جمعرات، 9 اگست، 2012

سیر و سیاحت : گوا میں چند دن




سیر و سیاحت : گوا میں چند دن
گواکے اس دس دن کے پروگرام اور سیاحت میں میں نے محسوس کیا کہ طویل مدت تک حکومت کرنے والے پرتگالیوں نے یہاں کی تہذیب و ثقافت اور معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔

محمد علم اللہ اصلاحی 
ذہن کے گوشہ میں کچھ چیزیں اس طرح ثبت ہو جاتی ہیں کہ ان کا اثر دیر پا رہتاہے ۔پھر انسان اسے بھلانابھی چاہے توبھی نہیں بھلا پاتا ۔گرمی کی چھٹیوں میں’ گوا‘ کا میراسفر بھی اسی طرح یادوں کے چندانمٹ نقوش ثبت کر گیا جنھیں شاید میں کبھی نہ بھول پاں ۔دراصل دہلی میں ہی کچھ ایسے حالات رونما ہونے شروع ہوئے کہ دل نے کہا اسکی روداد ضرور قلم بند کی جائے۔اب دیکھئے! کہ ساڑھے سات بجے ہمیں نظام الدین ریلوے اسٹیشن سے ٹرین پکڑنی تھی ٹکٹ بھی کنفرم نہیں، اور ہماری نیند کھلتی ہے ۶ بجے ،تیار ہوتے ہوتے سات بج جاتے ہیں ۔بلا وجہ ہوئی اس تاخیر کے جھلاہٹ اور جلدی جلدی کے چکر میں بجائے’ بٹلہ ہاؤس ‘یا ’جولینا ‘جانے کے رکشہ لیا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ بس اسٹاپ پر آگیا کہ یہیں سے آٹورکشہ لیکراسٹیشن نکلیں گے لیکن جیسے آٹورکشہ والوں نے ہڑتال مچا رکھی تھی۔ کوئی اسٹیشن جانے کے لئے تیار نہیں ہو رہا تھا ۔میری نگاہ بار بار گھڑی پر جاتی تھی کہ کہیں ٹرین چھوٹ نہ جائے ۔بڑی منت سماجت کے بعد ایک آٹو والا اس بات پر تیار ہوا کہ نظام الدین ریلوے اسٹیشن تک کا پچاس روپئے لے گا، میں نے کہا ”چلو ٹھیک ہے“ اور بیٹھ گیا.


تقریبا 20 منٹ کے بعدہم اسٹیشن پہونچ گئے تھے ۔ٹرین پلیٹ فارم پرکھڑی تھی اور بس چلنے کے لئے تیارہی تھی ،میں جلدی سے ہانپتے کانپتے ٹرین پر سوار ہو گیا ۔لیکن چونکہ سیٹ کنفرم نہیں تھی اس لئے ابھی اور پریشانی جھیلنی تھی ۔دیر تک ٹی ٹی کے انتظار میں بیٹھا رہا ۔ٹی ٹی آیا تو معلوم ہوا کہ’ آراے سی ‘ہے ۔جان میں جان آئی ،خدا کا شکر ادا کیا ،اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا ۔تقریبا پوری بوگی اسکولی بچوں سے بھری ہوئی تھی ۔بچے کھیل کھیل میں کبھی شور مچاتے تھے تو کبھی آپس میں لڑنا جھگڑنا شروع کر دیتے تھے۔چھوٹے چھوٹے بچوں کی حرکتوں پر تو غصہ بھی آرہا تھاکہ میں تو خشونت سنگھ کے خشک ناول ’اے ٹرین ٹو پاکستان‘ کامطالعہ کر رہا ہوں اور یہ بچے بار بار میرا ذہن منتشرکئے دیتے ہیں۔غصہ سے میں نے کتاب بند کی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔


کسقدر پر کیف و پر لطف منظر تھا ،دیہی ہندوستان کی بساط میرے سامنے بچھی تھی جس پر پیادوں سے لیکر بادشاہ تک ہر ایک اپنی اپنی چال چلنے میں مصروف تھا،کھیت میں کام کرتے کسان،کارخانوں سے نکلتا دھنواں ،گاتی ہوئی ندیاں،مچلتے ہوئے جھرنے،آسمان کا بوسہ لینے کی کوشش میں مصروف پہاڑ،جھیلیں ،ان میں نہاتے پرندے اور ان سب کے درمیان اشرف المخلوق ہونے کا دعویٰ کرنے والا انسان ،کہیں گاڑی کھینچ رہا ہے تو کہیں کسی کی گاڑی پر بیٹھا ہے ،کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ جب آدم ؑ آسمان سے ہم انسانوں کو دیکھتے ہونگے تو اپنی اولاد کے اتنے مختلف حالات دیکھ کر انہیں کیسا لگتا ہوگا؟۔انھیں سوچوں میں گم نہ جانے کب نیند لگ گئی ۔جب آنکھ کھلی تو رات کے آٹھ بج رہے تھے یعنی سفر کا ایک تہائی حصہ طے ہو چکا تھا ۔کچھ بچے سو رہے تھے ،کچھ اونگھ رہے تھے ۔میں نے ایک بچے سے پوچھاتم سب کہاں جا رہے ہو ؟اس نے بتایا ”ہم لوگ اسکول کی طرف سے گوا سیر کو جا رہے ہیں “۔ان بچوں کو دیکھ کر مجھے اپنا اسکول کا زمانہ یاد آنے لگا اور میں اپنی اس زندگی کو دیکھنے لگا جب تمام ذمہ داریوں سے بے پروا ہ اپنا زیادہ تر وقت کھیلنے ،کھانے،گھومنے اور نہ جانے کن کن چیزوں میں گزارا کرتا تھا۔ میں آج بھی اپنے اسکول سے متصل اس بوڑھے آم کے پیڑ کو نہیں بھول سکتا ،جب اسکے نیچے لکڑی کی کرسی پر بیٹھ کر مولوی صاحب ہمیں درس دیا کرتے تھے ۔اور ہم بچے ان کے گرد حلقہ بنائے کھڑے ہوا کرتے تھے ۔مولوی صاحب کی موٹے لینس والی عینک سے جھانکتی آنکھیں ،برسوں کے تجربات سے سفید ہوئی داڑھی اور حالات زمانہ کے سبب ہاتھوں میں پڑی ہوئی جھریاں اور اس میں موٹی سی بانس کی قمچی جسے وہ’ تنبیہ الغافلین‘ کہا کرتے تھے آج بھی مجھے اچھی طرح یاد ہیں ۔مختلف دانش گاہوں کی سیر ،بڑی بڑی لائبریریوں میں کتب خوانی اور مختلف سمیناروں اور مذاکروں میں شرکت کرتے وقت مجھے کبھی یاد نہیں کہ میں اپنے مولوی صاحب کے ان لرزتے ہاتھوں کو بھول گیا ہوں جن ہاتھوں نے میری ننھی انگلیوں کوتھام کر قلم پکڑناسکھایاتھا۔


