جمعرات، 20 ستمبر، 2012

بٹلہ ہاؤس انکاونٹر کی چوتھی برسی


بٹلہ ہاؤس انکاونٹر کی چوتھی برسی

محمد علم اللہ اصلاحی 

دو ہزار آٹھ کی19ستمبرکی تاریخ،رمضان المبار ک کا مقدس مہینہ اور ایک معمول کی صبح ،موسم میں ذرا خنکی تھی، شاید اسی سبب سورج بھی آج سست روی سے چڑھ رہا تھا ۔اوکھلا میںعوام حسب معمول اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو چکے تھے جبکہ ہم جیسے غریب الوطن نوجوان اپنے کاموں اور تعلیمی اداروں کا رخ کر چکے تھے یا کرنے والے تھے کہ اچانک فائرنگ کی یکے بعد دیگرے کئی آوازوں نے فضا میں ارتعاش پیدا کر دیا ۔گھبراہٹ و استعجاب میں گرفتار ہر شخص کی زبان پر بس ایک ہی سوال تھا معاملہ کیا ہے ؟ذرا سی دیر میں جو خبرآئی وہ سوگوار،سنسنی ،پریشان کن اور دہشت واضطراب پیدا کر دینے والی تھی ۔دو نوجوان جو اپنے سنہرے مستقبل کا خواب سجائے اپنے گھر سنجر پور ضلع اعظم گڑھ سے سیکڑوں میل دورجامعہ میں پڑھنے آئے تھے ،محافظوں کے ذریعہ دہشت گرد قرار دے کر درد ناک انداز میں مارڈالے گئے تھے ۔اس کے بعد تو جیسے دہشت کی چڑیل نے اوکھلاکو اپنا بسیرابنالیا۔ تب کا دن ہے اورآج کا دن، یہاں کے عوام اس واقعہ کے بعدسے آج تک کبھی چین کی نیند نہیں سو سکے ہیں۔مجھے آج بھی یادہے جس دن یہ حادثہ پیش آیا تھا ،اس دن میرے پاس فون کا تانتا بندھ گیا تھا۔والدین ،دوست،احباب سب فکرمند،ہر کوئی خیریت دریافت کرنے اور احوال جاننے کو بے قرارتھا۔یہ کیفیت اوکھلا میں رہنے والے ان تمام لوگوں کی تھی، جو بغرض تعلیم یا روزگاریہاںمقیم تھے۔ ہر کوئی اپنے عزیز کی خیریت کےلئے متفکر اور بے چین تھا۔بٹلہ ہاس اور ذاکر نگرمیں میڈیا کی گاڑیاں نظر آ رہی تھیںیاپھرپولس والوںکی ۔اس سے قبل میں نے کبھی اس قدر میڈیاوالوں اور پولس کی گاڑیوںکا اژدہام اس علاقہ میںنہیں دیکھاتھا ۔شام ہوتے ہی پورے علاقہ میں سناٹا پھیل گیا۔ واقعہ کے بعدمسلم نوجوانوں اور خاص طورسے جامعہ کے طلباءمیں خوف و ہراس اور دہشت کا ماحول تھا۔ 

