اتوار، 31 مارچ، 2013

"تیرا عکس "


 (نانی مرحومہ کی یاد میں )

بھولتی ہی نہیں
وہ خزاں رت کی ساعتیں
جب تو جدا ہوئی تھی
٭٭٭


میں شاخ سے ٹوٹے
آوارہ
پتوں کی طرح بکھرا ہوا ہوں
اور آنکھوں میں
اشک لئے بیٹھا ہوں
ہواؤں کے تیز جھونكو ں میں
تیری ردائے شفقت
مجھے محفوظ رکھے ہوئے تھی۔
تجھے آخری بار دیکھنے کو
 میرے ڈگمگاتے قدم
 جم سے جاتے ہیں
میں ٹھہرکر دیکھتا ہوں
تیراآنسو ؤں سے بھیگا چہرہ
نظر آتا ہے
پھر میں ہاتھ اٹھا کر

الوداع کہہ دیتا ہوں
اور چل دیتا ہوں
٭٭٭

رفتہ رفتہ
تیرا چہرا
کہیں دور کھو جاتا ہے
مگر آنکھوں میں تیرا عكس
اب بھی باقی ہے
٭٭٭

اور ایک کسک کی طرح
یادوں کے دریچے
آج بھی کھلے ہیں۔
لگتا ہے
تو سامنے ہی تو ہے
سب دیکھتی سمجھتی ہے
اور میرے احساسات کی خاموشی کو
  چپ چاپ کھڑی تک
رہی ہے۔

۔۔۔مزید

پیر، 11 مارچ، 2013

چھوٹا سدھیر


چھوٹا سدھیر

محمد علم اللہ اصلاحی

جمعدار بے چارہ نو بجے ہی جگا دیا تھا۔ اور خود اپنے کام میں لگ گیا تھا، لیکن میں گھوڑے بیچ کرسوتا رہا۔ فجر کی نماز کے ساتھ ہی ناشتہ بھی گول کیا۔ آج اتوار کا دن جو تھا، مگر کیا میں اتوار کے علاوہ عام دنوں میں جلدی اٹھ جاتا ہوں؟ شاید نہیں!! یا اللہ! میں ان دنوں اتنا کاہل کیوں ہوتا جا رہا ہوں۔ کسی کام میں دل نہیں لگتا ۔ میں خود پریشان ہوں، مجھے کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔ دہلی میں رہنے کے دوران تو میرے معمولاتِ زندگی میں اتنا جمود کبھی نہیں رہا۔


جمعدار کمرے کی صفائی کر چکا تھا۔ میں دیر تک اپنے بارے میں اور اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ نہ جانے کب دوبارہ آنکھ لگ گئی اور اس وقت کھلی جب سورج کی کرنیں کھڑکی کے راستے کمرے کے اندر داخل ہونے لگیں۔ دن کے بارہ بج رہے تھے ۔ پورافرش چم چم کر رہا تھا ۔ اخبار سلیقے سے کرسی پر رکھا تھا ۔ یہی کمرہ جو کل تک کاغذ پتروں کے ڈھیر، بے ترتیب سامان ، بکھرےجوتے چپل اور بے ترتیبی کے بیسیوں مناظر پیش کر رہا تھا۔ سلیقے کا شاہکار بنا ہوا تھا۔ میں عالمِ حیرت و استعجاب میں منہ دھونے گیا تو غسل خانے میں جمعدار اپنے کام میں منہمک تھا۔ وہ دیوار میں لگے آئینہ کو صاف کر رہا تھا۔ شاید اس نے آئینہ میں میرا عکس دیکھ لیا ۔


ابھی ذرا انتظار کیجیے صاحب جی! بس تھوڑی دیر اور لگے گی ، بڑی مہربانی جی۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میں کمرے میں واپس آ گیا اور منہ دھوئے بنا ہی اخبار پڑھنے لگ گیا، 
لیکن میر ا دھیان خبروں کے بجائے جمعدار کی طرف تھا میں نے اکتا کر اخبار رکھ دیا اور سوچنے لگاکس قدر پیار ہے اسے اپنے کام سے، واہ رے انہماک اور دل چسپی!۔

اس سے پہلے بھی ایک جمعدار آتا تھا جھاڑو لگانے، لیکن وہ عجیب شخص تھا۔ اگر اسے ایک مرتبہ کہہ دیا جاتا: ”ارے چھوڑو یار!“ تو وہ چھوڑ کر چلا جاتا اور یوں تو ہفتوں جھاڑو نہ لگتی، اسے بلایا جاتا، تو وہ کنی کترا جاتا۔ لڑکے اسے گالیاں دیتے، برا بھلا کہتے، شاید ہاسٹل انتظامیہ نے بھی اسی لیے اسے ہر کمرے کے طالب علم سے رجسٹر پر روزانہ دستخط کرانے کے لیے کہا ہوا تھا، اس بات کی تصدیق ہو کہ اس نے سچ مچ جھاڑو لگائی ہے۔ یوں بھی ہوتا کہ جھاڑو ہی نہیں لگاتا تھا اور کہتا: ”بھائی صاحب! دستخط کر دونا!!“ میں مسکراتا اور تکیے کے نیچے سے قلم نکال دستخط کر دیتا یا کہہ دیتا: ”ابھی سونے دو یار، بعد میں کرا لینا۔“ لیکن وہ ضد کرنے لگتا اور مجھے دستخط کرنے پڑتے۔

اور ایک یہ ’’چھوٹا سدھیر‘‘۔ مجال ہے کبھی اپنی ذمہ داری سے غافل ہو۔ بلا ناغہ آتا ہے۔کبھی کبھی کاہلی میں اگر میں یہ کہہ بھی دوں: ”چھوڑو یار! کل آکر کرجانا۔
تو کہتا ہے: ”صاحب جی! آج کا کام کل پر نہیں ڈالنا چاہیے۔ آپ صرف دروازہ کھول دیں، میں جھاڑو لگا کر چلا جاؤنگا۔“ خود پر جبر کرتے ہوئے، نہ چاہتے ہوئے بھی میں اٹھ کر دروازہ کھول دیتا اور وہ خوش دلی سے اپنا کام کر کے چلا جاتا ہے۔ 

نہ تو اس کے پاس کوئی رجسٹر ہے اور نہ وہ مجھے دستخط کے لیے کہتا ہے۔ اسے کہنے لکھوانے کی ضرورت ہی کہاں ہے!

۔۔۔مزید

ہفتہ، 9 مارچ، 2013

ایک نایاب مگر نادر خط

محمد علم اللہ اصلاحی 

آج آپ کی خدمت میں مولانا امین احسن اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک نایاب مگر نادر خط ارسال کر رہا ہوں ۔مولانا اصلاحی کے ذریعہ لکھے گئے اس خط کو پڑھ کر میں خود اپنے آنسوؤں کو ضبط نہیں کر سکا اوردیر تک روتا رہا ۔پتہ نہیں کیوں ؟ابھی بھی میں اسے ٹائپ کر رہا ہوں تو آنکھوں سے آنسو جا ری ہے ۔یہ خط مجھے کیسے ملا عرض کئے دیتا ہوں تاکہ آپ کو سمجھنے میں آسانی ہو ۔

بات در اصل یوں ہوئی کہ آج جب میں حسب معمول جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ڈاکٹر ذاکر حسین لائبریری گیا تو میری نظر جنگ گروپ کی جانب سے شائع کردہ ایک کتاب’’ جنھیں میں نے دیکھا ‘‘مصنف ’’کوثر نیازی ‘‘مرحوم پر پڑی ۔ابھی میں نے کچھ ہی دنوں قبل جوش ملیح آبادی کی کتاب یادوں کی بارات ختم کی تھی جس میں جوش صاحب نے کئی جگہ مولانا کوثر نیازی کا تذکرہ کیا تھا ۔شاید اس وجہ سے بھی سر ورق دیکھتے ہی کتاب نے اپنی جانب کھینچا ۔ اس کے مشمولات پرنظر دوڑائی تو نگاہ علامہ ’شورش کاشمیر ی ‘(مرحوم )جو میرے پسندیدہ قلم کا روں میں سے ایک ہیں پر جا کر ٹک گئی ۔اس مضمون میں مولانا ’کوثر نیازی ‘(مرحوم )نے خوبصورتی کے ساتھ شورش صاحب سے اپنے تعلقات ،علمی و ادبی چشمک، خطابت و صحافت اور ان کی عظمت پر سیر حاصل گفتگو کی ہے ۔یوں تو پورا مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس کا وہ حصہ جس میں مرحوم نے شورش صاحب سے اپنی صحافتی چشمک کا ذکر کیا ہے بڑا ہی دلچسپ اور عبرت آموز ہے ۔دونوں بزرگوں کے درمیان یہ معرکہ اس قدر سنگین صورتحال اختیار کر گیا تھا کہ معاملہ ذاتیات تک پہنچ چکا تھا۔بہت سارے لوگ تشویش میں مبتلا تھے لیکن کسی کو بھی ہمت نہ ہوتی تھی کہ بیچ میں پڑ کر اس معاملہ کو رفع کرانے کی کوشش کی جائے ۔ 