گوا جاتے ہوئے راستہ میں دہلی ،یو پی،راجستھان ،مہاراشٹر اور گجرات جیسی ریاستوں سے گزرناہوا ۔گجرات میں داخل ہوتے ہی سانحہ گجرات یاد آگیا اور اسکے خیال سے ہی رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔آہ۔۔۔۔!!کس قدر دلدوز اور بھیانک رہا ہوگا وہ واقعہ۔انسان نما درندوں نے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو آن واحد میں ہی اپنی ہوس کا شکار بنایا ۔افسوس۔۔۔۔!!انھیں روتے بلکتے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں پر بھی رحم نہیں آیا اور حیرت تو یہ ہے کہ ان انسانیت سوز واقعات کے ذمہ دار اب بھی آزاد پھر رہے ہیں ۔یہ جمہوریت کا مذاق نہیں تو اور کیا ہے ؟گودھرا ریلوے اسٹیشن پر ایک صاحب نے بتایا کہ سابرمتی ایکسپریس کی جلی ہوئی بوگی کچھ دن پہلے تک اسی اسٹیشن پر کھڑی تھی ۔وہ صاحب سانحہ گجرات پر شروع ہو گئے ،ٹرین اپنی پوری رفتار سے منزل کی طرف پھر سے دوڑ پڑی تھی اورشاید اس سے تیز رفتار آندھیاں میرے ذہن میں چل رہی تھیںپل بھر کے اندر قطب الدین انصاری سے لیکر بلقیس بانو تک ،سہراب الدین سے لیکر کوثر بی تک ،بیسٹ بیکری سے لیکر گلبر گ سوسائٹی وشاہ عالم کیمپ تک اور ۷۲فروری کے گودھرا سانحہ سے لیکر نریندر مودی کی تیسری جیت تک نہ جانے کتنے مناظر میری نظروں کے سامنے سے گزر گئے انھیں خیالات میں کھوئے کھوئے نہ جانے کب میں گجرات کی سر حد عبور کر چکا تھا ۔گاڑی آہستہ ہونے لگی تھی معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ اب ہم مہاراشٹر میں داخل ہو رہے ہیں اور پہلا اسٹیشن آنے والا ہے ۔مہاراشٹر کو کئی اعتبار سے امتیازی اہمیت حاصل ہے ۔اسی ریاست کے شہر ناگپور میں وہ ناگ پیدا کئے جاتے ہیں جنھوں نے زعفرانی زہر سے سارے ملک کی فضا کو مسموم کر رکھا ہے ۔یہیں وہ خفیہ فوجی ٹریننگ کیمپ ہیں جن کے پیداوار پرگیہ ،دیا نندپانڈے اور ان کے ساتھی ہیں اور اسی مہاراشٹر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے ایک طلبہ تنظیم پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا اور’ سیمی ‘کے نام پر اتنی گرفتاریاں ہوئیں جتنی شاید ہی کسی اور ریاست میں نہ ہوئیں ہوں ۔لیکن یہاں مجھے نہ جانے کیوں ایک عجیب سی مسرت کا احساس بھی ہو رہا تھا کہ میں اس سر زمین پر پہونچ گیا ہوں جہاں کے مراٹھا فرمانرواں نے اس ملک کی تاریخ میں اپنا نام عزت و وقار کے ساتھ درج کرایا تھا ۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مہاراشٹر کا اپنا ایک کلچر ہے ۔لیکن مجھے اس کا قطعی احساس تک نہ ہوا ۔البتہ وہ نا قابل دید فصیلیں جو راج ٹھاکرے اور بال ٹھاکرے نے کھڑی کی ہیں ان کی حقیقت کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ضرور ملا ،اور اس کامجھے اس وقت احساس ہوا جب میں نے ایک اسٹیشن پرایک ہاکر سے ہندی یا انگریزی کا اخبار طلب کر لیا ۔ پہلے تواس نے مجھے تقریبا گھور کر دیکھا اور پھر بس اتنا کہا ”بھیا !یہ مہا راشٹر ہے “اب اسکے بعد کچھ پوچھنے کے لئے باقی نہ رہ گیا تھا ۔میں سمجھ چکا تھا کہ راج ٹھاکرے جیسے لوگوں نے ان سادہ لوح بیوپاریوں اور ہاکروں کے دلوں میں بھی کس قدر عصبیت کے بیج بو دیئے ہیں ۔وہ تو کہئے کہ میں نے اردو کا اخبار مانگنے کی غلطی نہ کی تھی ورنہ قارئین کی عدالت میں میں ہی خطاوار گردانا جاتا کہ’مراٹھی مانس ‘کا نعرہ دینے والے راج ٹھاکرے اور بال ٹھاکرے کے شہر میں اردو کا اخبار تلاش کر رہا ہوں لیکن میں نے تو ہندی یا انگریزی کا اخبارمانگا تھا، وہ بھی اسکے پاس نہیں تھا کہنے والے نے صحیح کہا ہے


انکی تیشہ  گری کو دیکھیے گا
 بانٹ  کر رکھ   دیا   زبانوں  کو
شمعیں روشن تو کی نہیں جاتی
 آگ  دینے  چلے  مکا نوں  کو 
(مالک اشتر نوگانوی

خیر! 32 گھنٹہ کے مسلسل سفر کے بعد اب ہم مہاراشٹر کی سرحد کو پار کر رہے تھے۔ابھی مہاراشٹر کی سر حد ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہواں کے جھونکوں نے استقبال کرنا شروع کر دیا ۔یہاں درختوں کے قطار درقطار اور پہاڑوں کی فلک بوس چوٹیاں نیز نیلے نیلے عودے عودے پھول عجیب دلکش اور مسحور کن نظارہ پیش کر رہے تھے ۔شام ہو چکی تھی ۔ایسے میں پہاڑوں کے عقب سے سورج کے غروب ہونے کا منظر ۔۔۔۔۔۔مجھے اقبال کا یہ شعر یاددلا رہا تھا ۔کانپتا پھرتا ہے یہ رنگ شفق کہسار پرخوشنما لگتا ہے یہ غازہ ترے رخسار پرحالانکہ یہ بات بھی سہی ہے کہ منظر چاہے کتنا ہی دلکش کیوں نہ ہو غروب آفتاب کی کسک بہرحال ہر ایک حساس دل محسوس کرتا ہے مگر مخمور سعیدی کے اس شعر نے مجھے اس کسک کا احساس نہ ہونے دیا۔عورود شام میں بھی ہے ،نمود صبح کی نویدغروب آفتاب ہی ،طلوع آفتاب ہےان حسین وادیوں کو دیکھتے ہی دل و دماغ تازہ ہو گیا ۔دوستوں نے سفر پر نکلنے سے پہلے ہی ’گوا ‘کی سر سبز و شادابی اور اسکی جلوہ سامانیوں کو دیکھنے کی تاکید کی تھی ۔


