(برسا منڈا سینٹرل جیل رانچی کی کہانی)
نوٹ : زیر نظر
سفرنامہ دراصل برسا منڈا سنٹرل جیل رانچی کاہے ، دہلی سے ر انچی جیل کا یہ دورہ میں
نے ” ہندوستانی فلموں میں جیل کی عکاسی اور اس کی حقیقت“(قیدیوں سے بات چیت کے تناظر
میں) جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اپنے موضوع سے متعلق ایک تحقیقی مقالہ کے لئے قیدیوں سے
انٹرویو کی غرض سے کیا تھا۔ جیل سے واپسی کے بعد جو کچھ میں نے دیکھا اور محسوس کیا
اسے قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے ۔
(http://www.dailyhindustanexpress.com/epaper/page_5_large.htm ) ۔ یہ روددا روزنامہ
ہندوستان ایکسپریس میں شائع ہو چکا ہے شکریہ کے ساتھ اسے یہاں شائع کیا جا رہا ہے
۔ اس سلسلہ کی اگلی کڑیاں (قیدیوں کی کہانی قیدیوں کی زبانی ) بھی ہندوستان ایکسپریس
میں ہی شائع ہونگی۔ انشاءاللہ اس کی اگلی قسطیں بھی یہاں شائع کیا جائے گا . فی الحال
یہ روداد ملاحظہ فرمائیے۔
روداد قفس
محمد علم اللہ اصلاحی
جامعہ ملیہ اسلامی
نئی دہلی
ہم شہری آبادی سے نکل
کر سنسان اور غیر آبادبستی میں داخل ہو چکے تھے۔دوردور تک سناٹا اور ہو کا عالم
تھا۔ حضرت انسان کے نام پر جوبھی چہرے نظرآرہے تھے،ان سے پریشانی عیاں ہورہی تھی
یا پھرمخصوص لباس زیب تن کئے ہوئے وہ جوان دکھائی دے رہے تھے،جنہیں ادائیگیِ فرض
کی غرض سے مستعد کیا گیاتھا۔ پولس کے جوانوںکی تئیں بےداری یہ بتا رہی تھی کہ ہم
کسی دوسری دنیا میں داخل ہو چکے ہیں۔ دور سے ہی برجوں پر تعینات پولس کے جوان اور
ذرا آگے بڑھنے پر نیلے رنگ کا کشادہ گیٹ صاف نظر آ رہا تھا،جوگنہگار و ںاور ناکردہ
گناہوں کی سزابھگتے والے افرادکا نہایت فراخ دلی کے ساتھ استقبال کرنے کاعادی
کہلایا جاسکتاہے۔جی ہاں!یہ کہانی کسی دوسری دنیا کی نہیں بلکہ اس ’ برسامنڈاسنٹرل
جیل رانچی ‘کا قصہ ہے جہاں ہم داخل ہونے جارہے ہیں۔
گوکہ ہم لوگ قیدی کی
حیثیت سے یہاں داخل نہیںہوئے کہ پشیمانی اورندامت کاکوئی احساس ہو بلکہ جیل کا جو
تصور عام ذہن و دماغ پر اپنا نقش چھوڑجاتاہے،ہم اسی خیال میں محورانچی کے اس
زنداںکے احاطہ میں داخل ہوچکے تھے ،جہاںکی دیواروں کے پیچھے رہنے والی انسانی
زندگیاں جن کے بارے میں پہلے سن رکھاتھا،مزید بھیانک ہونے کااحساس دلارہی
تھیں۔ایسے لوگ جویوں توعام انسانی معاشرے میں پیدا ہوتے ہیں، یہیں پلتے بھی ہیں
اورجوان بھی ہوتے ہیں مگران کی اپنی بدقسمتی یا ناکردہ گناہ انہیں عارضی یامستقل
طور پرجیل کی کال کوٹھریوں کامہمان بنادیتی ہے ،جہاں ایک ایک سانس پر پہرہ ،ہر ہر
قدم پر بندش اور محرومی کا سایہ ہوتا ہے۔جہاںایک ہی وارڈ میں سینکڑوںاور بعض اوقات