مولانا نیازی کہتے ہیں کچھ لوگوں کی سازشوں اور آگ لگاؤ تماشہ دیکھو جیسے افراد سے ا س میں اور بھی شدت آ گئی تھی اور ایسے افراد دونوں ہی جانب سے تھے ۔انھوں نے لکھا ہے’’ روزنامہ’’ وفاق ‘‘لاہور کے مدیر اعلی جناب مصطفی صادق کو جب اس بات کا علم ہوا تو وہ بے چین ہو اٹھے ۔انھیں معلوم تھا کہ ہم دونوں مولانا امین احسن اصلاحی مد ظلہ العالی کے نیاز مند ہیں ۔میں تو خیر مولانا اصلاحی کے خرمن علوم قران کا با قائدہ خوشہ چیں تھا اور ان کے شاگرد کا درجہ رکھتا تھا ۔شورش مرحوم بھی ان سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے ۔مصطفی صادق ان کے پاس پہنچے اور ان سے ہم دونوں کے نام ایک خط حاصل کر لیا ۔یہ خط بجائے خود لائق مطالعہ ہے قارئین کو اس سے علمائے حق کے جذبۂ اصلاح اور سوز قلب کا اندازہ بھی ہوگا اور طرز نصیحت کا فائدہ بھی۔ اس لئے اسے تبرکا ذیل میں پیش کرتا ہوں ۔مولانا اصلاحی نے لکھا ‘‘۔


’’برادر مکرم شورش صاحب اورعزیز کوثر صاحب‘‘
’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ادھر کچھ عرصہ سے آپ دونوں کے اخبارات’’ چٹان ‘‘اور ’’شہاب‘‘میں نہایت ناگوار قسم کی ذاتیاتی بحث چھڑی ہوئی ہے ۔اس سے مجھکو جہاں تک اندازہ ہے آپ دونوں کے مخلص قدر دانوں کو روحانی اذیت ہے ۔میں نے ایک بار ارادہ کیا کہ آپ دونوں صاحبوں سے ملکر خدا اور رسول کا واسطہ دیکر یہ التجا کروں کہ اس جنگ کو فی الفور بند کر دیجئے ،لیکن محض اپنی کم حیثیتی پر نگاہ کر کے یہ جرات نہ کر سکا مگر اب معاملہ نے جو سنگین نوعیت اختیار کر لی ہے جب میں اس کے دور رس نتائج پر قومی و اسلامی نقطہ نظر سے غور کرتا ہوں تو یہ محسوس کرتا ہوں کہ میں اخلاق اور انسانیت کا بھی اور آپ دونوں کا بھی مجرم ٹھہروں گا ۔اگر اس موقع پر وہ حق خیر خواہی ادا نہ کروں جو آپ دونو ں صاحبوں سے متعلق مجھ پر عاید ہوتا ہے ۔بلاشبہ یہ درجہ تو نہیں رکھتا کہ آپ لوگوں کو ئی نصیحت کر سکوں لیکن اس امر سے آپ دونوں میں سے کوئی مشکل ہی انکار کر سکے گا کہ یہ ناچیز آپ دونوں ہی سے یکساں طور پر دیرینہ روابط الفت و اخلاص رکھتا ہے ۔اس تعلق نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں آپ دونوں حضرات سے دست بستہ درخواست کروں کہ آپ اس بحث کو اپنے اخبارات میں بند کر دیجئے !گرچہ اس وقت جذبات کے اشتعال میں میری یہ درخواست ممکن ہے دل پر گراں گذرے لیکن اگر اپنے ایک مخلص کی درخواست سمجھ کر آپ دوستوں نے اس کی لاج رکھ لی تو اس سے میرا سر اونچا ہوگا اور میں اس کو اپنے رب کے سامنے سجدے میں ڈال دونگا کہ اس نے مجھ جیسے ناچیز سے ’’اصلاح ذات البین‘‘کی ایک خدمت لی جو شاید میری نجات کا ذریعہ بن سکے ‘‘۔


تاریخ درج نہیں ہے ۔تاہم مولانا نیازی نے لکھا ہے استاذ مکرم کا یہ والا نامہ ہمارے اصلاح احوال کے لئے کافی تھا مولانا نے خط پر تبصرہ کرتے ہوئے آگے تحریر فرمایا ہے :’’آپ نے مولانا اصلاحی مد ظلہ العالی کا مکتوب ملاحظہ فرمایا جہاں یہ خط ادب و انشائے عالیہ کا نادر نمونہ ہے وہیں اس کے لفظ لفظ سے لکھنے والے کا خلوص ٹپک رہا ہے ۔ساتھ ہی اس کی عاجزانہ طبیعت بھی مترشح ہے ۔دو بھائیوں کے درمیان صلح کرانے میں جو دل سوزی حضرت مولانا نے دکھائی کاش!اس دل سوزی سے مالا مال کچھ شخصیتیں اس دور میں بھی ہوتیں تو ہمارے کتنے قومی مسئلے حل ہو چکتے ‘‘

۔
درست فرمایا مولانانیازی نے اب تو ایسے لوگ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے ۔نہ تو اب ایسے لائق و فائق شاگرد ہیں اور نا ہی استاذ۔۔۔ !!


آئے عشاق گئے وعدہ فردا لیکر
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لیکر
(علامہ اقبال)


کیا لوگ تھے جو راہِ جہاں سے گزر گئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں
(حفیظ میرٹھی) 

۔۔۔مزید

جمعرات، 7 مارچ، 2013

استاد محترم جناب الف عین صاحب سے ملاقات کا قصہ:


