جمعرات، 26 اپریل، 2018

دارالعلوم دیوبند کو کچھ مشورے

محمد علم اللہ
اخبارات میں خبر آئی ہے کہ دارالعلوم دیوبند اپنے فتاوی کو کاپی رائٹ کرائے گا اور ذرائع ابلاغ کے لئے ان فتاوی کی ترسیل یا اس پر تبصرے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس سلسلہ میں چند گذارشات ہیں۔
پہلی: فتوی قرآن و حدیث سے مستنبط حکم ہے اور ظاہر ہے یہ دونوں ہی کسی کی ملکیت نہیں اس لئے فتوے کا کاپی رائٹ ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔
دوسری: اگر دارالعلوم دیوبند چاہتا ہے کہ میڈیا اس کے فتوے پر بات نہ کرے تو پھر وہ فتوی براہ راست سائل کو ای میل یا ڈاک سے بھیجے اور ویب سائٹ پر تشہیر سے گریز کرے۔
تیسری: دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء کو صرف شرعی اور فقہی معاملات پر ہی فتوے دینے چاہئیں۔ مودودی، غامدی، وحید الدین خان، ذاکر نائک یا کسی دیگر کو غلط اور طارق جمیل یا مدنی فیملی کو برحق قرار دینے سے بچنا چاہئے۔
چوتھی: بقائے باہم اور پرامن ہمہ زیستی کو فروغ دینے والے، مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے امکانات پیدا کرنے والے اور مکالمہ کو فروغ دینے والے فتاوی کی خاص طور پر تشہیر کی جانی چاہئے۔
پانچویں: اکثر غیر ضروری اور شوقیہ فتوے طلب کئے جانے کی بات کہی جاتی ہے اس لئے مناسب یہ ہوگا کہ سائل کا معاملہ سے تعلق بھی پوچھ لیا جائے اور اسی کی روشنی میں فتوی جاری کیا جائے.
چھٹی: فتوے کی مناسب بلکہ ایک موٹی رقم فیس کی شکل میں طئے کی جائے تاکہ جسے واقعی ضروری ہو وہی فتوے کے لئے رجوع کرے؛ ہر کس و ناکس شریعت کا مذاق اڑانے کے سوال داغتے نہ پھرے. اس سے فتوی دینے والے علماء کے مشاہرہ کا بھی انتظام ہو سکتا ہے۔
ساتویں: قول راجح یا صرف حنفی مسلک پر اصرار نہ کرکے دیگر ائمہ کی رائے بھی بتا دے. بزرگوں کی رائے انتہائی مجبوری کی صورت میں نقل کی جائے، کوشش ہو کہ زیادہ سے زیادہ مسائل کا استنباط قرآن و حدیث کی روشنی میں ہو.
آٹھویں : ہر فتوے کی کاپی میں یہ وضاحت بھی کر دے کہ فتوے کے جملہ حقوق دارالعلوم کی تحویل ہے، بلا اجازت کسی بھی شکل میں خواہ وہ طریقہ نقل سمعی ہو یا بصری یا کسی اور سائنسی طریقہ عمل سے کسی بھی شکل میں کسی اور مقصد کے لئے استعمال درست نہیں. ایسا کرنے والے کے خلاف کاروائی کی جا سکتی ہے. 
نویں : کاپی رائٹ ایکٹ کے تحت رجسٹریشن فیس رجسڑار آف کاپی رائٹ کو ادا کرکے دارالافتاء کا رجسٹریشن کرالے، اور اس کے حقوق حاصل کر لے کہ یہ دارالعلوم کی ملکیت ہو گی.
دسویں : ہر ایک کو فتوے کا اختیار نہ دے کر با ضابطہ کچھ ادارے بنائے جائیں اور ان سب کو بھی دارالعلوم کے قوانین پر عمل کرنے کا مجاز بنایا جائے، کم از کم اس کا مجاز دارالعلوم سے فارغ علماء کو تو بنایا ہی جا سکتا ہے.