فرقہ بندی کی تباہ کاریاں
عادل اعظمی
نئی دہلی
اسلام میں فرقوں کی ابتدا تو خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہی شروع ہو چکی تھی اور وہ فرقہ تھا خوارج کا جنہوں نے گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر ہونے کا سرٹیفیکٹ دینا شروع کر دیا تھا اور جہنم کے دربان بن کر دھڑادھڑ اسمیں لوگوں کو گرانے لگے ۔ اس کی بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں شیعوں کا ظہور ہوا جو فلسفہ اور عقیدہ سے الگ ہٹ کر ایک اور ہی مسئلے پر اٹک گئے اور افضلیتِ علی کو لیکر فضیلتِ اسلام کو ہی مسخ کر دیا ۔ پھر عہد اموي میں کرامیہ، جہمیہ،قدریہ، روافض وغیرہ نامی فرقے رومی و ایرانی فلسفہ سے متاثر ہوکر اپنی غیر متوازن افکار لیکر نمودار ہوئے ۔ ان میں کوئی کہتا کہ ایمان ہی سب کچھ ہے اعمال تو محض دکھایا ہیں لہٰذا نماز روزہ وغیرہ غیر ضروری ہیں تو کوئی ایک قدم اور آگے بڑھ کر گناہ وغیرہ کو غیر مضر قرار دیتا ہے پھر کسی نے تقدیر کو سب کچھ بتا کر خدا کی صفات پر سوال کھڑا کر دیا اور کہا کی تقدیر میں جب سب متعین ہے تو گناہ کا کوئی نقصان نہیں اور کسی نے زور بیانی میں خدا کے علم غیب کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ حوادث کی جانکاری تو خدا کو ہے مگر وہ اسمیں دخیل نہیں ہے ۔ پھر آیا عھد عباسی کا دور جسمیں مسلمانوں کی رسائی یونانی فلسفے سے ہوئی تو نیا فرقہ معتزلہ وجود میں آیا جس نے فلسفہ کو بنیاد بنا کر اسلامی عقائد پر شکوک و شبہات ظاہر کیے اور خلق قرآن کی بیکار بحثوں میں امت کو الجھا کر بے پناہ صلاحیتوں کا ضیاع کیا ۔ وقت گرنے کے ساتھ ساتھ سارے فرقے دم توڑ گئے مگر مصر میں فاطمی حکومت کے قیام اور شیعیت کے پولیٹائیزیشن نے شیعوں کو باقی رکھا ۔ برصغیر ہند میں جب حکومت کا ڈنڈا سر سے ہٹا تو خالص ہندو معاشرتی مزاج کے حامل مسلمانوں نے ایک الگ ہی اسلام کی ترجمانی شروع کردی اور اس قبیل کے لوگ دنیا میں جہاں بھی گئے وہاں بریلوی ،اہلحدیث،دیوبندی، شیعہ سنی فرقوں کی داغ بیل ڈالی اور اسے خوب چارہ پانی دیا ۔ طبیعت کا تکدر پھر بھی کم نہیں ہوا تو أئمہ اربع کو فرقے کی شکل دیدی اور حنفی شافعی مالکی حنبلی نامی فرقے وجود پکڑنے لگے بھلے ہی یہ توفیق عہد عباسی کے لوگوں کو نہ ہوئی جنکے دور میں یہ امام پیدا ہوئے اور انکی فقہ مدون ہوئی مگر ہم برصغیر کے جاہلوں نے فقہ کی بنیاد پر فرقہ بنا کر ہی دم لیا ۔ اب تو عالم یہ ہے کہ کافر قرار دینے کا سرٹیفیکٹ ساتھ لیکر گھومتے ہیں جب طبیعت مین زرا اضمحلال طاری ہوا جھٹ سے کسی کو کافر ہونے کی سند عطا کردی بھلے ہی اسنے کفر میں نہ تو ڈپلوما کیا ہو اور نہ ہی گریجویشن ۔ اگر کوئی دیوانہ اپنے مؤمن ہونے ہونے کی سند مانگ بیٹھے تو اللہ کو دلوں کا حال جاننے والا بتا کر دامن جھاڑ لیتے ہیں مگر انکی بابصیرت آنکھیں دلوں کے کفر پتہ نہیں کیسے دیکھ لیتی ہیں ۔
