اتوار، 25 اکتوبر، 2015

رخصت ائے دلی تری محفل سے اب جاتا ہوں میں‎...

محمد علم اللہ
انسانی زندگی میں کبھی نہ کبھی ایسا مرحلہ ضرور آجاتا ہے،جب دوراہے پہ کھڑا انسان خود اپنے ہی تعلق سے کوئی فیصلہ کرتے ہوئے کشمکش میں گرفتا ر ہوجاتا ہے کہ کس راستہ کاانتخاب کرے اور کس کو چھوڑ دے ؟کتابوں، کہانیوں اور فلموں میں متعدد مرتبہ لوگوں کونقل مکانی یا ہجرت کے کرب سے گزرتے اور دوستوں و رشتہ داروں سے دوری کی کسک جھیلتے، اس غم میں گھلتے، ٹوٹتے دیکھا اور محسوس کیا تھا۔ خود مجھے ذاتی طور پر اِس کرب کاپہلی باراحساس تب ہوا جب ہاسٹل میں ڈالاگیا۔ترک وطن یا مہاجرت کا یہ سفر جو محض نو سال کی عمرمیں شروع ہوا وہ سمت سفرکی عوامل اور منزل کی تلاش کے مراحل سے وقتا فوقتا گذرتا رہا اور مہاجرت کا یہ تسلسل اور بنجارہ پن مجھے آبائی وطن سےدور کرہی گیااوریوں نگر نگرکی خاک چھاننے کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو شہر رانچی کے ایک چھوٹے سے گاوں اٹکی سے بھٹکل اور اعظم گڑھ ہوتا ہوا مہانگرکی سمت مڑگیا۔جس میں نظاموں کے شہرحیدرآباد،اس کے بعد ’’بے وطن‘‘ لوگوں کے مسکن دہلی کو اپنا مستقر بنانے کے بعدایک بارپھر حیدرآبادکی جانب عازم سفر ہونا در حقیقت اُسی ’’خانہ بدوشی‘‘کے سلسلوں کی ایک کڑی ہے،جسے عرف عام میں ہجرت یا شہر بدری سے بھی موسوم کیاجاسکتاہے،اب اس کا آخری پڑاؤ کب اور کہاں ہوگا تقدیر کا مالک ہی بہتر جانتا ہے ۔
یہ بھی محض اتفاق ہے کہ بچپن سے ہی امیر خسرو ، بہادر شاہ ظفر ، میر امن دہلوی ، مومن خاں مومن اورمیر و غالب کے قصے،کہانیاں،ان کی نظمیں ، غزلیں اور ان سے متعلق کتابوں میں دہلی کی تہذیب ، علم و فن اور تاریخی واقعات کو پڑھنے کی دھن سوار رہی اور جب کبھی’دلی دربار‘کی باتیں نظروں کے سامنے آتیں تو جی چاہتا کہ ’’ہنوز دِلّی دور است‘‘ محاورہ کو پھلانگ کراس شہر میں پہنچ کر دیکھیں کہ یہ ہزار رنگ داستانوں کا شہر کیسا ہے؟ مرکز ہند کہی جانے والی اس سر زمین کے باسی کیسے ہیں ؟ ، عالم میں انتخاب اس شہر میں کیسی جلوہ سامانیاں ہیں ؟ اور پھر جب اِس آنگن میں بسیرا ہی ہو گیا تو گویا عشق کو اپنے اظہار کی راہ مِل گئی۔ شب و روز علم و فن کی تلاش میں سرگرداں دہلی کے سحر میں گم ہوتا چلا گیا۔تاریخ اور علم و ادب کے اس شہر میں پڑھی ہوئی چیزوں کو تلاش کرتے کرتے، نئی دلی سے پرانی دلی ،کبھی قطب مینار، ہمایوں اور نظام الدین اولیاء کا مقبرہ اور پرانے قلعہ کے کسی منظر میں کھو جاتا تو کبھی کافی ہاؤس ،انڈیا گیٹ ، ماڈرن آرٹ گیلری اور ریگل کے قصوں کے کرداروہاں کے چلتے پھرتے لوگوں میں ڈھونڈتا۔
اب جب کہ دہلی کو چھوڑ چلااورحیدرآبادکو مستقربنا نے کا سوچا تو دہلی کے شب و روزکی یادوں کا ایک ہجوم پریشان کئے ہوئے ہے۔اور باوجود اسکے کہ دکن میں بڑی قدر سخن ہے دہلی میں بیتا ہواایک ایک پل یاد آ رہا ہے۔ حیدرآباد سے بھاگ کر جب پہلی مرتبہ دہلی میں قدم رکھا ، پرانی دلی ریلوے اسٹیشن سے اترکر اوکھلا کیلئے بلیو لائن بس پکڑی اورجب یہ بس جامعہ نگر کیلئے چلنی شروع ہوئی تو لال قلعہ، جامع مسجد ،کناٹ پلیس مارکیٹ کی اونچی اونچی عمارتوں کے سامنے سے ہوتی ہوئی گزرنے لگی اور مبہوت کردینے والی رنگا رنگی جو اخبارات و رسائل میں دیکھی یاپڑھی تھی ،اپنے سامنے جوں کا توں دیکھ کر ایک خوشگوار حیرت سے دوچار ہوئے بغیر نہ رہ سکا تھا ۔
دہلی عجیب شہر ہے۔جہاں آپ کسی نہ کسی روپ میں حیرت سے ملے بنا نہیں رہ سکتے۔ کبھی حکمرانوں کی حکمرانی کا اندازحیران کْن تو کبھی پڑھے لکھے اور قابل لوگوں کی زبوں حالی دیکھ کر حیرانی۔لاچار ، مجبور ، بے بس اور بے سہارا لوگوں کی مجبوری دیکھ کر حیرانی۔ دہلی کی یہی خصوصیت ہے جو ہر طرح اور ہررنگ کے حامل لوگوں کو اپنے یہاں جگہ دے دیتی اور اس کے لئے اپنی بانہیں اس قدر پھیلا دیتی ہے کہ انسان ہر تلخ و شیریں سہہ کر بھی اسی کا ہو کر رہ جاتا ہے۔
