جمعہ، 21 فروری، 2014

بنی کی بات بی جے پی کا ڈرافٹ


محمد علم اللہ اصلاحی 
بات تب کی ہے جب جنتر منتر سے سیاسی پارٹی سے اٹھے اروند کیج ریوال دہلی میں جگہ جگہ اجلاس کر رہے تھے ۔ بدعنوانی کے خلاف سیاسی جنگ میں تب ونود کمار بنی ہی ان کے واحد تجربہ کار زمینی ' سپہ سالار ' ہوتے تھے۔ ان کا تجربہ یہ تھا کہ وہ 2006 سے مسلسل کارپوریشن کونسلر کا انتخاب جیت رہے تھے ۔ جمنا پار کے جس دلو پورا علاقے کے وسندھرا انکلیو میں وہ رہتے ہیں اس علاقے میں بطور کارپوریشن کونسلر رہتے ہوئے ایک زبردست کردار ادا کیا تھا۔ ان کا یہ کردار اس وقت اروند کیج ریوال کی نظر میں بہت انقلابی نظر آتا تھا. وہ تجربہ تھا محلہ سبھا کا، آزاد اور بی ایس پی کانگریس میں آتے جاتے رہتے ہوئے بھی بنی  علاقے میں اس لئے مقبول تھے کیونکہ وہ محلہ سبھا کو بہت کامیابی سے لاگو کر رہے تھے ۔
بطور سیاستدان بنی کی محلہ سبھا میں افسر اور عوام کا ملن کروایا جاتا تھا۔ ہر محلے کے اجلاس میں تمام متعلقہ سرکاری ملازمین موجود ہوتے تھے اور لوگوں کی شکایات سنتے تھے ۔ تین ہفتے کا وقت دیا جاتا۔ تین ہفتے بعد دوبارہ وہی افسران اور وہی شکایت دوبارہ اسی محلے میں جمع اور کام کاج کا حساب کتاب کیا جاتا بنی کی یہ چھوٹی سی پہل تھی لیکن اس کی وجہ سے ان کے لئے علاقے میں بڑی مقبولیت مل چکی تھی بنی کی یہی مقبولیت منیش سسودیاا اور اروند کیج ریوال کو بھی اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی۔ اس لئے پارٹی بنا لینے کے بعد اروند کیج ریوال اور منیش سسودیاا ن کو بطور رول ماڈل پیش کیا ۔
ٹکٹ تقسیم کا وقت آیا تب تک بنی عام پارٹی کے لئے خاص آدمی بن چکے تھے۔ اس لئے علاقائی اجلاس اور ملاقاتوں میں بنی کردار اہم ہوتا تھا۔لکشمی نگر اسمبلی سیٹ کے لئے جب ناموں کا تعین ہونے لگا تب وہاں سے الیکشن لڑنے کی پہلی تجویز اروند کیج ریوال ہی کا نام دیا گیا تھا۔ اس وقت میٹنگ میں موجود ایک آدمی گمنام رہنے کی شرط پر بتاتے ہیں کہ لکشمی نگر کی سیٹ اس لئے اہم تھی کیونکہ یہاں سے کانگریس کے اے کے والیہ انتخاب لڑ رہے تھے ۔ کانگریس کے اندر والیہ کی چاہے جو حیثیت رہی ہو لیکن لکشمی نگر علاقے میں وہ ایک ایماندار اور کام کرنے والے لیڈر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں ۔اس لئے اس وقت ہونے والے اجلاس میں تجویز پیش کی گئی تھی کہ اروند کیج ریوال کو ہی لکشمی نگر سے انتخاب لڑنا چاہئے تاکہ والیہ کو شکست دی جا سکے ۔