ہزار وںکی تعداد میںلوگوںکو رکھاجاتاہے،اس طرح کہ ہر پل اور ہر لمحہ انسانیت
شرمندہ اور حیوانیت سربلند دکھائی دیتی ہے ، یہی ان کا گھر ہوتاہے ،جہاں رشتہ ناطہ
کاکوئی تصورہی نہیں۔ہاں! موٹے موٹے کھٹمل اور مچھرمہمانوںکے استقبال کے لئے پلکیں
بچھانا نہیں بھولتے۔جہاں انھیں ہمیشہ ناپسندیدہ چہروں کو دیکھنے، گالیاں سننے
اوربے ذائقہ کھانا تناول کرنے کی عادت ہوجاتی ہے ۔
ایسے خیالات
کاآنااورجسم میں ایک عجیب قسم کی جھر جھری کاطاری ہوجاناخلاف توقع بھی نہیں۔ خوف
ناک خیالات کے درمیان دل نے کہاکہ واپس لوٹ چلیں لیکن پھر یہ سوچ کر کہ ہم کوئی
مجرم تونہیں بلکہ حقیقت کے متلاشی ہیں ،ہمت بندھی اوردل کے فیصلے کی تبدیلی نے آگے
بڑھنے کاحوصلہ دیا ۔ابھی کچھ ہی قدم آگے بڑھے ہوںگے کہ دو سپاہیوں کی وحشت ناک
آوازسماعت سے ٹکرائی: کیا معاملہ ہے ؟ادھر کہاں ؟پہلے سے ہی ڈراﺅنے خیالات ،کالے کالے چہرے ،لمبی لمبی مونچھیں اور غضبناک آنکھوں
والے ان سپاہیوں کو دیکھ کرٹھٹک گئے اور ایک لمحہ کے لئے ایسا لگا جیسے ہم
بھی مجرم ہیں! ڈرتے ڈرتے ہم نے ان سے جیل آنے کا مدعا بیان کیا اور جیل سپرٹنڈنٹ
سے ملنے کی گذارش کرتے ہوئے کاغذات آگے بڑھا دئے جس میں جیل کے معائنہ اور قیدیوں
سے بات چیت کرنے
کی آئی جی نے اجازت دے رکھی تھی ۔کاغذات دیکھنے کے بعد ایک پولس والے نے پوچھا
-’کہاں سے آئے ہو؟‘ہم نے بتایا دہلی سے۔’ کیوں ؟‘ریسرچ کےلئے ’اوہ! آپ لوگ میڈیا
سے ہو ؟‘نہیں ہم طالبعلم ہیں’ اچھا! تو آئی کارڈ دکھاﺅ اوریہ بیگ میں کیا ہے ،جیسے یہ کسی طالب علم کا بیگ نہیں کسی خطرناک
دہشت گرد کی جھولی ہو، اچھی طرح ہماری تلاشی لی گئی اور چیکنگ کے مراحل سے گزارنے
کے بعد ایک کمرے کی جانب جو غالباًاستقبالیہ تھا، اشارہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سپاہی
نے کہا ”پہلے موبائل ،لیپ ٹاپ ،سیم کارڈ یا جو بھی الیکٹرانک سامان ہو ،وہاں جمع
کرائیے اوردائیں جانب یہ جو سڑک جا رہی ہے ،ادھر ہی سیدھے چلے جائیے ،وہیں رہتے
ہیں صاحب“۔ ہم آگے بڑھے مگر ہماری قسمت میں سپرٹنڈنٹ سے ملنا نہیں لکھا تھا ،
معلوم ہوا کہ سپرٹنڈنٹ صاحب کی طبیعت خراب ہے، اس لئے انھوں نے صبح 7بجے کل ملنے
کے لئے کہا ہے ۔ ہمارے یہاں ہندوستان میں دھونس اور رعب جمانے کے لئے بھی ایسا کیا
جاتا ہے ،ہمیں معلوم نہیں حضرت سپرٹنڈنٹ صاحب واقعی بیمار تھے یا ٹال مٹول کے موڈ
میں بیمار بن گئے تھے ۔
خیر! دوسرے دن جب ہم
وقت معینہ پر پہنچے اور پوری صور ت حال سے انھیں آگاہ کیاکہ ہمیںکیوں یہاں
آناپڑاتو انھوں نے یہ جاننے کے بعد کہ ہم’ ’ہندوستانی فلموںمیں جیل کی عکاسی اور