رمضان المبارک کے مہینہ میں پوری پوری رات آباد رہنے والے بٹلہ ہاس میں یا تو آوارہ کتے بھونکتے نظر آتے یا پھر وہ پولس کے جوان جو علاقہ میں نقض امن کے نام پر تعینات کئے گئے تھے ۔اس واقعہ کے بعد ڈر کے مارے مائیں اپنے بچوں کو گھروں سے باہرنکلنے نہ دیتی تھیں۔روزانہ کبھی شاہین باغ ،کبھی ابوالفضل انکلیو ،کبھی ذاکر نگر تو کبھی غفار منزل سے مسلم نوجوان پولس کے ذریعہ دہشت گرد بتا کر دبوچ لئے جاتے تھے۔جس کی وجہ سے مسلم طلباءنہ صرف عدم اعتماد کی فضا میں زندگی گذاررہے تھے بلکہ اپنے ہی وطن میں اجنبی اوربے گانہ بھی محسوس کرنے لگ گئے تھے۔ (بد قسمتی سے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے،اور بجائے اس میں کمی آنے کے شدت میںمزید اضافہ ہوتاجا رہا ہے ۔ )مجھے یادآتا ہے اس وقت اوکھلا سمیت سرائے جولینا ،سریتا وہار ،آشرم ،مہارانی باغ اور آس پاس میں رہنے والے ہندو مالک مکان تو کیا بہت سے مسلم مکان مالکوں نے بھی اپنے گھروں سے جامعہ میںزیر تعلیم بچوں کو نکال دیا تھا،اس خوف سے کہ کہیں ان کے گھروںمیں رہنے والا کرایہ دار بھی دہشت گرد قرر نہ پاجائے۔ہر کوئی ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا۔ یہاں تک کہ وہ دوست اوراحباب بھی جواس حادثہ سے قبل ایک ساتھ کینٹین میں بیٹھ کر چائے پیتے اور گھنٹوں خوش گپیوں میں مصروف رہتے تھے اپنے ہی ساتھی سے دور دور رہنے لگے تھے ۔جن لوگوں نے ہمت جٹا کر روم یا مکان کرایہ پر دیا بھی تھا توان کا رویہ انتہائی جارحانہ بلکہ گستاخانہ ہوتا تھا۔مالک مکان دوست یار سے ملنے کےلئے فلیٹ میں آنے جانے والے ہر طالبعلم کو شک کی نگاہ سے ایسے دیکھتے کہ کہیںآنے والا نوجوان دہشت گرد نہ ہو ۔بسا اوقات تومکان مالکان باہرسے ملنے آنے والے مہمان تک کو بھگا دیتے ،یا پھر اتنے سوالات کرتے کہ شریف آدمی خود ہی وہاں رہنا یا آنا پسند نہ کرتا۔

یہ حادثہ عید کے کچھ ہی دن قبل پیش آیا تھا،شاید اسی وجہ سے جامعہ میں پڑھنے والے کئی طلباءعید کے موقع سے جب گھر گئے تو لوٹ کر پھر کبھی واپس نہیں آئے ۔اور ان کا وہ خواب جو انھوں نے جامعہ آنے سے قبل دیکھا تھا سب چکنا چور ہو گیا ۔ظاہر ہے کہ اس سے بہتیرے مسلم نوجوان اعلی تعلیم سے محروم ہوگئے ۔حالانکہ اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسر مشیر الحسن نے بچوں کو خوف زدہ نہ ہونے کی تلقین کرتے ہوئے ہر قسم کے تحفظ اور قانونی چارہ جوئی کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن اس حادثہ کے بعد کئی نوجوانوں کوپوچھ تاچھ کے نام پر گرفتارکر لیا گیا جن میں سے کئی ایک کا اب تک کوئی اتہ پتہ نہیں ہے،تو انھوں نے زبان تک نہ کھولی ۔دہشت کے باعث لوگ خصوصاً اعظم گڑھ کے بچوں سے ملنا گوارہ نہیںکرتے تھے ۔ہر چہار جانب شک اور شبہ کا ایک ایسا ہالہ بن گیا تھا اور ایسی بد اعتمادی کی فضا پیدا کر دی گئی تھی کہ اس نے برسوں کی یاری دوستی کو بھی متزلزل کر ڈالا تھا ۔اس طرح کے حالات پیدا کرنے میںبالخصوص ہندی اور انگریزی کے بعض میڈیاگھرانے نے خوب خوب کردار نبھایا تھا ۔مجھے یاد ہے ایک معروف ٹی وی چینل کے معتبر صحافی نے تو جہاں یہ حادثہ پیش آیا تھا، اس سے چند فاصلہ پر موجود مسجدخلیل اللہ کو ہی آتنگوادیوں کی پناہ گاہ قرار دے دیا تھا۔شبلی ،فراہی رحمہم اللہ علیہم اورکیفی اعظمی کااعظم گڑھ راتوں رات آتنک گڑھ بنا دیا گیا تھا ۔دہلی اور اعظم گڑھ ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے مسلمان پولس، انتظامیہ اور میڈیا کے اس متعصبانہ رویہ پر افسردہ اور اداس تھے ۔اس سال عیدکیا منائی گئی، دہلی اور اعظم گڈھ کے مسلمانوں نے اپنے سروں اور بازو ںپر کالی پٹیاں باندھ کر”یوم عید “کو ”یوم سیاہ “کے طور پر منایا ۔

