محمد علم اللہ اصلاحی
آج آپ کی خدمت میں مولانا امین احسن اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک نایاب مگر نادر خط ارسال کر رہا ہوں ۔مولانا اصلاحی کے ذریعہ لکھے گئے اس خط کو پڑھ کر میں خود اپنے آنسوؤں کو ضبط نہیں کر سکا اوردیر تک روتا رہا ۔پتہ نہیں کیوں ؟ابھی بھی میں اسے ٹائپ کر رہا ہوں تو آنکھوں سے آنسو جا ری ہے ۔یہ خط مجھے کیسے ملا عرض کئے دیتا ہوں تاکہ آپ کو سمجھنے میں آسانی ہو ۔
بات در اصل یوں ہوئی کہ آج جب میں حسب معمول جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ڈاکٹر ذاکر حسین لائبریری گیا تو میری نظر جنگ گروپ کی جانب سے شائع کردہ ایک کتاب’’ جنھیں میں نے دیکھا ‘‘مصنف ’’کوثر نیازی ‘‘مرحوم پر پڑی ۔ابھی میں نے کچھ ہی دنوں قبل جوش ملیح آبادی کی کتاب یادوں کی بارات ختم کی تھی جس میں جوش صاحب نے کئی جگہ مولانا کوثر نیازی کا تذکرہ کیا تھا ۔شاید اس وجہ سے بھی سر ورق دیکھتے ہی کتاب نے اپنی جانب کھینچا ۔ اس کے مشمولات پرنظر دوڑائی تو نگاہ علامہ ’شورش کاشمیر ی ‘(مرحوم )جو میرے پسندیدہ قلم کا روں میں سے ایک ہیں پر جا کر ٹک گئی ۔اس مضمون میں مولانا ’کوثر نیازی ‘(مرحوم )نے خوبصورتی کے ساتھ شورش صاحب سے اپنے تعلقات ،علمی و ادبی چشمک، خطابت و صحافت اور ان کی عظمت پر سیر حاصل گفتگو کی ہے ۔یوں تو پورا مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس کا وہ حصہ جس میں مرحوم نے شورش صاحب سے اپنی صحافتی چشمک کا ذکر کیا ہے بڑا ہی دلچسپ اور عبرت آموز ہے ۔دونوں بزرگوں کے درمیان یہ معرکہ اس قدر سنگین صورتحال اختیار کر گیا تھا کہ معاملہ ذاتیات تک پہنچ چکا تھا۔بہت سارے لوگ تشویش میں مبتلا تھے لیکن کسی کو بھی ہمت نہ ہوتی تھی کہ بیچ میں پڑ کر اس معاملہ کو رفع کرانے کی کوشش کی جائے ۔
مولانا نیازی کہتے ہیں کچھ لوگوں کی سازشوں اور آگ لگاؤ تماشہ دیکھو جیسے افراد سے ا س میں اور بھی شدت آ گئی تھی اور ایسے افراد دونوں ہی جانب سے تھے ۔انھوں نے لکھا ہے’’ روزنامہ’’ وفاق ‘‘لاہور کے مدیر اعلی جناب مصطفی صادق کو جب اس بات کا علم ہوا تو وہ بے چین ہو اٹھے ۔انھیں معلوم تھا کہ ہم دونوں مولانا امین احسن اصلاحی مد ظلہ العالی کے نیاز مند ہیں ۔میں تو خیر مولانا اصلاحی کے خرمن علوم قران کا با قائدہ خوشہ چیں تھا اور ان کے شاگرد کا درجہ رکھتا تھا ۔شورش مرحوم بھی ان سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے ۔مصطفی صادق ان کے پاس پہنچے اور ان سے ہم دونوں کے نام ایک خط حاصل کر لیا ۔یہ خط بجائے خود لائق مطالعہ ہے قارئین کو اس سے علمائے حق کے جذبۂ اصلاح اور سوز قلب کا اندازہ بھی ہوگا اور طرز نصیحت کا فائدہ بھی۔ اس لئے اسے تبرکا ذیل میں پیش کرتا ہوں ۔مولانا اصلاحی نے لکھا ‘‘۔
