پیر، 28 اگست، 2017

میرے یار کا خط آیا


یہ دوست بھی عجیب ہوتے ہیں، کل رات میرے یار نے مجھے خط لکھا، ابھی اس کا جواب لکھنا باقی ہے، لیکن محبت و الفت میں گندھے ہوئے ان الفاظ نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے ، میں ایک مرتبہ پھر ماضی کے اتھاہ سمندر میںگھر گیا ہوں۔ بہت سی کہی ان کہی باتیں یاد آرہی ہیں۔ فی الحال یہ ملاحظہ فرمائیے میرا جواب بعد میں ۔
علم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عزیز دوست علم اللہ
بہت سی دعائیں
زندگی کی دوڑ بھاگ اور پیشہ وارانہ مصروفیات کے درمیان آج اچانک کچھ خیال آیا اور تمہیں یہ ای میل لکھنے بیٹھ گیا۔ میں تمہیں دس برس پہلے اسی اگست مہینہ کا جامعہ ملیہ اسلامیہ کی پرانی لائبریری کا وہ منظر یاد دلانا چاہتا ہوں جہاں ایک دبلا پتلا سا لڑکا کسی اخبار کے لئے مراسلہ لکھنے میں مصروف تھا اور اس کے بالکل برابر میں ایک اور اتنا ہی دبلا لڑکا اخبار پڑھ رہا تھا۔ وہیں پہلی بار دونوں میں دعا سلام اور تعارف ہوا۔ اس وقت ہم دونوں کو ہی نہیں پتہ تھا کہ یہ دعا سلام ہم دونوں کی کتنی قریبی دوستی کا آغاز ثابت ہوگی۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پانچ برس کا طالب علمی کا زمانہ اور اس کے بعد کے پانچ برس۔ اس عرصے میں کتنی یادیں ہیں جو ہماری اس دوستی کی کتاب میں درج ہیں۔ محدود وسائل میں ایک دوسرے کی تواضع، دھواں دار علمی بحثیں، ایک دوسرے کے ساتھ دیر رات تک سرد شاموں میں جامعہ کے پارکوں میں بیٹھ کر سماجی معاملات پر گفتگو پھر اچانک گھر کا ذکر آ جاتا اور کتنی ہی بار یا تو تم جذباتی ہو جاتے یا میں آبدیدہ۔

دس برس کی اس دوستی میں تم سے کتنی ہی بار اختلاف رائے ہوا، کبھی کبھی اپنائیت بھری خفگیاں بھی رہیں لیکن باہمی احترام میں کبھی ذرہ برابر کمی نہیں آئی۔ مجھے کبھی یاد نہیں پڑتا کہ ان خفگیوں کو دور کرنے کے لئے کسی تیسرے دوست کو بیچ میں پڑنا پڑا ہو۔

علم اللہ ! مجھے تمہاری دو باتوں نے بہت متاثر کیا ہے بلکہ مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ میں تمہاری ان دو خوبیوں پر رشک کرتا ہوں۔ پہلا تمہاری درک کرنے کی صلاحیت اور دوسرا تمہارا مسلکی اعتدال۔ جس دور میں مدرسہ کے قریب سے گذر جانے پر بھی آدمی مسلکی عصبیت کا شکار ہو جاتا ہے اس دور میں تمہارے اندر میں نے کبھی مسلکی تعصب نہیں دیکھا تمہاری یہ خوبی تمہیں بہت بڑا بناتی ہے۔ تمہاری تحریری صلاحیتیں تو خیر کسی تعریف یا تعارف کی محتاج ہیں ہی نہیں۔

دوست، وہ کتنا خوبصورت دور تھا جب ہم جامعہ کی لائبریری میں اتنا وقت گذارتے تھے کہ اکثر طلبہ کو بیٹھے بیٹھے بتا دیتے کہ فلاں کتاب کس الماری کے کس خانے میں ملے گی۔ جب لائبریری بند ہوتی تو کینٹین میں آ بیٹھتے اور جب وہ بند ہو جاتی تو ریڈنگ روم میں دیر رات تک بیٹھ کر کتابیں پڑھتے، ایک دوسرے کو دلچسپ نکات پڑھ کر سناتے اور جب رات زیادہ اتر آتی تو گھر کی راہ پکڑتے۔

میں جب کبھی ہاسٹل میں تم سے ملنے آتا تو تمہاری مہمان نوازی مجھے شرمندہ کر دیتی۔ طالب علمانہ مالیاتی حدود کے باوجود کتنا لطف آتا تھا اس چائے میں، اس کھانے میں،اس دعوت میں۔ وہ کیا دور تھا کہ ہماری تحریری شرارتوں کا کئی بڑے نشانہ بن جاتے، شائد ہی مستشرقین میں کوئی ایسا بڑا نام بچا ہو جسے ہم نے اپنی تنقید کی توپ سے باندھ کر کبھی نہ کبھی اڑا نہ دیا ہو۔

دیکھو، کیسا تعجب ہے کہ اتنا وقت ساتھ بتانے والے ہم دو دوست اب کتنا کم مل پاتے ہیں۔ ایک ہی شہر کے ایک ہی علاقے میں رہنے کے باوجود ہم گذشتہ چار برس میں شائد دو بار ملے ہیں البتہ فون پر خیر خبر ملتی رہتی ہے۔ سرکاری ٹی وی میں ملازمت کی مصروفیات تم بھی سمجھتے ہو اور بڑی دانش گاہ میں تمہاری رابطہ عامہ کی ملازمتی مصروفیات سے میں باخبر ہوں،
اس لئے شکوہ نہیں کرتے بس اس وقت کا انتظار کرتے ہیں جب زیادہ سا وقت نکال کے بہت دیر تک باتیں کریں گے وہیں جامعہ میں چائے پیئیں گے، پرانی یادیں تازہ کریں گے اور ویسے ہی جی بھر کر ہنسیں گے۔

بھائی، ہماری دوستی کو دس برس ہو گئے، امید ہے یہ تعلق ایسے ہی باقی رہے گا۔ مجھے امید نہیں یقین ہے کہ تم علمی دنیا میں اس بلندی کی طرف گامزن ہو جہاں ہم سب تم سے استفادہ کریں گے۔ خوش رہو اور خوب ترقی کرو۔۔۔۔اور ہاں ملنے کے لئے وقت نکالو، بہت سی باتیں کرنی ہیں۔

تمہارا دوست
مالک اشتر

Image may contain: text