منگل، 10 مئی، 2016

سورج نکلا تو

دلت فکشن....11
سورج نکلا تو
کہانی : سدا بھارگو
ترجمہ : محمد علم اللہ
رانچی . جھارکھنڈ . انڈیا

-------
وہ دلت تھی، اس پر بھی بیچاری عورت ذات! پھر تو دوگنی دلت۔ آدمی گھر بیٹھ اس کے سینے پر مونگ دلتا اور باہر رات کے سناٹے میں اس کی چیخ ہوا می تحلیل ہو جاتی ۔ سننے والوں کو سکون ہی ملتا، دلت جو ٹھہری!
پر ماں بھی تو تھی وہ، بس رکھ دیا تن من گروی۔ ایک ہی آس، بیٹا پڑھ جائے تو شاید بڑھاپے کا سہارا ہو ۔ آٹھویں پاس بیٹا اس دن چہکتے ہوئے آیا۔ بولا! ماں، ماں! دیکھ تو اس اخبار میں۔ حکومت ہمارا کتنا خیال رکھ رہی ہے۔ اب سے ہماری زمین، ہمارے درخت کوئی نہیں چھينےگا۔ ہم جنگل کے بادشاہ تھے اور رہیں گے۔
چپ بھی رہ۔ یہ باتیں پڑھنے اور سننے میں ہی اچھی لگتی ہیں۔ یہ گمراہ کرنے کی اچھی سازش ہے۔ ہوائی باتوں کو کاغذ پر اتارنے میں بھی کافی وقت لگتا ہے۔
ٹھيك ہے، كڑوے گھونٹ پینے کی تو عادت ہے۔ اب صبر کے گھونٹ پی کر پیٹ بھر لیں گے۔
اتنے برس بیت گئے آزادی کو، کسی نے ہماری سدھ لی؟
لیکن ماں پینسٹھ سال کے بعد ہمارا سورج تو نکلا۔ اسکی روشنی پھیلنے میں وقت تو لگے گا۔
اپنے بیٹے کے چہرے پر کھلی امیدوں کی پنکھڑیوں کو وہ مرجھاتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتی تھی، اس وجہ سے ایک ماں زبردستی اپنے ہونٹوں پر برکھا لانے کی کوشش کرنے لگی۔