’’برادر مکرم شورش صاحب اورعزیز کوثر صاحب‘‘
’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ادھر کچھ عرصہ سے آپ دونوں کے اخبارات’’ چٹان ‘‘اور ’’شہاب‘‘میں نہایت ناگوار قسم کی ذاتیاتی بحث چھڑی ہوئی ہے ۔اس سے مجھکو جہاں تک اندازہ ہے آپ دونوں کے مخلص قدر دانوں کو روحانی اذیت ہے ۔میں نے ایک بار ارادہ کیا کہ آپ دونوں صاحبوں سے ملکر خدا اور رسول کا واسطہ دیکر یہ التجا کروں کہ اس جنگ کو فی الفور بند کر دیجئے ،لیکن محض اپنی کم حیثیتی پر نگاہ کر کے یہ جرات نہ کر سکا مگر اب معاملہ نے جو سنگین نوعیت اختیار کر لی ہے جب میں اس کے دور رس نتائج پر قومی و اسلامی نقطہ نظر سے غور کرتا ہوں تو یہ محسوس کرتا ہوں کہ میں اخلاق اور انسانیت کا بھی اور آپ دونوں کا بھی مجرم ٹھہروں گا ۔اگر اس موقع پر وہ حق خیر خواہی ادا نہ کروں جو آپ دونو ں صاحبوں سے متعلق مجھ پر عاید ہوتا ہے ۔بلاشبہ یہ درجہ تو نہیں رکھتا کہ آپ لوگوں کو ئی نصیحت کر سکوں لیکن اس امر سے آپ دونوں میں سے کوئی مشکل ہی انکار کر سکے گا کہ یہ ناچیز آپ دونوں ہی سے یکساں طور پر دیرینہ روابط الفت و اخلاص رکھتا ہے ۔اس تعلق نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں آپ دونوں حضرات سے دست بستہ درخواست کروں کہ آپ اس بحث کو اپنے اخبارات میں بند کر دیجئے !گرچہ اس وقت جذبات کے اشتعال میں میری یہ درخواست ممکن ہے دل پر گراں گذرے لیکن اگر اپنے ایک مخلص کی درخواست سمجھ کر آپ دوستوں نے اس کی لاج رکھ لی تو اس سے میرا سر اونچا ہوگا اور میں اس کو اپنے رب کے سامنے سجدے میں ڈال دونگا کہ اس نے مجھ جیسے ناچیز سے ’’اصلاح ذات البین‘‘کی ایک خدمت لی جو شاید میری نجات کا ذریعہ بن سکے ‘‘۔
تاریخ درج نہیں ہے ۔تاہم مولانا نیازی نے لکھا ہے استاذ مکرم کا یہ والا نامہ ہمارے اصلاح احوال کے لئے کافی تھا مولانا نے خط پر تبصرہ کرتے ہوئے آگے تحریر فرمایا ہے :’’آپ نے مولانا اصلاحی مد ظلہ العالی کا مکتوب ملاحظہ فرمایا جہاں یہ خط ادب و انشائے عالیہ کا نادر نمونہ ہے وہیں اس کے لفظ لفظ سے لکھنے والے کا خلوص ٹپک رہا ہے ۔ساتھ ہی اس کی عاجزانہ طبیعت بھی مترشح ہے ۔دو بھائیوں کے درمیان صلح کرانے میں جو دل سوزی حضرت مولانا نے دکھائی کاش!اس دل سوزی سے مالا مال کچھ شخصیتیں اس دور میں بھی ہوتیں تو ہمارے کتنے قومی مسئلے حل ہو چکتے ‘‘
۔
درست فرمایا مولانانیازی نے اب تو ایسے لوگ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے ۔نہ تو اب ایسے لائق و فائق شاگرد ہیں اور نا ہی استاذ۔۔۔ !!