محمد علم اللہ اصلاحی 
میں نے آج سے تقریبا پندرہ دن قبل جوش میں آ کر استاد صاحب سے کہہ تو دیا کہ میں ضرور آپ سے ملاقات کروں گا، خواہ اس کے لئے مجھے علی گڈھ ہی کیوں نہ آنا پڑے۔
استاد محترم نے بڑی خوشی کا اظہار فرمایا، لیکن سچ پوچھئے تو یہ ایام اور دنوں کے بہ نسبت کچھ زیادہ ہی مصروفیت میں گزرے اور میں نہ تو علی گڑھ جا سکا اور نہ ہی اس درمیان ملاقات کا خیال آیا۔
رات گئے دیر تک جاگنا اور دن میں کلاس اور ٹیوشن وغیرہ کی مصروفیات کے باعث مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ میں نے کسی سے کچھ وعدہ بھی کیا ہے۔
4مارچ کی صبح تقریبا 10بجے فون کی گھنٹی بجی، تب خیال آیا کہ میں نے کسی سے کچھ وعدہ بھی کیا تھا ؟
بہر حال جب فون آیا تو پہلے پہل تو ذہن میں یہ بات آئی کہ چلو فون کاٹ دیتے ہیں، لیکن پھر اچانک ہی مجھے احساس ہوا کہ نہیں مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے اور اس خیال کا آنا تھا کہ انگلی خود بخود ریسیو کے بٹن پر پہنچ گئی۔
ادھر سے آواز آئی:
”علم اللہ بول رہے ہو؟ میاں! میں اسٹیشن میں تمھارا انتظار کر رہا ہوں، کہاں ہو؟“
یہ سنتے ہی ایک طرف تو ملنے کی خواہش اور دوسری طرف ظالم ٹیچر کی کلاس۔ بہر حال میں نے فیصلہ کیا کہ کلاس جائے بھاڑ میں۔ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ یہ سوچتے ہی میں نے جلدی جلدی بیگ اٹھایا اور بھاگا۔
بس سے جانے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ یہ میرے بس کا روگ بھی نہیں ہے، سو میں نے آٹو لیا اور تقریبا ایک گھنٹے کی مسافت طے کر کے پہنچ گیا نئی دہلی ریلوے اسٹیشن۔
اسٹیشن پہنچتے ہی استاد محترم کو فون کیا اور یوں مجھے ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوگیا۔
محفل میں تصویر دیکھ کر میں نے اپنے ذہن میں جو ہیولیٰ بنایا تھا، اگرچہ اس سے ان کا نقشہ بالکل بھی میل نہیں کھا رہا تھا،لیکن میں نے دیکھا کہ استاد محترم دور ہی سے ہاتھ ہلاتے ہوئے مسکرا رہے ہیں۔
قریب گیا، سلام کیا اور معانقہ بھی ہوا۔
یہاں پر میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ وہ نقشہ جو میں نے اپنے ذہن میں بنایا ہوا تھا کیسا تھا؟ ٹھیک اسی طرح جب کوئی انسان کسی کی بابت اس کی تحریریں پڑھ کر، اس کے بارے میں لوگوں سے سن کر یا پھر اس کے کام اور کارکردگی کو دیکھ کر اپنے ذہن میں خاکہ سا بنا لیتا ہے اور سوچتا ہے کہ وہ اسی طرح ہونگے۔ سو میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور میں نے بھی اولاً اپنے ذہن میں ایک خاکہ سا بنا لیا تھا کہ جن سے ملنے جا رہا ہوں وہ ایسے ہونگے، ویسے ہونگے وغیرہ وغیرہ۔
میرے ذہن میں ایک بزرگ اور پیر مغاں جیسے کسی شخص کی تصویر گر دش کر رہی تھی، میں سوچ رہا تھا آگے پیچھے ان کے حواری ہوں گے، حشم و خدم ہوں گے، جیسا کہ آج کل عموما پڑھے لکھے اور مالدار لوگوں میں دیکھنے کو مل جا تا ہے۔
مگر یہ کیا۔۔۔ ۔! جب ملاقات ہوئی تو ایسا کچھ بھی نہ تھا، بلکہ ایک عام سا دبلا پتلا آدمی ،مسکراتا چہرہ ، سفید ہوتے ریش مبارک اور بال،صحت مند اور ہٹے کٹے، نہ کوئی ٹپ ٹاپ، نہ کسی قسم کا تصنع اور دکھاوا ، معمولی قسم کا ایک بیگ اپنی پیٹھ پر لادے ہوئے ہیں، جس میں ایک چھوٹا سا لیپ ٹاپ اور کچھ کپڑے ، ہاتھ میںایک پرانا سا تھیلا تھامے ہوئے استقبال کے لئے کھڑے تھے۔
تھیلے میں سے بھی علمی و ادبی رسالوں کے کئی تازہ شمارے باہر جھانک رہے ہیں۔
جب میں نے یہ سوچ کر کہ سامان بھاری ہوگا ان کا تعاون کرنا چاہا تو فرمانے لگے:
”نہیں، نہیں، بھاری نہیں ہے۔“
میں بضد ہوا اور تھیلا اپنے ہاتھ میں لے ہی لیا تو پتا چلا کہ یہ تھیلا بھی بستہ ہی ہے،جس میں کئی کتابیں رکھی ہیں،اور کچھ معمولی سامان۔
خیر یہ تو میرا اپنا تاثر تھا ایک اور محفل کے ساتھی اشرف بستوی کی کہانی سنئے !وہ بھی ملاقات کے لئے آنا چاہ رہے تھے لیکن اپنی مصروفیت کے سبب نہیں آئے ۔ابھی میں الف عین صاحب سے بات ہی کر رہا تھا کہ ان کا فون آیا اور انھوں نے بات کرانے کی گزارش کی میں نے فون استاذ محترم کو دے دیا ۔ دونوں کے درمیان بات شروع ہوئی اورتھوڑی ہی دیرکے بعد فون کٹ گیا ۔اور دوبارہ فون کی گھنٹی بجی اشرف صاحب ذرا غصہ مگر پیار سے کہنے لگے یار ! الف عین صاحب سے بات کرا !فون پرآواز بدل کر بات مت کیا کرو !
میں نے کہا آپ انھیں سے تو بات کر رہے تھے ۔مگر اشرف صاحب کو یقین ہی نہیں آتا تھا ۔آخر میں مجھے قسم کھا کر انھیں یہ یقین دہانی کرانی پڑی کہ آپ کی بات انھیں سے ہو رہی تھی تب انھیں سکون ملا ۔بعد میں انھوں نے مجھے بتایا محفل میں تصویر دیکھ کر میں سمجھ رہا تھا کہ کوئی بزرگ ہونگے لیکن آواز سے تو ایسا نہیں لگ رہا تھا ۔پھر میں نے انھیں بتایا ہیں تو بزرگ ہی لیکن آواز 20،25والی ہی ہے تو ہنسنے لگے ۔
لیکن سہی بات تو یہ ہے کہ میری بھی جب پہلی مرتبہ بات ہوئی تھی تو میں بھی ایسا ہی سمجھا تھا ۔
خیریہاں اسٹیشن میں کھڑے کھڑے نہ جانے ہم نے کتنی باتیں کر لیں،مجھے اچانک خیال آیا کہ چائے وغیرہ پینی چاہئے کہ اسٹیشن میں اس کے علاوہ اور ملتا بھی کیا ،میں چلنے کے لئے کہا تو استاذ محرم نے بتایا ایک اور صاحب ملاقات کے لئے آنے والے ہیں اور وہ بھی محض انٹرنیٹ ہی کے ذریعے جانتے ہیں پھر چلیں گے ۔
کافی انتظار کے بعد وہ صاحب آئے۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ وہ صاحب کون ہیں؟
وہ صاحب معروف اردو ناول نگار ”مشرف عالم ذوقی“ تھے۔
آتے ہی دونوں خوب تپاک سے ملے اور پھر فورا چائے اور ناشتے وغیرہ کے لئے جگہ کی تلاش شروع ہوئی۔
سامنے ہی ایک عالی شان ریستوران تھا۔ ہم لوگ وہاں گئے اور گرما گرم پنیر، پکوڑے اور کافی پی، حالانکہ مشرف صاحب تو لنچ کرانے کے لئے بضد تھے، لیکن میری بھی طبیعت بالکل کھانے کی نہیں تھی اور استاد محترم نے تو پہلے ہی منع کر دیا تھا۔
بہر حال چائے کے دوران کافی علمی اور ادبی گفتگو ہوتی رہی جس میں ہندوستان اور پاکستان کے کئی لوگوں کے نام سننے کو ملے۔
مشرف صاحب تو ”اردو محفل “اور” بزم اردو “کا سن کر حیرت زدہ تھے کہ اردو میں اتنا اچھا کام ہو رہا ہے،لیکن وہ ہندوستانی ادیبوں سے کافی مایوس نظر آئے، ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں جتنے بھی ادیب یا اردو لکھنے والے بڑے لوگ ہیں، ان کو انٹرنیٹ یا سائبر کی دنیا سے تو کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔
خیر اس کے بعد ہم بذریعہ کار نطام الدین ریلوے اسٹیشن پہنچے کہ استاد محترم کو یہیں سے ٹرین پکڑنی تھی۔
یہاں آنے کے بعد مشرف صاحب پھر بضد ہوکر کہنے لگے: ”نہیں، آپ لوگوں کو کچھ تو لینا ہی پڑے گا۔
تو میں نے کوک لیا، استاد محترم کو بھی کوک دلایا اور زبردستی کھانا بھی کھلایا۔
یہاں بھی مختلف موضوعات فلم، ادب اور آرٹ کے حوالے سے کافی معلوماتی گفتگو ہوئی، دوران گفتگو کئی پردہ نشینوں کے نام بھی آئے، جو اردو کے نام میں اپنی روٹیاں سینک رہے ہیں، لیکن حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو وہ کہیں بھی معیار اور کسوٹی میں نہیں ٹھہرتے۔
یہاں کچھ ہی دیر رکنے کے بعد مشرف صاحب کو چونکہ کسی ضروری اور اہم میٹنگ میں جانا تھا سو وہ چلے گئے۔ میں نے بھی سوچا جب کلاس بنک کر ہی دیا ہے تو کیوں نہ کچھ چیزیں سیکھ لوں۔ اسامہ سرسری بھائی کی وہ بات مجھے یاد آئی جو انھوں نے محفل میں اس تعلق سے کہی تھی کہ محترم سے خوب فائدہ اٹھانا۔
بہت زیادہ فائدہ اٹھانے کا موقع تو نہیں ملا، لیکن ہاں مزہ آیا اور سچ مچ کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع مل ہی گیا۔
استاد محترم نے اردو کمپیوٹنگ سے متعلق کئی اہم چیزیں بتائیں۔ انھوں نے ان پیج سے ڈائریکٹ کاپی پیسٹ ورڈ میں کر سکنے والا سافٹ ویر بھی دیا، لیکن افسوس کہ میں نے اس کوہاسٹل آنے کے بعد اپنے کمپوٹر میں چلانے کی کوشش کی تو وہ چلانہیں۔
سچ پوچھئے تو ہماری یہ تین چار گھنٹے کی ملاقات بڑی اچھی اور یادگار رہی۔
ٹرین کا وقت بھی ہو چکا تھا، باتیں بہت تھیں، لیکن مجھے ”الوداع“ کہنا ہی پڑا اور استاد محترم نے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے دعائیں دیں اور فرمایا: ”ٹھیک ہے بیٹا! پھر ملیں گے۔
اور ٹرین سیٹی بجاتی ”چھک چھک“ کرتی منزل کی طرف بڑھ گئی۔ میں تھوڑی دیر تک ٹرین کو دیکھتا رہا اور پھر میں بھی ہاسٹل کی طرف چل دیا۔

۔۔۔مزید

اے کاش!!!