اس کی حقیقت“(قیدیوں سے بات چیت کے تناظر میں)جاننے کے لئے قیدیوں سے
انٹرویوکرناچاہتے ہیں،اجازت دے دی۔کافی پوچھ تاچھ کے بعد انھوں نے جیلر سے بات کی
،اورمطمئن ہو جانے کے بعد اپنے پورے تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔اس سلسلہ میں
ہمیں ویڈیو،ریکارڈنگ یا فوٹو گرافی کی اجازت نہیںملی ،لیکن یہ بھی ہم لوگوں کے لئے
کم نہیں تھا کہ ہمیں ان قیدیوں سے بات چیت کی اجازت مل گئی تھی جن سے ان کے گھر
والے بھی نہیں مل سکتے ہیں ۔بہرحال وہی دروازہ جسے ہم کسی دوسری دنیا کا دروازہ
سمجھ رہے تھے ،اور جہاں اندر و باہر دس دس کلو کے موٹے موٹے تالے لگے ہوئے تھے ،کا
چھوٹا دروازہ انتہائی احتیاط کے ساتھ ہمارے لئے کھولا گیا ۔ہم اندر داخل ہوئے تو
ایک دالان دکھائی دیا ،اس کے بعد بھی لوہے کا ایک اور کافی لمبا چوڑا اور مضبوط
گیٹ نظر آیا،اس کو پار کرنے کے بعد ہی جیل کا احاطہ شروع ہو تا ہے ۔یہ وہی جگہ ہے
جہاں جیل افسران اور دیگر اہلکاروں کے دفاتر ہیں،یہاں جیل اہلکار جنھیں اصطلاح میں
سنتری کہا جاتا ہے، قیدیوں کی جامہ تلاشی لیتے ہیں۔
اس مقام یعنی دالان کے
دائیں جانب جیلر کا کمرہ ،گیسٹ روم ،باورچی خانہ وغیرہ پرنگاہ پڑی۔یہیں دائیں جانب
اسسٹنٹ جیلروں کی آفس،اسپیشل قیدیوں کے لئے ملاقاتی روم (جھارکھنڈ کے سابق وزیر
اعلی مدھو کوڑا کو ہم نے یہیں کئی افرادکے ساتھ محو گفتگوپایا )باتھ روم اور ایک
آفس بنا ہوا ہے جہاں قیدیوں کی تصویر کشی اور فنگر پرنٹس لئے جاتے ہیں ۔یہیں قریب
میں ایک بھاری بھرکم مشین بھی رکھی تھی جس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اشیاءکی ریڈنگ
کرے اور یہ بتائے کے قیدی کے اندر لے جانے والے اثاثہ میں کیا کیا ہے ، ۔اسے
اسکینر کہا جاتا ہے ،اس کی خوبی یہ ہے کہ یہ سخت سے سخت مادیاتی اشیاءکی بھی ایک
ایک پرتیں کھول کھول کر بتا سکتا ہے ،ایسے میں کسی غیر ممنوعہ شئے کا اندر جانا
واقعی نا ممکن ہے ،یہ اور بات ہے کہ موبائل فون اورغیرقانونی اشیاءکمال حکمت کے
ساتھ جیل پہنچائے اور خراج وصول کئے جاتے رہے ہیں،جس کی خبریں برابر اخباروں میں
آتی ہیں۔
برسا منڈاسنٹرل جیل
بھی اس سے الگ نہیںجہاں قیدیوں کی جیبیںاگر گرم ہوں تو ممنوعہ اشیاءکے داخلہ کی نہ
تومقدارکی قید ہے اور نہ ہی تعداد متعین۔یہیںہمیںذرائع نے بتایا کہ جیل میں قیدی
موبائل ٹیلیفون کو مختلف کاموں کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ قیدیوں کاایک طبقہ وہ ہے
جو موبائل فون کے ذریعے اپنے گھر والوں سے رابطہ کرتا،جب کہ دوسرے قیدیوںکی وہ
جماعت ہے جو موبائل فون کے ذریعے جیل میں رہتے ہوئے باہر اپنا نیٹ ورک چلاتی ہے
