ہفتہ، 11 اگست، 2012

مسلم نوجوانوں کے خلاف پولس کی عرضی مسترد


پھر خوار ہوئی خاکی وردی  

محمد علم اللہ اصلاحی 
 ملک کے امن و امان کو بر قرار رکھنے میں پولیس کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے انھیں ملک کی حفاظت و صیانت کا نگہبان تصور کیا جاتا ہے ، جس کے ذمہ جرائم پر قابو پانا ہی نہیں بلکہ شہریوں کو اعتماد میں لے کر ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے جائز اقدامات بھی کرنا ہوتا ہے۔پولس سماج کی پر امن فضا کو مکدراوربدامنی سے پاک کرنے میں خصوصی رول نبھاتی ہے وہیں وہ عوام او رحکومت کے مابین ایک مضبوط رشتہ بھی استوارکرتی ہے،لیکن اگر محافظ کا رول نبھانے والی پولس کاکردار ہی ظالمانہ ہو جائے توملک میں امن و آشتی کی امیدنہیںکی جاسکتی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آج عوام دہشت گردی سے تنگ آ چکی ہے اور یہ کہنے لگ گئی ہے کہ دہشت گردی کو جلد سے جلد جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور ان سب کو مار گرایا جائے جو سینکڑوں ہزاروں بے قصوروں کی جان لینے میں جھجک محسوس نہیں کر تے،لیکن اس میں شرط وہی ہے کہ وہ واقعی دہشت گردہوں اور ان کے دہشت گرد ہونے کا مکمل ثبوت بھی موجودہو۔

 اس پس منظرمیںپولیس کے کردار پرتب کئی سوال اٹھ کھڑے ہوتے ہیں،جب کسی معصوم کو پکڑ کر اسے دہشت گرد بنادیاجاتاہے۔دراصل پولس کے محکمہ میں متعدد خامیاں آ گئی ہیںاورقانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کارواج عام ہوگیاہے۔ تقریباروزانہ ہی کہیںنہ کہیں پولیس کی طرف سے قانون کو ہاتھ میں لینے کا معاملہ سامنے آتا رہتا ہے۔ شاطر بدمعاشوں اور دہشت گردوں کے ساتھ پولیس کی فائرنگ عام بات ہے، مگر ان میں کتنی جائز اور کتنی فرضی ہوتی ہے، اس کا پتہ نہیں چل پاتا، نہ جانے اب تک کتنے ہی معصوم لوگوں کو فرضی تصادم میں قتل کر دیا گیا ہوگا۔ان دنوں پولیس کا یہی ”تصادم“ایک بار پھر بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ جس میں دہلی ہائی کورٹ نے7 سال پہلے ایک جھڑپ کے بعد گرفتار 7 مشتبہ افراد کو رواں ماہ یعنی 6اگست کوبری کرنے کے نچلی عدالت کے فیصلہ کے خلاف پولس کی اپیل مسترد کر دی ہے۔یہاں پر یہ بات بھی عرض کر دینے کی ہے کہ اس معاملہ میں 9فروری 2011کودہلی پولیس کی طرف سے دہشت گرد بتائے گئے سات لوگوں کودہلی کی نچلی عدالت نے رہا کرنے کا حکم دیا تھااور کہا تھا کہ اس سلسلے میں پولیس کی فائرنگ کی کہانی بہت احتیاط سے گڑھی گئی ہے۔اس وقت اضافی سیشن جج وےرےندر بھٹ نے ثاقب رحمان، بشیر احمد شاہ، نذیر احمدصوفی، حاجی غلاممعین الدین ڈار، عبدالمجید بٹ ،عبد القیوم خان اور وریندر کمار سنگھ کو بری کر دیاتھا ۔عدالت کے فیصلہ کے بعد بھی دہلی پولس کی پیٹ کا درد ختم نہیں ہوا اور اس نے ساتوں کے خلاف دوبارہ رٹ دائرکر دی لیکن دہلی ہائی کورٹ کے فاضل ججوںنے ایک مرتبہ پھر اپنی مدبرانہ فیصلہ کے ذریعہ پولس کی سازش کوہی طشت ازبام نہیں کیا ہے بلکہ ان کے اس سیاہ کارنامے پر انھیں پھٹکار بھی لگائی ہے ۔