پارٹی ورکروں کے اس مشورے کے پیچھے وجہ تھی، اس وقت بنی نے ہی یہ تجویز دی تھی کہ شیلا دکشت کے خلاف تو ماحول ہے اس لئے ان کو شکست دینے سے بڑا چیلنج ہوگا والیہ کو ہرانا۔ اروند نے یہ چیلنج تو نہیں قبول کیا لیکن فوری طور پر یہ چیلنج بنی ہی کے حصے میں ڈال دیا، بنی نے نہ صرف چیلنج قبول کیا بلکہ ڈاکٹر اشوک کمار والیہ کو آٹھ ہزار سے زیادہ ووٹو ںسے ہرا دیا۔ دہلی میں شیلا دیکشت کی شکست کے بعد کانگریس کو اگر کسی شکست کا غم تھا تو وہ ڈاکٹر اشوک کمار والیہ کی ہار کا ہی غم تھا۔ لیکن عام پارٹی میں رہتے ہوئے  بنی نے کم و بیش وہی کام کیا جو اروند کیج ریوال نے شیلا دکشت کو شکست دے کر کیا تھا ۔
لیکن نتائج آنے کے ساتھ ہی حالات بدلنے لگے۔اروند کیج ریوال میڈیا کے لیے نئی علامت ہو گئے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے سیاست نے ایسی کروٹ بدل لی کہ بنی کا نام وزارتی لسٹ سے ہٹا لیا گیا۔ بنی اب بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا نام پہلی لسٹ میں راج بھون بھیجا گیا تھا لیکن بعد میں ان کا نام ہٹا لیا گیا۔ہو سکتا ہے ، ایسا کانگریس کے دباؤ میں کیا گیا ہو کیونکہ جس کانگریس سے بغاوت کرکے اروند کیج ریوال نے پارٹی کھڑی کی تھی ، بنی بھی اس کانگریس سے بغاوت کرکے عام آدمی بن چکے تھے ۔ اس لئے اس بات کا پورا امکان ہے کہ کانگریس نے جن کچھ لوگوں کو کاٹنے چھانٹنے کا فرمان دیا ہوگا اس میں بنی کا نام سب سے اوپر رہا ہوگابنی کی بغاوت کی پہلی خبر یہیں سے باہر آئی۔
وزیر نہ بنائے جانے کے بعد ان کی ایسی تصویر بن گئی کہ وہ لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں . پہلے بھی بی ایس پی ، کانگریس کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ان کی تصویر مفاد پرست  لیڈر کی ہی رہی ہے لیکن عام پارٹی میں رہ کر اروند سے بغاوت کسی بھی اروند حامی کے لئے ناقابل برداشت تھا ۔ جو بھی ہوا لیکن جلد ہی سب کچھ پرسکون ہو گیا بنی کی مخالفت کرنے والے خاموش ہو گئے اور حکومت کی گاڑی آگے بڑھ گئی لیکن ابھی پٹری پر پندرہ دن ہی دوڑی تھی کہ بنی پھر سے باغی ہو گئے اور اس بار تو براہ راست پریس کانفرنس تک کر ڈالی جس عام آدمی پارٹی کے وہ کبھی سب سے بڑے زمینی لیڈر ہوتے تھے ، اسی عام پارٹی کی زمین یہ کہہ کر کھود دی کہ اروند کیج ریوال اور کانگریس کی ملی بھگت ہے ۔ دہلی میں عوام کو جو راحت دی گئی ہے ، وہ سب چھلاوا ہے۔
عام آدمی پارٹی کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ بنی نے جو کچھ بولا وہ گزشتہ ایک ہفتہ سے بی جے پی بولتی آ رہی ہے ، اس لئے عام پارٹی کے یوگیندر یادو اگربنی کی بات کو بی جے پی کا ڈرافٹ بتا رہے ہیں تو صحیح کہہ رہے ہیں، جس نے بھی بنی کو لائیو دیکھا سنا ہوگا اسے سمجھتے دیر نہیں لگی ہوگی کہ بی جے پی بھی تو یہی سب بولتی آ رہی ہے،کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ گڈکری نے جس کانگریسی لیڈر ( سندیپ دکشت ) صنعت کار ( پون مجال ) اور اروند کیج ریوال کی میٹنگ کا انکشاف کیا تھا ، وہ معلومات بنی نے ہی گڈگری کو مہیا کرائی تھی۔ پہلے بنی خود ہی یہ انکشاف کرنے والے تھے ، لیکن بعد میں انہوں نے یہ راز کھولنے کے لئے گڈکری کو دے دیا۔ جو لوگ یہ دعویٰ کر رہے ہیں ان کی سچائی وہ جانے لیکن اتنا تو طے ہے کہ بنی کی بغاوت سے سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو ہی پہنچے گا، عام پارٹی کو کتنا نقصان ہو گا ، اس کا اندازہ فی الحال اس وقت کرنا ممکن نہیں ہے۔
تاہم پارٹی کا باضابطہ بنی کو برطرف کئے جانے اور بنی کی جانب سے بھوک ہڑتال کی دھمکی اور پھر اس کے خاتمہ کو لیکر مختلف قسم کی باتیں کہی جا رہی ہیں ،اس بابت کئی مبصرین نے کہا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے اہم لیڈر اور دہلی کے وزیر اعلی اروند کیج ریوال نے کچھ وقت پہلے اعلان کیا تھا کہ تمام سچے لیڈر اپنی پارٹی میں بغاوت کریں ، ان کی بات کومانتے ہوئے انہیں کی عام آدمی پارٹی کے لیڈر اور ممبر اسمبلی ونود کمار بنی نے اس کی شروعات کر دی ہے ، انہوں نے نہ صرف کیج ریوال بلکہ ان کی پوری جماعت کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے ،عام آدمی پارٹی کی طرف سے بنی کو عہدے کا لالچی بتائے جانے سے ان کے اٹھائے مسائل کی دھار کم نہیں ہو جاتی ۔
کئی لوگوں نے یہ بھی کہا ہے عام آدمی پارٹی کی تشکیل کسی کو وزیر اعلیٰ ، ممبر اسمبلی اور ممبر پارلیمنٹ دکھانے کا انتخاب ہوا تھا ،لوگ بدعنوانی اور جبر سے پریشان تھے ،پھر انا کی تحریک چلی، جس کے بعد عام آدمی پارٹی کی تشکیل ہوئی ، شاید انہی اصولوں کی وجہ سے پارٹی کو دہلی انتخابات میں اچھے نتائج ملے ،مگراچانک ہی سب کچھ تبدیل کر دیا گیا ہے ، حکومت میں آتے ہی قول وفعل میں بہت فرق آ گیاہے۔کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ عام آدمی پارٹی کا وعدہ تھا ہم کسی سے حمایت نہ لیں گے نہ دیں گے ، سچ سب کے سامنے ہے ۔سات سو لیٹر پانی مفت پانی کا سچ سب کے سامنے ہے ۔ بجلی کا بل نصف کر دیں گے ، اس کا سچ بھی سب کے سامنے ہے، بدعنوانی پر روک اور پندرہ دن میں لوک پال بل پاس کر دیں گے جیسے وعدوں کا کیا ہوا ؟
بنی نے پریس کانفرنس میں بہت صحیح اور عام آدمی کے ذہن میں ابھر رہے سوال اٹھائے ہیں جن کا نہ تو کیج ریوال اور نہ ان کے حامیوں کے پاس کوئی جواب ہے۔ اس لئے پول کھلنے پر الٹے بنی پر الزام لگائے جارہے ہیں کہ یہ تو بی جے پی اور کانگریس کی پٹھو ہے۔اس سارے معاملہ کی حقیقت کیا ہے اس پر کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن اس کے زریعہ اٹھائے گئے تمامسوالات کو یک قلم غلط بھی نہیں کہا جا سکتا ہے۔