جمعرات، 26 اپریل، 2018

تو کیا ملی قائدین ڈر گئے ہیں؟

محمد علم اللہ
ذرا دیر کو تصور کیجئے کہ اس وقت مرکز میں کوئی اور حکومت ہوتی اور اس طرح اسرائیلی وزیراعظم گاجے باجے کے ساتھ تقریبا ایک ہفتے کے دورے پر آتا تو ہمارے نام نہاد ملی قائدین کیا کر رہے ہوتے؟۔..... یقین مانیے یہ قائدین اتنا احتجاج اور اودھم مچاتے کہ حکومت کی اسرائیلی وزیراعظم کو بلانے کی ہمت ہی نہ ہوتی اور اگر دورہ ہوتا بھی تو چپ چاپ ہوتا؛
لیکن آج؟
آج انہیں ملی قائدین کی خاموشی دیکھئے کہ گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں۔
کسی قائد کی مجال نہیں کہ مختصر سا احتجاجی مظاہرہ ہی کر لے۔ حتی کہ وہ حضرات جو ہر مسلمان نوجوان کی رہائی کا کریڈٹ لینے کے لئے اپنے زرخرید اردو رپورٹروں سے پیڈ نیوز چھپواتے ہیں وہ تک منہہ میں ریوڑیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔
اس بات کا ایک اور ثبوت تین طلاق مخالف بل بھی ہے۔ اگر یہ بل کسی اور حکومت کے دور میں آتا تو یہ حضرات اپنے اپنے جھنڈے بینر اٹھا کر ریلیاں کر رہے ہوتے لیکن یاد کرکے بتائیے کہ لوک سبھا میں بل منظور تک ہو گیا لیکن کون سا ملی قائد تھا جس نے پرامن احتجاج کا حق استعمال کیا؟؟؟
اسرار الحق قاسمی اور بدرالدین اجمل قاسمی جیسے لوگ ایوان کے رکن ہونے کے باوجود تقیہ کرکے نکل گئے۔
اس ساری کیفیت سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں یا تو ہماری ملی قیادت اس قدر ڈری ہوئی ہے کہ اس کی ہمت ہی نہیں ہو رہی کہ جائز اور جمہوری حق کے لئے سامنے آئے۔ ان ملی قائدین کو شائد ایسا لگ رہا ہے کہ زیادہ اچھل کود کی تو یہ حکومت بہت مار مارے گی اس لئے اپنی پگڑیاں بچائے پھر رہے ہیں،
لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور ہمارے ملی قائدین ابھی بھی خود کو غیرت مند اور نڈر مانتے ہیں اس کے باوجود سامنے نہیں آ رہے تو اس کا مطلب یہی نکالا جائے گا کہ پردے کے پیچھے سیٹنگ ہو گئی ہے۔
ہم نے ہمیشہ فلسطینیوں کے حق کے لئے آواز بلند کی ہے اور آج ظالم و جابر اسرائیل کا سربراہ ہمارے گھر آیا ہوا ہے لیکن ہم نے اس کے خلاف احتجاج تک درج کرانا مناسب نہیں سمجھا ہے، جب ان سے پوچھو تو کہا جاتا ہے کہ ابھی وقت نہیں آیا تو میں پوچھنا چاہتا ہوں وہ وقت کب آئے گا؟
Mohammad Alamullah