دیہاتی زندگی کی بے ریا سادگی سے مزین اور مذہبی ماحول میں پرورش پانے والے ایک بھولے پنچھی کے لیے دہلی کی دھنک رنگ فضا بڑے اچنبھے کی بات تھی۔ ایک خوف دامن گیر تھا کہ نوواردیہاں کی وسعتوں میں کہیں کھو تو نہیں جائے گا؟ یہ آزادی ہے یا انسانوں کے سمندر میں اپنے قطرۂ ہستی کا بے نشاں ہونا ؟ کبھی سوچتا کہ سماج اور معاشرے کو بدلنے کا جو خواب دیکھتا رہا اْس کی تعبیر آسان ہے ؟ یا حالات کے مْنہ زور تھپیڑوں میں اپنی ذات کا خس وخاشاک کی طرح بہہ جانا حقیقت کے زیادہ قریب؟ مجھے اعتراف ہے کہ دِلّی کی فضاؤں میں اپنے بقا کی اُڑانیں بھرتے ہوئے پر کتر لئے جانے کا خوف ہمیشہ دامن گیر رہا لیکن دِلّی کی محبت اِس کی گلیوں اور بازاروں میں رچے بے نام سے تحیر آمیز خوف پر غالب ہی رہی۔
دہلی آنے کے بعد حقیقت اور فریب سے بے نیاز نوجوان کو ایسے ہی لگا تھا کہ اب وہ آزادہے اور اپنی منزل کی تلاش کا اپنا مالک اور مسافر لیکن منزل کبھی کسی کو ملتی ہی کہاں ہے ؟ انسان کی خواہشات لامحدود اور اس کو حاصل کر پانا اس سے زیادہ محدود اور مشکل۔انسان مسرت، خواہش اورچاہ کی تلاش میں سرگرداں پھرتے پھرتے اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے اورخواہشیں اپنی جگہ برقرار ہی رہتی ہیں،یہ خواہشیں اور ضرورتیں قصر کائنات کی راہداریوں میں خوشنما محل کی طرح ہیں جن کے پاس سے لوگ جب بھی گذرتے ہیں ان کی تمنا کرتے ہیں، گذرنے والے حسرت ومسرت کے احساس لے کر گذر جاتے ہیں اور یہ خواہشوں کے ستون وہیں کے وہیں رہ جاتے ہیں۔ شاید زندگی اسی کا نام ہے ،چلتے رہنے کا۔ جہد مسلسل کا ،کہیں نہ رکنے اورقدم لگاتار آگے بڑھاتے رہنے کا ، مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے۔انسان خواہشات کی تکمیل کی خاطر بھاگتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ وہ خود ختم ہو جاتا ہے مگرخواہشیں تشنۂ تکمیل ہی رہتی ہیں۔
اس میں بھی جب انسان کسی خاص مقصد کے حصول کی خاطر کسی سرزمین پر قدم رکھتا ہے تو زندگی اس کے سامنے اپنے نت نئے رنگ روپ سے آتی ہے۔بے شمار موہوم خیالات اس کا پیچھا کررہے ہوتے ہیں۔ اس کے اندر خوف بھی ہوتا ہے اور کامیابی کے حصول میں خدشات بھی اور یہ کیفیت اس وقت تک اس کا پیچھا کرتی رہتی ہے جب تک وہ اپنے مقصود کو حاصل نہ کر لے یا کم از کم اس کے حصول کے قریب نہ پہونچ جائے ،نفس کو نہ تو سکون ملتا ہے اور نہ قرار اور یہ تلاطم بلاخیز سایہ کی طرح اس کا پیچھا کرتی رہتی ہے ۔خوف اس کو ڈستا رہتا ہے ۔
ہمارے معاشرے میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ بچوں کے ذہن میں کچھ اور خیال پنپ رہا ہوتا ہے اور والدین یاسرپرست اس کو کچھ اور بنانا چاہتے ہیں اور وہ بے چارہ بننے اور بنائے جانے کی کشاکش میں معلق رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ خود تباہ ہو جاتا ہے یا باغی بن جاتاہے۔میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا مگرمیرے لئے یہ کہنا ذرا مشکل ہے کہ میں بغاوت کر کے بھاگا تھا لیکن کیفیت کچھ اس کے سوا بھی نہ تھی، آس لگائے ہوئے لوگوں کو دھوکہ دے کر بھاگنا اور وہ بھی ایسی چیز کو دیکھ کر جو آپ کے ہاتھ میں نہ آئی ہو اورامید و بیم کے درمیان آپ جھول رہے ہوں تو ڈرنا فطری بات ہے۔اس ڈر اور خوف نے نہ جانے میری کتنی نیندیں حرام کیں ۔
میں آج بھی اپریل دو ہزار چھ کی اس بوندا باندی والی شام کو نہیں بھول سکتا جب حیدر آباد دکن سے بھاگ کر پہلی مرتبہ میں میرو غالب اور داغ کے شہر میں داخل ہو رہا تھا۔استعجاب اور حیرت سے آنکھیں کھلی تھیں اور آفتاب دن بھر کی تھکن سے چور اپنی بساط لپیٹ رہا تھا ۔بارش میں نہائے ہوئے پیڑ پودے اور در و دیوار دلفریبی کے ساتھ مسکرا رہے تھے ۔ جسم وجاں کو ہلا دینے والی بلیو لائن بس کے ذریعہ اپنے بچپن کے دوست عارف کے ساتھ ہولی فیملی اسپتال سے ہی شروع ہوجانے والے محمد علی جوہر کے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی شکل میں لگائے گئے باغ کی سرحد میں داخل ہوااور اس کی عالی شان عمارتوں کو دیکھا تو دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے نہ جانے کتنی دعائیں کر ڈالی کہ یااللہ! لاج رکھ لیجیو!کہ اگر میرا یہاں داخلہ نہ ہوا تو میں کسی کو منھ دکھانے کے لائق نہ رہوں گا۔اللہ نے میری دعا قبول کی اورمیں نے مولانامحمد علی جوہراورمولانامحمود حسن کے قائم کیے ہوئے اس ادارہ سے بے شمار ثمرات سمیٹے یہاں سے میں نے صرف ڈگریاں ہی نہیں لیں بلکہ ایسے ایسے جید، لائق اور مہربان استاذ اور جان نچھاور کرنے والے احباب پائے کہ ماضی کو پلٹ کردیکھنے کا موقع ہی نہ ملا۔
