ہفتہ، 29 دسمبر، 2012

مدرسة الاصلاح .......ایک تحریک ایک تنظیم


مدرسة الاصلاح :ایک تحریک ،ایک تنظیم      
 نشاة ثانیہ اور کھوئے ہوئے وقارکی تلاش 
 محمد علم اللہ اصلاحی 
نئی دہلی 
          انیسویں صدی بر صغیر میں مسلم اقتدار کے زوال کے بعد کی صدی تھی ۔ مغل حکومت کے اختتام اور بر طانوی سامراج کے استحکام نے مسلم معاشرے کے لئے سنگین مسائل پیدا کر دئے تھے ،اقتدار سے محرومی نے جہاں ایک طرف شکست خوردگی کی ذہنیت کو جنم دیا وہیں بہت سی معاشرتی برائیاں بھی در آئیں ۔جہالت ،بدعات اورمشرکانہ رسوم مسلم معاشرے کو گھن کی طرح کھا رہی تھیں ۔اعظم گڈھ کا دور افتادہ علاقہ ان مسائل سے کچھ زیادہ ہی متاثر تھا ۔چنانچہ یہاں کے کچھ حساس اور درد مند افراد نے اس صورتحال کی اصلاح کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا اور مولانا محمد شفیع کی قیادت میں اس مقصد سے ایک انجمن” اصلاح المسلمین“ کی بنیادرکھی گئی۔ اصلاح معاشرہ کے میدان میں اس تنظیم کی ناقابل فراموش خدمات ہیں ۔جب انجمن کی طرف سے کام شروع ہوا تو لوگوں کو یہ شدت سے محسوس ہوا کہ دعوت دین اور اصلاح ملت کے ساتھ ہی ایک دینی مدرسہ کا قیام بھی بہت ضروری ہے جس سے نونہالان قوم کو مذہب اسلام کی تعلیم دی جا سکے اور انہیں مسلکی اور گروہی عصبےت سے پاک خالص اسلامی افکار ونظرےات کا حامل بنایا جا سکے۔

 اس وقت تک اعظم گڑھ یا اس کے آس پاس کے علاقہ میں کوئی قابل ذکر تعلیمی ادارہ نہیں تھا بلکہ یہاں کے لوگوں کوعلم کے حصول کے لئے شہر جونپور کا رخ کرنا پڑتا تھا جو اپنی علمی حیثیت کے لحاظ سے شیرازہند کے لقب سے سرفراز تھا۔ اس لئے1908ءمیں باضابطہ طور پرانجمن اصلاح المسلمین کے نام پر مدرسہ اصلاح المسلمین کا قیام عمل میں آیا جو آگے چل کر مدرسة الاصلاح ہوگیا۔ اس مدرسے کے قیام کے کچھ ہی دنوں بعد یعنی 1910ء یا 1911ء میں مولانا محمد شفیع بانی مدرسہ کی دعوت پر مورخ اسلام علامہ شبلی نعمانی نے اس کی سر پرستی اور علامہ فراہی نے علامہ شبلی کی تجویز اور مشورہ پر اس کی نظامت سنبھالی اوراس کی بنیادی شکل بھی تیار کی جس کی تصدیق علامہ فراہی کے نام علامہ شبلی کے خط سے ہوتی ہے:"کیا تم کچھ دن سرائے میر کے مدرسہ میں قیام کر سکتے ہو میں بھی شاید آں اوراسکا نظم و نسق درست کر دیا جائے اسکو گروکل کے طور پر خالص مذہبی مدرسہ بنایا جائے یعنی سادہ زندگی اور قناعت اور مذہبی خدمت مطمح نظر ہو"۔
(شبلی، ۲اپریل1910) 