واقعی اللہ تعالٰی نے اپنی کرشمہ سازیوں کے انمول نمونے اس سر زمین میں رکھے ہیں ۔جسے دیکھ کر طبیعت خوش ہو اٹھتی ہے ۔یہاں کا مو سم اورآب و ہوا اس قدر پر لطف ہے کہ بیمار سے بیمار انسان بھی اچھا ہو جائے۔شام میں ہم مڈگاں ریلوے اسٹیشن پہونچے ۔جہاں ہمیں اترنا تھا ۔چھوٹا سا خوبصورت اسٹیشن ،یہاں دلی اور رانچی کے اسٹیشنوں کی طرح بالکل بھیڑنہیں تھی، پرسکون ماحول ،خوشگوار فضا، موسم بھیگا بھیگا اور کافی سہانا ۔یہاں سے ہم لوگ بذریعہ بس منزل کی طرف روانہ ہوئے معلوم ہورہا تھا کہ دو تین دن سے جم کر بارش ہو ئی ہو،صاف شفاف نشیب و فراز والی پتلی پتلی سڑک پر ہماری گاڑی فراٹے بھر رہی تھی ۔ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ،بساط افق اور زمین کے آنچل پر پھیلا منظر ،چھوٹے و خوبصورت مکانات ،بڑے شہروں کی عام روایات کے برخلاف بیشتر ایک منزلہ کشادہ عمارتیں ۔ایک گھنٹہ کے اندر ہم اپنی منزل پہونچ چکے تھے ۔یہاں پہونچتے ہی ہم نے غسل کیا پھر ناشتہ اور چائے کے بعد ٹہلنے کے لئے نکل گئے ۔حالانکہ سفر سے لوٹنے کے بعد فطری طور پر انسان تکان اور سستی محسوس کرتا ہے ۔

لیکن قدرت کی ان کرشمہ سازیوں کو دیکھنے کے بعد تکان اور سستی کہاں غائب ہو گئی اسکا احساس ہی نہ رہا ۔ہم لوگ دیر تک پہاڑی کی چوٹی پر واقع ’نیشنل کونسل آف چرچز‘کے احا طہ میں گھومتے رہے اور خدا کی بنائی ان نعمتوں پر عش عش کرتے رہے وہاں درختوں کی ہریالی ،پیڑ اور رنگ برنگے پھول پھر اوپر سے پانی کے گرنے کی آواز پورے ماحول کو اس قدر مسحور کن بنائے ہوئے تھی کہ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔چونکہ میرے رفیق سفر کی طبیعت بھی خراب تھی اس لئے چاہتے ہوئے بھی زیادہ دیر ٹہل نہ پا یا اور جلد ہی کمرے میں واپس آگیا ۔ساڑھے آٹھ بجے رات کھانے کا انتظام تھا ،کھانے میں چاول ،سلائس،مچھلی ،ناریل کڑھی،اچار اور کندری کی سبزی تھی۔کھانا ناریل اورمونگ پھلی کے تیل سے تیار کیا گیا تھا جبکہ ہمارے یہاں سرسوں کے تیل میں سالن بنانے کا رواج ہے۔اس لئے ذائقہ کچھ اجنبی سا لگا لیکن شدید بھوک میں ذائقہ کی پرواہ کون کرتا ہے؟۔اس لئے ہم شکم سیر ہوئے ۔کھانے کے بعد تمام مندوبین نے اپنی اپنی پیلٹوں کو خود صاف کیا یہ شاید اس بات کا پیغام تھا کہ ’اپنا کام آپ کرو‘یہ تو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے تقریبا ڈیڑھ ہزار سال پہلے ہی بتایا تھا لیکن آہ۔۔۔۔!ہم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو پس پشت ڈال دیا ۔کسی نے سہی ہی کہا ہے کہ اسلام ،قرآن اور حدیث سب کچھ ہمارے پاس ہے لیکن شرافت ،عمل اور زندگی کا سلیقہ ہمارے پاس نہیں ہے۔شاید کہنے والے نے اسی لئے کہا تھا کہ ہم نے اپنے نبی کے فرمان کوبھلا دیا۔خدایا!ہمیں اسکی توفیق دے کہ ہم تیرے نبی اور حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلنے کی سعادت حاصل کر سکیں (آمین)۔