محمد علم اللہ اصلاحی
کتنے ہی خیالات جگنووں کی طرح دماغ کی تاریکیوں میں آتے ہیں ، جگمگاتے ہیں،مگر پھر فوراً بجھ جاتے ہیں۔ میں انھیں پکڑنے کے کئی کوشش کرتا ہوں۔ ان میں سے کبھی کوئی جگنو ہاتھ آیا تو آیا۔ نہیں تو یہ عمل رات بھر جاری رہتا ہے۔صبح کے اجالے میں جب یہی جگنو تتلی بن جاتے ہیں تو اور زیادہ دل لبھانے لگتے ہیں۔ میں بے اختیار اپنی ہتھیلیاں ان کے آگے پسار دیتا ہوں، لیکن تب بھی کوئی تتلی کہاں میری ہتھیلی پر آکر بیٹھتی ہے۔ اے کاش! یا تو تاریک شب اور دراز ہو جائے، تاکہ میں کسی جگنو جیسے جگمگاتے خیال کو گرفت میں لاسکوں یا میری ہتھیلیوں پر پھولوں سی وہ تازگی آجائے کہ بکھرے مگر نکھرے خیالات کی ادھر سے ادھر اڑتی تتلیاں ان پر آ بیٹھے۔
 !!!اے کاش





۔۔۔مزید

دیر رات کی ڈائری

محمد علم اللہ اصلاحی

حمد علم اللہ اصلاحی
کبھی کبھی لگتا ہے کہ جیسے جو ہونا تھا وہ نہ ہو کر بھی کچھ اور ہی ہونا ہوتا گیا۔ اتنی الجھنیں اوراس پر نیند کا نہ آنا۔ رات تین بجے تک کروٹیں بدلتے رہے۔اور اس ہونے اور نہ ہونے کے درمیان خود پر ہی جھلاتے رہے۔

رہ رہ کر روم پارٹنر کے خراٹے کی کریہ اور دل آزار آواز اور پھر اوپر سے مچھروں کی یلغار۔

 کم بخت نیندبھی عجیب شئے ہے وقت بے وقت کبھی بھی آجائے گی اور کبھی بھی روٹھ کر چلی جائے گی کہ مت پوچھئے ۔میں خود سے بڑبڑاتا ہوں ۔ارے جب جانا ہی تھا تو ہمیں بھی ساتھ ہی لے جاتے۔کبھی کبھی خود پر غصہ بھی ٓتا ہے ۔خدا سے فریاد کرتا ہوں ! بار الہ !!نیند کا کچھ توبندوبست کرکہ تجھ پر ہی بھروسہ ہے۔

اللہ نے دعا سن لی اور نیند دوبارہ لوٹ آئی ۔صبح پھر الارم میاں گرجدارآواز سے ہی گئی جو ۔اپنی بندوق تانے سر پر کھڑے تھے۔فورا اس کی زبان بند کی ۔اور خود پر جبر کرتے ہوئے بستر سے اٹھ بیٹھے ۔اور پھر شروع ہو گئی نہانے ،دھونے اور ناشتہ کے بعد معمولات زندگی ۔وہی روز مرہ کی روٹین کے مطابق ۔

مگر پورے دن مختلف قسم کے خیالات آتے رہے ۔کبھی خوشی کبھی غم ،کبھی حسرت کبھی مایوسی ،کبھی امیدی کبھی نا امیدی ۔

سچ مچ دماغ کا پڑھا لکھا ہونا بھی عجیب بیماری ہے۔ آپ نہ سوچنا چاہیں ۔پھر بھی سوچیں گے کہ آپ ساری دنیا کو اپنے سر پر اٹھائے پھر رہے ہیں۔سارے جہاں کا غم جیسے آپ کے ہی جگر میں ہو اور آپ ان تمام الجھنوں کو حل کرنے کی ڈیوٹی پر ہوں۔

کبھی کبھی لگتا ہے کہ میں خود کون ہوں؟ اس اقتصادی سیکورٹی اور اپنے فرائض کے درمیان جھولتا ہواانسان۔ یا خود کے ہونے کو ثابت کرنے کی جدوجہد میں لگا ہواایک بے راہ رو مسافر جسے نا تو منزل کا پتہ ہے اور نا ہی راہرو کا ۔ انہیں نشان قدم پر چلتا ہوا کہ جس پر چل کر آدمی نہ جانے کہاں کو چلتا چلا جاتا ہے، اسے خود بھی نہیں پتہ۔



۔۔۔مزید

جمعہ، 1 مارچ، 2013

میڈیا اور اس میں مسلمانوں کی حصہ داری


محمد علم اللہ اصلاحی   
یہ بات مسلمانوں کے ذہن میں بہت ہی عام ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے میں میڈیا نے بہت ہی اہم رول ادا کےا ہے اور اس کا معاندانہ رویہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ آج بھی جاری ہے اور مسلمان اس سوئے ظن مےں حق بجانب بھی ہیں۔ لیکن دوسری طرف میڈیا جب اسلام کے خلاف کوئی بات نہ کہے تب بھی دنیا میں بد عقیدگی اور گمراہی کو عام ہی کر رہا ہے کیونکہ ٹی وی اور ریڈیو پر نشر کی جانے والی فحاشیاں اور گمراہیاں ہر گھر میں ان ہی کے ذریعہ عام ہو رہی ہیں،کہیں سننے میں آتا ہے کہ فلاں لڑکا کسی لڑکی کو لے کر بھاگ گیا۔ کہیں یہ سننے میں آتا ہے کہ پچپن سال کے بوڑھے نے ایک کمسن بچی کی عصمت دری کی۔آخر یہ سب کیوں ہو رہا ہے ؟ وجہ صرف یہ ہے کہ ٹی وی وغیرہ پر دیکھ اور سن کر ہی ایک انسان یہ سب کچھ سیکھتا اور کرنے کی کوشش کرتا ہے ،ا گرچہ یہ دےکھنے میں مسلمانوں کے خلاف سازش نہیں لیکن اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے اس لئے زیادہ ضروری ہے کہ مسلمان اس کی روک تھام کے لئے اقدام بلکہ پہل کرےں، اس لئے کہ جس لیول پر دشمن فحاشی پھیلا رہا ہے اس سے کہیںبڑے پےمانے پر اس کی روک تھام ہونی چاہےے اور مسلمان تو خیر امت ہے جس کا پہلا فریضہ ہی امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔

اس تناظر میں جب ہم موجودہ میڈیااور اس کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں تو تین چیزیں ابھر کر سامنے آتی ہیں :
 ۔میڈیا کا اسلام کو بدنام کرنے میں بہت ہی اہم رول رہا ہے۔
 ۔میڈیا بدعقیدگی اور فحاشی کو عام کر رہا ہے۔
 ۔ ضروری ہے کہ مسلمان میڈیا کو اپنے استعمال میں لائیں۔

پہلے نکتہ پر بے شمار لوگوں نے باتیں کی اور لکھا ہے کہ میڈیا کا رویہ اسلام کے ساتھ کیسا رہا ہے۔ لیکن الیکٹرانک میڈیا جس طرح سے فحاشی اور بدعقیدگیوں کو پھیلا رہا ہے، اسے بھی دور کرنا اشد ضروری ہو گیا ہے کیونکہ میڈیا کی ضرورت آج ہر انسان کو ہے، اس کے ذریعہ دلچسپ اور آسان انداز سے معلومات میں اضافہ بھی ہوتا ہے ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ فحاشی بھی ہوتی ہے جسے گوارا کرنا اس کی حماےت کرنا ہے، بالخصوص ایک مسلمان جو خیر امت کا دعوے دار اور مستحق ہے وہ اپنے اس عہدہ کی ذمہ داری اسی وقت پوری کرسکتا ہے جب وہ فحاشی پر خاموشی اختیارنہ کرے بلکہ اس کی روک تھام کرے اور اسلام پر ہونے والی تہمت تراشیوں کا کھل کر جواب دے، اس مہم کو چلانے کے لئے خود اس کے پاس کوئی ایسا ذریعہ یا طاقت ہونی چاہیئے جو کارآمد ثابت ہواور وہ طاقت یقینا میڈیا ہی ہے بالخصوص الیکٹرانک میڈیا۔اس لئے اس مضمون میں ہم اسی پر گفتگو کریں گے۔

ضروری ہے کہ ہم پہلے میڈیا کے معنی اور مفہوم کو سمجھ لیں ۔میڈیا دراصل معلومات کو جمع کرنے اور اس کی ترسیل کرنے کو کہتے ہیں،اس کی دو قسمیں ہیں:

1۔پرنٹ میڈیا :اس میں روزنامہ، ماہنامے اور دیگر طباعتی کتب و مواد شامل ہے ۔
2۔الیکٹرانک میڈیا:اس میں ریڈیو، ٹی وی، انٹرنیٹ اور سی ڈی ، ڈی وی ڈیز وغیرہ کے نام آتے ہیں ۔

