بدھ، 19 فروری، 2014

کہانی ایک فنکار قیدی کی


محمد علم اللہ اصلاحی 

آئیے اب ملتے ہیں گریڈیہہ کے نغمہ اور ناگپوری گیتوں سے دلچسپی رکھنے والے محمد اشرف سے ،جو دفعہ 302 یعنی قتل کیس میں2008 میں جیل لائے گئے اور تب سے اب تک وہ یہیں اپنی زندگی کے دن گن رہے ہیں۔جیل کے اندر نغمہ و سرور کی محفل گرم رکھنے والے محمد اشرف کی تعلیم بہت زیادہ نہیں ہوئی ہے وہ خود کہتے ہیں ہمارے گا?ں گھر میں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں تھا اس لئے بہت زیادہ نہیں پڑھ سکا ساتویں پاس ہوں۔محمد اشرف کی عمر تقریبا 45سال کے قریب ہے،جب ہم نے ان سے انٹریو کی بات کی تو وہ سمجھ ہی نہیں سکے۔ ہم نے کہا ہم آپ سے بس بات چیت کرنا چاہتے ہیں ہم آپ سے جو پوچھیں گے بس آپ اس کا جواب دینا اس میں ڈرنے یا گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ سب سے پہلے ہم نے محمد اشرف سے پوچھا کہ آپ کس جرم میں یہاں لائے گئے تو انھوں نے بتایا کہ قتل کیس میں۔انھوں نے بتایا کہ جیل میں ان کے تین سال سات ماہ گذر چکے ہیں۔باہر کی زندگی کے بارے میں پوچھے جانے پر کہتے ہیں ،میں باہر زندگی کے بارے میں آج بھی وہی سوچتا ہوں جو کل سوچاکرتا تھا، جیل تو گھٹن کی دنیا ہے باہر جیسی آزادی یہاں نصیب نہیں ہے، جیل ایک ایسی چیز ہے جہاں آتے ہی اچھے سے اچھے آدمی کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ اگر باہر آپ کو کچھ ہو جاتا ہے تو دکھ سکھ کے ساتھی مل جاتے ہیں، ضرورت ہو تو وقت پر روپے یا مدد بھی مل جاتا ہے لیکن یہاں ویسابالکل بھی نہیں ہے،جیل آنے کے بعد میری ماں کا صحیح علاج صرف اس لیے نہیں ہو پایا کہ پیسے نہیں تھے اور اسی لیے (RIMS) رمس اسپتال میں ان کا انتقال ہو گیا۔میں باہر ہوتا تو کہیں نہ کہیں سے روپے کا جگاڑ کر امی کا بہتر علاج کراتا۔کیا آپ نے جیل کے بارے میں یہاں آنے سے قبل کچھ سن رکھا تھا ہم نے جب یہ پوچھا تو محمد اشرف کا جواب تھا ،ہاں جیل کے بارے میں جانتا تھا کیونکہ اس سے پہلے پونا جیل میں بجلی ملازم کے طور پر کام کرتا تھا، اس لئے پتہ تھا کے جیل کیسا ہوتا ہے لیکن یہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن ہمیں بھی یہاں آنا پڑے گا۔اخبار وغیرہ میں جیل کی بابت کچھ نہ پڑھ پانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے محمد اشرف کہتے ہیں پڑھے تو نہیں ہیں البتہ ہاں،ایک دو فلمیں بہت پہلے دیکھی تھی لیکن اب کچھ بھی یاد نہیں ہے، ایک فلم بہت پہلے دیکھا تھا جس میں قیدیوں سے چکی پسوایا جاتا ہے، نام یاد نہیں ہے اس کا لیکن ہاں اس کا گانا بہت اچھا لگا تھا اور وہیں سے مجھے بھی نغمے کی خواہش پیدا ہوئی۔جیل میں فلموں کی عکاسی کی بابت کہتے ہیں، فلموں میں بہت کم سچ کو دکھایا گیا ہے، یہاں (جیل) میں معاملہ کچھ اور ہی ہے ، جیل میں تو بم پھوڑ نے والے کو مجرم دکھایا جاتا ہے لیکن یہاں بم پھوڑنے کا شک جن کے اوپر ہو گیا چاہے اس نے نہ پھوڑا ہو لیکن وہ بھی بند ہے یہاں ایسی چیزوں کو فلم میں نہیں دکھایا جاتا۔محمد اشرف کہتے ہیں کہ فلمیں جرائم کو بہر حال بڑھا وا دیتی ہیں وہ زور دے کر کہتے ہیں ہاں فلم جرائم کو فروغ دینے والی چیز تو ہے۔