اورجیل کی محفوظ ترین پناہ گاہ میںرہ کر جرائم کی بادشاہت قائم کئے ہوئے ہے۔ابھی
حال ہی میں اسی جیل کے بارے میں یہ خبر آئی تھی کہ ایک قیدی نے جیل کے اندر سے
جھارکھنڈ کے اسپیکر کو فون کیا تھا،پولس کی اسپیشل ٹیم کے ذریعہ چھاپہ ماری میں
کئی موبائل فون ضبط بھی کئے گئے تھے۔ یہ خبر ملک کے تقریبا سارے بڑے اخباروں میں
آئی تھی ،اس واقعہ کے بعد سے برابر انتظامیہ کی جانب سے یہاں جیمر لگانے کی بات
کہی جاتی رہی ہے لیکن یہ ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا ہے ۔
بہرحال آیئے ہم اس جیل
کی سیر کریں اور دیکھیں کہ کہاں کیا ہو رہا ہے۔ جیل کے اندر جرائم کی نوعیت کے
لحاظ سے قیدیوں کے لےے مختلف بیرکوں میںقیام کا نظم ہے۔ٹاور سیل میں نئے آنے والے
حوالاتیوں کے ٹھہرنے کابندوبست ہے، قیدی بیرک میں عام قیدیوں کو جگہ ملتی ہے،
سزائے موت سیل وہ جگہ ہے جہاںسزائے موت کے منتظرقیدیوں کامستقرہے، ڈاکوو ں کے لئے
ڈکیتی سیل،جھگڑالوقسم کے مہمانوں کے لئے حفاظتی سیل، ، مستورات کے لئے علاحدہ سیل،
قتل وغارت پھیلانے والوںکے لئے الگ قیام گاہ، پڑھے لکھے اور خواندہ افراد کی الگ
بستی ،وی آئی پی اور سیاسی افراد کا بیرک الگ ،منشیات کے کاروبارسے جڑے افراد
کامسکن الگ، توذہنی طور پربیمار قیدیوںکے قیام کامنفرد نظام۔غرض کہ جس پایہ اور
درجہ کے قیدی ہیں،ان کے لئے اسی مرتبہ کی رہائش موجودہے۔
جیل آنے والے
مہمانوںیا قیدیوں کے لئے آداب و روایات متعین ہیںکہ کن کا استقبال کس نہج پر
کیاجائے؟عام طورپر صدر دروازے پر تلاشی کے بعد حوالاتی کو جیل احاطے کے وسط میں
موجود سینٹر ٹاور پر لایا جاتا ہے، جہاں سے سزا یافتہ قیدیوںکوان کے سیل میں بھیجا
جاتا ہے۔ جیل میں سزا یافتہ اور زیر سماعت دونوں قسم کے قیدی ساتھ ہی رہتے ہیں ۔
قانون کے مطابق زیر سماعت قیدیوں سے مشقت نہیں کروائی جا سکتی لیکن ماہر سپاہی ان
سے بھی پہلے دن ہی سے سخت کام لینا شروع کر دیتے ہیں۔ان کے ساتھ وہی سلوک
اختیارکیا جاتا ہے جورویہ عام قیدیوں کے ساتھ روارکھاجاتاہے، حالاں کہ قانون میں
دونوں کےلئے الگ الگ حدیں متعین ہےں، مگریہاں کے سپاہیوں کیلئے عام قیدیوں اور زیر
سماعت قیدیوں میں کسی طرح کی تمیزکی گنجائش اس وقت تک نہیں نکلتی جب تک کہ رشوت کی
پیش کش نہ کی جائے۔ہمیں یہاں بتایاگیاکہ جوقیدی رشوت دیتا ہے ا ±س کی جان بخشی
ہوجاتی ہے اور جو پیسے نہیں دے سکتا، مشقت اس کا مقدر ہوتی ہے۔حالانکہ پرانے زمانے
کی طرح جیلوں میں اب چکی پیسنے،پتھر توڑنے یا اس جیسے مشکل ترین کام کرانے کا رواج
تو نہیں ہے لیکن اس کے باوجود جیل کی دنیا کے سارے کام چاہے وہ ناپسندیدہ ہوں یا