ایک آدمی جو پڑھنا لکھنا جانتا ہو اس کے لئے تو پرنٹ میڈیا بہت ہی فائدہ مند ہوتا ہے لیکن دیگر افراد جنہیں پڑھائی اور لکھائی سے کوئی شغف اور واسطہ نہیں پرنٹ میڈیا ان کے لئے کورے کاغذ کے علاوہ اور کچھ نہیں ، وہیں الیکٹرانک میڈیا دونوں طرح کے افراد کے لئے یکساں طور پر سود مند اور کار آمد ثابت ہوتا ہے ، اسی لئے آج یہ کتابوں رسالوں اور اخباروں سے زیادہ ریڈیو ٹیلی ویزن اور ویب سائٹس پر اثر انداز ہو رہا ہے اور اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے غیر قوموں نے اس کے اندر قدم رکھا اور ترقی حاصل کی اور جس چیز سے ان کے ذاتی مفاد اور ان کے آبائی دین کو خطرہ لاحق ہوتا نظر آیا اسے ان لوگوں نے ہدف ملامت بناےا، اس مےں بدنمائیاں پےدا کیں، اس کے حقائق کو مسخ کر کے لوگوں کے سامنے پےش کےا اور یقینا ان کے لئے خطرہ اسلام ہی تھا کیونکہ اسلام دیگر مصنوعی اور تحریف شدہ ادیان کی طرح نہ کسی سے گناہ اور برائی میں سمجھوتہ کرتا ہے اور نہ ہی اپنے ماننے والوں کو اس کی اجازت دیتا ہے۔نہ صرف اسلام بلکہ ہر اس حقےقت پر پردہ ڈالا گےا جس کے واضح ہوجانے سے ان کے مفادات کو ٹھےس لگتی ےا ان کے اپنے مخالفےن کی مطلب براری ہوتی۔

گذشتہ دو عشروں سے پوری دنیا پرالیکٹرانک میڈیاکی یلغارہے۔جس نے معاشرتی واخلاقی اقدارکوبدل کررکھ دیا ہے۔ اگرچہ اخبارات ورسائل میں بھی روزافزوں ترقی کاعمل جاری رہا لیکن نجی ٹی وی چینلوں نے اسلامی ثقافت پر گہری ضرب لگانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔اس سلسلہ میں ہم یہاں پرایک انگریزی جریدہ میں شائع مضمون کا ایک اقتباس نقل کرتے ہیں ۔

 اسلام کے خلاف جنگ صرف فوجی میدان میں نہیں ہوگی بلکہ ثقافتی اورتہذیبی میدان میں بھی معرکہ آرائی ہوگی۔ امریکی فلمی مرکز ہالی ووڈ اسلام مخالف سازشوں کا مرکز گردانا جاتاہے۔ ایک صدی سے زائد مدت سے یہاں فلموں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و کدورت، بغض وکینہ پوری دنیا میں پھیلایا جارہا ہے۔ بیسویں صدی کی آخری دودہائیوں میں ہالی ووڈنے مسلم دشمنی پرمبنی فلمیں ’ڈیلٹافورس‘، ’انتقام‘، ’آسمان کی چوری‘ بنائیں، جب کہ ورلڈٹریڈ سنٹرکا تجرباتی ڈراما اسٹیج کرنے کے لیے ۲۹۹۱ء میں’حقیقی جھوٹ‘ اور ’حصار‘ وغیرہ نامی فلمیں تیار کی گئیں، ان فلموں میں اسلام اور مسلمانوں کا تشخص بری طرح مجروح کیا گیا ہے۔

باطل نے دنیابھر کی معیشت اور میڈیا پر اپنا قبضہ جما رکھا ہے،اسلام کے خلاف پروپیگنڈا مہم اس میڈیا کا مستقل موضوع ہے، کبھی مغربی ممالک کے اخبارات میں توہین آمیز خاکے شائع کیے جاتے ہیں اور کبھی ہالینڈ میں قرآن اور اسلامی شعائرکے خلاف فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ مغربی میڈیا وقتاً فوقتاً مسلمانوں کو’دہشت گرد‘، ’جہادی‘ اور’بنیادپرست‘ ثابت کرنے کے لیے اپنی مہم چلائے رکھتا ہے۔

حق کے خلاف باطل کا ایکا کوئی نئی چیز نہیں لیکن آج یہ اتنا نمایاں اتنا اس لیے ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے فروغ نے دنیا کو ’عالمی گاؤں ‘بنا دیا ہے۔کسی کے دل میں یہ خیال آسکتا ہے کہ جس دنیا کو ہم اسلام مخالف بتا رہے ہیں وہ تو حقوق انسانی کی پرچم بردار،فکر وعمل کی آزادی کی حامی ،عالمی بھائی چارے اور جمہوریت کی داعی ہے،ہم اسے اسلام مخالف کیسے کہہ سکتے ہیں؟جواب اس کا یہ ہے کہ نئی تہذیب کے خودفریب ترقی یافتہ انسان نے کائنات کے مرکز (نیو کلیس) سے خالق اور رب العالمین اللہ جل شانہ کو ہٹا کر اس کی جگہ ’مادہ ‘کو بٹھا رکھا ہے،وہ کہتا ہے کہ اول بھی مادہ تھااور آخر بھی مادہ ہے،درمیان میں ترقی کے مختلف مراحل ہیں،انسان اس ترقی کا نقطہ آخرہے،جنت اور دوزخ جو کچھ ہے وہ انسان کی اسی زندگی میں ہے،زندگی ختم تو سب کچھ ختم،اب جتنی بھی اچھی کار آمد اور مثبت قدریں مثلاً وقت اور عہد کی پابندی وغیرہ ہمیں جدید مادی تہذیب میں نظر آتی ہیں وہ اس لئے نہیں کہ وہ بذات خود اچھی ہیں بلکہ صرف اس لئے کہ وہ فائدہ اور منافع میں اضافے کا باعث ہوتی ہیں،کسی غیر پیداواری سرگرمی ،نیکی یا ہستی کی اس کمرشل تہذیب میں کوئی گنجائش نہیں،اس تہذیب میں انسان کی حیثیت اس کے ’صارف ‘ہونے کی صلاحیت متعین کرتی ہے،جو جتنا بڑا صارف ہے یا جتنا زیادہ صرف کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ اتنا ہی بڑا ہے،جو قوت خرید ہی نہیں رکھتا اس کی کوئی ضرورت نہیں اسے مرنے کے لئے چھوڑ دیا جائے گا،انفاق اور ایثار کی اس تہذیب میں اس لئے کوئی ضرورت نہیں کہ یہ دونوں غیر پیداواری سرگرمیاں ہیں،لہٰذا اس تہذیب میں حقوق انسانی ،اخوت اور آزادی کا جو تصور ہے ا س پر کوئی کنٹرول نہیں رکھا گیا ہے وہ مادر پدر آزاد اور بے لگام ہے،چوںکہ دنیا ایک بازار ہے اور انسان محض ایک صارف ،لہٰذا ہر چیز کو ’بازار ‘کی قوتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیاگیا ہے،یہ جو آج ہر طرف ’عالمی اقتصادی بحران ‘کاچرچا ہے یہ بھی در اصل ان ہی بازار کی قوتوں کا لایا ہوا ہے او رفی الواقع یہ اخلاقی اقدار کا بحران ہے اور میڈیا کی تشہیری جنگ اس کا سب سے بڑا اور موثر ہتھیار ہے،غالب کا یہ شعر :
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ ----دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

موجودہ ذرائع ابلاغ پرپوری طرح صادق آتا ہے،ہمیں کتابوںمیں پڑھایا جا تاہے کہ ”میڈیاکا کام لوگوں کو سچ بتانا اور حقائق سے آگاہ کرنا ہے“،یہ بیان اس معنی میں غلط ہے کہ آج میڈیا کا استعمال حقائق کو آشکا رکرنے سے زیادہ حقائق کو چھپانے یاتوڑ مروڑ کرپیش کرنے یا جھوٹ کو پھیلانے کے لئے کیا جاتا ہے موجودہ میڈیا ہماری معلومات میں اضافہ کرنے سے زیادہ ہمیں بہکانے ،ورغلانے اور مشتعل کرنے کے کام کرتا ہے۔اور فی الواقع کمپین چلاتا ہے،آج پورا میڈیا او راسے استعمال کرنے والی تمام سیاسی ،سماجی اور اقتصادی طاقتیں اَن تَشِیعَ الفَاحِشَةُ فِی الَّذِینَ آمَنُوا(اہل ایمان کے اندربداخلاقیاں پھیلیں) کے کام پر یعنی فواحش اور منکرات کے پھیلانے پر مامورہیں،مادّہ کو اِلہٰ بنا لینے والی طاقتیں ہی آج میڈیا کو اخلاقی انار کی پھیلانے کا ہتھیار بنائے ہوئے ہیں،وہ ہمیں وہی بتاتے اور دکھاتے ہیں جتنا ان کی اسکیم میں فٹ بیٹھتا ہے،ہم اس پورے رویے کو اسلام مخالف یا غیراسلامی اس لئے کہتے ہیں کہ اسلام ایمان بالغیب سے شروع ہوتا ہے،جب کہ وہ ہم سے کہتے ہیں کہ جتنا آنکھوں سے دیکھو بس اتنے ہی پر یقین کرو،دنیا کو سماجی اور اخلاقی کنٹرول سے آزادکرنے کے لئے میڈیاکا کنٹرول انہوں نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھا ہے۔