اس کا اثر کہیں نہ کہیں پڑتا ہے لیکن اس پر توجہ نہیں دینا چاہئے لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ یہ تومحض کہانی ہے۔جیل میں لڑائی جھگڑا کی بابت محمد اشرف بتاتے ہیںکہ 100میں پانچ فیصد صحیح ہے باقی سب غلط۔گھر میں دو چار لوگ ہیں اس میں لڑائی جھگڑا ہو جاتا ہے اور یہ تو جیل ہے جہاں بہرحال اس بات کے امکانات مزید بڑھ جاتے ،لیکن یہ اتنا بڑا معاملہ نہیں ہے۔کیا غنڈہ گرد عناصر جیل میں بھی اپنی داداد گیری کامظاہرہ کرتے ہیں؟اس سوال کے جواب میںمحمد اشرف کہتے ہیں ہاں کچھ حد تک یہ صحیح ہے لیکن عام قیدی ایسے افراد سے احتیاط برتتے اور دور ہی رہتے ہیں۔فلموں میں جیل کی کیسی عکاسی ہونی چاہئے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد اشرف کہتے ہیںکہ جیل میں لوگ کیوں سڑ رہے ہیں؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس سے انہیں کیا کیا پریشانی ہوتی ہے؟ اس کو دکھایا جا سکتا ہے۔وہ کہتے ہیں فلموں میں کوئی بھی ایسی چیز دکھانے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے جس سے جرائم میں کمی ہو سکے۔میڈیا والوں سے شکایت کناں محمد اشرف کہتے ہیں میڈیا کو اس دنیا پر بھی توجہ دینی چاہئے ، آخر یہاں بھی تو انسان ہی رہتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں جیل میں ابتدائی دنوں میں بڑی تکلیف ہوتی ہے لیکن آہستہ آہستہ دوستی ہو تی جاتی ہے اور سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔وہ اپنے پرانے دنوں کی بابت بتاتے ہوئے کہتے ہیں ہم پہلی بار جب جیل آئے تھے تو اکیلے رکھا گیا تھا، وہ بہت خطرناک جگہ تھی، اس دن ہم نہ تو کچھ کھا سکے تھے اور نہ ہی سو پائے تھے، دوسرے دن بیرک تبدیل کیا گیا اور دوسرے قیدیوں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے سمجھایا کہ چھوڑو یار اب تو ایسے ہی گزارنا ہے، رونے دھونے اور افسوس کرنے سے تم باہر نہیں نکل جاؤ گے ،لوگوں کا بھی کہنا صحیح تھا واقعی بہت مشکل ہوتا ہے شروع میں لیکن دھیرے دھیرے عادت بن جاتی ہے اور لوگوں سے دوستی ہو جاتی جن کے درمیان اپنا دکھ درد بیان کر اپنی تکلیف کو کم کرتے ہیں۔محمد اشرف اپنے گھر کو بہت یاد کرتے ہیں کہتے ہیں گھر کی بہت یاد آتی ہے میں اپنی بیوی بچوں (دو لڑکے، تین لڑکیاں) کو بہت یاد کرتا ہوں، رات کو تو نیند بھی نہیں آتی یہی سوچتا رہتا ہوں پتہ نہیں گاؤں محلے والے کیا سوچتے ہوں گے، گھر والوں کا کیا ہوتا ہوگا۔ کیا جیل میں لوگ اپنے جرموں سے تائب بھی ہوتے ہیں اس بابت محمد اشرف کہتے ہیں ہاں تبدیلی تو آتی ہے لیکن کچھ لوگ بہت ڈھیٹ ہوتے ہیں ان کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لیکن اس طرح کے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔وہ کہتے ہیں ان کا لہجہ باہر بڑا نرم اور دھیما ہوتا تھا لیکن یہاں آنے کے بعد رف ہو گیا آگے وہ کہتے ہیں لیکن ہمیشہ کوشش یہی رہتی ہے کی اچھے سے رہیں،محمد اشرف پر امید ہیں کہ ہاتھ میں فن ہے۔باہر نکل کر کچھ نہ کچھ بہتر کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ سب کا حق ادا کر سکیں۔