پیر، 30 اپریل، 2018

ہمیں بچاؤ!(افسانہ)

ہمیں بچاؤ!
محمد علم اللہ
مٹھ میں آج بھی مقدس بزرگوں کا مجمع لگاتھا،کوئی سفید براق جبہ سنبھالے آیا تو کوئی تسبیح کے دانے سہلاتا ہوا میٹنگ والے حجرے میں وارد ہوا۔ کسی کے ساتھ اس کا مرید پیچھے پیچھے نظریں جھکائے یوں چلا آتا تھا گویا اس کی گردن پر کوئی ہریل بیٹھا ہوا ہو۔ جب بھی کوئی نورانی صورت حجرے میں ظہور فرماتی تو پہلے سے وہاں موجود لوگوں میں ہلچل مچ جاتی، کوئی اٹھ کر آنے والے کے ہاتھوں پر ٹوٹ پڑتا، تو کوئی کرتے کا اگلا یا پچھلا دامن پکڑ کر چوماچاٹی میں لگ جاتا۔ البتہ حجرے میں پہلے سے موجود نورانی صورتیں نئے نورانی چہرے کی آمد پر اپنی جگہ جمی رہتیں اور کئی ایک کی آمد پر تو منہ بناتیں۔ آنے والا بڑی مشکل سے کسی کا زانو، کسی کا کھوادھکیل کر اپنے لئے جگہ بنا لیتا۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے تک نورانی چہروں کا نزول ہوتا رہا پھر جب صدر کو لگا کہ اب کوئی اور بزرگ نہیں آئے گا، تو اس نے کھنکھار کر میٹنگ کی کارروائی شروع کی۔ 
''عزیزو!، آپ کو پتہ ہے کہ ہم پر بہت کڑا وقت پڑا ہے۔۔۔''
ابھی یہ جملہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ دو ایک بزرگوں نے پہلو بدلا،ایک صاحب پکارے:
''ہاں!ہاں!ہمیں پتہ ہے، لیکن پہلے یہ بتاؤ کہ یہ کیا حرامی پن ہے؟''۔
صدر محفل اس جملے کی توقع نہیں کر رہا تھا اس لئے غصے سے بلبلا اٹھا۔
''کیا مطلب ہے، آپ کا،اپنی عمر کا خیال کیجئے یہ کیسی زبان ہے''۔
''میری زبان سے تکلیف ہو رہی ہے اور تم مل کر ہمارے مسلک کے خلاف سازشیں کرتے رہو وہ کچھ نہیں،ہمارا اتنا بڑا مسلک ہے تم نے عمدۃ العلماء اور سرتاج العلماء کو کیوں نہیں بلایا؟۔ ''
صدر محفل جواب دیتا، اس سے پہلے ہی ایک نورانی شخصیت پکاراٹھی:
''آپ کو بلا لیانا،بس شکر کیجئے۔۔۔!''
یہ ہتک آمیز جملہ سناتو اعتراض کرنے والے بزرگ کے جارحانہ تیور ہرن ہو گئے، دبی آواز میں بولے:
''اوہ۔۔۔یہ بھی صحیح فرمایا، یوں بھی میں اکیلا ہی نمائندگی کو کیا کم ہوں، آپ کارروائی آگے بڑھائیے''۔
صدر محفل نے ایک بار پھر گلاصاف کرتے ہوئے بولنا شروع کیا:
''بھائیو!، بہت برا وقت ہے، ہمیں مٹانے کی کوشش ہو رہی ہے، سب ہمارے خلاف میدان میں اتر آئے ہیں، ہمیں مل کر لڑنا ہوگا''۔
ایک بزرگ نے قریب رکھے اپنے ڈنڈے کو قریب سرکایا اور بڑی مشکل سے کھڑے ہوتے ہوئے بولے:
''چلو''۔
سب نے حیرت سے دیدے پھاڑے اور کئی حیرانی سے ایک زبان ہوکر پکارے:
''کہاں؟''
بزرگ نے لرزتی آواز میں کہا:
''لڑنے۔''
صدر محفل جو حیرانی سے آنکھیں پھاڑے بیٹھا تھا جلدی سے بزرگ کے قریب آیا اور شانہ پکڑ کر بٹھاتے ہوئے بولا:
''آپ بس قیادت فرمائیے زحمت کرنے کی ضرورت نہیں''۔
صدر محفل اپنی جگہ واپس آیا اور گویا ہوا:
''ہمیں ان حالات میں لڑنا ہے لیکن یہ لڑائی تیر اور تلوار سے نہیں عوام کی طاقت سے لڑی جائے گی، آپ سب کا اپنا اپنا عقیدت مندوں کا حلقہ ہے، اگر آپ ساتھ دیں تو کچھ بڑا ہو سکتا ہے''۔
کیا مطلب؟
''ہم ایک بڑی ریلی کریں گے''۔
’’ریلی؟!‘‘
''ہاں ریلی!!،عنوان ہوگا،ہمیں بچاؤ ریلی!''