عادل اعظمی
نئی دہلی
اسلام میں فرقوں کی ابتدا تو خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہی شروع ہو چکی تھی اور وہ فرقہ تھا خوارج کا جنہوں نے گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر ہونے کا سرٹیفیکٹ دینا شروع کر دیا تھا اور جہنم کے دربان بن کر دھڑادھڑ اسمیں لوگوں کو گرانے لگے ۔ اس کی بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں شیعوں کا ظہور ہوا جو فلسفہ اور عقیدہ سے الگ ہٹ کر ایک اور ہی مسئلے پر اٹک گئے اور افضلیتِ علی کو لیکر فضیلتِ اسلام کو ہی مسخ کر دیا ۔ پھر عہد اموي میں کرامیہ، جہمیہ،قدریہ، روافض وغیرہ نامی فرقے رومی و ایرانی فلسفہ سے متاثر ہوکر اپنی غیر متوازن افکار لیکر نمودار ہوئے ۔ ان میں کوئی کہتا کہ ایمان ہی سب کچھ ہے اعمال تو محض دکھایا ہیں لہٰذا نماز روزہ وغیرہ غیر ضروری ہیں تو کوئی ایک قدم اور آگے بڑھ کر گناہ وغیرہ کو غیر مضر قرار دیتا ہے پھر کسی نے تقدیر کو سب کچھ بتا کر خدا کی صفات پر سوال کھڑا کر دیا اور کہا کی تقدیر میں جب سب متعین ہے تو گناہ کا کوئی نقصان نہیں اور کسی نے زور بیانی میں خدا کے علم غیب کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ حوادث کی جانکاری تو خدا کو ہے مگر وہ اسمیں دخیل نہیں ہے ۔ پھر آیا عھد عباسی کا دور جسمیں مسلمانوں کی رسائی یونانی فلسفے سے ہوئی تو نیا فرقہ معتزلہ وجود میں آیا جس نے فلسفہ کو بنیاد بنا کر اسلامی عقائد پر شکوک و شبہات ظاہر کیے اور خلق قرآن کی بیکار بحثوں میں امت کو الجھا کر بے پناہ صلاحیتوں کا ضیاع کیا ۔ وقت گرنے کے ساتھ ساتھ سارے فرقے دم توڑ گئے مگر مصر میں فاطمی حکومت کے قیام اور شیعیت کے پولیٹائیزیشن نے شیعوں کو باقی رکھا ۔ برصغیر ہند میں جب حکومت کا ڈنڈا سر سے ہٹا تو خالص ہندو معاشرتی مزاج کے حامل مسلمانوں نے ایک الگ ہی اسلام کی ترجمانی شروع کردی اور اس قبیل کے لوگ دنیا میں جہاں بھی گئے وہاں بریلوی ،اہلحدیث،دیوبندی، شیعہ سنی فرقوں کی داغ بیل ڈالی اور اسے خوب چارہ پانی دیا ۔ طبیعت کا تکدر پھر بھی کم نہیں ہوا تو أئمہ اربع کو فرقے کی شکل دیدی اور حنفی شافعی مالکی حنبلی نامی فرقے وجود پکڑنے لگے بھلے ہی یہ توفیق عہد عباسی کے لوگوں کو نہ ہوئی جنکے دور میں یہ امام پیدا ہوئے اور انکی فقہ مدون ہوئی مگر ہم برصغیر کے جاہلوں نے فقہ کی بنیاد پر فرقہ بنا کر ہی دم لیا ۔ اب تو عالم یہ ہے کہ کافر قرار دینے کا سرٹیفیکٹ ساتھ لیکر گھومتے ہیں جب طبیعت مین زرا اضمحلال طاری ہوا جھٹ سے کسی کو کافر ہونے کی سند عطا کردی بھلے ہی اسنے کفر میں نہ تو ڈپلوما کیا ہو اور نہ ہی گریجویشن ۔ اگر کوئی دیوانہ اپنے مؤمن ہونے ہونے کی سند مانگ بیٹھے تو اللہ کو دلوں کا حال جاننے والا بتا کر دامن جھاڑ لیتے ہیں مگر انکی بابصیرت آنکھیں دلوں کے کفر پتہ نہیں کیسے دیکھ لیتی ہیں ۔
0 تبصرہ جات:
ایک تبصرہ شائع کریں