جمعرات، 26 اپریل، 2018

کہانی ڈاکٹر محی الدین غازی کی ۔۔۔

بڑوں کا بچپن
سیریز (2)
کہانی ڈاکٹر محی الدین غازی کی ۔۔۔
کچھ شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جو پہلی ہی ملاقات میں اپنا گرویدہ بنا لیتی ہیں ، برادر بزگوار جناب ڈاکٹر محی الدین غازی بھی میرے لئے انھیں میں سےایک ہیں ،مجھے وہ ڈانٹتے بھی ہیں اور سرزنش بھی کرتے ہیں اور یقین جانئے۔۔۔ مجھے ان کا یہ انداز بڑا پیارا لگتا ہے ۔۔۔ ایک الگ قسم کی اپنائیت کا احساس ہوتا ہے ۔
مدرسے میں غالبا عربی چہارم یا پنجم کا میں طالب علم تھا تب میری ملاقات غازی بھائی سے ہوئی ، میری کیا بلکہ انھوں نے ہی مجھ سے ملاقات کی ۔
قصہ کچھ یوں ہے ۔۔۔
مدرسۃ الاصلاح میں مرحوم اساتذہ سیمنار ہو رہا تھا۔ یہ طلباء سیمنار تھا ، جس کا سارا انتظام و انصرم ، دیکھ بھال ،مقالے اور پیپر طلباء کے ذمے تھے ۔اساتذہ کا کام نگرانی اور تربیت کا تھا۔ ڈاکٹر محی الدیں غازی ایک سیشن کی صدارت فرما رہے تھے ۔ ہم تو ازل کے شرارتی واقع ہوئے ہیں ۔ ایک طالب علم" مولانا امین احسن اصلاحی بحیثیت محدث " اپنا مقالہ پیش کر رہا تھا ، مقالہ ختم کرنے کے بعد جب سوالا ت کی باری آئی تو ہم نے مقالہ نگار کی وہ کھینچائی کی اور سوالات کے اتنے بوچھار کئے کہ وہ بوکھلا گیا ، اور پسینے سے شرابور اپنی جگہ جاکر بیٹھ گیا ۔بات آئی گئی ختم ہو گئی ہم اپنے شرارت میں کامیاب ہو گئے تھے ۔
پروگرام ختم ہونے کے بعد ، دوسرے دن بعد نمازِ فجر ڈھونڈھتے ،ڈھانڈھتے محی الدین غازی صاحب، ان کے ساتھ کوئی اور صاحب بھی تھے جو اب مجھے یاد نہیں رہے، ہاسٹل کی اور آئے اور آخر کار مجھے پالیا ۔
علیک سلیک کے بعد غازی بھائی نے مجھ سے پوچھا !" کل جو تم نے سوالات کئے تھے ، کسی استاد نے بتایا یا تمہارے ہی تھے ؟ اور کیا تمہیں جواب مل گئے ؟" ۔
میں نے انھیں بتایا" نا کسی استاد نے مجھے سوالات بتائے تھے اور نا ہی مجھے اس کا جواب چاہئے ! مجھے تو جواب پتہ ہے ۔
پھر انھوں نے کہا !" اچھا ! ٹھیک ہے ۔۔۔ کیا پتہ ہے ذرا میں بھی تو جانوں ؟
میری جو سمجھ میں آیا میں نے بک دیا ، وہ مسکرائے اور کہا !" تمہاری بات بھی اپنی جگہ درست ہے لیکن اس کا یہ جواب بھی ہو سکتا ہے "اور ایک ایک نکتہ پر ایسی عالمانہ اور فاضلانہ گفتگو کی کہ ان کی شخصیت کی دھاک میرے ذہن میں بیٹھ گئی ۔ پھر ان سے کئی مرتبہ بلیریا گنج ، رانچی ، جھارکھنڈ اور پھر دہلی میں متعدد ملاقاتیں رہیں اور میں نے ہر مرتبہ ان کی شفقت و محبت سے شرابور ہوتا رہا ۔ وہ جب بھی ملتے اچھی اچھی کتابوں کے نام بتاتے اور مطالعہ وغیر ہ کے بارے دریافت کرتے ۔ مجھے ان کا یہ انداز بڑا بھاتا ۔ اب ان سے ملاقات کم کم ہی ہوتی ہے ۔ان دنوں غازی بھائی کلیۃ القرا ن ، الجامعہ الاسلامیہ کے صدر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور وہیں قیام پذیر ہیں ۔ 
کل ان کی ایک کہانی ایک جگہ پڑھنے کا اتفاق ہوا ، اور یہ سب باتیں یاد آئیں تو سوچا لکھ دیا جائے ۔
اللہ ایسے مشفق و مہربان لوگوں کا سایہ تادیر قائم رکھے ۔
لیجئے آپ بھی ان کی کہانی پڑھئے انھیں کی زبانی ۔۔۔
محمد علم اللہ
فیس بک سے ۔۔۔
https://www.facebook.com/photo.php?fbid=10209405293969617&set=pcb.10209405307649959&type=3&theater