جامعہ ملیہ کا روح پر رور ماحول ،جامع مسجد ، مینا بازار، لال قلعہ، صفدر جنگ کا مقبرہ، جنتر منتر، پرانا قلعہ،قطب مینار ،پریس کلب ، آل انڈیا ریڈیو ، ابوالفضل کے ہوٹل ،بٹلہ ہاؤس اور عظیم ڈیری کے چائے خانے اور جامعہ کے کینٹین میں بحث ومباحثہ ، توتو میں میں اور تکراریں… کہانیوں ، فلموں اور کتابوں پرتبصرے آرٹ ، فن اور ان تمام کے تیکنک و باریکیوں پر گفتگو اور گھنٹوں بات چیت ۔سیمنار ، میٹنگ پریس کانفرنس اور اس میں پری پلان مقرر کا گھیراو، بے باک صحافت کی تمنا میں اپنوں اور غیروں کی ناراضگیاں ، سینیرز اور عزیزوں کی جھڑکیاں ان کی محبت اور نصیحت۔ایک ایسی دنیا اور ایسا ماحول جس کے سحر میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ کبھی یہ خیال بھی نہیں آیا کہ ایک دن ان سب کو چھوڑ کر منزل کی تلاش میں کہیں اور کے لئے بھی کمر کسنا ہوگا۔آج ان تمام یادگار بھرے لمحات کو چھوڑتے ہوئے آنکھوں میں آنسو اورقلم پر لرزہ طاری ہے۔
کچھ یقیں کچھ گمان کی دلی
ان گنت امتحان کی دلی
خواب، قصہ، خیال، افسانہ
ہائے، اردو زبان کی دلی
شاید اسی وجہ سے خدائے سخن میر تقی میر ، استاذ غلام ہمدانی مصحفی ، ذوق اور حبیب جالب جیسے جدید اور قدیم اہل سخن نے دہلی کو اپنا مرکز بنایا اور اس شہر سے بچھڑنے کے بعد جدائی کے آنسو بہائے۔ خصوصاًمیر نے تو فراق دلی کا مرثیہ اتنا زیادہ لکھا کہ اس کو پڑھتے ہوئے کوئی بھی یہ کہے بغیر نہ رہ سکے گا کہ میر نے دلی کی شان میں مبالغہ کیا ہے۔ لیکن آج جب خود اس شہر کو وداع کہنے کا وقت آیا تو یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ میرکو دلی سے اس قدر لگاؤ کیوں تھا اور دلی کے لٹنے کا غم انہیں اس قدر کیوں ستا رہا تھا۔واقعی میرکا ایک ایک شعر دل کو چھلنی کر دینے والا ہے۔
دلی کے نہ تھے کوچے اوراقِ مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
یا پھر
خاک دہلی سے جدا ہم کو کیا یک بارگی
آسمان کو تھی کدورت سو نکالا یوں غبار
جب سے احباب کو پتہ چلا ہے میں دلی چھوڑنے والاہوں ، فون کا تانتا بندھ گیا ہے ، بار بار فو ن ریسیو کرتے کرتے تھک سا گیا ہوں۔ اب غصہ بھی آنے لگاہے اور کسی سے بات کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ کھانا پینا بھی اچھا نہیں لگتا۔ آج میں نے رات کا کھانا نہیں کھایا ،یہ بھی یاد نہیں رہا۔ دل اداس ہے۔ سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں۔ یہ دوست بھی عجیب ہوتے ہیں لڑائی جھگڑا بھی کریں گے اور پھر فوراً ہی منانے آجائیں گے۔ ویسے مجھے یاد نہیں پڑتا کہ دہلی میں میری کبھی کسی سے لڑائی بھی ہوئی ہو۔ ہاں ہاٹ ٹاک بہتوں سے ہوئی لیکن یا تو اس نے منا لیا یا ہم خود ہی من گئے۔ شاید اسی وجہ سے دوستوں کے ساتھ گذارے لمحے اور دہلی کی علمی و ادبی رونقیں کچھ زیادہ ہی جذباتی بنا رہی ہیں۔
ابھی ابھی تھوڑی دیر قبل جے این یو سے ایک دوست نے فون کیا ہے اور گذارش کی ہے کہ میں دہلی میں گذارے ہوئے لمحات کو قلم بند کروں ۔ اُس نے کئی خوبصورت مشورے بھی دئے ہیں اور یہ بھی کہا ہے کہ میں اس میں اپنے چھوٹے چھوٹے تجربات کو شامل کروں ۔ میں سوچ رہا ہوں تجربات تو ان کے ہوتے ہیں جنہوں نے ایک عمر یں گذاری اور دنیا دیکھی ہو ، تجربات کی بھٹی میں تپے ہوں اور زندگی میں کچھ کر گذرے ہوں۔میں تو ابھی مشاہدۂ حق اور موجودات کی حقیقت کے ادراک ہی کی کوشش کر رہا ہوں۔
۔