دوسرے دن حسب عادت صبح صادق کے وقت ہی بیدار ہو گیا ۔وضو وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد فجر کی نماز پڑھی اور قرآن مجید کے نصف پارے کی تلاوت کی ،چونکہ آج کوئی پروگرام نہیں تھا اس لئے تقریبا ساڑھے چھ بجے کمرے سے باہر چہل قدمی کے لئے نکل گیا،رات بھر بارش ہوئی تھی اس لئے پورا ماحول پانی کی بوندوں میں نہایا ہوا معلوم ہو رہا تھا ،یہ گرمی کا موسم ہے لیکن برسات کا گمان ہوتا ہے ۔آدھے گھنٹہ سے زائد بے راہرو مسافر کی طرح پورے کیمپس میں ادھر ادھر ٹہلتا رہا ۔واپسی کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ مجھے دور چرچ میں صبح کی عبادت ہونے کے آثار دکھائی دیئے چونکہ یہ عیسائیوں کے طرز عبادت کا مشاہدہ کرنے کا ایک بہترین موقع تھا اس لئے شوق دیدار مجھے اس سمت لے چلا۔دیکھا ایک شخص انجیل کا درس دے رہا ہے اور لوگ ہمہ تن گوش خاموشی سے اسے سن رہے ہیں،میں بھی اس درس میں جا شریک ہوا اور ان کی باتیں سننے لگا وہ بیچ بیچ میں نہ جانے کیوں اچانک کھڑے ہو جاتے تو کبھی گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے اور کبھی اپنے دونوں ہاتھوں کو ملا کر اپنے سینے اور پیشانی تک لاتے اور چھوڑ دیتے ۔غالبا یہ ان کی عبادت کا طریقہ تھا اور وہ عبادت کر رہے تھے ۔ان کی اس خود ساختہ مبینہ طرزعباد ت کو دیکھ کر میں دل ہی دل میں دعائیں کرنے لگا کہ یا الٰہ العالمین !انھیں ہدایت دے اور ہمیں استقامت عطا فرما ۔انھوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کو کس طرح تھریف کا شکار بنا ڈالا تھا ۔اے کاش!!یہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر ایمان لے آتے تو انھیں نجات مل جاتی ۔در اصل اس میں ہم مسلمانوں کی بھی غلطی ہے کہ اللہ تعالٰی نے ہمیں دین اسلام کا امین بنایا تھا اور کہا تھا ادعوا الیٰ سبل ربک لیکن ہم نے اسکا پیغام اسکے بندوںتک نہیں پہنچایا ۔کل یقیناً خدا کی بارگاہ میں ان بے چاروں کا ہاتھ ہوگا وار ہمارا گریبا ن یہ فریادی ہونگے کہ با ری الٰہ !یہی وہ تیرے بندے ہیں جنھیں تو نے اپنے دین کا امین اور محافظ بنایا تھا لیکن انھوں نے تیرا دین ہم تک نہیں پہونچایا اور ہم سرگرداں رہ گئے اسلئے گر ہم سزا کے مستحق ہیں تو یہ بھی مستحق تادیب ہیں ۔

پروگرام چونکہ کل سے شروع ہوناہے اور ہم ایک دن پہلے ہی پہنچ گئے تھے اس لئے ہم نے گوا گھومنے کا ارادہ بنایا اور ہم چار پانچ ساتھی پروگرام آرگنائزر مسٹر ونیت کوشی کو مطلع کر کے گھومنے نکل گئے ۔تین بجے کے قریب ہم لوگ’ پلر‘ سے نکل کر راجدھانی پنجی گئے جو کہ ہماری اقامت گاہ سے بارہ کیلو میٹر کی دوری پر واقع تھا ۔راجدھانی کافی خوبصورت تھی ۔لیکن چونکہ ہم لوگوں کو’ ڈونا پولا ‘جانا تھا اس لئے یہاں زیادہ دیر نہیں ٹھہرے اور بزریعہ بس ’ڈونا پولا ‘نکل گئے ۔

یہ بھی راجدھانی سے گیارہ یا بارہ کیلو میٹر کی دوری پر ہے یہاں کئی سیاحتی مقامات تھے جن کے بارے میں مختلف قسم کے قصے کہانیاں گائیڈ سیاحوں کو سنا رہے تھے ۔یہاں سے سمندر کا نظارہ اس قدر دلچسپ تھا کہ دن بھر آدمی بیٹھا نظارہ کرتا رہے ۔ٹھیک سمندر کے کنارے اوشنوگرافی کالج تھا،جہاں سمندر اور اس سے متعلق تحقیقی تجربات کئے جاتے ہیں ۔سمندر کے کنارے کنارے دور تک بڑی بڑی چٹانیں تھیں جنھیں دیکھ کر لگتا تھا کہ خصوصی طور پر انھیں کسی خاص مقصد کے لئے بچھایاگیا ہے ،سمندر کے لہروں کا ان چٹانوں سے ٹکرانے کا منطر ہی کچھ اور تھا ۔ایسا لگ رہا تھا جیسے چٹانوں پر لہریں اپنا سر پٹک رہی ہیں ۔اور دور بپھری ہوئیٰ لہریںساحل تک آکر واپس لوٹتیں توان کے جھاگوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا جیسے ہزاروں ٹینکر دودھ سمندر کے کنارے انڈیل دئے گئے ہوں ۔مچھواروں کے ذریعہ بوٹنگ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی ۔واسکو کی طرف جارہا ایک بوٹ لہروں کے بیچ ایسا نظر آرہا تھا جیسے ڈوب گیا ہو لیکن کچھ ہی منٹوں بعد پھر ابھر آتا ،کس قدر زور ہوتا ہے پانی کی ان لہروں میں اسے آج میں کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا ۔ابھی سنامی میں یہی لہریں تو بپھر اٹھی تھیں جنہوں نے لمحوںمیں ہزاروں لوگوں کو لقمئہ اجل بنا ڈالا تھا ۔سنامی سے متعلق خبریں اور تصویریں میرے ذہن کی اسکرین پر صاف دکھائی دے رہی تھیں ۔اس طرح کے چھوٹے چھوٹے حادثات دراصل انسان کو جگانے کے لئے ہوتے ہیں لیکن انسان اس سے سبق نہیں لیتا ۔خیر ہم لوگوں نے یہاں کافی لطف اٹھایا ۔کیمرے کے ذریعہ تصویریں کھینچیں ۔

چونکہ اس سیر میں میرے ساتھ مختلف مذاہب کے پیرو کئی اور بھائی بھی تھے اس لئے خوشی دوبالا ہو گئی۔ہم لوگ یہاں دیر تک باتیں کرتے رہے ۔اس میں ایک دوسرے کے مذہب کے بارے میں جاننے اور بتانے کا موقع بھی ملا ۔میں نے انھیں اسلام کے بارے میں بتایا انھیں بڑی خوشی ہوئی انھوں نے کہا ہم آپ کے مذہب کو اور سمجھنا چاہتے ہیں ہمیں کوئی کتاب یا قرآن دیجئے ۔میں نے کہا میرے پاس ہندی ترجمئہ قران اور کئی کتابیں موجود ہیں انشاءاللہ پلر جاتے ہی آپ کے حوالہ کر دونگا ۔ آپ ان کا ضرور مطالعہ ضرو ر کیجئے ۔اور پلر آ ٓتے ہی میں نے ان کی امانت ان کے حوالہ کر دیں۔اللہ انھیں ہدایت دے اور اسلام کی حقانیت کے لئے ان کاذہن کھول دے۔اسکے بعد بقیہ چھہ دن سخت مصروفیت میں گزرے ۔منتظمین کے مطابق ہرپروگرام میں تمام شرکاءکی شرکت لازمی تھی ،بصورت دیگر ہم لوگوں کا دور دراز کا سفر طے کرکے آنا فضو ل تھا ۔اس ہفتہ بھر کے پروگرام میں تقریبا ۵۱موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ۔موضوعات کچھ اس طرح کے تھے ۔شخصیت کوکیسے پہچانیں ؟،عدل کی اہمیت ضرورت اور اسکے تقاضے،کیسے نمٹیں اختلافات سے،بین المذاہب مکالمہ اور تعاون،ڈرامہ کی مشق و ممارست: معاشرتی مسائل کے تنا ظر میں ،معاشرے میں مصالحت اور امن کی بحالی میں نوجوانوں کا کردار، نسلی مسائل اور جنسیت، معاشی بحران :ترقی اور مذہبی ذمہ داریاں ،فضائی توازن میں نظریہ کی تلاش ،شناخت ،حقوق انسانی اور ثقافت میں اختلاف کا جشن۔دو شفٹوں میں ایک مقرر نے الگ الگ دو موضوعات پر گفتگو کی ۔جسکے لئے ساتوں مذاہب(ہندو،مسلم،سکھ،عیسائی،بہائی،جین، بدھ) سے ایک ایک فرد کا انتخاب کیا گیا تھا اور قوس قزح کے مانند سب کو ایک خوبصورت گلدستہ میں سجانے کی کوشش کی گئی تھی ۔اس ورکشاپ میں لکچرس کے علاوہ کھیل کود اور بحث ومباحثہ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا ۔