آئے عشاق گئے وعدہ فردا لیکر
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لیکر
(علامہ اقبال)
کیا لوگ تھے جو راہِ جہاں سے گزر گئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں
(حفیظ میرٹھی)
بات در اصل یوں ہوئی کہ آج جب میں حسب معمول جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ڈاکٹر ذاکر حسین لائبریری گیا تو میری نظر جنگ گروپ کی جانب سے شائع کردہ ایک کتاب’’ جنھیں میں نے دیکھا ‘‘مصنف ’’کوثر نیازی ‘‘مرحوم پر پڑی ۔ابھی میں نے کچھ ہی دنوں قبل جوش ملیح آبادی کی کتاب یادوں کی بارات ختم کی تھی جس میں جوش صاحب نے کئی جگہ مولانا کوثر نیازی کا تذکرہ کیا تھا ۔شاید اس وجہ سے بھی سر ورق دیکھتے ہی کتاب نے اپنی جانب کھینچا ۔ اس کے مشمولات پرنظر دوڑائی تو نگاہ علامہ ’شورش کاشمیر ی ‘(مرحوم )جو میرے پسندیدہ قلم کا روں میں سے ایک ہیں پر جا کر ٹک گئی ۔اس مضمون میں مولانا ’کوثر نیازی ‘(مرحوم )نے خوبصورتی کے ساتھ شورش صاحب سے اپنے تعلقات ،علمی و ادبی چشمک، خطابت و صحافت اور ان کی عظمت پر سیر حاصل گفتگو کی ہے ۔یوں تو پورا مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس کا وہ حصہ جس میں مرحوم نے شورش صاحب سے اپنی صحافتی چشمک کا ذکر کیا ہے بڑا ہی دلچسپ اور عبرت آموز ہے ۔دونوں بزرگوں کے درمیان یہ معرکہ اس قدر سنگین صورتحال اختیار کر گیا تھا کہ معاملہ ذاتیات تک پہنچ چکا تھا۔بہت سارے لوگ تشویش میں مبتلا تھے لیکن کسی کو بھی ہمت نہ ہوتی تھی کہ بیچ میں پڑ کر اس معاملہ کو رفع کرانے کی کوشش کی جائے ۔
مولانا نیازی کہتے ہیں کچھ لوگوں کی سازشوں اور آگ لگاؤ تماشہ دیکھو جیسے افراد سے ا س میں اور بھی شدت آ گئی تھی اور ایسے افراد دونوں ہی جانب سے تھے ۔انھوں نے لکھا ہے’’ روزنامہ’’ وفاق ‘‘لاہور کے مدیر اعلی جناب مصطفی صادق کو جب اس بات کا علم ہوا تو وہ بے چین ہو اٹھے ۔انھیں معلوم تھا کہ ہم دونوں مولانا امین احسن اصلاحی مد ظلہ العالی کے نیاز مند ہیں ۔میں تو خیر مولانا اصلاحی کے خرمن علوم قران کا با قائدہ خوشہ چیں تھا اور ان کے شاگرد کا درجہ رکھتا تھا ۔شورش مرحوم بھی ان سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے ۔مصطفی صادق ان کے پاس پہنچے اور ان سے ہم دونوں کے نام ایک خط حاصل کر لیا ۔یہ خط بجائے خود لائق مطالعہ ہے قارئین کو اس سے علمائے حق کے جذبۂ اصلاح اور سوز قلب کا اندازہ بھی ہوگا اور طرز نصیحت کا فائدہ بھی۔ اس لئے اسے تبرکا ذیل میں پیش کرتا ہوں ۔مولانا اصلاحی نے لکھا ‘‘۔
’’برادر مکرم شورش صاحب اورعزیز کوثر صاحب‘‘