پسندیدہ بہ حیثیت مزدور،چپراسی ،کلرک ،باورچی ،محرر،منشی ،استاذ ،نگراں ،بھنگی
،مہتر۔ الغرض وہ تمام کام جو باہر کی دنیا میں ہوتے ہیں جیل کے اندرانھیں قیدیوں
سے انتہائی کم بلکہ برائے نام اجرت پر کرائے جاتے ہیں ۔
ہم نے یہاں جیل کے
اندر کئی بچوں کوبھی دیکھا ،جن کی عمر اٹھارہ سال سے کم کی رہی ہوگی ۔ملک میں کم
عمر بچوں کے لئے الگ سے جیلوں کا انتظام ہے ۔اس کے باوجود ان بچوں کو یہاں رکھنے
کا مطلب میری سمجھ سے باہر تھا، اس لئے حیرت وتجسس میں مزید اضافہ ہوگیا ۔بات چیت
میں قیدیوں کے ذریعہ ہی معلوم ہوا کہ پولس والے چھوٹے موٹے کیسوں میں ملوث غریب
اور ان پڑھ بچوں کی عمریں بلا تحقیق بڑھا کر لکھ دیتے ہیں اور اس طرح ناجائز طریقہ
سے بچے یہاں لائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک قیدی نے یہ انکشاف بھی کیا کہ جیل کے
اندر نو عمر قیدیوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے ۔اس سے کس نے کیا سبق لیا، کون
کون ذمہ دار ٹھہرایا گیا، کس کو کیا سزاملی؟ کچھ معلوم نہیں۔کم سن بچوں کو سگریٹ
سمیت دیگر منشیات کون مہیا کراتا ہے؟ کچھ معلوم نہیں۔بڑی عمر کے قیدیوں کے ساتھ
میل جول سے نوعمر لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کون کرواتا ہے؟ کچھ معلوم نہیں۔جیل
حکام نے نام نہ بتانے کی شرط پرالبتہ یہ ضرور بتایا کہ جب جیل میں اس طرح کا کوئی
واقعہ منظر عام پر آتا ہے ،تو جیل کے اندر موجود’پنیشمنٹ رجسٹر‘ پر اس واقعے کا
اندراج کیا جاتا ہے۔ تاہم اس میں یہ نہیں لکھا جاتا کہ فلاں بچے کے ساتھ جنسی
زیادتی ہوئی، بلکہ لکھا جاتا ہے کہ ’بدفعلی‘ کرنے کی’ کوشش‘ کی گئی۔ یوں جیل میں
بچوں کے ساتھ ہونے والے اس طرح کے واقعات کو جیل کے اندر ہی دبا دیا جاتاہے اور
بعض اوقات اگر معاملہ زیادہ بڑھا ہو تو رسماً متعلقہ تھانے میں رپورٹ بھی کروادی
جاتی ہے۔
اس جیل کے اندر ایک
اسپتال بھی ہے ،جس کا کام بیمار قیدیوں کو علاج فراہم کرنا ہوتا ہے ،لیکن شاید ہی
کوئی ایسا قیدی ہو جسے بروقت اور مناسب علاج مہیا کرایا جاتا ہو۔اگر آپ کبھی جیل
میں موجود اسپتال کا دورہ کریں تو آپ کو ایسے بااثر قیدی نظر آئیں گے جن کو کوئی
بیماری تو نہیں ہوتی ہے ،لیکن وہ جیل عملے کی عنایتوںاورمہربانیوںکی وجہ سے وہاں
محض آرام کرنے کے لئے منتقل ہوتے ہیں کیو ں کہ ان کے اپنے بیرکوں کے مقابلہ انھیں
یہاں زیادہ آرام ملتا ہے۔بعض اوقات کچھ بارسوخ قیدی جیل کے ڈاکٹر وںکو رشوت دے کر
شہر کے کسی اسپتال میں منتقل کئے جانے کی سفارش کرا لیتے ہیں۔یہاںکے اسپتال میں
کوئی لیڈی ڈاکٹر نہیں ہے حالاں کہ تقریباً ہر جیل کی طرح ہی یہاںبھی خواتین کی
