ہفتہ، 1 اکتوبر، 2016

بارے ترکی کے

محمد علم اللہ 
جناب ایم ودود ساجد صاحب آپ کی باتوں سے اتفاق کرنا انتہائی مشکل ہے ، اس لئے کہ آپ کی باتوں میں نہ تو کوئی دم ہے اور نا دلیل سب سے پہلے آپ نے بغاوت پر ہی سوالیہ نشان کھڑا کیا ہے تو بات وہیں سے شروع کرتے ہیں ، ہم نے بچپن سے سنا ہے ہیرا چور یا کھیرا چور ، چور ہی ہوتا ہے ،اب اگر دو ہزار آٹھ سو انتالیس افراد کا کسی غیر قانونی کام میں شریک ہونا اور اس کی وجہ سے دو سو سے زاید معصوم لوگوں کا ناحق قتل ہوجانے کو بھی یہ کہہ کر مسترد کر دیا جائے کہ یہ تعداد کم ہے اور چونکہ اس کے لیڈر اور قائد اس میں شامل نہیں اس لئے اسے بغاوت نہیں کہہ سکتے انتہائی بے وقوفی والی بات کہلائے گی ۔ حالانکہ اس لیڈر کے اس میں نہ شامل ہونے کے دلائل بھی آپ نے بہت پھسپھسے پیش کئے ۔ 
جہاں تک بات فتح اللہ گولین کا اس بغاوت میں ہاتھ نہ ہونے کی بات ہے اور آپ نے اس کی دلیل کے طور پر کہا ہے ہے کہ گولین انسانیت پسند اور امن پسند ہیں ، ان کی تقریروں سے انھیں دو چیزوں کا پیغام ملتا ہے ، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آپ نے ان کی تقریر سنی ہی نہیں ورنہ ایسی سیکڑوں تقریریں انٹر نیٹ کے ایک سرچ پر موجود ہیں جس میں دیگر موضوعات کے ساتھ گولین صاحب تختہ پلٹ کی ناکامی سے نا خوش ہیں، اور اپنے فکر و فلسفہ کی تو سیع کے لئے وہ اس بات کا اعادہ کرتے رہتے ہیں کہ اگر آپ کو کہیں قبضہ کرنا ہے تو پہلے اس کی بنیادوں کے اندر اپنے افراد کو داخل کرو ۔ یہ بات ان کے آفشیل ویب سائٹ میں بھی موجود ہے ۔ جمہوریت ان کے نزدیک ایک نا پسندیدہ عمل ہے اس کا اظہار انھوں نے کئی چینلوں سے بھی کیا ہے جس میں اے پی ٹی این شامل ہے ۔ اور گولین صاحب کی یہ فکر بھی واضح ہے کہ وہ ہمیشہ جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کو بے وقوف اور مرگ انبوہ جیسے القابات سے تعبیر کرتے رہے ہیں۔
آپ کی یہ بات بھی قابل گرفت ہے کہ طیب اردوان نے بزعم خویش خود کو امیر المومنین کہا ۔ کیا آپ اس کا کوئی ثبوت پیش کر سکتے ہیں ، عرصہ دراز سے ترکی کے روزنامہ زمان سمیت ٹی آر ٹی اور کٹر اسلام پسندوں کا اخبار روزنامہ صباح کا مطالعہ کرتا رہا ہوں لیکن یہ الزام کبھی انھوں نے بھی نہیں لگایا ، اگر اس سلسلہ میں آپ کوئی ثبوت فراہم کریں تو یقینا ہمارے علم میں اضافہ کا باعث ہوگا ۔
آپ نے اپنی تحریر میں اردوان کو گولین کا شاگرد قرار دیا ہے ،ساتھی اور چند چیزوں میں فکری ہم آ ہنگی کی بات تو سنا تھا لیکن شاگرد ؟ آپ کی اس تحقیق پر بھی مجھے تشویش ہے ۔
آپ نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ اردوان دو ہزار پانچ میں پی ایم بنے حالانکہ وہ دو ہزار تین میں وزیر اعظم بنے اور اس سے قبل دو ہزار دو میں ہی ان کی پارٹی کا وجود ہو چکا تھا ۔۔