میرے ذہن میں آج بھی اس خوفناک منظرکی یاد یں مر تسم ہیں،جب میں نے پولس والوں کو عاطف اور ساجد کی لاشوں کو بے دردی سے گاڑی میں ڈالتے ہوئے دیکھا تھا اورالیکٹرانک میڈیا کے افرادکیمرہ لئے گاڑی کے پیچھے شکاری کتے کی طرح دوڑتے ہوئے بتا رہے تھے کہ یہ وہی گاڑی ہے جس میں آتنک وادیوں کو لے جایا جا رہا ہے ،اور بلیک شیشے سے آتنگ وادی کا جوتا نظر آ رہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ مجھے کئی رات تک نیند نہیں آئی تھی ۔مجھے کھانا کھاتے ،اٹھتے بیٹھتے وہی خوفناک منظر دکھائی دیتا تھا ۔ان دنوں میں ہندوستان ایکسپریس میں کام کرتا تھا اس حادثہ کا میرے ذہن پر اسقدر اثر ہوا تھا کہ اس دن میں چاہ کر بھی کچھ نہیں لکھ سکا تھا ۔اس دن کے سانحہ کی جو رپورٹ واقعہ کے اگلے دن ’ہندوستان ایکسپریس‘میںشائع ہوئی،اس کی سرخی’جامعہ نگرمیں انکاؤنٹر، مگرفرضی یااصلی؟‘قائم کی گئی۔اس وقت کئی لوگوں نے ایکسپریس میں چھپی اس رپورٹ پر اعتراض بھی ظاہر کیا لیکن بعد کے دنوں میں این ایچ آر سی اور پوسٹ مارٹم رپورٹ سمیت کئی حقائق نے اس کو حرف بحرف ثابت کر دیا ۔