جب کہ اسلام انسان کے جذبات وخواہشات کو آزاد چھوڑتا ہے اور نہ عقل کو بے لگام چھوڑ دینے کا قائل ہے، وہ نفس اور قلب کا تزکیہ کرتا ہے اور عقل کے سرکش گھوڑے کے منہ میں حکمت کی لگام دیتا ہے،لیکن مادی تہذیب حاضر نے عقل اور خواہشات کو بے لگام چھوڑ کر انسان کی مادر پدرآزادی کا تصور دے کر وسائل حیات اور وسائل ابلاغ دونوں کواپنے قبضے میں کرلیا ہے اور اب اس کا ہدف خود ’حیات ‘پر کنٹرول حاصل کرنا ہے تا کہ موت کے خوف سے نجات مل سکے،مادی انسان آخرت پر یقین نہ رکھنے کے باوجود موت سے صرف اس لئے ڈرتا ہے کہ آخرت کا تصورموت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے سے ہی وابستہ ہے ،لہٰذا اس کا خیال ہے کہ جب وہ موت پر قابو پا جائے گا تو زندگی اپنے آپ اس کے ’اختیار ‘میں آجائے گی،چوں کہ یوم آخرت کا مالک وہی ہے جو زندگی اورموت کا مالک ہے، لہٰذا ان کاخیال ہے کہ آخرت کی پکڑ سے بچنے کاا یک ہی طریقہ ہے وہ موت اور حیات کو پوری طرح اپنے قابو میں کرلیں،ایک طرف تو وہ زندگی کے راز کو جاننے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور دوسری طرف انہوں نے اس نظام فکر کے خلاف ہر طرح کی جنگ چھیڑ رکھی ہے جو ان کی شیطانی کوششوںمیں رکاوٹ ڈال سکتا ہے،دنیااسلام کی حقانیت سے باخبر نہ ہوسکے،اسی لئے انہوں نے’ لہو الحدیث‘ کا نظام رائج کر کے دنیا کومجبور کردیا ہے کہ وہ پیسے خرچ کرکے گمراہی خریدے،اس مہم پر اتنا زور صرف اس لئے ہے کہ مسلمان پیسے خرچ کر کے کہیں قوت کا حصول نہ شروع کردے،کہیں وہ اپنی گاڑھی محنت کی کمائی رباط الخیل میں نہ لگا دے،رباط الخیل اور قوت کے حصول کا معاملہ ان کے نزدیک اتنا اہم ہے کہ انہوںنے صرف لہوالحدیث ہی کے خریدنے کا انتظام نہیں کیا ہے بلکہ کوشش یہ کی ہے کہ انسان رزق حلال ہی سے پوری طرح محروم ہوجائے،کیوںکہ نہ رزق حلال ہوگانہ مسلمان قوت اور رباط الخیل کے حصول کی طرف توجہ کرے گا،حرام مال کا مصرف اس سے بڑھ کر اور کیاہوسکتا ہے کہ صرف ’لہو الحدیث‘کی خریداری کی جائے،جس کے متعلق اللہ تعالی اپنی مقدس کتاب قران مجید میں فرماتا ہے ۔

وَاَعِدُّوا لَہُمُ مَّا استَطَعتُم مِّن قُوَّةِِ وَّ مِن رِّبَاطِ الخَیلِ تُر ھِبُونَ بِہ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُم وَآخَرِینَ مِن دُونِہِم لَا تَعلَمُونَھُم اَللّٰہُ یَعلَمُہُم ۔(انفال آیت: 60 ) ( اورتم جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لئے مہیا رکھو، اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا کو خوف زدہ کروگے جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔)

اس کی تفسیر میں مفسر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی اس کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
یہ اس تیاری کا مقصد بیان ہوا ہے کہ اللہ کے اور تمہارے دشمنوں پر تمہارہ دھاک اور ہیبت قائم رہے کہ تمہیں نرم چارہ سمجھ کرکے وہ تم پر حملہ کرنے کی جرات نہ کریں ۔یہاں مسلمانوں کے تمام دشمنوں کو اللہ کا دشمن ٹھہرایا ہے اس لئے کہ مسلمانوں کی جنگ جس سے بھی تھی اللہ کے دین کے لئے تھی اس میں کسی اور چیز کا کوئی دخل نہ تھا ۔

مولانا مزید لکھتے ہیں:
قرآن نے یہاں مزید مسلمانوں کو حاضر سے متعلق ہدایت دیتے ہوئے ان دشمنوں کی طرف بھی ایک اشارہ کر دیا جو مستقبل قریب یا مستقبل بعید کے پردوں میں چھپے ہوئے ہیں تاکہ مسلمان دور تک نگاہ رکھ کر منصوبہ بندی کریں “ ۔

اس روشنی میں ہم کہ سکتے ہیں کہ آج کل میڈیا جو سامراجی حکمرانوں کا آلہ کارہو چکا ہے عوام الناس کے لئے مفید کم اور مضر ت رساں زیادہ ہے بلکہ محض نقصان دہ ہے، مسلمانوں کے لیے تو موجودہ میڈیا کسی زہر ہلاہل سے کم نہیں، میڈیا پر حق وباطل اور مثبت ومنفی عناصر کا تناسب دس(10) اور نوے (90) کے بقدر ہے،لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی اس جانب سے غفلت کسی خوفناک مستقبل کا پتہ دیتی ہے ۔
ایسے حالات میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ میڈیا کی اس انسانیت مخالف تشہیری جنگ کے خلاف اقدام کرنے کی کوشش کریں، کیوںکہ اس کے ذریعہ ان کا مقصد ہی اسلام کو بدنام کرنے کی خاطر حربہ اپنانا،معاشرے میں بدتمیزی اور انارکی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ بد عقیدگی اور کفر و شرک پھیلا کر اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنا ہے ،یہاں پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلہ میں مختصرا ًمیڈیا کی ایک جھلک قارئین سامنے پیش کر دیں تاکہ اس کی تصویر مزید واضح ہو سکے ۔

۱۔اگر کہیں بم بلاسٹ ہوتو فوراً اسلامی تنظیموں کی فہرست سے نیوز چینلوں کومزین کردیا جاتا ہے ،لیکن جیسے ہی یہ انکشاف ہوتا ہے کہ کام کسی ہندو تنظیم کا ہے تو فورا ”مائی نیم از خان“کی نیوز”بریکنگ نیوز“بن جاتی ہے۔ اگر کوئی عام مسلمان چار شادی کرے تو بطور عیب اسے دکھایا جاتاہے لیکن جب کوئی مشہور غیر مسلم نامور شخصیت دس دس رکھیل رکھے تو اس کا کوئی چرچا نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھار تورکھیلوں کے لئے وہ باعث فخر بنا دیا جاتا ہے۔ جب کسی مسلمان کو بڑے جرم کے تحت گرفتار کیا جاتا ہے تو اسے سبھی دہشت گرد تنظیموں کا دوست اور رشتہ دار بنا دیا جاتا ہے لیکن جب دو یا تین دنوں بعد یہ انکشاف ہوتا ہے کہ سب جھوٹ تھا اوراس کی برا ءت کا حکومت اعلان کردیتی ہے تو اسے بریکنگ نیوز نہیں بلکہ یا تو دکھایا ہی نہیں جاتا یا پھر فٹ لائن نیوز میں دو یا تین مرتبہ دکھا کر معاملہ کو ختم کردیا جاتا ہے۔ بلکہ کبھی کبھار تو مجرم اوربم بلاسٹ کرنے والا غیر مسلم نکلتا ہے لیکن اس خبر کو ختم کردیا جاتا ہے یا اس شخص کو مسلمان بنا دیا جاتا ہے گرچہ وہ کافر ہی کےوں نہ ہو۔جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ساری دنیا یہی سمجھتی ہے کہ ہمیشہ مسلمان ہی ایسے کام کرتے ہیں اور وہی دہشت گرد ہوتے ہیں، مسلمان اسی طاقت سے جواب نہیں دیتے اور خود اپنے گلے میں بدنامی کا طوق ڈال لیتے ہیں،اگر جواب دیا بھی جاتا ہے تو اردو اخبارات اور مجلوں میں جسے ایک مسلمان کے علاوہ کوئی اور نہیں پڑھتا اور مسلمان جواب دے کر اور خود ہی پڑھ کر خوش ہوتے ہیں۔

۲۔ کہیں گھریلو ماحول پرمبنی پروگرام بنائے جاتے ہیں جس میں عورتوں کی آپسی لڑائی جھگڑے اور میاں بیوی کے درمیان اختلاف کیسے بڑھے ؟ دکھائے جاتے ہیں،حالانکہ ظاہری مقصدان مفاسدکی روک تھام ہوتا ہے لیکن جس انداز سے دکھایا جاتا ہے اس سے لوگ سدھرنے کے بجائے اور زیادہ بگڑ جاتے ہیں، ضروری نہیں کہ آپ زنا کے روک تھام کے لئے زنا کرکے لوگوں کو دکھائیں لیکن موجودہ الیکٹرانک میڈیا کا طریقہ یہی بن گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ دیکھیں ، ہماری ٹی آر پی بڑھے، اس لئے مرچ مسالہ بھی لگا دیا جاتا ہے کیونکہ موجودہ میڈیا کا مقصد برائی کو روکنا اور فحاشی کو ختم کرنا نہیں بلکہ فحاشی کو بڑھانا اور پیسہ کمانا ہے،اگر غور کیا جائے تویہ آیت موجودہ میڈیا پر کھری اترتی ہے:
اِنَّمَا جَزَآئُ الَّذِینَ یُحَارِبُونَ اللّٰہَ وَ رَسُولَہ (المائدہ آیت :33)ان کی سزاجو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں ،

