جمعرات، 9 اگست، 2012

دہلی میونسپل کارپوریشن انتخابات

پس و پیش ....میں کانگریس بی جے پی

محمد علم اللہ اصلاحی

 پورے ملک میں پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے بعدجن دوسرے اہم انتخابات پر اب نظر ہوگی وہ دہلی میونسپل کارپوریشن یعنی ایم سی ڈی کے انتخابات ہےں،جس کی سرگرمیاں موسم گرما کے پارے کے ساتھ ساتھ پورے زور و شور سے شروع ہو چکی ہیں، تمام سیاسی جماعتیں کمر کس چکی ہیںاور ایک دوسرے پر الزام اور جوابی الزام کے ساتھ عوام کو رجھانے اور اپنے جھوٹے وعدوں کے ساتھ ان کا دل جیتنے کی کوشش جاری ہے۔اس کے لئے جہاں ایک طرف دہلی حکومت نے لوگوں کو کچھ لبھانے لالی پاپ کی پیش کش کی ہے ، توو ہیں ایم سی ڈی میں قابض بی جے پی نے بھی انتخابی رنگ میں رنگا بجٹ منظور کیا ہے ۔اس چناوی میدان میں بی جے پی کے دہلی ریاستی صدر وجیندر گپتا نے فروری میں 15 دنوں کی’ جن سنگھرش یاترا‘ نکال کر ماحول میں گرمی پھونک دی،اس یاترامیں وہ دہلی کے تمام اضلاع میں گئے، کارکنوں کو خوش کرنے کی کوشش کی اور انھیں ہر اس ہتھکنڈے کو اپنانے کا مشورہ دیا ہے جس سے چنا میں جیت حاصل ہوتی ہو۔اسی طرح کانگریس نے بھی اپنے کارکنان کی کانفرنس کے ذریعہ اپنی فضا ہموار کرنی شروع کر دی ہے ۔شاید اسی لئے اگربی جے پی کے صدر وجیندر گپتانے کہا کہ ایم سی ڈی انتخابات میں وہ بجلی، پانی، سیورےج، ٹرانسپورٹ، تعلیم، روزگار، ہاو ¿سنگ کے ساتھ قانونی نظاموں کی خرابی پروہ حالت پر دہلی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیں گے، وہ عوام کو بتائیں گے کہ کس طرح دہلی حکومت ان تمام مورچوں پر ناکام رہی ہے۔ وہیں کانگریس دہلی صوبے کے صدر جے پی اگروال نے بھی کہا کہ بی جے پی کے راج میں ایم سی ڈی کا پانچ سالہ دور میں ایسا کچھ نہیں ہواجسے یاد رکھا جا سکے،اسی اٹھا پٹک کو دیکھ کر خیال کیا جا رہا ہے کہ دہلی میونسپل کارپوریشن انتخابات میں اہم مقابلہ انہی دو پارٹیوں کے درمیان ہونے کی امید ہے ،لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ دیگر پارٹیاں اس میں نہیں ہونگی ،گزشتہ دنوں بہار کے وزیر اعلی نتیش کمارنے بھی ان انتخابات کو لیکر بھیڑ اکٹھا کی ہے جس کے ذریعہ انھوںنے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ ان کا جادو دہلی میونسپل کارپوریشن انتخابات میں بھی چلنے والا ہے۔ 

 چونکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق دہلی میں بہار کے مہاجروں کی آبادی 20 فیصد سے بھی زائد ہے اس لئے جے ڈی یوکو بھی کچھ سیٹیں ہاتھ آ جانے کے امکانات ہیں ۔ایم سی ڈی انتخابات میں اس بار لوگوں کی نگاہیں ایس پی پر بھی ہیں،یوپی میں پارٹی کی جیت کے بعد کیا اکھلیش کا جادو ایم سی ڈی میں بھی چل پائے گا اس سوال کا جواب ہر کوئی تلاش رہا ہے،سماج وادی پارٹی نے گزشتہ میونسپل کارپوریشن انتخابات میں 57 اور اسمبلی انتخابات میں 38 امیدوار اتارے تھے لیکن پارٹی کا کھاتہ تک نہیں کھل پایا تھا، اس بار پارٹی رہنماو ¿ں کو لگتا ہے کہ بدلے حالات میں کچھ سیٹیں ان کے ہاتھ بھی لگ سکتی ہے۔رہی بات بی ایس پی کی تو پارٹی نے گزشتہ انتخابات میں ایم سی ڈی 17 سیٹوں پر اپنا پرچم لہرایا تھا، اور ایم سی ڈی میں تیسری سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی، اس بار اطلاعات ہیں کہ بی ایس پی تقریبا تمام ہی سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرے گی۔