          چنانچہ ان نابغہ روزگارشخصیتوں نے مدرسہ کا انتظام و انصرام صحیح کیااور وقفہ وقفہ سے یہاں آکر اس کا جائزہ بھی لیتے رہے۔ علامہ شبلی نعمانی نے تو ندو ة سے مایوسی کے بعد مدرسة الاصلاح اور دارالمصنفین کو اپنی تمام ترعلمی،عملی اور تعمیری کوششوںاور کاوشوں کا مرکز بنا لیا جیسا کہ شبلی نعمانی امام فراہی کے نام اپنے ایک خط میں شبلی نیشنل کالج کا مختصر ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:"بحث یہ ہے کہ ہماری قومی قوت سرائے میر پرصرف ہو یا اعظم گڑھ پر دونوں کے قابل قوم نہیں ہے ۔کم سے کم یہ کہ دونوں کی جداگانہ پوزیشن قائم ہونی چاہئے اور ان کا باہمی تعلق بھی، کبھی کبھی یہ خیال ہوتا ہے کہ ،ان میں سے ایک کو مر کزبنا کر اسی کو دینی و دنیاوی تعلیم کا مرکز بنایا جائے ۔یہیں خدام دین بھی تیار ہوں اور مذہبی اعلی تعلیم بھی دلائی جائے ،گویا گر و کل ہو ۔تم اپنی رائے لکھو ۔ندوة میں لوگ کام کرنے نہیں دیتے تو اور کوئی دائرہ عمل بنانا چاہئے ہم سب کو وہیں بود وباش اختیار کرنی چاہئے ،ایک معقول کتب خانہ بھی وہاں جمع ہونا چاہئے اگر تم عزم و جزم موجود ہو تو میں موجود ہوں".
( 23اکتوبر عیسوی1913 شبلی ،)

                   حالات کے اس پس منظر میں علامہ شبلی نعمانی علی گڑھ کے بعد ندوہ کو خیر باد کہہ کر 1914ءمیں اپنے وطن اعظم گڑھ واپس لوٹ آئے اور مدرسة الاصلاح اور دار المصنفین پر توجہ مرکوز کر دی، ان کے وہ خواب جو ندوة میں شرمندہ  تعبیر نہ ہوسکے تھے، مدرسة الاصلاح کا مجوزہ منفردنظام تعلیم ان کی تعبیربن کر سامنے آنے والا تھا ، لیکن یہاں پہنچنے کے بعد ان کی زندگی نے وفا نہیںکی اور اپنے بعد اس خاکہ میں رنگ بھر نے کام اپنے خاص عزیزوںاورشاگردوں کے لئے چھوڑ کر دسمبر 1914ء میں ہمیشہ کے لئے اس دار دار فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کر گئے۔

                   علامہ شبلی نعمانی کے انتقال کے بعد ایک طرف دارالمصنفین کی ذمہ داری علامہ سید سلیمان ندوی نے سنبھالی، وہیں دوسری طرف مدرسة الاصلاح کی نظامت کی ذمہ داری امام فراہی نے اپنے سر لی ۔ اور 1919ءمیں حیدرآباد کی ملازمت سے سبکدوش ہو کرمدرسة الاصلاح کو اپنی تمام تر توجہات کا مرکز بنا لیا۔ یہاں کے اساتذہ اور درجات علےا کے طلبہ کو ہفتہ میں چند دن درس دیاکرتے ،مدرسہ کے لئے قدیم درس نظامی سے ہٹ کر ایک جامع نظام تعلیم اور مناسب حال نصاب تجویز کیاجس میں قرآن مجید تمام علوم و فنون کے محور کے طور پرتسلیم کیا گیا تاکہ اس کے ذریعہ طلبہ میں وسیع علم اور تحقیقی صلاحیت کے ساتھ کمال درجہ کا اطمینان و صبر، تقوی اور للہےت اور عمدہ کرداروصفات بھی پیداہو سکےں اور اس طرح اپنی ساری سوچ اور علمی توانائی صرف کرکے انہوں نے اس بنجر زمین میں مولانا محمد شفیع کے لگائے ہوئے پودے کو ایک تناور درخت کی صورت دی ،اس پاکیزہ درخت کی مانند جس کی جڑ ےں(زمین میں) مضبوط ہیں اور اس کی شاخیں آسمان میں ہیں لیکن جب اس پودے نے برگ اور بارلانا شروع کیا تو اس کا مالی اس چمنستان سے جداہو کر دور بہت دور اپنے آقا کے جوار میں پہنچ گیا۔

