوا ہے ،لوگ سہمے ہوئے اور تشویش میں مبتلا ہیں۔

 اسی علاقہ کے تعلق سے دوسری طرف ایک اور خبر ہے وہ یہ کہ سلسلہ وار بم دھماکوں کے سلسلے میں تفتیشی ایجنسی اترپردیش کے پوروانچل میں چھاپہ مارنے پہنچ گئی ہیں۔ تفتیشی ٹیم پوروانچل کے کئی اضلاع میں دہشت گرد تنظیموں سے مبینہ طور پر وابستہ افرادکی دھر پکڑ کے لئے تفتیشکر رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس تفتیشی ایجنسی کی اعظم گڑھ پر خاص نظر ہے۔مہاراشٹر نیشنل انٹیلی جنس (این آئی اے) کے افسران اعظم گڑھ،و ارانسی، جون پور،چندولی کے کئی قصبوں میں تفتیش کے لیے مقامی پولس کو خبر دیے بغیرپہنچے ہےں۔ اس جانچ ٹیم نے چکیا،حسین آبادکے باشندہ وسیم عرف رمضان ولدمہتشم بلا کے بارے میں پوچھ گچھ کی اور اس کا مجرمانہ ریکارڈ دیکھا۔ وہیں اس نے ایک نوجوان بسیل کے گھرقرقی کا نوٹس بھی چسپاں کر دیاہے۔ایک ٹیم حیدرآباد کی این آئی اے کے ڈپٹی انسپکٹرٹی راجاکی قیادت پر مشتمل ایک دستہ بھی اس علاقے میں سرگرم ہے۔

  یہ علاقہ دہلی میں ہوئے بٹلہ واقعہ کے بعد سے میں شہ سرخیوں پر ہیں۔قارئین کو یاد ہوگا بٹلہ ہاوس انکاونٹرکےبعد اندھا دھند نوجوانوں کی گرفتاری سے پورا علاقہ ابل پڑا تھا۔ اس کے بعد سے ملک میں جب جب بم دھماکوں کے واقعات ہوئے، اعظم گڑھ ضلع کے نوجوان اے ٹی ایس،ایس ٹی ایف اور خفیہ محکمہ کے نشانے پر ہوتے ہیں۔بٹلہ ہاس انکاونٹر کے بعد کسی نامعلوم ذرائع نے یہاں واقع سرائے میر ریلوے اسٹیشن کو اڑانے کی دھمکی دی تھی، لیکن انتظامیہ کی بد احتےاط کی وجہ سے دھمکی دبی کی دبی رہ گئی۔اب کی ہفتہ کو دوبارہ ای میل کے ذریعے دہلی کے ایک صحافی کو بھیجے گئے میل کے بعد دہلی پولیس سرگرم ہو گئی ہے۔اس طرح کی خبروں کے آنے کے بعد سرائے میر ر قصبے کے لوگ جہاں سہمے ہوئے ہیں،وہیں اس علاقہ سے دور معیشت کی تلاش اور تعلیم کے حصول میں اپنے وطن سے باہرجانے والے لوگ تشویش میں مبتلا ہیں اور عید جیسے خوشی کے موقع پر یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ عید منانے گھر جائیں یا نہیں،مائیں اپنے بچوں کو گھروں سے باہر اسکول تک بھیجنے کے لئے گھبرا رہی ہیں کسی کے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ وہ کریں تو کیا کریں ؟

  ای میل کے مطابق حال ہی میں پونے میں ہوئے سیریل بم بلاسٹ جیساواقعہ 15 اگست تک سرائے میر علاقے میں کئے جانے کا منصوبہ ہے۔اس کے باوجودمقامی انتظامیہ کے علاوہ محکمے کے اعلی افسران نے ابھی تک ایسی کسی بھی ای میل کو ماننے کو تیار نہیں ہے،نہ ہی مقامی سطح پر خصوصی حفاظتی انتظامات کا ہی انتظام کیا گیا ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ایس پی آکاش کلہری نے کہا کہ ایسی کسی بھی قسم کی کوئی معلومات ہمیں نہیں ملی ہے اور نہ ہی کوئی اس بابت کوئی اطلاعات ہیں ۔ آئی جی زون وارانسی بر ج بھوش شرما نے بھی اس معاملے سے لا علمی ظاہر کی ہے ۔حالانکہ قصبے میں سیکورٹی انتظامات چوکس کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اتوار کوراشٹریہ علماءکونسل کے کارکنوں نے سرائے میر تھانہ انچارج کو میمورنڈم سونپاہے اس موقع پر کلیم جامعی، ماسٹر طارق، مشیر شیروانی، پرویز، ممتاز وغیرہ موجود رہے۔اطلاعات کے مطابق حالانکہ میل ملتے ہی تمام ہی جگہوں پر ہائی الرٹ کر دیا ہے اور دہلی پولس کی اسپیشل سیل نے ایک ٹیم بناکر تفتیش شروع کر دی ہے اور یو پی پولس کو بھی اطلاع دے دی ہے۔اگر اس بات میں صداقت ہے تب تو ٹھیک ہے ورنہ پانی کا پل سے گذر جانے کے بعدمعاملہ سنگین ہو سکتا ہے۔

