بدھ، 15 اکتوبر، 2014

وہ عیش پرست ملا.....

بقرعید کے دوسرے دن ڈائری میں لکھی گئی تحریر سے چند سطریں۔۔۔۔۔

اور آج تو حد ہی ہو گئی،آفس کے لئے جب میں نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کئی بچے جن کی عمریں مشکل سے دس اور بارہ کے درمیان رہی ہوگی کرتا، پاجامہ ،ٹوپی اور شلواربتا رہے تھے کہ یہ سب مدرسہ کے طلباء ہیں دروازے دروازے جاکر چرم قربانی تحصیل کر رہے تھے ۔ذرا اور آگے بڑھا تو دیکھا لب سڑک چمڑوں کا انبار ویسے ہی لگا ہے اور ایسے ہی دوچار بچے بیٹھے ناشتہ کر رہے ہیں ۔مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں ایک ہاتھ سے وہ مکھیوں کو اڑاتے جاتے ہیں اور ایک ہاتھ سے منہ میں لقمہ ۔۔۔کیا بتاوں مجھے کتنا غصہ آ رہا تھا اور افسوس بھی ہو رہا تھا کہ وہ جنھیں کل کا قائد اور مسلم قوم کا سربراہ کہا جائے گا ان کے احساسات اور جذبات کو کس قدر کچلا جا رہا تھا ،کیسے روندا جا رہا ہے ان کے خو کو ، کل کو وہ اسی معاشرے میں جہاں وہ جھولے لے لے کر مانگنے جا رہے ہیں سر اٹھا کر چل سکیں گے ۔اللہ اللہ جنھیں مہمانان رسول کہا جاتا ہے ان کا معیار کہاں سے کہاں پہنچا دیا ۔ اگر اتنی ہی قوم سے ہمدردی ہے تو مدارس کے وہ عیش پرست ملا خود کیوں نہیں نکلتے اپنے حجروں سے۔ کیوں بچوں کے مستقبل کو تباہ کرتے ہیں نہ جانے کتنے خیالات ذہن میں ٹکراتے رہے ۔

۔۔۔مزید