  اس معاملہ میں جسٹس ایس روےندر بھٹ اور جسٹس ایس پی گرگ پر مشتمل بینچ نے نہ صرف پولس کی اپیل مسترد کی بلکہ نچلی عدالت کے اس نتیجے سے اتفاق ظاہر کیا کہ یہ’تصادم فرضی‘ تھا اور تمام 7 ملزمان کو اس معاملے میںجھوٹ پھنسایا گیا تھا۔عدالت نے کہا کہ اگر ریکارڈ میں موجود ثبوتوں کی بنیاد پرنتائج پختہ ہوں تو ملزمان کو بری کرنے کے نچلی عدالت کے فیصلہ سے اپیلی عدالت کو چھیڑ چھاڑ نہیں کرنی چاہئے۔ عدالت نے کہا کہ نچلی عدالت کے فیصلہ میں مداخلت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ججوں نے فرضی تصادم کے معاملے میں چار پولس اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے نچلی عدالت کے حکم میں ترمیم کی ہے۔اس سے پہلے پولس نے دعویٰ کیا تھا کہ مخبر سے ملی اطلاعات کی بنیاد پر اس نے جولائی 2005 میں دہلی۔ گڑگاںبارڈر پر ایک تصادم کے بعد ثاقب رحمن، نذیر احمدصوفی، غلام معین الدین ڈار اور بشیر احمد شاہ کو گرفتار کیا تھا۔ پولس نے ان کی کار سے ہتھیار برآمد کرنے کا بھی دعویٰ کیا تھا۔ پولس نے بعد میں تین دیگر افراد کو بھی گرفتار کیا تھا۔پولس کے مطابق ایک کار میں سوار ان ملزمان نے اشارہ دینے پر بھی کار نہیں روکی تھی۔ اس پر سب انسپکٹر رویندر تیاگی کی قیادت میں پولس نے ان کا پیچھا کیا اور بعد میںثاقب کی فائرنگ کے جواب میں تیاگی نے اپنی سروس ریوالور سے گولیاں چلائیں۔

 اس معاملہ میں پولس کا کہنا تھا کہ یہ دہلی اور اس کے مضافاتی علاقوں میں واردات کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔پولس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ثاقب کی نشاندہی پر ایک اے کے 47 رائفل، دو مےگزین، 130 کارتوس، دو دستی بم اور دیگر ہتھیار برآمد کیے گئے تھے لیکن نچلی عدالت نے ان تمام ثبوتوں کو نظر انداز کر دیا تھا۔نچلی عدالت نے اپنے فیصلے میں تمام حقائق اور ثبوتوں پر غور کے بعد تمام 7 ملزمان کو بری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک اور دو جولائی 2005 کی رات میں کوئی مڈبھیڑ نہیں ہوئی تھی اور یہ فرضی تصادم تھا۔عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ تصادم کی کہانی دہلی پولس کے اسپیشل سیل کے دفتر میں لکھی گئی تھی جسے سب انسپکٹر روےندر تیاگی نے سب انسپکٹر نراکار، سب انسپکٹر چرن سنگھ اور سب انسپکٹر مہندر سنگھ کی مدد سے لکھا تھا۔عدالت نے کہا کہ یہ ناممکن ہے کہ مختلف تھانوں سے لئے گئے الگ الگ درجہ کے 15 سے زیادہ پولس افسران کی جانچ ٹیم مختلف مقامات پر رہنے والے ملزمان کو جھوٹے معاملے میں پھنسانے کی سازش کرے گی۔ عدالت نے کہا کہ عرضی گذاروں کو قصوروار پائے جانے سے پہلے ہی سزا نہیں دی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے پولس کمشنر کو ہدایت دی کہ وہ اس معاملے میں عرضی گذاروں کے کردارکی تحقیقات کریں اور پھر قانون کے مطابق مناسب کارروائی کریں۔

 عدالت کے اس فیصلہ کو نیک فال تصور کیا جا رہا ہے۔ عدالت کا یہ تبصرہ پولس والوں کے منھ پرواقعی نہ صرف ایک بڑا طمانچہ ہے بلکہ ان کے لیے ایک سبق بھی ہے۔عدالت نے پولس کے ذریعے انجام دیے جانے والے فرضی انکاونٹر کے بارے میں پہلی بار اس قسم کے سخت لہجے کا استعمال کیا ہوایسا بالکل بھی نہیں ہے بلکہ ملک کی عدالتیں ماضی میں بھی پولس کو اس معاملے میں کھری کھوٹی سنا چکی ہیں۔ لیکن پولس اتنی ہٹ دھرم اور سخت جان ہے کہ اس پر کچھ فرق ہی نہیں پڑتابلکہ مزید ان کے ناجائز کاموں میں اضافہ ہی ہوتا ہے ۔ملک کے اعلیٰ طبقہ سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے آدمی تک سے اگر پولس کے بارے میں ان کی ذاتی رائے جاننے کی کوشش کی جائے، تو سب کا جواب پولس کے تئیں نفرت بھرا ہی ہوگا۔ شاید ہی کوئی ایسا آدمی ہو جو کسی پولس والے کی تعریف کرے۔ اور پھر ایسے میں پولس کے ذریعے انجام دیے جانے والے فرضی انکاونٹر کے معاملوںنے تو گویا جلتے میں گھی کا کام کیا ہے۔ ان فرضی انکاونٹرس میں نہ صرف بدمعاشوں، ڈاکووں اور لٹیروں کی جانیں گئی ہیں، بلکہ ملک کے بہت سے معصوم شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ سیکڑوں فرضی انکاونٹرس کو انجام دینے کے بعد بعض پولس والے خود کو ”انکاونٹر اسپیشلسٹ“ کہلانا زیادہ پسند کرتے ہیں،بلکہ اس لقب کو یوں سمجھتے ہیں جیسے انہیں کوئی بڑا تمغہ مل گیا ہو، جیسے انہیں فوجیوں کی طرح ہی ’ویر چکر‘ حاصل ہوگیا ہو۔پولس کی ذہنیت جب یہ ہوگی، برے کام کو انجام دینے کے بعد اسے ندامت نہیں بلکہ اس پر انہیں فخر ہوگا، تو پھر بھلا’ جرائم‘ پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے۔