آج اس سانحہ کے ۴سال مکمل چکے ہیں لیکن جب کبھی اس وقت کو یاد کرتا ہوں تومضطرب ہو جاتا ہوں اور بدن میں کپکپی سی طاری ہو جاتی ہے ۔پولس انکانٹر کو عاطف و ساجد کے اہل خانہ ہی نہیںبلکہ ملک کے بڑے بڑے لیڈران ،حقوق انسانی کے کارکنا ن ،وکلاء،صحافی اوربڑی تعداد میں علاقہ کے افراد فرضی گردانتے رہے ہیں۔ پولس کی کاروائی پر اول دن ہی ان افرادنے سوالات کھڑے کر دئے تھے اور پولس کی کہانی کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے جوڈیشیل انکوائری کی مانگ کی تھی لیکن طویل عرصہ گذرجانے کے باوجودپولس کی اس کاروائی اور اس کے ذریعہ گڑھی گئی کہانیوں پر اٹھائے گئے سوالات ہنوز جواب طلب ہیں ۔حالانکہ اس دوران شور، ہنگامہ ،احتجاج ،مظاہرہ سب کچھ ہوا لیکن” کون سنتا ہے نقار خانہ میں طوطی کی آواز“ اب تو مختلف ذرائع سے اس مبینہ انکاونٹر کے متعلق بہت سارے راز ہائے سر بستہ بھی بے نقاب ہو چکے ہیں اور اس واقعہ کے متعلق نام نہاد قومی پریس کے ذریعہ ابتداقائم کی گئی رائے میں بھی تبدیلی آئی ہے لیکن عملاً سارے منظر نامے میں اب بھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے ۔الٹے اس واقعہ کی آزادانہ تحقیق کئے بغیرمہلوک انسپکٹر موہن چند شرما کو’ اشوک چکر ‘ایوارڈ دے کر انصاف کا گلا گھونٹ دیا گیا، جبکہ دوسری جانب شہید ہونے والے طلباءکی ماں کی آنکھیں اپنے لال کی یاد میں رو رو کر خشک ہو گئیں لیکن کوئی سرکاری ذمہ دار اشک شوئی کےلئے نہیں پہنچا ۔خاص طور پر حکومت نے اس واقعہ سے متعلق اول دن سے جونظریہ اختیار کیا تھا وہ متعدد حقائق کے انکشاف کے بعد بھی تا ہنوز قائم ہے ۔اس سانحہ کی عدالتی انکوائری کا مطالبہ آج بھی جاری ہے لیکن نہ جانے کیا خوف ہے کہ پولس ،انتظامیہ ، مرکزی حکومت حتی کہ وزیر اعظم تک اس معاملہ میں مداخلت کرنااور اس انکاؤنٹر کی حقیقی سچائی کو سامنے لانا کیوں نہیں چاہتے ۔اب توکئی ایسے شواہد سامنے آچکے ہیں جن سے اس انکاؤنٹرکا فرضی ہوناتقریباًثابت ہو چکاہے لیکن پھربھی بٹلہ انکاونٹر کی تحقیقات کا مطالبہ یہ کہہ کر مسترد کیا جاتا رہاہے کہ اس سے پولس کی حوصلہ شکنی ہوگی ۔
ہمارے سیاستدانوں نے بھی اس معاملہ میں خوب خوب روٹیاں سینکیں۔اس معاملہ پر اپنے مفادات کی خاطر علاقائی لیڈران سے لے کر مرکزی ذامہ دارن تک سبھوں نے شہید طالب علموں کی لاشوں پر سیاست کی اور مگر مچھ کے آنسوبھی بہا ئے اوراپنا سیاسی مقصد حاصل کیا اور وقت آنے پر” دیتے ہیں دھوکا بازیگر کھلا “کے مانند اسٹیج سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ بعضوںنے حقائق کو ہی توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی توبعض اعظم گڑھ میں جاکر کف افسوس مل آئے ۔

اب حالات کیا رخ اختیارکریں گے، اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن مستقبل قریب میں بھی اس انکاؤنٹرکی انکوائری کے امکانات ظاہر نہیں ہوتے ۔ہندوستان میں انصاف کے مسلسل مہنگے ہونے سے یہ امر اب اور نا ممکن سا لگ رہا ہے جبکہ حقیقت یہ بھی ہے کہ متاثرہ افراد میں زیادہ تر معاشی لحاظ سے کمزور لوگ ہیں۔بھلا ہم مسلمانوں کو کیسے بتائیں کہ قیادتیں سازگار حالات میں برپا نہیں ہوتی ہیں بلکہ حالات کے تھپیڑے ان میں نکھار لاتے اورنہیں صدا بہار بناتے ہےں ۔ہمارا یہ المیہ ہی ہے کہ سخت ترین حالات میں بھی ہمیں کوئی پائدار سیاسی ،سماجی یا دینی قیادت ملتی نظر نہیں آتی ۔لے دے کر کچھ سیاسی یا نیم سیاسی سماجی لوگ ہیں لیکن ان کی حیثیت بھی ”مٹی میں مادھو “کی سی ہے ۔کوئی ان کو استعمال کرتا ہے تو کوئی کسی کیلئے بہ رضا و خوشی استعمال ہو جاتے ہیں۔19ستمبر 2008کا وہ دن اور آج کا دن 19ستمبر 2012۔حالات کتنے بدل گئے ،اس وقت جامعہ نگر میں چند نام نہاد دہشت گردوں کے نام لئے جا رہے تھے جن کو گرفتار یا فرضی انکاؤنٹر میں مار کر ان کی زندگی تباہ کر نے کی باتیں کی جا رہی تھیں ،اور آج پوری کالونی کو ہی دہشت گردی کا اڈہ بتا کر اسے تباہ کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں اور ان کو بروئے کار لایا جا رہا ہے ،سازشی عناصر متحرک ہیں اور ہم خواب غفلت میں شاید اپنی تباہی و بربادی کا انتظار کر رہے ہیں ۔