مثلا بنی نے کہا کہ دہلی حکومت کے خلاف اروند کیج ریوال نے سندرنگری علاقے میں بھوک ہڑتال کی تھی، مسئلہ تھا پانی اور بجلی بل میں بدعنوانی کا، لوگ زیادہ بل آنے سے پریشان تھے، کیج ریوال نے اس دوران لوگوں سے بل نہ دینے کی اپیل کی تھی ،کئی عورتوں نے ایسا ہی کیا بنی  10 لاکھ 52 ہزار لوگوں نے ایک بینر پر سائن کر کے اپنا احتجاج درج کرایا تھا، کیج ریوال نے وعدہ کیا تھا کہ جب ہم اقتدار میں آئیں گے سارے بل معاف کر دیے جائیں گے ، کسی پر قانونی کارروائی نہیں ہوگی، پر آج حکومت بنے ہوئے 15 دن سے زیادہ گزر گئے پر ان 10 لاکھ 52 ہزار لوگوں کے ساتھ کئے وعدے کا کیا ہوا، کسی کو نہیں پتہ۔ہزاروں لوگوں کے اوپر چوری کے کیس بنے ہوئے ہیں ، لاکھوں روپے کا بقایا ہے ۔
یا پھر بنی کا یہ دعوی کہ جب وہ الیکشن لڑ رہے تھے تو ہر جگہ یہی وعدہ کرتے تھے ، بجلی کی شرح میں 50 فیصد کی کمی کر دی جائے گی ، یعنی 1 لاکھ روپے کا بجلی کا بل دینے والے کو 50 ہزار کا بل دینا پڑے گا، اس میں 400 یونٹ والاایڈیشن نہیں لگا تھا، کمرشل ، انڈسٹریل ، گھریلو اور جھگی جھونپڑی میں بجلی استعمال کرنے والے لوگوں کے لئے الگ الگ قیمتیں ہوں گی ، یہ بات ہم نے کبھی نہیں کہی ،پر حکومت نے وہی کیا ، چند لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے جلد بازی میں سبسڈی کا کھیل کیا گیا اس وجہ سے دہلی کی 90 فیصد عوام چھلا ہوا محسوس کر رہی ہے ، سچ تو یہ ہے کہ حکومت کو اپنے دفتر میں موج کاٹ رہی ہے پر مجھ جیسے لیڈر کو عوام کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
بنی نے جن لوک پال کی بابت بھی سوال اٹھائے اور کہا کہ جن لوک پال بل پارٹی کے قیام کا ایک اہم مسئلہ تھا۔ پارٹی نے اپنے مینی فسٹو میں یہ وعدہ کیا تھا کہ حکومت بننے کے 15 دن کے اندر لوک پال بل پاس کیا جائے گا یعنی 29 دسمبر کو، حکومت 28 دسمبر کو بنی ، آج 19 سال بیت چکے ہیں ۔ پر لوک پال بل پر کوئی بحث نہیں ہے ،یہ تو عوام کے ساتھ دھوکہ ہے آپ نے تو 15 دن کا وعدہ کیا تھا ان کی منشا صاف ہے کسی طرح سے دو مہینے گزر جائیں ۔پھر لوک سبھا انتخابات کی وجہ سے ضابطہ اخلاق نافذ ہو جائے گی ہم اقتدار کا مزہ چکھیں گے،بنی نے خواتین سیکورٹی کے معاملے پر بھی حکومت سے سوال کئے ہیں اور خواتین کے تحفظ کوسب سے اہم موضوع قراد دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے ایک وزیر کا اس معاملے پر کوئی بیان نہیں ہے ، اگر دہلی میں کسی دوسری پارٹی حکومت ہوتی تو عام آدمی پارٹی احتجاج کرکے مسئلہ کھڑا کر دیتی مگر حکومت میں آ گئے تو خواتین کے تحفظ کا مسئلہ گون ہو گیا ،خواتین کمانڈو فورس کے قیام کی بات تھی پر ایک سرکولر تک نہیں جاری کیا گیا ۔