 ایسے میں ایم سی ڈی کے انتخابات کئی لحاظ سے اہم بن گئے ہیں،دہلی میں کارپوریشن کے تقسیم کاری کے بعد پہلی مرتبہ میونسپل کارپوریشن کا الیکشن ہو رہا ہے،ووٹ کے حق کا استعمال کرنے کی مہم میں دہلی کی شرکت کا بھی جائزہ لیا جانا ہے، وزیر اعلی شیلا دکشت کے تیسرے دور کے آخری ڈیڑھ سال کا امتحان ہے، بی جے پی کے مقامی قیادت کیلئے بھی یہ انتخابات کم خطرناک نہیں ہیںاور چونکہ کانگریس کاپنجاب اور یوپی میں لاکھ کوشش کے باوجود سیٹوں میں کوئی نمایاں اور حوصلہ افزاءاضافہ نہیں ہواہے ۔اتراکھنڈ کو چھوڑ کر کیونکہ اس کو بنیاد بنا کر دہلی میں جیتنے کا دعوی نہیں کیا جا سکتاکہ دونوں جگہوں کے مسائل الگ الگ ہیں، بی جے پی کی سیٹیں یوپی میں بھی کم ہوئیں اور پنجاب میں بھی جبکہ اتراکھنڈ میں حکومت ہاتھ سے پھسل گئی۔ جس کے سبب اپنی کامیابی کیلئے خود اپنی پیٹھ تھپتھپانے کی بجائے دونوں ہی پارٹیاں ایک دوسرے کی کارکردگی کا پوسٹ مارٹم کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ منفی رجحان کے دوران یہی دلیل دی جا رہی ہے کہ کس کے دامن پر کتنے دھبے ہیں۔اگر دیگر پارٹیوں پر نظر ڈالیں تو یہ نتیجہ خاص طور پر کانگریس کیلئے خطرے کی گھنٹی سمجھی جا سکتی ہیں، یہ مانا جا رہا ہے کہ یوپی میں مسلم ووٹر ایس پی کے ساتھ چلے گئے۔

 دہلی میں مسلمانوں کو ان انتخابات میں رام کرنا کانگریس کے لئے سب سے زیادہ مشکل تصور کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ کئی مہینوں سے مسلسل ایسی خبریں سامنے آئیں ہیں جنکے سبب مسلمانوں میں کانگریس کے تئیں تلخی بڑھی ہے۔خود جامع مسجد کے امام سید احمد بخاری بارہا کانگریس کی کھنچائی کر چکے ہیں اور یہ بھی طے ہے کہ ان چنا ں میں انکی حمایت سماجوادی پارٹی کو حاصل ہوگی ۔درگاہ شاہ مرداں میں چہلم کے موقع پر مسلمانوں پر لاٹھی چارج اور ہوائی فائرنگ سے بھی مسلمان نالاں ہیں اور مولانا کلب جواد سمیت تمام بڑے علماءاس معاملے پر سیدھے سیدھے کانگریس کو مورد الزام ٹھہرا چکے ہیں۔صحافی محمد احمد کاظمی کی دہلی پولس کے ہاتھوں گرفتاری اور دربھنگہ کے نوجوانوں کو مسلسل پولس کے ذریعہ پریشان کئے جانے جیسے معاملات بھی اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ ان انتخابات میں کانگریس کو مسلمانوں کو ساتھ لانے کے لئے بہت پاپڑ بیلنے ہونگے۔اوکھلا جیسے مسلم اکثریتی علاقوں میں کانگریس مخالف ہوا واضح طور پر محسوس کی جا رہی ہے اور اسی کو بھانپتے ہوئے کانگریس بھی ان علاقوں میں سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے ۔مسلمانوں کی کانگریس سے ناراضگی کا اندازہ پانچ ریاستوں کے انتخابات سے ہو چکا ہے اور اگر یہی رجحان دہلی میں بھی رہا تو کانگریس کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں، پچھلی بار یوپی میں بی ایس پی نے بازی ماری تھی تو ایم سی ڈی میں 17 سیٹیں اس کی جھولی میں آ گئی تھیں۔ اس مرتبہ بھی اگر دلتوں کے ووٹوں کا بڑا حصہ بی ایس پی لے جاتی ہے اور مسلم ووٹ ایس پی کے حصے میں آتے ہیں تو یہ دونوں پارٹیاں خود بھلے ہی اپنے نشانہ میں اضافہ نہ کرسکیں لیکن کانگریس کے ووٹ کاٹ کر اس کی شکست کا ذریعہ بن سکتی ہیں،کیونکہ سلمان رشدی کی ’اٹڈیاٹوڈے کنکلیو‘ میں شرکت سے اپنا دامن بچا کر اکھلیش نے مسلمانوں کی مزید قربت حاصل کی ہے جبکہ فسطائیت کے معاملے میں کانگریس اور بی جے پی ایک ہی چشمے سے دیکھی جارہی ہیں۔ اس سلسلہ میں جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے تو ایم سی ڈی میں اقتدار اسی کے ہاتھ میں رہاہے۔ا ینٹی ان کم بینسی کو روکنا اس کیلئے بڑا چیلنج ہے تو انا فیکٹر بھی کہیں اس کے حق میں نظر نہیں آ رہا۔ انا فیکٹر حاوی ہوتا تو بی جے پی کو خاص طور پر اتراکھنڈ میں فائدہ ہونا چاہئے تھا لیکن مضبوط لوک پال بل بنانے کا دعوی کرنے والے کھنڈوری خود اپنا ہی 
انتخابات نہیں جیت سکے۔ ویسے، ایم سی ڈی انتخابات میں امیدواروں کا انتخاب 
بھی کامیابی کا ایک بڑا پیمانہ ہو گا۔

