جمعہ، 4 جنوری، 2013

نرسری میں غرباء کا داخلہ پھردرد سر



! کے ساتھ تفریق برتنے کا امکان بعید از قیاس نہیں مسلم بچوں  

محمد علم اللہ اصلاحی

                نیا سال آتے ہی دہلی کے نرسری اسکولوں میں داخلے کی دوڑ شروع ہو گئی ہے اور اس سال عام طبقے کے ساتھ اقتصادی طور پر کمزور (ای ڈبلیوایس) طبقے کے بچوں کے داخلے میں بھیڑ کافی بڑھنے کا امکان ہے کیونکہ محروم طبقہ میں یتیم بچوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔اس سال کئی اسکولوں نے جنرل زمرے میں آن لائن رجسٹریشن کی سہولت بھی پیش کی ہے تاہم اقتصادی طور پر کمزور طبقے کے بچوں کو مشترکہ درخواست فارم بھرناہوگا۔محکمہ تعلیم نے مختلف اسکولوں کیلئے الگ الگ درخواست دینے کے بجائے اس بار ’مشترکہ درخواست‘کی سہولت فراہم کرائی ہے۔تعلیم ڈائریکٹوریٹ کی ویب سائٹ پر مشترکہ درخواست ڈالا گیا ہے۔


                دہلی کے ایک حالیہ تعلیمی سروے میں نرسری کے داخلے میں بڑی تعداد میں درخواستوں کی بات سامنے آئی ہے۔ 2012 میں نرسری کلاسوں میں داخلے کے لیے فی عمومی نشست کے لئے 50 درخواست آئے تھے۔آئی آئی ایم میں داخلے کے لیے فی عمومی نشست پر 61 درخواست آئے تھے جب کہ یہ قومی سطح کا داخلہ امتحان ہے۔دہلی اسکول کی تعلیم نامزدگی بورڈ نے حال ہی میں نرسری کلاس میں داخلے کے لئے عمر کی حدکے بارے میں کچھ تجاویز پیش کی تھی لیکن اسے رواںتعلیمی سیشن میں نافذ نہیں جائے گا۔کافی تعداد میں بچوںکے سرپرست نرسری میں داخلے کی موجودہ نظام سے مطمئن نہیں ہےں اور اس میں ترمیم کر کے نظام کو مجموعی بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کئی اسکولوں میں نرسری میں داخلے کے لئے سابق طالب علموں کے بچوں کو 100 پوائنٹ میں سے 15 سے 30 پوائنٹ تک دیے جا رہے ہیں جس سے بہت سرپرست غیر مطمئن ہیں۔چھ سے 14 سال کے بچوں کو مفت میں فیس اور لازمی تعلیم کا حق قانون (آرٹی ای) کے تحت سماج کے کمزور طبقے کے بچوں کے لئے 25 فیصد سیٹ رکھنے کی بات کہی گئی ہے۔ دہلی کے پرائیویٹ اسکولوں میں داخلے کے لئے اس کسوٹی کو مکمل کرنا بھی اہم چیلنج ہوگا۔قومی دارالحکومت کے اسکولوں میں نرسری میں داخلے کے لئے 15 جنوری تک رجسٹریشن کرائے جا سکتے ہیں۔داخلے کے لیے پہلی فہرست 15 فروری کو اور دوسری فہرست 28 فروری کو جاری ہو سکتی ہے۔ داخلے کے لئے بچے کی پیدائش سرٹیفکیٹ اور پتے کے ثبوت اہم دستاویزات ہیں۔ پتے کے ثبوت کے طور پرآدھار کارڈ کو قبول کیا جائے گا۔اگر بچے کا صرف ایک سرپرست ہو تو اس کے لئے پوائنٹ مقرر کیا گیا ہے جبکہ لڑکیوں کو بھی داخلے میں توجہ دیتے ہوئے پوائنٹ رکھے گئے ہیں، اگر والدین میں سے کسی نے اس اسکول میںپڑھائی کی ہے تو اس کے لئے بھی پوائنٹ رکھے گئے ہیں۔معزور بچوں کے لئے بھی پوائنٹ ہیں۔