          امام فراہی کی وفات کے بعد ان کے قابل اور لائق شاگردوں مولانا اختر احسن اصلاحی اور مولانا امین احسن اصلاحی نے ان کے تشنہ تکمیل کاموں کو مکمل کرنے کی ذمہ داری سنبھالی اور شاگردی کا حق ادا کردیا،علمی دنیا تا ابد ان کے علمی کارناموں سے حظ اٹھاتی رہے گی۔ ایک نے علمی فکری وراثت سنبھالی اور ان کے نامکمل کی ترتیب اور ترجمہ و اشاعت کےلئے کاموں کو آگے بڑھایا تو دوسرے نے علم کے ساتھ شخصیت سازی پر توجہ دی۔امام فراہی کی غیر مطبوعہ تصانیف کی گیا 1935ءمیں مدرسہ الاصلاح میں دائرہ حمیدیہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیااس کے علاوہ اس ادارہ سے اردومیں" الاصلاح"کے نام سے ایک معیاری رسالہ شائع کیا گیا تا کہ اردو دا ں طبقہ کو بھی امام فراہی کے نظریات اور خیالات سے واقف کرایا جا سکے۔ رسالہ نامساعد حالات کی وجہ سے کچھ سالوں میں ہی بند ہو گیا لیکن ادارہ بہر صورت کام کرتا رہا اور آج بھی اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔

          مدرسة الاصلاح کا نشان امتےاز قرآن مجید کی محققانہ تعلیم،حدیث کے ساتھ فقہ مقارن اور دینی کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی تعلیم بھی ہے ۔ یہ ہندوستان کا وہ ممتاز ادارہ ہے جس مےں طلبہ کیلئے عصری تعلیم لازم قرار دی گئی اورآج بھی یہاں کے نصاب تعلیم مےں انگریزی، ہندی، جغرافیہ، تاریخ، سیاسیات، اور اردوو فارسی کے علاوہ معاشیات، سماجی سائنس ریاضی، علم طبعیات،علم کیمیا اوراورحیاتیات جےسے عصری علوم کی بھی تعلیم دی جا رہی ہے ۔جس کی وجہ سے یہاں کے طلبہ جدید دانش گاہوں میں بھی حصول تعلیم کی اہلیت سے مکمل طورپرمتصف ہوکر فراغت حاصل کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہاں کے فارغین آج کئی جدید اداروں میں بڑے عہدوں پر بھی متمکن ہیں ۔مدرسة الاصلاح اےسا علمی افق ہے جس پر طلوع ہونے والا ہر ستارہ اپنے علم کی روشنی سے اےک عالم کو تابندہ کرتا رہا ہے اور ےہ سلسلہ تاحال قائم ہے،تاہم اب پہلی باتےں نہےں، جہاں مرور ایام سے بڑ ی بڑی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں،تعلیم وتعلم کا ذوق بھی پھکا پڑ چکاہے جس کا ہر کسی کو احساس ہے، بس اس کے تسلیم کرلےنے اور تلافی مافات کی ضرور:ت ہے 

                                      کیسی وفا  و  الفت   کھاتے   عبث  ہو  قسمیں
                                      مدت ہوئی اٹھا دیں تم نے یہ ساری  رسمیں
(میر تقی میر)