صدر محفل کی تجویز سنتے ہی کئی لوگوں کی بانچھیں کھل گئیں۔
''ٹھیک ہے، کرو ریلی، ہم اپنے اپنے عقیدت مندوں کو لے کر آ جائیں گے ''۔
''لیکن ایک شرط ہے''۔
''جی! کیسی شرط؟''
''صدارت میں کروں گا!''
ایسا لگا کہ میٹنگ میں اس بات کا انتظار ہی ہو رہا تھا، بس پھر تو ہر جانب سے یہی پکار ہوئی۔
''صدارت میں کروں گا۔ میری جلالت قدر کے آگے تم تو دھنیا بیچتے ہو؟''۔
صدر محفل پہلے تو چپ رہا پھر ذرا تیز آواز میں پکارا۔
''جب سب کے گلے دکھ جائیں تو مجھے بتا دینا، میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ صدارت کون کرے گا؟''۔
سب یکدم خموش ہو گئے۔ دو ایک نے سب کی طرف سے پوچھ لیا۔
''کون کرے گا صدارت؟''۔
صدر محفل نے سوال سن کر سب پر طائرانہ نظر ڈالی، اس کی نظر جس چہرے پر جاتی اس کے دل میں آس پیدا ہو جاتی، سب کو دیکھ چکنے کے بعد وہ بڑے اطمینان سے بولا:
''میں کروں گا صدارت، جسے اعتراض ہو، دروازہ ادھر ہے، نکل لو!''
جن بزرگوں کے تیور ابھی تک ابابیل کی طرح پرواز کر رہے تھے یکدم جھاگ بن کر بیٹھ گئے، صدر محفل نے موقع دیکھ کر ایک اور وار کیا:
''اگر صدارت کے خواب دیکھے، تو ریلی میں تقریر کرنے سے بھی جاؤ گے۔ اپنے عقیدت مندوں کو لاؤ، اسٹیج پر بیٹھنے کا موقع ملے گا اور پانچ پانچ منٹ تقریر کا بھی۔ ''
اس کے بعد میٹنگ میں کچھ اور معاملات طے ہوئے، جو مٹھ کی مقدس فضا سے میل نہیں کھاتے ؛اس لئے ان پر راوی خاموش ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ فی عقیدت مند اجرت، گاڑی کا تیل اور کھانے کے مینو پر بات چیت ہوئی۔
پچھلی صفوں میں موجود ایک بزرگ ذرا اچک کر بولے:
''ریلی کا ایجنڈہ تو طے کیجئے؟''
صدر محفل جھٹ سے بولا:
''سب طے ہے، ہم سب کو بس اتنا ہی کہنا ہے کہ ہم سب خطرے میں ہیں! ہمیں بچاؤ!!''
