جمعرات، 26 اپریل، 2018

ایک مخلص درویش نہ رہا


مولانا سالم قاسمی کے انتقال پر ایک تاثراتی تحریر 
محمد علم اللہ
میں کل حضرت مولانا سالم قاسمی مرحوم پر مضمون لکھنا چاہ رہا تھا لیکن اس میں بہت سے مہہ جبینوں کا بھی تذکرہ آرہا تھا جنھوں نے ۲۳۔۲۴ مارچ ۱۹۸۲ء کی درمیانی شب میں دارالعلوم کی عمارات پر حکومت کے تعاون سے قبضہ کیا تھا اور اس کالی رات کو جاگیرداری اور منصب داری کے لالچ میں وہ ننگا ناچ ناچا تھا کہ آج بھی تاریخ اس کو ہند و پاک کی طرح دو سرحدوں کے نام سے یاد کرتی ہے۔ اس لئے اس اپنا ارادہ ترک کر دیا تھا ، لیکن پھر کئی احباب نے ایسا کرنے سے منع کیا اس لئے اپنے کچھ احساسات رقم کر رہا ہوں۔

مولانا سالم قاسمی(مرحوم) کے جانے کا دھڑکا تو بہت دنوں سے لگا ہوا تھا بس اللہ اللہ کرکے دعائیں مانگا کرتے تھے کہ اللہ ان کا سایہ ہم پر باقی رکھے۔ یوں بھی بھارت میں دو ہی تو بزرگ ترین علماء بچے تھے۔ پہلے حضرت مولانا وحید الدین خان جو دہلی کے نظام الدین ویسٹ میں واقع اپنے گھر میں گوشہ نشینی کے باجود تفہیم دین کا کام سرگرمی سے انجام دے رہے ہیں، اس سلسلہ کی دوسری شخصیت حضرت مولانا سالم قاسمی صاحب کی تھی جو سنیچر کو دارفانی سے رخصت ہوئے۔ یوں تو کوئی بھی عالم دنیا سے جائے تو افسوس ہوتا ہے لیکن مولانا مرحوم کی شخصیت بلا شبہ ایسی تھی جس کے اٹھ جانے کا جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔ جس دور میں ملت فروشی کے بازار میں بڑے بڑے صاحبان جبہ و دستار یہاں تک کہ ولی اولیاء تک دکانیں سجائے بیٹھے ہیں اور امت کی بولیاں لگ رہی ہیں اس کورچشم شہر میں وہ بابصیرت اور مخلص مرد درویش ہم کہاں ڈھونڈیں گے؟

مولانا مرحوم کی شخصیت پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں لیکن دو واقعات ایسے ہیں جو مولانا کی شخصیت کا مکمل تعارف ہیں۔ پہلا واقعہ آپ کے والد ماجد سے متعلق ہے اور دوسرا براہ راست مولانا مرحوم سے۔

پہلا واقعہ 1982 کا ہے جب دارالعلوم دیوبند پر حکومت کی مدد سے قبضہ کر لیا گیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن کہ مخصوص کنبہ اس درسگاہ کی جان سے جونک بن کر چمٹا ہوا ہے۔ جو ہاں میں ہاں ملاتا رہا اس کو سانس لینے کی اجازت ملتی رہی اور جہاں کسی نے موروثیت کو چیلنج کرنے کی کوشش کی اس کا حشر مولانا غلام محمد وستانوی کی شکل میں سامنے آیا جب دہلی کے اردو اخبار کے رپورٹروں سے ہزار پانچ سو روپئے دے کر خبریں لکھوائی گئیں کہ وستانوی نریندر مودی کا قریبی ہے اور پھر طلبہ کو اتنا مشتعل کر دیا گیا کہ وستانوی منصب سنبھالنے سے قبل ہی معزول ٹھہرے۔

یہی منظر 1982 میں پیدا کیا گیا تھا جب مولانا سالم قاسمی مرحوم کے والد بزرگوار حضرت مولانامحمد طیب کے خلاف ایسا ماحول تیار کیا گیا کہ انہوں نے ادارے کے مستقبل کی خاطر قربانی دے دی۔ ان کا جرم صرف اتنا ہی تو تھا کہ وہ دارالعلوم دیوبند کو سیاسی اکھاڑا نہیں بننے دینا چاہتے تھے لیکن حکومت کی شہہ پر اچھلنے والے مسٹنڈوں کے سامنے کسی سادہ لوح بزرگ عالم کی شرافت کتنی دیر ٹھہرتی؟

حضرت مولانا محمد طیب پر الزام لگایا گیا کہ وہ اپنے بعد مولانا سالم قاسمی مرحوم کو مہتمم بنانا چاہتے ہیں۔ اس بے بنیاد الزام اور مشتعل ماحول کے درمیان حکومت کی مدد سے دارالعلوم دیوبند پر قبضہ کر لیا گیا گویا یہ کوئی مدرسہ نہ ہوکر کسی لاچار بیوہ کا کھیت ہو۔ حضرت مولانا محمد طیب اور ان کے صاحبزادے مولانا سالم قاسمی تو خلوص نیت کے ساتھ کنارہ کش ہو گئے لیکن حکومت کی پشت پناہی سے دارالعلوم پر لٹھوں کے زور سے قابض ہوا کنبہ آج تک مخصوص سیاسی جماعت کا حق نمک ادا کر رہا ہے۔

دوسرا واقعہ مسلم مجلس مشاورت کے انظمام کا ہے۔ مولانا سالم قاسمی مرحوم خود مجلس کے صدر تھے لیکن انہوں نے مشاورت کو متحد کرنے کے لئے نہ صرف صدارت میں توسیع سے انکار کر دیا بلکہ ذاتی کوششوں سے مجلس مشاورت کو یکجا کرا کر دم لیا۔ انہوں نے متحدہ مجلس کی قیادت بھی قبول نہیں کی۔ یہ خلوص نیت اب چراغ لے کر تو کیا چکمتے سورج میں بھی ملنا مشکل ہے۔ خیر، موت سے کس کو مفر ہے۔ بارگاہ الہی میں ان کی مغفرت کی دعائیں ہی کی جا سکتی ہیں اور یہ دعا بھی کی جا سکتی ہے کہ سیاسی مفادات کے بھوکے اور منصب کی خاطر ملت کو بیچ دینے والوں کی بھیڑ کے درمیان کوئی اور مخلص اور دردمند دل رکھنے والا سالم قاسمی ہمیں میسر ہو۔

مسلم مجلس مشاورت کی تاریخ لکھنے کے دوران مولانا سے میری ایک مرتبہ ملاقات ہوئی ، لیکن وہ اس قدر کمزور ہو چکے تھے کہ ان سے بار بار کچھ پوچھنا یاان کو زحمت دینا ان کے ساتھ ظلم کرنے جیسا ہوتا ، اس لئے ہمیں جب بھی کسی دستاویز یا تفصیلات کی ضرورت ہوئی ہم نے ان کے صاحبزادے مولانا عاصم قاسمی سے رابطہ کیا اور انھو ں نے کئی قیمتی دستاویزات مجھے فراہم کئے ۔ مشاورت کا جب پچاس سالہ جشن منایا جا رہا تھا ، مولانا کی پر سوز اور پر تاثیر دعا نے سب کی آنکھیں نمدیدہ کر دی تھیں ، مولانا بلاشبہ ایک عالم با عمل تھے اور ہند میں جنھیں آزادی کے بعد مستقل ملت فروش مولویوں نے لوٹنے ، کھسوٹنے اور خود ان کا ہی سودا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے ، ایسے میں مولانا دیر تک یاد آئیں گے ۔