ہفتہ، 1 اکتوبر، 2016

مولانا احتشام اصلاحی


محمد علم اللہ 
کے بعد ان کے اوپر کچھ لکھنے کا سوچا تو ایک واقعہ ذہن میں گھوم گیا ، اور اس کا پورا پس منظر کسی فلم کی طرح ذہن کے اسکرین پر چلنے لگا ۔ ہم غالبا عربی چہارم میں تھے مولانا ایوب اصلاحی صاحب قران پڑھا رہے تھے ، بغل والے کلا س میں مولانا احتشام صاحب عربی نحو و ادب پڑھا رہے تھے ۔ ایک اور سیکشن میں مولانا فیض احمد اصلاحی عربی انشاء پڑھا رہے تھے ۔ اچانک طلباء کی چیخ و پکار سنائی دیتی ہے ۔روئی کے گالوں کی دھنائی کے وقت جو آواز آتی ہے ، ہم سب کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں ، شٹاک شٹاک کی آواز تیز ہوتی جاتی ہے ،ہم سب طلباء سہم جاتے ہیں ۔ مولانا ایوب صاحب پوچھتے ہیں یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے؟ ۔ دیکھو کیا ہو رہا ہے؟ ۔ایک طالب علم خوف زدہ انداز میں بتاتا ہے ، مولانا فیض صاحب طلباء کی پٹائی کر رہے ہیں ۔مولانا ایوب صاحب قران پڑھانا چھوڑ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ، اور تیزی سے تقریبا دوڑتے ہوئے دوسری کلاس کی طرف بڑھتے ہیں ، مولانا کے ساتھ ہم سب یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ مولانا فیض اصلاحی صاحب کی چھڑی فضا میں معلق ہے ، ان کا چہرہ شر مندگی ، غصہ اور پسینے سے شرابور ہے ۔ ایک طالب علم کے ہاتھ کے اوپر مولانا احتشام الدین اصلاحی ہاتھ رکھے ہوئے ہیں اور کہہ رہے ہیں، مارنا ہی ہے تو مجھے مار لو! مگر اللہ کے واسطے ان بچوں کو چھوڑ دو ۔اس واقعہ کے بعد مولانا فیض احمد اصلاحی نے طلباء کو پٹائی کرنا چھوڑ دیا ۔چھڑیوں کی اس اندھا دھُند فائرنگ میں خود استاد محترم فیض احمد اصلاحی کے صاحبزا دے بھی شدید زخمی ہوئے تھے ۔یہاں پر یہ بتاتا چلوں کے مولانا کو اس قدر شدید غصہ کیوں آ گیا تھا اعراب میں طلباء نے غلطی کر دی تھی ۔
محمد علم اللہ