مذہبی جنونیت اور فنون لطیفہ سے بیزاری
ہمارے ایک مخلص اور عزیز دوست نے میرے ایک کمنٹ پر جس میں ہند پاک کشیدہ حالات کے تناظر میں کچھ پاکستانی احباب کی جانب سے ہندوستانی فلموں پر پابندی اور بائکاٹ کا مطالبہ کیا گیا تھا پر گفتگو کی گئی تھی تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مجھے کوئی اور موضوع نہیں ملا اور یہ کہ کیا ادب میں اب محض فلموں اور موسیقی کی باتیں ہی رہ گئی ہیں ؟ ۔ ان کی خدمت میں عرض ہے بے شک ادب یا آرٹ میں محض فلمیں نہیں رہ گئی ہیں اور یہ اس کا ایک جز تو ہے جس سے انکار نا ممکن ہے مگر اسی جز سے بے نیازی نے جس مذہب پسندی کے تناظر میں انھوں نے یہ بات کہی ہے ان کا حال کیا حال ہے؟ شاید وہ یا اس طرح کی باتوں کی ترجمانی کرنے والے واقف نہیں ہیں۔ ہم نے کہیں یہ لکھا تھا جس چیز کو ہم ابلیسی نظام کے قیام کا آلہ تصور کرتے ہیں وہ بذات خود ابلیسی نظام کا حامل نہیں ہے بلکہ ہم نے اس کو ایسا مان لیا ہے ، اور اسی مان لینے نے ہمیں یعنی مسلمانوں کونقصان پہنچایا ہے ۔در اصل نام نہاد عبادت گاہوں سے وابستہ اسکالر یا مذہبی ٹھیکداروں نے آرٹ کو کوئی جگہ دی ہی نہیں ، خاص کر مبینہ اسلام کے نام لیواوں نے ۔ان کے نزدیک یہ چیزیں عین خلاف مذہب ہیں ۔حالانکہ یہ فن فنون لطیفہ کی سب سے زیادہ دور رس اثرات کی حامل صنف میں سے ایک ہے۔ شاعری، موسیقی، مصوری اور آرٹ کی دیگر اصناف کی پسنداور پذیرائی کو ایک خاص طبقے تک محدود قرار دے دیا گیا ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ویڈیو گرافی یا فلم کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ اس کی اسکرین پر ابھرتے مناظر اور مکالمے ان پڑھ مزدور، کسان اور دنیا کے ہر معاملے سے بے خبر گھریلو خواتین تک کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے ۔مگر ہماری یہ بدقسمتی رہی کہ اس قدر وسعت اور اہمیت رکھنے والا یہ میڈیم ہمارے یہاں شدید زبوں حالی کی زد میں رہا ۔ برصغیر میں فلمی صنعت کی داغ بیل جن لوگوں نے ڈالی ان میں مسلمان نمایاں اور اس عمل میں پیش پیش تھے۔ اداکاری ہو، موسیقی ہو یا ہدایت کاری، شاعری اور کہانی سمیت ہندوستان میں ابھرنے والی فلم نگری کے ہر شعبے میں مسلمانوں نے اپنی صلاحیت منوائی۔لیکن افسوس ہمارے مبینہ مذہبی طبقہ نے انھیں ارذل تصور کیا اور اس فن کو شراب اور سور کی طرح نجس جانا ۔اس کا جو نتیجہ نکلا اس سے ہم واقف ہی ہیں ۔ایسے میں اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ ہم آج شدت پسندی کی جس فضا میں رہ رہے ہیں اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے مزہب میں فنون لطیفہ کو پنپنے نہیں دیا گیا۔ آرٹ ذہنوں کی تطہیر کرتا اور شعور اجاگر کرتا ہے۔ یہ لوگوں میں برداشت پیدا کرتا ہے، لیکن ہمارے مذہبی ٹھیکیداروں اور کچھ دیگر طبقات نے آرٹ کے ہر شعبے کو کچل ڈالنے کی کوشش کی۔ خاص طور پر جو کہ عوام کے قریب ترین فن لطیفہ ہے،کے ساتھ بہت بُرا سلوک کیا گیا۔ان کے خلاف فتوے جاری کئے گئے ، اس بربادی کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں بے چینی، انتہاپسندی اور جہالت نے خوب فروغ پایا، جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔ میں ماجد مجیدی ، مصطفی عقّاد ، فرزاد ڈبلیو ، سید بدریہ اور نبیل ابو حرب جیسے افراد کو سلام کرتا ہوں جنھوں نے تمام تر مخالفتوں کے باوجود اسلامی اقدار پر مبنی فلمیں بنا کر چراغ سحری کا ہی سہی کرا دار نبھانے کی کوشش کی ہے ۔
محمد علم اللہ
محمد علم اللہ
0 تبصرہ جات:
ایک تبصرہ شائع کریں