اچھی خاصی تعدادموجود ہے۔تشویش ناک بات یہ بھی ہے کہ زیادہ تر جیل اسپتالوںکی
مانندیہاںبھی ادویات سمیت طب کے بنیادی آلات موجود نہیں ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ
عام طور پر جیلوں میں صحافیوں کو جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
یہاں قیدیوں کے لئے
پڑھنے لکھنے اور انھیں مصروف رکھنے کے لئے مختلف چیزوں کا انتظام ہے، جن میں آرٹ
کرافٹ،کڑھائی تنائی ،کمپیوٹر کی تعلیم اور گھریلو صنعت، لفافہ سازی ،کمبل ،دری
وغیرہ بناناشامل ہے ۔یہاں لائبریری بھی ہے جس میں کتابوں کا اچھا خاصا ذخیرہ ہونے
کے علاوہ اخبارات اور رسائل و جرائدبھی پابندی سے آتے ہیں ۔لیکن اتنی بڑی لائبریری
میں ساری کتابیں انگلش اور ہندی میں ہی نظر آئیں یہ کتابیں زیادہ تر ادبیات اور
مذہبیات کی تھیں ہندی میں کئی اسلام سے متعلق کتابیں بھی نظر آئیں ۔یہاں اسکول
اور’ اگنو‘ کا سینٹر بھی ہے جس میں باضابطہ کلاسیں بھی ہوتی ہیں ۔یہاں کئی ایسے
قیدیوں سے ہماری ملاقات ہوئی جنھوں نے جیل کے اندر ہی رہ کر گریجویشن اور ایم اے
کی ڈگریاں حاصل کی ہیں ۔کئی لوگ کمپیوٹر پر کام کرتے نظر آئے ،پتہ کرنے پر معلوم
ہوا کہ یہاں کئی ایسے دیہاتی جنھوں نے کمپیوٹر کا نام تک نہیں سنا تھا اس کے ذریعہ
خوب کام کر لیتے ہیں، جیل کے سارے ڈیٹا بیس اور کمپیوٹر کا
کام بھی یہی لوگ بہ حسن و خوبی انجام دیتے ہیں ۔
یہاں پوجا پاٹ کے لئے
مندر ،گرجا گھر اور عبادت کے لئے نماز خانہ کا بھی نظم ہے ۔جس میں تینوں مذہبوں کے
رہنما پنڈت،پادری اور مولانا مقرر کئے جاتے ہیں ۔تمام ہی لوگوں کو اپنے اپنے مذہب
کے مطابق عبادت اور تہواروں میں خوشیاں منانے کی مکمل آزادی ہے ۔ایک مسلمان سپاہی
سے یہ بات معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ جیل کے نماز خانہ میں اچھی خاصی مسلمانوں
کی تعداد عبادت کے لئے آ تی ہے، امام کی اقتدا میں پانچوں وقت کی نماز پابندی سے
اداکی جاتی ،گشت اور تبلیغ کا بھی اہتمام ہوتا ہے اورہفتہ اور عیدین کی نماز کے
لئے با ضاطہ شہر سے مولانا آتے ہیں جوخطبہ دیتے اور نماز پڑھاتے ہیں، قیدی
مسلمانوں کی شرعی و فقہی رہنمائی بھی انھیں کے ذمہ ہوتی ہے ۔
ہم نے دیکھا یہاں
کھیتی باڑی اور کاشت کاری کا بھی معقول انتظام ہے ۔لمبے چوڑے قطعہ میں خوب ہرا
بھرا اورکافی سر سبز و شاداب کھیت ہے۔ جس میں آلو، مکئی، ٹماٹر، شملہ مرچ،مٹرپھلی
اور اس طرح کی دوسری کئی سبزیاں لگی تھیں ۔کئی قیدی کسان اپنے کام میں منہمک یعنی
پانی بھرنے ،دوا ڈالنے،گھاس و خود رو پودوں کو اکھاڑنے اور کھیتوں کو ہموار کرنے