پچھلی صف والے بزرگ کی سمجھ میں بات نہیں آئی اس لئے پوچھ بیٹھے:
''ہمیں کس سے خطرہ ہے؟''
سوال سن کر صدر محفل سمیت سب نے ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا،اسی غیر یقینی سوالیہ نگاہی کے ساتھ ہی میٹنگ برخاست ہوگئی۔
خدا خدا کرکے’ہمیں بچاؤ‘ ریلی کا دن آ پہنچا۔ میدان میں لوگوں کا جمگھٹا لگنے لگا، صدر محفل کا لباس آج کچھ زیادہ ہی اجلا تھا، باقی نورانی شکلیں بھی ایک کے بعد ایک اسٹیج پر نمودار ہونے لگیں، اسٹیج پر نرم گدے بچھے تھے، اس پر اس سے بھی زیادہ گدے دار صوفے ڈالے گئے تھے، پنکھے ہوا پھینک رہے تھے اور چائے چبینہ کا وافر مقدار میں انتظام تھا، نیچے دھوپ میں مجمع پسینے میں نہا رہا تھا، کسی کو پیاس سے چکر آ رہے تھے ،تو کوئی بھوک سے دل ہی دل میں بلبلارہاتھا، لیکن اسٹیج پر موجود اپنے عظیم روحانی قائدین کی محبت میں اتنی تکلیف تو برداشت کی ہی جا سکتی ہے۔
صدر محفل کو ڈر تھا کہ کہیں اسٹیج سے کسی اور کی شخصیت نہ چمک جائے اس لئے اس نے اپنے قریبی کو پاس بلایا اور اس کے کان میں پھسپھسایا:
''نظامت تم سنبھالو، دیکھو کوئی زیادہ نہ بولنے پائے، سب کو بول دینا کہ بس دو ہی جملے دہرانے ہیں۔ ہم خطرے میں ہیں ہمیں بچاؤ۔''
ناظم نے ایک ایک کو تقریر کے لئے بلانا شروع کیا، مقررین کھنکھار کر گلا صاف کرتے، عربی میں کئی تمہیدی جملے پڑھتے پھر وہی دو جملے دہرا دیتے۔'' ہم خطرے میں ہیں ہمیں بچاؤ۔''
ایک کے بعد ایک سب آئے،سید العلماء، عظیم الملت، امیر الامت، حجۃ الاسلام، فضیلت مآب سب نے یہی کہا۔
دھوپ میں نڈھال مجمع بیچ بیچ میں نعرے لگاتا رہا۔
نورانی چہرے نمٹ گئے تو ناظم نے تعریفوں میں زمین آسمان ایک کرتے ہوئے صدر محفل کو خطاب کی دعوت دی، مجمع میں جوش بڑھ گیا۔ نعرے لگے اورصدرکی تقریر شروع ہوئی۔
صدر محفل نے لوگوں کا ریلی میں آنے پر شکریہ ادا کیا،اپنے نزدیکی لوگوں کا نام لے کر شکریہ ادا کیا، اللہ کا، حکومت کا شکریہ ادا کیا اور وہی دو جملے دہرا دیئے۔’’ ہم خطرے میں ہیں ہمیں بچاؤ‘‘۔
ریلی نمٹ گئی اور دن بھر دھوپ میں نڈھال ہونے والے لوگوں نے لڑکھڑاتے قدموں سے گھر کی راہ لی، سب کے دلوں میں اطمینان تھا کہ انہوں نے اپنے آپ کو خطرے سے نکال لیا ہے اور اب وہ بچ جائیں گے۔
رات کو صدر محفل نے اسی حجرے میں پھر انہیں نورانی بزرگوں کی میٹنگ بلائی، سب کو حق المحنت دیا گیا، محفل میں شامل کچھ بزرگوں کو محسوس ہوا کہ ناظم کہیں نظر نہیں آ رہا۔
ایک نے ہمت کرکے صدر محفل سے پوچھ لیا:
''ناظم صاحب کہاں ہیں؟''
صدر محفل، پہلے تو سوال سن کر سٹپٹایا، پھرسنبھلتے ہوئے بولا:
''وہ اگلی ریلی کی تیاری کرنے گئے ہیں۔''
سوال کرنے والوں کو جواب بھی مل گیا اور حق المحنت بھی، مزید سوال تھے نہیں اس لئے ایک بزرگ پکارے:
''اماں، چھوڑیئے یہ سب، یہ بتائیے کھانے میں کتنی دیر ہے؟! ''۔
(ختم شد)