قلق تو ان اقدار کی پامالی کا ہے جن کی پاسبانی میں مدرسة الاصلاح ممیز تھا، ہم اپنے زخم اس لئےکریدتے ہیں تاکہ زخمی ہونے کا احساس زندہ اور علاج کی ضرورت محسوس ہوتی رہے،مدرسة الاصلاح کی تحریک ایسے مقام پر آپہنچی ہے کہ اب اس کی نشاة ثانیہ اوراس کے کھوئے ہوئے وقار کو واپس لانے کی ضرورت ہے اوریہ اسی وقت ممکن ہے جب مدرسہ کے تعلیمی وتربیتی نظام کا از سر نو جائزہ لے کر اصلاحات کے لئے اقدام کیا جائے۔
رابطہ کا پتہ:
alamislahi@gmail.com

۔۔۔مزید

غربت کو مٹانے کی مہم ہوگئی الٹی



دہلی کے غریبوں پر حکومت کی نمک پاشی 

مہنگائی کا طوفان روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔عام بازار میں آٹا، چینی، گوشت، دودھ ،دہی، سبزیاں اور گھی اور تیل سب ہی کچھ مہنگا ہوتا جارہا ہے، ڈیزل پیٹرول اور اب گھریلو استعمال کی گیس کے نرخ بڑھادیئے گئے ہیں۔ مارکیٹ میں مختلف دالیں سو روپے سے بھی زیادہ کی قیمت پر فروخت ہورہی ہیں۔سی این جی بھی دو گنا تک مہنگی ہوچکی ہے جس کی وجہ سے کرایوں میں اضافہ دیکھا جارہا ہے، تکلیف دہ بجلی کاعذاب اور گیس کا کم پریشر گھریلو خواتین کے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔بسا اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو ان عوامی مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن دوسری جانب حکمراں طبقہ ہے،جو اپنی تمام تر توانائیاں صرف اپنی ضروریات پر خرچ کرتا نظر آرہا ہے، اس طبقہکے اخراجات میں کسی قسم کی کمی نہیں آرہی ہے۔ اس مہنگائی کے طوفان نے عوام کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔ تنخواہوں میں کسی قسم کا اضافہ یامہنگائی سے نجات کیلئے کسی بھی قسم کی رعایت کا امکان معدوم ہوکر رہ گیا ہے۔ ایسے میں اگر کسی ذمہ دار فرد کی جانب سے اس قسم کا بیان آ جائے کہ” پانچ ارکان کے غریب خاندان کے لئے 600 روپے مہینہ کافی ہے۔ یعنی ایک دن میں ایک آدمی کا کام صرف چار روپے کے اناج میں چل سکتا ہے“۔تو لوگوں کی کیا کیفیت ہوگی ؟ظاہر ہے یہ ان کے زخموں پر نمک پاشی اور ان کے جذبات کو مزید بھڑکانے والی بات ہوگی ۔

شاید اسی وجہ سے عوام دہلی کی وزیر اعلی کے اس بیان کو بحث کا موضوع بنائے ہوئے ہیں اور ہر خاص و عام میں گزشتہ سنیچر کو خوراک سری منصوبہ کے افتتاح کے موقع پر شیلا کے اس بیان کو ان کی لاعلمی سے تعبیر کر رہے ہیں ۔واضح رہے کہ اس موقع پر یو پی اے چیر پرسن سونیا گاندھی بھی موجود تھیں جس میں شیلا نے یہ بھی کہا تھا کہ دال، روٹی اور چاول کے لئے غریب خاندان کے لئے 600 روپے کی کیش سبسڈی کافی ہے۔ شیلا نے جب یہ بیان دیاغور طلب ہے کہ دہلی میں شروع ہونے والے اس اسکیم کے تحت ضرورت مندخاندان کو ہر ماہ 600 روپے راشن خریدنے کے لئے دیئے جائیں گے، جو براہ راست خاندان کی خاتون رکن کے بینک اکاو ¿نٹ میں ٹرانسفر کر دیے جائیں گے۔بتایا جا رہا ہے کہ اس اسکیم کا فائدہ 25 لاکھ لوگوں کو ملے گاتاہم ان سب کے باوجود اس منصوبے سے فائدہ اٹھانے والے لوگوں نے شیلا کے بیان پر سخت اعتراض کیاہے ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ کس طرح اور کس حساب سے شیلا دکشت نے کہہ دیا کہ 5 ارکان پر مشتمل خاندان میں 600 روپے کافی ہے، کیا 5 ارکان والے گھر کے لوگ پانی پی کر رہتے ہیں اور ہوا کھا کر زندگی گزار دیتے ہیں، کیا اس گھر کے لوگ کبھی بیمار نہیں ہوں گے، وہ لوگ رہیں گے کہاں؟ ۔

بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کہا کہ پانچ سے سات افراد کے خاندان میں مہینے کا راشن 1000 سے 3000 روپے کے درمیان آتا ہے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ اگر ایک غریب خاندان کے لئے 600 روپے کافی ہیں تو بیماری، رہائش کے مسائل اور مہنگائی میں گزارا کیسے ہوگا۔ 600 روپے صرف ایک سہارا بھر ہے۔ نہیں سے اچھا ہے کہ کچھ تو ملے گا۔ گنگا دیوی نے کہا کہ وہ ہر ماہ راشن پر ،000 3روپے خرچ کرتی ہیں پھر 600 روپے میں کیا ہوگا؟منصوبہ کو شروع کرنے کے موقع پر کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے کہا کہ یہ منصوبہ بنیاد کارڈ سے وابستہ ہوگا اورپی ڈی ایس اسکیم سے الگ ہوگا۔ سونیا گاندھی نے اناج سری اسکیم نافذ کرنے کے لئے دہلی حکومت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس سکیم کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ پیسہ ضرورت مند خاندان کی خاتون رکن کو ملے گا۔ سونیا گاندھی نے کہا کہ یو پی اے اور کانگریس کی حکومت غریبوں کو کھانا دینے کی گارنٹی کو لے کر سنجیدہ ہے اور جلد ہی پارلیمنٹ میں فوڈ سیکورٹی بل پیش کیا جائے گا۔

کانگریسی رہنماں کے ان باتوں میں کتنا دم ہے اس کا اندازہ ہم ان دو امیر زادوں کے بیان سے لگا سکتے ہیں جنھوںنے گزشتہ دنوں 100 روپیہ یومیہ میں زندگی بسر کرنے کا کربناک تجربہ کیا ہے۔ ایک نوجوان کا تعلق ہریانہ سے ہے جو ایک اعلیٰ پولیس افسر کا بیٹا ہے ، اس نے امریکہ سے تعلیم حاصل کی ہے جب کہ دوسرا نوجوان کم عمری میں ہی اپنے والدین کے ساتھ امریکہ چلاگیاتھا۔ گزشتہ دنوں ان دونوں نوجوانوں نے یو آئی ڈی پروجیکٹ میں شرکت کی تھی اور یہاں ساتھ رہنے لگے تھے، دونوں نے ایک دن یہ فیصلہ کیاکہ کیوں نہ ہم ایک ہندوستانی کی اوسط آمدنی پر ایک ماہ گزار کر ہندوستانی عوام کی زندگیوں کو عملی طورپر سمجھنے کی کوشش کریں۔ انھوںنے اس دوران پایاکہ اب وہ اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ اس ادھیڑبن میں گزارتے تھے کہ دو وقت کے کھانے کا انتظام کس طرح کریں۔ اب ان کی زندگی کا دائرہ بہت محدود ہوگیاتھا۔ سستی غذائی اشیا کی تلاش ان کا روزمرہ کا معمول بن گیاتھا، بس کاسفر پانچ کلومیٹر سے زائد کا نہیں کرسکتے تھے۔ بجلی کا استعمال بھی بمشکل پانچ چھ گھنٹے ہی کرپاتے تھے اور نہانے کاایک صابن دونوں لوگ آدھا کاٹ کر استعمال کرتے تھے۔ گویا ان کی زندگی انتہائی مشکلات کاشکار ہوگئی تھی۔ جب کہ سوروپے یومیہ خرچ کرتے تھے۔ اب ذرا ہم ان 80 فیصد ہندوستانی عوام کی زندگی پر نگاہ ڈالیں جن کی آمدنی محض بیس روپے روزانہ ہے اور ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق شہروں میں 32روپے یومیہ اور دیہی علاقوں میں 26 روپے یومیہ خرچ کرنے والے افراد کو غربت کے دائرے سے باہر رکھاگیا ہے۔ ان کی زندگیاں کس طرح گزررہی ہیں،اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔؟ یہ تو ایک واقعہ ہے جس نے ہندوستانی غریب عوام کی زندگی کی صرف ایک جھلک بھر دکھایا ہے ۔