 جب بھی ملک میں کوئی دہشت گردانہ واردات ہوتی ہے تو ایک ہی جملہ سامنے آتا ہے ’ریڈ الرٹ‘لیکن اس کے باوجود دھماکہ ہو ہی جاتے ہیں اور احتیاطی طور پر بھی کوئی خاص اقدام نہیں ہو پاتا۔حکومت کا کام کیا صرف ریڈ الرٹ کا اعلان کرنے تک ہی محدود ہو گیا ہے۔ اس کے بعد جو بھی ہوتا ہے، اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ یہ سوال اب تک الجھا ہوا ہے۔قابل ذکر ہے کہ اس سال جے پور دھماکوں سے شروع ہوا سلسلہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ اور ریڈ الرٹ ہونے کے باوجود بھی بنگلور، احمد آباد اور دہلی دہشت گردوں کے نشانے سے بچ نہیں سکے ۔گزشتہ دو تین برسوں میں بنارس،دہلی، اجمیر کی درگاہ، حیدرآباد کی مکہ مسجد میں دھماکے اور گزشتہ نومبر میں لکھنو ¿، فیض آباد اوربنارس کے عدالتی احاطوں میں ہوئے دھماکے دہشت گردی اور اس کے عزائم و منصوبوں کو بڑھانے والے کچھ مثالیں ہیں۔ایسے میں یہ ریڈ الرٹ اور اھتیاطی تدابیر کیا گل کھلاتی ہے ہم کچھ نہیں کہ سکتے ۔

 مگراس سال جے پور، بنگلور، احمد آباد، اور دہلی جیسے بڑے شہروں میں ہوئے جان لیوا دھماکے دہشت گردوں کے ناپاک ارادوں کی داستاں بیان کرنے کے لئے کافی ہیں۔ ان تین سالوں میں ہوئے دھماکوں میں مشتبہ افراد اور ملزمان کی دھرپکڑ آج بھی جاری ہے لیکن ان تین سالوں میں ملزمان کے خلاف ایک بھی فیصلہ ابھی تک نہیں آیا ہے۔مزید ستم ظریفی تو یہ ہے کہ مسلم علاقوں میں بھی دھماکہ ہو یہاں تک کہ ان کی عبادتخانوں میں دھماکہ ہوتا ہے تو بھی وہی پکڑتے جاتے ہیں اور ان ہی پر شک کیا جاتا ہے ۔اس لئے یہاں پر اس خبر کو لیکر تشویش،اور خوف کا اظہار کرنا خلاف واقعہ نہیں ہے۔پورے ملک میںحکومت نے جو رویہ اپنایا ہوا ہے وہ ایسے بھی قابل اطمئنان نہیں ہر ،ہر جگہ مسلم نوجوانوں کی فرضی جرائم میں گرفتاری اور جگہ جگہ فسادات سے مسلم اقلیت ایسے ہی سہمے ہوئے ہیں۔موجودہ آسام فساد،کوسی کلاں،لکھنو اور دوسری جگہوں پر فسادنے انھیں اور بھی ڈرا دیا ہے۔

