اپنوں کی محفلیں کس لت کا نام ہے۔۔۔
محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی
فون کے ذریعے دعوت ملی، یہ عجیب و غریب دعوت تھی، ایک سپاہی نے مجھے اپنے یہاں بلایا تھا، اس نے بتایا کچھ اور سپاہی بھی ہوں گے، تمہیں فلاں جگہ پر فلاں وقت ملنا ہے، میں ٹھہرا مزدور انسان، اب مزدوری سے فرصت ملے تو کہیں پہنچا جائے، مگر یہ تو سپاہی کی دعوت تھی اور ایسے موقع پر بہانہ بازی یا حیلہ و حوالہ کی تلاش کم از کم میرے لئے تو جرم ہی ہے، سو میں نے حامی بھر لی، لیکن آفس میں عین موقع پر کام آ گیا اور اس کو نمٹاتے نمٹاتے رات کے تقریباً سات بج گئے۔
ادھر بار بار الگ الگ سپاہیوں کے فون نے مجھے زچ کر دیا، میں جلدی جلدی کام نمٹا کر متعین جگہ پر پہنچا، دیکھا تو وہاں میزبان سپاہی کے علاوہ دو اور سینئر سپاہی پہلے سے موجود تھے، مجھے کرسی پر بیٹھنے کا حکم ہوا۔ ابھی میں بیٹھا ہی تھا کہ فوراً پانی، چائے اور دیگر انواع و اقسام کے ناشتے ٹیبل پر چن دیے گئے۔
گفتگو منتشر موضوعات پر ہو رہی تھی، میں کرسی پر بیٹھا ان سب کی باتوں کو غور سے سن رہا تھا، بات سے بات نکل رہی تھی اور سلسلہ دارز ہوتا جا رہا تھا، کوئی مورچے پر اپنے تجربات کی داستان سنا رہا تھا تو کوئی اپنی زندگی پر بیتی سرد و گرم جنگ کی کہانی۔ کچھ شرماتے کچھ لجاتے میں نے بھی اپنی کچھ بات رکھی، سپاہیوں نے بڑی سنجیدگی سے میری باتیں سنیں، مجھے اچھا لگا، میں نے عرصہ پہلے کہیں پڑھا تھا کسی کے دل میں جگہ بنانی ہو تو اس کی باتوں کو غور سے سنو، جب تم کسی کی بات کو سنو گے تو انھیں لگے گا کہ تم انھیں اہمیت دے رہے ہو، یوں وہ تم سے نہ صرف قریب ہوگا بلکہ اپنے دل کی بات بھی بتاتا چلا جائے گا ، میں نے اس پر عمل کرتے ہوئے اپنی زبان پر تالا لگا لینا مناسب جانا اور سپاہیوں کی باتیں بغور سنتا رہا۔
ایک سپاہی گویا ہوا، زیادہ تر سپاہی تو بکے ہوئے ہیں، ایسے میں چند ایک کی بیداری کیا معنی رکھتی ہے؟ دوسرے نے کہا، بہت معنی رکھتی ہے، کبھی کبھی یہی چند لوگ ڈوبتی کشتی کو بچانے کا کام کرتے ہیں، تو کبھی یہی قلیل تعداد انقلاب کا باعث بنتی ہے، آپ جو تھوڑی بہت ٹمٹماتے ہوئے چراغ دیکھ رہے ہیں، اسی چراغ نے اندھیارے میں اجالے کا کام کیا ہے، اور بات ٹمٹماتے چراغ سے حق، سچ اورایمانداری سے ہوتے ہوئے ہندوستان کی صدیوں پر محیط تاریخ پر چلی گئی۔
پھر ایک سپاہی نے تاریخ کے اوراق الٹنے شروع کیے، راجہ داہر کے عہد سے ہوتے ہوئے کہانی دہلی سلطنت اور پھر وہاں سے مغلیہ عہد اور اس کے بعد کے حالات تک پہنچی۔ کیسے کیسے حالات پیش آئے، لیکن لوگوں نے امید کا دامن نہیں چھوڑا، پھر اس نے اس سے نمٹنے والے بہادر، بے باک، جرآت مند سپاہیوں، صوفیوں اور بزرگوں کے قصے سنانا شروع کر دیے۔ اسی درمیان محمد بن قاسم، اکبر، بیربل، رام چرتر مانس کے مصنف، قدیم عہد کے منشی، عالم، خریدے اور بیچے جانے والے دانشور، کئیوں کا ذکر چلا۔
ابھی یہ گفتگو جاری ہی تھی کہ ایک اور سپاہی نے دستک دی، باقی سپاہیوں نے ان کا بھی استقبال کیا، ناشتے کا ایک اور دور چلا، پھر سے جام چھلکا، پیالیاں ٹکرائیں اور بات جدید ہند کے مسئلے پر چل نکلی، بہتوں کے چہروں کے نقاب اترے۔ بے ضمیروں کا ذکر ہوا، نا خلفوں کی بات آئی، اور سرے سے سرا جڑنے لگا، گھڑی کی سوئی ٹک ٹک کرتی آگے بڑھنے لگی لیکن سپاہیوں کی بات ختم ہونے کا نام ہی نہ لے رہی تھی۔ بات اخباروں کی راتوں اور کاموں کی چل نکلی، تو کئی تجربوں، شرارتوں اور دل لگیوں ذکر آیا۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے بات تو سپاہیوں کی ہو رہی تھی اور یہ اخباروں اور اس کی راتوں کا ذکر کہاں سے آ نکلا؟ تو بھئی یہ عرف عام میں سپاہیوں اور فوجیوں کا کردار ادا کرنے والے لوگوں کی روداد نہیں تھی، بلکہ یہ روداد قلم کے سپاہیوں کی تھی۔ دعوت دینے والے سپاہی روزنامہ انقلاب پٹنہ کے ایڈیٹر جناب احمد جاوید صاحب تھے اور مدعو سپاہیوں میں مجھ ناچیز کے علاوہ ایشیاء ٹائمز کے ایڈیٹر جناب اشرف بستوی، مسلم دنیا کے ایڈیٹر جناب ڈاکٹر زین شمسی اور آزاد صحافی و قلم کار جناب زبیر خان سعیدی عمری تھے۔
باتیں تو بہت دلچسپ تھیں لیکن ہمارے پاس وقت زیادہ نہیں تھا، رات کے تقریبا ساڑھے دس بج چکے تھے سب کو اپنی اپنی منزل کی اور نکلنا بھی تھا، ڈاکٹر زین شمسی نے انتہائی خوبصورتی کے ساتھ اپنے مخصوص انداز میں بات کو سمیٹا اور احمد جاوید صاحب کی اس گفتگو کے ساتھ کہ اس طرح ملنے جلنے کا پروگرام بنے رہنا چاہیے،اس سے نہ صرف ایک دوسرے کو جاننے کا موقع ملتا ہے بلکہ ایک دوسرے کے تجربات اور سرگرمیوں کی نوعیت کو بھی جاننے کا موقع ملتا ہے، مجلس اپنے اختتام کو پہنچی۔
ملاقات کے دوران نہ جانے کیوں میرا ذہن جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری میں جا اٹکا۔ جی بالکل وہی لائبریری جہاں میں نے اپنے دور طالب علمی کے گھنٹوں بسرکیے تھے۔ فرش پر بیٹھ کر دیوار سے ٹیک لگائے میں اور میرے کچھ ہم ذوق گھنٹوں کتابیں چاٹا کرتے۔ لیکن اس محفل میں مجھے لائبریری کیوں یاد آ رہی ہے۔ اوہو!، یاد آیا علی سردار جعفری کی کتاب ”لکھنو کی پانچ راتیں“ میں نے وہیں پڑھی تھی۔ اس کتاب کا ایک حصہ ایسی ہی راتوں میں سردار جعفری اور مجاز کے دوستوں کی ملاقات کے ذکر سے عبارت تھی۔
بے سر و سامانی اور محرومی جیسے نہ جانے کتنے ہی درد اپنائیت کی محفلیں بھلوا دیتی ہیں۔ ایک وقت تھا جب میں بہت زیادہ سوشل ہوا کرتا تھا۔ دوستوں کے ساتھ علمی بحثوں کے مرغولے اڑا اڑا کر ہم چائے خانے گلزار رکھتے تھے۔ پھر ای ٹی وی اردو نے ادارتی ذمہ داریوں کے لئے حیدرآباد منتقل ہونے کی دعوت دی۔
مجھے اب بھی یاد ہے اس صبح میں نے اپنے دوستوں کو ای ٹی وی کے جاب آفر کا ای میل اور حیدرآباد منتقلی کا ارادہ ظاہر کیا تو ہنس ہنس کر محفلیں آباد کر دینے والے وہ سارے یار دوست چپ سے ہو گئے۔ اس صبح کسی نے چائے نہیں پی، کسی نے ایک دوسرے سے مذاق نہیں کیا اور نہ کسی نے دوپہر اور شام کی ملاقاتوں کے پروگرام ترتیب دیے۔ سب چپ چپ بیٹھے رہے پھر جب اٹھنے کا وقت ہوا تو نہ جانے کیوں ان میں سے ایک نے اپنی پلکیں صاف کیں۔ یہ گھٹا کسی پہلے قطرے کی منتظر تھی بس پھر کیا تھا ہم سب کی آنکھوں نے جل تھل کیا۔
حیدرآباد میں انہیں دہلی کی محفلوں نے مجھے ہمیشہ بے کل کیے رکھا اور جب میری مادر علمی جامعہ ملیہ اسلامیہ نے مجھے ملازمت کی پیش کش کی تو میں حیدرآباد سے ایسا بھاگ کر دہلی آیا جیسے کسی کو دن بھر بھٹکنے کے بعد شام ڈھلے گھر کا راستہ مل گیا ہو۔ دہلی آکر وہ محفلیں پھر گلزار ہونے لگی ہیں۔ احمد جاوید صاحب کے دانش کدے پر ہوئی صحافی برادری کی ملاقات نے مجھے پھر سے احساس کرایا کہ اپنوں کی محفلیں کس لت کا نام ہے۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی، بہرحال بات ختم کرنے سے پہلے خصوصا میں اپنے دوستوں سے کہنا چاہوں گا کہ اپنی مصروف ترین زندگی میں سے کچھ پل چرا کر اپنے بڑوں اور علم و ادب دوست شخصیتوں کے ساتھ کچھ وقت گذارا کیجئے کہ کبھی کبھی جو باتیں سیکڑوں کتابوں میں نہیں ملتیں ان سے مل جاتی ہیں۔
ختم شدہ
ختم شدہ
0 تبصرہ جات:
ایک تبصرہ شائع کریں