گزشتہ دنوں قوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ ہندوستان کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت میں زندگی گزارتی ہے جبکہ افریقہ کے علاوہ دنیا کے سب سے زیادہ غریب ایشیائی ممالک یعنی ہندوستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش میں رہتے ہیں۔خود حکومت کی تشکیل کردہ تیندولکر کمیٹی نے پنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ملک کی آبادی کا37 فیصد حصہ انتہائی غربت کے زمرے میں آتا ہے لیکن یو این ڈی پی نے غریبوں کا تعین کرنے کیلئے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے وہ ٹینڈولکر کمیٹی اور منصوبہ بندی کمیشن کے طریقوں سے مختلف ہے۔ادارے نے آمدنی کے علاوہ حفظان صحت، تعلیم اور معیار زندگی کو بھی مد نظر رکھا ہے اور اس بنیاد پر غربت کا کثیر جہتی اشاریہ تیار کیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس انڈیکس سے ملک میں غربت کی ایک واضح تصویر ابھر کرسامنے آتی ہے جو صرف آمدنی کی بنیاد پر ممکن نہیں ہے۔اس اشاریہ کے مطابق دنیا کے 10 غریب ترین ممالک تو افریقہ میں ہیں لیکن اگر کسی ایک ملک میں کل تعداد کی بات کی جائے تو دنیا کے سب سے زیادہ غریب جنوب ایشیائی ممالک یعنی ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں رہتے ہیں۔

لیکن ان سب کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے حالات میں تبدیلی نہ لانے کی ٹھان لی ہے تبھی تو ہم آئے دن یہ سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں کہ فلاں نے فلاں جگہ پر کھانا نہ ملنے کے سبب دم توڑ دیااور مناسب تغذیہ نہ ملنے کے سبب بیماریوں کا شکار بن گیا۔ایسے مصیبت زدگان کی کہانیاں تو آئے دن اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیںلیکن اسے المیہ ہی کہا جائے گا کہ سرکارغربت کے شکار افراد کے احساسات کو سمجھنے ،ان کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے نئے نئے شوشے چھوڑ کر عام لوگوں کے زخموںپر نمک پاشی کا کام کر رہی ہے ؟حالانکہ جمہوری ریاست کے پھلنے پھولنے میں اہم محرک عوام کے حقوق کی فراہمی ہے جمہوریت کے ثمرات صرف محدود طبقات تک نہیں بلکہ عام آدمی کو بھی اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے ورنہ عام آدمی یہی کہنے پر مجبور ہوگاکہ 
     غربت  کو  مٹا نے   کی   مہم   ہو گئی   الٹی 
گھر کوئی  بھی  مہنگائی  سے  بچتا نہیں لگتا
بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اب الجھنیں بے باک 
تبد یلی   کوئی   آئے  گی   ایسا    نہیں   لگتا

http://dawatonline.com/Page4.aspx
MD Alamullah Islahi 
alamislahi@gmail.com


۔۔۔مزید