۔۔۔مزید

جمعہ، 2 اکتوبر، 2015

سالنامہ نقش دہلی پر ایک تبصرہ

سالنامہ نقش (انجمن طلبائے قدیم مدرسۃ الاصلاح)
مدیر ۔ محمد علم اللہ 
مبصر:محمد اسد فلاحی
مدرسۃا لاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ کے فارغین ملک کے مختلف شہروں میں اپنی انجمنوں کے ذریعہ تعلیمی اور سماجی میدان میں سرگرم عمل ہیں ۔ انجمن طلبۂ قدیم دہلی اس میدان میں گدشتہ کئی برسوں سے بہت فعال ہے۔اِس کی جانب سے ’نقش‘ کے نام سے ایک سالانہ میگزین شائع ہوتا ہے، جس کے بیش تر قلم کار مدرسۃالاصلاح کے فارغین ہوتے ہیں جو مختلف عصری اداروں میں زیر تعلیم ہیں ۔ َ ََ مدرسۃالاصلاح ہندوستان کے ان گنے چنے اداروں میں ایک ہے،جہاں قرآن و احادیث کی محققانہ تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کے لیے عصری تعلیم لازم قرار دی گئی ہے۔چناں چہ یہاں کے نصاب میں قرآن ،حدیث،فقہ اور عربی ادب کے ساتھ انگریزی ،ہندی جغرافیہ،تاریخ ،سیاسیات،معا شیات اور ریاضی وغیرہ کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔

زیر نظر ’نقش ‘ شمارہ ۲۰۱۵ زبان و ادب اور مضامین کے اعتبار سے ایک حسین گلدستہ کی مانند ہے،جو کہ اصلاحی برادران کے رنگ برنگے مضامین اور ان کی علمی کاوشوں سے مزین ہے۔اردو،عربی ،فارسی اور انگریزی زبانوں کے مضامین کی شمولیت نے اسے مزید پر کشش بنا دیا ہے۔

اس مجلہ میں تقریبا پینتیس(۳۵) مضامین کو یکجا کیا گیا ہے،جو ادب،تعارف مخطوطات،نظم نگاری،غزلیات،اسکرپٹ نگاری،مراسلات،افسانوی،اور سیرو سوانح جیسے موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں ۔لیکن ’نقش ‘ اپنی تمام خوبیوں کے باوجود، مدرسۃ الاصلاح کی بنیادی فکر کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہے ۔اس لیے کے مدرسۃ الاصلاح کا نمایاں وصف قرآن کریم سے گہرا تعلق قرار دیا جاتا ہے اوراس کے منہج تدریس میں بھی اسے نمایاں مقام حاصل ہے،جبکہ اس مجلہ میں شامل تین درجن تحریروں میں سے صرف دو مضامین قرآنیات سے متعلق ہیں ۔ایک اردو میں اور دوسرا عربی میں۔

بہر حال اس مجلہ سے یہ تعارف ضرور ہو جاتا ہے کہ دہلی کے مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم فارغین مدرسۃ الاصلاح کے ذوق اور دلچسپی کے موضوعات کیا ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ان کی تحریری صلاحیتیں پروان چڑھیں اور انہیں خدمت دین کی توفیق ہو۔


۔۔۔مزید

جمعرات، 1 اکتوبر، 2015

مشاورت کی تاریخ لکھنے والے نوجوان قلم کار محمد علم اللہ سے ایشیاء ٹائمز کی بات چیت


من و عن


کسی بھی مصنف کی زندگی میں  سب سے زریں موقع وہ ہوتا ہے، جب وہ کچھ لکھے اور اس کی پذیرائی ہو ، خوش قسمتی سے یہ  سعادت  نوجوان  مصنف محمد علم اللہ  کو  اپنی پہلی ہی تصنیف  کی تکمیل پر  ان کے حصے میں آئی ۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت  کی مختصر  تارییخ لکھنے  کا یہ شرف دہلی  کے  جامعہ نگر  میں مقیم   اس نوجوان قلم کار  کو حاصل ہو ا، جس نے  جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اے کے جے  ماس کمیونیکیشن ریسرچ  سینٹر سے ماس کمیونکیشن میں ما سٹر ڈگری حاصل کرنے  کے بعد  تاریخ  سے ایم اے   کیا ۔  اس ہونہار  لکھاری نے   طالب علمی کے دور سے  ہی صحافت سے وابستگی  اختیار کر لی تھی  اور کئی اہم روزناموں  سے وابستہ رہے ،شاعری  اور  افسانہ  نگاری بھی ان کا  میدان  ہے۔ موصوف کی پہلی تصنیف" مسلم مجلس مشاورت –ایک مختصر تاریخ "    کا اجرا مشاورت  کے 'جشن زریں '  میں 31 اگست   کو " نائب صدر جمہوریہ  محمد حامد انصاری  کے بدست  عمل میں آیا ۔

26 سالہ حوصلہ مند نوجوان  مصنف کے اس تاریخی  حصولیابی پر  'ایشیا ٹائمز' کے  اڈیٹر نے ان سے بات چیت کی اور یہ جاننے  کی کوشش کی کہ انہوں  نے یہ کارنامہ کس طرح انجام دیا ؟انہیں  کیا کیا دشواریاں پیش آئیں؟  اور وہ  کیسے  اس کم عمری  میں مصنف بن گئے ؟ ' ایشا ٹائمز'  کے قارئین کی خدمت   ان سےبات چیت  کے اہم اقتباسات  پیش ہیں۔(ادارہ)