  ایسے میں حکومت کی زیادہ ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ ان علاقوں کی حفاظت کرے اور حفاظتی اقدامات کے لئے ہر ممکن کوشش کرے ۔یہ کوئی چھوٹا موٹا علاقہ نہیں ہے بلکہ علاقہ کے تحت پڑنے والے قصبوں اور گرامو ںکی کل آبادی تقریبا 2 لاکھ کے آس پاس ہے۔یہ گھنی آبادی والا علاقہ ہے،لوگوں کے پاس زمین بہت کم ہے اس لئے تعلیم اور روزی روٹی کی تلاش میں،یہاں کے لوگ دنیا کے ہر حصے میں گئے ہیں ،جہاں سے ملک کے لئے کروڑوں بلکہ عربوں کی آمدنی آ رہی ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ مذموم ذہنیت کے عناصر اس کو بھی غلط تناظر میں دیکھتے رہے ہیں ۔اس علاقے میں کئی نامی گرامی مدرسے اور بڑی تعداد میں مساجدو علمی و ادبی مراکزہیں ،مدرسة الاصلاح ،فیض العلوم ،بیت العلوم کے علاوہ اسکولوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے۔ یہاں دیگر ریاستوں کے غریب مسلم بچے بھی پڑھنے آتے ہیں جہاں یہ مدرسے ان بچوں کے پڑھنے کے علاوہ رہنے اور کھانے کی بھی مفت نظم کرتے ہےں۔صنعتی اعتبار سے بھی اس علاقہ کی اپنی اہمیت ہے ۔نظم میں کسی نے اس علاقہ کی خوب عکاسی کی ہے۔

آئینہ دار  فکرو نظر ہے  سرائے   میر 
اک جلوہ گاہِ اہل  ہنر ھ ے سرائے میر

اصلاح ہے فراھی کے  تعبیر خوا ب کی
نخلِ ادب کا ایک ثمر  ہے سرائے  میر
...
ھیں ضو فگن  سپہرِ ادب پر مہ و نجوم
آماجگاہ شمس و قمر ہے  سرائے  میر

عینک سے دیکھتے ھیں تعصب کی وہ اسے
حالانکہ گنجِ  لعل و گہر ہے سرائے  میر

 خدانخوستہ کچھ نا ہو لیکن ماضی(کے حالات خاص کر حیدر آباد ،پونا اور اجمیر جیسے علاقوں کوہم نے دیکھ لیا ہے ۔جہاں مسلمانوں کی ہی عبادتگاہیں اور عمارتیں اور جان و مال تباہ ہوئے اور مسلمان ہی مجرم ٹھہرے، انھیں ہی گرفتار کیا گیا اور انھیں پر جھوٹے مقدمہ چلائے گئے) ایسے میںہم یہی کہیں گے کہ حکومت وقت رہتے پیشگی طور پر احتیاطی قدم اٹھائے،بصورت دیگر سرائے میر سمیت کہیں بھی سہی معنوں میں کچھ ہوتا ہے تو اس کی ذمہ دار حکومت ہی ہوگی ۔ایسے بھی یہ علاقہ شروع سے ہی فرقہ پرست عناصر کے ذہنوں میں خار کی طرح کھٹکتا رہا ہے ۔فرقہ پرستوں سے مسلمانوں کی خوشحالی اور ترقی نہیں دیکھی جاتی۔ شاید اسی وجہ سے اس سے قبل بھی یہاں کئی مرتبہ فساد برپا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اگر مسلمان صبر و حمیت سے کام نا لیں تو انھیں اپنا مقصد پورا کرنے میں کامیابی مل جائے ۔لیکن ہر مرتبہ انھیں ناکامی ہاتھ لگی ہے ،اللہ کرے اب کی بھی وہ اپنے ناپاک منصوبہ میں ناکام ہوں اور اللہ انھیں ذلیل و خوار کرے جو اس طرح کی گھٹیا حرکتوں کو انجام دیتے ہیں ۔یہاں پر جاتے جاتے یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ حکومت اس کو نظر انداز کر کے ہلکے میں نا لے۔ملک میں پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے اور نظر انداز کرکے ملک کے باسیوں نے بہت بڑی قیمت چکائی ہےحکومت کو چاہئے کہ اولیں فرصت میں یہاں لوگوں کے اندر اعتماد بحال کرے ۔ اس ترقی یافتہ زمانے میں کچھ بھی پتہ کر پانا ناممکن نہیں ہے اس لئے کس نے ایسا کیا؟کیوں کیا ؟اس کے پیچھے کیا مقاصدکارفرما تھے یا ہیں کا پتالگایا جانا انتہائی ضروری ہے ۔