                کہا جا رہا ہے کہ بچوں کا نرسری میں اےڈمیشن ماں باپ کے لئے کسی لڑائی جیتنے جیسامعرکہ ہے۔ جس میں دہلی کے تقریبا 1200 اسکولوں میں نرسری ایڈمشن کے لئے یہ جنگ شروع ہوگی اور پوائنٹ سٹم کی بنیاد پر داخلے کے عمل کو مکمل کیا جائے گا۔اس کے تحت گھر اور اسکول کے درمیان کا فاصلہ (پڑوسی)، اسکول میں پہلے سے ہی پڑھ رہے بچے کے بھائی یا بہن اورقدیم کو بنیاد بنا کربھی پوائنٹس دیے جائیں گے سرپرست پوائنٹ سسٹم کے پیچ میں پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ اسکول اس سسٹم پر اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ(تعلیم سب کے لئے قانون)کے مطابق پوائنٹ سسٹم کے تحت بچوں کے داخلے کی بات کہی گئی ہے، لیکن اسکولوں کی من مانی کی وجہ سے پوائنٹ سسٹم میں تال میل کی کمی ہے۔ مثال کے طور پر ایلکان پبلک اسکول میں نرسری کی 160 نشستیں ہیں۔ایلکان آر ٹی ای کو دھیان میں رکھتے ہوئے بھائی بہن کو 40 پوائنٹس دے رہا ہے اوربھائی کو 25 پوائنٹس دے رہا ہے۔کیمبرج پرائمری اسکول بھائی بہن کو 15 اوربھائی کو 15 پوائنٹس دے رہا ہے۔دونوں اسکول کے طریقہ کار میں فرق صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ اتنا ہی نہیں کیمبرج اسکول اپنے پوائنٹ سسٹم کی لسٹ میں والدین کو انٹر کلچرل ہونے پر بھی 10 پوائنٹ دے رہا ہے۔ دہلی میں کئی اسکول جین مذہب کے لوگ چلا رہے ہیں، یہاں سبزی خوراور غیر سبزی خور پس منظر کے والدین کو 10 پواٹس الگ سے دےے جا رہے ہیں۔اسکولوں کے من مانے رویے پر دہلی حکومت نے یہ عذرپیش کرتے ہوئے پلہ جھاڑ لیا ہے کہ معاملہ عدالت میں ہے۔شاید اسی لئے کہا جا رہا ہے کہ والدین کو اپنی تیاری پوری کر لینی چاہئے کیونکہ ایڈمشن بھلے ہی بچے کا ہو لیکن اصل امتحان والدین کو پاس کرنا ہے۔


                اس مرتبہ ماہرین نے تخمینہ لگاتے ہوئے قیاس ظاہرکیا ہے کہ داخلے کے فارم بیچنے سے ہی اسکول والوں کو 1200کروڑ روپے کی کمائی ہونے کا امکان ہے۔ یہ تو محض ایک اتفاق ہے ملک بھر کے تمام پبلک اسکولوں کے اعدادو شمار کو جوڑا جائے تویہ رقم بہت بڑی بنے گی۔مگر پچھلے برس پرائیویٹ سیکٹر کے ان پبلک اسکولوں میں نرسری کے مہنگے فارم بیچ کر 1 ہزار کروڑ روپے کی کمائی کی تھی لیکن اس سال یہ رقم1200 کروڑ روپے سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔ ان کے مطابق کسی اچھے پبلک اسکول میں نرسری میں بچے کا داخلہ کرنا کوئی بڑی جنگ جیتنے سے کم نہیں ہے۔ اسی لئے ابھی زیادہ دن گذرے بھی نہیں ہیں کہ والدین کو کئی بڑے اسکولوں کے چکر لگانے پڑرہے ہیں بتایا جاتا ہے کہ اپنے لاڈلوں کی خاطر سرپرستوں کی یہ دوڑ دھوپ داخلہ مکمل ہونے تک 20 ہزار سے25 ہزار روپے تک خرچ ہو جاتے ہیں۔لوگوں کا تجربہ یہ بھی بتاتا ہے کہ داخلہ فارم کے فروخت کا عمل کچھ دنوں کے اندر بند کردیا جاتا ہے یا پھر بہت محدود رکھے جاتے ہیں۔ ایسے میں کسی بھی معیاری اسکول میں بچے کے داخلے کےلئے ماں باپ دن رات ایک کردیتے ہیں۔لیکن شایدمنتظمین کو عام لوگوں کو پریشان کرنے میں ہی مزا آتا ہے۔