سوال: مشاورت کی تاریخ لکھنے کا موقع آپ کو ملا ،آپ کی پہلی تصنیف مشاورت پر آئی آپ کے احساسات کیا ہیں ؟

جواب: دیکھئے بنیادی طور پر کسی بھی مصنف کے لئے یہ خوشی کا موقع ہوتا ہے کہ اس کی کوئی تصنیف شائع ہو اور لوگ اس کو پسند بھی کریں ۔یہ میرے لیے بڑی خوشی کی بات ہے کہ مجھے کام کرنے کا موقع ملا  اور اس درمیان بہت سارے لوگوں کا تعاون شامل رہا ان میں سے بہتوں کا نام اس کتاب میں موجود ہے اور بہت سارے ایسے افراد بھی ہیں جن کا نام میں اس میں نہیں لکھ سکا ۔انسان جب کوئی کام کرتا ہے تو صرف اس  کا  اپنا ذاتی کام نہیں ہوتا ، بلکہ وہ اس سے دوسروں کو بھی فائدہ پہونچا رہا ہوتا ہے ،  بہت کچھ سیکھتا ہےاور اپنے مطالعے  اور مشاہدےکی روشنی میں لوگوں کو  بہت کچھ بتاتا بھی ہے ۔ اس کتاب کو لکھتے ہوئے مجھے بہت کچھ خصوصا ہندوستانی مسلمانوں کے حوالہ سے جاننے کا موقع ملا ، اور میرا یہ احسا س کہ ہے آزادی کے بعد  سے مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے کوئی کمی نہیں آئی ۔

سوال: آپ تو بنیادی طور پر صحافی ہیں پھر تاریخ نگاری کی جانب کیسے آگئے ؟

جواب: صحیفہ نگار تو صحیفہ نگار ہوتا ہے یعنی صرف لکھاری اور اگر واقعی اس کو لکھنا آتا ہے ،تو وہ کچھ بھی لکھ سکتا ۔ لیکن آپ کے علم کے لئے میں یہ بات بتا دوں کہ میں پہلے تاریخ کا طالب علم رہا صحافت کی جانب بعد میں آیا ۔  ایک بات اور آج کا صحیفہ نگار تو کل کا مورخ ہوتا ہی ہے ۔ لیکن یہ ہماری بد قسمتی ہے خصوصا اردو صحافت کے حوالہ سے میں یہ بات کر رہا ہوں کہ آج کے صحافی کو اس کا ادراک نہیں ہو تا کہ اس کی تحریر کل کو تاریخ کا حصہ بھی بنے گی ۔آجکل صحافت میں کیا کچھ آ رہا ہے  مجھ سے زیادہ آپ خود واقف ہیں ۔جہاں تک باضابطہ تاریخ نگاری کے جانب عود کر آنے کی بات ہے تو اسے آپ ایک حادثہ کہہ سکتے ہیں ۔ میں تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تاریخ نویسی پر باضابطہ کام کروں گا ۔ صحافت میں آنے بعد اس وادی میں انسان اتنا ڈوب جاتا ہے کہ اس کو اس سے نکلنے کا موقع نہیں ملتا ۔ لیکن اس سلسلہ میں میں اپنے کرم فرما ڈاکٹر ظفرالاسلام  خانصاحب کا تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ انھوں نے ہی مجھے یہ موقع فراہم کیا اور میں اس جانب چلا آیا ۔


سوال: تاریخ نگاری کے دوران  آپ کو کچھ  چیلنجز  کا بھی سامنا کرنا پڑا   ہوگا ،  اس بارے میں کچھ  بتائیں  ؟

جواب: آپ کوئی بھی نیا کام کریں گے آپ کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا ۔میرے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ رہا کہ اس پر کچھ کام سرے سے ہوا ہی نہیں تھا ، یعنی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے زیرو لیبل سے کام شروع کرنا پڑا ۔انٹرویوز ، دوڑ دھوپ ، پرانے اخبارات کی  تلاش ، خطوط اور گرد آلود دستاویزوں کی ورق گردانی ۔ اس درمیا کئی  کئی مرتبہ تو ایسا ہوا کہ میرے کپڑے بالکل گندے ہو گئے ۔ بعض مراحل اور ادوار  ایسے بھی آئے  جس کے بارے میں کچھ تھا ہی نہیں  کاروائی رجسٹر اور ریکارڈ بھی غائب تھے ۔ایسے موقع پر بے حد غصہ آتا  ۔ لیکن  ان مراحل سے بھی اللہ کا شکر ہے ہم گذرے  ایسے مواقع پر میں شکر گذار ہوں اپنے احباب کا اور خصوصی طور پر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان  صاحب کا کہ انھوں نے مجھے بڑی  ہمت دلائی اور قدم قدم پر رہنمائی کی ۔ڈاکٹر صاحب اکثر کہتے "جو شخص میدان چھوڑ کر ہی بھاگ گیا اس نے کیا لڑائی  لڑی مزہ تو جب ہے کہ آپ میدان میں ڈٹ جائیں اور جیت کر باہر نکلیں "ایسے الفاظ واقعی آپ کو بہت ہمت دلاتے ہیں ۔

