سنیما کے سلسلہ میں برصغیر کےنوے فیصد دین اسلام کے ٹھیکیداروں کی یہی رائے ہے کہ یہ حرام اور لہو لعب ہے اس لئے شراب اور سور ہی کی طرح سنیما اور فلموں کو اچھوت قرار دے دیا گیا ہے۔ اس میں ان کا دوش نہیں ہے، دراصل انہوں نے سنیما کے نام پر مغل اعظم اور پاکیزہ کو ہی جانا ہے۔ انہیں معلوم نہیں کہ یہ کمرشیئل سنیما فلم سازی کے فن کا ایک بہت معمولی اور گھٹیا حصہ ہے۔ سنیما دراصل اظہار کا ایک موثر اور خوبصورت ذریعہ ہے۔ اپنی بات دنیا تک پہچانے کے معاملہ میں سنیما جتنا کامیاب رہا ہے،اتنا نہ تو تحریریں رہیں اور نہ تقریریں۔ دنیا بھر میں یہودوں کو مظلوم ترین قوم کے طور پر اسی سنیما نے شناخت دلائی۔ دنیا میں جو معیاری سنیما ہے اس میں بڑے بڑے مسائل اور سوالات کو دنیا تک پہنچایا جا رہا ہے، لوگوں کے خیالات تبدیل کرائے جا رہے ہیں اور نظریات کو قائم کیا جا رہا ہے ایسے میں ہم لکیر کے فقیر اب تک یہ ہی نہیں جان پائے کہ فلمیں صرف ممبئی میں بننے والے ناچ گانے کو ہی نہیں کہتے۔ کاش ہم نے سنیما کو اپنی بات کہنے کا ذریعہ بنایا ہوتا تو شائد آج ایک متبادل بیانیہ بھی دنیا کے سامنے ہوتا۔ ہم تو وہ عظیم قوم ہیں جس میں خود ساختہ دین کے ٹھیکیدار کی برکت سے پرنٹنگ پریس صدیوں تک حرام قرار دے کر نہیں آنے دی گئی۔ ایسے میں سنیما جیسے ترسیل کے عظیم ذریعہ کی افادیت کہاں کس کی سمجھ دانی میں آئے گی؟۔
محمد علم اللہ
محمد علم اللہ
0 تبصرہ جات:
ایک تبصرہ شائع کریں