میں مصروف تھے ۔ان کے چہروں سے کام کے تئیں بے زاری یا کسی بھی قسم کی بے چارگی
بالکل بھی نظر نہیں آ رہی تھی ۔دیہاتی قیدی کسانوں کی اس ذمہ داری اور اپنے کام کے
تئیں انہماک کو دیکھ کرجی خوش ہو اٹھا ۔اس جیل میں ہمیں مسلسل چاردنوں تک قیدیوںکے
احوال جاننے کا موقع ملا ،اس دوران تقریبا دس قیدیوں سے ہماری بات چیت ہوئی اور ہم
نے ان کا تفصیلی انٹرویو کیا۔ انٹرویوجیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ،جامعہ ملیہ
اسلامیہ میں اپنے موضوع سے متعلق ایک تحقیقی مقالہ کے لئے لیا گیا تھا ، اس لئے اس
کا تفصیلی بیان یہاں مناسب نہیں، البتہ گفتگو کے دوران بعض قیدیوں سے ہونے والی
ہماری دل چسپ بات چیت اورکچھ یاد گارواقعات کاتذکرہ ہم آگے ضرور کریں گے ۔
رانچی کابرسامنڈاجیل
عام قیدیوں کی میزبانی کے ساتھ ہی ساتھ سیاسی مہمانوں کوبھی نہایت فیاضی کے ساتھ
ٹھہرنے کاموقع دے چکاہے۔ مدھوکوڑا کے علاوہ اس جیل میں اور بھی کئی معروف شخصیات
اپنی بدنصیبی کے دن گذار چکے ہیں ،جن میں چارہ گھوٹالہ کیس میں بہار کے سابق وزیر
اعلی لالو پرساد یادو،کشمیری رہنما سید علی گیلانی،ان کے برادر نسبتی احمد شاہ
،موجودہ جھارکھنڈاسمبلی کے اسپیکر سی پی سنگھ اورریاست کے سابق وزیر اعلی شیبو
سورین وغیرہ کے نام بہ طور خاص شامل ہیں ۔ روزنامہ ٹیلی گراف کلکتہ کی ایک رپورٹ
کے مطابق25کروڑ کی لاگت سے بنے 40ایکڑزمین پر مشمل وسیع و عریض اس جیل میں
3215قیدیوں کے رہنے کی گنجائش ہے، جس میں فی الحال 3400قیدی بند ہیں ۔یہ جیل اپنی
کئی خصوصیات کی وجہ سے بھی سرخیوں میں رہی ہے اور چوں کہ جھارکھنڈ کوماو
نوازباغیوں کا علاقہ کہا جاتا ہے اس لئے یہاں آئے دن خوں خوارار اور خطرناک قسم کے
قیدیوں کی آمدکاسلسلہ لگارہتا ہے۔گزشتہ دنوں انا ہزارے کی بدعنوانی مخالف تحریک
میں یہاں کے قیدیوں کی کئی دنوں تک بھوک ہڑتال کی وجہ سے بھی اس جیل کا چرچارہا
تھا ۔
یہاں کے قیدیوں سے بات
چیت میں جو چیز سب سے زیادہ ابھر کر سامنے آئی وہ یہ تھی کہ’ انسان کو خواہ کتنا
ہی غصہ کیوں نہ آئے اس پر قابو پانے کی کوشش کر نی چاہئے‘۔ بیش تر لوگوں کا کہنا
تھا کاش! اس وقت ہم غصہ پر قابو پا لیتے تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے ،بیش تر لوگ اپنے
کئے پر نادم تھے اور اس کے خواہش مند کہ اگر ان کو ایک موقع مل جاتا تو وہ ایک نئی
زندگی کا آغاز کرتے،اپنا آشیانہ سجاتے ،اچھی زندگی گذارتے اور ہر اس چیز سے دور
رہتے جس سے انھیں کوئی خفت اٹھانی پڑتی ،گفتگو کے دوران بیش تر لوگ یہ کہتے نظر
آئے کہ اللہ دشمنوں کو بھی یہ دن نہ دکھائے ۔
0 تبصرہ جات:
ایک تبصرہ شائع کریں