سوال : آپ کی کتاب کا اتنی بڑی شخصیت کے ہاتھوں اجراء عمل میں آیا اور آپ وہاں موجود نہیں تھے ؟اور اجراء کے وقت آپ کا نام بھی غلط انداز میں پکارا گیا ؟

جواب: نہیں نہیں ! میں وہاں تھا ،کس نے کہہ دیا کہ میں وہاں نہیں تھا ۔ بھئی یہ تو پروگرام  ہی میرا تھا اور میں ہی پروگرام میں نہیں رہتا  یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ پھر میرے لئے تو یہ اعزاز کی بات تھی کہ نائب صدر جمہوریہ کے ہاتھوں میری کتاب کا اجراء  ہو رہا تھا ۔بعض بزرگوں کے الفاظ میں "اس پروگرام کا دولہا تو میں ہی تھ"۔ منصور آغا صاحب میرے بڑے اچھے بزرگ ہیں ان کا  ہی یہ کہنا تھا ، وہ اکثر شفقت میں مجھے ڈانٹتے بھی ہی اور سمجھاتے بھی ، میں ان کی بڑی قدر کرتا ہوں ۔آپ کو غلط فہمی غالباا س وجہ سے ہو گئی کہ آپ نے مجھے اسٹیج پر نہیں دیکھا ۔یہ ممکن ہے سیکیورٹی کی وجہ سے  ایسا ہوا ہو  یا کوئی اور مصلحت رہی ہو ، مجھے نہیں معلوم ۔کئی اور لوگوں نے بھی یہ بات مجھ سے دریافت  کی   ۔ لیکن ایسا نہیں ہے ، میں وہاں پر تھا ۔ ہاں جہاں تک نام غلط پکارنے کی بات ہے تو مجھے بھی یہ اچھا نہیں لگا ، اور بعد میں میں پروگرام کے ناظم سے ملا اور انھیں بتایا کہ آپ نے میرا نام غلط پکارا تھا میں علیم اللہ نہیں ، علم اللہ (جھنڈا والا)  ہوں تو انھوں نے انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا یہ یہ' مُلاّوُلّا' کیا ہوتا ہے ، مجھے اس وقت بڑا غصہ آیا تھا کہ ایک تو لوگ غلطی کرتے ہیں اور انھیں اگر بتایا جائے تو قبول بھی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔مجھے بعد میں پتہ چلا وہ صاحب علی گڑھ کے پروفیسر ہیں اور ایڈوکیٹ بھی ۔ انہوں نے  نظامت کے دوران اور بھی بڑی فاش غلطیاں کی تھیں  جس کا میں یہاں تذکرہ  کرنا نہیں چاہتا ۔


سوال: تاریخ  لکھنے کے دوران ملت اسلامیہ ہند کے نشیب و فراز کو آپ نے کس طرح محسوس کیا ؟

جواب: عروج و زوال قوموں کا خاصہ رہی ہے ۔ میں نے اپنے  کتاب کے مقدمہ میں اس کا تذکرہ بھی کیا ہے ۔ آپ کتاب کا مطالعہ کریں گے تو اس میں بہت ساری چیزیں  آپ کو ملیں گی،  جس سے اندازہ ہوگا کہ ہماری ملت کے  کیا مسائل رہے اور ہم کیسے اس سے باہر نکلے ہیں ؟  اور ایک بات میں بتادوں! آزادی کے بعد سے سچی بات تو یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان اپنے پاووں پر کھڑا ہی نہیں ہو سکا ۔ ہماری قوم نے بڑی پریشانیاں جھیلی ہیں ۔ ان پریشانیوں میں ہماری ملی تنظیموں  نے کسی حد تک مرہم لگانے کا کام کیا ہے  ۔لیکن سہی  بات تو یہ ہے  کہ وہ زخموں کا مداوا نہیں کر سکے ہیں ۔ ملت اسلامیہ ہند نے خصوصا آزادی کے بعد سے جن نا گفتہ بہہ حالات کا سامنا کیا ہے اس کی داستان انتہائی دلخراش اور کربناک ہے ۔ ممکن ہے اسے آپ میری حساسیت کہیں لیکن اس کتاب کو  لکھتے ہوئے بہت مرتبہ میں  رویا ہوں۔میں کبھی کبھی مستقبل کے بارے میں سوچتا ہوں کہ کیا ہوگا! ہماری آنے والی آئندہ نسلوں کا ۔ ہمیں بہت محنت کرنی پڑے گی ، ایک لمبی لڑائی لڑنی پڑے گی اپنے پاووں پر کھڑے ہونے کے لئے ۔

