بدھ، 12 اگست، 2015

قلم کار اپنے عہد کا گواہ ہوتا ہے

نام کتاب: سیاہ رات (ناول)
صفحات  :380
مصنف   : وکیل نجیب
تبصرہ نگار: محمد علم اللہ
            کہا جاتا ہے کہ قلم کار اپنے عہد کا گواہ ہوتا ہے جو بے انصافی ، ظلم ، تشدد اور معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف لڑائی لڑ رہا ہوتا ہے۔ ہمیں ایسے گواہان کی یقینا ضرورت ہے جو معاشرے کی نا ہمواریوں کو بہتر ڈھنگ سے درشا سکیں ، سچائی کو رقم کریں اور آنے والی نسلوں کے لئے دستاویز کو محفوظ کریں کہ وہ اس سے رہنمائی حاصل کریں ۔ وکیل نجیب کی کتاب سیاہ رات ہمارے موجودہ معاشرے کی عکاسی پر مبنی ناول ہے ، جسے بلاشبہ ایک دستاویزی ناول بھی کہا جا سکتا ہے ۔
            ناول 17دسمبر 1971ء کے ہنگامہ خیز واقعہ پاکستان بنگلہ دیش بٹوارے سے شروع ہوکر ہندوستان کے موجودہ حالات میں داخل ہوجاتی ہے جو ہندومسلم منافرت اور شر انگیزی کو خوبصورتی سے درشاتی ہے۔ اس میں اسلام کے نام پر مسلم نوجوانوں کو بہلا پھسلا کر غیر اسلامی کام کرانے کی بھی داستان ہے اور بالا صاحب اور اس قسم کے طرز فکر رکھنے والے افراد کی کہانی بھی۔ آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ ظلم و ستم کے متعدد طریقے اپنائے گئے ، جن میں فسادات سے لیکر نوجوانوں کی بے جاگرفتاری ، ریاستی دہشت گردی ، استحصال ، ظلم زیادتی سبھی کچھ شامل ہے ۔ ناول نگار نے ان تمام حالات و واقعات کو خوبصورتی سے داستان کی شکل دینے کی کوشش کی ہے اور اس کوشش میں بجا طور پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں ۔
            ناول کا مرکزی کردار بنگلہ دیش کاایک فراری اشرفل  ہے جو شیخ مجیب الرحمٰن کے عہد حکومت میں وزارت داخلہ کے دفتر میں ایک افسر کے طورپر کام کرتا تھا۔ مخالفین جب شیخ مجیب الرحمٰن کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے درپۂ آزار ہوگئے تو وہ یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنا وطن چھوڑ دینےپر مجبور ہوا  اور  ایک شب مختلف صعوبتوں کو برداشت کرتے ہوئے ہندوستان کی سرحد میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ یہاں آنے کے بعدجلد ہی اسے  ایک ہوٹل میں ملازمت مل گئی  ۔اشرفل اپنی لیاقت اور ایمانداری سے  مالک کا دل جیتنے میں کامیاب ہو گیا  اور ہوٹل کے مالک نے اشرفل سے متاثر ہوکر نہ صرف اپنے تمام بزنس کا ذمہ داراس کو بنا دیا  بلکہ اپنی مطلقہ  بیٹی سے شادی بھی کردی، جس کا ایک بچہ بھی تھا۔ بلوائیوں اور غنڈوں نے ایک دن مالک کے گھر پر حملہ بول دیا وہ بچہ کو لے کر ہاسپٹل گیا ہوا تھا اس لئے بچ گیا باقی سارے لوگ مارے گئے،  گھر جلاکر خاکستر کردیا گیا۔ خوف اور دہشت سے اشرفل  اپنے اس آشیانہ کو بھی چھوڑنے پر مجبور ہوااور ممبئی کی راہ لی۔ بچہ جو اب شلوک سے شاداب ہو گیا تھا  کو اس نے ایک مدرسہ میں داخل کروایا اور خود ایک چھوٹے سے قصبہ میں رہنے لگا، مسجد کے امام کی ایک مطلقہ بیٹی سے اس کی شادی بھی ہوگئی اور وہ ہنسی خوشی وہیں رہنے لگا ۔اس درمیان اسے بچے کا خیال بھی نہ آیا۔اشرفل جہاں مقیم تھا وہ ایک غیر متنازعہ زمین تھی ایک دن کچھ لوگوں سے لڑائی ہوگئی۔ لڑائی میں نادانستہ طورپر ایک شخص کا اس کے ذریعہ قتل ہوگیا اور اس کو جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا گیا۔ ادھر بچہ مدرسہ میں پڑھ کر جوان ہوا ، بچہ اپنی ذہانت اور محنت پر آگے بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ اس نے بی ایس سی میں بھی اچھے نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔ لیکن اس کے والدین نہ ہونے کی وجہ سے اسے کافی تکالیف اور مصیبتوں کا سامنا کرنا  پڑا ۔اسی درمیان اس کے تعلقات ایک تشدد پسند اسلامی تنظیم کے افراد سے ہوئی اور وہ اس کا رکن بن گیا ۔ رکن بننے کے بعد شاداب نے اس تنظیم کی رہنمائی میں کئی چڑھائیاں کیں اور اس میں کامیاب رہا ۔ ایک شام وہ ایسی ہی ایک بڑی مہم پر جا رہا تھا کہ اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا وہ جہاں گرا بے آب و گیاہ آبادی تھی ، بڑی مشکل سے چند قبائلی  اسے ملے جنہیں بلانے اور اپنی بپتا سنانے میں  شاداب کامیاب ہو گیا ۔قبائلی  اسے اٹھا کر اپنے گاؤں لے گئے ،علاج و معالجہ کیا اور مریض ٹھیک ہو گیا، تندرست ہونے کے ساتھ ہی شاداب نے اصلاح معاشرہ اور دعوت و تبلیغ کا کام شروع کر دیا اور گاؤں کو ایک مثالی گاؤں بنانے میں جٹ گیا ۔ اس کا یہ کام شر پسند عناصر کو پسند نہ آیا اور انھوں نے اس کے خلاف کارروائی شروع کر دی لیکن کیس جیتنے میں شاداب کامیاب ہو گیا ۔ اسی درمیان اشرفل جیل سے رہا ہوا اور شاداب کی کھوج میں نکل پڑا۔اپنے بیٹے سے ملنے کے بعد اشرفل اپنے کھوئے ہوئے میراث کو منہ بولے بیٹے کو پراپرٹی واپس دلانے آسام لے گیا جسے دوسرے لوگوں نے قبضہ کررکھا تھا جب شاداب کو اس کی پراپرٹی مل گئی تو اشرفل نے اپنے گھر کی راہ لی ،شاداب ممبئی کی ایک مسلم بستی  میں تعمیر وترقی کا کام کرنے لگا لیکن ہندو عوام کو اس پر اعتراض ہوا اور انہوں نے اس کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔اسی درمیان اشرفل کی بھتیجی کی شادی بنگلہ دیش میں تھی وہ وہاں گیا اورکچھ دنوں کے بعد شاداب اور اس کی بیوی کو بھی آنے کی دعوت دی ، جب دونوں بنگلہ دیش گئے تو وہیں  اس کے دشمنوں نے اس کا خاتمہ کردیا۔ اشرفل دشمنوں کو ختم کرنے نکلا۔ اسے اس میں کامیابی بھی مل گئی اور اپنے آپ کو بچانے کے لئے اس نے سیاہ راتوں میں خود کو گم کرلیا۔
کہانی یوں تو بنگلہ دیش کے لرزہ خیز حالات سے شروع ہوتی ہے لیکن پوری کہانی میں بنگلہ دیش  کی کم ہندوستان کی عکاسی زیادہ کی گئی ہے اس سے ہندوستان کے موجودہ عہد کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ناول کی بنت اچھی ہے لیکن بہاؤ نہیں ہے اور ایک اچھی اور عمدہ کہانی کی جو خصوصیات ہوتی ہیں وہ اس میں مفقود ہیں۔فکشن کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ قاری اس کو پڑھنے پر مجبور نہ ہو بلکہ وہ کتاب قاری کو اپنی جانب ملتفت کرلے اور ایک مرتبہ قاری جب اس کو پڑھنا شروع کرے تو ختم کرکے ہی دم لے اس حوالہ سے ناول بہت کمزور ہے۔زبان و بیان میں بھی کوئی ادبی رچاؤنہیں ہے ۔ بعض جگہوں پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ناول نگار زبردستی بات کو کھینچنے اور طول دینے کی کوشش کررہا ہے۔متعدد جگہوں پر مکالموں اور ڈائیلا گز میں تقریر کا گمان ہوتا ہے اور بعض جگہوں پر یہ تقریر اتنی لمبی ہو جاتی ہے کہ قاری کاذہن اصل مدعےہےپھسل جاتا ہے۔ پروف کی غلطیاں کم ، سر ورق مناسب اور کاغذ واجبی ہے ۔


  

۔۔۔مزید