میں میڈیا کا پہلا چہرہ داخل ہوجاتا ہے جو اسلام یعنی اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کو بدنام کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اور
وَ یَسعَونَ فِی الاَرضِ فَسَاداً (سورہ المائدہ آیت 33)اور زمین میں فساد مچاتے پھرتے ہیں ،
میں میڈیا کا یہ چہرہ اور آگے ذکر ہونے والا چہرہ شامل ہوجاتا ہے۔اور ان کے لئے سزا بھی اللہ نے سخت متعین کردی کہ
اَن یُّقَتَّلُوآ اَو یُصَلَّبُوا اَو تُقَطَّعَ اَیدِیھِم وَ اَرجُلُھُم مِّن خِلاَفٍ اَو یُنفَوا مِنَ الاَرضِ ذٰلِکَ لَہُم خِزی فِی الدُّنیَا وَلَہُم فِی الاخِرَةِ عَذَاب عَظِیم(سورہ المائدہ آیت 33)یہ ہے کہ وہ قتل کردیے جائیں یا پھانسی چڑھادیے جائیں یا ان کے ہاتھ پیر مخالف سمتوں سے کاٹ دیے جائیں یا وہ ملک بدر کر دیے جائیں، یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہے۔

اس میں وہ پروگرام اور سیرئیلس بھی آجاتے ہیں جن میں فحاشی او ر ننگے پن کو کھلے طور سے دکھایا جاتا ہے جسے بچے اوروالدین ایک ساتھ مل کر دیکھتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچی بڑی ہوکر اپنے بوائے فرینڈ کو اپنے ساتھ گھر میں لے آتی ہے جسے کئی والدین فیشن اور آزادی کا نام دیتے ہیں تو کئی بول نہیں پاتے کیونکہ یہ تربیت بچوں نے اپنے والدین کے ساتھ دیکھ کر ہی پائی ہے۔

تو وہیں غریبوں کی عزت کو سر بازار ریلٹی شو کے نام پر خریدا اور بیچا جاتا ہے،ان کی نجی زندگی میں جھانک کر میاں اور بیوی میں طلاق کرانا اور کسی کو پھانسی پر چڑھا دینا یہ ریلٹی شو کی خصوصیات رہی ہیں،” آپ کی کچہری “کے نام پر خاندانی فسادات اور جھگڑوں کوانصاف دلانے کے نام پر ساری دنیا کے سامنے ان کی عزت کو نیلام کردیا جاتاہے،کیا ضروری ہے کہ انصاف دنیا کے سامنے ذلیل کرکے اور دنیا کے سامنے لڑاکر دلایا جائے؟

۳۔ میڈیانے اس بدعقیدگی کو پھیلانے اور بچوں کے ذہن کو کفر و شرک سے بھرنے نمایاں کردار ادا کیا ہے،ہم بچوں کے لئے آنے والے کارٹونز اور پروگرامس پر غور کریں کہ ان میں دکھایاکیا جاتا ہے؟ ہنومان ، رام اور کرشن کی اسٹوری کارٹونز میں دکھائی جاتی ہے اور کارٹون کے نام پر فحاشی بچوں کو دکھائی جاتی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

ما من مولود الا یولد علی الفطرہ فابواہ یہودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ (بخاری :۱۲۷۰، مسلم)
 ہر بچہ کی پیدائش فطرت یعنی اسلام پر ہوتی ہے لیکن اس کے والدین اسے یہودی ، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں“۔

اس حدیث کا معنی محدثین اور شارحین حدیث نے یہ بیان کیا ہے کہ مثلا ًاگر یہودی کے گھر بچہ پیدا ہو تو وہ فطرت اسلام پر ہی رہتا ہے اس کے اندر ابتداءً اسلامی تعلیمات ہی اللہ رب العالمین کی طرف سے داخل کی جاتی ہیں، لیکن جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا جاتا ہے اور اس کے یہودی والدین اسے یہودیت کی تعلیم دیتے رہتے ہیں تو بالآخر وہ بڑا ہوکر یہودی بن جاتاہے، لیکن موجودہ دور میں ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعہ مسلمانوں کے بچے بھی ہندو، یہودی اور نصرانی بنتے جار ہے ہیں وجہ صرف یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں پر دھیان نہیں دیتے کہ ان کا بچہ کیا دیکھ اور سن رہا ہے اور بچہ بڑاہونے کے بعد اگر کبھی مشکل میں آجاتا ہے تو وہی شرکیہ کام کرتا ہے جواس نے بچپن میں دیکھا اور سنا تھا۔

ہم نے اب تک دیکھا کہ کس طرح سے میڈیا بدعقیدگی پھیلارہاہے ، آزادی کے نام پر زناکاری اور ایڈس عام کر رہا ہے،گھریلو اختلافات کے حل کی بجائے گھریلو مشکلات کو بڑھاوا دے رہا ہے اور یہی میڈیا ہے جو ایک طرف کسانوں پر ہورہے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو دوسری طرف کسانوں کو خودکشی پر مجبور کر رہا ہے۔ان سب کے علاوہ ہم ہمیشہ جو کچھ سنتے اور پڑھتے ہیں کہ میڈیا اسلام کی غلط تصویر عوام میں پہنچا رہا ہے تووہ ایک واضح چیز ہے۔

اسی طرح ٹی وی پر آنے والے پروگرامز کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب کوئی بچہ ٹی وی پر بچپن سے بتوں کی پوجا ہوتے دیکھتے آتا ہے تو مکلف ہونے کے بعد اسے بت پرستی دیکھ کر دل میں معمولی حرکت تک پیدا نہیں ہوتی ، کوئی برائی محسوس نہیں کرتا اور یہی وجہ ہے کہ بیشتر مسلمان اپنی دعوتی ذمہ داری کو بھول چکے ہیںاور برائیوں کو دیکھ دیکھ کر سود اور شراب جیسی لعنت میں پڑے ہوئے ہیں۔

اب ایسے ماحول میں ضرورت ہے کہ مسلمان بھی اپنی دعوت عام کریں، اپنی حقیقی اور صاف و شفاف تصویر دنیاکے سامنے پیش کریں اور ہورہی بہتان تراشیوں کا کھل کر جواب دیں،آپ کے ذہن میں آئے گا کہ ہم تو یہ سب کر رہی رہے ہیں… ہاں ! ہم جواب بھی دے رہے ہیں ، اسلام کی سچی تصویر پیش بھی کر رہے ہیں اور دعوت الی اللہ کا کام بھی جاری ہے۔ لیکن ، کہاں…؟ جمعہ کی تقریروں میں جہاں سامعین صرف مسلمان ہی ہوتے ہیں ، جلسہ اور اجتماعات میں جہاں مسلمانوں کے علاوہ کوئی نہیں آتا، اردو اخباروں اور مجلات میں جنہےں ہر انسان تو درکنار ہر مسلمان بھی نہیں پڑھ سکتا، ہماری مثال ایسی ہی ہے کہ انگریزی کے سوالیہ پرچہ کا جواب کوئی طالب علم دوسرے روز اردو کے جوابیہ پرچہ میں لکھ آئے گرچہ اس نے انگریزی کے پرچہ میں کئے گئے سارے سوالات کا صحیح صحیح جواب لکھا ہو، لیکن اس نے جہاں جواب دینا چاہیے تھا وہاں جواب نہیں دیا تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا،الزام ہم پر الیکٹرانک میڈیا لگاتا ہے اور ہم جواب اپنے اسلامی جلسوں اور اردو میگزینس اور اردومجلوں میں دیتے ہیں۔

