محمد علم اللہ اصلاحی
حمد علم اللہ اصلاحی
کبھی کبھی لگتا ہے کہ جیسے جو ہونا تھا وہ نہ ہو کر بھی کچھ اور ہی ہونا ہوتا گیا۔ اتنی الجھنیں اوراس پر نیند کا نہ آنا۔ رات تین بجے تک کروٹیں بدلتے رہے۔اور اس ہونے اور نہ ہونے کے درمیان خود پر ہی جھلاتے رہے۔
رہ رہ کر روم پارٹنر کے خراٹے کی کریہ اور دل آزار آواز اور پھر اوپر سے مچھروں کی یلغار۔
کم بخت نیندبھی عجیب شئے ہے وقت بے وقت کبھی بھی آجائے گی اور کبھی بھی روٹھ کر چلی جائے گی کہ مت پوچھئے ۔میں خود سے بڑبڑاتا ہوں ۔ارے جب جانا ہی تھا تو ہمیں بھی ساتھ ہی لے جاتے۔کبھی کبھی خود پر غصہ بھی ٓتا ہے ۔خدا سے فریاد کرتا ہوں ! بار الہ !!نیند کا کچھ توبندوبست کرکہ تجھ پر ہی بھروسہ ہے۔
اللہ نے دعا سن لی اور نیند دوبارہ لوٹ آئی ۔صبح پھر الارم میاں گرجدارآواز سے ہی گئی جو ۔اپنی بندوق تانے سر پر کھڑے تھے۔فورا اس کی زبان بند کی ۔اور خود پر جبر کرتے ہوئے بستر سے اٹھ بیٹھے ۔اور پھر شروع ہو گئی نہانے ،دھونے اور ناشتہ کے بعد معمولات زندگی ۔وہی روز مرہ کی روٹین کے مطابق ۔
مگر پورے دن مختلف قسم کے خیالات آتے رہے ۔کبھی خوشی کبھی غم ،کبھی حسرت کبھی مایوسی ،کبھی امیدی کبھی نا امیدی ۔
سچ مچ دماغ کا پڑھا لکھا ہونا بھی عجیب بیماری ہے۔ آپ نہ سوچنا چاہیں ۔پھر بھی سوچیں گے کہ آپ ساری دنیا کو اپنے سر پر اٹھائے پھر رہے ہیں۔سارے جہاں کا غم جیسے آپ کے ہی جگر میں ہو اور آپ ان تمام الجھنوں کو حل کرنے کی ڈیوٹی پر ہوں۔
کبھی کبھی لگتا ہے کہ میں خود کون ہوں؟ اس اقتصادی سیکورٹی اور اپنے فرائض کے درمیان جھولتا ہواانسان۔ یا خود کے ہونے کو ثابت کرنے کی جدوجہد میں لگا ہواایک بے راہ رو مسافر جسے نا تو منزل کا پتہ ہے اور نا ہی راہرو کا ۔ انہیں نشان قدم پر چلتا ہوا کہ جس پر چل کر آدمی نہ جانے کہاں کو چلتا چلا جاتا ہے، اسے خود بھی نہیں پتہ۔
0 تبصرہ جات:
ایک تبصرہ شائع کریں