آپ نے ایک جگہ لکھا ہے " ترکی میں ان (فتح اللہ گولن )کے چھوٹے سے چھوٹے اسکو ل کے معیار کا ہندوستان کی بڑی سے بڑی مسلم تنظیم کا کوئی بڑا تعلیمی ادارہ مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ یہ بھی فتح اللہ سے حد درجہ مر عویبیت کا شاخسانہ ہے ۔ یا پھر ہندوستانی تنظیموں اور اداروں کی جانب سے بڑے مسلم تعلیمی اداروں کی سرگرمیوں سے ناواقفیت کا نتیجہ ۔میں ملی مسائل سے آپ کی دلچسپی اور فکر پر مشتل جو تحریریں پڑھتا رہا ہوں اس کی بنیاد پر ہندی تنظیموں کے ذریعہ چلائے جانے والے اداروں سے ناواقفیت کی بات تو نہیں کہہ سکتا۔ غالبا آپ دھوکہ یا گولین سے حد درجہ محبت میں یہ بات کہہ گئے ۔
جہاں تک اسکولوں کے معیار کی بات ہے تو اس سلسلہ میں ابھی چند ہفتہ قبل حیدرآباد کے حیات نگر میں واقع فتح اللہ گولین کے اسکول کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا اس کے معیار اور انداز کو دیکھ کر جب ہمارے دوست نے تبصرہ شروع کیا تو بس میں نے اس سے یہی کہا دور کے ڈھول سہاون ۔ اگر آپ حقیقت دیکھنا چاہتے ہیں تو دہلی کے تیمور نگر میں واقع گولین تنظیم کے ذریعہ قائم کردہ شبلی ہاسٹل کو جاکے دیکھ آئیں آپ کو خود حقیقت کا اندازہ ہو جائے گا بلکہ گولن تحریک کے کاز پردازوں سے ملاقات اور بات کا بھی موقع ملے گا۔
اگر عرض حال میں مراتب کا خیال نہ رکھ پایا ہوں یا کچھ زیادہ سخت الفاظ کا استعمال کر گیا ہوں تو چھوٹا بھائی سمجھکر معاف کر دیجئے گا


..................

یہ ’اردوگانی‘ بغاوت ہے!
ایم ودودساجد
ترکی کی حالیہ ناکام بغاوت کو فوجی بغاوت کہنا اس لئے درست نہیں ہے کہ فوج کے اعلی حکام اور اس کا ایک بڑا حصہ اس میں شامل نہیں تھا۔ترکی میں پچھلی چار دہائیوں میں چار مرتبہ ہونے والی فوجی بغاوت کبھی ناکام نہیں ہوئی۔لیکن ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان کے پاس اس امر کا بھی کوئی پختہ حقیقی یا واقعاتی ثبوت نہیں ہے کہ اس بغاوت کے پیچھے ترکی کے خودساختہ جلاوطن مذہبی وسماجی رہنما فتح اللہ گلین کا ہاتھ ہے۔ہم محض یہ جان کر کہ فتح اللہ گلین ایک عرصہ سے امریکہ کے پینسلوانیا میں رہتے ہیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ ترکی میں ہونے والی اس بغاوت میں فتح اللہ گلین یا امریکہ کا ہاتھ تھا۔ کسی بھی نتیجہ پرپہنچنے کے لئے فتح اللہ گلین کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔
فتح اللہ گلین ایک مذہبی قائد ہیں ‘وہ1999سے امریکہ میں مقیم ہیں ‘ انہوں نے ’خدمت‘(ترکی نام ہزمت)نامی ایک عالمی فلاحی تنظیم بناکر پوری دنیا میں اس کا جال بچارکھا ہے۔یہ تنظیم امریکہ‘برطانیہ‘وسط ایشیا اور افریقہ ویوروپ ‘برصغیر ایشیا کے ممالک ہندوستان‘پاکستا ن اورسری لنکا جیسے 150ملکوں میں بڑے پیمانے پر تعلیمی خدمات انجام دے رہی ہے۔اس کے بہت سے اسکول‘کالج اور کوچنگ سینٹر ہیں۔خود ترکی میں بھی اس تنظیم نے اسکول‘کالج اور یونیورسٹیاں قائم کر رکھی ہیں۔صرف ترکی میں ہی اس کی 11یونیورسٹیاں ہیں۔استنبول کی مشہور فاتح یونیورسٹی اسی تنظیم کے تحت چلتی ہے۔ان کے پیروکاروں میں اتنے متمول لوگ ہیں کہ 11میں سے زیادہ تر یونیورسٹیاں ذاتی طورپرایک ایک شخص کی بنائی ہوئی ہیں۔اس کے علاوہ دنیا بھر میں مذاکرات بین المذاہب کے لئے بھی یہ تنظیم کام کرتی ہے۔یہ جماعت ترکی کے مصلح بدیع الزماں نورسی اور ہندوستان کے مجددالف ثانی شیخ احمد سرہندی کے اصلاحی کارناموں سے بھی متاثر ہے ۔اس تنظیم سے ترکی کے تقریباً ایک ہزار تاجر وصنعت کار وابستہ ہیں جو فتح اللہ گلین کو اپنا قائد ہی نہیں بلکہ اپنا پیرومرشد بھی مانتے ہیں۔یہی وہ تاجر ہیں جوپوری دنیا میں اس تنظیم کا صرفہ برداشت کرتے ہیں۔مگر آج نہ صرف یہ تاجر اردوگان کے عتاب کا شکار ہیں بلکہ ان کے تحت چلنے والے تمام تعلیمی وفلاحی ادارے بند کردئے گئے ہیں۔ ترکی میں ان کے چھوٹے سے چھوٹے اسکول کے معیار کا ہندوستان کی بڑی سے بڑی مسلم تنظیم کا کوئی بڑا تعلیمی ادارہ مقابلہ نہیں کرسکتا۔فتح اللہ گلین نے 35سے زائد مذہبی اور سماجی موضوعات پر کتابیں بھی لکھی ہیں۔ان کا دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔سیرت پر ان کی لکھی ہوئی انگریزی کتاب’’محمد‘‘بہت ہی عمدہ تصنیف ہے۔ان کی تصنیفات کے مطالعہ سے اس کی رمق بھی نہیں ملتی کہ فتح اللہ گلین کچھ سیاسی عزائم بھی رکھتے ہیں۔گلین کی ہزاروں تقریریں گوگل اور یوٹیوب پر موجود ہیں لیکن کسی ایک تقریرسے بھی یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو سب کے لئے تعلیم اور سب سے محبت کے علاوہ اور کوئی ترغیب دی ہو۔ گوکہ ان کی تنظیم ترکی کے میڈیااور مالیاتی سیکٹر پر حاوی ہے لیکن کبھی انہوں نے سیاست میں حصہ نہیں لیا۔وہ چاہتے توکوئی سیاسی پارٹی بنالیتے یامصر کی سابق اخوان کی طرح بغیر پارٹی بینرکے اپنے حمایت یافتہ لوگوں کو الیکشن میں اتاردیتے۔ان کے لئے الیکشن جیتنا اس لئے مشکل نہیں تھا کہ ترکی کا سب سے مقبول عام روزنامہ ’زمان‘ انہی کی ملکیت ہے۔اس کی کم سے کم پچاس لاکھ کاپیاں ہر روز شائع ہوتی تھیں۔ب تو اردوگان نے اس پر پابندی لگادی ہے اور اس سے وابستہ ہر بڑے صحافی کو گرفتار کرلیا ہے۔جو ہاتھ نہیں لگا اس کے بیوی بچوں کو پکڑکربٹھالیا ہے۔اسی طرح ایک خبر رساں ایجنسی ’’جہان‘‘ہے۔اس کے تحت کئی ٹی وی چینل بھی چلتے ہیں جو ترکی کے علاوہ بھی کئی ملکوں میں دیکھے جاتے ہیں۔ترکی کے چند بڑے بنکوں میں سے ایک ایشیابنک ہے جو اسلامی طرزپر چلتا ہے۔یہ بھی اسی تنظیم کی ملکیت ہے۔اتنا سب کچھ ہوتے ہوئے بھی جو جماعت برارہ راست سیاسی میدان میں نہ اترے کیا وہ ایسی حماقت کرسکتی ہے کہ کمال اتاترک کی اسلام مخالف ذریات پر مشتمل بددین فوج میں گھس پیٹھ کرکے جمہوری طورپر منتخب حکومت کے خلاف ایسی ناقص بغاوت کرادے جو خود اسی کے لئے عذاب بن جائے؟
