منگل، 10 مئی، 2016

ایک استاد کا اپنے شاگرد کو نصیحت

رائنر ماریہ رلکے کے خطوط کا مطالعہ جاری ہے ۔رلکے  کی پیدائش 4 ستمبر 1875 میں پراگ میں ہوئی  تھی ۔  رلكے کو جرمن زبان کے معروف  شاعراور ادیب  کے طور پرجاناجاتا ہے۔ جرمن اور فرانسیسی زبانوں کےماہر رلكے نے جدید زندگی کی پیچیدگیوں کی عکاسی  اپنے مخصوص انداز میں خوبصورتی سے پیش کی ہے ۔ چند اقتباسات کا ترجمہ ملاحظہ فر مائیں  ۔
علم

ادبی  تنقید  کا جہاں تک  ممکن ہو کم  مطالعہ کریں  ۔ ایسی چیزیں تو یک رخی  ہوتی ہیں یا زندگی سے عاری اور پتھر کی طرح بے جان  یا پھر  محض لفظوں کی پوٹلی  جن میں آج ایک نظریہ حاوی ہوتا ہے کل  کوئی  اور نظریہ جگہ لے لے گا  ۔ فن پارے انتہائی انفرادیت کے حامل ہوتے ہیں اور تنقید ان کو سمجھنے کا محض ایک ادنی ذریعہ ہے ۔ صرف محبت انھیں سمجھ سکتی ہے،  ان کی گرفت کر سکتی ہے اور ان کے ساتھ انصاف کر سکتی ہے ۔ ہر دلیل ، ہرحجت اور ہر  بحث کے متعلق آپ صرف خود اپنے آپ کو اور اپنے احساس اور ضمر  کو درست  تصور کریں ۔  اگر آپ پر غلطی واضح ہو جائے تو یہ آپ کی باطنی زندگی کو فروغ دینے کے علاوہ آپ کو نئی بصیرتیں عطا کرے گا ۔ اپنے نظریات کو اطمینان اور سکون کے ساتھ فروغ پانےدیجئے جو ہر ارتقائی عمل کی طرح دل کی گہرائیوں سے وا ہوتے ہیں ۔ اور جنھیں نہ زبردستی بڑھاوا دیا جا سکتا ہے  اور نہ ہی نہ کسی اور ذریعہ سے اس میں افزودگی پیدا کی جا سکتی ہے ۔  ہر عمل ایک تخلیقی عمل ہے، ولادت ہے ۔
احساس کے ہر  نقش اور  عنصر  کی تشکیل کرنا اسے  پایہ تکمیل کو پہنچاتا ہے ۔ وہ جو پوشیدہ ہے ، جو ناقابل بیان  ہے شعور سے پرے ہے ، جس کا ادراک نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کی تخلیق کا صبر سے عاجزی کے ساتھ انتظار کرنا ، واضح کرنا ، یہی ایک فنکار کی زندگی ہے کہ تخلیقی عمل کے ذریعہ وہ حقیقت کا ادراک کرتا ہے ۔
یہ گھڑیوں  کو ناپنے  کا معاملہ نہیں ہے ۔  یہاں وقت کوئی معنی نہیں رکھتا  ۔ایک فنکار کے لئے  دس برس کوئی چیز نہیں ۔ ایک فنکار بننے کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ اس کو حساب کتاب  میں مقید کر دیا جائے ۔ مگر ہاں  ایک درخت کی طرحاسے پھلنے پھولنے کا موقع  دیناچاہئے اس کو  زبردستی بڑھانے کی کوشش  نہیں کرنی چاہئے ۔بلکہ ایسا بننا  بہار کے طوفانوں کو بھی وہ اعتماد  کے ساتھ جھیل سکے ، اسے اس بات کا  خوف نہ ستائے  کہ  اس کے بعد موسم گرما آ جائے  گا ۔اسے تو آنا ہی ہے ، مگر صرف اس کے لئے جس  کے اندر  صبر اور  تحمل کا مادہ  ہو ۔ جوایسے بے نیازی سے ، اطمینان اور  وسعت کے ساتھ ہو جیسے کہ ہمیشگی  اس کے سامنے ہو ۔ میں روزانہ اپنی زندگی میں  اس کو سیکھتا ہوں ۔ درد اور کسک کے ساتھ اس کو  سیکھتا ہوں  اور مجھے خوشی ہے  کہ صبرایک بہت بڑی نعمت  ہے ۔
 Read as little as possible of literary criticism. Such things are either partisan opinions, which have become petrified and meaningless, hardened and empty of life, or else they are clever word-games, in which one view wins , and tomorrow the opposite view. Works of art are of an infinite solitude, and no means of approach is so useless as criticism. Only love can touch and hold them and be fair to them. Always trust yourself and your own feeling, as opposed to argumentation, discussions, or introductions of that sort; if it turns out that you are wrong, then the natural growth of your inner life will eventually guide you to other insights. Allow your judgments their own silent, undisturbed development, which, like all progress, must come from deep within and cannot be forced or hastened. Everything is gestation and then birthing. To let each impression and each embryo of a feeling come to completion, entirely in itself, in the dark, in the unsayable, the unconscious, beyond the reach of one's own understanding, and with deep humility and patience to wait for the hour when a new clarity is born: this alone is what it means to live as an artist: in understanding as in creating.

     In this there is no measuring with time, a year doesn’t matter, and ten years are nothing. Being an artist means: not numbering and counting, but ripening like a tree, which doesn’t force its sap, and stands confidently in the storms of spring, not afraid that afterward summer may not come. It does come. But it comes only to those who are patient, who are there as if eternity lay before them, so unconcernedly silent and vast. I learn it every day of my life, learn it with pain I am grateful for: patience is everything!
http://www.carrothers.com/rilke3.htm