اس بات سے مجھے کوئی انکار نہیں کہ جلسہ اور جلوس کا یقیناً فائدہ ہوتا ہے اور جو جوابات ابھی جس طرح سے دیئے جارہے ہیں ان سے مسلمانوں کو ضرور فائدہ ہوتا ہے اور کئی لوگ تو اپنے سے ملنے جلنے والے غیر مسلموں تک وہ جوابات پہنچا کر انھیں مطمئن بھی کردیتے ہیں لیکن وہیں لا تعداد افراد ایسے بھی ہیں جن کا کوئی ملاقاتی مسلمان نہیں اور کئی ایسے مسلمان ہیں جن کاتعلق کئی غیر مسلموں سے ہے لیکن ان مسلمانوں کا تعلق اسلام سے نہیں بلکہ و ہ اسلامی تعلیمات سے کوسوں سے ہیں،ایسے افراد تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے ہم نے کیا کیا؟ جن کے ذریعہ اسلام کی غلط تصویر ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعہ پہنچائی جا رہی ہے،جسے دیکھنے اور سننے کے بعد تو کئی لوگ مسلمانوں سے ملنا جلنا بھی پسند نہیں کرتے ،ایسے میںمسلمانوں کے اوپر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ میڈیاکی یلغارکا مقابلہ کرنے کے لیے جامع پالیسی تشکیل دیں،دنیامیں میڈیا سے وابستہ افرادکی فنی تربیت اور میڈیا کو عصرحاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ایسے معیاری ’میڈیاانسٹی ٹیوٹ‘قائم کرنے بھی ضرورت ہے جو ایسے افراد تیار کرسکیں جو اسلامی تہذیب وثقافت کو پروان چڑھانے میں اپنا کردارادا کرسکیں، الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں پیش رفت کے لیے موثراورجامع حکمت ِعملی کی ضرورت ہے، اسلامی تحریکیں، میڈیا، ادارے اور مسلم تنظیمیں ہرسطح پراس کے لیے بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں، مسلم دنیا اگر مجوزہ سفارشات اور خطوط پر منظم اور احسن انداز میں اقدامات اٹھائے تو امت مسلمہ میڈیا کے محاذ پر درپیش چیلنج کا بھرپور اور موثر جواب دے سکے گی،مسلمانوں کومغرب کی اندھی تقلیداورنقالی نہیں کرنی چاہیے، ٹی وی ڈراموں میں اسلامی تاریخ وثقافت کوپروان چڑھانا چاہیے، اگر احساس زندہ ہو تو آج بھی مثبت اور تعمیری تفریح کومسلم ممالک میں فروغ دیاجاسکتاہے، تعمیری، اصلاحی، تاریخی اورمعلوماتی پروگرام تیار کرنے کی ضرورت ہے، فلم کے میدان میں ایران نے خاصی ترقی کی ہے اور عالمی ایوارڈ بھی حاصل کیے ہیں، ایسی فلمیں جو اصلاح وتطہیر کا فریضہ انجام دیں اورجن کے ذریعے اسلامی معاشرے میں تعلیم وتربیت کاعمل بڑھ سکے ان کو مسلم ممالک میں رواج دینے کی ضرورت ہے۔

مغرب کی یہ حکمت عملی رہی ہے کہ وہ امتِ مسلمہ کے جذبات کوجانچنے کے لیے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں ایشوزاٹھاتارہتاہے، اسلامی شعائرکی توہین کی جاتی ہے، تو مسلم دنیا میں احتجاجی مظاہروں کے ذریعے ہی ردِعمل سامنے آتا ہے، لیکن میڈیا کے ذریعے اس کا جواب نہیں دیا جاتا، مسلم دنیا کو الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ پراسلامی تشخص کوعام کرنے اور مغربی پروپیگنڈے کا موثر جواب دینے کے لیے اپنے دائرہ کاراورکاوشوں کو موثر اور منظم اندازمیں بڑھانے کی ضرورت ہے۔

مسلم ممالک اورمغرب میں موجودمسلم تنظیمیں بڑے محدود دائرے میں میڈیاکاکام کررہی ہیں، مغرب نے جس سطح پر میڈیاسے کام لیا ہے، وہ مغربی ایجنڈا دنیا پرمسلط کرنے کے لیے خاصا کارگرثابت ہواہے، مسلم تنظیموں، اداروں اور تحریکوں کے لیے بے حد ضروری ہے کہ میڈیا کے لیے مناسب بجٹ مختص کریں، الیکٹرانک میڈیا بالخصوص ٹی وی چینلوں کو ہدف بناکر کام کیا جائے، ’پروڈکشن ہاؤس‘کے ذریعے اینکرپرسنز اور پروڈیوسرز کی تربیت کابندوبست کیا جائے، آیندہ 10سال کا منظرنامہ سامنے رکھا جائے تو مسلم دنیا میں الیکٹرانک میڈیامیں ایسے افراد بڑی تعداد میں دستیاب ہوسکیں گے جو قومی اوردینی سوچ اور نظریاتی شناخت کے حامل ہوں گے۔

مسلم ممالک میں تنظیموں اوراداروں کو’میڈیاتھنک ٹینک‘ کا قیام عمل میں لانا چاہیے، ایسے ’میڈیا تھنک ٹینک‘ جو مغرب سے مکالمہ کرسکیں، امریکا اوریورپ کے ’میڈیا تھنک ٹینک‘ اسلام مخالف پروپیگنڈے میں پیش پیش ہیں، میڈیاتھنک ٹینک کے ذریعے مغربی پروپیگنڈے کا توڑ کیا جاسکتاہے اور حالات وواقعات کی اصل تصویردنیاکے سامنے پیش کی جاسکتی ہے۔

مسلم دنیا کے ذرائع ابلاغ کے منتظمین اپنی سطح پر محدود دائرے میں کام کررہے ہیں، مکمل ادراک (وڑن) نہ ہونے اور موثرحکمتِ عملی سے تہی دامن ہونے کی وجہ سے اس کے اثرات صحیح طور پر مرتب نہیں ہو رہے، مسلم ممالک کی تنظیموں، اداروں اورتحریکوں کے میڈیاسے متعلق افراد کے نیٹ ورک کومنظم اورمربوط کرنے کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے انٹرنیشنل میڈیاکانفرنس کا انعقاد کیا جائے، اگرعالم اسلام کی ’میڈیاکانفرنس‘ کا انعقاد ایک تسلسل سے ہو تو نہ صرف میڈیا کے میدان میں پیش رفت کا جائزہ لیا جاسکتا ہے بلکہ درپیش چیلنجوں کے لیے موثر حکمت ِعملی بھی تشکیل دی جاسکے گی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیامیں الیکٹرانک میڈیااورانٹرنیٹ کی ٹکنالوجی پھیلنے سے مطالعے کا رجحان کم ہو گیا ہے، اب لوگ ٹی وی چینلوں اور انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات اورتفریح حاصل کرتے ہیں، ہندوستان سمیت مسلم دنیا کے لیے ناگزیر ہے کہ جدید ٹکنالوجی کے ذریعے دنیا بھر میں اسلام کے حقیقی پیغام کوعام کریں، اس مقصد کے حصول کے لیے جدید خطوط پر پروگراموں کی تیاری کے لیے ’پروڈکشن ہاؤس‘ بنانے چاہئےں۔ اس کی ایک کامیاب مثال Peace TVکی ہے، جہاں سے نشر ہونے والے پروگرام ہندوستان سمیت دنیا بھر میں بڑے پیمانے پرپھیل چکے ہیں، مختلف ممالک میں ایسے ٹی وی چینلوں کوقائم کرنے کی طرف توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے جومعاشرے کی تعلیم وتربیت اورشعوروآگہی کوپروان چڑھاسکیں۔

اسلامی دنیامیں میڈیا سے وابستہ افرادکی فنی تربیت اور میڈیا کو عصرحاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ایسے معیاری ’میڈیاانسٹی ٹیوٹ‘قائم کرنے بھی ضرورت ہے جو ایسے افراد تیار کرسکیں جو اسلامی تہذیب وثقافت کو پروان چڑھانے میں اپنا کردارادا کرسکیں۔

امریکا اور یورپ میں الیکٹرانک میڈیاکے میدان میں جدید ٹکنالوجی کااستعمال بڑھتا جا رہا ہے، اب توامریکا اوریورپ میں شہروں کی سطح پرحکومت اوراین جی اوزکی سرپرستی میں پبلک براڈکاسٹنگ سنٹربنائے جارہے ہیں، ان ٹریننگ سنٹروں میں میڈیاسے دل چسپی رکھنے والے افراد کو اینکرپرسنز، پروڈیوسرز، اسکرپٹ رائٹرزاورکیمرہ اور ایڈیٹنگ کی تربیت دی جاتی ہے، اس تناظر میں ہندوستان سمیت مسلم ممالک میں بھی ایسے پبلک براڈکاسٹنگ سنٹرزکاقیام ضروری ہے، ان نشری تربیتی مراکز سے بہترین اینکر پرسنز، پروڈیوسر اور دیگر باصلاحیت افرادتیارکیے جاسکتے ہیں جو مسلم دنیا میں گہرے شعور و ادراک کے فروغ کے لیے کام کرسکیں۔

مغربی میڈیا کی جدید ٹکنالوجی کے جواب میں اگرچہ عالم اسلام میں بھرپور پیش رفت نہیں ہوسکی ہے، لےکن سعودی عرب، کویت، قطر اور ترکی نے میڈیاکے میدان میں پیش رفت کی ہے، انٹرنیٹ اورٹی وی چینلوں کے ذریعے اسلام کی دعوت احسن اندازمیں پیش کی جارہی ہے۔ تاہم مسلم ممالک میں جدید میڈیا ٹکنالوجی سے ابھی تک خاطرخواہ استفادہ نہیں کیاجا سکا، الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں پیش رفت کے لیے موثراورجامع حکمتِ عملی کی ضرورت ہے، اسلامی تحریکیں، میڈیا ادارے اور مسلم تنظیمیں ہرسطح پراس کے لیے بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مسلم دنیا اگر مجوزہ سفارشات اور خطوط پر منظم اور احسن انداز میں اقدامات اٹھائے تو امت مسلمہ میڈیا کے محاذ پر درپیش چیلنج کا بھرپور اور موثر جواب دے سکے گی۔






۔۔۔مزید