خود فتح اللہ گلین نے اس بغاوت کے خلاف بیان جاری کرکے کہا کہ’ جمہوری طورپرمنتخب حکومت سے ہمارے کتنے ہی سخت اختلافات ہوں لیکن اسے غیر قانونی طورپرگرانے کی کوشش سراسر حرام ہے اور یہ کہ میں اس کوشش کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہوں‘۔فتح اللہ گلین کے تعلق سے میرا خیال ہے کہ اتنا بتانا کافی ہوگا۔اب آئیے ذر ا’امیرالمومنین‘ حضرت قبلہ رجب طیب اردوگان ‘صدر ترکی کے بارے میں کچھ ایسے حقائق کاذکر کیا جائے جنہیں عام طورپربرصغیر کے مسلمان نہیں جانتے۔زیر نظر مضمون دوسوسے زائد صفحات پر مشتمل مضامین‘رپورٹوں‘انٹرویوز‘بیانات اور خبروں کے مطالعہ کا نچوڑ ہے۔ممکن ہے کہ آج کے اس کالم میں تمام حقائق کا بیان نہ ہوسکے۔
رجب طیب اردوگان خود فتح اللہ گلین کے شاگرد اور ان کے افکار کے حامی رہے ہیں۔وہ خود کو اسلام پسند ظاہرکرکے ہی 2005میں اقتدار میں آئے تھے۔انہوں نے آنے کے بعد کچھ ایسے اقدامات کئے بھی تھے جن سے لگتا تھا کہ وہ اسلام پسند ہیں اور ترکی کی بددین فوج میں اصلاحات چاہتے ہیں۔لہذا جب وہ وزیر اعظم تھے توانہوں نے کئی درجن جنرلوں کو گرفتاربھی کرایا اور سزائیں بھی دلوائیں۔یہ صورت حال کمال اتاترک کی حامی فوج کے لئے قطعی حیرت انگیز تھی۔اسی دوران اردوگان نے ایک طرف تو مسلم دنیا کو یہ باور کرایا کہ وہ اسرائیل کے مخالف ہیں لیکن دوسری طرف یوروپ کا حصہ بننے کے لئے انہوں نے خود کوبعض معاملات میں معتدل اور سیکولربھی ثابت کیا۔تیسری بات جوبرصغیر میں بہت کم لوگوں کو معلوم ہے لیکن جسے ترکی کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ رجب طیب اردوگان نے ایک طرف تو اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کے لئے لوگوں (بڑے کاروباریوں)سے کہا کہ میں امیرالمومنین ہوں اور مجھے خمس یعنی آمدنی کا بیس فیصد ادا کرو۔اور دوسری طرف اپنے بیٹے اور دوسرے اعزاء کے ذریعہ بدعنوانی کو عروج پر پہنچادیا۔ابھی تک فتح اللہ گلین کے اخبارات اور چینل اردوگان کا ساتھ دے رہے تھے۔لہذا جب کچھ برس قبل(تاریخ معلوم نہیں)اردوگان اپنے جگری دوست اور شام کے بے گناہوں کے قاتل بشارالاسدکو ساتھ لے کر پینسلوانیا میں اپنے استاذ فتح اللہ گلین سے ملنے گئے اور ان سے کہا کہ مجھے حکمرانی کے تعلق سے کچھ نصیحت کیجئے تو فتح اللہ گلین نے جو کچھ کہا اس سے اردوگان سمجھ گئے کہ اب گلین ’’باغی‘‘ہوگئے۔گلین نے کہا کہ’’ہماری حمایت اصولوں کی بنیاد پر ہے۔عوام کی خدمت کیجئے اور بدعنوانی سے بچئے۔اگر آپ ان اصولوں سے منحرف ہوں گے تو ہم حمایت سے دست کش ہوجائیں گے۔‘‘