 اس سلسلہ میں ایک اور بھی اہم مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ دہلی میونسپل کارپوریشن کو تین ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے کو گرچہ ہری جھنڈی مل چکی ہے، لیکن ابھی ایم سی ڈی کے انتخابات 272 نشستوں پر ایک ساتھ ہونے ہیں۔ ان میں سے 50 فیصد سیٹیں خواتین کے لئے مختص ہوں گی تو کئی اور سیٹیں درج فہرست ذات و قبائل کے لئے محفوظ ہیں، ریزرویشن کا فارمولہ کیا ہوگا، اسے کس طرح سے کیا جائے گا، اسے لے کر بھی تصویر صاف نہیں ہے، اس بابت گرچہ ریاست الیکشن کمیشن کے چیف الیکشن کمشنر راکیش مہتا نے اعلان کیا ہے کہ ہم نے مکمل فارمولہ تیار کر لیا ہے اور یہ ایسا فارمولہ ہوگا، جو طاقت ورہونے کے علاوہ قابل عمل بھی ہے اس لئے اس میں کسی کوکوئی دقت نہیں ہونی چاہئے۔لیکن کمیشن کے اس فارمولے اور سیٹوں کے ریزرویشن کے طریقوں پر تقریبا تمام جماعتوں کو اعتراض ہے، اس کے مخالفت میں انہوں نے دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایاہے لیکن قرائن بتا رہے ہیں کہ کورٹ کے انتخابات کو کسی بھی قیمت پر ٹالنے کے حق میں نہیں ہے اور نہ ہی اس کا موڈ الیکشن کمیشن کی نوٹیفکیشن کو مسترد کرنے کا ہے۔

 ان سب کے باوجود اگر بنظر غایر دیکھا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ کسی بھی پارٹی کے پاس ایم سی ڈی کے ان انتخابات میں نہ تو پختہ دعوے ہیں اور نہ وہ جوش و جزبہ جو نظر آنی چاہئے ۔ بی جے پی جو مسائل اچھال رہی ہے، وہ مرکز اور شیلا حکومت سے وابستہ بدعنوانی، بجلی کمی، قانون و انتظامیہ کے مسائل ہیں۔وہیں کانگریس کا الزام ہے کہ بی جے پی اپنے گریبان میں جھانکے اور یہ بتائے کہ اس نے گزشتہ پانچ سال میں ایم سی ڈی میں کیا کر دکھایا ہے،اس طرح الزام در الزام کا سلسلہ جاری ہے اورمسائل وہیں کے وہیں ہیں جہاں پانچ سال پہلے تھے۔ دہلی میںسب سے بڑا مسئلہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے لیکر کئی علاقوں میں پانی کی کمی کا ہے،اوکھلا جیسی نہ جانے کتنی ہی بستیاں غیر قانونی کے نام پر آج بھی دہلی کے لئے مسئلہ بنی ہوئی ہیں، ان بستیوں کو مناسب طریقہ سے باقاعدہ حل کرنے کا مسئلہ بھی گزشتہ کئی ایم سی ڈی کے انتخابات میں اٹھتا رہا ہے، گزشتہ پانچ برسوں میں اگرچہ کئی غیر قانونی بستیوں کو باقاعدہ کیا گیا، لیکن ابھی بھی ہزار سے اوپرکالونیاں حکومت کے بقول غیر قانونی کے زمرے میں آتی ہیں، اسی لئے ا وہ ترقی سے بھی دور ہیں، یہ مسئلہ جتنے ایم سی ڈی سے وابستہ ہیں، اتنے ہی دہلی حکومت سے بھی ہے ۔چنا کے اس دنگل میں کسکو جیت اور کسے شکست نصیب ہوگی یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن فی الحال جو صورتحال ہے وہ نہ صرف بی جے پی بلکہ کانگریس کے لئے بھی غیر یقینی ہے اسلئے ان تمام پارٹیوں کو مل کر کافی محنت کرنی پڑے گی تبھی ان کی نا کنارے لگ سکتی ہے ۔
alamislahi@gmail.com