 دراصل اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پولس بعض معاملوں میں عدالت کا سامنا نہیں کرنا چاہتی۔ اسے جب یہ احساس ہو جاتا ہے کہ فلاں سرغنہ، ڈکیت، یا خونخوار مجرم کے معاملہ میں عدالتی کارروائی طویل مدتی ہو سکتی ہے، شاید وہ مجرم عدالت کے ذریعے بری بھی ہو جائے، تو وہ پھر’ فرضی انکاونٹر ‘یا پھر ’فرضی گرفتاری کو انجام دیتی ہے۔ ملک کی عدالتوں اور قانون سازوں کو اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ چندن کی لکڑی اور ہاتھی دانت کے ملک کے سب سے بڑے اسمگلر، ویرپن کے مبینہ انکاونٹر کے معاملے میں بھی شاید پولس کی یہی ذہنیت کارفرما تھی۔ ان معاملوں میں بعض مقام ایسا بھی آیا ہے، جب ملک کے لوگوں کی عام رائے بھی کچھ ایسی ہی بنتی دکھائی دیتی ہے کہ فلاں مجرم کو کب تک جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بند رکھا جائے گا، کب تک عدالتوں میں اس کے خلاف گواہوں اور ثبوتوں کو پیش کرنے کی کارروائی چلتی رہے گی، جب کہ سیکڑوں آنکھوں نے اسے جرم کرتے دیکھا ہے اور وہ واقعی ایک بڑا مجرم ہے۔ لوگوں کی اس عام رائے سے بھی بعض دفعہ پولس متاثر ہوتی دکھائی دیتی ہے، اور شاید ماضی میں اس نے بعض معاملات کو انہی حالات کے پیش نظر انجام دیا ہے۔ 2008 کے ممبئی حملے کے پاکستانی دہشت گرد، اجمل عامر قصاب کے معاملہ کو اس کی مثال کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

 لیکن پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر پولس کو اس قسم کی آزادی دے دی جائے، تو کیا یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اس کا ہر عمل جائز اور درست ہوگا، شاید نہیں،کیوں کہ موجودہ معاملہ کے علاوی ہمارے سامنے ایسی بھی بہت سی مثالیں ہیں، جن میں پولس کے ہاتھوں بے گناہوںکی گرفتاریاں اور معصوموں کوہلاک کیا گیا ہے۔ پولس کو اگر یہ آزادی دے دی جائے، تو پھر ملک کے اندر نہ صرف عدالتوںکا وجود خطرے میں پڑ جائے گا بلکہ ان کے ایسے رویہ کی وجہ سے بد امنی اور انارکی کا بول بالابھی ہوگا۔ایسے میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پولس قانون کی حفاظت کرے، عدالتوں کی بات مانے ، ملک کے شہریوں کی حفاظت کرے، خود سے انصاف کرنے کی ذہنیت کو اپنے دل سے نکالے، اگر پولس والے چاہتے ہیں کہ لوگوں کے منھ سے انہیں دیکھ کر گالیاں نہ نکلیں، بلکہ ان کی بھی اسی طرح عزت کی جائے، جس طرح ملک کے فوجیوں کی کی جاتی ہے ،تو انھیں اپنے اندر تبدیلی لانی ہی ہوگی اور یہ تبھی ممکن ہیں، جب پولس اپنے رویہ میں ایمانداری سے تبدیلی لائے۔ وہ لوگوں کے اندر یہ اعتماد پیدا کرے کہ پولس واقعی لوگوں کی ہمدرد ہے، وہ دکھ درد میں اور مشکل کی گھڑی میںعوام کے کام آسکتی ہے۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یقینا کی گارنٹی دی جاسکتی ہے کہ ملک کے شہریوں کی حفاظت سکے گی اور امن و امان کا قیام سہل اور ممکن العمل ہوسکے گابصورت دیگر ساری کی ساری کوششیں رائگاں اور اقدامات بے کار جائیں گے۔