سوال : مشاورت کی ایک عظیم تاریخ رہی ہے ۔ اس کے بانیان میں بھی بڑے بڑے لوگوں کے نام ہیں ۔کیا انہوں نے کچھ کام نہیں کیا ؟ بحیثیت مورخ آپ اس پر کیا کہنا چاہیں گے ؟

جواب: مشاورت نے تو کافی کام کیا ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ہے ۔ آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے وجود کو سمیٹنے اور اس کی بقاء میں اس کا بڑا رول رہا ہے ۔ لیکن چونکہ مورخ کی حیثیت سے آپ نے مجھ سے پوچھا ہے تو میں یہ بات کہوں گا کہ مشاورت کو جو کارنامہ انجام دینا چاہئے تھا اور جس انداز سے یہ تنظیم آگے بڑھی تھی بعد کے دنوں میں یہ کیفیت دیکھنے کو نہیں ملتی  اور 1983 کے بعد کے  تو اور بھی حالات خراب نظر آتے ہیں ، جب مفتی عتیق الرحمان صاحب جو اس کے بانیان میں سے بھی تھے کا انتقال ہوا تو دو صدور بنا دئے گئے ،ایک شیخ ذولفقار اللہ اور دسرے سید شہاب الدین ،بلاشبہ ان شخصیتوں کی بڑی خدمات رہی ہیں لیکن یہ ویسی ہی بات ہوئی آپ نے بچپن میں پڑھا ہوگا " اگر دو خدا ہوتے سنسار میں، تو دونو ں بلا ہوتے سنسار میں"۔ مشاورت میں بھی ایسی کیفیت نظر آتی ہے اور قدم قدم پر اختلاف اور افتراق کا نمونہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ اس طرح پچاس سال کی طویل العمری اور کارکردگی کے باوجود یہ فیصلہ تو نہیں کیا جا سکتا کہ یہ دورانیہ ناکامیوں کا مجموعہ کہلانے کا مستحق ہے ، البتہ زندگی بچانے کے لئے حکماء اور اطباء مبارکباد کے مستحق ہیں ۔

سوال: اس کتاب میں کیا ایسی خاص بات ہے کہ ہم اس کا مطالعہ کریں  ؟

جواب : دیکھئے !کوئی بھی چیز کسی کے لئے بہت خاص ہو سکتی ہے اور  وہی چیز کسی کے لئے بہت عام ، آپ کا یہ کہنا کہ اس  کتاب میں کیا خاص بات ہے کہ کوئی اس کا مطالعہ کرے، میرے لئے اس کا جواب دینا واقعی بہت مشکل ہے ۔ لیکن ہاں میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ جدید ہندوستان میں مسلمانوں کے مسائل کو سمجھنے میں یہ کتاب ضرور آپ کی مدد کر سکتی ہے ۔ آزادی کے فورا بعد پر تو بہت کتابیں لکھی گئیں ،لیکن بعد کے دنوں میں وقوع پذیر ہونے والے حالات اور  ہم عصر تاریخ پر بہت کم کتابیں دستیاب ہیں ،جو ہیں وہ یا تو بالکل تاریخی نوعیت کی یا بالکل دستاویزی نوعیت کی  ہیں ، جس سے ایک عام آدمی کا استفادہ کر پانا بہت مشکل ہے ۔ہم عصر تاریخ لکھنا بہت مشکل  ہے کہ آپ اس میں جو کچھ بھی لکھ رہے ہوتے ہیں، اس کے دیکھنے اور جاننے والے موجود ہوتے ہیں،  ایسے میں آپ کے لئے یہ بہت مشکل ہو جاتا  ہے کہ آپ کیا لکھتے ہیں اور کیا چھوڑتے ہیں ، ان تمام چیزوں کو دیکھنے کے لئے آپ اس کتاب کا مطالعہ کر سکتے ہیں ۔

یہ انٹرویو ایشیا ٹائمز کی ویب سائٹ میں دستیاب ہے ۔ لنک یہاں موجود ہے ۔
 http://www.asiatimes.co.in/urdu/Asia-Times-Special/2015/09/22573_


۔۔۔مزید