عام آدمی پارٹی جس سے عوام اور خواص کو بھی بہت زیادہ اعتماد تھا بنی کے ذریعہ اٹھائے گئے تمام سوالات سے سر مو انحراف بھی ممکن نہیں ہے ۔حالانکہ بر طرفی کے اعلان کے بعدتنازعہ پراٹھے سوالات کے جواب میں کہا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے لیڈر سنجے سنگھ نے کہا کہ پارٹی میں عہدے کی خواہش رکھنے والوں کی کوئی جگہ نہیں۔ ہماری پارٹی میں مفاد رکھنے والے لوگوں کے لئے جگہ نہیں۔ ہمارا مقصد صرف عوام کی خدمت کرنا ہے ۔ذاتی مفاد رکھنے والے لوگ پارٹی چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔پچھلی بار تو انہوں نے ایسا کبھی نہیں کہا تھا کہ وزارت کی خواہش نہیں ظاہر کی تھی قول و فعل میں کیا فرق ہے یہ بتانا ہوگا ونود کماربنی کو یہ محض جھلاہٹ کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے اور مبصرین و تجزیہ نگار اس پر بھی سوال کھڑے کئے ہیں ۔
اب اس معاملہ کو لے کر اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا سمجھ سے بالا تر ہے ۔لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اس سے عام آدمی پارٹی کی ساکھ مجروح ہوئی ہے اور ذمہ داران کو اس کا احساس ہوا بھی ہے جیسا کہ وزیر اعلی کے بیان سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ونود کماربنی پہلے وزیر کے عہدے کے لئے آئے تھے ، ہم نے انکار کر دیا۔ اس کے بعد پھر وہ بولے کہ میں لوک سبھا انتخابات لڑوںگا ، گھر پر آئے ٹکٹ کے لئے۔ پارٹی نے فیصلہ کیا کہ سٹنگ ایم ایل اے کو ٹکٹ نہیں دیں گے، اگر وہ مسئلہ اٹھا رہے ہیں تو ضرور حل کرتے ہیں، اسی لئے تو آئے ہیں ،ان کی کیا منشا ہے ، وہ جانیں،مگر یہ بات صرف مسائل پر ہے ۔کوئی بھی تنقید کرے ، بی جے پی والے ہوں یا کانگریس والے ، اگر بہتری کی گنجائش ہوتی ہے ، تو ہم کرتے ہیں ۔وزیر اعلی کے اس بات میں کتنا وزن ہے یہ تو بعد میں معلوم ہوگا لیکن فی الحال بنی کے ذریعہ اٹھائے گئے سوالات سمیت پارٹی کے سربراہ کی جانب سے اب تک کے مختلف معاملات کو لے کر جس قسم کی باتیں کی گئی ہیں اس سے کوئی زیادہ بہتر تعبیر اخذ نہیں کیا جا رہا ہے ۔
حال ہی میں پارٹی میں شامل ہوئی ملکہ سارا بھائی نے پارٹی کے لیڈر کمار وشواس سے سوال کیا تھا تو اس کے جواب میں کمار وشواس نے کہا کہ آخر یہ ملکہ سارا بھائی ہیں کون ؟اس سے پہلے پرشانت بھوشن کے کشمیر میں ریفرنڈم کرانے کے بیان پر بھی خوب واویلا مچا تھا اور پارٹی نے ان کے بیان سے کنارہ کر لیا تھا ،ان تمام معاملات اور تنازعہ سے باہر نکلنا پارٹی کے لئے آسان نہیں ہے اس لئے اس پر پارٹی کو غور کرنا ہی چاہئے اور عوام جو ان سے ایک امید اور لو لگائے ہوئے ہیں اس پر کھرا اترنے کے لئے اسے جلد مثبت اقدام کرنا چاہئے ورنہ اس کا بھی انجام کہیں ایسا نہ ہو جائے جو کانگریس یا بی جے پی کو ہوا ۔