اس پروگرام کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ ہر لکچر ۰۹منٹ کا ہوتا اور اسکے بعد ٹی بریک تاکہ چائے پینے اور کچھ چہل قدمی کر لینے کے بعد انسان دوبارہ دوسرے پروگرام کے لئے تازہ دم ہو جائے۔۰۹منٹ کے اندر ایک پروگرام کو نمٹا دینے کے پس منظر شاید یہ مصلحت کارفرما تھی کہ ایک انسانی ذہن لگاتار ۰۹ منٹ تک بغیر کسی بریک کے کام کر سکتا ہے۔یہاں لکچر کا انداز بھی ہمارے دینی مدارس یا دینی مجالس کے روایتی اور گھسے پٹے طریقہ سے یکسر مختلف تھا،جدید تکنک کا استعمال کرتے ہوئے اپنی بات کو خوبصورت اور جامع اندازمیں کہنے کا فن کوئی ان سے سیکھے ۔بیچ بیچ میں سوال جواب تاکہ ذہن اصل مقصد سے بھٹکنے نہ پائے ساتھ ہی ساتھ اسپیکر اور سامع کا رشتہ اخیر تک برقرار رہے ۔اس سے سامعین کو کافی فائدہ ہوتا اور چونکہ ہر ایک کو اس بات کا خطرہ لاحق رہتا کہ نہ جانے کب مجھ سے کیا پوچھ لیا جائے اس لئے سبھی مقرر کی باتوں کو دھیان سے سنتے ۔بنیادی طور پر اس پروگرام کا مقصد ہی living togather is possible))یعنی ایک دوسرے کے درمیان رہنے اور رہ کر زندگی گزارنے کو ممکن بنانا تھا اس لئے تقریبا ہر مقرر کا مرکزی خیال یہی تھا۔یہاں پر شرکاءبھی تقریبا ہر مذہب سے تھے جو ملک کے مختلف شہروں جیسے دہلی،حیدرآباد، رانچی،جمشیدپور ،بنگلورو،کشمیر،ممبئی،پونا،کولکاتہ کے علاوہ بیرون ممالک امریکہ اسٹریلیا اور پاکستان کے بھی تھے ۔جن میں زیادہ تعداد عیسائیوں کی تھی ۔

یہ سات دن کا پروگرام خالص علمی نوعیت کا تھا اور سوائے ایک یا دو لیکچرس کے سارے لکچر انگریزی میں ہی ہو تے تھے ، یہاں کا ذریعہ زبان بھی انگریزی ہی تھا ، یہاں رہتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا جیسے ہم ہندوستان سے باہر کسی دوسرے ملک میں آگئے ہوں۔اس پروگرام میں تقریبا تمام ہی مذاہب کے افراد سے براہ راست ملنے اور تبادلئہ خیال کا موقع ملا۔یوں تو اس سے پہلے المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد اور جامعہ ملہ اسلامیہ میں مختلف مذاہب کے بارے میں پڑھنے اوراسکے تقابلی مطالعہ کا موقع ملا تھا ۔اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ میں نے تھیوری تو معہد اور جامعہ میں پڑھی لیکن پریکٹیکل کا موقع اس پروگرام میں ملا۔اس پروگرام میں ایک دن گو اکے جناب آصف صاحب آئے ہوئے تھے جو غالبا جماعت اسلامی ہند کے ممبر تھے انھوں نے ’ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودہ صورتحال‘ پر سیر حاصل گفتگو کی سب سے زیادہ سوالات بھی انھیں سے کئے گئے ۔انھوں نے ہر سوال کا جواب انتہائی سلجھے ہوئے اور سائنٹفک انداز میں دیا ۔ایک لڑکے نے سوال کیا اس وقت پوری دنیا میں کیوں ہر جگہ مسلمانوں کو ہی کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے خواہ وہ ہندوستان میں گجرات ہو ممبئی ہو یا مالیگاوں یا پھر ہندوستان سے باہر عراق،افغانستان،چیچنیا بوسنیا یا فلسطین ۔چونکہ ٹیبل ٹاک پروگرام تھا اور اس میں آصف صاحب کے علاوہ اوربھی کئی اسکالر موجود تھے جو اسکا جواب دینا چاہ رہے تھے لیکن سائل نے کہا کہ میرا یہ سوال خصوصا آصف صاحب سے ہے ۔تھوڑی دیر کے لئے آصف صاحب بھی شش و پنج کا شکار رہے سب کی نگاہیں ان پر ٹک گئیں کہ معلوم نہیں کیا جواب دیتے ہیں لیکن جب انہوں نے جواب دینا شروع کیا اور ماضی کے جھروکے سے حق و باطل کی معرکہ آرائی اور اسکے پیچھے کار فرما سازش کو چاک کرتے ہوئے الحق یعلو ولا یعلی علیہ کے اصول پر اسلام ہی کو کامیابی ملے گی کی بات کی تو بہت سے لوگوں اور خصوصا عیسائیوں کو آصف صاحب کی باتیں اچھی نہیں لگیں۔ایک صاحب نے تو کھڑے ہوکر کہہ بھی دیا کہ کہ ایسا صرف مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہو رہا ہے بلکہ عالمی طور پر کئی ایسے مسائل ہیں جس سے پوری انسانیت جوجھ رہی ہے مثلاسفید فاموں کا سیاہ فاموں پر ظلم،دلتوں کی حالت زار ،سری لنکا میں تمل باغیوں کی زیادتیاں غرض اس نے درجنوں واقعات ایک ساتھ گنوا دیئے۔پروگرام ختم ہونے کے بعد ہماری ملاقات آصف صاحب سے ہوئی انھوں ہم لوگوں کے ملکر بڑی خوشی کا اظہار کیا ۔میں نے ان سے انگریزی ترجمئہ قرآن کے کچھ نسخوں کی فرمائش کی انھوں نے دوسرے ہی دن تقریبا ۵۲،۰۳ نسخہ بھیج دئے جسے میں نے اپنے غٰیرمسلم ساتھیوں کے درمیان تقسیم کر دیا ۔سبھوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اورمطالعہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔مجموعی طور پر پروگرام ٹھیک رہا۔