گلین کی تنظیم نے اردوگان کے صدارتی الیکشن میں ان کا ساتھ بھی دیااور وہ 50فیصد عوام کی حمایت سے صدر بن گئے۔لیکن اس کے بعد جب انہوں نے بدعنوانی کو مزید فروغ دیا تو گلین کے اخبارات نے ان کے کرپشن پرمبنی مضامین اور رپورٹیں شائع کرنی شروع کردیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پارلیمانی الیکشن میں اردوگان کی پارٹی کا فیصد گرگیا۔اردوگان آئین بدلنا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس ایوان میں مطلوب تعدادمیں ارکان نہیں ہیں۔اردوگان نے سمجھ لیا کہ جب تک گلین طاقتور ہیں اس وقت تک بلاشرکت غیرے امیرالمومنین بننے کا ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔
ایک نکتہ سمجھنے کا یہ ہے کہ اردوگان ترکی کے 11 سال تک (یعنی دومرتبہ) وزیر اعظم رہے۔اس دوران انہی کانام زبان زد عام وخاص رہا۔جب کہ اس وقت کے صدر عبداللہ گل بھی مرتبہ اور مقبولیت میں ان سے کچھ کم نہ تھے۔مگر اقتدار پر گرفت اردوگان کی ہی مضبوط رہی۔ترکی کے آئین کے مطابق کوئی ایک شخص تیسری مدت کے لئے وزیر اعظم نہیں بن سکتا لہذاانہوں نے فتح اللہ گلین سے حمایت طلب کرکے صدارتی الیکشن لڑا اور جیت گئے۔اب ترکی کا وزیر اعظم کون ہے شاید زیادہ لوگوں کو اس کا علم نہ ہو۔ایک بہت ہی نامانوس سا نام ‘بناری یلدرم۔لہذا جب وہ خود وزیر اعظم تھے تو ترکی کے صدر کو لوگ نہیں جانتے تھے آج جب وہ خود صدر ہیں تو ترکی کے وزیر اعظم کو کوئی نہیں جانتا۔کیا یہ اس امر کا اشاریہ نہیں ہے کہ اردوگان ہر حال میں اقتدار پر خود ہی حاوی وقابض رہنا چاہتے ہیں اور یہ کہ وہ طبعاً آمر مطلق ہیں؟ان کے اس مزاج کا ایک بڑا‘کھلا اور بدیہی ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے بغاوت کی ناکامی کے 24گھنٹے کے اندر اندرہزاروں ڈاکٹروں‘انجینئروں‘ٹیچروں‘وکیلوں‘پولس اور فوجیوں اور بڑے کاروباریوں کو گرفتار کرالیا۔آج تک کی تاریخ کی تفصیل یہ ہے: 72078افراد کو نوکری سے نکال دیاگیا۔18510کو پوچھ تاچھ کے لئے حراست میں لیا گیا۔9949کو گرفتار کرلیاگیا۔1058اسکول‘کالج اور یونیورسٹیوں کو بند کردیاگیا۔1229تنظیموں کو کالعدم قرار دیدیا گیا۔35ہسپتالوں کو بند کردیا گیا۔150اخبارات اور چینلوں کو بند کر دیا گیااور 59صحافیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔اس موضوع کے تعلق سے جیسا کہ مجھے اندیشہ تھا ابھی درجنوں نکات رہ گئے ہیں۔لیکن جواعدادوشمار آپ نے اوپر پڑھے ان کی روشنی میں ترکی کے امیرالمومنین کے ہندوستانی دوستوں سے ایک سوال ضرورکیجئے کہ فوج کی ایک ٹکڑی کی بغاوت کااسکولوں‘کالجوں‘یونیورسٹیوں‘فلاحی تنظیموں‘ہسپتالوں‘ٹیچروں اور ڈاکٹروں سے کیا تعلق ہے؟اتنی بڑی تعداد میں عوام اور خواص کوگرفتارکرکے اورفلاحی اداروں کو بند کرکے دہشت کون پھیلا رہا ہے؟پینسلوانیا میں بیٹھا ہوا استاذفتح اللہ گلین یا ترکی میں بیٹھاہواان کا شاگردرجب طیب اردوگان؟
(جاری)