’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ادھر کچھ عرصہ سے آپ دونوں کے اخبارات’’ چٹان ‘‘اور ’’شہاب‘‘میں نہایت ناگوار قسم کی ذاتیاتی بحث چھڑی ہوئی ہے ۔اس سے مجھکو جہاں تک اندازہ ہے آپ دونوں کے مخلص قدر دانوں کو روحانی اذیت ہے ۔میں نے ایک بار ارادہ کیا کہ آپ دونوں صاحبوں سے ملکر خدا اور رسول کا واسطہ دیکر یہ التجا کروں کہ اس جنگ کو فی الفور بند کر دیجئے ،لیکن محض اپنی کم حیثیتی پر نگاہ کر کے یہ جرات نہ کر سکا مگر اب معاملہ نے جو سنگین نوعیت اختیار کر لی ہے جب میں اس کے دور رس نتائج پر قومی و اسلامی نقطہ نظر سے غور کرتا ہوں تو یہ محسوس کرتا ہوں کہ میں اخلاق اور انسانیت کا بھی اور آپ دونوں کا بھی مجرم ٹھہروں گا ۔اگر اس موقع پر وہ حق خیر خواہی ادا نہ کروں جو آپ دونو ں صاحبوں سے متعلق مجھ پر عاید ہوتا ہے ۔بلاشبہ یہ درجہ تو نہیں رکھتا کہ آپ لوگوں کو ئی نصیحت کر سکوں لیکن اس امر سے آپ دونوں میں سے کوئی مشکل ہی انکار کر سکے گا کہ یہ ناچیز آپ دونوں ہی سے یکساں طور پر دیرینہ روابط الفت و اخلاص رکھتا ہے ۔اس تعلق نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں آپ دونوں حضرات سے دست بستہ درخواست کروں کہ آپ اس بحث کو اپنے اخبارات میں بند کر دیجئے !گرچہ اس وقت جذبات کے اشتعال میں میری یہ درخواست ممکن ہے دل پر گراں گذرے لیکن اگر اپنے ایک مخلص کی درخواست سمجھ کر آپ دوستوں نے اس کی لاج رکھ لی تو اس سے میرا سر اونچا ہوگا اور میں اس کو اپنے رب کے سامنے سجدے میں ڈال دونگا کہ اس نے مجھ جیسے ناچیز سے ’’اصلاح ذات البین‘‘کی ایک خدمت لی جو شاید میری نجات کا ذریعہ بن سکے ‘‘۔
تاریخ درج نہیں ہے ۔تاہم مولانا نیازی نے لکھا ہے استاذ مکرم کا یہ والا نامہ ہمارے اصلاح احوال کے لئے کافی تھا مولانا نے خط پر تبصرہ کرتے ہوئے آگے تحریر فرمایا ہے :’’آپ نے مولانا اصلاحی مد ظلہ العالی کا مکتوب ملاحظہ فرمایا جہاں یہ خط ادب و انشائے عالیہ کا نادر نمونہ ہے وہیں اس کے لفظ لفظ سے لکھنے والے کا خلوص ٹپک رہا ہے ۔ساتھ ہی اس کی عاجزانہ طبیعت بھی مترشح ہے ۔دو بھائیوں کے درمیان صلح کرانے میں جو دل سوزی حضرت مولانا نے دکھائی کاش!اس دل سوزی سے مالا مال کچھ شخصیتیں اس دور میں بھی ہوتیں تو ہمارے کتنے قومی مسئلے حل ہو چکتے ‘‘
۔
درست فرمایا مولانانیازی نے اب تو ایسے لوگ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے ۔نہ تو اب ایسے لائق و فائق شاگرد ہیں اور نا ہی استاذ۔۔۔ !!
آئے عشاق گئے وعدہ فردا لیکر
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لیکر
(علامہ اقبال)
کیا لوگ تھے جو راہِ جہاں سے گزر گئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں
(حفیظ میرٹھی)
0 تبصرہ جات:
ایک تبصرہ شائع کریں