لیکن اسکے باوجود اس پروگرام سے جو نتیجہ میں نے اخذ کیا وہ یہ کہ دراصل اس طرح کے پروگرام امت مسلمہ کے نوجوانوں کو ان کے اصل مقصد اور موقف سے بھٹکانے کا خوبصورت طریقہ کار ہیں ۔سیکولرزم اور انسانیت کے نام پر انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے کی یہ کوشش ویسے ہی ہے جیسے انسان حق کا متلاشی تو ہے لیکن وہاں تک پہونچنے کے لئے صحیح راستہ اختیار کرنے کو رضامند نہیں بلکہ ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑا ہوکہ نہیں مجھے تو اسی راستہ سے کامیابی ملے گی اور اسی کے ذریعہ ہم حق کو پا سکتے ہیں جو کہ بالکل غلط ہے۔مجھے حیرت اور افسوس ا سوقت ہوا جب کلکتہ سے آئے ایک عالم دین جو ماشاءاللہ ایک سرکردہ دینی ادارہ سے فارغ بھی ہیں انھوں نے اپنی تقریر میں یہ کہہ دیا کہ ”ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ ہم کسی کے مذہب کو برا بھلا کہیں ۔ہر مذہب حق اور خدا کے ذریعہ بنایا گیا ہے اور ہر مذہب ایک ہی خدا کو پہچاننے اور اور اسکی تعلیمات پر عمل کرنے کے الگ الگ راستے ہیں ۔میرے جی میں آیا کہ میں اٹھوں اور اسکا گریبان پکڑ کر کہوں تم نے آٹھ اور دس سال مدرسہ میں رہ کر کیا کیا۔۔۔۔؟؟ائے میرے دینی بھائی !اگر سب حق ہیں تو محمدصلی اللہ علیہ وسلمکیوں مبعوث کئے گئے اور ہمارے خالق ومالک نے اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں کیوں فرمایا ”جاءالحق ذہق الباطل کان ذہوقا“پھر ”لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ“ کا کیا مطلب ہے ؟۔مجھے سمجھ میں نہیں آتا آخر ہم حق بات کہنے سے کیوں جھجکتے ہیں اور حق بات کو کیوں چھپاتے ہیں ۔مجھے اسکی اس غفلت پر حیرت تھی کہ” ان الدین عنداللہ الاسلام“کاوہ پیغام جو اسلام کے بارے میں معمولی علم رکھنے والے شخص کو بھی اچھی طرح معلوم ہے اگر تمام مذاہب حق ہیں تو پھر یہ اعلان چہ معنی کہ’ دین تو خدا کے نزدیک بس اسلام ہی ہے‘۔اس اعلان کا مطلب ہی ہے کہ بس اللہ تک جانے کی ایک ہی راہ ہے اور وہ اسلام ہے۔ہو سکتا ہے میرے یہ فاضل بھائی نصرانیت ،الحاد اور شرک کو اسی پلے میں رکھنا چاہتے ہیں جن کے جاہلانہ نظام کو ختم کرنے کے لئے رسول کائناتصلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام حقہ بنام اسلام سنایا تھا ۔خدا میرے اس بھائی کی ہدایت فرمائے (آمین)

اس ورکشاپ کا آخری دن گوا اور اسکے گرد و نوح میں گھومنے اور مختلف مقامات کی سیرکے لئے وقف تھا ۔جسکے کے لئے صبح تقریبا ۹ بجے دو بسوں کا انتظام کیا گیا تھا ۔چونکہ چالیس کے قریب شرکاءتھے اس لئے ۰۲،۰۲ کی تعداد میں سب کو تقسیم کر دیا گیا اور دونوں میں سے ایک کے لیے’ شمالی گوا‘اور دوسرے کےلئے ’جنوبی گوا‘ کا انتخاب کیا گیا ۔شمالی گوا کا صدر مقام’ پنجی ‘اور جنوبی کا ’مڈ گاوں‘۔جانے سے پہلے ایک عیسائی مذیبی رہنما (جس کا نام یاد نہیں رہ گیا ہے) نے کانفرنس ہال میں تمام ہی شرکاءکو جمع کرکے ’گوا‘کی مختصر تاریخ اور اسکی جغرافیائی حیثیت پر روشنی ڈالی انھوں نے بتایا کہ بنیادی طور پر گوا کا اطلاق شما لی گوا کے ان تین گاوں پر ہوتا ہے جو کہ مغربی ہندوستان کی تاریخ کے مختلف کامیاب ادوار کی نمائندگی کرتے ہیں ۔دوسرا قدیم گوا ہے جوکہ پرتگالی انتظامیہ کا صدر مقام بنا اور اس وقت یہ ہندوستان کی رومن کیتھولک کلیسا کا صدر مقام ہے ۔تیسرا جسے عام طور پر پنجی کہا جاتا ہے اس وقت گوا کی راجدھانی ہے ۔گوا کے اصل شہر (گوا ویلیا ۔goa velia)کو کدمبا حکمرانوں نے آباد کیا تھا ۔گوا کا دوسرا شہر (velha cidadede goa)جو کہ قدیم گوا کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے ۔قدیم ہندو صدر مقام کے شمال میں پانچ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔اسے مسلمانوں نے ۹۷۴۱ءمیں واسکوڈی گاما کی ہندوستان آمد سے انیس سال بعد آباد کیا تھا ۔اسی مشہور شہر کو البوقرق’Albuquerque‘نے ۰۱ ۵۱ءمیں فتح کیا تھا ۔یہ ایشیا میں سلطنت پرتگال کا صدر مقام بنا تھا ،یہی شہر مشرق و مغرب کے درمیان تجارت گاہ بن گیا تھا ۔اس دور میں یہ پرتگال کے صدر مقام لسبن ہی کی خصوصیات کا مالک تھا ۔اور اب یہ عیسائیوں کی مذہبی زیارت گاہ ہے جہاں پر سولہویں صدی کے عیسائی مبلغ سینٹ فرانسس زیویر St francis xavier))کی باسیلکا آف بوم جیس(basilica of bom jeus )میں رکھی میت کو دیکھنے آتے ہیں ۔اس نے لیپا پوتی اورجلد سے جلداپنی بات کو ختم کرنے کے چکر میں بہت سارے تاریخی حقائق سے انحراف کیا یا ممکن ہے جان بوجھ کر چھپا لیا ہو مثلا اس نے یہ نہیں بتایا کہ بعد کی صدیوں میں پرتگال کے زوال کے ساتھ ساتھ یہ بھی زوال پذیر ہوا اور اپنی اہمیت کھوتا گیا اور اب اس نے محض کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی صدر مقام کی حیثیت سے اپنی شناخت باقی رکھے ہوئے ہے۔اور اب یہاں سولہویں اور سترہویں صدی کے گرجا گھروں اور کلیساں کے علاوہ کچھ بھی باقی نہیں رہ گیا ہے ۔پھر یہ کہ یہی وہ شہر ہے جہاں ۹۹۸ھ( ۴۹۴۱ء)میں اندلس میں صلیبیوں کے غلبہ کے صرف پندرہ سال بعد اندلس میں مسلمانوں پر داستان الم من و عن دہرائی گئی ۔یا یہ کہ مارچ ۰۱۵۱ءکو صلیبی سامراج کا اولین خواب صلیبی اور یورپی سامراج کے دوسرے وائسرائے البوقرق کے ہاتھوں گوا پر پرتگالیوں کے قبضہ سے پورا ہو ۔