                ایک این جی اوکے سروے کے مطابق دہلی میں چھوٹے بڑے تقریباً تین ہزار پبلک اسکول ہیں جو نرسری کے داخلے کے لئے ایک پورا دستورالعمل جاری کرتے ہیں جس میں داخلے کی تمام معلومات ہوتی ہیں۔ دہلی سرکار نے حال ہی میں ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے داخلے میں 25 فیصد سیٹیں اقتصادی طور سے پسماندہ خاندانوں کے بچوں کے لئے مختص کرنے کو کہا ہے۔ اس سے عام زمرے کے بچوں کے لئے داخلے میں سیٹیں محدود رہ جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ والدین کو ایک دو نہیں بلکہ کئی اسکولوں میں داخلے کے فارم پر پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ سروے کے مطابق دہلی پبلک اسکولوں میں نرسری اور کے جی داخلے کے فارم دہلی یونیورسٹی ،انڈین مینجمنٹ انسٹیٹیوٹ، چارٹرڈ اکاونٹٹنٹ اور دیگر تعلیمی اداروں سے بھی مہنگے ہوگئے ہیں۔نرسری و پری پرائمری اسکول میں داخلہ فارم کی فیس کی قیمت ہی دیکھ کر پریشان ہونے والے والدین کا درد سر یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ فارم جمع کر نے کے بعد بھی انھیں مہنگائی کی مارکئی طرح سے جھیلنی پڑ تی ہے۔ قسطوں میں فیس کی ادائیگی تو تب بھی سمجھ میں آتی ہے لیکن کئی اسکولوں میں یکمشت فیس جمع کرانے کی جو شرط مقرر ہے ،وہ والدین کے گلے کی پھانس بن گئی ہے۔ نرسری کلاس بھلے ہی چھوٹی لگ رہی ہو لیکن اس کے خرچ کسی اعلی تعلیم کے خرچوں سے کم نہیں۔ سالانہ خرچ کی بات کریں تو دہلی میں ایسے اسکولوں کی کمی نہیں جو 70 ہزار سے1 لاکھ روپے تک کی فیس وصولتے ہیں۔ اس بابت مبصرین کا یہ کہنا کہ درمیانہ طبقے کے خاندان کے لئے اتنی رقم کا انتظام کرنا بہر حال ایک مشکل امر ہوگا ۔
           

                دہلی کی سب سے بڑی اقلیت بالخصوص مسلمانوں کاایک بڑا طبقہ بھی اسکولوں کے اس رویہ کو لیکر کافی پریشان ہے ۔چونکہ عموما اس طبقہ کے ساتھ ملک کے تمام ہی معاملات میں تفریق برتا جاتا ہے، اس لئے وہ کچھ زیادہ ہی پریشان ہیں اور اپنے بچوں کی بابت چاہتے ہیں کہ انھیں ایسے اسکول میںداخلہ ملے جو ان کے بچوں کے خلاف امتیازی سلوک نہ کرتے ہوں۔یہ بیان ہندستان کے ایک انگریزی روزنامہ میں شائع’ ہیم بور ‘کر کے مضمون میں ہوا ہے جس میں فاضل مضمون نگار نے اپنے ایک سروے کے حوالہ سے کہا ہے کہ” اقلیتی طبقہ سے جڑے افراد کا یہ بیان اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں داخلہ حاصل کرنے میں پیش آنے والی مشکلات کے سبب والدین کے اندر بڑھ رہی لاچاری اور غصہ کے احساس پر روشنی ڈالتا ہے“۔ بہت سے لوگ اپنے ’احساس‘ کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ نجی اسکولوں نے پہلے سے ہی طے کیا ہے کہ’بس اتنے ہی طے شدہ مسلمانوں کو لینا ہے اور مزید کوئی مسلمان نہیں لینا ہے ۔اور چونکہ گزشتہ سال بھی دہلی کے اسکولوں میں نرسری درجے میں ہوئے داخلوں کے اعداد و شمار میں مسلمان بچوںکی تعدادتشفی بخش نہیں دیکھے کوملی تھی اس لئے اس برس بھی اس طبقہ کے لوگوں کو تشویش ہے۔


                واضح رہے کہ دہلی میں آبادی کی مناسبت سے مسلمان پندرہ فیصد ہیں جبکہ انہیں گزشتہ برس صرف صفر اعشاریہ پانچ فیصد سے کم ہی داخلے دیے گئے تھے ۔یعنی تقریباً 92 اسکولوں میں سے 12399 سیٹوں میں صرف 208 مسلم بچوں کو داخلے دیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ 20 اسکولوں نے تو کسی مسلم بچے کو داخلہ ہی نہیں دیا جبکہ 17 اسکولوں نے صرف ایک ایک مسلم بچے کو داخلہ دیا تھا۔اس وقت حکومت نے انکوائری کرانے اور آئندہ ایسی غلطی نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن آج تک یہ معاملہ حل نہیں ہو سکا ؟کیا اس بار بھی ایسا ہی ہوگا؟یہ ایک اہم سوال ہے۔بارہا چونکہ یہ دیکھا اور محسوس کیاجاتا رہاہے کہ ملت کے غمخواروں کی نینداُس وقت ٹوٹتی ہے،جب وقت گزرچکا ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر ایک بار پھر ملی قائدین داخلہ کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچ جانے کے بعد خواب غفلت سے بیدار ہونگے تو اس میں حیرانکردینے والی کوئی بات نہیں ہوگی۔
alamislahi@gmail.com