بدھ، 19 فروری، 2014

وکیل قیدی کی کہانی


محمد علم اللہ اصلاحی 

    پیشہ سے وکالت کافریضہ انجام دینے والے اروند رانچی کے رہنے والے ہیں۔ انھیں  1992میں دفعہ 302 کے تحت قتل کے مقدمہ میں جیل لایا گیا تھا۔ اروندجیل میں تقریبا دس سال گذار چکے ہیں۔اروندر جیل میں قیدیوں کو موسیقی کی بھی تربیت دیتے ہیں ان کے بقول انھیں نغمہ اور موسیقی سے شروع سے ہی دلچسپی تھی ،جیل انتظامیہ نے ان کے اس ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے جیل کی طرف سے کئی جگہ انھیں نمائندگی کا بھی موقع دیا ہے۔اروند جیل میں محرر کے بھی فرائض نبھاتے ہیں۔چھوٹا ناگپور یونیورسٹی سے ایل ایل بی اور بی ایس سی کر چکے اروند کو جیل کے قیدی کافی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،یہ جیل میں وارڈن بھی ہیں۔

    جیل کے اندر اور باہر کی زندگی کے فرق کی بابت دریافت کرنے پر ان کا کہنا تھایہ تو زندگی کی ایک ایسی بھیانک جگہ ہے جس کے بارے میں میں کچھ کہہ ہی نہیں سکتا۔زندہ رہنے کا دل نہیں کرتا، کیا بتائیں آدمی کا جب خواب ٹوٹ جاتا ہے اس کے بعد سوچنا کچھ بھی بے کار ہو جاتا ہے۔ یہاں سے باہر جانے کے بعد آدمی کس طرف جائے گا، وہ تو بعد میں پتا چلے گا۔آگے ان کا کہنا تھاسچی بات تو یہ ہے کہ جیل آنے کے بعد میں کسی کام کا نہیں رہ گیا۔ باہر جو لوگ ہیں، وہ اندر رہنے والے آدمی کو یہی سمجھتے ہیں کہ وہ چور ہے۔ ہر کوئی سمجھتا ہے یہی لیکن جیل میں جب وہ آ جاتا ہے، تب اس کو حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ دس فیصد سے بھی کم حقیقی مجرم ہیں۔دراصل یہ باہر اور اندر کی حقیقت ہے، باہر والے اس کو نہیں سمجھ پاتے ہے، یہاں ہم کو یہ لگا کہ آج کی تاریخ میں جیل تیرتھ یاترا سے کم نہیں!۔جیسے گنگا دیوی میں آدمی ایک بار جاتا ہے ،بار بار سوچتا بھی نہیں ہے جانے کیلئے، یہ ایک ایسی جگہ ہے کہ آج کی تاریخ میں کون اور کب کیسے جھوٹے الزام میں پھنس کر آ جائے گا ؟یہ کوئی نہیں جانتا۔ وہ آگے کہتے ہیں میں بہت سوچتا ہوں ایک وقت تھا جب میں دیوار کو نہیں دیکھنا چاہتا تھا اور آج میں اسی دیوار کے اندر ہوں، جو ہمارے احباب یا دوست تھے، آج وہ کس جگہ پر چلے گئے اس بارے میں جب سوچتا ہوں توہمارے اوپر کیا گذرتی ہے ،میں بیان نہیں کر سکتا۔

    کیا فلمیں کرائم کو بڑھاوا دیتی ہیں، اس بارے میں ان کا کہنا تھا گناہ کبھی بھی کسی سے بھی ہو سکتا ہے۔ بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو فلموں سے ہوتے ہیں، وہاں جیسا دکھایا جاتا ہے، وہ ویسا ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس لئے یہ بات کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ فلمیں کرائم کو بڑھاتی ہیں ،کیا آپ نے اس کا اثر قبول کیا؟ اس بارے میں وہ کہتے ہیں یہ چیز تو 100فیصد ہے کہ میں نے کبھی اس کا اثر قبول نہیں کیا۔فلموں میں جو کچھ دکھایا جاتا ہے، اس کی حقیقت کے بارے میں ان کا کہنا ہے یہاں اس طرح کاکچھ بھی نہیں ہوتا۔جیل کے بارے میں اگر فلم بنائی جائے تو آپ کی نظر میں کیسی ہونی چاہئے؟ اس سوال کے جواب میںان کا کہنا تھا’ مان لیجیے آپ اچھی چیز دکھاتے ہیںمگر ایسا تھوڑے ہی ہے کہ جیل میں سب کچھ اچھا ہی ہوتا ہے، لوگ تو وہی کہیں گے جو جانتے ہیں‘۔جیل کی معلومات عموما ًنہیں ملتی، کیا اس کی فلٹرنگ کی جاتی ہے؟ ان کا جواب تھا ’ہاں، ہوتا ہے بہت بار ہوتا ہے لیکن میں تفصیل نہیں بتاؤںگا ‘۔اگر آپ کو موقع مل جائے فلمیں بنانے کا تو اس میں دکھائیں گے؟ اس سوال کے جواب میںان کاکہناتھاکہ جو مرضی میں بات آتی ہے اس کو دکھائیں گے اور باقی جو اور لوگ ہیں یہاں وہ کیا سمجھتے ہیں، اس کوبھی بتائیں گے۔ان کا کہنا تھاکہ جیل پر فلمیں بننی چاہئیں کہ یہاں پر کیا ہورہاہے اور کیسے لوگ رہتے ہیں؟

    آپ نے جیل کی دنیا میں اپنے آپ کو کیسے فٹ کیا؟ اس بابت وہ کہتے ہیں وقت تو لگتا ہے، یہ تو آدمی کے اوپر منحصر ہے، بہت مشکل تھا میرے لئے میںخود کو بہت مشکل میں پاتا تھا، اتنے دن ہو گئے۔ اب کیا بولیںجیساکہ پہلے بتایاکہ دوستوں کے بارے میں، آج وہ کہاں ہیں، ہم کہاں ہیں، ہم نظر نہیں ملا سکتے تھے، اپنے آپ سے کیونکہ حقیقت کیا ہے ہم جانتے ہیں میرا تو سوچتے سوچتے دن گذر جاتا تھا ،اور آج بھی یہی حال ہے۔کیا جیل کی دنیا میں واقعی لوگ راہ راست پر آ جاتے ہیں؟ اس بابت ان کا جواب ہے جو کریمنل ہے اس کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جیل میں مصیبت بھرے ایام کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں دقت ہوتی تھی بہت زیادہ لیکن آدمی کیا کرے۔سوچتے تھے کہ کوئی ملے جس سے ہم بات کریں لیکن ویسا بھی نہیں ہوتا تھا، اکیلے ہی رہنا پڑتا تھا۔وہ کہتے ہیں’ ہمیشہ سوچتے ہیںکہ ایک بار دوبارہ سب درست ہو جائے اور پھر گناہ بھی نہیں کئے ہیں تو مانتے تو رہتے ہیں کہ ایک اوسربھگوان ضرور دے گا۔