۱۷۴۱عرصہ سے گوا پر عادل شاہی حکومت کا قبضہ چلا آرہا تھا ۔اسے اس نے درہم برہم کر دیا اور یہی وہ شخص تھا جس نے شاہ ایران اسماعیل صفوی سے ہر مز پر تسلط کے بدلہ مکہ مکرمہ پر حملہ اور کعبہ شریف کو ڈھانے سازش رچی تھی تھی ۔اس نے یہ بھی فراموش کر دیا کہ ۳۱۵۱ءمیں اس کا ارادہ تھا کہ حبشہ سے گھوڑے حاصل کرکے پرتگالی بری بیڑے کے چار سو سواروں کو ینبع کے راستہ مدینہ منورہ بھیجے تاکہ مسجد نبوی میں محفوظ اسلامی خزانوں کو لو ٹیں اورخاکم بدہن قبر اطہر سے جسد مبارک نکال کرحجاز سے باہر لے جائیں (نعوذو باللہ)۔پھر اسکے بعد شاہ پرتگال بیتت المقدس میں واقع کنیسہ القیامہ اسکے قبضہ میں دینے کے لئے مسلمانوں سے بھا تا کریں۔اس نے گوا کے مسلمانوں پر ظلم و بربریت میں اسپین کے محاکم تفتیش کی یاد تازہ کر دی تاریخ کی کتابوں میں ایسے بہت سارے واقعات رقم ہیںمثلا پرتگالیوں میں سے جو لوگ اسلام لاکر مسلمانوں سے مل گئے تھے ۔اس نے ان کا دایاں ہاتھ اور بائیں ہاتھ کی انگلیاں کا ٹیں ،ان کے داڑھی اور سر کے بال نچوائے اور جسم میں خالی جگہوں پر مٹی بھر دی۔البوقرق نے تہیہ کر لیا تھا کہ گوا کی سر زمیں پر کوئی مسلمان باقی نہیں چھوڑے گا ۔اس نے وہاں کے تمام مسلمانوں کو شہید کر دیا ۔اس کے حکم سے گوا کے مسلمانوں کو ایک مسجد میں جمع کرکے جلا دیا گیا ۔مسلمانوں کی قبریں اور مقبرے کھود کر ان کے پتھر قلعہ کی تعمیر میں لگوا دئے۔اس نے شاہ مانویل کو گوا کی فتح کے بعد جو خط لکھا تھا تاریخ کی کتابوں میں آج بھی وہ موجود ہے وہ لکھتا ہے ”اس کے بعد میں نے شہر کو آگ لگا دی ،ہر گردن پر میں نے تلوار رکھی ،کئی روز تک لوگوں کا خون بہتا رہا ۔جہاں بھی ہم نے مسلمانوں کو پایا ان کی کوئی عزت و توقیر نہیں کی ،ہم مسجدیں ان سے بھر کر ان کو آگ لگا دیتے تھے یہاں تک کہ ہم نے ۶ ہزار مرنے والوں کے جسم دیکھے ۔میرے آقا !یہ بہت عظیم اور شاندار کارنامہ تھا جس کا آغاز بہت خوب تھا اور اختتام بھی بہتر ہوگا “تاریخ سے د لچسپی اور اسکے طا لب علم ہونے کی حیثیت سے سفر پر نکلنے سے پہلے میں نے کئی کتابوں کا مطالعہ کر رکھا تھا ۔ اس لئے بہت ساری باتیں ذہن میں تھیں اور بہت سارے شکوک و شبہات بھی ۔میری خواہش تھی کہ میں ان سے سوال کروں اور کچھ پوچھوں لیکن شرکاءپہلے سے ہی بور ہو چکے تھے اور مزید کچھ سننے کے لئے تیار نہ تھے بلکہ جلد سے جلد ان ساری چیزوں کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہے تھے جسکے بارے میں ابھی ابھی فاضل مقرر نے بتایا تھا یا انھوں نے پہلے ہی کسی کی زبانی سنا تھا ۔

اس لئے میں بھی دونوں کے درمیان حائل ہونا مناسب نہیں سمجھا اور بہتری اسی میں محسوس کی کہ اب چلنا چاہئے۔چنانچہ پروگرام کے مطابق سب سے پہلے ہم ان مزدوروں کی جھوپنڑیوں کو دیکھنے گئے جو اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں کمانے کے لئے آئے ہوئے ہیں ۔ان میں زیادہ تر تعداد یوپی ،بہار اور جھارکھنڈ کے باسیوں کی ہے جو سمندر کے کنارے کھجور کے پتے اور لکڑی و بانس کے بنے چھوٹے چھوٹے جھوپڑ ے نما مکانات میں رہتے ہیں ۔ ان کاکام سمندر سے ریت نکالنا اور اسکو بیچنا ہے یہ لوگ زیادہ تر گرمی کے دنوں میں یہاں آتے ہیں ۔یہ مزدور یہیں کھاتے ،پیتے ،رہتے،اور سوتے ہیں اور چونکہ زیادہ تر یہ غریب ہیں اور بمشکل اپنی روزی روٹی چلا پاتے ہیں ۔اس لئے عیسائی مشنریاں اسکا خوب خوب فائدہ اٹھا کر اپنی فکر اور کلچر ان کے سر تھوپتے ہیں یہ مشنریاں ان کے درمیان کئی رفاہی کام بھی کرتی ہیں مثلا ان غریب لوگوں اور ان کے غریب بچوں کے لئے مفت تعلیم ،ہاسپٹل اور دوائیوں کا انتظام کرنا ،مختلف مہلک بیماریوں خصوصا ایڈس کے تئیں بیداری پیدا کرنا اور انھیں اس سے بچا اور محفوظ رہنے کے طریقہ وغیرہ بتانا۔ہم نے یہاں رہ رہے لوگوں سے باتیں کیں ۔وہ انھیں بہت عزت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور دیوتا سے کم تصور نہیں کرتے میں نے دیکھا ان کی آنکھوں سے ان مشنری والوں کے لئے احسان کا جذبہ صاف عیاں تھا ۔اسکے بعد ہمارا اگلا پڑاؤ تھا مشہور ’میرا میربیچ‘ یہاں پہونچتے ہی میں نے آ دیکھا نہ تا اور مزے میں کپڑے پہنے ہی پہنے سمندر میں کود گیا فورا خیال آیا یہ تو میں نے بڑا برا کیا لیکن میرے رفیق سفر نے بتایا کہ احتیاطا میں تمہارے بھی ایک جوڑے کپڑے ساتھ لے آیا تھا ۔پھر کیا تھا میں نے کپڑے پہنے ہی پہنے سمند ر میں خوب تیراکی کی اور نہایا ۔تقریبا دس سال بعد کسی سمندری ساحل پر گھومنے کا موقع ملا تھا ۔

یوں تو اس سے پہلے بھی میں بھٹکل میں سمندر دیکھ چکا تھا ۔لیکن اس وقت میں اتنا چھوٹا تھا کہ اسکی ایک مدھم سی تصویر بھرہی نظر آتی تھی ۔یہاں تو کھلی آنکھوں سے حقیقت دیکھ رہا تھا ۔مسٹر ونیت کوشی ہمارے ساتھیوں کو متنبہ کر رہے تھے کہ زیادہ دور نہ جا آج لہریں تیز ہیں ۔ان کے اس جملہ کو سنتے ہی میں سہم گیا سنامی کی صبح بھی لہریں تیز تھیں معلوم نہیں کس وقت سمندر بپھر اٹھے اور ایک مرتبہ پھرابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ مسٹر ونیت کوشی کی آوازپھر کانوں میں آئی واپس چلو۔۔۔۔!واپس چلو۔۔۔۔۔۔!اور پھر بس کے ذریعہ ہم لوگ واپس ’ہوٹل ہیریٹیج‘ پہونچے ۔جہاں رات کے کھانے کا انتظام تھا ۔کھانے کے بعد واپس پلار رٹرٹ سینٹر لوٹ آئے جہاں ہمارا قیام تھا۔دہلی آنے سے ایک دن پہلے ایس آئی او کے ایک ممبر شعیب بھائی سے ملاقات ہوئی جو گوا یونیورسٹی سے ایم اے کر رہے تھے اور ایس آئی او گوا کے زونل سکریٹری بھی ہیں ۔میری خواہش پر انھوں نے بھی کئی تاریخی مقامات کی سیر کرائی لیکن فی الحال میرے ذہن میں ’اولڈ گوا‘ میں واقع گرجا گھر کی یاد باقی رہ گئی ہے ۔جس میں سینٹ پال کے بعد مسیحیت کے سب سے عظیم ملغ سینٹ فرانس زیویر کی ممی (لاش)رکھی ہوئی ہے اور جسے یونیسکو نے تاریخی ورثہ کی حیثیت دے رکھی ہے ۔یہ گرجا گھر اصل میں مسجد تھی ،حیرت کی بات ہے اس گرجا گھر کے صدر دروازے پر صلیب آویزاں نہیں ہے مقامی روایت کے مطابق اس پر صلیب نصب نہیں ہو پاتی ہمیشہ گر جاتی ہے۔ 

گواکے اس دس دن کے پروگرام اور سیاحت میں میں نے محسوس کیا کہ طویل مدت تک حکومت کرنے والے پرتگالیوں نے یہاں کی تہذیب و ثقافت اور معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں ۔قدم قدم پر چرچ اور شراب کی دکانیں ۔۔۔۔۔بر ہنگی کی حد تک عریانیت ۔۔۔۔۔۔سویلائزیشن کے نام پر بد تہذیبی۔۔۔۔۔جدیدیت کے نام پر دور جہالت کی رسمیں۔۔۔۔۔فاضل کپڑوں میں مرد اور قلیل کپڑوں میں عورتیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی یورپی ملک میں ہم آگئے ہیں ۔دس لاکھ کے اس آبادی والے گوا میں ہندو اکثریت میں ہیں لیکن عیسائی ہر اعتبار سے خوشحال ۔مسلما نوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور ان کی بھی تقریبا وہی حالت ہی جو دیگر ہندی مسلما نوں کی ہے جماعت اسلامی کے علاوہ کئی مسلم تنظیمیں یہاں کام کر رہی ہیں لیکن وہ بھی اپنے ابتدائی مرحلہ میں ہیں۔عشرے بھر تک دنیا بھر کے ممالک اور ہندوستان کے کونے کونے سے پہنچنے والے بھانت بھانت کے مندوبین سے ملاقاتوں اور ان کے ساتھ اس بات پر غور و فکر کہ بین المذاہب ہم آہنگ کی فضا کیونکر قائم کی جائے اس سب کے بعد جب میں مڈگاں کے اسٹیشن پر ٹرین کے انتظار میں کھڑا تھا تو نہ جانے کیوں میرا دل اداس تھا ۔ جیسے ہی ٹرین ہمیں لیکر دہلی کے لئے چلنی شروع ہوئی ہلکی سی بوندا باندی ہونے لگی ایسا معلوم ہو رہا تھا گوا مہمانوں  جدائی پر آنسو بہا رہا ہو۔
alamislahi@gmail.com
    MD.ALAMULLAH ISLAHI